وہابی افکار کا ردّ
 
ایک اعتراض
قسطلانی لکھتے ہیں:ابن عبد البر کہتے ہیں : عبارت ((افلح وابیہ)) اسکے باپ کی قسم ایک منکراورمجہول حدیث میں بیان ہوا ہے جو معروف نہیں ہے ۔ چونکہ صحاح میں اس حدیث کو مردود شمار کیا گیاہے (1)۔
------------
1۔ارشاد الساری ٩: ٣٥٧.
اعتراض کا جواب
حدیث ((اما وابیک )) اس حدیث کی تائید کررہی ہے لہذا یہ مردود نہیں ہے ۔ ابن عبدالبر کہتے ہیں : کہا جاتاہے کہااصل میں (افلح واللہ وابیک)) تھا اور پھر ((وابیہ))میں تبدیل ہوگیاہے ۔
قسطلانی نے اس کے جواب کو قبول نہیںکیا اور ابوبکر کے قول کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے : بیہقی کا جوا ب مناسب تر ہے کہ ایسے الفاظ (( وابیک ) عربوں کا تکیہ کلام ہے بجائے اس کے کہ وہ اس سے کسی معنی کاقصد کریں ۔ یا یہ کہ در اصل (( افلح ورب ابیہ )) تھا ۔ اور کثرت استعمال کی وجہ سے لفظ ((رب )) حذف ہوگیا ہے ۔ (١)
سید امین نے اس کے جواب میں کہا ہے ۔
ممکن نہیں ہے کہ عرب کسی لفظ کو اس کے معنی کا ارادہ کئے بغیر استعمال کریں اور جب بھی ایسے الفاظ کا استعمال کیا جائے تومراد قسم کھانا ہے اور (رب ابیک ) کے تقدیر میں ہونے پر بھی کوئی دلیل موجود نہیںہے ۔ (٢)

قسمِ ابوطالب اور تائیدِ پیغمبر اکرم ۖ
نقل کیا گیا ہے : ایک دن حضرت ابوطالب نے اشعار میں پیغمبر اکرم ۖ کی شان میں فرمایا :
کذبتم وبیت اللہ یبزی محمد
ولما نطاعن دونہ ونناضل
------------
١۔کشف الارتیاب : ٢٧٢.
٢۔حوالہ سابق ٢٧٢.
انہوں نے اس شعر میں بیت اللہ کی قسم کھائی ، رسول خدا ۖ نے اسے سنا اور رد نہ کیا (١)

عمل صحابہ
واضح رہے کہ صحابہ کرام بھی غیر خدا کی قسم کھایا کرتے ، نقل کیا گیا ہے کہ عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں جب بھی اپنے چچا حضرت علی سے کسی شے کی درخواست کرتا اور وہ قبول نہ کرتے تو کہتا : (آپکو جعفر کے حق کی قسم )تو وہ قبول کرلیتے ۔ (٢)
نہج البلاغہ میں بیان ہوا ہے کہ امام علی نے معاویہ کانام ایک نامہ میں لکھا :
(( ولعمری یا معاویہ ! لئن نظرت بعقلک دون ھواک لتجدنی ابرء الناس من دم عثمان ))اے معاویہ ! مجھے اپنی جان کی قسم ! اگر تو خواہشات نفس سے ہٹ کر عقل کی نگاہ سے دیکھے گاتو مجھے خون عثمان میں سب سے زیادہ بری پائے گا۔ (٣)
روایت میں آیا ہے کہ مسروق نے قبر پیغمبر ۖ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ سے خوارج کے بارے میں سوال کیا : تجھے اس صاحب قبر کی قسم ! تم نے خوارج کے بارے میں کیا سنا !

حدیث عبداللہ بن عمر پر اعتراض
اب ہم اس حدیث کی تحقیق کرتے ہیں جسے عبد اللہ ابن عمر نے غیر خدا کی قسم نہ کھانے لئے بیان کیا ہے ۔
------------
١۔ایمان ابوطالب ٣٣٩؛ منیة الراغب فی ایمان ابی طالب : ١٢٢، تالیف آیت اللہ محمد رضا طبسی؛ شرح ابن ابی الحدید ١٤: ٧٩.
٢۔شرح ابن ابی الحدید ١٥: ٧٣.
٣۔شرح نہج البلاغہ ، محمد عبدہ ٣: ٧.
ترمذی نقل کرتے ہیں : ایک دن عبداللہ بن عمر نے سنا کہ ایک شخص کہہ رہاہے :کعبہ کی قسم ! عبداللہ نے اس سے کہا : غیر خداکی قسم مت کھاؤ، میں نے رسول اکرم ۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : ((من حلف بغیر اللہ فقد کفر ))
جس نے غیر خدا کی قسم کھائی اس نے کفر کیا۔ (١)
اس حدیث میں دو طرح کے اشکا ل پائے جاتے ہیں ۔
١۔سند کے اعتبار سے
٢۔ دلالت کے اعتبار سے
سند کے اعتبار سے تو اس کے راویوں میں سے ایک روای سلیمان بن حیان ہے ۔ ابن معین اور ابن عدی (اہل سنت کے علمائے رجال ) نے اس کے بارے میں کہا ہے : سلیمان سچا آدمی ہے لیکن اس کی نقل کردہ احادیث حجت نہیں ہیں اس لئے کہ اس کا حافظہ اچھا نہیں تھا اور وہ احادیث کو صحیح نقل نہ کیا کرتا۔
اگراس حدیث کی سند کو مان بھی لیا جائے پھر بھی دلالت کے اعتبار سے اسے شدید کراہت پرحمل کیاجائے گا۔ یا یہ کہ شرک وکفر کی علت یہ ہوسکتی ہے ۔ کہ قسم کھانے والا شخص غیر خدا کے بارے میں خدا والا عقیدہ رکھتے ہوئے قسم کھائے ۔
اس بارے میں قسطلانی کا کہنا ہے : غیر خدا کی قسم کے منع ہونے کے بارے میں شرک وکفر کی تعبیر مبالغہ ہے ۔ کیا منع سے مراد منع تحریمی ہے یا کراہتی ؟
مشہور مالکی علماء لکھتے ہیں : یہ نہی کراہت کوبیان کررہی ہے ۔ جبکہ حنبلی حرمت کے قائل ہیں اکثر شافعی علماء کراہت سمجھتے ہیں اور بعض تفصیل کے قائل ہیں کہ اگر جس اعتقاد کے ساتھ خدا کی قسم کھائی جاتی ہے
------------
١۔ارشاد الساری ٩: ٣٥٨ ؛ سنن ترمذی ٤:١١٠.
اسی اعتقاد کے ساتھ غیر خدا کی بھی قسم کھائی جائے تو یہ حرام اور کفر ہے ۔ لیکن اگر فقط مخلوق کے احترام کی بنا پر ہوتو اس سے کفر لازم نہیں آئے گا۔ (١)
------------
١۔ارشاد الساری ٩: ٣٥٨.