|
١٢۔جشن منانا
جشن منانا
ولادتوں کے موقع پر جشن وسرور کی محافل ومجالس برپا کرنا شرعی اور مباح سیرت بلکہ مسلمانوں کے درمیان رائج امور میں سے ہے جو اب بھی موجود ہے ۔ لیکن وہابی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ۖ کا میلاد ، اس میں قرآن مجید کی تلاوت ، آنحضرت ۖ کی شان میں اشعار پڑھنا اور مسلمانوں کو کھانا کھلانا ان امور میں سے ہے جن سے منع کیا گیاہے ۔ اس بارے میں ابن تیمیہ کہتاہے ۔
عیدوںکے موقع پر جشن وسرور بدعت ہے اور اس کی کوئی اساس نہیںہے ۔ سلف میں سے کسی نے بھی ان دنوں میں اجتماعی طور پر عید کے عنوان سے خوشی نہیں منائی اور نہ ہی ان دنوں میں اعمال انجام دیئے ۔ یہ عیسائیعں کا عمل ہے جو وہ حضرت عیسی کی ولادتپر خوشی وجشن مناتے ہیں یا یہودیوں سے لیا گیاہے ۔ ۔۔ اسی طرح میلاد النبی ۖ جو عیسائیوں کے عمل سے شباہت رکھتاہے یا پیغمبراکرم ۖ کے احترام کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ عمل خیر محض ہوتایا شرعی طور پر رجحان رکھتاہوتا تو سلف اس کے برپا کرنے میں زیادہ سزاوار تھے ۔ (١)
محمد حامد الفقی اس بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے کہتاہے ۔
اولیاء کی وفات کی یاد یا ان کی ولادت کے دن جشن منانا، یہ ان کی پرستش شمار ہوتی ہے اور ایک طرح سے ان کی عبادت اور تعظیم کرناہے ۔ (٢)
وہابی اس ناجائز تفکر کے لئے چند روایات کا سہار الیتے ہیں :
پہلی حدیث : ابوہریرہ کہتے ہیں پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا :
------------>
١۔اقتضاء الصراط المستقیم : ٢٩٤.
٢۔الملل والنحل ٤:٣٢٠.
((لا تجعلوا بیوتکم قبورا ولاتجعلوا قبری عیدا وصلو ا علی فان صلاتکم تبلغنی حیث کنتم ))(١)
اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ اور میری قبر کو عید نہ بناؤ ، بلکہ مجھ پر درود بھیجو اسلئے میں جہاں پہ بھی ہوں تمہارا درود مجھ تک پہنچتاہے ۔
حدیث دوم : پیغمبر اکرم ۖ سے نقل ہوا ہے کہ آپ ۖ نے قبر کو عید قرار دینے سے منع کیاہے ۔
اس حدیث پر اعتراضات
واضح رہے کہ اس نظر یہ پر چند اعتراض وارد ہوتے ہیں:
اول: میلاد پیغمر گرامی ۖ کے جشن منانے اور عبادت کرنے میں فرق ہے چونکہ عبادت میں تین عنصر میں سے ایک کا ہونا ضروری ہے ۔ ١۔ جس کی عبادت کی جارہی (معبود) ہواس کی الوہیت کا عقیدہ رکھا جائے ۔
٢۔ معبود کے رب ہونے کا عقیدہ رکھا جائے ۔
٣۔ یہ اعتقاد رکھا جائے کہ رب کے افعال خود معبود کے سپرد ہیں۔
جبکہ انصاف یہ ہے کہ جشن برپا کرنے والوں میں سے کوئی بھی ان عناوین کا معتقد نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سے پیغمبر اکرم ۖ سے اپنی محبت کا ا ظہار کرتے ہیں اور اس محبت ومودت کے اظہار کا حکم قرآن مجیدمیں دیاگیاہے ۔ جہاں پریہ فرمایا :
((قل ان کان آبائکم وابنائکم واخوانکم وأزواجکم وعشیرتکم وأموال اقترفتموھا وتجارة تخشون کسادھا ومساکن ترضونھا أحبّ الیکم من اللہ ورسولہ وجھاد فی
------------
١۔مسند احمد ٢: ٣٦٧.
سبیلہ فتربصواحتٰی یأتی اللہ بأمرہ واللہ لا یھدی القوم الفاسقین))(١)
ترجمہ: اے پیغمبر ! تم کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ دادا، اولاد،برادران ازواج ،عشیرہ و قبیلہ اور وہ
اموال جنہیں تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے خسارہ کی وجہ سے فکر مندرہتے ہواور وہ مکانات جنہیں پسند کرتے ہو تمہاری نگاہ میں اللہ ، اس کے رسول اور راہ خدامیں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو وقت کا انتظار کرو یہاں تک کہ امر الٰہی آجائے اور اللہ فاسق قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے .
اسی طرح پیغمبر اکرم ۖ نے بھی اس کا حکم دیا ہے ۔ اور فرمایا: (( لا یؤمن احدکم حتی اکون انا واھل بیتی احب الیہ من نفسہ))
تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک اپنے سے بڑھ کر مجھ سے اور میرے اہل بیت سے محبت نہ کرے ()
دوم: خود ابن تیمیہ کے بقول ہرچیز میں اصل اسکا مباح ہونا ہے ۔ وہ کہتاہے : ((عادات ورسوم میں اصل ان کا جائز ہونا ہے مگر یہ کہ خداوند متعال کی طرف سے نہی کی گئی ہو۔ )) (٣)
بنا بر ایں وہ احادیث جن سے وہابی استناد کرتے ہیں سند ودلالت کے اعتبارسے مخدوش ہیں اور پھر میلا د کے موقع پر منائے جانے والے جشن کے بارے میں نہی بھی فرمائی گئی ہے۔
سوم: یہ کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ جشن منانے کے جواز پر کوئی روایت وارد نہیں ہوئی ہے پھر بھی اس کے جواز پر ایک مسلم دلیل موجود ہے اور وہ نص قرآنی کی رو سے آنحضرت ۖ اور ان کے اہل بیت سے محبت ومودت ہے جسے قرآن وسنت نے ان محافل ومراسم کی اصل قرار دیا ہے ۔ اور یہ جشن میلاد
------------
١۔ سورہ توبہ : ٢٤.
٢۔الدر المنثور ٤:١٥٧.
٣۔مجموع الفتاوی ٤: ١٩٦.
کے اجتماع اسی اظہار محبت کا مصداق ہیں۔
چہارم: یہ کہ ابن تیمیہ ہر چیز کے حلال وحرام ہونے کا معیار سلف کو قرار دیتاہے ۔ کیا در حقیقت قرآن وسنت معیار ہیں یا عمل سلف؟ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم دیکھتے ہیں خود سلف بھی مختلف زمانوں میں جشن منایا کرتے۔
علماء کے اقوال کے نمونے
پنجم : علمائے اہل سنت کے اقوال جشن برپا کرنے کے بارے میں مسلمانوں کی سیرت کو بیان کررہے ہیں ۔ جس کے دونمونوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ۔
١۔ قسطلانی (متوفی ٩٢٣ھ) کہتے ہیں : مسلمان ہمیشہ پیغمبر اکرم ۖ کی ولادت کے مہینے میں جشن مناتے ہیں اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔
خدا کی رحمت ہو آنحضرت ۖ کے میلا د کے موقع پر عید منانے والوں پر جو(اپنے اس عمل سے ) بیمار دلوں کے درد میں اضافہ کرتے ہیں (١)
٢۔ قاضی مکہ مکرمہ حسین بن محمد معروف بہ دیار بکری (م ٩٦٦ھ) اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں : (مسلمان ہمیشہ ماہ میلاد پیغمبر اکرم ۖ میں جشن مناتے ہیں ، راتوں کو طرح طرح کے صدقے دیتے ہیں ، لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں مزید برآں حاجتمندوں کی مدد کرتے ہیں اورولادتوں کی مناسبت سے قصیدے پڑھتے ہیں اور ہر زمانہ میں آنحضرت ۖ سے کرامتیں ظاہر ہوتی ہیں (٢)
ان موارد سے یہ معلوم ہوتاہے کہ مختلف زمانوں میں مسلمانوں کا اس عمل پر اجماع واتفاق رہا ہے ۔
------------
١۔المواہب اللدنیة ١: ٢٧.
٢۔تاریخ الخمیس ١: ٣٢٣.
ابن عباد کہتے ہیں : میرے لئے واضح ہے کہ مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک پیغمبر اکرم ۖ کی ولادت کا دن ہے اورکوئی بھی عمل جشن کے عنوان سے مباح ہے ۔ (١)
٦٣٠ھ میں ابوسعید اربلی نے ایسے جشن وسرور کی محافل کو زندہ کرنے میں سب سے سبقت حاصل کی ۔
بعض کا کہنا ہے : سب سے پہلی بار خلیفہ فاطمی (المعجز لدین اللہ ) نے شوال ٣٦١ھ میں قاہر ہ میں جشن برپا کیا ۔(٢)
تھوڑا سا غور کرنے سے معلوم ہوجاتاہے کہ خود قرآن کریم نے پیغمبر گرامی اسلام ۖ کی تعظیم وتکریم کا دستور صادر فرمایاہے :
((فالذین آمنوابہ و عزّروہ و نصروہ و اتّبعوا النور الذی اُنزل معہ اُولٰئک ھم المفلحون ))(٣)
ترجمہ:پس جو لوگ اس پر ایمان لائے اس کا احترام کیا اس کی امداد کی اور اس نور کا اتّباع کیا جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی در حقیقت فلاح یافتہ اور کامیاب ہیں ۔
بنابر این میلاد اور جشن کی محافل کا برپا کرنا دستور قرآنی ہے اور پیغمبر اسلام حضرت محمد ۖ کی تعظیم وتکریم کا مصداق ہے ۔
مذکورہ حدیث پر اعتراض
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہابی جشن ومیلاد کی محافل سے منع کرنے پر دو حدیثوںسے استناد کرتے ہیں پہلی حدیث کو تحقیق کے بعد رد کردیا گیا اور اب دوسری حدیث کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں وہابیوں کا کہنا ہے کہ آنحضرت ۖ نے فرمایا: ((لا تجعلوا قبری عیدا )) میری قبر کو عید مت بناؤ۔
------------
١۔المواسم والمراسم :٢٢.
٢۔ بحوث فی الملل ولانحل ٤:٣٢٣.
٣۔اعراف : ١٥٧.
اس حدیث میں مختلف پہلوؤں سے اشکال پائے جاتے ہیں :
١۔ احمد بن حنبل نے اسی حدیث کو ایک اور عبارت کے ساتھ نقل کیاہے کہ سہیل بن ابو صالح کہتاہے : پیغمبر اکرم ۖنے فرمایا:
((اللھم لا تجعل قبری وثنا ))
خدایا ! میری قبر کو بت قرار نہ دینا ۔(١)
قابل ذکرہے کہ ذہبی نے اس حدیث کی سند پر بھی اعتراض کیا ہے ۔(٢)
٢۔ یہ حدیث معنی کے اعتبار سے درست نہیں ہے اس لئے کہ عید کا تعلق ایک خاص زمانے سے ہے ۔ جبکہ قبراسم مکان ہے کہاجاتاہے : روز جمعہ عید ہے ۔ روز فطر عید ہے ۔ اس لحاظ سے یہ جملہ (میری قبر کو عید نہ بنانا) ان کے دعوے کے ساتھ سے مناسبت نہیں رکھتا۔
٣۔ اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے ۔ اس لئے کہ جس حدیث میں لفظ (عیدا) ہے اس کے راویوں میں سے ایک عبد اللہ بن نافع ہے ۔ بخاری اسکے بارے میں کہتے ہیں : عبداللہ بن نافع حفظ کردہ احادیث میں سے جنہیں نقل کیا کرتاان میں سے بعض معروف اور بعض منکر ومجہول ہوتیں ۔ (٣)
ابن حنبل ، عبداللہ بن نافع کے بارے میں کہتے ہیں :
وہ ایک ضعیف شخص تھا ، اہل نظر اورصاحبِ حدیث نہیں تھا ۔ (٤)
------------
١۔ مسند احمد ٢ : ٢٤٦.
٢۔ سیر اعلام النبلاء ٤: ٤٨٤.
٣۔التاریخ الکبیر شمارہ : ٦٨٧.
٤۔میزان الاعتدال ٣: ٢٤٣، تہذیب الکمال ١٢: ٢٢٣.
دوسری روایت جس میں لفظ (وثنا ) ہے اس کے راویوں میں سے سہیل بن ابوصالح ہے ۔
اس کے بارے میں ابو حاتم کا کہنا ہے ۔ سہیل کی نقل کردہ احادیث کو لکھا جائے گا لیکن ان سے استناد نہیں کیا جائیگا۔ (١)
دوسری جانب علمائے اہل سنت نے اسی حدیث کو نقل کیاہے منذری کہتے ہیں : یہ حدیث انسان کو زیارت پیغمبر اکرم ۖ کے کثرت سے بجالانے کی ترغیب دلاتی ہے ۔ اور کہا ہے : ایسا نہ ہوکہ طول سال میں بعض اوقات پیغمبروں کی زیارت کی جائے جس طرح سال میں ایک یا دو مرتبہ عید آتی ہے اور لوگ جشن منالیتے ہیں (٢)
سبکی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ احتمال پایا جاتاہے کہ آنحضرت ۖ یہ فرمارہے ہیںکہ میری زیارت کیلئے خاص وقت اور خاص زمانہ مت انتخاب کرو جیساکہ بعض مقبروں کی مانند عیدخاص ایام میں زیارت کی جاتی ہے ۔(٣)
------------
١۔تہذیب التہذیب ٤: ٢٣١.
٢۔شفاء السقام :١٧٧.
٣۔حوالہ سابق .
|
|