|
گلی کوچوں پر عزاداری
گلی کوچوں او رسڑکوں پر عزاداری کرنا ان امورمیں سے ہے کہ جو مسلمانوں کے درمیان رائج تھے ۔
نسفی کہتے ہیں : میںاہل سنت کے حافظ بزرگ ابو یعلی عبدالمومن بن خلف (ت ٣٤٦ھ) کے جنازے میں شریک تھا کہ اچانک چار سو طبلوںکی آواز گونجنے لگی۔ (١)
ذہبی کہتے ہیں : جوینی نے ٢٥ ربیع الثانی ٤٧٨ھ میں وفات پائی ۔ لوگ اسکے منبر کوتوڑ کر تبرک کے طور پر لے گئے ، اس کے سوگ میں دکانوں کو بند کردیا اور مرثیے پڑھے ۔ اس کے چار سو شاگرد تھے جنہوں نے اس کے فراق میں قلم ودوات توڑ ڈالے اور ا س کے لئے عزا برپا کی ۔ انہوں نے ایک سال کے لئے عمامے اتار دیئے اور کسی کی جرئت نہ تھی کہ سر کوڈھانپے ۔ طلاب شہر میں پھرتے ہوئے نوحہ وفریاد اور گریہ وزاری میں مشغول رہتے ۔ (٢)
اس کے بعد افکار ابن تیمیہ کا پروردہ ذہبی نرم زبانی میںکہتاہے : ایسے اعمال عجمیوں کی رسومات میں سے ہیں او رسنت نبوی کی پیروی کرنے والے علماء ایسے اعمال انجام نہیں دیتے ۔
لیکن وہی دوسرے مقام پر ٣٥١ھ میں معز الدولہ کے دوران حکومت میں بغداد میں امام حسین کی عزاداری کے سلسلہ میں بازروں کے بند ہونے اور لوگوں کے سروسینہ پر ماتم کرنے و۔۔ ۔۔۔ کے بارے میں اپنے کینہ کی بناپر بے شرمی سے کہتاہے ۔
خدایا! ہماری عقلوں کو مضبوط بنا ۔ (٣)
------------
١۔سیر اعلام النبلاء ١٥: ٤٨٠ ؛ تاریخ ابن عساکر ١٠ : ٢٧٢.
٢۔سیر اعلام النبلاء ١٨:٤٦٨ ؛ تاریخ بغداد ٩٣ ؛ وفیات الاعیان ٣ : ١٤٩.
٣۔العبر ٣: ٨٩ ؛ تاریخ الاسلام : ١١ ؛ حوادث سال ٣٥١ھ.
یہ امر روشن ہے کہ ذہبی کا یہ جملہ تعصب کے سواکچھ نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سنت نے اسے جواب دیا ۔ علمائے اہل سنت میں سے سبکی ، ذہبی کے جواب میں کہتے ہیں : نہ تو امام نے خود ایسے اعمال انجام دیئے اور نہ ہی وصیت کی کہ اس کے مرنے کے بعد ایسا کیا جائے لیکن وہ اس قدر بزرگ شخصیت تھے کہ ان کے شاگردوں سے اس کی مصیبت برداشت نہ ہوسکی۔ (١)
تعجب ہے سبکی پر ! کیسے امام جوینی کی بات آئی تو ذہبی کو محکوم کیا لیکن جوانان جنت کے سردار امام حسین بن علی کی عزاداری کے بارے میں جب اس نے جانبداری اختیار کی تونہ سبکی اور نہ ہی ان کے دوسرے علماء میں سے کسی نے کسی طرح کا رد عمل ظاہر کیا۔
خالد ربعی عمر بن عبدالعزیز کی عزاداری کے بارے میں کہتاہے :
تورات میں بیان ہوا ہے کہ عمر ابن عبد العزیز کی موت پر چالیس دن تک زمین وآسمان گریہ کریں گے. ٢
عزاداری امام حسین
ابن کثیر (البدایة والنہایة ) میں لکھتے ہیں ؛
ملک ناصر (حاکم حلب) کے زمانے میں یہ درخواست کی گئی کہ روز عاشوراء کربلا کے مصائب بیان کئے جائیں ۔ سبط بن جوزی منبر پر گئے ، کافی دیر سکوت کے بعد عمامہ سر سے اتارا اورشدید گریہ کیا۔ اور پھر یہ اشعار پڑھے :
ویل لمن شفعاء خصمائہ والصور فی نشر الخلائق ینفخ
لا بد ان ترد القیامة فاطم وقمیصھا بدم الحسین ملطخ
------------
١۔طبقات الشافعیة ٥: ١٨٤.
٢۔تاریخ الخلفاء ، سیوطی ١: ٢٤٥.
افسوس ہے ان پر جن کی شفاعت کرنے والے جب میدان محشر میں صور پھونکاجائیگا تو ان کے دشمن ہونگے ۔ اورفاطمہ روز قیامت ضروراپنے فرزند حسین کے خون میں لتھڑی ہوئی قمیص لے کر میدان محشر میں وارد ہونگی۔
یہ کہہ کرمنبر سے اترے اور اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے ۔ (١)
واضح روایات او رتاریخی شواہد کی روشنی میں مجالس ، ماتم وسوگواری ، نوحہ خوانی ، گریہ وعزاداری ، عزیزوں کے فراق میں بے تابی ، منہ اور سینے پر پیٹنا ، دکانوں کا بند رکھنا او رغم واندوہ کی دیگر علامات طول تاریخ مسلمین میں رائج رہی ہیں۔
مردوں پر رونا
جو لوگ مردوں پر رونے کو حرام سمجھتے ہیں وہ اس حکم پر چند دلیلیںپیش کرتے ہیں
اول: وہ احادیث جو عمر، عبداللہ بن عمر او ردیگر سے نقل ہوئی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے ۔ (عزیزوں کے گریہ کی وجہ سے مردے پر عذاب نازل ہوتاہے )(٢)
لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی نے نقل کرتے وقت اشتباہ کیا ہے یا بطور کلی روایت کے متن کو بھول بیٹھا ہے ۔
ابن عباس کہتے ہیں : عمر کی وفات کے بعد جب یہ حدیث عائشہ کے سامنے پیش کی گئی توفرمایا: خداکی رحمت ہو عمر پر ، خدا کی قسم ! رسولخدا ۖنے ایسی کوئی بات نہیں کہی بلکہ آنحضرت ۖ نے فرمایا:
(( ان اللہ لیزیدالکافر عذابا ببکاء اھلہ ))
------------
١۔البدایة والنھایة ١٣: ٢٠٧.
٢۔جامع الاصول ١١: ٩٩؛ ح ٨٥٧؛ السیرة النبویة ٣:٣١٠؛ سننن ابن ماجہ ١:٥٠٦ ، ح ١٥٨٩.
بیشک خداوند متعال کافر کے گھر والوں کے گریے کی وجہ سے اس پر عذاب بڑھادیتاہے ۔
اس کے بعد حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ((ولاتزر وازرة وزر اخری )) (١)
ترجمہ: (اور کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوںکا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔)
عبدا للہ ابن عمر بھی وہاں پر موجود تھے انہوں نے حضرت عائشہ کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ (٢)
ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ جب عبد اللہ بن عمر کی یہ روایت حضرت عائشہ کے سامنے نقل ہوئی توفرمایا: خداوند متعال عبد اللہ بن عمر کو بخش دے ۔ اس نے جھوٹ نہیں کہا ۔بلکہ یا توبھول بیٹھا ہے یا نقل کرنے میں اشتباہ کیاہے ۔
جب رسول خدا ۖ ایک یہود ی عورت کی قبر کے پاس سے گزرے تو دیکھا اس کے رشتہ دار اس پر رورہے ہیں توفرمایا:
((انھم لیبکون علیھا وانھا لتعذب فی قبرھا ))
وہ اس پر رورہے ہیں جبکہ قبر میں اس پر عذاب ہورہاہے ۔
روایات کی توجیہ
علمائے اہل سنت نے اس بارے میں ان روایات کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے : ان احادیث کا معنی یہ ہے کہ وہ گریہ کے ہمراہ ایسی صفات وخصوصیات کا ذکر کرتے کہ جو شریعت میں حرام ہیں ۔ مثال کے طورپر کہا کرتے : اے گھروں کو ویران کرنے والے! اے عورتوں کو بیوہ کرنے والے !و۔۔۔۔
ابن جریر ، قاضی عیاض اور دیگر نے ان روایات کی توجیہ میں کہا ہے کہ : رشتہ داروں کاگریہ سننے سے میت
------------
١۔سورة فاطر : ١٨.
٢۔المجموع ٥: ٣٠٨ ؛ صحیح بخاری ١: ٤٣٢.
کا دل جلتاے اور وہ غمگین ہوجاتا ہے ۔
مزید ایک توجیہ حضرت عائشہ سے نقل ہوئی ہے جو انہوں نے اس حدیث کے معنی میں بیان فرمائی ہے کہ جب رشتہ دار گریہ کرتے ہیں تو کافر یا غیر کافر پر اس کے گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتاہے نہ کہ عز یزوں کے گریہ کی وجہ سے ۔ (١)
علامہ مجلسی اس بارے میں (بحار الانوار)) میں لکھتے ہیں :
اس حدیث میں حرف (باء ) مع کے معنی میں ہے یعنی جب میت کے رشتہ دار اس پر گریہ کرتے ہیں تو وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہوتاہے (٢)
دوم : میت پر گریہ کرنے کی حرمت پر دوسری دلیل وہ روایت ہے کہ جو متقی ہندی نے حضرت عائشہ سے نقل کی ہے ۔ کہ انہوںنے کہا :
جب پیغمبر اکرم ۖ کو جعفر بن ابی طالب ، زید بن حارثہ او رعبد اللہ رواحہ کی شہادت کی خبر ملی تو چہر ہ مبارک پرغم واندوہ کے آثار طاری ہوئے ۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی اچانک ایک شخص آیا او رعرض کیا: یا رسول اللہ ۖ ! عورتیں جعفر پر گریہ کر رہی ہیں ۔
آنحضرت ۖ نے فرمایا : فارجع الیھن فاسکتھن ، فان ابین فاحث فی وجوھھن (افواھھن ) التراب)
ان کے پاس جاؤ او رانہیں خاموش کراؤ۔ پس اگر وہ انکار کریں تو ان کے منہ پر خاک پھینکو۔(٣)
------------
١۔المجموع ٥: ٣٠٨.
٢۔بحار الانوار ٧٩: ١٠٩.
٣۔کنزالعمال ١٥: ٧٣٢ ؛ المصنف لابن ابی شیبہ ٣: ٢٦٥.
یہ روایت چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے ۔
(رسول خدا ۖ مرنے والوں او شہداء پر گریہ کرتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے کہ حمزہ اورجعفر و۔۔۔ پر گریہ کریں اور پھر جب حضرت عمر نے عورتوں کو گریے سے منع کیا۔ تو فرمایا : انہیں چھوڑ دو، آنکھیں گریہ کناں ہیں اور...۔ (١)
٢ ۔ اس حدیث کے روایوں میں سے ایک محمد ابن اسحاق بن یسار بن خیار ہے ۔ جس کے بارے میں علمائے رجال میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ابن نمیر کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور باطل احادیث کو نقل کرتاہے ۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں : ابن اسحاق احادیث میں تدلیس کیا کرتا اور ضعیف احادیث کو قوی ظاہر کرتا.(٢)
سوم: گریے کے حرام ہونے پر تیسری دلیل حضرت عمر کا عمل ہے ۔ نصر بن ابی عاصم کہتے ہیں : ایک رات عمر نے مدینے میں عورتوں کے گریے کی صدا سنی تو ان پر حملہ کردیا اور ان میں سے ایک عورت کو تازیانے مارے ، یہاں تک کہ اس کے سرکے بال کھل گئے ۔ لوگوں نے کہا : اس کے بال ظاہر ہوگئے ہیں ۔ کہا : اس کا کوئی احترام نہیں (٣)اس روایت میں چند لحاظ سے غور کرنے کی ضرورت ہے :
١۔ حضرت عمر نے ایسے گھرپر حملہ کیا جس میں نامحرم عورتیں موجود تھیں او رپھر اسی تلخ واقعہ کا تکرار خانہ وحی پر حملہ کرکے کیا ۔(٤)
------------
١۔سنن نسائی ٤: ٩١ ؛ مسند احمد ٣: ٣٣٣ ؛ا لمستدرک علی الصحیحین ١: ٣٨١.
٢۔تہذیب الکمال ١٦: ٧٠.
٣۔کنزالعمال ٥: ٧٣١ ؛ المصنف عبدالرزاق ٣: ٥٥٧ ح ٦٦٨٢.
٤۔خانہ وحی وہ گھر ہے جس میں حضرت فاطمہ موجود تھیں اس پر حملہ کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ اور رپھر اپنے اس عمل کے بارے میںیہ کہا ہے کہ ان عورتوں کا کوئی احترام نہیں ہے ) کیا اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ عورتیں مسلمان نہیںتھیں یا پھر ماننا پڑے گاکہ عمرنے ان کی حرمت کا کوئی خیال نہ رکھا ؟
٢۔ کیا حضرت عمر کا عمل حجت ہے ؟ کیا وہ معصوم ہیں ؟ جبکہ کسی نے بھی یہ دعوی نہیں کیاکہ وہ معصوم ہیں ۔ امام غزالی نے ابوبکر وعمر کے قول کی حجیت کوبے اساس قرار دیاہے اورکہا ہے : بے بنیاد اصولوں میں سے دوسری اصل قول صحابی کا حجت ہوناہے ۔ بعض کہتے ہیں : صحابی کی رائے بطور کلی حجت ہے اور بعض کہتے ہیں : صحابی کی رائے اگر قیاس کے مخالف ہوتو حجت ہے و۔۔۔۔۔
اس کے بعد غزالی کہتے ہیں :یہ سب اقوال باطل ہیں ۔ چونکہ جو شخص عصمت نہیں رکھتااو راس کے عمداً یا سہواً اشتباہ کرنے کا احتمال موجود ہے تواس کا قول کسی طرح بھی حجت نہیں ہوسکتا۔ (١)
٣۔ وہ موارد جن میں خلیفہ کی رائے سنت وفعل رسول خدا ۖ کے سراسر مخالف ہے ان میں سے یہ
عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں : میں ابوبکر کی عیادت کیلئے گیا ۔ توکہنے لگے ۔ اے کاش! میں نے تین کام انجام نہ دیئے ہوتے ۔وہ تین کا م کونسے ہیں؟
١۔ فاطمہ کے گھر کی حرمت پامال نہ کی ہوتی او رانہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ہوتااس روایت کو بہت سے اہل سنت علماء نے نقل کیاہے جن میں سے ابن ابی شیبہ نے المصنف ٢: ٥٧٢ ؛ بلاذری نے انساب الاشراف ١: ٥٨٦؛ طبری نے اپنی تاریخ ٢: ٤٤٣ ؛ ابن عبدالبر نے استیعاب ٣: ٩٧٥ و۔۔۔۔۔ میں نقل کیا ہے ۔
------------
١۔المستصفی ١؛ ٢٦٠ ؛ دراسات فقہیة فی مسائل خلافیة : ١٣٨.
روایت بھی ہے کہ آنحضرت ۖ نے عمر سے فرمایا : اے عمر! ان عورتوں کو چھوڑ دو۔ (١)
اور اسی طرح حضرت عائشہ کا یہ قول کہ فرمایا:
خدا رحمت کرے عمر پر یا تو فراموش کربیٹھا ہے یااس سے نقل کرنے میں اشتباہ ہواہے ۔ (٢ )
جوکچھ بیان کیا گیاہے یہ ان ادلہ کا خلاصہ ہے جو وہابیوں کے ادعاء کو رد کرنے کیلئے بیان کی گئی ہیں اورہم اسی مقدار پر اکتفاء کرتے ہیں اس لئے کہ جو شخص سننے والے کان رکھتاہے اس کے لئے یہی کافی ہے ۔
الحمد للہ رب العالمین
------------
١۔مسند احمد ٣: ٣٢٣.
٢۔المجموع ، نووی ٥: ٢٠٨.
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ کے اہداف
١۔ تعلیمات محمد وآل محمد کی نشر واشاعت
٢۔ مبلّغین کی تربیت
٣۔دین اسلام و مذہب حقہ پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات
٤۔ فن ترجمہ و تحقیق سے آشنائی
٥۔ غریب مؤمنین کی مدد
ابوطالب اسلامک انسٹیٹیوٹ کے تحقیقی آثار
١۔ الصواعق الالھیة فی الردّ علی الوھابیة
٢۔وہابیت عقل وشریعت کی نگاہ میں
٣۔ولادت امام مہدی اورعصرغیبت میں وجود امام کے فوائد
٤۔نظریہ عدالت صحابہ ( قرآن و سنت کی روشنی میں )
٥۔ آگ اور خانہ زہراء سلام اللہ علیھا
٦۔ شیعیان علی کا مقام
٧۔ ندائے ولایت ( أشھد أنّ علیّا ولی اللہ )
٨۔ نماز تراویح
٩۔ نماز میں ہاتھ کھولنا یا باندھنا ؟
١٠۔ مذہب شیعہ پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات
١١۔ گنہگار عورتیں
١٢۔ اعمال ماہ رمضان المبارک ( مکمل ترجمہ کے ساتھ )
١٣۔ شرح چہل حدیث امام مہدی علیہ السلام
١٤۔ القول الأظھر فی مناقب الصدیق الأکبر
١٥۔عقد ام کلثوم
١٦۔ہدیہ مبلّغین(١)
|
|