باب نہم
دین کے نقطہ آغاز کے بارے میں ڈورکہیم کے نظریے کا جائزہ
چھٹا نظریہ کہ جو دین اور مذہب کی پیدائش کے سرچشمہ کے بارے میں مذکورہ مثال میں بیان کیا گیا ہے‘ اس کا عنوان ہے ”بازگشت بہ از خود بیگانگی“۔
اس عنوان کے تحت فرانس کے ایک مشہور ماہر عمرانیات ڈورکہیم کا ذکر کیا گیا ہے۔ پیدائش مذہب کے بارے میں اس وقت ڈورکہیم کا نظریہ دنیا کے مشہور ترین نظریات میں سے ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ مذکورہ مقالہ کے مصنف نے اسے بیان کرنے میں اپنے کچھ خاص نظریات بھی اس میں مخلوط کر دیئے ہیں‘ یعنی یہ ہے کہ ہم ڈورکہیم (Mr. Emile Dur Kheim) کے نظریہ کو ایک طرح کی ”بازگشت بہ از خود بیگانگی“ قرار دیں‘ شاید اس مقالے کے مصنف کی اپنی مخصوص اصطلاح ہے‘ میں نے کسی اور جگہ یہ اصطلاح نہیں دیکھی۔ جہاں تک مجھے ڈورکہیم کے نظریات کا علم ہے‘ وہ ”اصالت اجتماعی“ (Socialism) کا قائل‘ یعنی معاشرے کے لئے اصالت کا قائل ہے اور درحقیقت فرد کے لئے اصالت کا قائل نہیں (Individualism)۔ اس معنی میں اس کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ افراد کی ”ترکیب حقیقی“ کا نام ہے‘ نہ کہ ترکیب اعتباری کا۔
مرکب اعتباری اور مرکب حقیقی
(فزکس اور کیمسٹری کے طلبہ کے لئے آمیز (Mixture) اور مرکب (Compound) کی اصطلاحوں میں جو فرق ہے‘ وہی فرق مرکب اعتباری اور مرکب حقیقی کے مفہوم میں اپنے مقام پر پایا جاتا ہے)۔
ایک لحاظ سے مرکب کی دو قسمیں ہیں‘ اعتباری اور حقیقی۔ مرکب اعتباری یعنی چیزوں کا ایسا مجموعہ کہ جن کے درمیان ایک طرح کی وابستگی موجود ہوتی ہے‘ البتہ بغیر اس کے کہ کوئی شے اپنی انفرادیت کھو دے اور اپنے تئیں کل میں حل کر دے۔ مثلاً ہم کسی ایک جگہ پر موجود رختوں کے مجموعہ کو باغ کہتے ہیں‘ ایک درخت کو باغ نہیں کہتے‘ ان سب کو ملا کر باغ کہتے ہیں‘ لیکن باغ کا ہر جز اپنی مستقل حیثیت رکھتا ہے‘ یہ درخت بھی اپنی انفرادیت رکھتا ہے اور دوسرا درخت بھی۔ یہ درخت اگر اس باغ میں نہ ہوتا تو بھی یہی درخت ہوتا اور اگر یہاں تنہا ہوتا تو بھی یہی ہوتا اور اگر باغ میں ہونے سے اس میں کوئی تبدیلی بھی آئی ہے تو بھی بالکل سطحی ہے‘ گہری نہیں ہے۔ مثلاً اس باغ میں خوبانی کے ایک درخت کی ”انفرادیت“ درختوں کے مجموعہ میں شامل نہیں ہے‘ بلکہ علیحدہ ہے‘ اسی طرح سے یہی کیفیت دوسرے درختوں کی بھی ہے۔ ایسے مجموعے اور مرکب کو ہم مرکب اعتباری کہتے ہیں۔
لیکن مرکب حقیقی میں ہر چیز کی انفرادیت کل میں شامل ہو جاتی ہے‘ یعنی اس میں کسی چیز کی سابقہ حالت باقی نہیں رہتی‘ ہر چیز اس میں اپنی ماہیت کھو دیتی ہے اور نئی ماہیت اختیار کر لیتی ہے‘ وہی ماہیت کہ جو کل کی ماہیت ہوتی ہے جیسے (کیمیائی اور طبیعی مرکبات "Chemical & Physical Compounds") عالم طبیعت (Nature) میں موجود ہر مرکب اسی طرح کا ہوتا ہے۔ مثلاً پانی کو اگر ہم مرکب کہتے ہیں تو وہ دو مختلف عناصر (Elements) کے باہمی ملاپ سے تعمیرشدہ صورت ہے اور اس میں ان دونوں کی ماہیت تبدیل ہو چکی ہے‘ یعنی نہ اب آکسیجن پانی میں آکسیجن کی صورت میں موجود ہے اور نہ وہ اپنی خاصیت رکھتی ہے‘ اسی طرح اب ہائیڈروجن بھی ہائیڈروجن کی صورت میں موجود نہیں ہے۔ ان دونوں نے آپس میں مل کر ایک مرکب کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور ایک تیسری ماہیت اختیار کر لی ہے اور حقیقت میں ایک نئی ماہیت وجود میں آ گئی ہے کہ جو پانی کی ماہیت ہے۔ ہاں پانی کا پھر سے تجزیہ کر کے اسے انہی ابتدائی عناصر میں تبدیل کیا جا سکتا ہے‘ لیکن اس وقت یہ وہ نہیں ہے اور یہی حالت دیگر طبیعی مرکبات کی ہے۔
انسانی معاشرے کی ترکیب کی نوعیت
اب ہم انسانی معاشرے کی ترکیب کا جائزہ لیتے ہیں‘ کیا یہ ترکیب حقیقی ہے یا اعتباری؟ اس میں شک نہیں کہ اگر ہمارے نزدیک معیار انسانی بدن اور جسم ہو تو انسانی معاشرہ ایک مرکب اعتباری ہے‘ اس لحاظ سے اس میں اور کسی باغ کے درختوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہ فرد جن خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوا تھا‘ آج بھی انہی خصوصیات کے ساتھ موجود ہے‘ وہ فرد بھی بالکل اسی طرح ہے اور یوں ہی سارے افراد ہیں۔ اگر کوئی شخص جیسے ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو‘ ہم اسے کسی غار میں لے جا کر اس کی پرورش کریں‘ بیالوجیکل (Biological) اعتبار سے یہاں اس کی نشوونما میں کوئی فرق نہیں آئے گا‘ کیونکہ معاشرے میں رہتا ہے تو وہاں بھی بیالوجیکل اعتبار سے اس کی نشوونما ایسی ہی ہوتی‘ یہ نہیں ہے کہ ہرگز کسی حوالے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ہماری مراد ہے کہ ماہیت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اس کا بدن کوئی اور بدن ہو جائے گا۔ لیکن حیوانات کے برخلاف انسان کا ایک روحانی پہلو بھی ہے‘ حیوان کی خصوصیت اس کے بدن سے مربوط ہے‘ اس کی نفسیاتی حیثیت بھی تقریباً اس کے بدن کی خصوصیت کی طرح ہے‘ یعنی وہ ان دوسروں کے زیراثر نہیں ہوتا۔ نفسیاتی لحاظ سے اس کی جبلت میں جو چیز پائی جاتی ہے وہ دوسرے حیوانوں میں ہو یا نہ ہو‘ اس سے اس حیوان کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘ جبکہ انسان کا ایک معاشرتی پہلو بھی ہوتا ہے یا اگر ہم اپنی زبان میں کہیں تو انسان ایک روحانی پہلو کا بھی حامل ہے اور یہ وہ پہلو ہے جو اس کی شخصیت سے مربوط ہے‘ نہ کہ فرد سے۔ ایسا کس طرح سے ہے؟ پچھلے زمانے کے فلسفی بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حیوانات کے جو آمادہ اور مستعد جبلت کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں‘ انسان ان کے برخلاف مکمل اور تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں آتا ہے۔ ہم نے جہاں فقرات کے بارے میں گفتگو کی ہے‘ وہاں اس بات کا ذکر کیا ہے۔ وہ لوگ جو انسان کے لئے فطرت کے قائل نہیں ہیں‘ ان کے قول کے مطابق روح انسان اس کی پیدائش کے وقت ایک کورے کاغذ کی سی ہوتی ہے‘ یعنی اس پر کوئی نقش نہیں ہوتا‘ اس پر جو کچھ لکھیں وہی ثبت ہو جائے گا‘ جبکہ اس کے برعکس حیوانات کی کیفیت ایک لکھے لکھائے صفحے کی سی ہوتی ہے۔ اگر ہم فطرت کے بھی قائل ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ان صلاحیتوں کا سلسلہ کہ جو مکمل طور پر اور بالقوة انسان میں موجود ہے‘ وہ کسی پھل یا اس کے درخت کے بیج کی استعداد کی مانند ہے۔ جو لوگ فطرت سے انکاری ہیں‘ ان کے مطابق پیدائش کے وقت انسان ایک خالی صفحہ کی مانند ہے کہ جس پر جو بھی لکھا جائے وہی نقش ابھر آئے گا‘ اسے فرق نہیں پڑتا کہ اس پر آپ قرآن کی کوئی آیت لکھ دیں یا کوئی گالی لکھ دیں۔ جو لوگ فطرت کے قائل ہیں‘ ان کے مطابق انسان ایک بیج کی طرح ہے اور جب وہ بیج ہوتا ہے تو عملاً وہ درخت نہیں ہے‘ پتا نہیں ہے‘ شاخ نہیں ہے‘ پھل نہیں ہے‘ لیکن یہ سب کچھ بننے کی صلاحیت اس کی ذات میں موجود ہے۔ اگر ہم اسے جلا کر خاکستر کر دیں تو گویا ہم نے اس کی صلاحیتوں کو عملی صورت اختیار نہیں کرنے دی۔ لہٰذا بات اتنی ہے کہ انسان ایک مکمل اور تمامتر صلاحیتوں اور توانائیوں سے بھرپور موجود ہے‘ جسے معاشرہ سرگرمی بخشتا ہے‘ یعنی معاشرہ ہے کہ جو انسان کو روحانی شخصیت عطا کرتا ہے۔ انسان معاشرے سے زبان سیکھتا ہے‘ اس سے آداب‘ رسوم‘ افکار اور عقائد حاصل کرتا ہے۔ یہ معاشرہ ہے کہ جو اس کے ظرف روحانی کو پر کرتا ہے اور اس کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے‘ اس طرح وہ بھی اپنی باری پر دوسروں پر اثرانداز ہوتا ہے۔ وہ فقط ایک مستقل اور اثرپذیر وجود نہیں ہے‘ بلکہ تاثیر بخش ہے اور فعال بھی ہے‘ یعنی ایک ہاتھ سے لیتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے دیتا ہے۔ ایک فرد کے لحاظ سے متعلم و طالب علم اور دوسرے کے اعتبار سے معلم و استاد ہے‘ بلکہ جب وہ معلم ہوتا ہے تو اس وقت وہ استاد بھی ہوتا ہے اور شاگرد بھی‘ سکھا بھی رہا ہوتا ہے اور سیکھ بھی رہا ہوتا ہے۔ یہ شخص اپنی فکر سے اپنی روحانی خصوصیتوں سے (اور جو کچھ اس نے سیکھا ہوتا ہے) یا اپنی تخلیقی مہارت سے اسے سکھاتا ہے اور اس سے سیکھتا ہے‘ یعنی انسان ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ معاشرے کے افراد نفسیاتی‘ روحانی اور ثقافتی لحاظ سے پانی کو تشکیل دینے والے عناصر کی مانند ہیں‘ یعنی ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں‘ بالکل اسی طرح جیسے آکسیجن اور ہائیڈروجن ایک دوسرے سے مل کر ایک نئی ترکیب اختیار کر لیتی ہیں‘ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ افراد کے ایک مجموعے کے باہم میل ملاپ سے ایک دوسرے پر اثرانداز ہونے سے ایک مرکب حقیقی وجود میں آتا ہے کہ جسے قوم یا ملت کہتے ہیں‘ لہٰذا ثقافتی اعتبار سے انسان کے دو خود (Self) ہیں‘ ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی۔ پانی میں ہائیڈرجن اور آکسیجن بھی ایک خاص حد تک ایک دوسرے سے امتیاز رکھتی ہیں‘ ایک دوسری حد کے لحاظ سے اور ایک سطح پر دونوں پانی ہیں اور پانی ہونے میں انہوں نے آپس میں وحدت ”یکتائی“ پیدا کر لی ہے‘ اگر وہ اپنی ”میں“ کا احساس کرتیں تو ہر کوئی اپنے آپ میں یہ محسوس کرتی کہ میں پانی ہوں۔ پانی کو جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کی مشترک ”میں“ ہے‘ اس اعتبار سے ہر فرد میں دور ”میں“ موجود ہیں‘ ایک انفرادی اور دوسری اجتماعی یا ”سماجی“۔
|