انسان شناسی
 

تیسری فصل :
خود فراموشی
اس فصل کے مطالعہ کے بعد آپ کی معلومات :
١۔بے توجہی کے مفہوم کی اختصار کے ساتھ وضاحت کریں ؟
٢۔بے توجہی کے مسئلہ میں قرآن کریم کے نظریات کو بیان کریں ؟
٣۔بے توجہ انسان کی خصوصیات اور بے توجہی کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے کم از کم
پانچ موارد کی طرف اشارہ کریں ؟
٤۔فردی اور اجتماعی بے توجہی کے سد باب کے لئے دین اور اس کی تعلیمات کے کردار کو
بیان کریں ؟
٥۔بے توجہی کے علاج میں عملی طریقوں کی وضاحت کریں ؟

دوسری فصل میں ہم نے بیان کیاہے کہ چودہویں صدی عیسوی کے دوسرے حصہ میں اٹلی اور اس کے بعدیورپ کے دوسرے ملکوں میں ادبی ، ہنری ، فلسفی اور سیاسی تحریک وجود میں آئی جو انسان کی قدر و منزلت کی مدعی تھی جب کہ قرون وسطی میں انسان جیسا چاہیئے تھا مورد توجہ قرار نہیں پاسکا اور اس دور میں بھی انسان ایک طرح سے بے توجہی کا شکار ہوا ہے ،ان لوگوں نے اس دور کے (نظام کلیسائی)موجودہ دینی نظام سے دوری اور روم وقدیم یونان کے صاحبان عقل کی طرف بازگشت کو ان حالات کے لئے راہ نجات مانا ہے اور اس طرح ہیومنزم ہر چیز کے لئے انسان کو معیار و محور قرار دینے کی وجہ سے ایک کلی فکر کے عنوان سے مشہور ہوا ہے۔
گذشتہ فصل میں ہیومنزم کی پیدائش ،اس کی ترکیبات و ضروریات،مقدار انطباق اور اس کی دینی اور اسلامی تعلیمات سے سازگاری کی کیفیت کے سلسلہ میں گفتگو کی تھی اور اس فصل میں ہمارا ارادہ ہیومنزم کی بنیادی چیزوں میں سے ایک یعنی بے توجہی کے مسئلہ کو بیان کرناہے جو بعد کی صدیوں میں بہت زیادہ مورد توجہ رہا ہے یہ ایسا مسئلہ ہے جس کو ہیومنسٹوں نے نا درست تصور کیا ہے اور بعض نے اس مسئلہ کو اس دور کے ہیومنزم کی غلط تحریک کی ایجاد بتایا ہے ۔

مفہوم بے توجہی
ہماری دنیا کی ملموسات و محسوسات میں سے فقط انسان ہی کا وجود وہ ہے جو اپنی حقیقی شخصیت کو بدل سکتا ہے،چاہے توخود کو بلندی بخشے یا خود کو ذلت اور پستی میں تبدیل کر دے اس طرح فقط انسان کی ذات ہے جواپنی حقیقی شخصیت کو علم حضوری کے ذریعہ درک کرتا ہے یا اپنے سے غافل ہو کر خود کو فراموش کر دیتاہے اوراپنی حقیقی شخصیت یعنی اپنے ضمیر کو بیچ کر بیگانگی کا شکار ہوجاتا ہے ۔ (١)
انسان شناسی کے مہم ترین مسائل میں سے ایک انسان کا خود سے بے توجہ ہوجانا ہے جو علوم انسانی کے مختلف موضوعات میں بھی مورد توجہ رہا ہے، یہ مفہوم جویورپ کی زبانوں میں Alienationسے یاد کیا جاتا ہے جامعہ شناسی ، نفسیات ، فلسفی اعتبارات (اخلاقی اور حقوقی ) حتی ماہرین نفسیات کے مفہوم سے سمجھا جاتا ہے اورزیادہ تر علوم انسانی کے مختلف شعبوں میں اسی کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے ۔ کبھی اس مفہوم کا دائرہ اتنا وسیع ہوجاتا ہے کہ'' ڈورکھیم''کہتا ہے: انسان کی بے نظمی Anomic معرفت نفس اور اس کے مثل، شخصیت کے دونوں پہلوؤں کو شامل ہوتی ہے اور کبھی اس نکتہ کی تاکید ہوتی ہے کہ بے توجہی کے مفہوم کو ان مفاہیم سے ملانا نہیںچاہیئے ۔ (٢)
یہ لفظ Alienation(٣)ایک عرصہ تک کبھی مثبت پہلو کے لئے اور زیادہ تر منفی اور مخالف پہلو
..............
(١)خود فراموشی کا مسئلہ انسان کی ثابت اور مشترک حقیقت کی فرع ہے اور جو لوگ بالکل انسانی فطرت کے منکرہیں وہ اپنے نظریہ اور مکتب فکرکے دائرے میں خود فراموشی کے مسئلہ کو منطقی انداز میں پیش نہیں کر سکتے ہیں ۔
(٢)اس کلمہ کے مختلف و متعدد استعمالات اور اس میں عقیدہ کثرت کی روشنی میں بعض مدعی ہیں کہ یہ مفہوم فاقد المعنی یامہمل ہوگیا ہے ۔
(٣)یہ کلمہ اور اس کے مشتقات انگریزی زبان میں مبادلہ ، جدائی ، دوری ،عقل کا فقدان ، ہزیان بکنا ،جن زدہ ہونا، خراب کرنا ،پراکندہ کرنا اور گمراہ کرنے کے معنی میں ہے اور فارسی میں اس کلمہ کے مقابلہ میں بہت سے مترادف کلمات قرار دیئے گئے ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :
خود فراموشی ، ناچاہنا ،بے رغبتی ، خود سے بے توجہی ، بے توجہی کا درد ،خود سے غافل ہونا، سست ہونا،جن زدہ ہونا ، بیگانہ ہونا ، بیگانوں میں گرفتار ہونا ، دوسروں کو اپنی جگہ قرار دینا ، دوسروں کو اپنا سمجھنا اور خود کو غیر سمجھنا وغیرہ ؛ اس مقالہ میں رائج مترادف کلمہ ''خودکو بھول جانا '' انتخاب کیا گیاہے ، اگرچہ ہم ''دوسرے کو اپنا سمجھنا'' والے معنی ہی کو مقصود کے ادائگی میں دقیق سمجھتے ہیں ۔
کے مفہوم سے وابستہ تھا۔(١)کلمۂ حقیقی(٢)'' ہگل'''' فیور بیچ'' اور'' ہس ''(٣)کے ماننے والوں کی وجہ سے ایک سکولریزم مفہوم سمجھا گیاہے ۔ وہ چیزیںجو آج سماجی اور علمی محافل میں مشہور ہے اور یہاںپر جو مد نظر ہے وہ اس کا منفی پہلو ہے ،اس پہلو میں انسان کی ایک حقیقی اور واقعی شخصیت مد نظر ہوتی ہے کہ جس کے مخالف راہ میں حرکت اس کی حقیقی ذات سے فراموشی کا سبب بن جاتی ہے اور اس حقیقی شخصیت سے غفلت انسان کو پرائی قوتوں کے زیر اثر قرار دیتی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے سے ماسواء کو اپنا سمجھتاہے اور اس کی اپنی ساری تلاش اپنے غیر کے لئے ہوتی ہے ۔خود سے بے توجہی ، مختلف گوشوں سے دانشمندوں کی توجہ کا مرکز ہوگئی ہے ۔ جس میںاختیار یا جبر ، فطری یا غیر فطری ، مختلف شکلیں ، ایجاد کرنے والے عناصر اور اس کے نتائج کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے ۔ اس کے تمام گوشوں ، نظریات نیزاس کے دلائل کی تحقیق و تنقید کواس کتاب میں ذکر کرناممکن نہیں ہے اور نہ ہی ضروری ، لہٰذا ان موارد میں ایک سرسری اشارہ کرنے پر ہی اکتفاء کریں گے ۔
''خود فراموشی '' کے مسائل کو بنیادی طور پرادیان آسمانی کی تعلیمات میں تلاش کرنا چاہیئے ۔ اس لئے کہ یہ ادیان آسمانی ہی ہیں کہ جنھوں نے ہر مکتبہ فکر سے پہلے اس مسئلہ کو مختلف انداز میں پیش کیا ہے نیز اس کے خطرے سے آگاہ کیا ہے اور اس کی علامتوں کو بیان کرتے ہوئے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کی عملی حکمت پیش کی ہے ۔اس کے باوجود انسانی و اجتماعی علوم کے مباحث میں فنی علمی طریقہ سے ''خود فراموشی ''کے مفہوم کی وضاحت اور تشریح کو ١٨ویں اور ١٩ویں صدی عیسوی کے بعض
..............
(١)غنوصیوں نے میلاد مسیح سے پہلے قرن اول میں اور میلاد مسیح کے بعد قرن دوم میں نیز'' وون کاسٹل ''( ١۔ ١١٣٧ .١٠٨٨،م)نے اس کو نفس انسان کی گمراہی سے رہائی ، نیرنگی اور دوبارہ تولد کے معنی میں استعمال کیا ہے ۔ ہگل بھی مثبت و منفی خود فراموشی کا قائل ہے ، لیکن دوسرے مفکرین و ادیان الٰہی اور اس کے ماننے والے خود فراموشی کو منفی و غیر اخلاقی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو: بدوی ، عبد الحمن؛ موسوعة الفلسفة ، طہ فرج ، عبد القادر ؛ موسوعة علم النفس و التحلیل النفسی ۔
(2)Pauer
(3) Hess
دانشمندوں خصوصاً ''ہگل، فیور بیچ اور مارکس ''کی طرف نسبت دی گئی ہے (١)دین اور ''خود فراموشی''کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں ان تینوں مفکروں کے درمیان وجہ اشتراک یہ ہے کہ یہ تینوں خود دین کو انسان کی خود فراموشی کی وجہ مانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ : جب دین کو درمیان سے ہٹادیاجائے توانسان ایک دن اپنے آپ کو درک کرلے گا ۔ اور کم از کم جب تک دین انسان کی فکر پر حاوی ہے انسان ''خود فراموشی''کا شکار ہے ۔(٢) یہ بات ٹھیک ادیان آسمانی کے تفکر کا نقطہ مقابل ہے خصوصاً خود فراموشی کے مسئلہ میں اسلام و قرآن کے خلاف ہے،بہر حال حقیقی طور پر دینی نقطہ نظر سے ''خود فراموشی ''کا مسئلہ ایک مستقل شکل میں مسلمان مفکرین کے نزدیک مورد توجہ قرار نہیں پایا ہے لہٰذا صاحبان فکر کی جستجو کا طالب ہے ۔
قرآن کی روشنی میں ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کو اس ارادہ سے بیان کیا گیا ہے تاکہ ہم بھی ایک ایساقدم بڑھائیںجو اسلام کے نظریہ سے اس کی تحلیل و تحقیق کے لئے نقطۂ آغاز ہو،اس لئے ہم بعض قرآنی آیات کی روشنی میں ''خود فراموشی''کے مسئلہ پرایک سرسری نظرڈالیں گے ۔
..............
(١)مذکورہ تین مفکروں کے علاوہ تھامسہابز(Thomas Hobbes١٦٧٩۔١٥٨٨)بینڈکٹ اسپیونزا (Benedict Spinoza١٦٧٧۔١٦٣٢)جان لاک (John locke١٧٠٤۔١٦٣٢)ژان ژاک روسو (Jean Jacquess Rousseau١٧٧٨۔١٧١٢)میکس اسکلر(Max Scheler١٨٠٩۔١٠٨٥)جوہان فشے (Johann Fichte١٨٤١۔١٧٦٢)ولفگیگ گوئٹے ( Wolfgang Goethe١٨٣٢۔١٧٤٩)ویلیم وون ہمبولٹ(Wilhelm Von Humboldt ١٨٣٥۔١٧٦٧)سورن کیرکیگارڈ (soren kier kegaard ١٨٥٥۔١٨١٣)پال ٹیلیچ (Paul Tillich١٩٦٥۔١٨٨٦)منجملہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خود فراموشی کے مسئلہ کو بیان کیا ہے ۔ملاحظہ ہو : زورنٹال و .، الموسوعة الفلسفیة ؛ ترجمہ سمیر کرم ، بدوی ، عبد الرحمٰن ، موسوعة الفلسفة ۔ زیادہ ، معن ، الموسوعة الفلسفیة العربیة ۔
(٢)گرچہ ہگل نے دو طرح کے دین کی طرف اشارہ کیا ہے : ایک وہ دین جو انسان کو ذلیل و خوار کرکے خداؤں کے حضور میں قربانی کرتا ہے جیسے یہودیت اور دوسرا دین وہ ہے جو انسان کوحیات اور عزت دیتا ہے ۔ پہلے قسم کا دین خود فراموشی کی وجہ سے ہے لیکن دوسرے قسم کے دین کی خصوصیات حقیقی ادیان پر منطبق نہیں ہے ، صرف ایک عرفانی نظریہ اور معارف دینی کے ذریعہ ان دونوں کوایک حد تک ایک دوسرے سے منطبق سمجھا جاسکتا ہے ،اگرچہ ہگل ،خدااور روح و عقل کے بارے میںایک عمومی بحث کرتا ہے لیکن ہگل کا خدا، عام طور پر ان ادیان کے خدا سے جس کا مومنین یقین رکھتے ہیں بالکل الگ ہے اوروہ خدا کو عالی و متعالی ، عظیم ، خالق ماسوا، انسان پر مسلط اور انسانوں کے اعمال کے بارے میں سوال کرنے والا موجود نہیں سمجھتا ہے ۔

قرآن اور خود فراموشی کا مسئلہ
بحث شروع کرنے سے پہلے اس نکتہ کی یادآوری ضروری ہے کہ ''خود فراموشی''کا مسئلہ بیان کرنا ، اس خاکہ سے کاملاً مربوط ہے جسے انسان کی شخصیت و حقیقت کے بارے میں مختلف مکاتب فکر نے پیش کیا ہے اورمختلف مکاتب میں اس خاکہ کی تحقیق و تحلیل اس کتاب کے امکان سے خارج ہے اسی لئے فقط اشارہ ہو رہا ہے کہ قرآن کی روشنی میں انسان کی حقیقت کو اس کی ابدی روح ترتیب دیتی ہے جو خدا کی طرف سے ہے اور اسی کی طرف واپس ہو جائے گی ،انسان کی حقیقت ''اسی سے '' اور ''اس کی طرف '' (نّا لِلّٰہِ وَ نَّا لَیہِ رَاجعُونَ)(١) ہے ،اسلامی نکتہ نگاہ سے انسان کی صحیح و دقیق شناخت، خدا سے اس کے رابطہ کو مد نظر رکھے بغیر ممکن نہیں ہے ، انسان کا وجود خدا سے ملا ہوا ہے اس کو خدا سے جدا اور الگ کرنا گویااس کے حقیقی وجود کو پردۂ ابہام میں ڈال دینا ہے، اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے غیر الٰہی مکتب میں غفلت برتی گئی ہے یا اس سے انکار کیا گیا ہے دوسری طرف انسان کی حقیقی زندگی عالم آخرت میں ہے جسے انسان اس دنیا میںاپنی مخلصانہ تلاش اور ایمان کے ساتھ آمادہ کرتا ہے، لہٰذا قرآن کی نگاہ میں ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کو اسی تناظر میں مورد توجہ قرار دینا چاہیئے ۔
اس سلسلہ میں دوسرا نکتہ جو قابل توجہ ہے وہ یہ کہ ''خود فراموشی'' کا نام دینے والوں نے انسان اور اس کی زندگی کو دنیاوی زندگی میں اور مادی و معنوی ضرورتوں کو بھی دنیاوی زندگی میں محصور کردیا ہے اور مسئلہ کے سبھی گوشوں پر اسی حیثیت سے نگاہ دوڑائی ہے ، مزید یہ کہ ان میں سے بعض دنیا پرستوں کے فلسفی اصولوں کو قبول کرکے ایک آشکار اختلاف میں گرفتار ہوگئے اور انسان کو دوسری غیر
..............
(١)سورۂ بقرہ ، ١٥٦۔
مادی اشیاء کی حد تک گرکر مسئلہ کو بالکل نادرست اور غلط بیان کیاہے ،ایسی حالت میںجو چیز غفلت کا شکار ہوئی ہے وہ انسان کا حقیقی وجود ہے اور حقیقت میں اس کی ''خود فراموشی'' کا مفہوم ہی مصداق اور ''خود فراموشی'' کا سبب بھی ہے ۔
قرآن مجید نے بارہا غفلت اور خود کو غیر خدا کے سپرد کرنے کے سلسلہ میں انسان کو ہوشیار کیا ہے اور بت پرستی ، شیطان اورخواہشات نفس کی پیروی نیز آباؤ واجداد کی چشم بستہ تقلیدکے بارے میں سرزنش کی ہے ۔ انسان پر غلبہ ٔشیطان کے سلسلہ میں بارہا قرآن مجید میں آگاہ کیا گیا ہے ،اور جن و انس، شیاطین کے وسوسہ سے انسان کے خطرہ ٔانحراف کی تاکید ہوئی ہے ۔(١)اسلامی نظریہ اور انسانی معاشرہ میں بیان کئے گئے مفاہیم سے آشنائی قابل قبول اور لائق درک وفہم ہیں، جب کہ اگر ان پر ''خود فراموشی'' کے مسئلہ کی روشنی میں توجہ دی جائے تومعلومات کے نئے دریچہ کھلیں گے، لیکن ''خود فراموشی'' خود فروشی اور ضرر جیسے مفاہیم جو بعض آیات میں ذکر ہوئے ہیں، ان کے علاوہ بھی مہم مفاہیم ہیں جن پر مزید توجہ کی ضرورت ہے اور انسان کو دقت کے لئے مجبور کرتے ہیں ،لیکن کیا ایسا ہوسکتاہے کہ انسان ''خود فراموشی'' کا شکار ہوجائے اور خود کو بھول جائے یا یہ کہ خود کو بیچ دے ؟ !کیا خود کو ضرر پہونچانا بھی ممکن ہے ؟ انسان ضرر اٹھاتاہے اور اس کا ضرر موجودہ امکانات کے کھو دینے کے معنی میں ہے ، لیکن خود کو نقصان پہونچانے کا کیا مفہوم ہوسکتا ہے اور کس طرح انسان اپنی ذات کے حوالے سے ضرر سے دوچار ہوتا ہے ؟ ! قرآن مجید اس سلسلہ میں فرماتا ہے کہ :
(وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوا اللّٰہَ فَأنسَاھُم أَنفُسَھُم )
اور ان جیسے نہ ہوجاؤ جو خدا کو بھول بیٹھے تو خدا نے بھی ان کو انہیں کے
نفسوں سے غافل کردیا ۔(٢)
..............
(١)یہ مفاہیم روایات میں بھی مذکور ہیں ، ان مفاہیم سے مزید آگاہی کے لئے نہج البلاغہ کی طرف رجوع کریں مطہری ، مرتضی ؛ سیری در نہج البلاغہ ، ص ٢٩١۔ ٣٠٦۔
(٢)سورہ ٔ حشر ١٩
اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے :
(بِئسَمَا اشتَرَوا بِہِ أَنفُسَھُم )کتنی بری ہے وہ چیز جس کے مقابلہ
میں ان لوگوں نے اپنے نفسوں کوبیچ دیا ۔(١)
سورہ ٔ انعام کی ١٢ویں اور ٢٠ویں آیت میں فرماتا ہے :
(الَّذِینَ خَسِرُوا أَنفُسَھُم فَھُم لَا یُؤمِنُونَ)جنہوں نے اپنے آپ کو
خسارے میں ڈال دیا وہ لوگ تو ایمان نہیں لائیں گے ۔
اس طرح کی آیات میں بعض مفسرین نے کوششیں کی ہیں کہ کسی طرح مذکورہ آیات کو انسان سے مربوط افعال ، خود فراموشی، خود فروشی اور خسارے میں تبدیل کردیا جائے تاکہ عرف میں رائج مفہوم کے مطابق ہوجائے ،لیکن اگر خود انسان کی حقیقت کو مد نظر رکھا جائے اور ''خود فراموشی'' کے زاویہ سے ان آیات کی طرف نظر کی جائے تو یہ تعبیریں اپنے ظاہر کی طرح معنی و مفہوم پیدا کرلیں گی ، بہت سے لوگوں نے دوسرے کو اپنا نفس سمجھتے ہوئے اپنی حقیقت کو فراموش کردیا یا خود کو غفلت میں ڈال دیا ہے اور اپنی حقیقت سے غفلت ، ترقی نہ دینا بلکہ اسے گرانا یعنی یہ اپنا نقصان ہے اور جو بھی اس عمل کو مثال کے طور پر کسی لالچ اور حیوانی خواہشات کے لئے انجام دیتا ہے اس نے خود کو بیچ دیا اور اپنے آپ کو حیوانوں سے مشابہ کرلیا ہے البتہ قرآن کی نظر میں مطلقاً خود فراموشی کی نفی کی گئی ہے لیکن خود فراموشی کی ملامت اس وجہ سے ہے کہ انسان خود کو تھوڑے سے دنیاوی فائدہ کے مقابلہ میں بیچ دیتاہے ۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ''خود فراموشی'' کے مسئلہ میں قرآن کا نظریہ اور اس کے موجدوں (ہگل ، فیور بیچ اور مارکس)کی نظر میں بنیادی تفاوت ہے ۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ ان تینوں نظریات میں ''خود فراموشی'' کے اسباب میں سے ایک ،دین ہے اور دین کو انسان کی زندگی سے الگ کرنا ہی
..............
(١)سورہ ٔ بقرہ ٩٠
اس مشکل کے لئے راہ نجات ہے ،لیکن قرآن کی روشنی میں مسئلہ بالکل اس قضیہ کے برخلاف ہے ۔ انسان جب تک خدا کی طرف حرکت نہ کرے اپنے آپ کونہیں پاسکتا ،نیز خود فراموشی میں گرفتار رہے گا۔ آئندہ ہم دوبارہ اس موضوع پرگفتگو کریں گے اور ایک دوسرے زاویہ سے اس مسئلہ پر غور کریں گے ۔
بہر حال قرآن کی روشنی میں خود فراموشی ایک روحی ، فکری ،اسباب و علل اور آثار و حوادث کا حامل ہے ۔بے توجہ انسان جو دوسروں کو اپنی ذات سمجھتا ہے وہ فطری طور پر دوسرے کے وجود کو اپنا وجود سمجھتا ہے اور یہ وجود جیسا بھی ہو ''خود فراموش'' انسان خود ہی اس کے لئے مناسب مفہوم مرتب کرلیتا ہے، اکثر جگہوں پر یہ دوسرا مفہوم ایک ایسا مفہوم ہے جو خود فراموش انسان کی فکر کے اعتبارسے مرتب ہے ۔(١)
اس حصہ میں ہم خود فراموشی کے بعض نتائج پر گفتگو کریں گے :

خود فراموشی کے نتائج

غیرکو اصل قرار دینا
خود فراموش ، اپنے تمام یا بعض افعال میںدوسرے کو اصل قرار دیتا ہے۔ (٢)اور آزمائشوں ، احساس درد ، مرض کی تشخیص ، مشکلات و راہ حل ، ضرورتوں اور کمالات میں دوسروں کو اپنی جگہ قرار دیتا ہے ۔ اور اپنے امور کو اسی کے اعتبار سے قیاس کرتا ہے اور اس کے لئے قضاوت و انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے ، قرآن مجید سود خور انسانوں کے سلسلہ میں کہتا ہے کہ :
..............
(١)قرآن مجیداور روایات میں جیسا کہ اشارہ ہوچکا ہے کہ انسان کے خود اپنے نفس سے رابطہ کے سلسلہ میں متعدد و مختلف مفاہیم بیان ہوئے ہیں مثال کے طور پر خود فراموشی ، خود سے غافل ہونا ، اپنے بارے میں کم علمی و جہالت ، خود فروشی اور خود کو نقصان پہونچانا وغیرہ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق و تحلیل اور ایک دوسرے سے ان کا فرق اور خود فراموشی سے ان کے روابط کو بیان کرنے کے لئے مزید وقت و تحقیقات کی ضرورت ہے ۔
(٢)کبھی انسان بالکل خود سے غافل ہوجاتا ہے اور کبھی اپنے بعض پہلوؤں اور افعال کے سلسلہ میںخود فراموش کا شکار ہوجاتا ہے اسی بنا پر کبھی مکمل اور کبھی اپنے بعض پہلوئوںمیں حقیقت کوغیروں کے حوالہ کردیتا ہے ۔
(الَّذِینَ یَأکُلُونَ الرِّبا لَایقُومُونَ لاّ کَمَا یَقُومُ الّذِی یَتخَبَّطُہُ الشَیطَانُ
مِنَ المَسِّ ذٰلِکَ بِأنَّھُم قَالُوا ِنَّمَا البَیعُ مِثلُ الرِّبَ.)(١)
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہ ہوسکیں گے (کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں)(٢)
مگر اس شخص کی طرح کھڑے ہوںگے جس کو شیطان نے لپٹ کے(ضررپہونچا
کر)مخبوط الحواس بنا دیا ہو(اس کی استقامت کو ختم کردیا ہو ) یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ
لوگ اس بات کے قائل ہوگئے کہ جس طرح خرید و فروش ہے اسی طرح سودبھی ہے
آیت شریفہ کے مفاد میں تھوڑی سی فکر بھی پڑھنے والے کو اس نتیجہ پر پہونچاتی ہے کہ آیت میں سود اور سود کھانے والوں کو محور بنانے کی بنیاد پر اس بحث کی فطری انداز کا تقاضا یہ ہے کہ یہ کہا جائے : سود کھانے والوں کے لئے ایسے حالات پیدا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سود کھانے والے یہ کہتے تھے کہ سود ،خرید و فروش کی طرح ہے اور اگر خرید و فروش میں کوئی حرج نہیں ہے توسود میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن جیسا کہ ملاحظہ ہواہے کہ خدا وند عالم فرماتا ہے : سود کھانے والوں نے کہاخرید و فروش ربا کی طرح ہے ، اس سخن کی توجیہ و توضیح میں بعض مفسروں نے کہا ہے : یہ جملہ معکوس سے تشبیہ اور مبالغہ کے لئے استعمال ہوا ہے یعنی گفتگو کا تقاضا یہ تھا کہ ربا کو خرید و فروش سے تشبیہ دی جاتی ، مبالغہ کی وجہ سے قضیہ اس کے برعکس ہوگیااور خرید و فروش کی ربا سے تشبیہ ہوگئی ہے ۔ (٣)بعض مفسرین معتقد
..............
(١)بقرہ ٢٧٥۔
(٢)(لَایقُومُونَ لاّ کَمَا یَقُومُ .)جملہ کے مراد میں دو نظریے ہیں :جیسا کہ اس مقالہ میں ذکر ہوا ہے،پہلا نظریہ یہ ہے کہ آیت دنیا میںربا خوار انسان کے رفتار وکردار کو بیان کررہی ہے اور دوسرا نظریہ یہ ہے کہ آخرت میں رباخواروں کے رفتار وکردار کی نوعیت کو بیان کرنا مقصود ہے ،اکثر مفسرین نے دوسرے نظریہ کو انتخاب کیا ہے لیکن رشید رضا نے ''المنار''میں اور مرحوم علامہ طباطبائی نے ''تفسیر المیزان ''میں پہلے نظریہ کو انتخاب کیا ہے .ملاحظہ ہو: رشید رضا ؛ تفسیر المنار ، ج٣ ص ٩٤، علامہ طباطبائی ؛ المیزان ج٢ ص ٤١٢۔٤١٣۔
(٣) آیہ شریفہ کے ذیل میں شیعہ و سنی تفاسیر منجملہ روح المعانی و مجمع البیان کی طرف رجوع کریں ۔
ہیں کہ چونکہ سود خور اپنے اعتدال کو کھو بیٹھا ہے لہٰذا اس کے لئے خرید و فروش اور ربا میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہ کہہ سکتا ہے کہ ربا،خرید و فروش کی طرح ہے اسی طرح ممکن ہے یہ بھی کہے خرید و فروش ربا کی طرح ہے ۔ اس نے ان دو نوں کے درمیانمساوات برقرار کیا ہے۔ (١)
ان دو توجیہوں میں مناقشہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ توضیح و تبیین سے بہتر یہ ہے کہ خود سے بے توجہی اور دوسروں کو اصل قرار دینے کے اعتبار سے مطلب کی وضاحت کی جائے خود سے بے توجہ انسان جو دوسرے کو اصل قرار دیتا ہے دوسروں کے شان و احترام کے لئے بھی اصل کا قائل ہے اور سبھی فرعی مسائل اور گوشوں میں اصل دوسروں کو بناتاہے، سود خور انسان کی نگاہ میں سود خوری اصل ہے اور خرید و فروش بھی ربا کی طرح ہے جب کہ حقیقت میں وہ یہ سوچتا ہے کہ ربا میں نہ فقط کوئی حرج ہے بلکہ سود حاصل کرنے کا صحیح راستہ ربا خوری ہے نہ کہ خرید و فروش ہے، خرید و فروش کو بھی فائدہ حاصل کرنے میں ربا سے مشابہ ہو نے کی وجہ سے جائز سمجھا جاتا ہے ۔ سود خور انسان کو ایسا حیوان سمجھتا ہے جو جتنا زیادہ دنیا سے فائدہ اٹھائے اور بہرہ مند ہووہ کمال اور ہدف سے زیادہ نزدیک ہے اور سود خوری اس بہرہ مندی کا کامل مصداق ہے لہٰذا خرید و فروش کی بھی اسی طرح توجیہ ہوناچاہیئے!۔
..............
(١)ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی ، المیزان ج٢ ص ٤١٥

روحی تعادل کا درہم برہم ہونا
اگر انسان اپنے آپ سے بے توجہ ہوجائے اور اپنے اختیار کی باگ ڈور دوسرے کے ہاتھ سپرد کردے تو وہ دو دلیلوں سے اپنے تعادل کو کھودے گا : پہلی دلیل یہ ہے کہ دوسرے کا طرز عمل چونکہ اس کے وجود کے مطابق نہیں ہے لہٰذا عدم تعادل سے دوچار ہوجائے گااور دوسری دلیل یہ ہے کہ دوسرا مختلف اور متعدد موجودات کا حامل ہے لہٰذااگر دوسرا موجودات کی کوئی خاص نوع ہو مثال کے طور پر انسانوں میں بہت سے مختلف افراد ہیں ،یہ مختلف موجودات یا متعدد افراد کم از کم مختلف و متضاد
خواہشات کے حامل ہیں جو اپنے آپ سے بے توجہ انسان کے تعادل کو درہم برہم کردیتے ہیں ۔ قرآن مجید مشرکین کو اپنے آپ سے بے توجہ مانتے ہوئے کہتا ہے :
(ئَ أَرباب مُتَفَرِّقُونَ خَیر أَمِ اللّٰہُ الوَاحِدُ القَہَّارُ )
کیا جدا جدا معبود اچھے ہیں یا خدائے یکتاو غلبہ پانے والا(١)
مزیدیہ بھی فرماتا ہے:
(ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً رَّجُلاً فِیہِ شُرَکَآئُ مُتَشَاکِسُونَ وَ رَجُلاً سَلَماً
لِّرَجُلٍ ھَل یَستَوِیَانِ مَثَل.) (٢)
خدا نے ایک مثل بیان کی ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (مالدار)جھگڑالو
شریک ہیں اور ایک غلام ہے جوپورا ایک شخص کا ہے کیا ان دونوں کی حالت
یکساں ہو سکتی ہے ؟
( لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم عَن سَبِیلِہِ ) (٣)
اور دوسرے راستوں(راہ توحید کے علاوہ جو کہ مستقیم راہ ہے) پر نہ چلو
کہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے تتر بتر کردیں گے ۔
سورۂ بقرہ کی ٢٧٥ ویں آیت بھی جیسا کہ ذکر ہو چکی ہے سود خور انسان کے اعمال کو اس مرگی زدہ انسان کی طرح بتاتی ہے جس میں تعادل نہیں ہوتا ہے اور اس کے اعمال میں عدم تعادل کو فکری استقامت اور روحی تعادل کے نہ ہونے کی وجہ بیان کیا ہے ۔(٤)
..............
(١)یوسف ، ٣٩
(٢)زمر، ٢٩
(٣)انعام ١٥٣۔
(٤)رباخوار انسان کے رفتار و کردار کے متعادل نہ ہونے کے بارے میں اور اس کے تفکرات کے سلسلہ میں مزید معلومات کے لئے .ملاحظہ ہو: علامہ طباطبائی ؛ المیزان ج٢ ص ٤١٣و ٤١٤۔

ہدف و معیار کا نہ ہونا
گذشتہ بیانات کی روشنی میں ، خود فراموش انسان بے ہدفی سے دوچار ہوتا ہے، وہ خود معقول اور معین شکل میں کسی ہدف کو انتخاب نہیں کرتا ہے اور اپنی زندگی اور اعمال کے سلسلہ میں متردد ہوتاہے ۔ قرآن منافقین کے بارے میںجو خود فراموش لوگوں کا ایک گروہ ہے اس طرح بیان کرتا ہے :
(مُذَبذَبِینَ بَینَ ذَالِکَ لَا لَیٰ ھٰولآئِ وَ لآ لیٰ ھٰولآئِ وَ مَن یُضلِلِ
اللّٰہُ فَلَن تَجِدَ لَہُ سَبِیلاً)(١)
ان کے درمیان کچھ مردّد ہیں، نہ وہ مومنین میں سے ہیں اورنہ ہی وہ کافروں میں
سے ہیں جسے خدا گمراہی میں چھوڑ دے اس کی تم ہرگز کوئی سبیل نہیں کرسکتے۔(٢)
ایسے لوگ حضرت علی کے فرمان کے مطابق ''یَمِیلونَ معَ کُل رِیح' 'کے مصداق ہیں (جس سمت بھی ہوا چلتی ہے حرکت کرتے ہیں )اور دوسرے جزء کے بارے میں کہا گیا ہے کہ متعدد وپراکندہ ہیں ، ان کا کوئی معیار نہیں ہے بیگانوں کی کثرت بے معیاری اور بے ہدفی انسان کے لئے فراہم کرتی ہے ۔
حالات کی تبدیلی کے لئے آمادگی و قدرت کا نہ ہونا
خود فراموش انسان جو خود کوغیر سمجھتاہے وہ اپنی حقیقت سے غافل ہے یااپنی موجودہ حالت کو مطلوب سمجھتے ہوئے اپنی حالت میں کسی بھی تبدیلی کے لئے حاضر نہیں ہے ،اور اس کے مقابلہ میں مقاومت کرتا ہے یا اپنی اور مطلوب حالت سے غفلت کی بنا پر تبدیلی کی فکر میں نہیں ہے ۔
..............
(١)سورۂ نساء ١٤٣۔
(٢)خداوند عالم کا انسان کوگمراہ کرنا اس کی خواہش کے بغیر جبری طور پر نہیں ہے بلکہ یہ انسان ہے جو اپنے غلط انتخاب کے ذریعہ ایسی راہ انتخاب کرتا ہے جس میں داخل ہونے سے ضلالت و گمراہی سے دچار ہوتا ہے اسی بنا پر دوسری آیات میں مذکور ہے کہ خداوند عالم ظالمین ( ٢٧ابراہیم ) فاسقین (٢٦بقرہ )، اسراف کرنے والے، بالکل واضح حقائق میں شک کرنے والوں ( ٣٤غافر) اور کافروں ( ٧٤غافر) کو گمراہ کرتا ہے ۔
نتیجتاً اپنی حالت کی تبدیلی پر قدرت نہیں رکھتا ہے ،چونکہ یہ سب اس کی دانستہ اختیار و انتخاب کی وجہ سے ہے لہٰذا ملامت کے لائق ہے ،بہت سی آیات جو کافروں اور منافقوں کی ملامت کرتے ہوئے ان کی راہ ہدایت کو مسدود اور ان کی دائمی گمراہی کو حتمی بتاتے ہیں مثال کے طور پر (وَ مَن یُضلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِن ھَادٍ)(١)''جس کو خدا گمراہ کردے اس کے لئے کوئی ہادی نہیں ہے ''یہی واقعیت ہے کہ جس کی بنا پریہ لوگ پیغمبروں کی روشن اور قاطع دلیلوں کے مقابلہ میں اپنے تھوڑے سے علم پر خوش ہیں :
(فَلَمَّا جَائَ تھُم رُسُلُھُم بِالبَیِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِندَھُم مِنَ العِلمِ)
پھر جب پیغمبر (الٰہی)ان کے پاس واضح و روشن( ان کی طرف) معجزہ لے کر آئے
تو جو (تھوڑا سا )علم ان کے پاس تھا اس پر نازا ںہوگئے ۔ (٢)
اور دوسری جگہ فرماتا ہے :
(وَ مَن أَظلَمُ مِمَّن ذُکِّرَ بِأیَاتِ رَبِّہِ فَأَعرَضَ عَنھَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَت
یَدَاہُ نَّا جَعَلنَا عَلیٰ قُلُوبِھِم أَکِنَّةً أن یَفقَھُوہُ وَ فِی ئَ اذَانِھِم وَقراً
وَ ن تَدعُھُم لیٰ الھُدَیٰ فَلن یَھتَدُوا ِذاً أَبَداً)(٣)
اوراس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جس کو خدا کی آیتیں یاد دلائی جائیں اور وہ ان سے
رو گردانی کرے اور اپنے پہلے کرتوتوں کو جو اس کے ہاتھوں نے کئے ہیں بھول بیٹھے
ہم نے خود ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ (قرآن)کو نہ سمجھ سکیں اور
ان کے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ( تاکہ اس کو نہ سن سکیں )اور اگر تم ان کو
راہ راست کی طرف بلاؤ بھی تو یہ ہرگز کبھی روبراہ ہونے والے نہیں ہیں۔
آئندہ ہم کہیں گے کہ گذشتہ اعمال کو فراموش کرنا اور ان سے استفادہ نہ کرنا ، خود فراموشی
کااہم سبب ہے ، اس آیت میں بھی حالات کی اصلاح اور تبدیلی پر قادر نہ ہوناخود فراموشی کی نشانی کے عنوان سے بیان ہوا ہے ۔
..............
(١)سورہ رعد ،٣٣۔زمر، ٢٣و ٣٦۔غافر،٣٣۔
(٢)غافر، ٨٣
(٣)سورۂ کہف ، ٥٧