وہابی افکار کا ردّ
 
٦۔عورت اورزیارت قبور
عورتوں کا قبور کی زیارت کرنا
زیارت کی بحث میں پیش آنے والے مسائل میں سے ایک خواتین کا قبور کی زیارت کرنا ہے سنن ( بخاری و مسلم کے علاوہ )کے مؤلفین نے اس بارے میں روایات نقل کی ہیں ایک روایت میں نقل کیا ہے : کہ رسو لخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
(( لعن اللہ زائرات القبور))
خد اوند متعال نے زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے.(١)
وہابی اس حدیث سے استناد کرتے ہوئے عورتوں پر قبور کی زیارت کو حرام قرار دیتے ہیں .

وہابی نظریہ کا ردّ
ہم اس نظریہ ۔جو ایک توہم کے سوا کچھ نہیں۔ کا جواب چار طرح سے دے سکتے ہیں :
اوّل: مندرجہ بالا حدیث ، حدیث بریدہ سے نسخ ہو جائے گی .برید ہ کہتے ہیں رسول خدا ۖ نے فرمایا : (( نھیتکم عن زیارة القبور،ألا فزوروا))
میں نے تمہیں زیارت قبور سے منع کیا تھا آگاہ ہو جاؤ! (آج کے بعد ) ان کی زیارت کیا کرو.
حاکم نیشاپوری اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے . اسی طرح مندرجہ بالا حدیث اس حدیث مبارکہ سے بھی متعارض ہے جسے حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے وہ فرماتی ہیں :
(( نھی رسول اللہ عن زیارة القبور ثمّ أمر بزیارتھا )) (٢)
------------
١۔ المصنف عبد الرزاق٣: ٥٦٩.
٢۔السنن الکبرٰی ٤: ٧٨.
رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبور کی زیارت سے نہی فرمائی لیکن اس کے بعد ان کی زیارت کا حکم فرمایا .
اس حدیث کو ذہبی نے (( المستدرک علی الصحٰحین )) کے حاشیہ پر نقل کیا اور اسے صحیح قرار دیا ہے .
دوم : مندرجہ بالا حدیث حضرت عائشہ کی سیرت اور ان کے عمل سے بھی متعارض ہے اس لئے کہ وہ روایت جسے تھوڑی دیر پہلے نقل کر چکے اس کے مطابق وہ اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتیں .
ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں : میں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے بھائی عبدالرحمن ۔ جسے حُبشی( جنوب مکہ) میں ناگہانی موت آئی۔ کی زیارت کی .
اسی طرح کہتے ہیں : ایک دن میں نے حضرت عائشہ کو قبرستان جاتے ہوئے دیکھا تو ان سے کہا : کیا پیغمبر ۖ نے قبور کی زیارت سے منع نہیں فرمایا .تو انہوں نے جواب میں فرمایا: ہاں ، منع کیا تھا لیکن دوبارہ اس کا حکم دیا .(١)
کیاحضرت عائشہ اپنے اس عمل کے ذریعہ سے رسول خدا ۖ کی مخالفت کا ارادہ رکھتی تھیں؟ تاکہ ( نعوذ باللہ ) لعنت خدا کی مستحق قرار پاسکیں جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا؟
سوم : مندرجہ بالا حدیث حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی واضح سیرت اور ان کے عمل کے مخالف ہے اس وہ پیغمبر ۖ کی قبر کی زیارت کیا کرتیں اور ہر جمعہ کے دن یا ہر ہفتے میں دوبار حضرت حمزہ علیہ السلام اور دیگر شہدائے اُحد کی زیارت کے لئے جایا کرتیں .
کیا یہ درست ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اپنے والد گرامی کی سنت کی مخالفت کرنا چاہتی تھیں ؟
------------
١۔ السنن الکبرٰی ٤: ١٣١.
یا یہ کہ شہزادی اپنے باپ کی سنت سے آگاہ نہیں تھیں ؟
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اہل بیت میں سے ہیں اور گھر کے اندر جو کچھ ہوتا ہے گھر والے اس سے بہتر آگاہ ہوتے ہیں.اس کے علاوہ وہ اپنے والد گرامی کی زندگی میں شہدائے اُحد کی زیارت کے لئے جایاکرتیں اور سات سال تک زمانہ پیغمبر ۖ میں ان کی یہی سیرت رہی . پس کیسے پیغمبر ۖ نے انہیں اس عمل سے نہ روکا ؟
اسی طرح شہزادی پیغمبر ۖ کی رحلت کے بعد انکی زیارت کے لئے تشریف لے جاتیں .جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں :
(( جب رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی تو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے پدر بزرگوار کی قبر پر کھڑی ہوئیں ،مٹھی بھر خاک اُٹھا کر آنکھوں پرڈالی اور گریہ کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے ...))
اگر واقعا قبروں کی زیارت عورتوں پر حرام تھی تو کیسے امیر المؤمنین علیہ السلا م یاصحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو اس عمل سے منع نہ فرمایا ؟
چہارم: ابن تیمیہ سے پہلے اور بعد کے علمائے اہل سنت نے عورتوں کے قبور کی زیارت کرنے کے جواز کا فتوٰی دیا ہے اور اس حدیث میں لعنت کی وجہ عورتوں کا اپنے عزیزوں کی موت کی مصیبت پر صبر نہ کرنا بیان کیا ہے . لیکن اگر کوئی عورت نامحرموں کے سامنے چیخ و پکار نہیں کرتی بلکہ صبر کرتی ہے تو اس کے قبر کی زیارت کرنے میں کوئی عیب نہیں ہے.
البتہ بعض علمائے اہل سنت جیسے منصور علی ناصف نے اپنی کتاب (( التاج الجامع للأصول )) ، ملاّ علی قاری، نووی ، قرطبی، قسطلانی، ابن عبدالبرّ ، ابن عابدین اور ترمذی نے اس حدیث کواسی صورت پر منطبق کیا ہے یا اسے ضعیف قرار دیا ہے چونکہ اس کے تینوں واسطے جو حسان بن ثابت ، ابن عباس یا ابو ہریرہ تک پہنچتے ہیں. ان میں ایسے راوی موجود ہیں جنہیں اہل سنت کے علمائے رجال نے ضعیف قرار دیا ہے.اور شاید اسی وجہ سے امام بخاری اور امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتب میں ذکر نہیں کیا .
ان اعتراضات واشکالات کے علاوہ فقہاء نے بھی اس حدیث کی شرح میں مردوں اور عورتوں کے قبور کی زیارت کے مستحب ہونے کا فتوٰی دیا ہے.(١)
------------
١۔ التاج الجامع للأصول ٢: ٣٨١؛ مرقاة المفاتیح ٤: ٢١٥؛ التمہید ٣: ٢٣٤.