وہابی افکار کا ردّ
 
١٣۔گریہ و مجالس عز
گریہ ومجالس عزا کا برپا کرنا
تاریخ اور روایات یہ بتلاتی ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ ، صحابہ وتابعین کرام مرنے والوں او رشہداء و۔۔۔ پر گریہ کیا کرتے اور دوسروں کو بھی نہ صرف عزاداری کا موقع دیتے بلکہ انہیں اس عمل پر تشویق بھی کیا کرتے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ نے رسول اکرم ۖ کی وفات پر اپنے منہ پر پیٹا ۔
البتہ طول تاریخ میں بزرگ محدثین کے فراق کی مصیبت میں بھی مجالس برپا کی جاتی رہی ہیں ۔ جس کے چند نمونے یہاں پر ذکر کیے جائیں گے ۔
اسامہ بن زید کہتے ہیں : پیغمبر اکرم ۖ اپنے نواسے کی موت کی خبر سننے کے بعد بعض صحابہ کرام کے ہمراہ اپنی بیٹی کے گھرپہنچے ۔ میت کو ہاتھو ں پر اٹھایا جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور کچھ ورد کررہے تھے ۔ (١)
دوسرا نمونہ احمد ابن حنبل یوں نقل کرتے ہیں:
جنگ احد کے بعد پیغمبر اکرم ۖ نے انصار کی عورتوں سے فرمایا جو اپنے شوہروں پر گریہ کررہی تھیں ۔
(( ولکن حمزة لا بواکی لہ ))لیکن حمزہ پر گریہ کرنے والا کوئی نہیں ۔
روای کہتاہے : پیغمبر اکرم ۖ نے آرام کیا او رجب اٹھے تو دیکھا عورتیں پہلے حضرت حمزہ پر گریہ کررہی ہیں۔
اس بارے میں ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ رسم اب تک موجود ہے ۔ اور لوگ کسی مرنے والے پر گریہ نہیں کرتے مگر یہ کہ پہلے حضرت حمزہ پر آنسو بہاتے ہیں (٢)
------------
١۔سنن نسائی ٤: ٢٢.
٢۔الاستیعاب ١: ٣٧٤.
حاکم نیشاپوری اس بارے میں یوں نقل کرتے ہیں ؛
ایک دن رسول خدا ۖ تشییع جنازہ کیلئے باہر تشریف لائے جبکہ عمر بن خطاب بھی ہمراہ تھے ۔ عورتوں نے گریہ کرنا شروع کیا تو عمر نے انہیں روکا اور سرزنش کی ۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
((یا عمر دعھن فان العین دامعة والنفس مصابة والعھد قریب ))
اے عمر ! انہیں چھوڑ دے ۔ بے شک آنکھیںگریہ کناں ہیں ،دل مصبیت زدہ اور زمانہ بھی زیادہ نہیں گزرا (١)
ان روایات کی بناپر واضح ہے کہ یہ عمل سنت پیغمبر اکرم ۖ میں حرام نہیں تھا ۔ اوریہ عمر تھے جس نے اس سنت کی پرواہ نہ کی اور عورتوں کو اپنے عزیزوں پر گریہ کرنے پر سرزنش کی ۔

پیغمبر اکرم ۖ کی عملی سیرت
تاریخ او رسیرت ہمیں یہ بتارہی ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ نے اپنے فرزند ابراہیم ، اپنے دادا حضرت عبد المطلب ، اپنے چچا حضرت ابوطالب اور حضرت حمزہ ، اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب ، حضرت علی کی مادر گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد ، عثمان بن مظعون و۔۔۔۔۔ کی موت پر گریہ کیا۔
حضرت ابراہیم پر گریہ کے وقت پوچھا گیا ۔ کس لئے ابراہیم پر رورہے ہیں ؟ فرمایا:
((تدمع العینان ویحزن القلب ولا نقول مایسخط الرب ))(٢)
------------
١۔المستدرک علی الصحیحین ١: ٣٨١، مسند احمد ٢: ٤٤٤.
٢۔عقد الفرید ٣: ١٩، سنن ابن ماجہ ١:٥٠٦.
آنکھیں گریہ کنا ں ہیں ، دل غمگین ہے اور میں ایسی بات نہیں کرتا جو ناراضگی پروردگار کاباعث بنے ۔
نقل کیا گیا ہے کہ جب عثمان بن مظعون کا انتقال ہوا تو پیغمبر اکرم ۖ نے اس کے میت کا بوسہ لیا او
ر گریہ کیا ۔( ١)

صحابہ کرام او رتابعین کی سیرت
صحابہ کرام اور تابعین کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ اپنے عزیزوں کی موت پر گریہ کیا کرتے ۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے ۔
کہ جب امیر المومنین کو مالک اشتر کی شہا دت کی خبر ملی تو گفتگو کے درمیان فرمایا:
(( علی مثلہ فلتبک البواکی )) (٢)
گریہ کرنے والوں کیلئے شائستہ یہ ہے کہ اس جیسے پر آنسوبہائیں۔
عباد کہتے ہیں : حضرت عائشہ فرمایا کرتیں : پیغمبر اکرم ۖ کی رحلت کے وقت میں نے ان کا سر تکیے پر رکھا اور دوسری عورتوں کے ہمراہ سینے اور منہ پر پیٹا۔ (٣)
عثمان کہتے ہیں : جب میں نے عمر کو نعمان بن مقرن کی وفات کی خبر دی تو اس نے اپنا ہاتھ سر پر رکھااور گریہ کیا ۔ (٤)
جب محمد بن یحی ذہلی نیشاپوری نے احمد ابن حنبل کی وفات کی خبر سنی توکہا : مناسب ہے کہ تما م اہل بغداد اپنے اپنے گھروں میں نوحہ خوانی کی مجالس برپا کریں ۔
------------
١۔المستدرک علی الصحیحین ١: ٥١٤.
٢۔سیر اعلام النبلاء ٤: ٣٤؛ الکامل فی التاریخ ٣: ٢٢٧.
٣۔سیرة النبوة ٦: ٧٥؛ مسند احمد ٦: ٢٧٤.
٤۔المستدرک علی الصحیحین ٣: ٣٣٢ ؛ المصنف لابن ابی شیبہ ٣: ٤٥؛ مسند احمد ٦:٢٧٤؛ السیرة النبویة ٦:٧٥.