٨۔تعمیر قبور
وہابیوں کا نظریہ اور ان کے فتاوٰی کے نمونے
قبور کی تعمیر کے شریعت میں جائز ہونے پر بہترین دلیل بیت المقدس کے اطراف میں انبیائے الہی کی قبور کا موجود ہونا ہے اور مسلمانوں کے تمام فرقے بھی ہر زمانے میں اسی پر عمل پیرا رہے ہیں۔ لیکن وہابی قبور پر عمارت ، گنبد، ان کے تعمیر اور چونا کرنے کو شرک وکفر اور ان کے ویران کرنے کو واجب سمھتے ہیں ۔
١۔ صنعانی کہتا ہے :
مقبرہ بت کے مانندہے اس لئے کہ جو کام زمانہ جاہلیت میں لوگ بتوں کے لئے انجام دیتے تھے وہی کام (قبوریون یعنی قبروں کے پجاری) اولیائے خدا کی قبروں اور مقبروں کے لئے انجام دیتے ہیں (١)
٢۔ ابن تیمیہ کاشاگرد ابن قیم کہتا ہے :
قبور کے اوپر بنائی گئی عمارات کا نابود کرنا واجب ہے جو بتوں اور طاغوتوں کے عنوان سے پرستش کی جاتی ہیں ۔ ان کو خراب کرنے کی طاقت رکھنے کے بعد ایک دن کے لئے بھی تاخیر جائز نہیں ہے ۔ چونکہ یہ عمارات دوبتوں لات وعزی کی طرح ہیں۔ اور وہاں پر بد ترین شرک آلودہ اعمال انجام دیئے جاتے ہیں۔(٢)
٣۔ علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں یوں بیان ہواہے:
قبور کے اوپر عمارت بنانے کا ممنوع ہونا اجماعی ہے جس کی ممنوعیت پر صحیح احادیث دلالت کررہی ہیں ۔ اسی وجہ سے بہت سے علماء نے ان کے خراب اور ویران کرنے کا فتوی دیا ہے ۔ وہ اس فتوی میں (ابو
------------
١۔کشف الارتیاب :٢٨٦، بہ نقل از تطھیر الاعتقاد صنعانی .
٢۔زاد المعاد ٣:س٥٠٦.
الھیاج ) کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جو اس نے حضرت علی سے نقل کی کہ علی بن ابیطالب
علیہ السلام نے اس سے فرمایا: ((الا ان ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قربا مشرفا الا سویتہ ))
آگاہ رہو ! میں تمہیں ایسے کام پر مامور کررہا ہو جس پر رسول خدا ۖ نے مجھے مامور کیا تھا کسی تصویر کو نہ چھوڑنا مگر یہ کہ اسے محو کردینا اورجو قبر بلند نظر آئے اسے زمین کے برابر کردینا۔ (١)
اس فتوی کا رد
ہم اس فتوی کے جواب میں کہتے ہیں۔
وہ اجماع جسے وہابی بیان کرتے ہیں مردود ہے بلکہ اس فتوی کے خلاف ایسے عمل کے جائز ہونے پر اجماع موجود ہے ۔ وہابی فرقہ کی پیدائش سے پہلے تمام مذاہب کے مسلمانوں کی ہر زمانہ میں یہی سیرت رہی ہے ۔
اس بارے میں صنعانی کا سیرت کا اعتراف کرنا ہمارے نظریہ کی تایید کررہا ہے ۔ا س نے اپنی کتاب (تطھیر الاعتقاد ) میں ایک سوال کی صورت میں اس بارے میں لکھا ہے ۔
اس سیرت نے شرق وغرب عالم کے تمام شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہاں تک کہ اسلامی ممالک کا کوئی ایسا نقطہ نہیں ہے کہ وہاں پہ قبر یا مقبرہ نہ ہو یہاں تک کہ مسلمانوں کی مساجد بھی قبروں سے خالی نہیں ہیں۔ او رکوئی عقل مندیہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ عمل حرام ہے ۔ علمائے اسلام بھی اس بارے میں ساکت ہیں۔
اس کے بعد صنعانی کہتا ہے ۔ اگر انصاف سے کام لیں او رسلف کی پیروی سے کنارہ کش ہوجائیں تو
------------
١۔کشف الارتیاب :٢٨٨.
جان لیں گے کہ حق وہی ہے جو دلیل کے ساتھ ثابت ہوچکا ہے نہ کہ ہر نسل کا اتفاق واجماع ۔ لہذا یہ امور جو عوام انجام دیتے ہیں ۔ یہ اپنے آباء واجداد کی تقلید او ربدون دلیل ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اپنے آپ کو اہل علم کہلواتے ہیں یا منصب قضاوت ، فتوی اور تدریس پر فائز ہیں۔ یا حکومت میں امیر ورئیس ہیں لیکن عمل عوام کی طرح انجام دیتے ہیں۔
البتہ کسی مجہول چیز کے رواج میں علماء یا عالم کا سکوت کرنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ہے ۔
صنعانی نے اپنے اس کلام میں اس سیرت کے عوام وعلماء کے تمام طبقوں میں پائے جانے کا اعتراف کیا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف یہ کہہ رہا کہ حق وہی ہے جو دلیل سے ثابت ہوچکا ہے ۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ کیا ہر نسل میں امت کے اتفاق سے بڑھ کر کوئی دلیل ہوسکتی ہے ؟
اس حدیث پر اعتراض
قابل ذکر ہے کہ جس حدیث سے وہابی استناد کرتے ہیں چند اعتبار سے قابل اعتراض ہے:
١۔ کسی حدیث کا وہابیوں کے نزدیک صحیح ہونا یا اس کی مخالفت میں کسی حدیث کا نہ پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ وہ حدیث دوسروں کے نزدیک بھی صحیح ہو لہذااس موضوع پر اجماع کے پائے جانے کادعوٰی کرناممکن نہیں ہے .
٢۔علمائے مدینہ سے منسوب جواب میں تناقض پایا جاتاہے اس لئے کہ ایک بار یہ کہا جارہا کہ ((بہت سے علماء نے تخریب قبور کے وجوب کافتوٰی دیاہے ))تودوسری بار یہ کہاجارہا:((حرمت پر دلالت کرنے والی احادیث کے صحیح ہونے پر اجماع موجود ہے)).
اگرواقعا اجماع موجود ہے تو پھر تمام علماء نے قبورکی تخریب کے وجوب کافتوٰی کیوں نہ دیا؟
٣۔اس حدیث میں سنداور دلالت دونوں اعتبار سے اشکال موجود ہے.
اس حدیث کی سند میںایسے افراد موجود ہیں جنہیں علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے جن میں سے ایک وکیع بن جرّاح ہے.
عبداللہ بن احمد بن حنبل شیبانی اس کے متعلق کہتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے سناوہ کہا کرتے تھے: ابن مہدی کی تصحیف (١)وکیع کی نسبت زیادہ اور وکیع کے اشتباہات ابن مہدی سے زیادہ ہیں.
وہی دوسرے مقام پر کہتے ہیں : ابن مہدی نے پانچ سو احادیث میں خطا کی ہے.(٢)
ابن المدینی کہتے ہیں : وکیع عربی زبان میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور اگر اپنے الفاظ میں بیان کرتا تو انسان کو تعجب میں ڈال دیتا.وہ ہمیشہ کہا کرتا: ((حدّثناالشعبی عن عائشہ)) (٣)
اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابو سفیان ثوری ہے .
ذہبی اس کے متعلق کہتے ہیں: سفیان ثوری دھوکے اور فریب کاری سے ضعیف راویوں کو ثقہ اور قابل اعتماد بیان کیا کرتا.(٤)
یحیٰی بن معین اس کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابو اسحاق کی احادیث میں سفیان سے بڑھ کر کوئی دانا تر نہیں لیکن وہ احادیث میں تدلیس (حدیث میں ایک طرح کا جھوٹ اور اس میں ملاوٹ کرنا ہے )کیا کرتا . (٥)
اسی حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی حبیب بن ابو ثابت ہے .ابن حبّان حبیب کے
------------
١۔لکھنے یا پڑھنے میں کسی بھی قسم کی غلطی کو تصحیف کہاجاتا ہے.
٢۔تہذیب الکمال ٣٠: ٤٧١.
٣۔میزان الاعتدال ٧:١٢٧.
٤۔حوالہ سابق.
٥۔الجرح والتعدیل٤: ٢٢٥.
متعلق کہتے ہیں: وہ حدیث میں تدلیس اور دھوکے سے کام لیا کرتا .(١)
ابن خزیمہ ا س کے بارے میں کہتے ہیں: حبیب بن ابو ثابت احادیث میں تدلیس کیا کرتا.(٢)
اس حدیث کے راویوں میں سے ایک ابووائل بھی ہے جو دل میں بغض علی علیہ السلام رکھتا تھا ( ٣)جبکہ حدیث معتبر میں رسالت مآب ۖ نے فرمایا :
(( یا علی لایحبّک الاّ مؤمن ولا یبغضک الاّ منافق ))
اے علی ! تجھ سے محبت وہی کرے گا جو مومن ہو گا اور تجھ سے بغض وہی رکھے گا جو منافق ہو . (٤)
دوسری جانب حدیث کے متن کی بھی تحقیق کی ضرورت ہے چونکہ اس کا راوی تنہا ((ابو الہیاج ))ہے لہذا یہ حدیث ((شاذ )) کہلائے گی.
جلال الدین سیوطی نے نسائی کی شرح میں لکھا ہے : کتب روایات میں ابوالہیاج سے فقط یہی ایک روایت نقل ہوئی ہے .
اورپھر یہ حدیث ان کے مدّعا پر دلالت بھی نہیں کر رہی چونکہ ایک طرف قبر کے زمین کے برابر کرنے کی حکم دے رہی ہے تو دوسری جانب اس کے اوپر والے حصے کے ناہموار ہونے سے منع کر رہی ہے .اس لئے کہ ((شرف )) کا معنٰی بلندی ہے. اور لغت میں اونٹ کی کوہان کی بلندی کو کہا جاتا ہے. (٥)
------------
١۔ تہذیب التہذیب ٢: ١٥٦.
٢۔حوالہ سابق.
٣۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ٤: ٩٩.
٤۔مجمع الزوائد ٩: ١٣٣.
٥۔القاموس ٣: ١٦٢.
اس بنا پر لفظ شرف ہر طرح کی بلندی کو شامل ہو گا جبکہ ((سوّیتہ)) کا معنٰی برابر کرنا اس بات پر قرینہ ہے کہ یہاں پر ((شرف )) سے مراد اونٹ کی کوہان یا مچھلی کی پشت پرموجود ابھار ہے.
دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ اس حدیث میں تین احتمال موجود ہیں:
١۔ قبروںکے اوپر موجود بلند عمارتوں کو ویران کیا جائے .
٢۔ قبروں کو زمین کے برابر کیا جائے .
٣۔ جس قبر کے اوپر اونٹ کی کوہان کے مانندابھار موجود ہو اسے برابر کیا جائے .
پہلا احتمال مردود ہے اس لئے کہ صحابہ کرام کا عمل اور سیرت مسلمین اس کے خلاف ہے جس کے نمونوں کی طرف اشارہ کر چکے.
نیز دوسرا احتمال بھی باطل ہے چونکہ سنت قطعی قبر کے زمین سے ایک بالشت بلند ہونے پر دلالت کر رہی ہے ۔
تیسر ا احتمال یہ کہ قبر کے اوپر موجود ہر طرح کی ناہمواری اور کجی جواونٹ کی کوہان کی مانند ہو اسے برابر کیا جائے .بعض اہل سنت علماء جیسے عسقلانی اور نووی وغیرہ نے بھی اس روایت کی یہی شرح بیان کی ہے.
نووی کہتے ہیں: قبر کو زیادہ بلند نہیں ہونا چاہئے اور اوپر سے مسنّم( اونٹ کی کوہان کی طرح )نہ ہوبلکہ زمین سے ایک بالشت بلند اور اوپر سے ہموار ہو ۔(١)
قسطلانی قبروں کے ہموار ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : ابو الہیاج کی حدیث
------------
١۔ المجموع ٥: ٢٩٥اور ١:٢٢٩.
سے مراد یہ نہیںہے کہ قبر زمین کے برابر ہوبلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ قبر کو اوپر سے ہموار ہونا چاہئے .(١)
سیرت صحابہ کرام ومسلمین
بیت المقدس کے اطراف میں بہت سے انبیائے الہی کی قبور موجود ہیں جیسے قدس میں حضرت داؤد علیہ السلام کی قبر ، الخلیل میں حضرت ابراہیم ،حضرت اسحا ق، حضرت یعقوب ، حضرت یوسف علیہم السلام کی قبور جن پر بلند عمارات پائی جاتی ہیں.اسلام سے پہلے ان پر پتھر موجود تھے اور جب اسلام نے اس علاقے کو فتح کیا تویہ قبور اسی صورت میں تھیں. (٢)
ابن تیمیہ اسی مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے:
شہر الخلیل کی فتح کے دوران صحابہ کرام کی موجودگی میں حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی قبر پر عمارت موجود تھی مگر یہ کہ اس کا دروازہ ٤٠٠ہجری تک بند رہا۔(٣)
بے شک جب حضرت عمر نے بیت المقدس کو فتح کیا تو اس وقت بھی یہ عمارت موجود تھی لیکن اس کے ویران کرنے کا حکم نہیں دیا جبکہ ابن بلہید یہ دعوٰی کررہا کہ مقبروں کا بنانا پانچویں صدی کے بعد رائج ہوا۔
یہ دعوٰی یقینا درست نہیں ہے چونکہ بہت سے مقبروں کا تعلق پہلی ،دوسری یا تیسری صدی سے ہے (٤)جن کے چندایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :
------------
١۔ ارشادالساری ٢: ٤٦٨.
٢۔کشف الارتیاب :٣٠٦.
٣۔مجموع الفتاوٰی ابن تیمیہ ٢٧: ١٤١.
٤۔اخبار المدینة١: ٨١.
١۔ اس حجرہ شریفہ کی عمارت جس میں آنحضرت ۖ مدفن ہیں۔
٢۔ حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر پر موجود مسجد کی عمارت۔
٣۔محمد بن زید بن علی علیہ السلام کے گھر میں پیغمبر ۖ کے فرزند ابراہیم کی قبر .
٤۔ امیرالمؤمنین حضرت علیہ السلام کا روضہ مبارک جو ٣٧٢ ہجری میں تعمیر ہوا۔( ١)
٥۔زبیر کا مقبرہ جو ٣٨٦ ہجری میں تعمیر کروایا گیا.(٢)
٦۔حضرت سعد بن معاذ کا مقبر ہ جو دوسری صدی ہجری میں بنا.(٣)
٧۔ ٢٥٦ ہجری میں امام بخاری کی قبر پر ضریح کا بنا کر رکھا جانا.(٤)
صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں مقبروں کی تعمیر نو
ہم اس موضوع کا آغاز اس سوال سے کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اگر واقعا مقبروں اور روضوںکابنانا حرام ہے تو پھر صحابہ کرام نے روضہ پیغمبر ۖ کو کیوں نہ گرایا جس کی عمارت اب بھی موجودہے؟
اور پھر جس گھر میں آنحضرت ۖ کو دفن کیا گیا تھا اس میں دیوار نہیں تھی اور سب سے پہلے جس نے دیوار بنوائی وہ حضرت عمر بن خطاب تھے ۔(٥)
ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ حضرت عائشہ نے اس گھر میں اپنے اور قبور کے درمیان دیوار
------------
١۔سیر اعلام النبلاء ١: ٢٥١.
٢۔المنتظم ١٤:٣٧٧.
٣۔ سیر اعلام النبلاء ١٣: ٢٨٥.
٤۔ الطبقات الشافعیة الکبرٰی٢: ٢٣٤.
٥۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٢: ٥٤١.
بنوائی اور پھر وہیں پہ نماز بھی پڑھا کرتی تھیں۔
عبداللہ بن زبیر نے اپنے دور حکومت میں قبر مبارک پر عمارت بنوائی جو کچھ عرصہ بعد خراب ہو گئی اور پھر متوکل عباسی کے زمانے میں اس عمارت پر سنگ مرمر لگائی گئی۔
صحابہ کرام اور دیگر افراد کی قبور
١۔ دوسر ی صد ی ہجری میںہارون الرشید نے امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہما السلام کی قبر مبار ک پر گنبد بنوایا۔( ١)
٢۔ ٢٣٠ ہجری میں نہشل بن حمید طوسی نے معروف شاعر ابو تمام حبیب بن اوس طائی کا مقرہ بنوایا(٢)
٣۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ٣٦ ہجری میں وفات پائی .خطیب بغد ادی لکھتے ہیں: ان کی قبر اب بھی ((ایوان کسرٰی )) کے قریب موجود ہے ... اس پر مقبرہ بنا ہوا ہے ...(٣)
٤۔ ابن بطوطہ ، طلحہ بن عبید اللہ ( جو اپنے زمانہ کے امام حضرت علی علیہ السلام کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مار اگیا تھا ) کے مقبرہ کے متعلق کہتے ہیں:
اس کی قبر شہر کے اندر موجود ہے اور اس پر گنبد بنا ہوا ہے ۔(٤)
٥ ۔ ٢٠٤ ھ میں امام شافعی کی وفات ہوئی ،ذہبی نے لکھا ہے:ملک کامل نے شافعی کی قبر پر گنبد بنوایا(٥
٦۔ ذہبی کہتے ہیں: ٢٣٦ ھ میں متوکل عباسی نے یہ حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کی قبر اور اس کے
------------
١۔سیر اعلام النبلاء ١٦: ٢٥١.
٢۔شذرارت الذہب ٢:٧٤.
٣۔ تاریخ بغداد ١: ١٦٣.
٤۔ سفر نامہ ابن بطوطہ ١: ٢٠٨.۔
٥۔ دول الاسلام : ٣٤٤.
اطراف میں موجود عمارتوں کو ویران کیا جائے ۔جب اس کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا تو مسلمان غمگین ہوئے اور اہل بغداد نے مساجد اور شہر کی دیواروں پر اس کے خلاف نعرے لکھے اور شعراء نے اپنے اشعار میں اس کی مذمت کی ...۔(١)
البتہ طول تاریخ اور تاریخی وقائع میں اس کے بہت زیادہ نمونے واضح طور پر پائے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کی زندگی میں ان کی یہی سیرت رہی ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات تعمیر کرواتے اور یہ سیرت وہابیوں کے افکار سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ لیکن اس کے باوجود اکرم البوشی جیسا شخص ذہبی کی کتاب ((سیر اعلام النبلائ) کے حاشیہ پر ان تاریخی حقائق کے ذیل میں لکھتاہے :
یہ سب مسلمان عوام کے خود ساختہ امور ہیں جو اس بارے میں کسی قسم کی آگاہی نہیں رکھتے اور یہ اعمال بدعت ہیں جن سے نہی کی گیٔ ہے۔
خدا وند متعال کا شکر ہے کہ اکرم البوشی نے یہ نہیں کہا : کہ یہ شیعوں کا کام ہے بلکہ کہا : (مسلمان عوام کا کام ہے )) ۔ ہاں ! گویا خود کو خواص میںسے سمجھتاہے اور باقی مسلمانوں کوعوام !
ابو زبیر کی حدیث سے استناد
وہابیوں نے اپنے مدعاکے اثبات کے لیٔے ابو زبیر کی روایت سے استناد کیا ہے ابوزبیر کہتاہے :
((نھی رسول اللہ ان یجصص القبر وأن یقعد علیہ وأن یبنی علیہ ))
رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے قبروں کو چونا کرنے، ان کے پاس بیٹھنے یا ان پر مقبرہ تعمیر کرنے
سے نھی فرمائی ہے ۔
------------
١۔مآثر الانافة فی معالم الخلافة ،قلقشندی ١: ١٢٠.
البتہ یہ حدیث چند واسطوں سے نقل ہوئی ہے ۔ مسلم ، ترمذی ، ابن ماجہ ، نسائی ، ابوداؤد اور احمدبن حنبل نے عبارت میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ اسے نقل کیا ہے ۔ (١)
اس حدیث پر اعتراضات
اس حدیث میں بھی سند اور دلالت کے اعتبار سے اشکال موجود ہے ۔
١۔اس حدیث کی سند میں ابن جریج ، ابوزبیر ، حفص بن غیاث اور محمد بن ربیعہ جیسے راوی موجود ہیں جن کے بارے میں اہل سنت علمائے رجال نے شک وتردید کا اظہار کای ہے ۔ انہی راویوں میں سے ایک ابن جریج ہے ۔ احمد بن حنبل اس کے بارے میں کہتے ہیں : اگر ابن جریج کہے کہ فلاں وفلاں نے یوں کہا ہے تو وہ منکر ومجھول احادیث کو نقل کررہاہے ابن حبان نے بھی اسے اہل تدلیس قرار دیا ہے ۔(٢)
اس کا دوسرا راوی ابوزبیر ہے جس کے بارے میں نعیم بن حماد کا کہنا ہے : میں نے ابن عیینہ سے سنا ہے کہ وہ ابوزبیر کو حدیث کے نقل کرنے میں ضعیف قرار دیا کرتے ۔
عبدالرحمان بن ابوحاتم نے اس کے بارے میں اپنے والد سے سوال کیا تو ابوحاتم نے کہا : ابو زبیر کی احادیث لکھی جائیں گی لیکن ان سے استدلال نہیں کیا جائے گا۔ (٣)
اس حدیث کا ایک اور راوی حفص بن غیاث ہے ۔ یعقوب بن شعبہ حفص کی نقل کردہ روایات کے بارے میں کہتے ہیں : اس کے بعض محفوظات کے بارے میں احتیاط سے کام لیاجائے۔
داؤد بن رشید نے اس کے بارے میں یوں اظہار نظر کیاہے وہ کہتے ہیں : حفص بہت زیادہ
------------
١۔صحیح مسلم ٢:٦٦؛سنن ترمذی ٣:٣٦٨؛سنن ابن ماجہ١:٤٩٨؛سنن نسائی ٤:٨٨؛سنن ابی داؤد٣:٢١٦؛ مسند احمد ٣:٢٩٥.
٢۔تہذیب الکمال ١٨:٣٤٨؛ تہذیب التہذیب ٦: ٣٥٧.
٣۔تہذیب الکمال ٢٦:٤٠٧.
اشتباہ کیا کرتا۔ (١)
وہابی کسطرح ان احادیث پر بھروسہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی تکفیر اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں جن کی سند میں اس قدر فراوان اشکالات پائے جاتے ہیں ۔
٢۔ دلالت کے اعتبار سے بھی اس حدیث میں مشکل پائی جاتی ہے ۔
اولا: یہ حدیث یہ کہہ رہی ہے : (رسولخدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے قبروں کوچونا کرنے ، ان کے پاس بیٹھنے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے سے نہی فرمائی ہے )) جب کہ نہی ہمیشہ حرمت پر دلالت نہیں کرتی بلکہ بسا اوقات کراہت پر دلالت بھی کرتی ہے جس کے نمونے بکثرت موجود ہیں اور یہی کثرت باعث بنتی ہے کہ اس حدیث میں نہی کا ظہور کراہت پر دلالت کرے ۔
اسی بناء پر اہل سنت علماء نے اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں فتوی دیا ہے۔ شافعی اس حدیث کے مطابق کہتے ہیں : مستحب یہ ہے کہ قبر زمین سے زیادہ بلند نہ ہو۔
نووی کہتے ہیں : صاحب قبر کی اپنی ملکیت میں قبر پر عمارت بنانامکروہ اور و قف شدہ زمین میں حرام ہے.(٢)
سندی نے نیشاپوری سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھاہے : یہ حدیث صحیح ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا اس لیے کہ شرق وغرب تک اسلام کے پیشوا قبروں پر عبارات لکھا کرتے اور یہ و ہی چیز ہے جسے آنے والی نسلوں نے سلف سے لیا ہے (٣)
ثانیا : ایسی احادیث تعمیر قبور اور ان پر عمارت کے حکم کو بیان نہیں کررہی ہیں اسلئے کہ یہ کام شعائر اللہ اور
------------
١۔تاریخ بغداد ٨:١٩٩.
٢۔شرح صحیح مسلم ٧: ٢٧.
٣۔حاشیہ نسائی ٤:٨٧.
خدا کی نشانیوں میں سے ہے جن کی تعظیم ضروری ہے اور ان کا شعائر الہی ہونا اس اعتبار سے ہے کہ ان قبروں میں مدفون یا تو انبیائے الہی ہیں یا اولیائے خدا ، یا یہ کہ ان قبور کی تعمیر اور ان پر عمارات کا بنانا مصلحت یا دین میں ان کی اہمیت کی بناء پر ہے ۔ مندرجہ ذیل شواہد ہمارے مدعی کوثابت کررہے ہیں :
١۔ ابن ماجہ کہتے ہیں : رسول خدا ۖنے عثمان بن مظعون کی قبر پر ایک پتھر رکھ کر اسے مشخص کیا ۔ (١) ہیثمی ابن ماجہ کے کلام کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اس حدیث کی سند حسن اور معتبر ہے ۔
٢۔اصبغ ابن نباتہ کہتے ہیں: دختر رسول خدا ۖ حضرت فاطمہ ، حضرت حمزہ کی قبر پر تشریف لاتیں تو اس پر نشانی رکھ کر جاتیں تاکہ اسے پہچان سکیں ۔
اسی طرح کہتے ہیں : پیغمبر ۖ ، ابوبکر او رعمر کی قبور پر چھوٹے چھوٹے پتھر موجود تھے۔(٢)
مقبروں کے آثار
واضح ہے کہ قبروں کے اوپر عمارات بنانے میں فوائد و آثارپائے جاتے ہیں مثال کے طور پر :
١۔ یہ کام شعائر الہی میں سے او ردشمنوںومنکروں کی ناک کو خاک پر ملنا ہے ۔
٢۔ان مقامات میں عبادات کا انجام دینا ان کی شرافت وعظمت کی وجہ سے رجحان رکھتاہے ۔ لہذا زائرین کو گرمی وسردی سے بچانے ، زیارت میں آسانی ، نماز ، تلاوت قرآن اور مجالس وعظ میں شرکت کرنے والوں کیلئے سائبان قرار دینا ایک نیک عمل ہے ۔
٣۔دین کے نمونوں کو ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھنا ۔
شاید مقبروں کا مہم ترین اثر یہی ہے کہ اس طرح دین کے بنیادی نمونوں کی حفاظت کی جاسکے اور اگرایسی
------------
١۔سنن ابن ماجہ ١:٤٩٨.
٢۔المصنف ٣: ٥٧٤.
تعظیم نہ ہو تویہ نمونے فراموشی کی نذر ہوجائیں گے ۔
درحقیقت وہابیوں کا اصلی ہدف مقبروں کی تعمیر کی مخالفت کرکے ایک دینی دستور پر عمل پیرا ہونا نہیں ہے بلکہ وہ دین کے ان نمونوں کی نابودی چاہتے ہیں جبکہ انسان تربیت میں نمونے کا محتاج ونیازمند ہے ۔
|