خلاصہ فصل
١۔انسان کی خود فراموشی انسان شناسی کے مہم ترین مسائل میں سے ہے جو انسانی علوم کے مختلف موضوعات میں مورد توجہ رہی ہے ۔
٢۔انسانی اور اجتماعی علوم کے مباحث میں علمی اور فنی طریقہ سے خود فراموشی کی توضیح وتحلیل کو ١٨ویں اور ١٩ویں صدی عیسوی کے بعض مفکرین مخصوصاً ہگل ، فیور بیچ اور مارکس کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔
٣۔دین اور خود سے بے توجہی کے رابطہ میں ان تین مفکروں کا وجہ اشتراک یہ ہے کہ دین، بشر کی بے توجہی کی وجہ سے وجود میں آیا ہے ،یہ گفتگو خود فراموشی کے مسئلہ میں ادیان آسمانی مخصوصا اسلام اور قرآن کے تفکر کا نقطۂ مقابل ہے ۔
٤۔ قرآن کی روشنی میں انسان کی حقیقت کو اس کی دائمی روح ترتیب دیتی ہے جو خدا سے وجود میں آئی ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جائے گی ۔انسان کی حقیقی زندگی عالم آخرت میں ہے جسے اس دنیا میں اپنے ایمان اور سچی تلاش سے تعمیر کرتا ہے ۔ لہٰذا انسان کاخدا شناسی سے غفلت در حقیقت واقعیت سے غفلت ہے اور وہ انسان جو خدا کو فراموش کردے گویااس نے اپنے وجود کو فراموش کیا ہے اور اپنے آپ سے بے توجہ ہے ۔
٥۔قرآن کی نظر میں دوسرے کو اپنا نفس تسلیم کرتے ہوئے اسے اصل قرار دینا ، روحی تعادل کا درہم برہم ہونا ،بے ہدفی ، بے معیاری ، بیہودہ حالات کی تغییر ،پر قدرت اور آمادگی کا نہ ہونا ، مادہ اور مادیات کو اصل قرار دینا اور عقل و دل سے استفادہ نہ کرنا وغیرہ خود فراموشی کے اسباب ہیں ۔
٦۔ خود فراموش معاشرہ ؛ وہ معاشرہ ہے جو اپنے اجتماعی حقیقت کو فراموش کردے اور زندگی کے مختلف گوشوں میں اپنے سے پست معاشرہ کو یا اپنے غیر کو اپنے لئے نمونہ عمل بناتا ہے ۔
٧۔ خود فراموشی کے بحران سے بچنے کی راہ، اپنی حقیقت کو سمجھنا اور خود کو درک کرنا ہے ،اور خود فراموشی کا علاج ؛ ماضی کی تحلیل و تحقیق اور خود کو درک کرنے سے وابستہ ہے ۔
تمرین
١۔وہ مختلف مفاہیم جو ہمارے دینی آداب و رسوم میں فردی اور اجتماعی خود فراموشی پر نظارت رکھتے ہیں ، کون کون سے ہیں اور ان کے درمیان کیا نسبت ہے ؟
٢۔بکواس، خرافات ، شکست خوردگی، دوسروں کے رنگ میں ڈھل جانا ، سیاسی بے توجہی ، بد نظمی غرب پرستی ، علمی نشر ، ٹکنالوجی ، اندھی تقلید وغیرہ کا فردی اور اجتماعی خود فراموشی سے کیا نسبت ہے ؟
٣۔فردی اور اجتماعی خود فراموشی سے بچنے کے لئے دین اور اس کی تعلیمات کا کیا کردار ہے ؟
٤۔چند ایسے دینی تعلیمات کا نام بتائیں جو خود فراموشی کے گرداب میں گرنے سے روکتی ہیں ؟
٥۔اعتبارات کے سلسلہ میں تعصب ، عقیدتی اصول سے نئے انداز میں دفاع ، خدا پر بھروسہ اور غیر خدا سے نہ ڈرنے وغیرہ کاخود فراموشی کے مسئلہ میں کیا کردار ہے اور کس طرح یہ کردار انجام پانا چاہیئے ؟
٦۔خود فراموشی کے مسئلہ میں خواص (برگزیدہ حضرات ) جوانوں ، یونیورسٹیوں اور مدارس کا کیارول ہے ؟
٧۔ ہمارے معاشرے میں اجتماعی و فردی خود فراموشی کو دور کرنے اور دفاع کے لئےآپ کا مور د نظر طریقۂ عمل کیا ہے ؟
٨۔ اگر یہ کہا جائے کہ : انسان مومن بھی خدا کو اپنے آپ پر حاکم قرار دیتا ہے لہٰذاخود فراموش ہے، اس نظریہ کے لئے آپ کی وضاحت کیا ہوگی ؟
مزید مطالعہ کے لئے
.آرن ریمن (١٣٧٠) مراحل اساسی اندیشہ در جامعہ شناسی ؛ ترجمہ باقر پرہام ، تہران : انتشارات آموزش انقلاب اسلامی ۔
. ابراہیمی ، پریچہر( پاییز ١٣٦٩) نگاہی بہ مفہوم از خود بیگانگی ؛ رشد آموزش علوم اجتماعی ، سال دوم ۔
. اقبال لاہوری ، محمد (١٣٧٥) نوای شاعر فردا یا اسرار خودی و رموز بی خودی ؛ تہران : موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ۔
. پاپنہام ، فریتز( ١٣٧٢ ) عصر جدید : بیگانگی انسان ؛ ترجمہ مجید صدری ، تہران : فرہنگ ، کتاب پانزدہم ، موسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی ۔
. جوادی آملی ، عبد اللہ ( ١٣٦٦)تفسیر موضوعی قرآن ؛ ج٥ تہران : رجاء
. دریابندی ، نجف ( ١٣٦٩) درد بی خویشتنی ؛ تہران ، نشر پرواز ۔
. روزنٹال و . ( ١٣٧٨) الموسوعة الفلسفیة ؛ ترجمہ سمیر کرم ؛ بیروت : دار الطبیعہ ۔
. زیادہ معن ( ١٩٨٦) الموسوعة الفسفیة العربیة ؛ بیروت : معھد الانماء العربی .
.سوادگر ، محمد رضا ( ١٣٥٧) انسان و از خود بیگانگی (بی نا )( بی جا)
. طہ فرج عبد القادر ( ١٩٩٣) موسوعة علم النفس و التحلیل النفسی ؛ کویت : دار سعادة الصباح
. قائم مقامی ، عباس ؛ ( خرداد و تیر ١٣٧٠ ) از خود آگاہی تا خدا آگاہی ؛ کیہان اندیشہ .
.کوزر ، لویس (١٣٦٨ ) زندگی و اندیشہ بزرگان جامعہ شناسی ؛ ترجمہ محسن ثلاثی ، تہران : انتشارات علمی .
. مان ، ( ١٤١٤) موسوعة العلوم الاجتماعیہ ؛ ترجمہ عادل مختار الہواری و .؛ مکتبة الفلاح ، الامارات العربیة المتحدة ۔
. محمد تقی مصباح ( ١٣٧٧) خود شناسی برای خود سازی ؛ قم : آموزشی و پژوہشی امام خمینی ۔
. مطہری ، مرتضی ( ١٣٥٤) سیری در نہج البلاغہ ؛ قم : دار التبلیغ اسلامی .
. نقوی ، علی محمد ( ١٣٦١) جامعہ شناسی غرب گرایی ، تہران : امیر کبیر ۔
ملحقات
خود فراموشی کے موجدین کے نظریات
خود فراموشی کے مسئلہ کو ایجاد کرنے والوں کے نظریات سے آشنائی کے لئے ہم ہگل ، فیور بیچ اور مارکس کے نظریات کو مختصراً بیان کریں گے ۔
فرڈریچ ویلیم ہگل(١) ( ١٨٣١۔١٧٧٠ )
ہگل معتقد ہے کہ یونانی شہر میں شہری (فرد )اور حکومت (معاشرہ ) کا جورابطہ ہے وہ افراد کی حقیقی شخصیت ہے، یہ وہ برابری اور مساوات کا رابطہ ہے جو خود فراموشی کے مسئلہ سے عاری ہے ۔ لیکن یونانی شہر و معاشرہ کے زوال کے ساتھ ہی اپنے اور دوسرے شہری رابطہ کا عقل سے رابطہ ختم ہوگیاہے، اس مساوات اور برابری کو دوبارہ متحقق کرنے کے لئے فردی و ذاتی آزادی سے چشم پوشی کرنے کے علاوہ کوئی راہ نہیں ہے اور یہ وہی خود فراموشی ہے ۔ہگل خود فراموشی کی حقیقت کو اس نکتہ میں پوشیدہ مانتا ہے کہ انسان احساس کرتا ہے کہ اس کی شخصی زندگی اس کی ذات سے خارج بھی ہے یعنی معاشرہ اور حکومت میں ہے۔وہ خود فراموشی کے خاتمہ کو زمانہ روشن فکری میں دیکھتا ہے کہ جس میں خود فراموشی کو تقویت دینے والے حقائق کی کمی ہو جاتی ہے ،خارجی انگیزہ ایک حقیقی چیز ہے جو سو فیصدی مادی، محسوس اور ملموس ہے ۔ دینی مراکز اور حکومت خوف و اضطراب پیدا کرنے والی چیزیں نہیں ہیں بلکہ یہ مادی دنیا کا بعض حصہ ہیں
..............
(1)Georg Wilhilm Friedrich
جس میں تحلیل اور علمی تحقیقہوتی ہے ۔ اس طرح وجود مطلق (خدا) صرف ایک بے فائدہ مفہوم ہوگا اس لئے کہ مادی امور میں علمی تحقیق کے باوجود کوئی وصف اس (خدا)کے لئے نہیںہے اور نہ ہی کشف کیا جاسکتا ہے اور خدائے آفرینش ، خدائے پدر ، اورخدائے فعال کا مرحلہ یہیں پرختم ہوجاتا ہے اور ایسی عظیم موجود میں تبدیل ہوجاتا ہے جس کو کسی وصف سے متصف ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح انسان کی ذات ایک اہم حقیقت اور امور کا مرکز ہو جائے گی ۔ ہگل معتقد تھا کہ بادشاہی اور کلیسا ( حکومت و دین ) کو اپنے صحیح مقام پر لانے کے لئے اصلاحی افکار نے انسان کو حاکم بنایا کہ جس نے صحیح راستہ انتخاب کیاہے۔ لیکن انسان کی حقیقت سے برتر نفس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے غلطی اور خطا میں گرفتار ہوگئے ہیں ۔ لیکن اس بات کا یقین ہے کہ خود فراموشی اس وقت پوری طرح سے ختم ہوگی جب قدیم آداب و اخلاق نابود ہو جائیں گے ۔ ایسی انسانی شخصیت کو ہم نہ مانیں جو مسیحیت میں بیان ہوئی ہیں بلکہ ایسے سرمایہ داری والے معاشرہ کو ایجاد کریں جو انسانی حقوق کاعلمبردارہیں ۔ (١)
فیور بیچ (٢)(١٨٣٢۔١٧٧٥)
فیور بیچ معتقد تھا کہ انسان ،حق ،محبت اور خیر چاہتا ہے چونکہ وہ اس کو حاصل نہیں کرسکتا لہٰذا اس کی نسبت ایک بلند و برتر ذات کی طرف دیتا ہے کہ جس کو انسان خدا کہتا ہے،اوراس میں ان صفات کو مجسم کرتا ہے اور اس طرح خود فراموشی سے دوچار ہو جاتا ہے، اسی بنا پر دین انسان کی اجتماعی ، معنوی ، مادی
..............
(١)میدان اقتصاد میں بھی ہگل نے خود فراموشی کو مد نظر رکھاوہ معتقد تھا کہ عمل کی تقسیم اور اس کااختلاف ،اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے اوراس چیز کا وہ محتاج ہوتا ہے جس کو وہ ایجاد کرتا ہے اور اپنے غیر پر اعتماد کا سبب (غیروں کی صنعت و ٹکنیک)اور اس پر مسلط اور انسان سے بہترایسی قوت کے ایجاد کا سبب ہے جو اس کے حیز امکان سے خارج ہے اور اس طرح غیراس پر مسلط ہو جاتا ہے ۔مارکس نے اس تحلیل کو ہگل سے لیا ہے اور اس میں کسی چیز کا اضافہ کئے بغیر اپنی طولانی گفتگو سے واضح کیا ہے اور اس تحلیل سے فقط بعض اقتصادی نتائج کو اخذ کیا ہے .ملاحظہ ہو: زیاد معن ؛ الموسوعةالفلسفیة العربیة۔
(2)Anselm Von FeuerBach.
ترقی کی راہ میں حائل سمجھا جاتا ہے ،وہ معتقد ہے کہ انسان اپنی ترقی کی راہ میں دین اور خود فراموشی کی تعبیر سے بچنے کے لئے تین مرحلوں کو طے کرتا ہے یا طے کرنا چاہیئے ۔پہلے مرحلہ میں : خدا اور انسان دین کیحوالے سے باہم ملے ہوئے ہیں ۔ دوسرے مرحلہ میں : انسان خدا سے جدا ہونا جاتا ہے تاکہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے اور تیسرے مرحلہ میں: کہ جس کے حصول کے لئے فیور بیچ سبھی کو دعوت دیتا ہے وہ انسانی علم کا مرحلہ ہے جس میں انسان اپنی حقیقت کو پا لیتا ہے اور اپنی ذات کا مالک ہو جاتا ہے ایک اعتبار سے انسان ، انسان کا خداہوتا ہے اور خدا و انسان کے رابطہ کے بجائے ایک اعتبار سے انسان کا انسان سے رابطہ بیان ہوتا ہے ۔ (١)
کارل مارکس (٢)(١٨١٨۔ ٣ ١٨٨ )
کارل مارکس جو کسی بھی فعالیت کے لئے بلند و بالا مقام کا قائل ہے وہ کہتا ہے کہ انسان خدائی طریقہ سے یا عقل کے ذریعہ اپنی حقیقت کو نہیں پاتا ہے بلکہ نایاب فعل کے ذریعہ دنیا سے اتحاد برقرار رکھتے ہوئے ، کردار ساز افعال نیزہماہنگی و حقیقی اجتماعی روابط سے اپنی ذات کو درک کرتاہے، لیکن سرمایہ داری کے نظام میں مزدوروں کا کام ہر طرح کے انسانی احترام سے خالی ہے ۔ مزدور اپنے عمل کو بیچ کر فائدہ حاصل کرنے والے اسباب میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ نہ تو وہ اپنے فعل میں خود کو پاتا ہے اور نہ ہی دوسرے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اس فعل کا موجد ہے ۔ اس طرح اس کے کام سے اس کی زندگی کے افعال اور اس کی انسانی حقیقت جدا ہے غرض یہ کہ خود فراموش ہو جاتا ہے ۔
..............
(١)فیوربیچ نے انسان کا ہدف معرفت، محبت اور ارادہ بیان کیا ہے اور بعض تحریف شدہ تعلیمات ِدین سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی تحلیل میں کہتا ہے کہ کس طرح دین، انسان کے ارادہ ، محبت اور عقل کو صحیح راہ سے منحرف اور فاسد کردیتا ہے اور اس کو انسان کے مادی منافع کی تامین میں بے اثر بنادیتا ہے ،مارکس کے نظریہ میںدینی تعلیمات کے حوالے سے تحریف شدہ مطالب سے استفادہ کاایک اہم کردار ہے ۔
Karl marx.(2)
''فیور بیچ'' کی طرح مارکس کا یہ نظریہ ہے کہ انسان کی ساری ترقی و پیشرفت کی راہ میں دین بھی حائل ہے نیز انسان کی ناکامی کے علاوہ اس کی بے توجہی کا سبب بھی ہے، دین وہ نشہ ہے جو لوگوں کو عالم آخرت کے وعدوں سے منقلب اور ظالم حکومتوں کی نافرمانی سے روکتا ہے اور انسان کی حقیقی ذات کے بجائے ایک خیالی انسان کو پیش کرتا ہے اوراس طرح خود فراموش بنا دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ انسان پرمنحصر ہے کہ دین کو نابود کرکے خود فراموشی سے نجات اور حقیقی سعادت کے متحقق ہونے کے بنیادی شرط کو فراہم کرے! (١)
مذکورہ نظریوں کی تحقیق و تحلیل کے لئے جدا گانہ فرصت و محل کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نظریہ اپنے اصولوں کے لحاظ سے اور مذکورہ مسائل کی جو تحلیل پیش کی گئی ہے اس کے اعتبار سے اور ان نظریات میں پوشیدہ انسان شناسی کا تفکربھی اپنے اسباب و نتائج کے اعتبار سے سخت قابل تنقید ہے لیکن اس تھوڑی سی فرصت میں ان گوشوں کی تحقیق ممکن نہیں ہے البتہ یہاں صرف ایک نکتہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ یہ تینوں نظریے اور اس سے مشابہ نظریہ ایک طرف تو انسان کو فقط اس مادی دنیا کی زندگی میں محدود کرتے ہیں اور دوسری طرف خدا کو دانستہ یا نا دانستہ بشر کے ذہن کی پیداوار سمجھتے ہیں جب کہ یہ دونوں مسئلے کسی بھی استدلال و برہان سے خالی ہیں اور ان دونوں بنیادی مسائل کیختم ہونے کے بعد ان پر مبنی تحلیلیں بھی ختم ہو جاتی ہیں ۔
..............
(١)ملاحظہ ہو:
.بدوی ، عبد الرحمٰن ، موسوعة الفلسفة
.آرن ، ریمن ؛ مراحل اساسی اندیشہ در جامعہ شناسی ،ترجمہ باقر پرہام ، ج١ ص ١٥١،٢٣٢۔
.زیادہ معن ،موسوعة الفلسفة العربیة .
.ان ، مائکل ، موسوعة العلوم الاجتماعیة.
.کوزر ، لوئیس ؛ زندگی و اندیشہ بزرگان جامعہ شناسی ؛ ترجمہ محسن ٹلاثی ؛ ص ٧٥،١٣١۔
|