ب) تجربی شواہد
بشر کے تجربیات میں ایسے مواقع بھی پیش آتے ہیں جو روح کے مجرد و مستقل وجود کی تائید کرتے ہیں ''روحوں سے رابطہ ''جس میں انسان ان لوگوں سے جو سیکڑوں سال پہلے مر چکے ہیں اور
شاید ان کے اسماء کو بھی نہ سنا ہو ، ارتباط قائم کرتا ہے اور معلومات دریافت کرتا ہے ۔(١)'' آتوسکپی''(تخلیہ روح ) میں جسم سے روح کی موقت جدائی کے وقت ان لوگوں سے معلومات کا مشاہدہ کیا گیاہے جو دماغی سکتہ یا شدید حادثہ کی وجہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں اور اچھے ہونے کے بعد بے ہوشی کے وقت کے تمام حالات کو یاد رکھتے ہیں،(٢) سچے خواب میں افراد نیند ہی کی حالت میں گذشتہ یا آئندہ زمانے میں
..............
(١)ایسے مفکرین کے سامنے جن کی باریک بینی،صداقت اور تقویٰ میں کوئی شبہہ نہیں کیا جاسکتاہے ایسے موارد بھی پیش آئے ہیں کہ انہوں نے کئی سال پہلے مرچکے افراد سے ارتباط برقرار کرکے گذشتہ آئندہ کے بارے میں معلومات دریافت کی ہیں ۔ اگر روح مجرد کا وجود نہ ہوتا تو ایسے جسم سے رابطہ بھی ممکن نہ ہوتا جو سالوں پہلے پراکندہ ہوچکا تھااور ان مفکرین سے کوئی معرفت و رابطہ بھی نہ تھا،مثال کے طور پر مرحوم علامہ طباطبائی سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: طالب علمی کے زمانہ میں جب میں نجف اشرف میں دینی علوم کی تعلیم میں مشغول تھا ، ایک بار میری اقتصادی حالت بہت نازک ہوگئی تھی، گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور زندگی کے اقتصاد یات نے میرے ذہن کو پریشان کررکھا تھا ؛ میں نے اپنے آپ سے کہا تم کب تک اس اقتصادی حالت میں زندگی گذار سکتے ہو؟ ناگاہ میں نے احساس کیا کہ کوئی دق الباب کر رہا ہے ،میں اٹھا اور جاکر دروازہ کھولا ، ایسے شخص کو دیکھا جس کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا ، ایک مخصوص لباس زیب تن کئے ہوئے تھا ، مجھے سلام کیا اور میں نے جواب سلام دیا ، اس نے کہا : میں سلطان حسین ہوں ۔ خداوند عالم فرماتا ہے : میں نے ان اٹھارہ سالوں میں کب تم کو بھوکا رکھا ہے جو تم درس و مطالعہ چھوڑ کر روزی کی تامین کے بارے میں سوچ رہے ہو ؟علامہ فرماتے ہیں کہ : اس شخص نے خدا حافظی کیا اور چلا گیا ، میں نے دروازہ بند کیا اور واپس آگیا اچانک میں نے دیکھا ، میں تو پہلے والے ہی انداز میں کمرے میں بیٹھا ہوا ہوں اور میں نے کوئی حرکت بھی نہیں کی ہے میں نے اپنے دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ اٹھارہ سال کس وقت سے شروع ہوتا ہے؟میری طالب علمی کے آغاز کا دور تو اٹھارہ سالوں سے زیادہ ہے اور وقت ازدواج بھی، اٹھارہ سال سے مطابق نہیں رکھتا ہے میں نے غور کیا تو یاد آیا کہ جب سے میںنے روحانی لباس زیب تن کیا ہے ، ٹھیک اٹھارہ سال گذر چکے ہیں۔ چندسال بعد میں ایران آیا اور تبریز میں رہنے لگا ۔ ایک دن میں قبرستان گیا اچانک میری نظر ایک قبر پر پڑی دیکھا اسی شخص کا نام قبر کی تختی پر کندہ ہے، میں نے اس کی تاریخ وفات پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس واقعہ سے تین سو سال پہلے وہ
اس دنیا سے جا چکا تھا اور میرا رابطہ اس کی روح سے تھا ۔ملاحظہ ہو: قاسم لو ، یعقوب؛ طبیب عاشقان ؛ ص ٤٥ و ٤٦۔ اسی مطلب کی طرح ، بیداری کی حالت میں اپنے اور دوسروں کے آئندہ کا مشاہدہ کرنا ہے جیسے وہ چیزیں جو حضرت آیة اللہ خوئی طاب ثراہ کے بارے میں نقل ہوئی ہیں کہ : آپ نے اپنی جوانی اور طالب علمی کے ابتدائی دور میں اپنی زندگی کے تمام مراحل کوحتی ہنگام موت اور اپنے تشییع جنازہ کے مراسم کو بھی عالم بیداری میں مکاشفہ کی شکل میں دیکھا تھا اور اپنی پوری زندگی کواسی انداز میں تجربہ بھی کیا تھا ۔ ملاحظہ ہو: حسن زادہ ، صادق ؛ اسوہ عارفان ؛ ص ٦١۔
(٢)آٹوسکپی
(Autoscopy) مغرب میں عالم تجربہ کا یہ نسبتاً جدید انکشاف ہے اور ایسے افراد کے بارے میں کہا جاتا ہے جو تصادف یاشدید سکتہ مغزی کی وجہ سے ان کی روح ان سے دور ہوجاتی ہے ان کے حالات کے صحیح اورمعمول پر واپس آنے کے بعد اپنے بے ہوشی کے دوران کے سبھی حالات کو جانتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ : ہم اپنے جسم کونیز ان افراد کو جو ہمارے اردگرد تھے اورجو کام وہ ہمارے جسم پر انجام دیتے تھے اور اسی طرح مکان اورآواز کو ان مدت میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے، ریمنڈمودی نام کے ایک مفکرنے اپنی کتابLife after life( زندگی، زندگی کے بعد )میں ان مشاہدات کے نمونوں کو ذکر کیا ہے مائکل سابون نام کے ایک دوسرے مفکر نے پانچ سال کے اندر ١١٦ افراد سے اس طرح کا بیان لیاہے جس میں سے تین چوتھائی افراد، سکتہ قلبی کے شکار ہوئے ہیں، ان میں سے ایک سوم افراد آٹوسکپی میں گرفتارتھے ۔ملاحظہ ہو: ہوپر ، جودیث و دیک ٹرسی ،جہان شگفت انگیز مغز ؛ ص ٥٥٧، ٥٦٩۔ انسان در اسلام ؛ کے ص ٨٨پر واعظی نے نقل کیا ہے۔توجہ ہونا چاہیئے کہ ایسے افراد کا جسم درک نہیں کرتا ہے اور حواس بھی تقریباًکام نہیں کرتا ہے لہٰذا ان حالات کی بہترین توجیہ ، مستقل اور مجرد روح کا وجود ہے ۔
نہ دیکھی نہ سنی جگہوں میں سفر کرتے ہیں، اور بیداری کے بعد خواب کے مطابق معلومات کو صحیح پاتے ہیں۔(١) اور ٹیلی پیتھی میں دو یا چند آدمی بہت ہی زیادہ فاصلہ سے مثال کے طور پر دو شہروں میں ایک دوسرے سے مرتبط ہوتے ہیں اور بغیر کسی مادی ارتباط کے ایک دوسرے سے معلومات منتقل کرتے ہیں ۔
(2)یہ منجملہ تجربی شواہد کے موارد ہیں جو روح مجرد کے وجود کی تائید کرتی ہیں ۔ گذشتہ چیزوں پر توجہ کرتے ہوئے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ روحی حوادث کو شیمیائی ، مادی ، مقناطیسی لہروں یا شیمیائی الکٹرک کے فعل و انفعال سے توجیہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور انسانی خواہشات جیسے حوادث ، درد و احساسات خصوصاً ادراک ، تجربہ و تحلیل ، نتیجہ گیری اور استنباط ان میں سے کوئی بھی شی ٔقابل توجیہ نہیں ہے ۔
..............
(١)سچے خواب بھی بہت زیادہ ہیں جو روح کے وجود پر دلیل ہیں ۔ ان خوابوں میں انسان آئندہ یا گذشتہ زمانہ میں یا ایسی جگہوں میں سفر کرتا ہے جسے کبھی دیکھا نہ تھا حتی ان کے اوصاف کے بارے میں نہ پڑھا اور نہ ہی سنا تھا اور جووہ معلومات حاصل کرتا ہے واقعیت سے مطابقت رکھتا ہے اور مرور زمان کے بعد ان چیزوں کااسی طرح مشاہدہ کرتا ہے جیسا کہ اس نے خواب میں دیکھا تھا،چونکہ خواب کے وقت انسان کا بدن ساکت اور مخصوص مکان میںہوتا ہے،لہٰذا یہ حرکت اور کسب اطلاعات ،روح مجرد کو قبول کئے بغیر قابل توجیہ ، اور منطقی نہیں ہے ۔
(2)روح مجرد کے وجود کی دوسری دلیل ٹیلی پیتھی (Telepathy) اور راہ دور سے رابطہ ہے، بعض اوقات انسان ایسے افراد سے رابطہ کا احساس کرتا ہے جو دوسرے شہر میں رہتا ہے اور اس رابطہ میں ایک دوسرے سے معلومات منتقل کرتے ہیں ، حالانکہ اس سے پہلے ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے تھے ، یہ رابطہ ارواح سے رابطہ کی طرح ہے لیکن یہ زندہ لوگوں کی روحیں ہیں ۔
روح مجرداور انسان کی واقعی حقیقت
انسانی روح کے سلسلہ میں مجرد ہونے کے علاوہ دودوسرے مہم مسائل بھی ہیں جن کے سلسلہ میں قرآن کے نظریہ کوا ختصار اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا جائے گا ۔ پہلی بات یہ کہ انسان کی روح ایک مجرد وجود ہے اور دوسرے یہ کہ انسان کی واقعی حقیقت ( وہ چیزیں جو انسان کی انسانیت سے مربوط ہیں)کو اس کی روح تشکیل دیتی ہے، یہ دو مطالب گذشتہ آیات کے مفہوم و توضیحات سے حاصل ہوئی ہیں ۔ اس لئے کہ انسان کی خلقت سے مربوط آیات میں اس کے جسمانی خلقت کے مراحل کے بیان کے بعد ایک دوسری تخلیق یا روح پھونکنے کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے اور یہ نکتہ روح کے غیر مادی ہونے کی علامت ہے ،جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد انسان کی بقا اور عالم برزخ میں زندگی کا دوام نیز اس کا کامل اور پوری طرح دریافت ہونا بھی روح کے مادی و جسمانی نہ ہونے کی علامت ہے ۔ دوسری طرف اگر انسان کی واقعی حقیقت اس کے مادی جسم میں ہے تو مرنے اور جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد نابود ہوجانا چاہیئے تھا جب کہ آیات قرآنی جسم کے پراکندہ ہونے کے بعد بھی انسان کی بقا کی تائید کرتی ہیں ،خداوند عالم نے انسان کی فرد اول کے عنوان سے حضرت آدم کی خلقت
کے بارے میں فرمایا : '' روح پھونکے جانے کے بعد ؛سجدہ کرو '' یہ حکم بتا تا ہے کہ اس مرحلہ میں پہلے وہ خلیفة اللہ انسان جس کی خلقت کا خدا وند عالم نے وعدہ کیا تھا ابھی وجود میں نہیں آیا ہے انسان کی خلقت میں یہ کہنے کے بعد کہ ثُمَّ أَنشَأنَاہُ خَلقاً آخَرَ ''پھرہم نے اس کو ایک دوسریشکلمیں پیدا کیا''اس جملہ کو بیان کیا فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحسَنُ الخَالِقِینَ (١)''پس مبارک ہے وہ اللہ جوبنانے والوں میں سب سے بہترہے''، یہ نکتہ بھی دلالت کرتا ہے کہ انسان کا وجود روح پھو نکنے کے بعد متحقق ہوتا ہے ،وہ آیات جو بیان کرتی ہیں کہ ہم تم کو تام اور کامل دریافت کرتے ہیں وہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کی روح اس کی واقعی حقیقت کو تشکیل دیتی ہے ورنہ اگر جسم بھی انسان کے حقیقی وجود کا حصہ ہوتا تو موت کے وقت انسان ،تام اور کامل دریافت نہیں ہوتا اور جسم کے پراگندہ ہو تے ہی انسان کی واقعی حقیقت کا وہ حصہ بھی نابود ہو جاتا ۔
..............
(١)سورۂ مومنون ١٤
خلاصہ فصل
١.انسان دو پہلو رکھنے والا اور جسم و روح سے مرکب وجود ہے ۔
٢.اگرچہ نسل آدم علیہ السلام کے جسم کی بناوٹ کی کیفیت کے بارے میں کوئی خاص بحث نہیں ہے لیکن مفکرین، ابوا لبشرحضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں اختلاف نظررکھتے ہیں ۔
٣.جب ڈارون نے اپنے فر ضیہ کو بیان کیا اور مختلف مخلوقات کی بناوٹ کو (بہترین انتخاب اصل ہے )کی بنیاد پر پیش کیا تو بعض غربی مفکرین نے نسل آدم کے ماضی کو بھی اسی فرضیہ کی روشنی میں تمام حقیر حیوانات کے درمیان جستجو کرتے ہوئے بندروں کے گمشدہ واسطہ کے ساتھ پیش کیا ۔
٤.بعض مسلمان مفکرین نے کوشش کی ہے کہ خلقت آدم کو بیان کرنے والی آیات کوبھی
اسی فرضیہ کے مطابق تفسیر کریں لیکن اس طرح کی آیات (نَّ مَثَل عِیسیٰ عِندَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ) گذشتہ درس کی عبارتوں میں دی گئی توضیحات کی بنا پر ایسے نظریہ سے سازگار نہیں ہے ۔
٥. آیات قرآن نہ صرف روح کے وجود پر دلالت کرتی ہیں بلکہ انسان کی موت کے بعد بقاء و استقلال کی بھی وضاحت کرتی ہیں ۔
٦. روح کا وجود و استقلال بھی آیات قرآن کے علاوہ عقلی دلیلوں اور تجربی شواہد سے بھی ثابت ہے ۔
تمرین
اس فصل سے مربوط اپنی معلومات کو مندرجہ ذیل سوالات و جوابات کے ذریعہ آزمائیں، اگر ان کے جوابات میں مشکلات سے دوچار ہوں تو دوبارہ مطالب کو دہرائیں :
١. ''انسان کی خلقت'' کو قرآن کی تین آیتوں سے واضح کیجئے؟
٢. انسان کے دو پہلو ہونے سے مراد کیا ہے ؟
٣. مندرجہ ذیل موارد میں سے کون سا مورد ، ڈارون کے نظریہ ''اقسام کی علت ''انسان کے ضروری تکامل کے مطابق ہے ؟
الف) حضرت آدم کی مخصوص خلقت کو بیان کرنے والی آیات کی توجیہ کریں ۔
ب)انسان کے اندر، ذاتی کرامت و شرافت نہیں ہے ۔
ج)جس جنت میں حضرت آدم خلق ہوئے وہ زمین ہی کا کوئی باغ ہے ۔
د)جناب آدم کا نازل ہونا اور ان کے سامنے فرشتوں کا سجدہ کرنا ایک عقیدتی مسئلہ ہے ۔
٤.جو حضرات بالکل روح انسان کے منکر ہیںمن جملہ حوادث میں تفکر کی قدرت ، حافظہ اور تصورات وغیرہ کی کس طرح توجیہ کرتے ہیں اور انہیں کیاجواب دیا جاسکتا ہے ؟
٥. روح و جسم کے درمیان پانچ قسم کے رابطہ کو ذکر کریں اور ہر ایک کے لئے مثال پیش کریں ؟
٦. آپ کے اعتبار سے کون سی آیت بہت ہی واضح روح کے وجود و استقلال کو بیان کرتی ہے ؟ اور کس طرح ؟
٧. روح انسانی سے انکار کے غلط اثرات کیا ہیں ؟
٨.انسان و حیوان کے درمیان مقام و مرتبہ کا فرق ہے یا نوع و ماہیت کا فرق ہے ؟
٩.لیزری ڈیسکیںاورمانیٹر پر ان کی اطلاعات کی نمائش ، آیا صغیر پر کبیر کے انطباقی مصادیق و موارد میں سے ہے ؟
١٠. ہم میں سے ہر ایک مخصوص زمان و مکان میں خلق ہوا ہے اور مطالب کو بھی مخصوص زمان و مکان میں درک کرتا ہے ،تو کیا یہ بات روح اور روحی حوادث کے زمان ومکان سے محدود ہونے کی علامت نہیں ہے ؟
١١.جسم و جسمانی حوادث اور روح و روحانی حوادث کی خصوصیات کیا ہیں ؟
مزید مطالعہ کے لئے
١۔انسان کی خلقت میں علم و دین کے نظریات کے لئے ،ملاحظہ ہو:
۔البار ، محمد علی ،خلق الانسان بین الطب و القرآن ، بیروت ، .
۔بوکای ، موریس ( ١٣٦٨) مقایسہ ای تطبیقی میان تورات ، انجیل ، قرآن و علم ، ترجمہ ، ذبیح اللہ دبیر ، تہران : دفتر نشر فرہنگ اسلامی ۔
۔سبحانی ، جعفر ( ١٣٥٢) بررسی علمی ڈاروینزم ، تہران : کتابخانہ بزرگ اسلامی ،
۔سلطانی نسب ، رضا ، و فرہاد گرجی ( ١٣٦٨) جنین شناشی انسان ( بررسی تکامل طبیعی و غیر طبیعی انسان ) تہران : جہاد دانشگاہی ۔
۔شاکرین ، حمید رضا قرآن و رویان شناسی ، حوزہ و دانشگاہ کے مجلہ سے منقول ، سال دوم ، شمارہ ٨۔
۔شکرکن ، حسین ، و دیگران (١٣٧٢) مکتبھای روان شناسی و نقد آن . ج٢ ، تہران : سمت ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ۔
۔محمد حسین طباطبائی (١٣٦٩) انسان از آغاز تا انجام ، ترجمہ و تعلیقات : صادق لاریجانی آملی ، تہران : الزہرا۔
۔( ١٣٥٩) فرازھایی از اسلام . تہران : جہان آرا.
۔( ١٣٦١) آغاز پیدایش انسان ؛ تہران : بنیاد فرہنگی امام رضا
۔قراملکی ، فرامرز ( ١٣٧٣) موضع علم و دین در خلقت انسان . تہران : موسسہ فرہنگی آرایہ .
۔محمد تقی مصباح ( ١٣٧٦) معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیھان شناسی ، انسان شناسی ) قم : موسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
۔مطہری ، مرتضی ( ١٣٦٨) مجموعہ آثار ج١ ، تہران : صدرا .
۔مکارم شیرازی ، ناصر، ڈاروینزم کے بارے میں بحث وتحقیق و تحلیل اور تکامل کے بارے میںجدید نظریات. قم : نسل جوان ۔
۔مہاجری ، مسیح ( ١٣٦٣) تکامل از دیدگاہ قرآن . تہران : دفتر نشر فرہنگی اسلامی . واعظی ، احمد (١٣٧٧) انسان در اسلام . تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( سمت )
اس فصل میںمذکورہ تفسیری کتابیں ۔
٢۔ کلمہ نفس و روح کے سلسلہ میں، اس کے اصطلاحی معانی و استعمالات اور خدا وند عالم سے منسوب روح سے مراد کے لئے .ملاحظہ ہو:
۔حسن زادہ آملی ، حسن، معرفت نفس ، دفتر سوم ، ص ٤٣٧. ٤٣٨.
۔محمد تقی مصباح ( ١٣٧٦) معارف قرآن ( خدا شناسی ، کیہان شناسی ، انسان شناسی ) قم : موسسہ ۔آموزشی و پژوہشی امام خمینی ص ٣٥٦.٣٥٧ و اخلاق در قرآن ج٢ ص ٢٠٠سے ٢٠٨ تک ۔
٣ ۔روح انسان اور نفس و بدن یا روح و جسم کے رابطہ میں مختلف نظریات کے لئے ملاحظہ ہو:
۔ بہشتی ، محمد (١٣٧٥) ''کیفیت ارتباط ساحتھای وجود انسان ''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ نہم ، ص ٢٩۔ ٣٧.
۔دیونای ، امیر ( ١٣٧٦) حیات جاودانہ .پژوہشی در قلمرو و معاد شناسی ، قم ؛ معاونت امور اساتید و دروس معارف اسلامی .
۔رئوف ، عبید ( ١٣٦٣) انسان روح است نہ جسد ، ترجمہ زین العابدین کاظمی خلخالی ، تہران : دنیای کتاب .
۔شکر کن ، حسین و دیگران ( ١٣٧٢) مکتبہای رواان شناسی و نقد آن . تہران . دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( سمت ) ص ٢٠٦،٢٠٧و ٣٦٩،٣٨٦).
۔غروی ، سید محمد ( ١٣٧٥ ) ''رابطہ نفس و بدن ''مجلہ حوزہ و دانشگاہ ، شمارہ نہم ص ٨٤تا ٨٨.
۔واعظی ، احمد( ١٣٧٧) انسان در اسلام ، تہران : دفتر ہمکاری حوزہ و دانشگاہ ( سمت )
|