نام کتاب: انسان شناسی
مولف: حجة الاسلام و المسلمین محمود رجبی
مترجم: سید محمد عباس رضوی اعظمی
مصحح: مرغوب عالم عسکری
نظر ثانی: سید شجاعت حسین رضوی
پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ
کمپوزنگ :mohdabbasrizvi@yahoo.com s
ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)
طبع اول : ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ ء
تعداد : ٣٠٠٠
مطبع : اعتماد
حرف اول
جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے توکائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔
اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی ۖ غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔
اگرچہ رسول اسلامۖ کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے سے پیچیدگیوںکا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردئی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کوپیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر، اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔
(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتۖو رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔
ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،حجة الاسلام و المسلمین عالیجناب مولانا محمود رجبی صاحب کی گرانقدر کتاب ''انسان شناسی ''کو فاضل جلیل مولانا سید محمدعباس رضوی اعظمی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، نیز ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔
والسلام مع الاکرام
مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مقدمہ:
(. ثُمَّ أنشأناہُ خَلقاً آخَرَ فتبارک اللّہُ أحسَنُ
الخَالقِینَ )(١)
پھر ہم نے اس کو ایک دوسری صورت میں پیدا کیاپس
بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والاہے ۔

انسان بہت سے انتخابی عمل کا سامنا کرتا ہے جس میںسے فقط بعض کو انتخاب کرتا ہے ، بعض کو دیکھتا ہے، بعض کے بارے میںسنتا ہے اور اپنے ہاتھ ، پیر اور دوسرے اعضاء کو بعض کاموں کی انجام دہی میں استعمال کرتا ہے، قوت جسمانی کی رشد کے ساتھ ساتھ فکری ، عاطفی اور بہت سے مخلوط و مختلف اجتماعی روابط ،علمی ذخائر اور عملی مہارتوں میں اضافہ کی وجہ سے انتخابی دائرے صعودی شکل میں اس طرح وسیع ہو جاتے ہیں کہ ہر لمحہ ہزاروںامور کا انجام دینا ممکن ہوتاہے لہٰذا انتخاب کرنابہت مشکل ہو جاتا ہے ۔
..............
(١)سورۂ مومنون ١٤
طریقہ کار کی تعین و ترجیح کے لئے مختلف ذرائع موجود ہیں مثلاً فطری رشد ، خواہشات کی شدت ، ناامنی کا احساس ، عادات و اطوار، پیروی کرنا ، سمجھانا اور دوسرے روحی و اجتماعی اسباب کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے لیکن سب سے مہم عقلی اسباب ہیں جوسبھی طریقۂ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ایک کی معراج کمال اور انسانی سعادت کے لئے موثراور مہم طریقۂ کار کی تعیین و ترجیح اور سب سے بہتر واہم انتخاب کے لئے درکار ہیں جو انسانی ارادہ کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ انسان کی حقیقی اشرفیت اور برتری کے راز کو انہیں اسباب و علل اور طریقۂ کار کی روشنی میں تلاش کرنا چاہیئے ۔
اعمال کی اہمیت اور ان کا صحیح انتخاب اس طرح کہ انسان کی دنیا و آخرت کی خوشبختی کا ذمہ دار ہو ، معیار اہمیت کی شناخت پر موقوف ہے ،ان معیار کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے حقیقت انسان ، کیفیت وجود ، آغازو انجام اور کمال و سعادت اخروی کوسمجھا جائے ۔یہ موضوع ایک دوسرے زاویۂفکرکا محتاج ہے جس کو انسان شناسی کہا جاتا ہے ۔
لہٰذا انسان شناسی کو معارف انسانی کی سب سے بنیادی چیزسمجھنا چاہیئے اور اس کا مطالعہ خاص کر ان افراد کے لئے جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی درست و بے نقص اور عقلی معیار پر استوار ہو ضروری ہے ۔
اس کتاب میں انسان شناسی کے بنیادی مسائل کی تحقیق پیش کی جائے گی۔ البتہ یہ بات مسلم ہے کہ انسان کی حقیقی شخصیت کی شناخت ، اس کی پیدائش کا ہدف اور اس ہدف تک رسائی کی کیفیت ، قرآنی تعلیمات ،اسلامی دستورات اور عقلی تجزیہ و تحلیل پر موقوف ہے ، لہٰذا کتاب کے اکثر مباحث میںانسان شناسی کے نظریات کو قرآن کریم اور دین اسلام کے تعلیمات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے ۔
پہلے تویہ کتاب بالمشافہہ تدریس کیلئے مرتب کی گئی تھی لیکن ان افرادکی بہت سی درخواستوں کی وجہ سے جو معارف اسلامی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور'' مؤسسۂ (اکیڈمی)آموزش و پژوہش امام خمینی '' کے پروگرام میں شرائط و مشکلات کی وجہ سے شرکت نہیں کر سکتے تھے لہٰذاان کے لئے ایک خصوصی پروگرام ''تدریس از راہ دور''(١)تصویب کیا گیاجس میں نقش و نگار سے استفادہ کرتے ہوئے اس کے معانی و مفاہیم کو غیر حضوری شکل میںاور نہایت ہی مناسب انداز میںپیش کیا گیا ہے ۔
آپ ابتدا ء مطالعہ ہی سے ایک تعلیمی پروگرام کے شروع ہو جانے کا احساس کریں گے اور رہنمائیوں کو اپنے لئے رہنما و راہبر محسوس کریں گے ، یہ راہنمائیاں مؤلف اور قاری کے درمیان گفتگو اور مکالمہ کی شکل میں ڈھالی گئی ہیں جو کتاب کے مطالب کو درست و دقیق اور مؤثر انداز میںحاصل کرنے کی ہدایت کرتی ہیں،البتہ بہتر نتیجہ آپ کے مطالعہ پر موقوف ہے ۔ ابتدا ہی میں پوری کتاب کے مطالب کو نموداری شکل میںپیش کیاگیا ہے تاکہ کتاب کے بنیادی مطالب کا خاکہ اور ہر بحث کی جایگاہمشخص ہو جائے اور کتاب کے مطالعہ میں رہنمائی کے فرائض انجام دے ۔ ہر فصل کے مطالب خود اس فصل سے مربوط تعلیمی اہداف سے آغاز ہوتے ہیں،ہر فصل کے مطالعہ کے بعد اتنی فہم و توانائی کی ہمیںامیدہے کہ جس سے ان اہداف کو حاصل کیا جاسکے نیز ان رہنمائیوں کے ساتھ ساتھ یاد گیری کے عنوان سیہر فصل کے مطالب کو بیان کرنے کے بعدبطور آزمائش سوالات بھی درج کئے گئیہیں جن کے جوابات سے آپ اپنی توانائی کی مشق اور آزمائش کریںگے ، سوالات بنانے میںجان بوجھ کرایسے مسائل پیش کئے گئے ہیں جو کتاب کے مطالب پر تسلط کے علاوہ آپ کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیںاور حافظہ پراعتماد کے ساتھ ساتھ مزید غور و فکر کے لئے بر انگیختہ کرتے ہیں ۔
اسی طرح ہر فصل کے آخر میں اس کاخلاصہ اورمزید مطالعہ کے لئے منابع ذکر کئے گئے ہیں، ہرفصل کے خلاصہ میںمختلف فصلوںکے مطالب کے درمیان ہماہنگی برقرار رکھنے کے لئے آنے والی
..............
(١)راہ دور سے تعلیمی پروگرام کی تدوین اور اس کے انجام دہی میں ہم ماہرانہ تحقیقات و مطالعات نیز اکیڈمی کے داخلی و بیرونی معاونین و محققین کی ایک کثیر تعداد کی شب و روز کوشش و تلاش، ہمت اور لگن سے بہرہ مند تھے اور ہم ان تمام دوستوں کے خصوصاً''پیام نور ''یونیورسٹی کے جن دوستوں نے ہماری معاونت کی ہے شکرگذار ہیں۔
فصل کے بعض مباحث کو کتاب کے کلی مطالب سے ربط دیا گیا ہے۔کتاب کے آخر میں ایک ''آزمائش ''بھی ہے جس میں کلی مطالب ذکر کئے گئے ہیں تاکہ متن کتاب سے کئے گئے سوالات کے جوابات سے اپنی فہم کی مقدار کا اندازہ لگایا جا سکے ۔ چنانچہ اگر کتاب کے کسی موضوع کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہر فصل کے آخر میں مطالعہ کے لئے بیان کی گئی کتابوں سے اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
درک مطالب میں پیش آنے والی مشکلات سے دوچار ہونے کی صورت میںاپنے سوالات کو مؤسسہ کے''تدریس از راہ دور''کے شعبہ میں ارسال کرکے جوابات دریافت کرسکتے ہیں، اسلوب بیان کی روش میںاصلاح کیلئے آپ کی رائے اور اظہار نظر کے مشتاق ہیں،اللہ آپکی توفیقات میں مزیداضافہ کرے۔

موسسۂ آموزشی وپژوہشی امام خمینی


مطالعہ کتاب کی کامل رہنمائی
فصل ١
انسان شناسی
مفہوم انسان شناسی
اہمیت و ضرورت
دور حاضر میں انسان شناسی کا بحران
دینی انسان شناسی کی خصوصیات
تعریف
انسان شناسی، بشری تفکر کے دائرہ میں نوع

فصل ٢
خلقت انسان
اولین انسان کی خلقت
تمام انسانوں کی خلقت
اثبات روح کی دلیلیں
ادلۂ عقلی
ادلۂ نقلی

فصل ٣
انسانی فطرت
مشترکہ فطرت
فطرت
مشترکہ فطرت کے وجود پر دلیلیں
انسان کی فطرت الٰہی سے مراد
فطرت کی زوال ناپذیری

فصل ٤
نظام خلقت میں انسان کا مقام
خلافت الٰہی
کرامت انسان
کرامت ذاتی
کرامت اکتسابی

فصل ٥
آزادی و اختیار
مفہوم اختیار
شبہات جبر
انسان کے اختیار پر قرآنی دلیلیں
جبر الٰہی
اجتماعی و تاریخی جبر
فطری و طبیعی جبر

فصل ٦
اختیار کے اصول
عناصر اختیار
آگاہی و معرفت
ارادہ و خواہش
قدرت و طاقت

فصل ٧
کمال نہائی
مفہوم کمال
انسان کا کمال نہائی
قرب الٰہی

فصل ٨
رابطہ دنیا و آخرت
کلمات دنیا وآخرت کے استعمالات
نظریات کی تحقیق
رابطہ کی حقیقت و واقعیت

فصل ٩
خود فراموشی
خود فراموشی کے مؤسسین
قرآن اور خود فراموشی
خود فراموشی کا علاج
ہگل
بیچ
مارکس