انسان شناسی
 

انسان کی الٰہی فطرت سے مراد
توحید کے فطری ہونے کے سلسلہ میں تین احتمال موجو د ہیں :
پہلا احتمال یہ ہے کہ اکتسابی اور مفہومی معرفت کی صورت میں خداوند عالم کے وجود کی تصدیق کرنا انسان کی فطرت ہے ۔ فطری ہونے سے مراد؛ فطرت عقل اور انسان کی قوت مدرکہ کا ایک دوسرے سے مربوط ہونا ہے ۔
دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے سلسلہ میں انسان کی شہودی اور حضوری علم کے بارے میں ہے اس احتمال کے مطابق تمام انسانوں کے اندر خداوند عالم کی طرف سے مستقیم اور حضوری معرفت کے مختلف درجات موجود ہیں ۔
تیسرا احتمال ؛ انسان کی الٰہی فطرت کو اس کی ذاتی خواہش اور درونی ارادہ فرض کرتا ہے اس احتمال کی روشنی میں انسان اپنی مخصوص روحی بناوٹ کی بنیاد پرخدا سے متمنی اور طلب گار ہے ۔
پہلے احتمال کی وضاحت میں مرحوم شہید مطہری فرماتے ہیں:
بعض خدا شناسی کے فطری ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقصد یہ ہے کہ اس سے مراد فطرت عقل ہے ، کہتے ہیں کہ انسان، فطری عقل کی روشنی میں مقدماتی استدلال کے حاصل کرنے کی ضرورت کے بغیر خداوند عالم کا وجود سمجھ لیتا ہے ،نظام عالم اور موجودات کی تربیت اور تادیب پر توجہ کرتے ہوئے خود بخود بغیر کسی استدلال کی ضرورت کے انسان کے اندر ایک مدبر اور غالب کے وجود کا یقین پیدا ہوجاتا ہے جیسا کہ تمام فطری امور کہ جس کو منطق کی اصلاح میں '' فطریات''کہا جاتا ہے ایسا ہی ہے۔(١)
حق یہ ہے کہ ''خدا موجود ہے ''کے قضیہ کو منطقی فطریات میں سے نہیں سمجھنا چاہیئے یعنی ''چار کاعدد،زوج ہے'' اس طرح کے قضایا بدیہی ہیں اور ان چیزوں کااستدلال ذہن میں ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ جس میںذہنی تلاش و جستجو کی ضرورت نہیں ہے ،حالانکہ فکر و نظر کی پوری تاریخ میں واضح طور پر خدا کے وجود پر حکماء ،فلاسفہ نیز دوسرے مفکرین کے دلائل و استدلال کے ہم شاید ہیں اور عقلی و نظری طریقہ سے یہ عظیم علمی تلاش، خداوند عالم کے عقیدہ کے بدیہی نہ ہونے کی علامت ہے، اسی بنا پر بعض دانشمندوں نے کہا ہے کہ خداوند عالم پر اعتقاد بدیہی نہیں ہے بلکہ بداہت سے قریب ہے ۔(٢)
دوسرا احتمال ؛ خداوند عالم کے بارے میں انسان کے علم حضوری کو بشر کی فطرت کا تقاضا سمجھنا چاہیئے۔ انسان کا دل اپنے خالق سے گہرا رابطہ رکھتا ہے اور جب انسان اپنے حقیقی وجود کی طرف متوجہ ہوگا تو اس رابطہ کو محسوس کرے گا ،اس علم حضوری اور شہود کی صلاحیت تمام انسانوں میں موجود ہے ۔لہٰذا اکثر لوگ خاص طور سے سادی زندگی کے ان لمحات میں جب وہ دنیاوی کاموں میں مصروف ہیں اس قلبی اور اندرونی رابطہ کی طرف متوجہ ہو سکتے ہیں ۔
سورہ نحل کی ٥٣ویں آیہ اور سورۂ عنکبوت کی ٦٥ ویں آیہ کی طرح بعض دوسری آیتوں میں اضطراری مواقع اور اس وقت جب لوگ تمام اسباب سے قطع امید ہو جاتے ہیں اس فطرت کی
..............
(١)مطہری ؛ مرتضی ، مجموعہ آثار ، ج٦ ص ٩٣٤۔
(٢)ملاحظہ ہو: مصباح یزدی ، محمد تقی ، آموزش فلسفہ ج٢ ص ٣٣٠ و ٣٣١۔
بیداری کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
(فَِذَا رَکِبُوا فِی الفُلکِ دَعَوُا اللّٰہَ مُخلِصِینَ لَہُ الدِّینَ فَلَمَّا نَجَّیٰھُم
لَیٰ البَرِّ ِذَا ھُم یُشرِکُونَ)(١)
پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو نہایت خلوص سے خدا کو پکارتے ہیں اور
جب ہم انہیں نجات دے کر خشکی میں پہونچا دیتے ہیں تو وہ مشرک ہوجاتے ہیں ۔
(وَ مَا بِکُم مِن نِّعمَةٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ ِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُ فَلِیہِ تَجئَرُونَ)(٢)
اور جتنی نعمتیں تمہارے ساتھ ہیں سب اس کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو تکلیف
پہونچتی ہے تو تم اسی کے آگے فریاد کرتے ہو ۔
اس احتمال کے مطابق خدا کی معرفت ، فطرت ، خداپرستی اور خدا سے رابطہ ،شہودی اور حضوری معرفت کی فرع ہے ،مشکل وقت میں معمولی لوگ بھی جب ان میں یہ شہودی رابطہ ایجاد ہوتا ہے تو خدا کی عبادت ،مناجات اور استغاثہ کرنے لگتے ہیں، اس لئے انسان کی الٰہی فطرت ، فطرت کی معرفت ہے، احساس و خواہش کا نام فطرت نہیں ہے ۔
تیسرا احتمال سورہ ٔ روم کی ٣٠ ویں آیہ کہ جس میں فطرت کو احساس و خواہش (فطرت دل) کہا گیا ہے ۔ اور معتقد ہے کہ خدا کی جستجو و تلاش اور خداپرستی انسان کی فطرت ہے اور خدا کی طرف توجہ تمام انسانوں میں پائی جاتی ہے چاہے اس کے وجود کی معرفت اور تصدیق خود فطری نہ ہو ۔
انسان کے اندر سوال کرنے کی خواہش کے عنوان سے ایک بہترین خواہش موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا جانتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس حقیقت کے ذریعہ خدا سے نزدیک ہو کر اس کی تسبیح و تحلیل کرے ۔
..............
(١)عنکبوت ٦٥۔
(٢)نحل ٥٣
اگرچہ دوسرے اور تیسرے دونوں احتمالات ظاہر آیہ سے مطابقت رکھتے ہیںاوران میں سے کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دنیا مشکل لگتا ہے لیکن ان روایات کی مدد سے جو اس آیہ کے ذیل میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سے بعض نقل بھی ہوئی ہیں دوسرا احتمال قطعاً مورد نظر ہے ،البتہ دونوں احتمالات کے درمیان اس طرح جمع اور دونوں کو ملا کر ایک دوسرے کا مُکمِل بنایا جاسکتا ہے کہ اگر فطری طور پر انسان کے اندر کسی موجود کی عبادت، خواہش اور عشق کاجذبہ پایاجائے تو یہ معقول نہیں ہے کہ عبادت مبہم و نامعلوم ہو لہٰذا قہری طور پر خدا کی معرفت و شناخت کا پایا جاناانسان کی فطرت میں ہونا چاہیئے تاکہ یہ تمایل اور خواہش مبہم اور نامعلوم نہ ہو، پس جب بھی فطری طور پر اپنے اندر عبادت اور خضوع و خشو ع کا ہم احساس کرتے ہیں تو یہ اسی کے لئے ہوگا جس کے بارے میں ہم اجمالی طور پر معرفت رکھتے ہوں، اور یہ معرفت حضوری اور شہودی ہے، دوسری طرف اگر انسان کے اندر خداوند متعال کے سلسلہ میں حضوری معرفت موجود ہو تو منعم کا شکریہ اور طلب کمال کیطرف ذاتی تمایل کی وجہ سے خداوند عالم کیجانب انسان کے اندر غیر قابل توصیف رغبت پیدا ہوجائے گی ۔

فطرت کا زوال ناپذیر ہونا
سورۂ روم کی ٣٠ ویں آیت کے آخر میں آیا ہے کہ (لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّہِ)اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یعنی ہم نے اس فطرت الٰہی کو انسان کے حوالہ کیا جو غیر قابل تغییر ہے یہ ممکن ہے کہ انسان فطرت الٰہی سے غافل ہو جائے لیکن فطرت الٰہی نابود نہیں ہوگی، انسان جس قدر اس فطرت الٰہی کو آمادہ کرنے کی کوشش کرے اور اپنی غیر حیوانی پہلوؤں کو قوت بخشے اتنا ہی بہتر انسان ہوگا انسان اپنی ابتدائی خلقت میں بالفعل حیوان ہے اور بالقوت انسان ہے ،اس لئے کہ حیوانیت اور خواہشات کی توانائی اس کے اندر سب سے پہلے رونما ہوتی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز میں جس قدر غیر حیوانی پہلوؤں کو تقویت دے گا اور اپنے وجود میں جس قدر فطرت الٰہی کو حاکم کرنے میں کامیاب ہوگا اتنا ہی زیادہ انسانیت سے بہرہ مند ہوگا ،بہر حال یہ بات قابل توجہ ہے کہ انسان میں فطری قابلیت اور اللہ کی طرف توجہ کا مادہ ہے چاہے پوشیدہ اور مخفی ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ فطری قابلیت ختم نہیں ہوتی ہے اور انسان کی سعادت اور بد بختی اسی فطری حقیقت کو جلا بخشنے یا مخفی کرنے میں ہے :
(قَد أَفلَحَ مَن زَکَّیٰھَا وَ قَد خَابَ مَن دَسَّیٰھَا)(١)
یقینا جس نے اپنے نفس کو پاک رکھاوہ تو کامیاب ہوا اور جس نے اس کو آلودہ کیا وہ نقصان اٹھانے والوں میں رہا۔

فطرت اورحقیقت
اس واقعیت سے انکار نہیںہے کہ لوگ ایک جیسی خصوصیات لے کر اس دنیا میں نہیں آئے ہیں یہ تبدیلیاں چاہے بدن کے سلسلہ میں ہو چاہے عقل و خرد کی توانائی میں ہو،ظاہر ہو جاتی ہیں، اسی طرح حیات انسان کا فطری ماحول اور اجتماعی شرائط اور بیرونی تاثرات کی وجہ سے جوابات اور عکس العمل بھی برابر نہیںہوتا مثال کے طور پر بعض لوگ ایمان کی طرف راغب اور حق کی دعوت کے مقابلہ میں اپنی طرف سے بہت زیادہ آمادگی اورخواہش ظاہر کرتے ہیں ،اور بعض حضرات پروردگار عالم کے حق اور بندگی سے یوں فرار کرتے ہیں کہ وحی الٰہی کو سننے ،آیات اور معجزات الٰہی کے مشاہدہ کرنے کے باوجود نہ فقط ایمان نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی اسلام دشمنی اور کفر دوستی میں شدت آجاتی ہے۔
(وَ نُنَزِّلُ مِنَ القُرآنِ مَا ھُوَ شَفَائ وَرَحمَة لِلمُؤمِنِینَ وَ لا یَزِیدُ
الظَّالِمِینَ لا خَسَاراً)(٢)
''اور ہم تو قرآن میں سے وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور
رحمت ہے اور ظالمین کے لئے سوائے گھاٹے کے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا ''۔
..............
(١)سورۂ شمس ٩ تا ١٠۔
(٢)اسراء ٨٢۔
اب یہ سوال درپیش ہے کہ یہ فرق و اختلاف کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ آیااس کا حقیقی سببانسان کی فطرت و طبیعت ہے اور ماحول و اجتماعی اسباب کا کوئی اہم رول نہیں ہے یا یہ کہ خودماحول اس سلسلہ میں انسان کی سرنوشت معین کرتا ہے ورنہ انسان کی مشترکہ فطرت کا کوئی خاص کردار نہیں ہے یا یہ اختلافات، فطری عناصر اور ماحول کی دین ہیں ۔ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیئے کہ : ہر فرد کی شخصیت میں اس کی فردی خصوصیت بھی شامل ہوتی ہے ، اورمتعدد فطری و اجتماعی اسباب کا بھی وہ معلول ہے ،وراثت ،فطری اختلافات ، اسباب تربیت ، اجتماعی ماحول اور دوسرے شرائط ، کامیابیاں اور ناکامیاں ، ملکی اور جغرافیائی حدود خصوصاً فردی تجربہ ، انتخاب اور قدرت اختیار میں سے ہر ایک کا انسان کی شخصیت سازی میں ایک خاص کردار ہے ۔ انسان کا اخلاق اور الٰہی فطرت کی حقیقت اور تمام انسانوں کے فطری اور ذاتی حالات بھی تمام مذکورہ عوامل کے ہمراہ مشترکہ عامل کے عنوان سے انسان کی کردار سازی میں موثر ہیں ،فردی اختلافات کا ہونا مشترکہ فطرت کے انکار اور بے اثر ہونے کے معنی میں نہیں ہے (قُل کُلّ یَعمَلُ عَلَیٰ شَاکِلَتِہِ) (١)
تم کہدو کہ ہر ایک اپنی شخصیت سازی کے اصول پر عمل پیرا ہے،آیہ شریفہ میں'' شاکلہ'' سے مراد ہر انسان کی شخصی حقیقت اور معنویت، فطرت الٰہی کے ہمراہ مذکورہ عوامل کے مجموعہ سے حاصل ہونا ہے ،قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فطری امور تمام افراد میں ایک ہی انداز میں رشد و تکامل نہیں پاتے اسی بنا پر تمام عوامل کے مقابلہ میں فطری سبب کے لئے ایک ثابت ،مساوی اور معین مقدار قرار نہیں دی جاسکتی ہے انسانو ں کا وہ گروہ جن میں اخلاق اور الٰہی فطرت پوری طرح سے بارآور ہوچکی ہے اور بہترین اخلاقی زندگی اورکامل بندگی سے سرفراز ہے اس کی حقیقت اور شخصیت کو ترتیب دینے میں اسباب فطرت کانمایاں کردار ہے اور جن لوگوں نے مختلف اسباب کی وجہ سے
..............
(١)سورۂ اسراء ٨٤۔
اپنے حیوانی پہلوؤں کو قدرت بخشی ہے ان افراد کا شعلۂ فطرت خاموش ہوچکا ہے اور اثر انداز ہونے میں بہت ہی ضعیف ہے ۔(١)
..............
(١)قرآن کی نظر میں مذکورہ اسباب کے کردار کی تاکید کے علاوہ نفسانی شہوتوں میں اسیر ہونا اور مادی دنیا کی زندگی اور شیطان کے پھندے میں مشغول رہنے کو انسان کے انحراف میں موثر اسباب کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے اور پیغمبروں ، فرشتوں اور خداوند عالم کی خصوصی امداد کو انسان کی راہ سعادت میں مدد کرنے والے تین اسباب و عوامل کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے ۔ ضمیمہ میں ان سب کے بارے میںمختصروضاحت انشاء اللہ آئے گی ۔
خلاصہ فصل
١.ہمارے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و کردار میں متعدد اور گونا گوں اختلاف کے باوجود جسم و روح کے اعتبار سے آپس میں بہت زیادہ مشترک پہلو پائے جاتے ہیں ۔
٢.انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو ، انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک ہے جس نے موجودہ چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے ۔
٣.انسانی فطرت ، مشترکہ فطرت کے عناصر کی طرف اشارہ کرتی ہے جو آغاز خلقت سے ہی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے جب کہ ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی فراہم اور نہ ہی اس کو نابود کرسکتے ہیں اور ان کی خلقت میں تعلیم و تربیت کا کوئی کردار نہیںہے ۔
٤.انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود پر منجملہ دلیلوں میں فہم و معرفت ہے نیز غیر حیوانی ارادے اور خواہشات کاانسانوں میں پایا جانااور ذاتی توانائی کا انسان سے مخصوص ہوناہے ۔
٥.انسان کے وجود میں خداوند عالم کی معرفت کے لئے بہترین خواہش ، سوالات کی خواہش کے عنوان سے موجود ہے جس کی بنیاد پر انسان اپنے آپ کو ایک حقیقت سے وابستہ اور ملا ہوا سمجھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس حقیقت سے نزدیک ہو کر تسبیح و تحلیل بجا لائے اور یہ حقیقت وہی فطرت الٰہی ہے ۔
٦.آیات و روایات بہت ہی واضح یا ضمنی طور پر معرفت ،انسانی خواہش اور توانائی سے مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت نیزعناصر اور ان کی خصوصیات پر دلالت کرتی ہیں ۔ لیکن جو چیز سب سے زیادہ مورد تائید اور تاکید قرار پائی ہے وہ فطرت الٰہی ہے ۔
٧.ہر انسان کی شخصیت سازی میں اس کا ماحول نیزرفتار و کردار ،موروثی اور جغرافیائی عوامل کے علاوہ فطرت کا بھی بنیادی کردار ہے ۔

تمرین
١.فطری اور طبیعی امور سے غیر فطری امور کی شناخت کے معیار کیا ہیں ؟
٢.انسان کی شخصیت سنوارنے والے عناصر کا نام ذکر کریں؟
٣.انسان کا ارادہ ، علم ، خواہش اور قدرت کس مقولہ سے مربوط ہے ؟
٤.سورۂ روم کی ٣٠ ویں آیت کا مضمون کیا ہے ؟ اس آیت میں (لا تَبدِیل لخَلقِ اللّہِ ) سے مراد کیا ہے ؟ وضاحت کریں ؟
٥.انسان کی مشترکہ فطرت کی معرفت میں علوم تجربی ، عقلی اور شہودی میں سے ہر ایک علم کا کردار اور اس کی خامیاں بیان کریں ؟
٦.فطرت الٰہی کے تغییر نہ ہونے کی بنیاد پر جو افراد خدا سے غافل ہیں یا خدا کے وجود کا انکار کرتے ہیں یا شک رکھتے ہیں ان افراد میں فطرت الٰہی کس انداز میں پائی جاتی ہے ؟
٧.فطرت الٰہی کو قوی اور ضعیف کرنے والے عوامل بیان کریں ؟
٨.حقیقی و غیر حقیقی اورجھوٹی ضرورتوں سے مراد کیا ہے ؟ ان میں سے ہر ایک کے لئے دو مثالیں ذکر کرتے ہوئے واضح کریں ؟
٩.مندرجہ ذیل موارد میں سے انسان کی فطری اور حقیقی ضرورتیں کون سی ہیں ؟
عدالت خواہی، حقیقت کی جستجو ،آرام پسندی ، عبادت کا جذبہ اور راز و نیاز ، خود پسندی ، دوسروں سے محبت ، محتاجوں پر رحم کرنا ، بلندی کی تمنا ، حیات ابدی کی خواہش ، آزادی کی لالچ ۔

مزید مطالعہ کے لئے :
١. علوم تجربی کے نظریہ کے مطابق شخصیت ساز عناصر کے لئے ملاحظہ ہو:
.ماہر نفسیات ، شخصیت کے بارے میں نظریات ،نفسیاتی ترقی ، اجتماعی نفسیات شناسی ، جامعہ شناسی کے اصول ،فلسفہ تعلیم و تربیت .

٢. اسلام کی روشنی میں انسان کی شخصیت ؛کے لئے ملاحظہ ہو :
. مصباح یزدی ، محمد تقی ( ١٣٦٨) جامعہ وتاریخ از دید گاہ قرآن ، تہران : سازمان تبلیغات اسلامی .
. نجاتی ، محمد عثمان ( ١٣٧٢) قرآن و روان شناسی ، ترجمہ عباس عرب ، مشہد ، بنیاد پژوہشھای آستان قدس رضوی ۔

٣. اسلامی نظریہ سے انسان کی فطرت ؛کے لئے ملاحظہ ہو:
. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ (١٣٧٢) در آمدی بہ تعلیم و تربیت اسلامی ، فلسفہ تعلیم و تربیت ، تہران : سمت .ص ٣٦٩.٥١٤.

٤. انسان کی فطرت میں دانشمندوں کے نظریات؛ کے لئے ملاحظہ ہو:
. اسٹیونسن ، لسلی ( ١٣٦٨) ہفت نظریہ دربارہ طبیعت انسان ، تہران ، رشد
. پاکارڈ ،ڈ وینس ( ١٣٧٠) آدم سازان ؛ ترجمہ حسن افشار ؛ تہران : بہبہانی ۔
. دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( ١٣٦٣) درآمدی بر جامعہ شناسی اسلامی : مبانی جامعہ شناسی ، قم : سمت۔ . شکر کن ، حسین ، و دیگران ( ١٣٧٢) مکاتب روان شناسی و نقد آن ، ج٢ ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ۔

٥. انسانی فطرت کے لئے ملاحظہ ہو :
. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ١٣٦٣) دہ مقالہ پیرامون مبدا و معاد . تہران : الزہراء ۔
.(١٣٦٣)فطرت و عقل و وحی ، یادنامۂ شہید قدوسی ، قم : شفق .
.(١٣٦٣)تفسیرموضوعی قرآن ، ج٥ ، تہران ، رجاء .
.شیروانی ، علی ( ١٣٧٦) سرشت انسان : پژوہشی در خداشناسی فطری ؛ قم : نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہ ھا ( معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی ).
.محمد تقی مصباح؛ معارف قرآن : خدا شناسی ، قم : جامعہ مدرسین .
.مطہری ، مرتضی ( ١٣٧٠)مجموعہ آثار . ج٣ ''کتاب فطرت''، تہران : صدرا ۔
.(١٣٧١)مجموعہ آثار . ج٥ ، ''مقالہ فطرت ''، تہران : صدرا ۔
.موسوی خمینی ، روح اللہ ( ١٣٦٨) چہل حدیث ، تہران : مرکز نشر فرہنگی رجاء

٦. کلمہ فطرت کے استعمالات اور معانی کے لئے ملاحظہ ہو :
.یثربی ، یحیٰ '' فطری بودن دین از دیدگاہ معرفت شناسی ''، مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، سال سوم ، ش نہم ، ص ١١٠. ١١٨.

٧. انسان کی فطری توانائی نیز معلومات و نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:
.جوادی آملی ، عبد اللہ ( ١٣٦٦) تفسیر موضوعی ، ج٥، نشر فرہنگی رجاء ، تہران ۔
.شیروانی ، علی ( ١٣٧٦) سرشت انسان پژوہشی در خدا شناسی فطری ؛ قم :نہاد نمایندگی مقام معظم رہبری در دانشگاہھا ، معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی .
.محمد تقی مصباح (١٣٧٧) اخلاق در قرآن ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
.( ١٣٧٧) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
.(١٣٧٦)معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
.مطہری ، مرتضی ( ١٣٦٩) مجموعۂ آثار ، ج٢ ، انسان در قرآن ، تہران : صدرا ۔