مادہ اور مادیات کی حقیقت
جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ انسان کے حقیقی وجود کو اس کا روحانی اور معنوی پہلو مرتب کرتا ہے، لیکن اگر انسان خود کوغیر سمجھے گا تو ظاہر ہے کہ اس نے دوسرے فرد کے وجود کو اپنا وجود سمجھا ہے ۔ قرآن کے اعتبار سے بعض خود فراموش افراد ہمیشہ اپنی حقیقی جگہ ،حیوانیت کو بٹھاتے ہیں اور جب حیوانیت انسانیت کی جگہ قرارپاجائے تو یہی سمجھا جائے گا کہ جو بھی ہے یہی جسم اور مادی نعمتیں ہیں، تو ایسی صورت میں انسان مادی جسم اور حیوانی خواہشات کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور اس کی دنیا بھی مادی دنیا کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،ایسے حالات میں خود فراموش انسان کہے گا (و َمَا أَظُنُّ السَّاعَةَ قَائِمَةً)(١)''میں گمان نہیں کرتا تھا کہ قیامت بھی ہے ''اور کہے گا کہ :(مَا ھِیَ لاّ حَیَاتُنَا الدُّنیَا نَمُوتُ وَ نَحیَا وَ مَا یُھلِکُنَا لاّ الدَّھرُ)(٢)''ہماری زندگی تو بس دنیا ہی ہے ،مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم کو تو بس زمانہ ہی مارتا ہے ''
اس فکر کے اعتبار سے اس انسان کی ضرورتیں بھی حیوانی ضرورتوں کی طرح ہو جائیں گی جیسے کھانا ،پینا،اوڑھنا، پہننا اور دوسرے دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونا(وَ الَّذِینَ کَفَرُوا یَتَمَتَّعُونَ وَ یَأکُلُونَ کَمَا تَأکُلُ الأَنعَامُ)(٣)اورجو لوگ کافر ہوگئے ہیں جانوروں کی طرح کھاتے ہیں اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہوتے ہیں جیسے کہ ان کا کمال اسی مادی بہرمندی و دنیاوی کمالات اور اسی مسرت بخش لذتوں کا حصول ہے ۔ (وَ فَرِحُوا بِالحَیَاةِ الدُّنیَا)(٤)ایسے انسان کے لئے ذرا سی جسمانی بیماری بہت ہی اہم اور بے تابی کا سبب بن جاتی ہے (ذَا مَسَّہُ الشَرُّ جَزُوعاً)(٥)''جب اسے تکلیف چھو بھی گئی تو گھبرا گیا''لیکن معنوی تنزل کی کثرت
..............
(١)کہف، ٣٦
(٢)جاثیہ ،٢٤
(٣)محمد ، ١٢
(٤)رعد ،٢٦
(٥)معارج ، ٢٠۔
جس سے وہ دوچار ہوا ہے اور روحی و جسمانی بیماری کا پہاڑ جس سے وہ جاں بلب ہے درک نہیں کرتا ہے بلکہ وہ اعمال جو بیماری اور سقوط کا ذریعہ ہیں انہیں اچھا سمجھتا ہے اس لئے کہ اگر حیوان ہے تو یقینا یہ چیزیں اس کے لئے بہتر ہیں اور ہم کہہ چکے ہیں کہ وہ خود کو حیوان سمجھتا ہے ۔
(قُل ھَل نُنَبِّئُکُم بِالأَخسَرِینَ أعمَالاً ٭ الَّذینَ ضَلَّ سَعیُھُم فِیالحَیاةِ
الدُّنیَا وَ ھُم یَحسَبُونَ أَنَّھُم یُحسِنُونَ صُنعاً)(١)
تم کہدو کہ کیا ہم ان لوگوں کا پتہ بتا دیں جو لوگ اعمال کی حیثیت سے بہت گھاٹے
میں ہیں ،وہ لوگ جن کی دنیاوی زندگی کی سعی و کوشش سب اکارت ہوگئی اوروہ
اس خام خیال میں ہیں کہ وہ یقینا اچھے اچھے کام کر رہے ہیں ۔
ایساانسان اگر کسی درد کو حیوان کا درد سمجھے ، تو علاج کو بھی حیوانی علاج سمجھتا ہے اور سبھی چیزوں کو مادی زاویہ سے دیکھتاہے ، حتی اگر خدا اس کو سزا دے توعبرت و بازگشت کے بجائے اس سزا کی بھی مادی تجزیہ و تحلیل کرتا ہے ۔
(وَ مَا أَرسَلنَا فِی قَریَةٍ مِن نَبِیٍّ لاّ أَخَذنَا أھلَھَا بِالبَأسَائِ وَ الضَّرَّائِ لَعَلَّھُم
یَضَّرَّعُونَ ٭ ثُمَّ بَدَّلنَا مَکَانَ السَّیِّئَةِ الحَسَنَةَ حَتَّیٰ عَفَوا وَّ قَالُوا قَد
مَسَّ ئَ ابَائَ نَا الضَّرَّائُ وَ السَّرَّائُ فَأَخَذنَاھُم بَغتَةً وَ ھُم لا یَشعُرُونَ)(٢)
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہیں بھیجا مگر وہاں کے رہنے والوں کو سختی اور مصیبت
میں مبتلا کیا تاکہ وہ لوگ گڑ گڑائیں، پھر ہم نے تکلیف کی جگہ آرام کو بدل دیا
یہاں تک کہ وہ لوگ بڑھ نکلے اور کہنے لگے کہ اس طرح کی تکلیف و آرام تو
..............
(١)کہف ، ١٠٣و ١٠٤۔
(٢)اعراف ، ٩٤و ٩٥۔
ہمارے آباء و اجداد کو پہونچ چکی ہے تب ہم نے بڑی بولی بولنے کی سزا میں
گرفتار کیا اور وہ بالکل بے خبر تھے ۔
عقل و دل سے استفادہ نہ کرنا
جو بھی خود فراموشی کا شکار ہوتا ہے وہ شیطان ، حیوان یا کسی دوسرے وجود کو اپنی ذات سمجھتا ہے اور اس کے زیر اثر ہو جاتا ہے اور خود کو اسی دنیا اور اس کی لذتوں میں منحصر کر لیتا ہے ،آخر کار اپنے انسانی عقل و قلب کی شناخت کے اسباب پر مہر لگا کر حقیقت کی راہوں کو اپنے لئے بند کرلیتا ہے ۔
(ذٰلکَ بِأنَّھُمُ استَحَبُّوا الحَیَاةَ الدُّنیَا عَلیٰ الآخِرَةِ وَ أنَّ اللّٰہَ لا یَھدِی
القَومَ الکَافِرِینَ ٭ أولٰئِکَ الَّذِینَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلیٰ قُلُوبِھِم وَسَمعِھِم
وَ أبصَارِھِم وَ أولٰئِکَ ھُمُ الغَافِلُونَ )(١)
اس لئے کہ ان لوگوں نے دنیا کی چند روزہ زندگی کو آخرت پر ترجیح دی اوروہ اس وجہ
سے کہ خدا کافروں کو ہرگز منزل مقصود تک نہیں پونچایا کرتا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے
دلوں،کانوں اور ان کی آنکھوں پر خدا نے علامت مقرر کردی ہے جب کہ وہ لوگ
بے خبر ہیں۔
قلب و سماعت اور ان کی آنکھوں پر مہر لگانا حیوانی زندگی کے انتخاب اور اسی راہ پر گامزن ہونے سے حاصل ہوتا ہے ،اور یہ سب حیوانی زندگی کے انتخاب کا نتیجہ ہے اسی بنا پر ایسا انسان حیوان سے بہت پست ہے (أولٰئِکَ کَالأنعَامِ بَل ھُم أضَلُّ أولٰئِکَ ھُمُ الغَافِلُونَ)(٢)اس لئے کہ حیوانات نے حیوانیت کا انتخاب نہیں کیا ہے بلکہ حیوان خلق ہوئے ہیں اور ان کی حیوانیت کی راہ میں خود فراموشی نہیں ہے لیکن انسان جوانسان بنایا گیا ہے اگر حیوانیت کو انتخاب کرے تویہ اس کے خود فراموش ہونے کی وجہ ہے ۔
..............
(١) نحل، ١٠٧و ١٠٨
(٢)اعراف ، ١٧٩
خود فراموشی اور حقیقی توحید
ممکن ہے کہ کہا جائے کہ مومن انسان بھی خدا کو اپنے آپ پر حاکم قرار دیتا ہے ،اس کی خواہش کو اپنی خواہش سمجھتا ہے اور جو بھی وہ کہتا ہے عمل کرتا ہے اور توحید و ایمان کا نقطہ اوج بھی سراپا اپنے آپ کو خدا کے حوالہ کرنا اور خود کو فراموش کرنا ہے، اس طرح سے تو موحد انسان بھی خود فراموش ہے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا تھا کہ انسان کے لئے ایک الٰہی واقعیت و حقیقت ہے جس سے وہ وجود میں آیا ہے اور اسی کی طرف پلٹایا جائے گا ، تو اس کی حقیقت و شخصیت ، خود خدا سے مربوط اور اسی کے لئے تسلیم ہونا ہی اپنے آپ کو پالینا ہے ،خدا ہی ہماری حقیقت ہے اور ہم خدا کے سامنے تسلیم ہو کے اپنی حقیقت کو پالیں گے ۔
ع: ہر کس کہ دور ماند از اصل خویش
باز جوید روزگار وصل خویش
جو بھی اپنی حقیقت سے دور ہوگیا وہ ایک دن اپنی حقیقت کو ضرور پالے گا ۔
(نَّا لِلّٰہِ وَ نَّا لَیہِ رَاجِعُونَ)(١)'' ہم خدا کے لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جائیں گے'' اگر خود کو درک کر لیا تو خدا کوبھی درک کرلیں گے ،اگر اس کے مطیع ہوگئے اور خدا کو درک کرلیا تو خود کو گویاپالیاہے ۔ ''در دوچشم من نشستی کہ از من من تری ''اگر تم میری آنکھوں میں سما گئے ہو تو گویا تم میں مجھ سے زیادہ منیت ہے۔اس اعتبار سے حدیث ''مَن عَرفَ نَفسَہ فَقَد عَرفَ رَبَّہ''''جس نے خود کو پہچانا یقیناً اس نے اپنے رب کو پہچان لیا ''اور آیت (وَ لا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰہَ فَأنسَاھُم أَنفُسَھُم)(٢)کے لئے ایک نیا مفہوم اور معنی ظاہر ہوتا ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ بعض آیات میںخود کو اہمیت دینے کی ملامت سے مراد اپنے نفس کو اہمیت دینا اور آخرت سے غافل ہونا اور خدا کے وعدوں پر شک کرنا ہے جیسے یہ آیت :
..............
(١)سورۂ بقرہ ١٥٦
(٢)حشر، ١٩
(وَ طَائِفَة قَد أھَمَّتھُم أَنفُسُھُم یَظُنُّونَ بِاللّٰہِ غَیرَ الحَقِّ ظَنَّ الجَاھِلِیَّةِ)
اور ایک گروہ جن کو (دنیاوی زندگی )اور اپنی جان کی فکر تھی خدا کے ساتھ زمانہ جاہلیت
جیسی بد گمانیاں کرنے لگے ۔(١)
اجتماعی اور سماجی بے توجہی (اجتماعیحقیقت کا فقدان )
خود فراموشی کبھی فردی ہے اور کبھی اجتماعی ہوتی ہے، جو کچھ بیان ہو چکاہے فردی خود فراموشی سے مربوط تھا ۔ لیکن کبھی کوئی معاشرہ یاسماج خود فراموشی کا شکار ہوجاتا ہے اور دوسرے معاشرہ کو اپنا سمجھتا ہے، یہاں بھی دوسرے معاشرہ کی حقیقت کو اپنی حقیقت سمجھتا ہے اور دوسرے معاشرہ کو اصل قرار دیتا ہے ۔
تقی زادہ جیسے افراد کہتے ہیں :ہمارے ایرانی معاشرہ کی راہ ترقی یہ ہے کہ سراپا انگریز ہوجائیں،ایسے ہی افراد ہمارے معاشرہ کو خود فراموش بنا دیتے ہیں ،اور اسی طرح کے لوگ مغربی معاشرہ کو اپنے لئے اصل قرار دیتے ہیں اورمغرب کی مشکلات کو اپنے سماج و معاشرہ کی مشکل اور مغرب کے راہ حل کو اپنے معاشرہ کے لئے راہ حل سمجھتے ہیںلیکن جب مغربی لوگ آپ کی مشکل کا حل پیش نہ کرسکے تو یہ کہدیا کہ یہ مہم نہیں ہے کیوں کہ مغرب میں بھی ایسا ہی ہے بلکہ ایسا ہونا بھی چاہیئے اور ایک ترقی یافتہ معاشرہ کا یہی تقاضا ہے اور ایسے مسائل تو ترقی کی علامت شمار ہوتے ہیں !۔
جب اجتماعی و سماجی مسائل و مشکلات کے سلسلہ میں گفتگو ہوتی ہے تو وہ چیزیں جومغرب میں اجتماعی مشکل کے عنوان سے بیان ہوئی ہیںانہیں اپنے معاشرہ کی مشکل سمجھتے ہیں اور جب کسی مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں تومغرب کے راہ حل کو تلاش کرتے ہیں اور اس کو کاملاً قبول کرتے ہوئے اس کی نمائش کرتے ہیں حتی اگر یہ کہا جائے کہ شاید ہمارا معاشرہ مغربی معاشرہ سے جدا ہے تو کہتے ہیں پرانی تاریخ نہ دہراؤ، وہ لوگ تجربہ اور خطا
..............
(١)آل عمران ، ١٥٤۔
کے مرحلہ کو انجام دے چکے ہیں، ایسے افراداعتبارات ، خود اعتمادی ، دینی تعلیمات حتی کہ قومی اقدار کو معاشرہ کی شناخت میںاور اجتماعی مسائل اوراس کے بحران سے نکلنے کی راہ میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ۔
جو معاشرے دوسرے معاشرہ کو اپنی جگہ قرار دیتے ہیں وہ دوسرے کے آداب و رسوم میں گم ہو جاتے ہیں، انتخاب و اقتباس نہیں کرتے ، کاپی کرتے ہیں، فعال نہیں ہوتے بلکہ فقط اثر قبول کرتے ہیں۔اقتباس وہاں ہوتا ہے جہاں اپنائیت ہو،اپنے رسم و رواج کو پیش کر کے موازنہ کیا گیا ہو اور اس میںبہترین کاانتخاب کیا گیا ہو، لیکن اگر کوئی معاشرہ خود فراموش ہو جائے تو اپنے ہی آداب و رسوم کو نقصان پہونچاتا ہے ، تمام چیزوں سے چشم پوشی کرتا ہے اور خود کو بھول جاتا ہے ۔
استکباری معاشروں کا ایک کام یہی ہے کہ ایک معاشرہ کو خود فراموشی کا شکار بنا دیں ،جب کوئی معاشرہ خود فراموشی کاشکار ہوجائے تو اس کے آداب و رسوم پریلغار کی ضرورت نہیں ہے ۔ثقافتی تفاہم کی صورت میں بھی دوسروں کے آداب و رسوم اپنائے جاتے ہیں۔ وہ چیزیں جو آداب و رسوم پہ حملہ کا سبب واقع ہوتی ہیں وہ معاشرہ کے افراد ہی کے ذریعہ انجام پاتی ہیں ۔ چہ جائیکہ شرائط ایسے ہوں کہ دشمن فتح و غلبہ کے لئے یعنی آداب و رسوم کو منتقل کرنے کے لئے نہ سبھی عناصر بلکہ اپنے پست عناصر کے لئے منظم پروگرام اور پلان رکھتے ہوں توایسی صورت میں اس معاشرہ کی تباہی و نابودی کے دن قریب آچکے ہیں اور آداب و رسوم و اقتدارمیں سے کچھ بھی نہیں بچا ہے جب کہ اس کے افراد موجود ہیںاور وہ معاشرہ اپنی ساری شخصیت کھو چکا ہے اور مسخ ہو گیا ہے ۔(١)
ابنای روزگار بہ اخلاق زندہ اند قومی کہ گشت فاقد اخلاق مردنی است
دنیا کے لوگ اپنے اخلاق کی وجہ سے زندہ ہیں ، جو قوم اخلاق سے عاری ہووہ نابود ہونے والی ہے ۔
..............
(١)اقبال لاہوری ؛امام خمینی اور مقام معظم رہبری کی دینی اور اجتماعی دانشور کی حیثیت سے استقلال و پائداری کی تقویت کے حوالے سے بہت زیادہ تاکید نیز اپنی تہذیب و ثقافت کو باقی رکھنا بھی اسی کی ایک کڑی ہے ۔
اپنے نئے انداز کے ساتھ علم پرستی (١) انسان پرستی (٢) مادہ پرستی(٣) نیز ترقی اور پیشرفت کو صرف صنعت اور ٹکنالوجی میں منحصر کرنا آج کی دنیا اور معاشرے میں خود فراموشی کی ایک جدید شکل ہے ۔(٤)
خود فراموشی کا علاج
خود فراموشی کے گرداب میں گرنے سے بچنے اوراس سے نجات کے لئے تنبیہ اور غفلت سے خارج ہونے کے بعد تقوی کے ساتھ ماضی کے بارے میں تنقیدی جستجو سود مند ہے، اگر فرد یا کوئی معاشرہ اپنے انجام دیئے گئے اعمال میں دوبارہ غور و فکر نہ کرے اور فردی محاسبہ نفس نہ رکھتا ہواور معاشرہ کے اعتبار سے اپنے اور غیر کے آداب و رسوم میں کافی معلومات نہ رکھتاہونیز اپنے آداب و رسوم میں غیروں کے آداب و رسوم کے نفوذ کر جانے کے خطرے سے آگاہ اور فکرمند نہ ہو تو حقیقت سے دور ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے اور یہ دوری اتنی زیادہ بھی ہوسکتی ہے کہ انسان خود کو نیز اپنی تہذیب کو فراموش کردے اور خود فراموشی کا شکار ہو جائے ایسے حالات میں اس کیلئے خود فراموشیسے کوئی راہ نجات ممکن نہیں ہے، قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتا ہے :
(یَأ أیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلتَنظُر نَفس مَا قَدَّمَت لِغَدٍ وَ اتَّقُوا
اللّٰہَ نَّ اللّٰہَ خَبِیر بِمَا تَعمَلُونَ ٭ وَ لا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰہَ
فَأنسَاھُم أَنفُسَھُم أولٰئِکَ ھُمُ الفَاسِقُونَ )(٥)
اے ایماندارو! خدا سے ڈرو ، اور ہر شخص کو غور کرنا چاہیئے کہ کل کے واسطے اس نے
..............
(1)Scientism.
(2)Humanism.
(3)Materialism.
(٤)اگرچہ معاشرتی تہذیب سے بیگانگی ، انسانی اقدار کے منافی ہے لیکن توجہ رکھنا چاہیئے کہ قومی اورمعاشرتی تہذیب خود بہ خود قابل اعتبار نہیں ہوتی بلکہ اسی وقت قابل اعتبار ہے جب اس کے اعتبارات اور راہ و روش انسان کی حقیقی سعادت اور عقلی و منطقی حمایت سے استوار ہوں۔
(٥)سورۂ حشر ، ١٨و ١٩۔
پہلے سے کیا بھیجا ہے اور خدا سے ڈرتے رہو بیشک جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے
باخبر ہے، اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھلا بیٹھے تو خدا نے انہیںایسا
کردیا کہ وہ اپنے آپ کو بھول گئے، یہی لوگ تو بدکردار ہیں۔
خود فراموشی کی مشکل سے انسان کی نجات کے لئے اجتماعی علوم کے مفکرین نے کہا ہے کہ : جب انسان متوجہ ہوجائے کہ خود فراموشی کا شکار ہوگیا ہے تو اپنے ماضی میں دوبارہ غور و فکر اور اس کی اصلاح کرے کیونکہ وہ اپنے ماضی پر نظر ثانی کئے بغیر اپنی مشکل کے حل کرنے کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ہے ،اور آیت میں یہ سلسلہ بہت ہی دقیق اور منظم بیان ہوا ہے جس میں تقوی کو نقطۂ آغاز مانا ہے (یَا أَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ) اگر زندگی کا محور تقوی الٰہی ہو تو خدا کے علاوہ انسان پر کوئی دوسرا حاکم نہیں ہوگا اور انسان خود فراموشی کے حوالے سے ضروری تحفظ سے برخوردار ہے ۔ دوسرا مرحلہ : ان اعمال میں دوبارہ غور فکر ہے جسے اپنی سعادت کے لئے انجام دیا ہے ۔ انسان اس وقت جب وہ کوئی کام خدا کے لئے انجام دیتا ہے ہوسکتا ہے کہ کوئی پوشیدہ طور پر اس پر حاکم ہوجائے لہٰذا ان اعمال میں بھی جس کو خیر سمجھتا ہے دوبارہ غور و فکر کرے اور کبھی اس غور و فکر میں بھی انسان غفلت اور خود فریبی سے دوچار ہو جاتا ہے، اسی بنا پر قرآن دوبارہ فرماتا ہے کہ : (و اتَّقُوا اللّٰہَ)''اللہ سے ڈرو '' قرآن مجیدکے مایۂ ناز مفسرین اس آیت کے ذیل میں کہتے ہیں کہ : آیت میں دوسرے تقوی سے مراد ، اعمال میں دوبارہ غور و فکر ہے، اگر انسان اس مرحلہ میں بھی صاحب تقوی نہ تو خود فریبی سے دوچار اور خود فراموشی کی طرف گامزن ہوجائے گا ،قرآن مجید فرماتا ہے کہ اے مومنو! ایسا عمل انجام نہ دو جس کی وجہ سے خود فراموشی سے دوچار ہوکر خدا کو بھول جاؤ، اس لئے فقط اعمال میں دوبارہ غور وفکر کافی نہیں ہے ،قرآن کی روشنی میں گذشتہ اعمال کا محاسبہ تقوی ٰ الٰہی کے ہمراہ ہونا چاہیئے تاکہ مطلوب نتیجہ حاصل ہوسکے ۔
آخری اور اہم نکتہ یہ ہے کہ شاید ماضی میںافراد یا معاشرے خود اپنے لئے پروگرام بنایا کرتے تھے اور اپنے آپ کو خود فراموشی کی دشواریوں سے نجات دیتے تھے یا اپنے آپ کو فراموش کر دیتے تھے ،لیکن آج جب کہ انسانوں کا آزادانہ انتخاب اپنی جگہ محفوظ ہے تو معمولاً دوسرے لوگ انسانی معاشرے کے لئے پرو گرام بناتے ہیں، اور یہ وہی (اسلامی)تہذیب پر حملہ ہے جو ہمارے دور کا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے ،یہ تصور نہ ہو کہ جب ہم اپنے آپ سے غافل و بے خبر ہیں تو ہمارے خلاف سازشیں نہیں ہورہی ہیں ہمیشہ اس عالمی ممالک کے اجتماعی گروہ ، سیاسی پارٹیاں ، استعماری عوامل اور جاہ طلب قدرتیں اپنے مادی اہداف کی وجہ سے اپنے مقاصد کے حصول اور اس میں مختلف معاشروں اور افراد سے سوء استفادہ کے لئے سازشیںرچتے ہیں ۔ یہ سمجھنا بھولے پن کا ثبوت ہے کہ وہ لوگ انسان کی آرزوؤں ، حقوق بشر اور انسان دوستانہ اہداف کے لئے دوسرے انسانوں اور معاشروں سے جنگ یا صلح کرتے ہیں ،ایسے ماحول میں ان سازشوں اور غیروں کے پروگرام اور پلان سے غفلت ، خطرہ کا باعث ہے اور اگر ہم اس ہلاکت سے نجات پانا چاہتے ہیں تو ہمیں امیر المومنین علی کے طریقہ عمل کومشعل راہ بنانا چاہیئے آپ فرماتے ہیں :
فَما خَلقتُ لیشغلنِی أکل الطیّبات کَالبَھیمةِ المربُوطة ھمّھا
علفھَا .وَ تلھو عمّا یراد بِھا(١)
''میں اس لئے خلق نہیں ہوا ہوں کہ مادی نعمتوں کی بہرہ مندی مجھ کو مشغول رکھے
اس گھریلوجانور کی طرح، جس کا اہم سرمایہ اس کی گھاس ہے. اور جوکچھ اس کے
لئے مرتب کیا گیا ہے اس سے غافل ہے ۔''
اسی بنا پرکبھی انسان خودبے توجہ ہوتا ہے اور کبھی یہ غفلت دوسروں کے پروگرام اوران کی حکمت عملی کا نتیجہ ہوتی ہے ۔انسان کبھی خود کسی دوسرے کو اپنی جگہ قرار دیتا ہے اور خود سے بے توجہ اور غافل ہوجاتا ہے اور کبھی دوسرے افراد اس کی سرنوشت طے کرتے ہیں ، اور اس سے سوء استفادہ کی فکر
..............
(١)نہج البلاغہ ، کلام ٤٥۔
میں لگے رہتے ہیں اور اپنے اہداف کی مناسبت سے خودی کا رول ادا کرتے ہیں ۔ اجتماعی امور میں بھی جو معاشرہ خود سے غافل ہو جاتاہے، استعمار اس کے آداب و رسوم کی اہمیت کو بیان کرتا ہے اور اس کے لئے نمونہ عمل مہیا کرتا ہے ۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ جتنی مقدار میں فردی خود فراموشی ضرر پہونچاتی ہے اتنی ہی مقدار میں انسان کا اپنی تہذیبی اور معاشرتی روایات سے بے توجہ ہونابھی نقصان دہ ہے ان دو بڑے نقصان سے نجات پانے کے لئے اپنی فردی اور اجتماعی اہمیت و حقیقت کا پہچاننا اوراس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
(یَا أیُّھَا الَّذِینَ ئَ امَنُوا عَلَیکُم أَنفُسَکُم لا یَضُرُّکُم مَن ضَلَّ ذا اھتَدَیتُم)
اے ایمان والو! تم اپنی خبر لو جب تم راہ راست پر ہو تو کوئی گمراہ ہوا کرے تم کو نقصان
نہیں پہونچا سکتا ہے۔ (١)
..............
(١)سورۂ مائدہ ، ١٠٥۔
|