وہابی افکار کا ردّ
 
٤ ۔ عقل کی رو سے
زیارت کے جواز کے لئے عقلی دلائل سے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ عقل کا فیصلہ یہ ہے کہ جسے خداوند متعال نے عظمت و بزرگی عطا کی ہے اس کی تعظیم کی جائے اور زیارت بھی ایک طرح کی تعظیم ہے پس پیغمبر ۖ کی زیارت جو آنحضرت ۖ کا احترام شمار ہوتا ہے یہ شعائر الھی میں سے اور ایک پسندیدہ عمل ہے اگرچہ دشمنان اسلام اسے پسند نہیں کرتے.

وہابیوں کی دلیل کے بارے میں تحقیق
اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہابی پیغمبرۖ کی قبر مبارک کی زیارت کے حرام ہونے پر بخاری و مسلم میں منقول حدیث سے استدلال کرتے ہیںکہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : ((لا تشد ّالرّحال الاّ الی ثلاثة : المسجد الحرام ومسجدی ومسجد الأقصیٰ))
تین مکانوں کے علاوہ سفرکرنا حرام ہے : مسجد الحرام ، مسجد النبی ، مسجد الأقصیٰ .(١)
محمد بن عبدالوہاب اس حدیث سے غلط مفہوم لیتے ہوئے کہتا ہے :
(( پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت مستحب ہے لیکن مسجد کی زیارت اور اس میں نماز کے قصد سے سفر کیا جائے نہ کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے قصد سے .))
محمد بن عبد الوہاب نے اس حدیث سے استنا د کرتے ہوئے زیارت قبور کو حرام قرار دیا ہے .
ہم اس حدیث کی تحقیق کے بارے میں کہیںگے کہ عربی قواعد کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کے صحیح معنیٰ کو سمجھنے کے لئے کلمہ حصر (الاّ) سے پہلے ایک لفظ کو محذوف قرار دینا ہو گا اور ایسی صورت میں دو احتمال سامنے آئیں گے :
١۔ لفظ محذوف (( مسجد )) ہے اور ایسی صورت میں اس حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ نماز ادا کرنے کے لئے ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر مت کریں .
٢۔ لفظ محذوف ((مکان )) ہے کہ ایسی صورت میں حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ ان تین مساجد
------------
١۔صحیح بخاری ١: ٣٩٨،ح ١١٣٢؛ صحیح مسلم ٢: ١٠١٤.
کے علاوہ کسی اور مکان کی طرف سفر مت کریں .
پہلے احتمال کے مطابق کلمہ حصر ((الاّ)) سے جومعنٰی سمجھا جا رہا ہے وہ حصر اضافی ہے یعنی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام مبارک میں نفی واثبات کا محور مسجد ہے اور قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ابتداء ہی سے اس حدیث کے موضوع سے خارج ہے .اس لئے کہ حدیث شریف یہ کہہ رہی ہے کہ جس شہر میں جامع مسجد موجود ہو تو وہاں سے سفر کر کے دوسرے شہر جانا اور وہاں کی جامع مسجد یا غیر جامع میں نماز پڑھنے پر کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ دونوںجگہ مسجد کی اہمیت اور اس میںنمازادا کرنا برابر ثواب رکھتا ہے .لیکن مذکورہ بالا تین مسجدیں اس موضوع سے خارج ہیں اس لئے کہ وہاں پہ نماز ادا کرنا زیادہ ثواب کا حامل ہے .
دوسری جانب تبادر عرفی ( عرف عام میں کسی لفظ کے سننے سے خاص معنٰی کا ذہن میں آنا ) اور حکم ( شدّ الرّحال )وموضوع کے درمیان تناسب کا تقاضا بھی یہی ہے کہ لفظ (مسجد ) ہی کو محذوف سمجھا جائے لہذا یہی احتمال درست ہوگا .
جبکہ دوسرے احتمال کے مطابق ۔جوابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروںکے نظریہ سے مطابقت رکھتا ہے ۔ کلمہ (( الاّ)) سے جو حصر سمجھا جا رہا ہے وہ حصر حقیقی ہے یعنی ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مکان کی طرف مت سفر کریں . جبکہ تمام اسلامی فرقوں کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ تجارت ، طلب علم ، جہاد، علماء کی زیارت یا سیر وسیاحت کے قصد سے سفر کرنا کوئی ممانعت نہیں رکھتا .
اس لحاظ سے لفظ ((مکان )) کو محذوف ماننا درست نہیں ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ سفر کرنا جائز نہ ہواور بدیہی ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجماع و اتفاق کے خلاف ہے.
پس اس حدیث میں الاّ سے پہلے لفظ (مسجد ) کو محذوف ماننا پڑے گا یعنی (( لا یقصد بالسفر الی المسجد الاّ المساجد الثلاثة )) .اورا س صورت میں حدیث شریف میں کہیں بھی مقامات مقدّسہ اور خاص طور پر قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے حرام ہونے کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا .
قسطلانی نے بھی (ارشاد الساری)میں اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے.(١)
علاوہ ازیں اگر لفظ محذوف ((مسجد ))ہو تو پھر بھی اس حدیث مبارکہ کے مضمون پر عمل کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے کہ پہلے احتمال کے مطابق حدیث کا معنی یہ ہوگا کہ فقط انہی تین مساجد کی طرف سفر کیا جائے اور ان کے علاوہ نماز ادا کرنے کے لئے کہیں سفر کرکے جانا جائز نہیں ہے جبکہ روایات واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام ہر ہفتہ کے دن مسجد قبا جایا کرتے تھے جبکہ یہ مسجد ان تین مساجد میں سے نہیں ہے .لہذا اس اعتبار سے مسجد قبا کی طرف سفر کرنا بھی حرام ہونا چاہئے جبکہ کوئی بھی مسلمان ایسی بات کرنے کو تیار نہیں.
ایک ورایت میں بیان ہوا ہے کہ عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں:
((رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ہفتہ کے دن پید ل یا سوار ہوکر مسجد قبا جایا کرتے .))
اسی طرح عبد اللہ بن عمر خود بھی اس پر عمل کیا کرتے .(٢)
------------
١۔ارشاد الساری ٢:٣٣٢.
٢۔ صحیح بخاری ٢: ٣٩٩،ح ١١٣٥.
ابن تیمیہ کے توہمات اور علمائے اہل سنت کا موقف
گذشتہ مطالب سے یہ روشن ہو گیا کہ ادلّہ اربعہ کی بناء پر زیارت ایک شرعی عمل ہے اور اس بارے میں ابن تیمیہ کے افکار کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے البتہ علمائے اہل سنت نے اس فاسد عقیدے کے بارے میں اپنا موقف بیان کیا ہے :
١۔ قسطلانی کہتے ہیں : ابن تیمیہ سے جو مسائل نقل ہوئے ہیں ان میں سے بدترین مسئلہ اس کا قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے منع کرنا ہے (١)
٢۔ نابلسی کہتے ہیں : یہ پہلی مصیبت نہیں ہے کہ جس میں ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کار گرفتا رہوئے ہوں اس لئے کہ اس نے بیت المقدس کی زیارت کے لئے سفر کرنے کو بھی گناہ قرار دیا ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اولیا ئے الہی میں سے کسی کے وسیلے سے خدا وند متعال سے توسّل کرنے سے بھی منع کیا ہے .
اس طرح کے فتوے جو اس کی کج فہمی کی دلیل ہیں یہ باعث بنے ہیں کہ علماء ابن تیمیہ اور اس کے پیرو کاروں کے سامنے قاطعانہ قیام کریں .یہاں تک کہ حصنی دمشقی نے مستقل طور پر ایک کتاب لکھ کر اسے ردّ کیا اور اس کے کفرکو صراحتا بیان کیا .( ٢)
------------
١۔ارشاد الساری ٢: ٣٢٩.
٢۔الحضرة الانسیة فی الرحلة القدسیة : ١٢٩.
٣۔ غزالی کہتے ہیں : جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں انہیں دیکھ کر تبرک حاصل کیا کرتا اسے چا ہئے کہ ان کی رحلت کے بعد ان کی زیارت کرکے تبرّک حاصل کرے .( اسی طرح ) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کیلئے سفر کرنا جائز ہے اور حدیث (( لا تشدّ الرحال )) اس کے لئے مانع نہیں بن سکتی .( ١)
٤۔عزامی شافعی کہتے ہیں : ابن تیمیہ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر بھی جسارت کی ہے اور کہا ہے کہ آنحضرت کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے ...(٢)
٥۔ ہیثمی شافعی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے جواز کو ادلّہ کے ساتھ ثابت کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اگر کوئی یہ کہے اور اعتراض کرے کہ تم نے کس طرح زیارت کے جواز پر علماء کے اتفاق کو دلیل قرار دیا ہے جبکہ ابن تیمیہ اس کا انکار کرتے ہیں تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ابن تیمیہ کون ہے؟ اور اسکی کیا اہمیت ہے کہ اسے اتنا مقام دیا جائے یا دینی و اسلامی مسائل میں اسے مرجع کے طور پر پہچانا جائے تاکہ اس کے افکار علماء کے اجماع میں خلل ڈال سکیں .کئی ایک مسلمان دانشوروں نے اس کے ضعیف دلائل پر اعتراض کیا ہے اور اس کی احمقانہ لغزشوں اور نامناسب تخیّلات کو آشکار کیا ہے .(٣)
مختصر یہ کہ اس بارے میں اہل سنت کے حفاظ ومحدثین نے جو روایات نقل کی ہیں وہ استفاضہ یا تواتر کی حد تک پہنچتی ہیں . علاوہ ازیں صحابہ کرام کا عمل اور ان کی سیرت نیز حضرت بلال کا رسول خدا ۖ کی قبرمبارک کی زیارت کے قصد سے سفر کرنا جو تمام صحابہ کی موجودگی میں انجام پایا اور اگر صحابہ کرام نے نہ بھی دیکھا ہوتا پھر بھی ان تک یہ بات پہنچ جاتی لیکن اس کے باوجود کسی ایک نے بھی انکے اس عمل پر اعتراض نہیں کیا .
------------
١۔احیاء علوم الدین ٢: ٢٤٧.
٢۔ فرقان القرآن : ١٣٣؛الغدیر ٥: ١٥٥.
٣۔الجوہر المنظم فی زیارة القبر المکرّم : ١٢؛ الغدیر ٥: ١١٦؛ کشف الارتیاب : ٣٦٩.
اسی طرح حضرت عمر نے کعب الأحبار کو دعوت دی کہ وہ پیغمبر ۖ کی قبر مبارک کی زیارت کرے .جبکہ صحابہ کرام میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہ کیا . قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ زیارت کے جواز پر جو دلیلیںبیان کی گئی ہیں یہ محکم ترین اور قوی ترین ادلّہ ہیں جو خاص پر آنحضرت ۖ کی زیارت کے جائز بلکہ مستحب ہونے کو بیان کر رہی ہیں اس لئے کہ بعض روایات میں زیارت کا حکم دیا گیا ہے اور اکثر علماء نے اس حکم سے مراد استحباب لیا ہے یہاں تک کہ ابن حزم اندلسی نے اس سے وجوب سمجھا ہے کہ ہر مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ آنحضرت ۖ کی قبر مبارک کی زیارت کرنا واجب ہے .(١)

مقامات مقدسہ اور قبور کی زیارت
گذشتہ مطالب پیغمبر ۖ کی قبر مبارک کی زیارت سے متعلق تھے اب ہم بقیہ قبور کی زیارت کے جواز کے بارے میں کچھ عرض کریں گے. ان قبور کی زیارت کے جواز میں بھی قبر پیغمبرۖ کی زیارت کی طرح کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے .خود آنحضرت ۖ قبور کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور مسلمانوں کو اس امر کی ترغیب دلاتے .نیز آنحضرت ۖ اپنی مادر گرامی حضرت آمنہ بنت وہب کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے اور مسلمانوں کا بھی یہی طریقہ کار رہا کہ دوسرے مسلمانوں کی قبور کی زیارت کے لئے جاتے .
البتہ اس بارے میں آنحضرت ۖ سے روایات بھی نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند ایک پیش خدمت ہیں :
پہلی حد یث :رسول خد اصلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا :
((ائتواموتاکم فسلّموا علیہم أو فصلّوافانّ بہم عبرة.))(٢)
اپنے مردوں کے پاس جاؤ اور ان پر سلام یا درود بھیجو اس لئے کہ وہ تمہارے لئے باعث عبرت ہیں .
------------
١۔ التاج الجامع للأصول ٢: ٣٨٢.
٢۔ اخبار مکہ ٢: ٥٢.