ماحول اور اجتماعی اسباب کا کردار
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر روز خلقت ہی سے تمام انسانوں کے اندرودیعت کر دیئے گئے ہیں جس کو ماحول اور اجتماعی عوامل نہ ہی مہیا کرسکتے ہیں اور نہ ہی نابود کرسکتے ہیں ۔ مذکورہ عوامل انسان کی فطرت میں قدرت و ضعف یا رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں مثال کے طور پر حقیقت کی طلب اورمقام ومنزلت کی خواہش فطری طور پر تمام انسانوں میں موجود ہے البتہ بعض افراد میں تعلیم و تعلم اور ماحول و اجتماعی اسباب کے زیر اثر پستی پائی جاسکتی ہے یا بعض افراد میں قوت و شدت پائی جاسکتی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ دونوں فطری خواہش کسی خاص اہداف کے تحت مورد استفادہ واقع ہوں جو تعلیم و تربیت اور فردی و اجتماعی ماحول کی وجہ سے وجود میں آئے ہوں۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ مشترکہ فطرت کے ذاتی اور حقیقی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے سبھی عناصر فعلیت اور تکامل سے برخوردار ہیں بلکہ انسانوں کی مشترکہ فطرت کو ایسی قابلیت اور توانائی پر مشتمل سمجھنا چاہیئے جو وقت کے ساتھ ساتھ اور بیرونی شرائط کے فراہم ہوتے ہی استعمال اور انجام پاتے ہیں، یہ نکتہ ایک دوسرے زاویہ سے بعض مشترکہ فطری عناصر پر ماحول اور اجتماعی توانائی کے اسباب کے تاثرات کو بیان و واضح کرتا ہے ۔
انسانی مشترکہ فطرت پر دلائل
یہ ہم بتا چکے ہیں کہ انسان کی مخصوص خلقت اور حیوانیت سے بالا ترگوشوں کو اس کی فہم ، خواہش اور توانائی؛ تین پہلوؤں میں تلاش کرنا چاہیئے اور یہ جستجو دینی متون اور عقل و تجربہ ہی کی مدد سے ممکن ہے پہلے تو ہم غیر دینی طریقوں اوربغیر آیات و روایات سے استفادہ کرتے ہوئے انسانوں کی مشترکہ فطرت کو مورد تحلیل و تحقیق قرار دیں گے اور آخر میں دینی نظریہ سے یعنی دین کی نگاہ میں انسانوں کی مشترکہ فطرت (الٰہی فطرت)کے مرکزی عنصر کو آیات و روایات کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کریں گے ۔
انسانوں کی مشترکہ فطرت کے وجود پر پہلی دلیل یہ ہے کہ انسان ایک مخصوص فہم و معرفت کا مالک ہے ،انسان اس فہم و ادراک کی مدد سے قیاس اور نتیجہ اخذ کرتاہے اور اپنی گذشتہ معلومات کے ذریعہ نئی معلومات تک پہونچتاہے ۔ انسان کا نتیجہ حاصل کرنا، عقلی ادراک اور قواعد و اصول پر استوار ہے ،مثال کے طورپر ''نقیضین کا جمع ہونا محال ہے ، نقیضین کارفع بھی محال ہے ،سلب الشیٔ عن نفسہ ممکن نہیںہے، کسی شیٔ کا اپنے آپ پر مقدم ہونا محال ہے '' یہ ایسے قضایا ہیں جن کو اصول و قواعد کا نمونہ سمجھا جاناچاہیئے،یہ قضایا فوراً فہم و حواس کے ادراک میںنہیں آتے ہیں بلکہ بشر کی اس طرح خلقت ہوئی ہے کہ اس کے ذہن کے آمادہ ہونے کے بعد یعنی جب اس کے حواس فعال ہوں اور اس کے لئے تصورات کے اسباب فراہم ہوں تو دھیرے دھیرے اس کی ذہنی قابلیت رونما ہوگی اور اس طرح سے بدیہی قضایا حاصل ہوں گے ۔ ان بدیہی قضایا کی مدد سے انسان کا ذہن اپنی تصدیقات اور مقدمات کو مختلف شکل و صورت میں مرتب کرتا ہے اور اقسام قیاس کو ترتیب دیتے ہوئے اپنی معلومات حاصل کرلیتا ہے ،ایسی بدیہی معلومات کو ''ادراکات فطری ''کہتے ہیں ،اس معنی میں کہ انسان فطری اور ذاتی طور پر اس طرح خلق ہوا ہے کہ حواس کے بے کار ہونے کے بعد بھی خود بخود ان ادراک کو حاصل کرلیتا ہے، اس طرح نہیں جیسا کہ مغرب میں عقل کو اصل ماننے والے ''ڈکارٹ''اور اس کے ماننے والوں کا نظریہ ہے کہ ادراکات بغیر کسی حواس ظاہری اور باطنی فعالیت کے انسان کی طبیعی فطرت میں ہمیشہ موجود ہیں ۔
انسان کے اخلاق و کردار کی معرفت بھی مشترکہ فطرت کی اثبات کے لئے موافق ماحول فراہم کرتی ہے ،فردی تجربہ و شواہد اور بعض مشترکہ اخلاقی عقائد کا گذشتہ افراد کے اعمال میں تاریخی جستجو،مثال کے طور پر عدالت اوروفاداری کا اچھا ہونا، ظلم اور امانت میں خیانت کا برا ہوناوغیرہ کوبعض مفکرین مثال کے طور پر'' ایمانول کانٹ '' فقط عقل عملی کے احکام کی حیثیت سے مانتے ہیں اور کبھی اس کو'' حِسِّ اخلاقی '' یا ''وجدان اخلاقی ''سے تعبیر کرتے ہیں اس نظریہ کے مطابق تمام انسان ایک مخصوص اخلاقی استعداد کی صلاحیت رکھتے ہیں جو نکھرنے کے بعد بدیہی اور قطعی احکام بن جاتے ہیں ۔
البتہ ان اخلاقی احکام کا صرف'' عقل عملی ''نامی جدید قوت ، نیز'' وجدان یا حس اخلاقی'' سے منسوب ہونا ضروری نہیں ہے ۔بلکہ یہ اسی عقل کا کام ہوسکتا ہے جو نظری امور کو حاصل کرتی ہے بہر حال جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان ذاتی اور نظری طور سے ان اہم قضایا اور احکام کا مالک ہے ۔
مشترکہ فطرت کے وجود کی دوسری دلیل ، انسانوں کے درمیان حیوانیت سے بالا تمنا اور آرزوؤں کا وجود ہے ۔ علم طلبی اور حقیقت کی تلاش ، فضیلت کی خواہش ، بلندی کی تمنا ، خوبصورتی کی آرزو ، ہمیشہ باقی رہنے کی خواہش اور عبادت کا جذبہ یہ ساری چیزیں حقیقی اور فطری خواہشات کے نمونے ہیں اوران کے حقیقی اور فطری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہر انسان کی روح ان خواہشات کے ہمراہ ہے اور یہ ہمراہی بیرونی اسباب اور تربیت ، معاشرہ اور ماحول کے تصادم سے وجود میں نہیں آئی ہے بلکہ یہ انسانی روح کی خاصیت ہے اور ہر انسان فطری طور پر (خواہ بہت زیادہ ضعیف اور پوشیدہ طور پر ہو)ان خواہشات سے بہرہ مند ہے ۔
اور جیسا کہ بیان ہوا ہے کہ ان کے استعمال اور ان کی نشو و نمامیں بیرونی عوامل ، اسباب و علل بھی ان خواہشات کی کمی اور زیادتی میں دخیل ہیں لیکن ان کی تخلیق اور حقیقی خلقت میں موثر نہیں ہیں مثال کے طور پر انسان کی فطری خواہش کاجاننا ، آگاہ ہونا اور دنیا کے حقائق کو معلوم کرنا صغر سنی ہی کے زمانے سے عیاں ہوتی ہے اور یہ چیزانسان سے آخری لمحات تک سلب نہیں ہوتی ہے، ذہن انسانی کی مختلف قوتیں اور طاقتیں اس فطری خواہش کی تسکین کے لئے ایک مفید وسیلہ ہیں ۔
فطری خواہشات کا ایک اور نمونہ خوبصورتی کی خواہش ہے جو انسان کی فطرت و ذات سے تعلق رکھتی ہے پوری تاریخ بشر میں انسان کی تمام نقاشی کی تخلیقات اسی خوبصورت شناسی کے حس کی وجہ سے ہے البتہ خوبصورت چیزوں کی تشخیص یا خوبصورتی کی تعریف میں نظریاتی اختلاف ہونا اس کی طرف تمایل کی حقیقت سے منافات نہیں رکھتاہے ۔
مشترکہ فطرت کی تیسری جستجو خودانسان کی ذاتی توانائی ہے، معتبر علامتوں کے ذریعہ سمجھنا اور سمجھانا ، زبان سیکھنے کی توانائی، عروج و بلندی کے عالی مدارج تک رسائی اور تہذیب نفس وغیرہ جیسی چیزیں انسان کی منجملہ قوتیں ہیں جو مشترکہ فطری عناصر میں شمار ہوتی ہیں اور روز تولد ہی سے انسان کے ہمراہ ہیں ،اور دوسرے عوامل فقط قوت و ضعف میں ان کی ترقی و رشد کا کردار ادا کرتے ہیں ،یہ قوتیں بھی انسان کی مشترکہ فطرت کے وجود کی دلیل ہیں ۔(١) معارف اور خواہشات کے پائے جانے کے سلسلہ میںانسان کی آئندہ مشترکہ توانائی کے وجود کی آیات و روایات میں بھی تائید و تاکید ہوئی ہے مثال کے طور پر آیہ فطرت جس کے بارے میں آئندہ بحث کریں گے اور وہ آیات جو انسانوں کی مشترکہ فطری شناخت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اور آیہ شریفہ (وَ نَفسٍ وَ مَا سَوّیٰھَا فَألھَمَھَا فُجُورَھَا وَ تَقوَیٰھَا)(٢)(قسم ہے نفس انسانی کی اور اس ذات کی کہ جس نے اسے درست کیا پھر اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کوالہام کے ذریعہ اس تک پہونچایا )مشترکہ اخلاقی اور اعتباری فطرت کی تائید کرتی ہے اور بہت سی آیات انسان کو انسانیت کے بلند ترین مرتبہ تک پہونچنے میںتلاش اور ختم نہ ہونے والے
کمال کے حصول کی دعوت دیتی ہیں اور ضمنی طور پر اس راہ میں گامزن ہونے کے لئے انسان کی ذاتی قدرت کو مورد توجہ قرار دیتی ہیں ۔
..............
(١)گذشتہ فصل میں ہم انسان شناسی کی ضرورت و اہمیت کے عنوان سے انسانی علوم میں انسانوں کی مشترکہ عقیدہ کو بیان کرچکے ہیں ،لہٰذا یہاں انسان کی مشترکہ فطرت کے آثارو عقائد پر بحث کرنے سے صرف نظر کرتے ہوئے اس نکتہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں کہ انسانی اور بین الاقوامی اقتصادی ،حقوقی ، تربیتی اور اخلاقی ہر قسم کا نظام، انسان کی مشترکہ فطرت کی قبولیت سے وابستہ ہے اور انسانی مشترکہ فطرت کے انکار کی صورت میں یہ نظام بے اہمیت ہو جائیں گے ۔
(٢)سورۂ شمس ٧و ٨۔
فطرت (١)
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ آیات و روایات میں وہ مطالب بھی مذکور ہیں جو وضاحت کے ساتھ یا ضمنی طور پر انسان کی مخصوص حقیقت ، مشترکہ فطرت اور معرفت کی راہ میں اس کے خصوصی عناصرنیز خواہشات اور قدرت کے وجود پر دلالت کرتے ہیں لیکن وہ چیز جس کی آیات و روایات میں بہت زیادہ تاکید و تائید ہوئی ہے وہ فطرت الٰہی ہے اور اس حقیقت پر بہت ہی واضح دلالت کرنے والی، سورۂ روم کی تیسویں آیہ ہے ۔
(فأَقِم وَجھَکَ لِلدِّینِ حَنِیفاً فِطرَتَ اللّٰہِ الّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا
لا تَبدِیلَ لِخَلقِ اللّٰہِ)
تو تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو، یہی خدا کی فطرت ہے
جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی فطرت میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے ۔
یہ آیہ انسان میں فطرت الٰہی کے وجود پر دلالت کرتی ہے یعنی انسان ایک ایسی فطرت ، سرشت اور طبیعت کے ہمراہ خلق ہوا ہے کہ جس میں دین قبول کرنے کی صلاحیت ہے لہٰذاانبیاء علیھم السلام خداوند عالم کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف انسانوں کو دعوت دینے کے سلسلہ میں کسی بے توجہ مخلوق سے مخاطب نہیں تھے بلکہ انسان کی فطرت اور ذات میں توحید کی طرف میلان اور کشش پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان ذاتی طور پر خدا سے آشنا ہے ،اس آیت کے علاوہ بعض روایات میں بھی انسان کے اندر الٰہی فطرت کے وجودکی وضاحت ہوئی ہے ۔
..............
(١)کلمہ فطرت ؛لغت میں کسی شیٔ کے خلقت کی کیفیت کے معنی میں آیا ہے اور اصطلاح کے اعتبار سے مفکرین کے درمیان متعدد استعمالات ہیں جن کو ضمیمہ میں اشارہ کیا جائے گا ۔
امام محمد باقر نے پیغمبر ۖ سے منقول روایت کی وضاحت میں فرمایا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ''کُل مَولودٍ یُولدُ عَلیٰ الفِطرَة ''(١)''ہر بچہ توحیدی فطرت پر متولد ہوتا ہے '' پھر آپ نے فرمایا: ''یعنِی المَعرفَة بِأنّ اللّٰہ عَزّو جلّ خَالقُہ''مراد پیغمبر یہ ہے کہ ہر بچہ اس معرفت و آگاہی کے ساتھ متولد ہوتا ہے کہ اللہ اس کا خالق ہے ۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ: ''کَلمةُ الخلاص ھِی الفِطرَة''(٢) خداوند عالم کو سمجھنا انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔
بعض مشترکہ فطری عناصر کا پوشیدہ ہونا
معرفت شناسی سے مرتبط مباحث میں اسلامی حکماء نے ثابت کیا ہے کہ انسان کی فکری معرفت اس کی ذات کے اندر ہی پوشیدہ اور قابلیت کے طور پر موجود ہے اور مرور ایام سے وہ ظاہر ہوتی ہے ۔ دینی متون کے اعتبار سے بھی انسان ،اپنی پیدائش کے وقت ہر قسم کے ادراک اور علم سے عاری ہوتا ہے ۔
(وَ اللّٰہُ أَخرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّھَاتِکُم لا تَعلَمُونَ شَیئاً وَ جَعَلَ لَکُم
السَّمعَ وَ الأبصَارَ وَ الأفئِدَةَ لَعَلَّکُم تَشکُرُونَ)(٣)
اور خدا ہی نے تم کو مائوں کے پیٹ سے نکالاجب کہ تم بالکل نا سمجھ تھے اور تم کو
سماعت ، بصارت اوردل عطا کئے تاکہ تم شکر کرو۔
ممکن ہے یہ توہّم ہو کہ اس آیت کا مفہوم انسان کے متولد ہونے کے وقت ہر طرح کی معرفت سے عاری ہونا ہے، لہٰذا یہ خداوند عالم کی حضوری و فطری معرفت کے وجود سے سازگار نہیں
..............
(١)کلینی ، محمد بن یعقوب ؛ اصول کافی ؛ ج٢ ص ١٣۔
(٢)نہج البلاغہ ، خطبہ ١١٠
(٣)سورہ نحل ٧٨۔
ہے، لیکن جیسا کہ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ مذکورہ آیہ انسان کی خلقت کے وقت تمام اکتسابی علوم کی نفی کرتی ہے لیکن یہ امکان ہے کہ انسان سے علم حضوری کے وجود کی نفی نہ کرتی ہو ،اس مطلب کی دلیل یہ ہے کہ کان اور قلب کو انسان کی جہالت بر طرف کرنے والے اسباب کے عنوان سے نام لیاہے اس لئے کہ اکتسابی علم میں ان اسباب کی ضرورت ہے ،گویا آیہ خلقت کے وقت آنکھ ،کان اور دوسرے حواس سے حاصل علوم کی نفی کرتی ہے لیکن انسان سے حضوری علوم کی نفی نہیں کرتی ہے۔
تقریباً یہ بات اتفاقی ہے کہ انسان کے اندر موجودہ فطری اور طبیعی امور چاہے وہ انسان کے حیوانی پہلو سے مرتبط ہوں جیسے خواہشات اور وہ چیزیں جو اس کی حیوانیت سے بالا تر اور انسانی پہلو سے مخصوص ہیں خلقت کے وقت ظاہر اور عیاں نہیں ہوتے ہیں ،بلکہ کچھ پوشیدہ اور مخفی صلاحیتیںہیں جو مرور ایام سے دھیرے دھیرے نمایاں ہوتی رہتی ہیں جیسے جنسی خواہش اور ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا ، لہٰذا وہ چیز جس کی واضح طور پرتائید کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ فطری امور انسان کی خلقت کے وقت موجود رہتے ہیں ،لیکن خلقت کے وقت ہی سے کسی بھی مرحلہ میں ان کے فعال ہونیکے دعوے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔(١)
..............
(١)وہ چیزیں جوفطری امور کے عنوان سے مورد تحقیق واقع ہوچکی ہیں وہ انسان کی فطری و ذاتی خصوصیات تھیں ۔ لیکن یہ جاننا چاہیئے کہ فطری وصف کبھی انسانی خصوصیات کے علاوہ بعض دوسرے امور پر صادق آتا ہے ، مثال کے طور پر کبھی خود دین اور شریعت اسلام کے فطری ہونے کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے اور اس سے مراد انسان کے وجودی کردار اور حقیقی کمال کی روشنی میں ان مفاہیم کی مناسبت و مطابقت ہے ،انسان کی فطری قابلیت و استعداد سے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم شریعت کا اس کے حقیقی کمال سے مربوط ہونا نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی مختلف فطری اور طبیعی قوتوں کی آمادگی ، ترقی اور رشد کے لئے ایک نسخہ ہے '' شریعت ، فطری ہے '' اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اور اس کے واقعی اور فطری ضرورتوں میں ایک طرح کی مناسبت و ہماہنگی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ فطرت انسان میں دینی معارف و احکام بالفعل یا بالقوة پوشیدہ ہیں ۔
انسان کی فطرت کا اچھا یا برا ہونا
گذشتہ مباحث سے یہ نکتہ واضح ہوجاتاہے کہ ''سارٹر''جیسے وجود پرست ''واٹسن ''(١)جیسے کردار و فعالیت کے حامی ''ڈورکھیم ''جیسے'' معاشرہ پرست ''اور''جان لاک''(٢)کی طرح بعض تجربی فلاسفہ کے اعتبار سے انسان کو بالکل معمولی نہیں سمجھنا چاہیئے کہ جو صرف غیر ذاتی عناصر و اسباب سے تشکیل ہواہے بلکہ انسان فکری اعتبار سے اور فطری عناصر میں طاقت و توانائی کے لحاظ سے حیوان سے فراتر مخلوق ہے ۔ چاہے بعض عناصر بالفعل یا بالقوت ہوں یا ان کے بالفعل ہونے میں بیرونی اسباب اورعوامل کے کار فرماہونے کی ضرورت ہو ۔ جو لوگ انسان کو معمولی سمجھتے ہیں انہوں نے اصل مسئلہ کو ختم کردیا اور خود کو اس کے حل سے محفوظ کرلیا ،بہر حال تجربی اور عقلی دلائل ، تعلیمات وحی اور ضمیر کی معلومات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انسان بعض مشترکہ فطری عناصر سے استوارہے ۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا انسانوں کی مشترکہ فطرت و طبیعت فقط نیک اور خیر خواہ ہے یا فقط پست و ذلیل ہے یا خیر و نیکی اور پستی و ذلت دونوں عناصر پائے جاتے ہیں ؟
''فرایڈ ''کے ماننے والوں کی طرح بعض مفکرین ''تھامس ہابز ''(٣)کی طرح بعض تجربی فلاسفہ اور فطرت پرست ، لذت پسند سود خور افراد انسان کی فطرت کو پست اور ذلیل سمجھتے ہیں ''اریک فروم'' جیسے فرایڈ کے جدید ماننے والے ''کارل روجرز''(٤)اور'' ابراہیم مزلو''(٥)کی طرح انسان پرست اور ''ژان ژاک روسو''(٦)کی طرح رومینٹک افراد ، انسان کی فطرت کو نیک اور خیر خواہ اور اس کی برائیوں کو نادرست ارادوں کا حصہ یا انسان پر اجتماعی ماحول کا رد عمل تصور کرتے ہیں ۔(٧)
..............
(1)Watson .
(2) John Loke .
(3)Thomas Hobbes.
(4)Kart Rogers .
(5)Abraham Maslow .
(6)Jean Jacques Rousseau.
(٧)اسی فصل کے ضمیمہ میں ان نظریات کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظریوں میں افراط و تفریط سے کام لیا گیاہے ۔ انسان کی فطرت کو سراسر پست و ذلیل سمجھنا اور ''ہابز ''کے بقول انسان کو انسان کے لئے بھیڑیا سمجھنا نیزاکثر انسانوں کی بلند پروازی کی تمنا اور عدالت پسندی کی طرح اعلی معارف کی آرزو ، کمال طلبی اور الٰہی فطرت سے سازگار نہیں ہے، اور انسان کی تمام برائیوں کو افراد کے غلط ارادوں اور اجتماعی ماحول کی طرف نسبت دینا اور گذشتہ اسباب یا ہر علت کے کردار کا انکار کرنا بھی ایک اعتبار سے تفریط و کوتاہی ہے، یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ وجود شناسی کے گوشوںاور مسئلہ شناخت کی اہمیت کے درمیان تداخل نہیں ہونا چاہیئے، وجود شناسی کی نگاہ سے انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کا مجموعہ چونکہ امکانات سے مالا مال اور بھر پور ہے لہٰذا کمالشمار ہوتا ہے اور منفی تصور نہیں کیا جاتا ،لیکن اہمیت شناسی کے اعتبار سے یہ مسئلہ مہم ہے کہ ان امکانات سے کس چیز میں استفادہ ہوتا ہے؟بدبین فلاسفہ اور مفکرین منفی پہلو کے مشاہدہ کی وجہ سے ان توانائی ، تفکر اور خواہشات کو ناپسندیدہ موارد میں استعمال کرکے انسان کو ایک پست اور بری مخلوق سمجھتے ہیں اور خوش بین فلاسفہ اور مفکرین اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے انسان کی فلاح و بہبود کی راہ میں مشترکہ فطری عناصر کے پہلوؤں سے بہرہ مند ہو کر دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جب کہ یہ شواہد انسان کی فطرت کے اچھے یا برے ہونے پر حتمی طور پر دلیل نہیں ہیں بلکہ ہر دلیل دوسرے کی نفی کرتی ہے ۔
قرآن مجید انسان کی فطرت کوایک طرف تفکر ، خواہش اور توانائی کا مجموعہ بتا تا ہے، جس میں سے اکثر کے لئے کوئی خاص ہدف نہیں ہے اگرچہ ان میں سے بعض مثال کے طور پر خداوندعالم کی تلاش ، معرفت اور عبادت کے فطری ہونے کی طرف متوجہ ہیں ۔اور دوسری طرف خلقت سے پہلے اور بعد کیحالات نیزاجتماعی و فطری ماحول سے چشم پوشی نہیں کرتا ہے بلکہ منجملہ ان کی تاثیر کے بارے میں آگاہ کرتا ہے اور آگاہ انسان کے ہر ارادہ و انتخاب میں ،اثر انداز عنصر کو تسلیم کرتا ہے ۔
اس لئے انسان کی مشترکہ فطرت کو ایسے عناصر کا مجموعہ تشکیل دیتے ہیں جن میں سے بعض فلاح و خیر کی طرف متوجہ ہیں ،لیکن غلط تاثیر یا مشترکہ طبیعت سے انسان کی غفلت اور انسان کے افعال میں تمام موثر عوامل کی وجہ سے یہ حصہ بھی اپنے ضروری ثمرات کھو دیتا ہے اور پیغمبران الٰہی کا بھیجا جانا ، آسمانی کتابوں کا نزول ،خداوند عالم کے قوانین کا لازم الاجراء ہونا اور دینی حکومت کی برقراری ، یہ تمام چیزیں،انسان کو فعال رکھنے اور مشترکہ فطری عناصر کے مجموعہ سے آراستہ پروگرام سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں ہے، چاہے ہدف رکھتی ہوںیا نہ رکھتی ہوں، یا دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوں۔ اور انسان کی برائی غلط اثر اور غفلت کا نتیجہ ہے اور انسان کی اچھائی اور نیکی، دینی اور اخلاقی تعلیمات کی روشنی میں دیدہ و دانستہ کردار کا نتیجہ ہے ،آئندہ مباحث میں ہم اس آخری نکتہ کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں گے ۔
سورۂ روم کی تیسویں آیت کے مفہوم کے سلسلہ میں زرارہ کے سوال کے جواب میں امام جعفر صادق نے فرمایا : ''فَطرھُم جَمِیعاً عَلیٰ التَّوحیدِ ''(١)خداوند عالم نے سب کو فطرت توحید پر پیدا کیا ہے ۔
توحیدی اور الٰہی فطرت کی وجہ سے انسان یہ گمان نہ کرے کہ فطری امور اس کے توحیدی اور الٰہی پہلو میں منحصر ہیں جیسا کہ انسان کی فطرت کے بارے میں گذشتہ مباحث میں اشارہ ہوچکا ہے کہ بہت سی فطری اور حقیقی معارف کوخواہشات کے سپرد کردیا گیا ہے جو تمام مخلوقات سے انسان کے وجود کی کیفیت کو جدا اورمشخص کرتی ہے ۔ انسان کے تمام فطری امور کے درمیان اور اس کے الٰہی فطرت کے بارے میں مزید بحث ،اس عنصر کی خاص اہمیت اور الٰہی فطرت کے بارے میں مختلف سوالات کی وجہ سے ہے ۔ ان دونوں چیزوں کی وجہ سے یہ فطری شیٔ مزید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔
انسانوں کے اندر الٰہی فطرت کے پائے جانے کا دعویٰ مختلف بحثوں کو جنم دیتا ہے ۔ پہلا
سوال یہ ہے کہ انسان کے اندر الٰہی فطرت کے ہونے سے کیا مراد ہے ؟ کیا فطرت ِمعرفت مراد ہے یا فطرت ِانتخاب ؟ اگر فطرتِ معرفت مراد ہے تو خداوند عالم کے بارے میںا کتسابی معرفت فطری ہے یا اس کی حضوری معرفت ؟ دوسرا سوال ،فطرت الٰہی کے فعال (بالفعل )اور غیر فعال (بالقوة)ہونے کے بارے میں ہے کہ کیا یہ انتخاب یا فطری معرفت تمام انسانوں کے اندر خلقت کے وقت سے بالفعل موجود ہے یا بالقوة ؟ اور آخری سوال یہ ہے کہ کیا یہ فطری شیٔ زوال پذیر ہے اور اگر زوال پذیر ہے تو کیا انسان اس کے زائل ہونے کے بعد بھی باقی رہے گا ؟ آخری دو سوال، انسان کی الٰہی فطرت سے مربوط نہیں ہیںبلکہ انہیںہر فطری شیٔ کے بارے میں بیان کیا جاسکتا ہے ؟
..............
(١)کلینی ؛ گذشتہ حوالہ ج٢ ،ص ١٢۔
|