پانچویں فصل :
انسان کی فطرت
اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات:
١. انسانی مشترکہ طبیعت سے مراد کیا ہے وضاحت کریں ؟
٢. دینی اعتبار سے انسان کے مشترکہ عناصر کا بنیادی نقطہ بیان کریں ؟
٣. انسانی مشترکہ طبیعت کے وجود پر دلیلیں پیشکریں ؟
٤.انسانی تین مشترکہ طبیعت کی خصوصیات کے نام بتائیں اور ہر ایک کے بارے میں مختصر
وضاحت پیش کریں ؟
٥. ان آیات و روایات کے مضامین جو انسان کی مشترکہ طبیعت کے وجود کی بہت ہی واضح
طور پرتائید کرتی ہیں بیان کیجیئے ؟
٦. توحید کے فطری ہونے کے باب میں مذکورہ تین احتمال بیان کریں ؟
٧. سورۂ روم کی آیت نمبر ٣٠ کو ذکر کریں اور اس آیت کی روشنی میں فطرت کے زوال نا پذیر
ہونے کی وضاحت کریں ؟
اپنے اور دوسروں کے بارے میں تھوڑی سی توجہ کرنے سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے اور ہم جیسے دوسرے افراد کے عادات و اطوار نیزظاہری شکل و شمائل کے درمیان اختلاف کے باوجود ایک دوسرے میںجسم و روح کے لحاظ سے بہت زیادہ اشتراک ہے ،اپنے اور دوسروں کے درمیان موجودہ مشترک چیزوں میں غور و فکر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مشترک علت کبھی تو ہمارے اور بعض لوگوں کے درمیان یا انسانوں کے مختلف گروہوں کے درمیان ہے مثال کے طور پر زبان ، رنگ ، قومیت ، آداب و رسوم ، افعال،قد کا زیادہ اور کم ہونے وغیرہ میں اشتراک ہے۔اور کبھی یہ امور سبھی افراد میں نظر آتے ہیں جیسے حواس پنجگانہ رکھنا ،قد کا سیدھا ہونا ، خدا کا محتاج ہونا ، جستجو کی حس ، حقیقت کی خواہش اور آزاد خیال ہونا وغیرہ ۔
مشترک کی پہلی قسم، بعض افراد انسان میںنہ ہونے کی وجہ سے انسان کی فطری اور ذاتی چیزوں میں شمار نہیں ہوسکتی ہے لیکن مشترک کی دوسری قسم میں غور و فکر سے مندرجہ ذیل مہم اور بنیادی سوالات ظاہر ہوتے ہیں ۔
١. گذشتہ فصل کے مباحث کی روشنی میں ان مشترکہ امور کا انسان کی واقعی حقیقت اور ذات سے کیا رابطہ ہے ؟ کیا یہ سبھی مشترکہ چیزیں انسان کی ذات سے وجود میں آتی ہیں ؟
٢. ذاتی مشترک چیزوں کی خصوصیات کیا ہیں اور غیر ذاتی چیزوں سے ذاتی مشترک چیزوں ( انسان کی مشترکہ فطرت )کی شناخت کا ذریعہ کیا ہے ؟
٣.انسان کے یہ مشترکہ اسباب اس کی زندگی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں ؟
٤.ان ذاتی مشترک چیزوں کی قسمیں یا مصادیق و موارد کیا ہیں ؟
٥.انسان کی شخصیت اور بناوٹ اور الٰہی فطرت سے ذاتی مشترکہ چیزیں کیا رابطہ رکھتی ہیں ؟
٦.کیا انسان ان ذاتی مشترکہ چیزوں کی بنا پر خیر خواہ اور نیک مخلوق ہے یا پست و ذلیل مخلوق ہے یا ان دونوں کا مجموعہ ہے ؟
ان سوالات کے جوابات کا معلوم کرنا وہ ہدف ہے جس کے مطابق یہ فصل (انسان کی فطرت کے عنوان سے )مرتب ہوئی ہے ۔(١)
انسانی مشترکہ طبیعت
انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگوکو انسان شناسی کے مہم ترین مباحث میں سے ایک سمجھا جاسکتا ہے ، جو جاری چند صدیوں میں بہت سے مفکرین کے ذہنوں کو اپنی طرف معطوف کئے ہوئے ہے ۔
یہ مسئلہ متعدد و مختلف تعریفوں کو پیش کرنے کے باوجود ایک معتبر ومتیقن طریقۂ معرفت کے نہ ہونے اور ذات انسان کے پر اسرار و مخفی ہونے کی وجہ سے بہت سے دانشمندوں کی حیرت و پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے ان میں سے بعض جیسے ''پاسکال '' کو مجبور ہونا پڑا کہ انسان کی فطرت اور ذات کی معرفت کو غیر ممکن سمجھے(٢) اور بعض لوگوں کی اس گمان کی طرف رہنمائی کی ہے کہ انسانوں
..............
(١)اس بحث کو حجة الاسلام احمد واعظی زید عزہ نے آمادہ کیا ہے جو تھوڑی اصلاح اور اضافہ کے ساتھ معزز قارئین کی خدمت میں پیش ہو رہی ہے ۔
(٢)پاسکال منجملہ ان لوگوں میں سے ہے جو معتقد تھا کہ انسان کی معرفت کی عام راہیں کسی وقت بھی انسان کے سلسلہ میں صحیح معلومات فراہم نہیں کرسکتی ہیں ۔ اور دین جو انسان کی معرفت کا واحد ذریعہ ہے وہ بھی انسان کو مزید پر اسرار بنا دیتا ہے اور اس کو خدا وند عالم کی طرح پوشیدہ اور مرموز کردیتا ہے ۔ ملاحظہ ہو: کیسیرر ، ارنسٹ ؛ فلسفہ و فرہنگ ؛ ص ٣٤و ٣٦۔
کے درمیان مشترکہ فطرت و ذات کے وجود کے منکر ہوں (١)مثال کے طور پر ''جوزارٹگا''(٢)اس سلسلہ میں کہتا ہے کہ'' فطری علوم، حیات انسانی کی حیرت انگیز حقیقت کے مقابلہ میں متحیر ہیں ۔انسان سے پردۂ اسرار کے نہ ہٹنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ انسان کوئی شیٔ نہیں ہے اور انسان کی فطرت کے بارے میں گفتگو کرنا کذب محض ہے ۔ فطرت و طینت نامی کوئی بھی شیٔ انسان میں نہیں ہے ''۔ (٣)
بہتر یہ ہوگا کہ انسان کی مشترکہ فطرت کی نفی یا اثبات کی دلیلوں کو پیش کرنے سے پہلے مشترکہ فطرت و طینت کے مقصود کو واضح کیا جائے ۔
مشترکہ فطرت سے مراد (٤)
حیوان کے مختلف اقسام میں مشترکہ جہتیں اور خصوصیات ہوتی ہیں ۔ فطری چیزوں کا وجود
..............
(١)ڈور کیم کی طرح جامعہ کو اصل سمجھنے میں افراط کرنے والے اور ژان پل سارٹر کی طرح عقیدۂ وجود رکھنے والے اور فرڈریچ ہگل (Georg Wilhelm Friedrich Hegel)کی طرح عقیدہ ٔ تاریخ رکھنے والے نیزریچارڈ پالمر(Richard Palmer) منجملہ ان لوگوں میں سے ہیں جومورد نظر معانی میں انسان کی مشترکہ فطرت کے منکر ہیں .ملاحظہ ہو: اسٹیونسن ، لسلی ؛ ہفت نظریہ در باب انسان ؛ ص ١٣٦۔ ١٣٨۔ محمد تقی مصباح ؛ جامعہ و تاریخ از دیدگاہ قرآن ؛ سازمان تبلیغیات اسلامی ، تہران ؛ ١٣٦٨، ص ٤٧و ٤٨۔
Cjose Ortega Y Gasset .(٢)
(٣)کیسیرر ، ارنسٹ ،گذشتہ حوالہ؛ ص٢٤٢۔
(٤)کلمہ'' فطرت انسان''کے مختلف و متنوع استعمالات ہیں : مالینوفسکی کی طرح مفکرین اس کو مادی ضرورتوںمیں منحصر کردیتے ہیں . کولی کی طرح بعض دوسرے مفکرین'' اجتماعی فطرت''خصوصاً اجتماعی زندگی میں جو احساسات اور انگیزے ابتدائی معاشرے میں ہوتے ہیں بیان کرتے ہوئے متعدد فطرت و سماج پر یقین رکھتے ہیں، بعض نے اجتماعی فطرت کوابتدائی گروہ( جیسے خاندان) اور سماجی طبیعت و اجتماعی کمیٹیوں سے وجود میں آنے کے بارے میں گفتگو کی ہے ،وہ چیز جو ان نظریات میں معمولاً مورد غفلت واقع ہوتی ہے وہ انسان کی مخصوص اور بلند و بالا فطرت ہے جو انسان و حیوان کی مشترکہ اور اس کی مادی و دنیاوی ضرورتوں سے بلند و بالا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو اس بحث میں شدید مورد توجہ واقع ہوئی ہے ۔
جیسے نفس کو بچانا اور حفاظت کرنا اور تولید نسل کرنا وغیرہ ان کی مشترکہ فطرت پر دلالت کرتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ فطری چیزیں سبھی حیوانوں کے درمیان مشترک ہیں لیکن حیوان کی ہر فرد ان مشترکہ فطرت کے علاوہ اپنے مطابق صفات وکردار کی بھی مالک ہوتی ہے ،چونکہ حیوانوں کے اندر نفوذ کرکے ان کی ذاتیات کو کشف کرنا انسان کے لئے خیال و گمان کی حد سے زیادہ میسر نہیں ہے، لہٰذا بیرونی افعال جیسے گھر بنانے کا طریقہ ، غذا حاصل کرنا ، نومولود کی حفاظت ، اجتماعی یا فردی زندگی گذارنے کی کیفیت اور اجتماعی زندگی میں تقسیم کار کی کیفیت کے عکس العمل کی بنیاد پر حیوان کی ایک فرد کو دوسری فرد سے جدا کیا جاسکتاہے ،مذکورہ خصوصیات کو حیوانوں کی فطرت و طینت کے فرق و تبدیلی کی وجہ سمجھنا چاہیئے ۔
انسان کا اپنی مخصوص فطرت و طینت والا ہونے سے مراد یہ بات ثابت کرنا نہیں ہے کہ انسان سبھی حیوانوں کی طرح ایک حیوان ہے اور حیوانوں کی ہی قسموں میں سے ہر ایک کی طرح یہ نوع بھی اپنی مخصوص امتیاز رکھتی ہے ،بلکہ مقصود اس نکتہ کا ثابت کرنا ہے کہ انسان حیوانی فطرت کے علاوہ بعض مشترکہ خصوصیات کا مالک ہے ۔حیوانی وکسبی چیزوں کے بجائے مشترکہ خصوصیات کامقام جستجو ،فہم خواہشات اور انسان کی توانائی ہے،اگر ہم یہ ثابت کرسکے کہ انسان ،مخصوص فہم و معرفت یا خواہشات و توانائی کا مالک ہے جس سے سبھی حیوانات محروم ہیں تو ایسی صورت میں انسان کی خصوصیت اور حیوانیت سے بالاتر مشترکہ فطرت ثابت ہوجائے گی ۔(١)
..............
(١)فصل اول میں ہم ذکر کرچکے ہیں کہ انسان اور اس کی خصوصیات کی معرفت کے لئے چار طریقوں ؛ عقل ، تجربہ ، شہود اور وحی سے استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔ اور ان کے درمیان طریقہ وحی ،کو مذکورہ خصوصیات کی روشنی میں دوسری راہوں پر ترجیح حاصل ہے اگرچہ ہر راہ و روش اپنے مخصوص مقام میں نتیجہ بخش ہے، فطرت انسان کی شناخت میں بھی یہ مسئلہ منکرین کے لئے مورد توجہ رہا ہے اورانھوں نے اس سلسلہ میں بحث و تحقیق بھی کی ہے۔ جو کچھ پہلی فصل میں بیان ہوچکا ہے وہ ہمیں مزید اس مسئلہ میں گفتگو کرنے سے بے نیاز کردیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے :ملاحظہ ہو؛ ازرائل شفلر ؛ در باب استعدادھای آدمی ، گفتاری در فلسفہ تعلیم و تربیت ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، سمت ، ١٣٧٧ تہران : ص ١٦٣
مشترکہ فطرت کی خصوصیات
جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کی مشترکہ فطرت کی پہلی خصوصیت اس کا حیوانیت سے بالاتر ہونا ہے اس لئے کہتمایل و رجحانات تفکرو بینش حیوانوں میں پائی ہی نہیں جاتی ہے مثال کے طور پر نتیجہ اور استدلال کی قدرت اور جاہ طلبی یا کم از کم انسان کے اندر و سعت کے مطابق ہی یہ چیزیںپائی جاتی ہیں جو باقی حیوانوں میں نہیں ہوتی ہیں مثال کے طور پر گرچہ حیوانات بھی معلومات رکھتے ہیں لیکن حیوانوں کی معلومات انسانوں کی معلومات کے مقابلہ میں نہ ہی اس میں وسعت ہے اور نہ ہی ظرافت و تعمق جیسے صفات کی حامل ہے ،اسی وجہ سے انسان اور حیوان میں معلومات کے نتائج و آثار بھی قابل قیاس نہیں ہیں ، علم و ٹیکنالوجی انسان سے مخصوص ہے ۔مشترکہ فطرت کی دوسری خصوصیت ، حضوری فطرت ہے ۔ تعلیم و تعلّم اور دوسرے اجتماعی عوامل اور مشترکہ فطرت کے عناصر کی پیدائش میں ماحول کا کوئی کردار نہیں ہے اسی بنا پر یہ عناصر انسان کی تمام افراد میں ہر ماحول و اجتماع اور تعلیم تعلّم میں (چاہے شدت و ضعف اور درجات متفاوت ہوں )وجود رکھتا ہے ۔
انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کی تیسری خصوصیت ،لازوال ہونا ہے ،انسان کی مشترکہ فطرت چونکہ اس کی انسانیت کی ابتدائی حقیقت و شخصیت کو تشکیل دیتی ہے لہٰذا انسان سے جدا اور الگ نہیں ہوسکتی اور فرض کے طور پر اگر ایسے افراد ہوں جو ان عناصر سے بے بہرہ ہوں یا بالکل کھو چکے ہوں ان کی حیثیت حیوان سے زیادہ نہیںہے اور ان کا شمارانسان کی صفوں میں نہیں ہوتابلکہ کبھی تو بعض عناصر کے نابود ہو جانے سے اس کی دائمی زندگی مورد سوال واقع ہوجاتی ہے مثال کے طور پر جو قدرت عقل و دانائی سے دور ہو یا عقل ہی نہ رکھتا ہو وہ گرچہ ظاہری شکل و صورت ، رفتار و کردار میں دوسرے انسانوں کی طرح ہے لیکن در حقیقت وہ حیوانیجہت سے اپنی زندگی گذار رہا ہے اور اس سے انسانی سعادت سلب ہوچکی ہے، مذکورہ خصوصیات میں سے ہر ایک انسان کی مشترکہ فطرت کے عناصر کی معرفت کے لئے معیار ہیں ۔ اور ان خصوصیات کا انسان کے ارادے اور تمایل ، فکری توانائی اور بینش کا ہونااس بات کی علامت ہے کہ یہ ارادے ،فکری توانائی اور بینش ،انسانی فطرت کا حصہ ہیں ۔
|