٧۔قبروں پر دعا کرن
قبر پیغمبر ۖ اور دیگر قبور کے پاس دعاکرنااور نماز پڑھنا
جو ادلّہ بیان کی جائیں گی ان کے مطابق قبر مطہّر پیغمبر ۖ اور دیگر قبور کے پاس نماز پڑھنا اور دعاکرنا ایک جائز اور شرعی عمل ہے. طول تاریخ میں مسلمانوں کا یہی طریقہ کا ر رہا ہے اور اب بھی ہے. جبکہ اس بارے میں وہابیوں کا نظریہ باقی نظریات کے مانند تمام مسلمانوں کے نظریہ کے مخالف ہے.
وہابیوں کا نظریہ
وہابی قبور کے پاس نماز پڑھنے اور دعا کرنے سے منع کرتے ہیں اور اسے شرک وکفر سمجھتے ہیں اس بارے میں ابن تیمیہ کہتا ہے:
(( صحابہ کرام جب بھی قبر پیغمبر ۖ کے پاس آتے تو ان پر سلام بھیجتے اور جب دعاکرنے لگتے تو قبر نبوی کی جانب سے رخ موڑ کر قبلہ کی جانب منہ کرخداسے دعا کرتے اور باقی قبور پر بھی اسی طرح کرتے ...)) .
اسی دلیل کی بناء پر گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی ایک نے قبور یا اولیاء کے مقدس مقامات پر نماز اداکرنے کے مستحب ہونے کے بارے میں نہیںکہا ہے. نیز یہ بھی نہیں کہا کہوہاں پر نما ز ادا کرنا یا دعاکرنا دوسرے مقامات سے افضل ہے بلکہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ گھروں یا مساجد میں نماز ادا کرنا اولیاء وصالحین کی قبور کے پاس ادا کرنے سے افضل وبہتر ہے ،چاہے ان قبور کو مقدس مکان کا نام دیا جائے یا نہ .(١)
اس توہّم کا جواب
ہم ابن تیمیہ کے اس بے بنیاد نظریہ کا جواب چند طریقوں سے دے سکتے ہیں :
اوّل:روایات عامہ یہ بیان کر رہی ہیں کہ کسی بھی مکان میں نماز اور دعا جائز ہے پس قبر پیغمبر ۖ اور دیگر انبیاء و صالحین کی قبور پر بھی نماز و دعا جائز ہوگی ہم ان عمومات واطلاقات کی بناء پر اس کے جواز کا حکم لگائیں گے .
دوم: دین مبین اسلام سے جو کچھ سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ مکان جو شریعت کی نظر میں محترم و مکرم ہے وہاں پہ نماز ودعا اورمطلقا عبادات بھی فضیلت رکھتی ہیں .
دوسری جانب ہر مکان کا احترام اسکے مکین سے ہوتا ہے اور ہر قبر کا مقام اس میں دفن ہونے
سوم: یہ آیت : (( ولو أنّھم اذ ظلموا أنفسھم جاؤوک فاستغفروااللہ ...))(٢)
ترجمہ: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے ...
------------
١۔ رسالہ زیارة القبور : ٢٨.
٢۔ نساء : ٦٤.
اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ قبر پیغمبر ۖ کے پاس دعا کرنا فضیلت کا باعث ہے اس لئے کہ لفظ ((جاؤوک)) آنحضرت ۖ کی حیات وممات دونوں کو شامل ہے . اور آنحضرتۖ کا احترام ان کی حیات وممات میں ایک جیسا ہے .
قابل ذکر یہ ہے کہ امام مالک نے منصور کے ساتھ ملاقات میں اسی مطلب کی وضاحت کی . (١)
شمس الدین جزری کہتے ہیں : اگر قبر پیغمبر کا پاس دعا قبول نہیں ہو گی تو پھرکونسامکان ہے جہاں دعا قبول ہوگی ؟!
چہارم: حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت وہابیوں کے نظریہ کے بالکل مخالف ہے اس لئے وہ ہر جمعہ کو اپنے چچا حمزہ کی قبر کی زیارت کے لئے جاتیں اور وہاں پہ نماز ادا کرتیں اور گریہ کیا کرتیں.(٢)
وہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا جن کے غضبناک ہونے سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ان کی خوشنودی سے خدا خوشنود ہوتا ہے(٣)کیا سنّت پیغمبر ۖ ان پر مخفی تھی ؟
کیا قبور کی زیارت کرکے انہوں نے سنت رسول ۖ کی مخالفت کی؟ کیا واقعا یہ بات ابنتیمیہ پر مخفی تھی کہ وہ یہ ادّعا کررہا کہ گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی نے قبور یا بقعہ کے پاس نماز پڑھنے کے استحباب کا فتوٰی نہیںدیا ؟!
پنجم: زمانہ رسول ۖ سے لے کر آج تک مسلمانوں کی سیرت یہ رہی ہے کہ وہ صالحین ومؤمنین کی قبور کے پا س نماز بھی ادا کرتے اور وہاں پہ دعا بھی کیا کرتے .جس کے چند ایک نمونے مندرجہ ذیل ہیں :
------------
١۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٧٦؛ المواہب اللدنیة ٣: ٤٠٩.
٢۔ المصنّف ٣: ٥٧٢؛ المستدرک علی الصحیحین ١: ٥٣٣.
٣۔ فتح الباری ٧: ١٣١
١۔عمر بن خطاب کا طریقہ کار:
طبری ((ریاض النضرة )) میں لکھتے ہیں :
ایک مرتبہ جب حضرت عمر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حج بجالانے کے لئے نکلے تو راستے میں ایک بوڑھے شخص نے ان سے مدد طلب کی . جب حج سے واپس پلٹنے لگے تو ابواء کے مقام پر اس شخص کے بارے میں سوال کیا تو معلوم ہوا کہ وہ تو فو ت ہو چکا ہے . جیسے ہی یہ خبر سنی بڑے بڑے قدم رکھتے ہوئے اس کی قبر پہ پہنچے .اس کے لئے نماز ادا کی اور قبرکو گلے لگا کر گریہ کیا .(١)
٢۔ امام شافعی کا قول :
امام شافعی کہتے ہیں : میں ابو حنیفہ کی قبر سے تبرّک حاصل کرتا ہوں ،جب مجھ پر کوئی مشکل آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جا کر خداوند متعال سے حاجت طلب کرتا ہوں .(٢)
٣۔قبر معروف کرخی :
ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ زہری کہتے ہیں :
معروف کرخی کی قبر کے پاس حاجات کا پورا ہونا تجربہ شدہ ہے اسی طرح کہا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی قبرکے پا س ایک سو مرتبہ ( قل ھو اللہ أحد ) کی تلاوت کرے اور پھر خد اسے حاجت طلب کرے تو اسکی حاجت پوری ہوگی .(٣)
------------
١۔ ریاض النضرة ٢: ٢٣٠.
٢۔ صلح الأخوان : ٨٣؛ تاریخ بغداد ١: ١٢٣.
٣۔تاریخ بغداد ١: ١٢٢.
ابراہیم حربی کہتے ہیں :معروف کرخی کی قبرزہری کے لئے تجربہ شدہ پناہ گاہ تھی.
ذہبی اس بارے میں کہتے ہیں : اس قبر پر درماندہ افراد کی دعا قبول ہوتی ہے چونکہ مبارک بقعوں کے پاس دعا مستجاب ہوتی ہے .(١)
احمد بن فتح کہتے ہیں : میں نے بشر تابعی سے معروف کرخی کے بارے میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا : جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو تو ان کی قبر پر جاکر دعا کرے ان شاء اللہ اس کی دعا قبول ہوگی .(٢)
ابن سعد سے اس بارے میں یوں نقل کیا گیا ہے : معروف کرخی کی قبر سے بارش طلب کی جاتی ہے ان کی قبر آشکار ہے اور لوگ دن رات اس کی زیارت کے لئے آتے رہتے ہیں .(٣)
٤۔ قبر شافعی :
جزری کہتے ہیں : شافعی کی قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے.(٤)
٥۔ قبر بکراوی حنفی ( ت ٤٠٣):
وہ ((قرافہ )) میں دفن ہوئے اوران کی قبر ایک معروف زیارت گاہ ہے . لوگ اس سے تبرک حاصل کرتے ہیں اورکہا گیا ہے کہ ان کی قبر کے پاس دعا مستجاب ہوتی ہے.(٥)
------------
١۔ سیر اعلام النبلاء ٩: ٣٤٣
.٢۔ صفة الصفوة ٢: ٣٢٤.
٣۔ طبقات الکبرٰی ١: ٢٧.
٤۔غایة النھایة فی طبقات القرائ٢: ٩٧
٥۔ الجواہر المضیئة ١: ٤٦١.
٦۔ قبر حافظ عامری ( ت٤٠٣) :
نقل کیا گیا ہے کہ لوگ رات کے وقت ان کی قبر پہ جمع ہوتے ہیں ، ان کے لئے قرآن کی تلاوت اور ان کے حق میں دعا کرتے ہیں. ( ١)
٧۔ قبر ابو بکر اصفھانی ( ت٤٠٦):
وہ نیشاپور کے اطراف میں (( حیرة)) کے مقام پر دفن ہوئے .ان کی بارگاہ وہاں پہ آشکار اور زیارتی مکان ہے.کہا گیا ہے کہ ان کی قبر سے باران رحمت کی دعا کی جاتی ہے اور دعا وہاں پہ قبول ہوتی ہے(٢)
٨۔ قبر نفیسہ خاتون :
سیدہ نفیسہ دختر ابو محمد ،حسن بن زید امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی اوالاد میں سے اور اسحاق بن امام صادق علیہ السلام کی زوجہ ہیں . ابن خلکان کہتے ہیں : وہ ((درب السباع )) مصر میں دفن کی گئیں اور ان کی قبر دعاکے مستجاب ہونے میں معروف ہے اور یہ ایک تجربہ شدہ امر ہے.( ٣)
ششم : اہل سنت کے بزرگ علماء جلال الدین سیوطی نے معراج پیغمبر ۖ کی داستان اور ابن تیمیہ کے شاگرد ابن جوزیہ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ کو نقل کرنے کے بعد زیارت کے حرام ہونے کے عقیدہ مخالفت کی ہے .(٤)
------------
١۔البدایة والنھایة ١١: ٣٥١.
٢۔ وفیات الأعیان ٤: ٢٧٢.
٣۔حوالہ سابق ٥: ٤٢٤.
٤۔کشف الارتیاب : ٣٤٠، نقل از زاد المعاد .
ابن تیمیہ کا دوسرا فتوٰی
ابن تیمیہ نے ایک اور فتوٰی میں صحابہ کرام کی طرف نسبت دی ہے کہ وہ دعا کے وقت پیغمبر ۖ کے سامنے نہیں کھڑے ہوتے تھے بلکہ ان کی قبر سے رخ موڑ کر قبلہ کی جانب منہ کرکے کھڑے ہوتے(١)
اس ادّعا کا جواب
ہم اس ادّعا کا جواب تین طرح سے دیں گے:
اوّل: ابن تیمیہ نے اس بارے میں صحابہ کرام میں سے کسی ایک کا بھی نام نہیں لیا کہ کس صحابی نے دعا کرتے وقت اپنا منہ قبر سے پھیر ا جبکہ اس کے ادّعا کے برعکس ثابت ہو چکا ہے.
عبداللہ عمر جوخود صحابی ہیں ابن تیمیہ کے نظریہ کے خلاف بیان کرتے ہیں: مستحبات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان پیغمبر ۖ کی قبر کے پاس دعا کرتے وقت قبر مبارک کی طرف منہ اور قبلہ کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو.(٢)
دوم : اس میں کوئی مانع نہیں ہے کہ انسان دعا کرتے وقت قبر کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو اس لئے کہ آیت کریمہ یہ فرما رہی ہے :
(( أینما تولّو افثمّ وجہ اللہ )) (٣)
------------
١۔رسالة زیارة ا لقبور: ٢٦.
٢۔ فضل الصلاة علی النبی ّ : ٨٤، ح ١٠١؛ کشف الارتیاب : ٢٤٧و ٣٤٠؛ الغدیر ٥: ١٣٤.
٣۔ سورہ بقرہ : ١١٥.
سوم : فقہاء کا فتوٰی ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کے قول کے خلاف ہے.نمونہ کے طور پر چند فتاوٰی نقل کر رہے ہیں :
١۔فتوائے امام مالک:
جب منصور نے امام مالک سے پوچھا کہ قبر پیغمبر ۖ پر دعا کرتے وقت آنحضرت ۖکی قبر کی طرف رخ کروں یا قبلہ کی طرف ؟
تو امام مالک نے جواب میں فرمایا: کس لئے قبر پیغمبر ۖ سے روگردانی کرناچاہتے ہو جبکہ وہ تو تمہارے اور تمہارے باپ آدم کے بھی قیامت تک وسیلہ ہیں ؟ پس قبر رسول وۖ کی طرف منہ کر ان سے شفاعت طلب کر ،خداانکی شفاعت قبول کرتا ہے ...( ١)
یہ سوال وجواب واضح طور پر بتا رہا ہے کہ قبر پیغمبر ۖ کے پاس دعا کرنا فضیلت کا باعث ہے اور اس میں کسی قسم کی تردید نہیں تھی لیکن جو چیز منصور جاننا چاہ رہا تھا وہ یہ تھی کہ کیا دعا کرتے وقت قبلہ کی جانب منہ کرنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے یا قبر مبارک کی طرف ؟ (٢)
٢ ۔ فتوائے خفاجی :
خفاجی کہتے ہیں : شافعی اور عام علماء کا نظریہ یہ ہے کہ قبر پیغمبر ۖ کے پاس دعا کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور قبر مطہّر کی طرف منہ ہونا چاہئے .اور ابو حنیفہ سے بھی یہی فتوٰی نقل ہواہے .(٣)
------------
١۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفیٰ ٤: ١٣٧٦؛ المواہب اللدنیة ٣: ٤٠٩؛ الفروق ،صنہاجی٣: ٥٩.
٢۔ اشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی ٢: ٩٢؛ الغدیر ٥: ١٣٥؛ کشف الارتیاب : ٢٤٠و ٢٥٥و ٢٦١.
٣۔ شرح الشفاء ٣: ٥١٧.
٣۔ فتوائے محقق حنفی :
کمال بن حمام کہتے ہیں : ابو حنیفہ سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ دعا کے وقت قبلہ کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوتے جبکہ یہ قول مردود ہے اس لئے کہ عبداللہ بن عمر سے نقل ہوا ہے کہ ((مستحب یہ ہے کہ قبلہ کی جانب سے پیغمبر ۖ کی قبر مبارک کے پاس آیا جائیاور قبلہ کی طرف پشت اور قبر مبارک کی طرف منہ کریں ... )) اور ابوحنیفہ کے نزدیک یہ بات درست ہے . کرمانی کا یہ کہنا کہ(( ابو حنیفہ کا مذہب اس مسئلہ میں اس کے علاوہ ہے ))یہ بات درست نہیں ہے . چونکہ پیغمبر ۖ زندہ ہیں اور اپنے زائر کو دیکھتے ہیں .جس طرح اگر پیغمبر ۖ قید حیات (ظاہری) میں ہوتے تو اپنے زائر کو جو قبلہ کی طرف پشت کئے ہوتا اس کو اپنے پاس بلاتے.( ١ )
٤۔ فتوائے ابراہیم حربی:
وہ اپنی مناسک میں لکھتے ہیں : قبر پیغمبر ۖ کے پاس دعا کرتے وقت اپنی پشت قبلہ کی جانب اور قبر مبارک کے درمیان میں کھڑے ہوں .( ٢)
٥۔ ابو موسٰی اصفہانی کا نظریہ :
ابو موسٰی اصفہانی سے نقل ہو اہے کہ مالک نے کہا : جو شخص قبر پیغمبر ۖ پر آنا چاہے تو اسے چاہئے کہ قبلہ کی جانب پشت اور قبر مبارک کی طرف رخ کر کے آنحضرت ۖپر درود بھیجے اور دعا کرے .(٣)
------------
١۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٨٧؛ المغنی لابن قدامہ ٣: ٢٩٨؛ الشرح الکبیر ٣: ٤٩٥.
٢۔شفاء السقام : ١٦٩؛ شرح الشفاء ٣: ٥١٧؛ کشف الارتیاب : ٣٦٢.
٣۔ المجموع ٨: ٢٠١.
٦۔ سمہودی کا نظریہ:
وہ کہتے ہیں : شافعی اور ان کے اصحاب وغیرہ سے نقل ہواہے کہ انہوں نے کہا : زائر کو چاہئے کہ قبر پیغمبر ۖ پر کھڑے ہو کر قبلہ کی طرف پشت اورضریح مبارک کی طرف اپنا چہرہ کرے ، نیز احمد بن حنبل کا بھی یہی نظریہ ہے .( ١)
٧۔ سختیانی کی رائے :
ابو حنیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہا کرتے : ایوب سختیانی قبلہ کی طرف پشت اور قبر پیغمبر ۖ کی جانب رخ کر کے کھڑے ہوئے اور گریہ کیا .( ٢)
٨۔ فتوائے ابن جماعہ :
ابن جماعہ کہتے ہیں: ابو حنیفہ کے فتوٰی کے مطابق زائر کو چاہئے کہ اسقد ر قبر مطہّر پیغمبر ۖ کا چکر کاٹے کہ پیغمبر ۖ کے چہرہ اقدس کے سامنے آکھڑا ہو اور پھر آنحضرت ۖ پر سلام بھیجے .
جبکہ کرمانی نے دوسرے کے بر عکس کہا ہے : زائر کو چاہئے کہ سلام کرنے کے لئے قبر کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو .( ٣)
------------
١۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٧٨.
٢۔المعرفة والتاریخ ٣: ٩٧؛ کشف الارتیاب : ٢٦١.
٣۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٧٨.
٩ ۔ ابن منکدر کا نظریہ:
ابراہیم بن سعد کہتے ہیں: میں نے ابن منکدر کو دیکھا کہ وہ مسجد پیغمبر ۖ کے داخل ہونے کی جگہ نماز ادا کر رہے تھے .پھر وہاں سے اُٹھے اور تھوڑا چلنے کے بعد قبلہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھ بلند کرکے دعا کی . اس کے بعد قبلہ سے منہ موڑااور ہاتھوں کو ایسے بلند کیا جیسے شمشیر غلاف سے بلند کی جاتی ہے اور دعا کی اور مسجد سے نکلتے وقت بھی یہی عمل انجام دیا جیسے کسی کو خدا حافظی کی جاتی ہے .( ١)
چہارم : اس میں کیا عیب ہے کہ انسان اس مکان میں جہاں پیغمبر ۖ مدفون ہیں تبرّک کے طور پر نماز ادا کرے جیسا کہ اس پتھر پر نماز پڑھی جاتی جس پر حضرت ابراہیم کھڑتے ہوئے تھے اور یہ اس لئے ہے کہ وہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں مبارک کا نشان ہے جس کی وجہ سے وہ ( پتھر ) فضیلت و منزلت رکھتا ہے.خدا وند متعال اس بارے میں فرماتا ہے :
((و اتّخذوا من مقام ابراھیم مصلّیٰ )) (٢)
ترجمہ : اور مقام ابراہیم کو مصلٰی قرار دو.
یہ ایک بے بنیاد بات ہے چونکہ گذشتہ پیشواؤں میں سے کسی نے ایسی بات نہیں کہی ہے جبکہ ابن تیمیہ یہ ادّعاکر رہا ہے کہ تمام گزشتگان نے اسے واضح طور پر بیان کیا ہے .
ابن تیمیہ کا ایک اور قول اور اس کا جواب
ابن تیمیہ کا ایک اور فتوٰی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے :
(( گھر میں نماز ادا کرنا انبیاء و صالحین کی قبور کے پاس نماز ادا کرنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے))(٣)
------------
١۔سیر اعلام النبلاء ٥: ٣٥٨؛ تاریخ دمشق ٥٦: ٤٨ .
٢۔ سورہ بقرہ : ١٢٥.
٣۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٣٧٨؛ الزیارة ( ضمن مجموعة الجامع الفرید ) : ٤٥٤.
اسکی دلیل کی تحقیق اور اس پرتنقید
وہابی قبور کے پاس نماز پڑھنے کے حرام ہونے پر چند احادیث سے استنادکرتے ہیں وہ نقل کرتے ہیں کہ حدیث میں آیا ہے رسول خدا ۖ نے فرمایا :
(( لعن اللہ الیھود ! واتّخذوا قبور انبیائھم مساجد ))
خدا کی لعنت ہو یہودیوں پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد بنالیا .
دوسری حدیث میں نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا :
(( اللّھمّ لا تجعل قبری وثنا یعبد ، اشتدّ غضب اللہ علی قوم اتّخذوا قبور انبیائھم مساجد .)) (١)
پرودگارا ! میری قبر کو بت قرار نہ دینا کہ اسکی عبادت کی جائے ، خدا وند متعال اس قوم پر اپنا غضب سخت کرے جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبور کو مساجد قرار دیا .
ہم اس دوسری حدیث کا چند جہات سے جواب دے رہے ہیں :
اوّل : یہ کہ اس حدیث کی سند میں اشکال ہے اس لئے کہ اس سند میں ایسے راوی موجود ہیں جنہیں اہلسنت کے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے .(٢)
ان راویوں میں سے ایک عبدالوارث ہے جسے علمائے رجال تائید نہیں کرتے اور نہ اس کے پیچھے نماز
------------
١۔ مسند احمد ٢: ٢٤٦؛ موطأامام مالک ١: ١٧٢.
٢۔ میزان الاعتدال ٤: ٤٣٠ ؛او ر ٢: ٣.
پڑھا کرتے .
دوم : یہ کہ یہ حدیث ابن تیمیہ اور اسکے پیروکاروں کے نظریہ پر دلالت نہیں کررہی . اس لئے کہ وہ اس حدیث سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : (( قبور اور بقعوں کے پاس نماز پڑھنا ،نیز ان پر مساجد بنانا جائز نہیں ہے )) .جبکہ حدیث کا ظاہر حبشہ کے کلیسوں رواج کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جب بھی یہودیوں کا کوئی نیک فرد مرتاتو وہ ا س کی قبر پر کلیسا بنادیتے .اور وہاں تصویریں بناکر لگاتے .
اس بناء پر جو انبیاء کی قبور کو مساجد بناتے ان کی سر زنش کی گئی ہے چونکہ مساجد میں تصاویر لگا کر ان کی پرستش کیا کرتے ،ان کے لئے نماز ادا کرتے اور ان تصویروں اور قبور کی طرف منہ کر کے سجد ہ کیا کرتے .
واضح ہے کہ قبور پر مساجد بنانے سے نہی کرنے کی یہی وجہ ہے ورنہ اگر کوئی شخص کسی قبر پر مسجد بنائے لیکن قبلہ رخ ہو کر خد اکے نماز ادا کرے تو اس میں کیا عیب ہے .جیسا کہ آج بھی مسلمان مسجد نبوی شریف یا مسجد جامع بنو امیہ دمشق میں ( کہ اس کے اندر حضرت زکریا علیہ السلام کہ قبر مبارکہے) نماز ادا کرتے ہیں.
سوم: یہ کہ قرطبی ، نووی ، قسطلانی اور بیضاوی نے اس حدیث سے جو مفہوم لیا ہے وہ ابن تیمیہ اور اسکے پیروکاروں کی رائے کے مخالف ہے. اور بعض جگہوں پر تو وہ معنی لیا ہے کہ جسے ہم پہلے بیان کر چکے (١)
چہارم: یہ کہ فقہائے اہل سنت نے اپنے فتاوٰی میں وہابیوں کے توہم کے خلاف فتوٰی دیا ہے .اب ہم ان میں سے بعض کے نظریات کو بیان کر رہے ہیں:
------------
١۔ارشادالساری ٢: ٩٩؛ اور ٣: ٤٩٧؛ شرح صحیح مسلم ٧: ٢٧.
١۔امام مالک کا نظریہ :
امام مالک کے شاگرد ابن قاسم سے کہا گیا : کیا مالک کے نزدیک جائز ہے کہ ایک شخص قبر پر نما زاداکرے جبکہ اس پرغلاف موجود ہو ؟
تو انہوں نے کہا : مالک قبرستان میں نماز ادا کرنے پر اعتراض نہ کرتے . اس لئے کہ وہ قبرستان میں نماز ادا کرتے جبکہ ان کے سامنے ،پیچھے اور دائیں ، بائیں قبریں ہوتیں.
مالک کہتے ہیں : قبرستان میں نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے.
وہ کہا کرتے کہ مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ بعض صحابہ کرام قبرستان میں نماز اداکیا کرتے .( ١)
٢۔ عبدالغنی نابلسی کا نظریہ :
اگر کوئی شخص کسی نیک انسان کی قبر پر مسجدبنائے اور اسکی نیّت یہ ہو اس عبادت کا ثواب اس شخص کے شامل حال ہو اور نماز ادا کرتے وقت اس کی تعظیم یا اسکی طرف توجہ نہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے
. جیسا کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے حرم (جو خانہ کعبہ کے پاس مسجد الحرام کے اندرہے) میں نماز ادا کرنا باقی مکانوں کی نسبت زیادہ فضیلت رکھتا ہے .(٢)
اسی طرح وہ کہتے ہیں : اگرقبروں کی جگہ مسجد بنا دی جائے یا راستہ میں ہو یا کوئی شخص وہاں پہ بیٹھا ہو ، یا یہ کہ کسی ولی خدا یا عالم محقق کی قبر ہو جس نے خدا کی رضا کی خاطر کوشش کی تو اس کی روح پر نور کے احترام کی خاطر۔جو خورشید کے مانند زمین پر چمک رہی ہے ۔اور یہ بتانے کے لئے کہ صاحب قب رولی
------------
١۔المدوّنة الکبرٰی ١: ٩٠.
٢۔ الحدیقة الندبة ٢: ٦٣١.
خداہے اس سے تبرّک حاصل کیا جائے ا وراسکی قبر کے پاس دعاکی جائے تاکہ مستجاب ہو.تو اس میں کوئی اشکال نہیںہے.اس لئے کہ انسان کے اعمال کا دارومدار اس کی نیّت پر ہے .( ١)
٣۔ ابومالکی کا نظریہ :
کوثری کہتے ہیں : ابومالکی نے اپنانظریہ یوںبیان کیا : جو بھی کسی نیک انسان کی قبر پر مسجد بنائے یا اس کے مقبرہ میں نماز ادا کرے جبکہ اسکا مقصد اس شخص کے آثار سے تبرّک حاصل کرنا اور اسکی قبر کے پاس دعا مستاب کروانا ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے . اور اسکی دلیل حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قبر مبارک ہے جو مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کے پاس ہے اور اسمیں نماز ادا کرنا باقی مقامات پر ادا کرنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے .(٢)
٤۔بغوی کا نظریہ :
بغوی کہتے ہیں: بعض علما ء فرماتے ہیں کہ قبرستان میں یا قبور کے پاس نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ قبرستان میں نماز کی جگہ پاک ہو .
ایک روایت میںبیان ہوا ہے: ایک دن عمر بن خطاب نیانس بن مالک کو ایک قبر کے پاس نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا : یہ قبر ہے ! یہ قبر ہے ! لیکن ان سے یہ نہیں کہا کہ دوبارہ نماز ادا کرو .
حسن بصری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قبرستانوں میں نماز ادا کیا کرتے .
مالک سے نقل کیا گیا ہے قبرستان میںنماز ادا کرنا کوئی عیب نہیں رکھتا .
------------
١۔حوالہ سابق : ٦٣٠.
٢۔ المقالا ت کوثری ٢٤٦؛ شرح صحیح مسلم ٢: ٢٣٤.
وہی کہتے ہیں : بعض مکانوں ( حمام اور قبرستان)میں نماز کرنے سے نہی کی دلیل یہ کہ وہاں پر غالبا نجاست پھینی جاتی ہے جیسے حمام .اسی وجہ سے وہاں نماز ادا کرنے کو مکروہ قرار دیاگیا ہے .اور قبرستان میں نماز اداکرنے سے اس لئے نہی کی گئی کہ وہاں کی مٹی مردوں کے خون اور ہڈیوں سے مخلو ط ہوتی ہے اور نہی نجاست سے متعلق ہے .لیکن اگر کوئی شخص اپک جگہ بنا لے تو وہاں نماز ادا کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے .(١)
اب بھی بیان کردہ مطالب اور مقبروں میں نماز ادا کرنے کے جوازکے بارے میں علمائے اہل سنّت کے فتاوٰی کے باوجود وہابیوں کے پاس کوئی چارہ رہ جاتا ہے کہ وہ مقبروں میں نماز ادا کرنے والوں پر کفر و شرک کی تہمت لگائیں اور یہ کہیں کہ:(( یہ لوگ صاحب قبر کی عبادت کرتے ہیں)) جبکہ امام مالک اور حسن بصری قبروں کے درمیان میں نماز ادا کیا کرتے؟!
------------
١۔ شرح السنّة ٢: ٣٩٨.
|