انسان شناسی
 

چوتھی فصل :

انسان کی خلقت
اس فصل کے مطالعہ کے بعدآپ کی معلومات :
١ ۔ قرآن مجید کی تین آیتوں سے استفادہ کرتے ہوئے خلقت انسان کی وضاحت کریں ؟
٢۔انسان کے دو بعدی ہونے پر دلیلیں ذکر کریں ؟
٣۔روح و جسم کے درمیان اقسام رابطہ کے اسماء ذکر کرتے ہوئے ہر ایک کے لئے ایک
مثال پیش کریں ؟
٤۔وہ آیات جو روح کے وجود و استقلال پر دلالت کرتی ہیں بیان کریں ؟
٥۔انسان کی واقعی حقیقت کو ( جس سے انسانیت وابستہ ہے ) واضح کریں ؟


ہم میں سے کوئی بھی یہ شک نہیں کرتا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں نہ تھا اور اس کے بعد وجود میں آیا جس طرح انسانوں کی خلقت کا سلسلہزاد و ولدکے ذریعہ ہم پر آشکار ہے اور دوسری طرف تھوڑے سے تامل و تفکر سے معلوم ہو جاتاہے کہ اس جسم و جسمانیات کے ماسواء کچھ حالات اور کیفیات مثلاًغور و فکر کرنا ، حفظ کرنا ، یاد کرنا وغیرہ جو ہمارے اندر پیدا ہوتی ہیں پوری طرح جسمانی اعضاء سے متفاوت ہیں، یہ عمومی و مشترک معلومات انسان کے لئے متعدد و متنوع سوالات فراہم کرتی ہیں جس میں سے بعض سوالات مندرجہ ذیل ہیں :
١۔موجودہ انسانوں کی نسل کا نکتہ آخر کہاں ہے اور سب سے پہلا انسان کس طرح وجود میں آیا ہے؟
٢۔ہم میں سے ہر ایک کی آفرینشکے مراحل کس طرح تھے ؟
٣۔ہمارے مادی حصہ کے علاوہ جو کہ سبھی دیکھ رہے ہیں کیا کوئی دوسرا حصہ بنام روح بھی موجود ہے ؟
٤۔اگر انسانوں میں کئی جہتیں ہیں تو انسان کی واقعی حقیقت کو ان میں سے کون سی جہت ترتیب دیتی ہے ؟
اس فصل کے مطالب اور تحلیلیں مذکورہ سوالات کے جوابات کی ذمہ دار ہیں:

انسان ،دوبعدی مخلوق
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جاندار انسان بے جان موجود سے متفاوت ہوتا ہے اس طرح کہ زندہ موجود میںکوئی نہ کوئی چیز بے جان موجود سے زیادہ ہے ۔ آدمی جب مرجاتا ہے تو مرگ کے بعد کا وہ لمحہ موت سے پہلے والے لمحہ سے مختلف ہو تا ہے، اس مطلب کو روح کے انکار کرنے والے بھی قبول کرتے ہیں ،لیکن اس کی بھی مادی لحاظ سے توجیہ کرتے ہیں۔ہم آئندہ بحث میں اس مسئلہ کی طرف اشارہ کریں گے کہ روح اور روحی چیزیں مادی توجیہ قبول نہیں کرتیں ہیں ۔ بہر حال روح کا انکار کرنے والوں کے مقابلہ میںیہ کہا جاسکتا ہے کہ گذشتہ زمانہ سے ادیان الٰہی کی تعلیمات اور دانشوروں کے آثار میں انسان کا دوپہلو ہونا اور اس کا روح و بدن سے مرکب ہونا نیز روح نامی عنصر کا اعتقاد جو کہ بدن سے جداا ورایک مستقل حیثیت کا حامل ہے بیان کئے گئے ہیں۔ اس عنصر کے اثبات میں بہت سی عقلی و نقلی دلیلیں پیش کی گئی ہیں ،قرآن مجید بھی وجود انسانی کے دو پہلو ہونے کی تائید کرتا ہے اور جسمانی جہت کے علاوہ جس کے بارے میں گذشتہ آیات میں گفتگو ہو چکی ہے، بہت سی آیات میں انسان کے لئے نفس و روح کا پہلومورد توجہ واقع ہوا ہے ۔
اس فصل میں سب سے پہلے جسمانی پہلو اور اس کے بعد روحانی پہلو کی تحقیق کریں گے ۔

اولین انسان کی خلقت
ان آیات کی تحلیل جو انسان کی خلقت کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں ان نتائج کو ہمارے اختیار میں قرار دیتی ہیں کہ موجودہ انسانوں کی نسل، حضرت آدم نامی ذات سے شروع ہوئی ہے ۔ حضرت آدم کی خلقت خصوصاً خاک سے ہوئی ہے۔ اور روئے زمین پر انسانوں کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات کے درمیان مندرجہ ذیل آیات بہت ہی واضح اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موجودہ نسل حضرت آدم اور ان کی زوجہ سے شروع ہوئی ہے ۔
(یَا أیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِن نَفسٍ وَاحِدَةٍ وَ خَلَقَ
مِنھَا زَوجَھَا وَ بَثَّ مِنھُمَا رِجَالاً کَثِیراً وَ نِسَائً)(١)
اے لوگو! اپنے پالنے والے سے ڈرو (وہ پروردگار)جس نے تم سب کو ایک شخص
سے پیدا کیا اور اس سے اس کی ہمسر (بیوی) کو پیدا کیا اور انھیں دو سے بہت سے
مرد و عورت (زمین میں )پھیل گئے۔
اس آیت میں ایک ہی انسان سے سبھی لوگوں کی خلقت کو بہت ہی صراحت سے بیان کیاگیا ہے ۔(٢)
(وَ بَدَأَ خَلقَ الِنسَانِ مِن طِینٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَہُ مِن سُلالَةٍ مِن مَّائٍ مَھِینٍ)
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ اور انسان کی ابتدائی خلقت مٹی سے کی پھر اس کی نسل گندے پانی سے بنائی۔(٣)
اس آیت میں بھی انسان کا نکتہ آغاز مٹی ہے اور اس کی نسل کو مٹی سے خلق ہوئے انسان کے نجس قطرہ سے بتایا ہے یہ آیت ان آیات کے ہمراہ جو حضرت آدم کی خلقت کو (سب سے پہلے انسان کے عنوان سے) خاک و مٹی سے بیان کرتی ہے موجودہ نسل کے ایک فرد ( حضرت آدم ) تک منتہی ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔
(یَا بَنِی آدَمَ لا یَفتِنَنَّکُمُ الشَّیطَانُ کَمَا أَخرَجَ أَبوَیکُم مِنَ الجَنَّةِ .)(٤)
اے اولاد آدم! کہیں تمہیں شیطان بہکا نہ دے جس طرح اس نے تمہارے ماں،
..............
(١)سورۂ نساء ١
(٢)یہی مفاد آیت دوسری آیات میں بھی مذکور ہے جیسے اعراف ١٨٩۔ انعام ، ٩٨۔زمر،٦
(٣)سورۂ سجدہ ٧ و ٨۔
(٤)سورۂ اعراف ٢٧
باپ کو بہشت سے نکلوا دیا۔(١)
یہ آیت بھی صراحت کے ساتھ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو نسل انسانی کا ماں ، باپ بتاتی ہے ۔خاک سے حضرت آدم کی استثنائی خلقت بھی قرآن کی بعض آیات میں ذکر ہے جن میں سے تین موارد کی طرف نمونہ کے طور پر اشارہ کیا جارہاہے ۔
ا۔(نَّ مَثَلَ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہُ
کُن فَیَکُونُ)
خدا کے نزدیک جیسے حضرت عیسی کاواقعہ ہے(حیرت انگیز خلقت) ویسے ہی آدم
کاواقعہ بھی ہے ان کو مٹی سے پیدا کیا پھر کہا ہوجا پس وہ ہوگئے ۔(٢)
حدیث ، تفسیر اور تاریخی منابع میں آیا ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں نصاری نجران نے اپنے نمائندوں کو مدینہ بھیجا تاکہ پیغمبر اسلام سے گفتگو اور مناظرہ کریں ،وہ لوگ مدینہ کی مسجد میں آئے پہلے تو اپنی عبادت بجا لائے اور اس کے بعد پیغمبر سے بحث کرنے لگے :
۔جناب موسی کے والد کون تھے ؟
۔ عمران
آپ کے والد کون ہیں ؟
۔ عبد اللہ
۔ جناب یوسف کے والد کون تھے ؟
۔ یعقوب
۔ جناب عیسی کے والد کون تھے ؟
..............
(١)بعض لوگوںنے آیت''ذر''نیز ان تمام آیات سے جس میں انسانوں کو ''یابنی آدم ''کی عبارت سے خطاب کیا گیا ہے اس سے انسانی نسل کا نکتہ آغاز حضرت آدم کا ہونا استفادہ کیا ہے۔
(٢)سورۂ آل عمران ٥٩۔
پیغمبر تھوڑا ٹھہرے ، اس وقت یہ آیت (نَّ عِیسَیٰ عِندَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ .) نازل ہوئی۔(١)
مسیحی کہتے تھے چونکہ عیسی کا کوئی انسانی باپ نہیں ہے لہٰذا ان کا باپ خدا ہے ،آیت اس شبہ کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ کیا تم معتقد نہیں ہو کہ آدم بغیر باپ کے تھے ؟ عیسی بھی انہیں کی طرح ہیں ،جس طرح آدم کا کوئی باپ نہیں تھا اور تم قبول بھی کرتے ہو کہ وہ خدا کے بیٹے نہیں ہیں اسی طرح عیسی بھی بغیر باپ کے ہیں اور حکم خدا سے پیدا ہوئے ہیں ۔
مذکورہ نکات پر توجہ کرتے ہوئے اگر ہم فرض کریں کہ حضرت آدم ، انسان و خاک کے ما بین ایک درمیانی نسل سے وجود میں آئے مثال کے طور پر ایسے انسانوں سے جو بے عقل تھے تو یہ استدلال تام نہیں ہوسکتا ہے اس لئے کہ نصاری نجران کہہ سکتے تھے کہ حضرت آدم ایک اعتبار سے نطفہ سے وجود میں آئے جب کہ عیسی اس طرح وجود میں نہیں آئے ،اگر اس استدلال کو تام سمجھیں جیسا کہ ہے، تب ہم یہ قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں کہ حضرت آدم کسی دوسرے موجود کی نسل سے وجود میں نہیں آئے ہیں ۔
٢۔(وَ بَدَأَ خَلقَ النسَانِ مِن طِینٍ ٭ ثُمَّ جَعَلَ نَسلَہُ مِن سُلالَةٍ مِن مَائٍ مَھِینٍ )
ان دو آیتوں میں سے پہلی آیت حضرت آدم کی خاک سے خلقت کو بیان کرتی ہے اور دوسری آیت ان کی نسل کی خلقت کو نجس پانی کے ذریعہ بیان کرتی ہے ،حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی نسل کی خلقت کا جدا ہونا اور ان کی نسل کا آب نجس کے ذریعہ خلق ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جناب آدم کی خلقت استثنائی تھی ورنہ تفکیک و جدائی بے فائدہ ہوگی ۔(٢)
..............
(١)مجلسی ، محمد باقر ؛ بحار الانوار ، ج٢١ص ٣٤٤۔
(٢) منطق کی کتابوں میں کہا گیا ہے کہ تقسیم میں ہمیشہ فائدہ کا ہونا ضروری ہے یعنی اقسام کاخصوصیات اور احکام میں ایک دوسرے سے متفاوت ہونا چاہیئے ورنہ تقسیم بے فائدہ ہوگی ، آیہ شریفہ میں بھی تمام انسانوں کوسب سے پہلے انسان اور اس کی نسل میں تقسیم کیا ہے ، لہٰذا اگر ان دو قسموں کا حکم خلقت کے اعتبار سے ایک ہی ہے تو تقسیم بے فائدہ اور غلط ہوگی ۔
٣۔بہت سی آیات جو خاک سے حضرت آدم کی خلقت کا واقعہ اور ان پر گذشتہ مراحل؛یعنی روح پھونکنا ، خدا کے حکم سے فرشتوں کا سجدہ کرنا اور شیطان کا سجدہ سے انکار کو بیان کرتی ہیں جیسے :
(وَ ذ قَالَ رَبُّکَ لِلمَلائَِِةِ نِّی خَالِق بَشَراً مِن صَلصَالٍ مِن حَمَأٍ
مَّسنُونٍ ٭ فَِذَا سَوَّیتُہُ وَ نَفَختُ فِیہِ مِن رُّوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ )
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاور (یاد کروکہ )جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک آدمی کو
خمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکھ کر کھن کھن بولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں تو جس وقت
میں اس کو ہر طرح سے درست کرچلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو سب
کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا۔(١)
یہ بات واضح ہے کہ تمام انسان ان مراحل کو طے کرتے ہوئے جو آیات میں مذکور ہیں (خاک ، بدبودار مٹی ، چپکنے والی مٹی ، ٹھکرے کی طرح خشک مٹی ) صرف خشک مٹی سیخلق نہیں ہوئے ہیں اور فرشتوں نے ان پر سجدہ نہیں کیا ہے بلکہ مذکورہ امور فقط پہلے انسان سے مخصوص ہے یعنی حضرت آدم جو استثنائی طور پر خاک ( مذکورہ مراحل ) سے خلق ہوئے ہیں ۔ (٢)
..............
(١)سورۂ حجر، ٢٨و ٢٩ ۔
(٢)اس نکتہ کا ذکر کرنا ضروری ہے اس لئے کہ حضرت آدم کی خلقت کو بیان کرنے والی آیات بہت زیادہ ہیں اور چونکہ ان کی خلقت کے بہت سے مراحل تھے ، لہٰذا بعض آیات میں جیسے آل عمران کی ٥٩ویں آیت اس کی خلقت کے ابتدائی مرحلہ کو خاک ،اور دوسری آیات جیسے سورۂ انعام کی دوسری آیت ؛ ١١صافات؛ ٢٦حجراور ١٤الرحمن کی آیتوں میں ایک ایک یا چند مرحلوں کے نام بتائے گئے ہیں ، جیسے کہ سورۂ سجدہ کی ٧و ٨ ویں آیت کی طرح آیات میں خاک سے حضرت آدم کی خلقت بیان کرتے ہوئے آدم کی نسل اور ذریت کی خلقت کو بھی بیان کیا گیاہے ۔
قرآن کے بیانات اور ڈارون کا نظریہ
نظریہ تکامل اور اس کے ترکیبی عناصر کے ضمن میں بہت پہلے یہ نظریہ بعض دوسرے متفکرین کی طرف سے بیان ہوچکا تھا لیکن ١٨٥٩ میں ڈاروین نے ایک عام نظریہ کے عنوان سے اسے پیش کیا .
چارلزڈارون(١)نے انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اپنے نظریہ کویوں پیش کیاہے کہ انسان اپنے سے پست حیوانوں سے ترقی کرکے موجودہ صورت میںخلق ہوا ہے اور انسان کی خلقت کے سلسلہ میں اس کے نظریہ نے مسیحیت اور جدید علم کے نظریات کے درمیان بہت ہی پیچیدہ مباحث کو جنم دیا اور بعض نے اس غلط نظریہ کی بناپر علم اور دین کے درمیان اختلاف سمجھا ہے۔(٢) ڈارون کا دعویٰ تھا کہ مختلف نباتات و حیوانات کے اقسام اتفاقی اور دھیرے دھیرے تبدیلی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں جو کہ ایک نوع کے بعض افراد میں فطری عوامل کی بنیاد پرپایاجاتا ہے، جو تبدیلیاں ان افراد میں پیدا ہوئی ہیں وہ وراثت کے ذریعہ بعد والی نسل میں منتقل ہوگئی ہیں اور بہتر وجود ، فطری انتخاب اور بقا کے تنازع میں محیط کے مطابق حالات ایک جدید نوعیت کی خلقت کے اسباب مہیا کرتے ہیں ۔ وہ اسی نظریہ کی بنیاد پر معتقد تھا کہ انسان کی خلقت بھی تمام ا قسام کے حیوانات کی طرح سب سے پست حیوان سے وجود میں آئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انسان گذشتہ حیوانوں کے اقسام میں سب سے بہتر ہے ۔
ڈارون کے زمانہ میں اور اس کے بعد بھی یہ نظریہ سخت متنازع اور تنقید کا شکار رہا اور ''اڈوار مک کریڈی ''(٣)اور'' ریون ''(٤) جیسے افراد نے اس نظریہ کو بالکل غلط مانا ہے ۔(٥)اور ''الفریڈ رسل ویلیس ''(٦) جیسے بعض افراد نے اس نظریہ کو خصوصاً انسان کی خلقت میں نا درست سمجھا
..............
(1)Charles Robert Darwin. (٢)ڈارون نے خود صراحتاً اعلان کیاہے کہ ''میں اپنے فکری تحولات میں وجود خدا کاانکار نہ کرسکا''،زندگی و نامہ ای چارلزڈارون؛ ج١ ص ٣٥٤( پیرس ، ١٨٨٨) بدوی عبد الرحمن سے نقل کرتے ہوئے ؛ موسوعة الفلسفة. ڈارون نے فطری قوانین کو ایسے اسباب و علل اور ثانوی ضرورت کے عنوان سے گفتگو کی ہے کہ جس کے ذریعہ خداوند عالم تخلیق کرتا ہے ۔ گرچہ انسان کے ذہن نے اس باعظمت استنباط کو مشکو ک کردیا ہے ۔( ایان باربور ، علم و دین ؛ ص ١١٢)۔
(3) E.Mc Crady. (4)Raven.
(٥) ایان باربور ، علم و دین ؛ ص٤١٨ و ٤٢٢۔
(6)Alfred Russel Wallace.
ہے (١)یہ نظریہ ایک خاص جرح و تعدیل کے باوجود بھی علمی اعتبار سے نیز صفات شناسی اور ژنٹیک کے لحاظ سے ایک ایسے نظریہ میں تبدیل نہیں ہوسکا کہ جس کی بے چوں چرا تثبیت ہو جائے اور متفکرین نے تصریح کی ہے کہ آثار اورموجودات شناسی کے ذریعہ انسان کے حسب و نسب کی دریافت کسی بھی طریقہ سے صحیح وواضح نہیں ہے اور انسانوں جیسے ڈھانچوں کے نمونے اور ایک دوسرے سے ان کی وابستگی، نظریہ تکامل کے طرفداروں کے مورد استناد ہونے کے با وجود ان کے نظریات میں قابل توجہ اختلاف ہے ۔
''ایان باربور'' کی تعبیر یہ ہے کہ ایک نسل پہلے یہ رسم تھی کہ وہ تنہا نکتہ جو جدید انسانوں کے نسب کو گذشتہ بندروں سے ملاتا تھا ،احتمال قوی یہ ہے کہ انسان اور بندر کی شباہت ایک دوسرے سے ان کے اشتقاق پر دلالت کرتی ہو اور ہو سکتا ہے کہ نئا ندرتال انسان سے ایسی نسل کی حکایت ہو جو اپنے ابتدائی دور میں بغیر نسل کے رہ گئی ہونیزمنقطع ہو گئی ہو ۔(٢)اوصاف شناسی کے اعتبا رسے معمولی تبدیلیوں میں بھی اختلاف نظر موجود ہے بعض دانشمندوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگرچہ معمولی تحرک قابل تکرارہے لیکن وہ وسیع پیمانہ پر تحرک و فعالیت جو نظریہ تکامل کے لئیضروری
..............
(١)گذشتہ حوالہ: ص ١١١۔١١٤،اگرچہ نظریہ ڈارویس پر وارد تنقیدوں کے مقابلہ میں اس کے مدافعین کی طرف سے متعدد جوابات دیئے گئے ہیں لیکن آج بھی بعض تنقیدیں قانع جوابات کی محتاج ہیں مثال کے طور پر'' والٹر'' جو ''ڈارون'' سے بالکل جدا، فطری طور پر سب سے پہلے انتخاب کو نظام سمجھتا ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اور بندر کی عقل کے درمیان موجودہ فاصلہ کو جیسا کہ ڈارون نے اس سے پہلے ادعا کیا تھا ، بدوی قبائل پر حمل نہیں کرسکتے ہیں اس لئے کہ ان کی دماغی قوت ترقی یافتہ متمدن قوموں کی دماغی قوت کے مطابق تھی لہٰذا فطری انتخاب انسان کی بہترین دماغی توانائی کی توجیہ نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا عقیدہ ہے کہ بدوی قوموں کی عقلی توانائیاں ان کی سادہ زندگی کی ضرورتوں سے زیادہ تھی ، لہٰذا ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے اس سے چھوٹا مغز بھی کافی تھا ۔ فطری انتخاب کے اعتبار سے بندر وں سے زیادہ انسان کو دماغ دینا چاہیئے جب کہ ایسے انسانوں کا دماغ ایک فلسفی کے دماغ سے چھوٹا ہے ۔ ( ایان باربور ؛ علم و دین ؛ ص ١٤٤و ١١٥)
(٢)ایان باربور؛ گذشتہ حوالہ : ص ٤٠٢و ٤٠٣۔
ہیں بہت کم ہے۔ اور مردم شماری کے قوانین کے اعتبار سے قابل پیش بینی نہیں ہے، اس کے علاوہ ہو سکتا ہے کہتجربہ گاہوں کے مطالعات ایک طرح کی اندرونی تبدیلیوں کی تائید کریں، لیکن تدریجی تبدیلیوں کے زیر اثر جدید اقسام کے وسیع حلقوںکی تشکیل کے اثبات سے ناتواں ہیں،اور ایک متحرک فرد کا کسی اجتماعی حلقہ اور بڑے گروہ میں تبدیل ہو جانا، ایک سوالیہ نشان ہے اور اس وسیع افعال پر کسی بھی جہت سے واضح دلائل موجود نہیں ہیں ۔(١) دوسری مشکل صفات کا میراثی ہونا ہے جب کہ ان کا اثبات معلومات و اطلاعات کے فراہم ہونے سے وابستہ ہے جس کو آئندہ محققین بھی حاصل نہیں کرسکیں گے یا موجودہ معلومات واطلاعات کی وضاحتوں اور تفاسیر سے مربوط ہے جس کو اکثر ماہرین موجودات شناسی نے قبول نہیں کیا ہے ۔ (٢)بہر حال ان نظریات کی تفصیلی تحقیق و تنقید اہم نہ ہو نے کی وجہ سے ہم متعرض نہیں ہوںگے، مختصر یہ کہ انسان کے بارے میں ڈارون کا نظریہ تنقیدوں ، مناقشوں اور اس میں تناقض کے علاوہ صرف ایک ظنی اور تھیوری سے زیادہ ،کچھ نہیں ہے (٣) مزید یہ کہ اگر اس نظریہ کو قبول بھی کرلیا جائے تو کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس میں خدا کے ارادہ کے باوجود کسی ایک شی ٔمیں بھی فطری حرکت غیر عادی طریقہ سے نقض نہ ہوئی ہو، اور حضرت آدم فقط خاک سے خلق نہ ہوئے ہوں ،اس کے باوجود یہ نظریہ ڈاروین کی تھیوری کے مطابق فقط انسانوں کی خلقت کے امکان کو ثابت کرتا ہے، اس راہ سے موجودہ نسل کی خلقت کی ضرورت و التزام کو ثابت نہیں کرتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ دوسرے انسان اس راہ سے وجود میں آئے ہوں اور نسل منقطع ہوگئی ہو ، لیکن موجودہ نسل جس طرح قرآن بیان کرتا ہے اسی طرح روئے زمین پر خلق ہوئی ہے ،قابل ذکر ہے کہ قرآن
ایسے انسانوں کے خلق ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جن کی موجودہ نسل ان تک نہیں پہونچتی ہے نیز ان کی خلقت کی کیفیت کے بارے میں ،خاموش ہے ۔
جو کچھ بیان ہوچکا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ سب سے پہلے انسان کی خلقت سے مربوط آیات کے مفاہیم، انسان کے سلسلہ میں ڈاروین کی تھیوری کے مطابق نہیں ہے لہٰذا جن افراد نے قرآن کریم کے بیانات سے دفاع کے لئے مذکورہ آیات کی توجیہ کی ہے انہیں توجہ رکھنا چاہیئے کہ ایسی توجیہیں صحیح نہیں ہیں بلکہ'' تفسیر بالرای''ہے، اس لئے کہ ایسے نظریات جو ضروری اور صحیح دلیلوں نیزتائیدوں سے خالی ہوں وہ مذکورہ آیات کی توجیہ پر دلیل نہیں بن سکتے ہیں ،چہ جائے کہ توجیہ اور ظاہر آیات کے مفہوم سے استفادہ نہ کرنا فقط ایک قطعی اور مذکورہ آیات کے مخالف فلسفی یا غیر قابل تردید علمی نظریہ کی صورت میں ممکن ہے جب کہ ڈاروین کا نظریہ ان امتیازات سے خالی ہے ۔
..............
(١)گذشتہ حوالہ : ص ٤٠٣۔
(٢)گذشتہ حوالہ : ص ٤٠٤۔
(٣)کارل پاپر(Karl Raimond Popper) '' جستجوی ناتمام '' کتاب میں لکھتا ہے : نئے نظریہ تکامل کے ماننے والوں نے زندگی کے دوام کو انطباق یا ماحول کی سازش کا نتیجہ بتایا ہے ، ایسے ضعیف نظریہ کے تجربہ کا امکان تقریباً صفر ہے ( ص ٢١١)