استغاثے کے نمونے
اب ہم صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کے قبر پیغمبر ۖ سے استغاثہ کے نمونے پیش کر رہے ہیں :
١۔نابینا شخص کا پیغمبر سے استغاثہ :
طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ صحابی رسول عثمان بن حنیف سے نقل کیا ہے :
ایک شخص کئی بار اپنی مشکل حل کروانے کی خاطر( خلیفہ سوم )عثمان بن عفّان کے پاس آیا لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ کی .وہ شخص عثمان بن حنیف سے ملا اور سارا ماجراسنایا.
عثمان بن حنیف نے کہا :وضو کر کے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھو اور پھریوں کہو:
((اللّھمّ انّی أسئلک وأتوجّہ الیک بنبیّنا محمّد نبیّ الرحمة ّ ،یا محمّد ! انّی أتوجّہ بک الی ربّی فتقضی لی حاجتی ))
اے پروردگار!میں اپنے نبی رحمت حضرت محمّد کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری بارگا ہ میں متوجہ ہوں ،یا محمّد ! میں آپ کو اپنے ربّ کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دیتا ہوں پس آپ میری حاجت پوری فرمائیں.
اس کے بعد اپنی حاجت بیان کر . اس شخص نے عثمان بن حنیف کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کیا اورپھر عثمان بن عفّان کی رہائش گاہ کی طرف گیا جیسے ہی نگہبان نے دیکھا اس کا ہاتھ تھاما اور عثمان کے پا س لے کرپہنچا ،اس نے اسے مخمل کے فرش پر بٹھایا اور کہا بتا کیا کام ہے؟ اس شخص نے اپنی مشکل بیان کی تو عثمان نے حل کردی . وہ شخص وہا ں سے نکل کر سیدھا عثمان بن حنیف کے پاس پہنچا اور ان سے کہا: خدا آپ کو جزائے خیر دے کہ آپ نے عثمان بن عفّان کو میری سفارش کی .انہوں نے کہا : خدا کی قسم میں نے تو آپ کی کوئی سفارش نہیں کی .البتہ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک نابینا شخص رسول خدا ۖ کی خدمت میں حاضر ہو ااور اپنی نابینائی کی شکایت کی .
پیغمبر ۖ نے اس سے فرمایا: کیا صبرکر سکتا ہے؟
عرض کرنے لگا :یا رسول اللہ ! میرے پاس کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو میرا عصا پکڑ کرمجھے ادھر ادھر لے جائے اور یہ میرے لئے سخت ہے .
آنحضرت نے فرمایا : جاؤ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرو اور یہ دعاپڑھو...
عثمان بن حنیف کہتے ہیں : ہم رسول خدا ۖ کی خدمت میں موجود تھے اور ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ وہ شخص ہمارے پاس پہنچا اور ا سطرح کہ گویا کبھی نابینا تھا ہی نہیں.(١)
------------
١۔ اس حدیث کوان کتب میں نقل کیا گیا ہے : مسند احمد ٤: ١٣٨؛ سنن ترمذی ٥: ٥٦٩،ح ٣٥٧٨؛ سنن ابن ماجہ ١: ٤٤١؛ طبرانی نے اس حدیث کو المعجم الکبیر ٩: ٣٠،ح ٨٣١١اور المعجم الصغیر ١:٣٠٦،ح ٥٠٨میں لکھا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے
٢۔ حضرت عائشہ اور عمر کا پیغمبر ۖ کی قبر سے استغاثے کا حکم دینا :
دارمی نے اپنی سنن میں یوں نقل کیا ہے :
ایک دن اہل مدینہ سخت قحط سالی میں مبتلاہوئے تو حضرت عائشہ سے شکایت کی .انہوں نے کہا : قبر پیغمبر پر جا کراس میں ایک سوراخ کرو تاکہ قبر اور آسمان کے درمیان مانع نہ رہے .
راوی کہتا ہے : جب لوگوں نے ایسا کیا تو اتنی بارش برسی کہ سبزہ اُگ آیا اور حیوان موٹے ہوگئے ،یہاں تک کہ دنبوں کی دم چربی کی وجہ سے ظاہر ہونے لگی اور اس میں چیر پڑ گئے اور
اس سال کو فتق (موٹاپے سے چیر ا جانا )کا نام دیا گیا ۔(١)
دوسری روایت ابن ابی شیبہ نے سند صحیح کے ساتھ ابی صالح سمان سے اور اس نے مالک الدار ( خلیفہ ثانی کے گودام کے انچارج )سے نقل کی ہے:
خلیفہ دوم کے زمانہ خلافت میں جب قحط سالی پڑی تو ایک شخص قبر پیغمبر ۖپر جاکر عرض کرنے لگا : یا رسول اللہ !آپ کی اُمّت ہلاک ہورہی ہے ان کے لئے باران رحمت کی دعا فرمائیں . اسے خواب میں کہا گیا : عمر کے پاس جاؤ
سیف نے (( الفتوح )) میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : وہ شخص بلال بن حارث مزنی صحابی رسول ۖ تھے .( ٢)
مسعودی ( م ٣٤٦ھ) مروج الذھب میں لکھتے ہیں :
٥٣ ہجری میں حاکم عراق زیاد بن ابیہ نے معاویہ کو ایک نامہ میں یوں لکھا :
میں نے دائیں ہاتھ سے عراق کو فتح کرلیا ہے اور بایاں ہاتھ خالی ہے . معاویہ نے حجاز کی حکومت اس کے سپرد کر دی. جیسے ہی یہ خبر اہل مدینہ تک پہنچی تو تمام اہل مدینہ مسجد نبوی میں جمع ہو کر گریہ و زاری کرنے لگے اور تین دن تک قبر پیغمبر ۖ پراس کے مظالم سے پناہ مانگتے رہے اس لئے کہ وہ اس کے مظالم سے آگاہ تھے ... .( ٣)
------------
١۔ سنن دارمی ١: ٥٦؛ سبل الھدی والرشاد ٢ ١: ٣٤٧؛وفاء الوفاء بأخبارالمصطفٰی ٤: ١٣٧٤.
٢۔فتح الباری ٢: ٤٩٥؛ وفاء الوفاء بأخبارالمصطفٰی ٤: ٣٧٢.
٣۔مروج الذہب ٣: ٣٢.
ایک اور روایت میں نقل ہوا ہے کہ محمد بن منکدر کہتے ہیں :
ایک شخص نے میرے باپ کے پاس اسّی دینا ر امانت کے طور پر رکھے اور کہا کہ اگر ضرورت پڑ جائے تو انہیں خرچ کر کے جہاد پر جانا.
وہ سال لوگوں نے بہت سختی میں گزارا، میرے والد نے بھی وہ پیسے خرچ کر دیئے .پیسوں کا مالک آیا تو میرے باپ نے کہا کہ کل آنا .
اسی رات میرے والد مسجد نبوی ۖ میں گئے کبھی قبر کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی منبر شریف کی طرف . صبح کی نماز کے قریب قبر پیغمبر سے استغاثے میں مشغول تھے کہ تاریکی میں ایک شخص نمودار ہوا اور کہا : اے ابو محمد ! یہ لو.
میرے والد نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس سے لے لیا ، جب دیکھا تو ایک تھیلی میں اسّی دینا ر تھے . اب جب صبح ہوئی تو وہ شخص اپنے پیسے واپس لینے آیاتو میرے والد نے وہی اسّی دینار اسے دے دیا.(١)
مزید ایک روایت میں پڑ ھتے ہیں ابوبکر بن مقری کہتے ہیں :
ایک دن میں ، ابوالقاسم طبرانی( م٣٦٠ھ) اور ابوالشیخ روضہ رسول ۖ کی زیارت سے مشرّف ہوئے تو وہاں ہمیں بھوک نے شدید پریشان کیا ،ہم نے وہ دن اسی حالت میں گزار دیا جب رات ہوئی تو میںنے قبر پیغمبر ۖ کے پاس جا کر کہا : یا رسول اللہ ! ہم بھوکے ہیں.
اس کے بعد اپنے دوستوں کے پاس پہنچا ، ابوالقاسم طبرانی نے مجھ سے کہا : یہیں پر بیٹھ جاؤ . یا آج کھانا آئے گا یا موت .
------------
١۔ وفاء الوفاء بأخبارالمصطفٰی ٤: ١٣٨٠.
ابوبکر کہتے ہیں : میں اور ابوالشیخ اٹھے مگر طبرانی وہیں پر کچھ سوچ رہا تھا کہ اتنے میں اچانک ایک شخص نے مسجد کے دروازے پر دستک دی ،ہم نے دروازہ کھولا تو دیکھا ایک علوی شخص ہے جس کے ہمراہ دو غلام ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کھانے سے بھری ہوئی ٹوکریاں ہیں .ہم نے ان سے کھانا لیا اور سیر ہو کر کھایااور یہ سوچاکہ بچاہوا کھانا وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے لیکن وہ اسے وہیں پر چھوڑ کر چلے گئے. جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس علوی نے کہا : کیا تم نے رسول خدا ۖ سے بھوک کی شکایت کی ہے ؟ میں نے خواب میں رسول خدا ۖ کو دیکھا کہ انہوں نے مجھے فرمایا کہ تمہارے لئے غذا لے آؤں . (١)
سمہودی نے ایک اور روایت میں نقل کیا ہے کہ ان جلاد کہتے ہیں :
میں مدینہ میں داخل ہوا جبکہ انتہائی فقر و تنگدستی میں مبتلاتھا . قبر پیغمبر ۖ پر پہنچا اور کہا : یا رسول اللہ ! میں آپ کا مہمان ہوں .
اسی عالم میں میری آنکھ لگ گئی ،خواب میں رسول خدا ۖ کی زیارت ہوئی تو آپ نے مجھے ایک روٹی دی جس میں سے میں نے آدھی کھائی. جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ باقی آدھی میرے ہاتھ میں ہے .( ٢)
سمہودی نے ایک اور داستان میں یوں لکھا ہے :
ابوعبداللہ محمد بن ابی زرعہ صوفی کہتے ہیں : میں اپنے والد اور عبداللہ بن حنیف کے ہمراہ مکّہ کا سفر کر رہا تھا کہ راستے میں شدید تنگدستی کا شکار ہوگئے .جب مدینہ منوّرہ میں داخل ہوئے تو سخت
------------
١۔ حوالہ سابق٤: ١٣٨٠.
٢۔حوالہ سابق.
بھوک لگی تھی .میں جو ابھی سنّ بلوغ تک نہیں پہنچاتھا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور کہا : مجھے بھوک لگی ہے .
میرے والد ضریح پیغمبر کے پاس گئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! آ ج کی را ت ہم آپ کے مہمان ہیں!
اور پھر انتظار کرنے بیٹھ گئے . تھوڑی دیر کے بعد اچانک سر بلند کیا کبھی روتے تھے اور کبھی ہنستے تھے . جب اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا : پیغمبر ۖ کی زیارت ہوئی ہے تو انہوں نے مجھے کچھ درہم عنایت کئے ہیں اتنے میں ہتھیلی کھولی تو اس میں درہم موجود تھے . ان درہموں میں اتنی برکت تھی کہ شیراز واپس پلٹنے تک ہم ان میں سے خرچ کرتے رہے مگر وہ ختم نہ ہوئے . (١)
سمہودی نے اسی بارے میں ایک اور داستان بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
شیخ ابو عبد اللہ محمد بن ابی الامان کہا کرتے : میں مدینہ میں محراب فاطمہ علیہا السلام کے پیچھے موجود تھا اور جناب سید مکثر القاسمی بھی اسی محراب کے پیچھے کھڑے تھے .اچانک قبر پیغمبر ۖ کی طرف بڑ ھے اور پھر واپس پلٹے تو میں نے دیکھا مسکرا رہے ہیں.
شمس الدین صواب ( ضریح مبارک کے خادم) نے ان سے پوچھا : کیوں ہنس رہے ہیں ؟ کہنے لگے : میں سخت تنگدست ہو چکا تھا گھر سے نکلا اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر پہنچ کر رسول خدا ۖ سے استغاثہ کیا اور کہا : میں بھوکا ہوں . اس کے بعد سو گیا ، خواب میں پیغمبر کو دیکھا ،انہوں نے دودھ کا ایک جام دیاجسے پی کر میں سیر ہوگیا .(٢)
------------
١۔ حوالہ سابق ٤: ١٣٨١.
٢۔ حوالہ سابق ٤: ١٣٨٣.
کتاب وفاء الوفاء کے مؤلف نے ایک اور دلچسپ داستان یوں بیان کی ہے:
جناب ابو محمّد سید عبد السلام بن عبد الرحمان حسینی بیان کیا کرتے : میں نے پیغمبر ۖ کے شہر میں تین دن گزارے اوران تین دنوں میں کھانا نہیںکھایا تھا . منبرپیغمبر ۖ کے پاس گیا دو رکعت نماز پڑھ کر کہا : اے جدّ بزرگوار ! میں بھوکا ہوں اور آ پ سے یخنی کا طلبگار ہوں .
اتنے میں مجھ پر نیند غالب آگئی ، اچانک ایک شخص نے مجھے نیند سے بیدار کیا جس کے ہاتھ میں یخنی سے بھرا لکڑی کا پیالہ تھااور مجھ سے کہا: اسے پیو .
میں نے کہا : یہ غذا کہا ں سے لے آئے ہو ؟
کہنے لگا : تین دن سے میرے بچے اس غذا کی فرمائش کر رہے تھے آج تیسرے دن خدا وند متعال کی رحمت سے مجھے کام ملا تو یہ غذا تیار کر کے کھا کر سوئے تورسول خدا ۖ نے خواب میں فرمایا: تمہارا ایک بھائی اسی غذاکی تمنّا رکھتا ہے اسے جا کر دے آؤ.(١)
اہل بیت کی قبور سے استغاثہ
قابل غور بات یہ ہے کہ طول تاریخ میں علمائے اہل سنّت ،اہل بیت علیہم السلام کی قبور سے بھی حاجت طلب کرتے رہے ہیںجس کے چند ایک نمونے بیان کر رہے ہیں :
١۔ قاہرہ میں مقام امام حسین سے استغاثہ :
حمزاوی عدوی (م ١٣٠٣ھ ) اپنی کتاب (( مشارق الأنوار)) میں امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کے محل دفن کے بارے طولانی گفتگو کے بعد لکھتے ہیں:
شایستہ تو یہی ہے کہ اس عظیم زیارت گاہ کی زیادہ سے زیادہ زیارت کی جائے تاکہ
------------
١۔حوالہ سابق.
انسان اس کے وسیلہ سے خدا وند متعال سے توسّل کرسکے اور اس امام بزرگوار سے جس طرح ان کی زندگی میں طلب کیا جاتا تھا اسی طرح اب بھی درخواست کی جائے ،اس لئے کہ وہ مشکل کشاہیںاوران کی زیارت ہر مصیبت زدہ شخص سے ناخوشگوار حوادث کو دور کر تی ہے. اور انکی نورانیت اور ان کے توسّل سے ہرغافل دل خداسے متصل ہو جاتا ہے.
انہی ناخوشگوار حوادث کا ایک نمونہ وہ حادثہ ہے جو میرے استاد بزرگوار ، عارف باللہ محمد شبلی معروف ((ابن الست)) کتاب ((العزیّة)) کے شارح کو پیش آیا کہ ان کی تمام تر کتب چوری ہو گئیں .وہ پریشان حال اور مضطرب تھے .آخر ہمارے ولی نعمت حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچے اور مناجات کے ساتھ آنحضرت سے استغاثہ کیا .تھوڑی دیر وہاں رکنے اور زیارت کرنے کے بعد جب واپس گھر پہنچے تو دیکھا ساری کی ساری کتابیںبغیر کسی کمی کے اپنی جگہ پر موجود ہیں . (١)
٢۔ نابینا شخص کا بارگاہ امام حسین علیہ السلام سے توسّل :
شبراوی شافعی ( م ١١٧٢ھ ) نے اپنی کتاب (( الاتحاف بحبّ الاشراف )) میں مصر میں امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کے دفن ہونے کے مقام کے بارے میں ایک الگ فصل تحریر کی ہے جس کے ایک حصّہ میں آنحضرت کی زیارت اور ان کی کچھ کرامات کو ذکر کیا .انہی کرامات میں سے ایک کرامت یوں بیان کی ہے :
شمس الدین قعوینی نامی شخص جو ا س بارگاہ کا ہمسایہ اور اس کا خاد م بھی تھا ایک دن آنکھ کے درد میں مبتلا ہوا یہاں تک کہ دونوں آنکھوں کی بینائی بھی دے بیٹھا .وہ ہرروز صبح کی نمازاسی بارگا ہ
------------
١۔ مشارق الأنوار ١: ١٩٧؛ الغدیر ٥: ١٩١.
میںادا کرتا اور پھر ضریح مبارک امام حسین علیہ السلام کی طرف منہ کر کے کہتا : اے میرے مولا ! میں آپ کا ہمسایہ ہوں نابینا ہو چکا ہوں ،خداوند متعال سے آپ کے وسیلہ سے طلب کرتا ہوں کہ میری بینائی پلٹا دے اگرچہ ایک ہی آنکھ کی ہو .
ایک رات خواب میںدیکھتا ہے کہ ایک گروہ اس بارگاہ کی طرف آرہا ہے .اس نے جاکر پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟
تو جواب میں کہا گیا : یہ شخص رسول خدا ۖ ہیں جو اپنے صحابہ کرام کے ہمراہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے آتے ہیں .یہ شخص بھی ان کے ساتھ شامل ہو گیا اور وہی درخواست جو عالم بیداری میں کرتا تھا اب بھی امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں کی .
امام حسین علیہ السلام اپنے جدّ گرامی کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے عرض کیا:
اس شخص کی شفاعت فرمائیں .
رسول خد اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا: اے علی !اس کی آنکھ میں سرمہ لگا دو .
انہوں نے اطاعت کرتے ہوئے سرمہ دانی نکالی اور اس شخص سے فرمایا :میرے نزدیک آتاکہ تمہاری آنکھ میں سرمہ لگاؤں .
وہ شخص پاس آیاتو اس کی دائیں آنکھ میں سرمہ لگادیا.اس نے جلن کا احساس کیاتو زور سے چیخ ماری اورنیند سے اٹھ گیا جبکہ ابھی تک جلن کا احساس ہو رہا تھا .اسی کرامت سے اس کی دائیں آنکھ کی بینائی واپس پلٹ آئی اور جب تک زند ہ رہا اسی آنکھ سے دیکھتا رہا .(١)
------------
١۔ الاتحاف بحبّ الاشراف : ٧٥سے ١٠١؛ الغدیر ٥: ١٨٧.
٣۔ ابن حبّان کا قبر امام رضا علیہ السلام سے استغاثہ :
علمائے اہل سنّت میں سے ایک عالم دین جس نے اہل بیت علیہم السلام سے توسّل کیاابن حبّان ہیں . اس کرامت کو بیان کرنے سے پہلے ہم اس بزرگوار کی شخصیت اوراہل سنّت کے ہاں اس کے مقام کوبیان کر رہے ہیں .
اہل سنّت کے علمائے علم رجال نے ابن حبّان کے بارے میں یوں لکھا ہے :
وہ امام ، علاّمہ، حافظ ( ١)اور خراسان کی بزرگ شخصیت تھے .وہ مشہور کتب کے مؤلف ہیں ٢٧٠ھ میں پیداہوئے ، کچھ مدّت سمر قند کے قاضی بھی رہے .وہ فقہاء اورسلف کے دینی آثار کی حفاظت کرنے والے تھے . انہوں نے مسند صحیح کو (( الأنواع والتقاسیم )) کے نام سے تحریر کیا اور کتاب (( التاریخ )) اور (( الضعفائ)) بھی انہی کے آثار میں سے ہے.سمر قند کے لوگ ان سے علمی استفادہ کیا کرتے...
ابوبکر خطیب بغدادی نے انہیں قابل اعتماد اور ثقہ علماء میں سے شمار کرتے ہوئے کہا ہے: ابن حبّان قابل اعتماد ، برجستہ، سمجھ دار اورباریک بین انسان تھے .
حاکم نیشاپوری ان کی تعریف میں لکھتے ہیں :
ابن حبّان علوم فقہ ولغت اور حدیث ووعظ سے سر شار اور صاحب فکر وسر شناس بزرگ افراد میں سے تھے اور ہمارے پاس نیشاپور میں مقیم رہے .(٢)
ان تمام خصوصیات کے مالک ابن حبّان کئی بار امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے گئے
------------
١۔حافظ ایسے شخص کو کہاجاتا ہے جسے ایک لاکھ سے بھی زیادہ احادیث زبانی یاد ہوں .
٢۔سیر أعلام النبلاء ١٦: ٩٢؛ میزان الاعتدال : ٦: ٩٨؛ طبقات سبکی ٣: ١٣١؛ الأنساب ٢: ١٦٤.
اور ان سے استغاثہ کیا .کیا ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں میں یہ جرأت ہے کہ وہ ایسے شخص کی طرف کفر وشرک یا نادانی کی نسبت دیں ؟
وہ اما م علی بن موسٰٰٰی رضا علیہ السلام کے بارے میں یوں لکھتے ہیں :
علی بن موسٰی رضا علیہ السلام مامون کی جانب سے زہریلا شربت پلانے کے سبب وہیں طوس میں شہادت پا گئے .ان کی قبر سناباد نوقان سے باہر اور مشہور زیارت گاہ ہے ... میں نے کئی بار وہاں پر ان کی قبر کی زیارت کی .جب میں طوس میں تھا تو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تو میں علی بن موسٰٰی رضا۔ خدا کا درود وسلام ہو ان پر اور ان کے جدّ پر۔ کی زیارت کے لئے جایا کرتا اور وہاں پہ اپنی مشکل کے برطرف ہونے کے لئے خدا سے دعا کرتااور میری دعا مستجاب ہو جاتی.جب تک طوس میں رہا میں نے اسے بارہا تجربہ کیا .خدا وند متعال ہمیں محبت مصطفٰی اور ان کے اہل بیت ۔ ان پر اور ان کے اہل بیت پر خداکا درود ہو ۔پر موت دے . (١)
٤۔ ابن خزیمہ کا قبر امام رضا علیہ السلام پر التماس کرنا:
محمد بن مؤمّل ( ٢)کہتے ہیں : میں امام اہل حدیث ابوبکر بن خزیمہ ، ان کے دوست ابن علی ثقفی اوراساتیذ و علماء کے ایک گروہ کے ہمراہ طوس میں علی بن موسٰی الرّضا علیہ السلام کی قبر کی زیارت پر گیا.تواس زیارتی سفر میں دیکھا کہ ابن خزیمہ اس مقام کاخاص احترام.اور تواضع کر رہا
------------
١۔ کتاب الثقات ٨: ٤٥٦؛ الانساب سمعانی ١: ٥١٧.
٢۔ان کی شخصیت کو پہچاننے کے لئے سیر اعلام النبلاء ١٦: ٢٣ کا مطالعہ کریں .
ہے اور اس کے نزدیک خاص طریقے سے التماس کررہا تھا جس سے ہمیں بہت تعجب ہوا . ( ١)
ذہبی ابن خزیمہ کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں :
ابن خزیمہ شیخ الاسلام ، امام الآئمہ ، حافظ ، حجّت ، فقیہ اورعلمی آثار کے مالک ہیں. وہ ٢٢٣ہجری میں پیدا ہوئے اور علم حدیث وفقہ میں اس قدر تجربہ حاصل کیا کہ علم وفن میں ضرب المثل بن گئے .
امام بخاری اورامام مسلم نے اپنی صحیح کے علاوہ باقی کتب میں ان سے احادیث نقل کی ہیں(٢ )
ان کے بارے میں کہا گیا ہے : خداوند متعال ابو بکر بن خزیمہ کے مقام و عظمت کی وجہ سے اس شہر سے بلاؤں کو دور کرتا ہے .
دار قطنی نے بھی ان کے بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے لکھا ہے :
ابن خزیمہ ایسے پیشوا تھے جو علم کے اعتبار سے باریک بین اور بے نظیر تھے .
باقی رجال شناس علماء نے ابن خزیمہ کے بارے میں کہا ہے : وہ سنّت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زندہ کرنے والے ہیں احادیث پیغمبر ۖ سے ظریف نکات کونکالتے . وہ ایسے علماء میں سے تھے جو اعتراض کی نگاہ سے احادیث کو دیکھتے اور احادیث کے راویوں کو اچھی طرح پہچانتے تھے .وہ علم ودینداری ، نیز سنت رسول ۖ پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے لوگوں کے درمیان عزّت ومقام رکھتے تھے .(٣)
ابن ابی حاتم ،ابن خزیمہ کے بارے میں کہتے ہیں : وہ ایسے پیشوا ہیں جن کی پیروی کی جاتی
------------
١۔تہذیب التہذیب ٧: ٣٣٩؛ فرائد السمطین ٢:١٩٨.
٢۔سیر اعلام النبلائ١٤: ٣٦٥.
٣۔ سیراعلام النبلائ١٤: ٣٧٤۔٣٧٧.
ہے . ایسا شخص جس کا اہل سنّت کے ہاں اتنا بلند مرتبہ ہے وہ امام رضاعلیہ السلام سے استغاثہ بھی کر رہے ہیں اور ان کی قبر پرعاجزی والتماس بھی کر رہے ہیں. کیا ایسے شخص کے بارے میں ابن تیمیہ یا اس کے پیروکار یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرک یا کافر تھے ؟
کیاوہ ابن خزیمہ یاان جیسے دوسرے افراد کے بارے میں منفی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں؟! !
بعض صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کی قبور سے استغاثہ
گزشتہ مطالب کی روشنی میں اسلام اور مسلمانوں کی سیرت میں استغاثے کی اہمیت معلوم ہو گئی کہ یہ امر طول تاریخ اسلام میں مسلمانوں کے درمیان رائج رہا ہے .اب ہم ان بعض صحابہ کرام اور علمائے اہل سنّت کی قبور کی طرف اشارہ کریں گے جن سے استغاثہ کیا گیا:
١۔قبر ابوایوب انصاری ( م٥٢ھ روم ):
حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں : لوگ ابو ایّوب انصاری کی قبر کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور خشک سالی وقحط میںان کی قبر پر جا کر باران رحمت کی التماس کرتے .(١)
٢۔ قبر ابوحنیفہ :
ابن حجر لکھتے ہیں : امام شافعی جب تک بغداد میں رہے ابوحنیفہ کی زیارت کے لئے جایا کرتے اور ان سے توسّل کرتے . ان کی ضریح کے پاس جاکر زیارت کیاکرتے،ان پر سلام بھیجتے اور ان کے وسیلے سے اپنی حاجات کی برآوری کے لئے خدا سے متوسّل ہوتے .
وہ آگے چل کر لکھتے ہیں : نقل معتبر کے مطابق امام احمد بن حنبل امام شافعی سے توسّل کیا
کرتے .یہاں تک کہ ایک دن ان کے بیٹے اپنے باپ کے اس عمل سے تعجب کرنے لگے
------------
١۔ المستدرک علی الصحیحین ٣: ٥١٨، حدیث ٥٩٢٩؛ صفة الصفوة ١: ٤٧٠،ح٤٠.
.احمد نے اس کے تعجب کو دیکھ کر کہا : شافعی لوگوں کے لیے خورشید کی مانند ہیں اور ان کا مقام وہی ہے جو بدن کے لئے سلامتی کا ہوتا ہے .
اور جب امام شافعی کو یہ خبر دی گئی کہ مغرب کے لوگ امام مالک سے توسّل کرتے ہیں تو انہوں نے ان کے اس عمل کو برا بھلا نہیںکہا .
شافعی کہتے ہیں : میں ابو حنیفہ کی قبر سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ہر روز ان کی قبر پر جا تا ہوں اور اگر کوئی حاجت ہوتو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر جاکر خدا سے حاجت کی برآوری کی التماس کرتا ہوں.(١)
٣۔ قبر احمد بن حنبل :
ا بن جوزی ((مناقب احمد )) میں لکھتے ہیں:
عبداللہ بن موسٰی کہتے ہیں : ایک دن میں اپنے والد کے ہمراہ احمد کی قبر کی زیارت کے لیے باہر نکلا تو آسمان پر سخت تاریکی چھا گئی . میرے باپ نے مجھ سے کہا : آئیں ابن حنبل کے وسیلے سے خدا سے متوسّل ہوں تاکہ وہ ہم پر راستے کو روشن کردے .اس لئے کہ اسّی سال سے جب بھی میں نے ان سے توسّل کیا ہے تو میری حاجت پوری ہو تی رہی ہے ... (١)
٤ ۔ قبرابن فورک اصفہانی( م ٤٠٦ھ) :
ابن فورک محمد بن حسن متکلمین کے استاد اور اشعری مذہب تھے .وہ حیرہ ( نیشاپور کے اطرف میں )دفن ہوئے ،انکی بارگاہ معروف اور ایک زیارتی مکان ہے .لوگ ان سے بارش طلب کرتے
------------
١۔ خلاصة الکلام : ٢٥٢؛ تاریخ بغداد ١: ١٢٣؛ اخبار أبی حنیفہ : ٩٤.
٢۔ مناقب احمد : ٢٩٧.
ہیں اور ان کی قبر پر دعاقبول ہوتی ہے .(١)
٥۔ قبر شیخ احمد بن علوان ( ت ٧٥٠ھ) :
یافعی کہتے ہیں : شیخ احمد بن علوان کی کرامات میں سے ایک کرامت یہ ہے کہ جوفقہاء ان کے نظریے کے مخالف تھے وہ بھی مشکلات میں ان سے توسّل کرتے اور بادشاہ کے خوف سے ان کے ہاں پناہ لیتے .(٢)
خاتمہ
ہم نے اس تحریر میں استغاثہ ، توسّل اور دعا کے بارے میںاختصار کے ساتھ تاریخی شواہدکوبیان کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ امر طول تاریخ اسلام میں قبر پیغمبر ۖ اور صحابہ کرام کی قبور پر مسلمان انجام دیتے آئے ہیں جیساکہ حنبلیوں کے امام ابوعلی خلال ہر مشکل میں امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی قبر سے متوسّل ہواکرتے. (٣)
ابن خزیمہ اور ابن حبّان امام رضا علیہ السلام سے توسّل کیا کرتے اور اپنی حاجات کی برآوری کے لئے امام عالی مقام سے استغاثہ کرتے .
۔ احمد بن حنبل شافعی سے متوسّل ہواکرتے.
۔شافعی اپنی حاجات پوری کروانے کے لئے ابو حنیفہ سے متوسّل ہوتے ؛
۔اہل سمرقندبخاری کی قبر پر بارش کی دعا کیا کرتے
۔حضرت عائشہ مسلمانوںکو یہ حکم دیتیں کہ بارش کے لئے قبر رسول ۖ پر جاکر توسّل اور
------------
١۔وفیات الأعیان ٤: ٢٧٢؛ سیراعلام النبلاء ١٧: ٢١٥.
٢۔مرآة الجنان ٤: ٣٥٧.
٣۔تاریخ بغداد١: ١٢٠.
ان سے استغاثہ کریں .
صحابہ کرام اور اہل سنّت کے بزرگ علماء اور عوام الناس ؛ انبیاء وصحابہ اور صالح افراد کی قبور پر جاکر استغاثہ کیا کرتے .
کیا واقعا ان تمام تر تاریخی دلا ئل و شواہد کے باوجود ابن تیمیہ میں اتنی جرأت ہے کہ وہ ان افراد پر شرک وکفر کی مہرلگائے ؟
شیخ سلامہ عزامی نے ابن تیمیہ کے افکار کے بارے میں بہت زیبا جملہ بیان فرمایا ہے وہ کہتے ہیں:
یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے پیغمبر ۖ کی ذات کے بارے میں بھی جسارت کی،جہاں وہ کہتا ہے : جو شخص پیغمبر ۖ کی زیارت کی نیّت سے سفر کرے تو اس نے گناہ کیا ہے اور جوکوئی پیغمبر ۖکو ان کی وفات کے بعدپکارے اوران سے استغاثہ کرے تو اس نے شرک کیا .
ابن تیمیہ نے ایک مقام پر اسے شرک اصغر اور دوسرے مقام پر شرک اکبر قرار دیاہے جبکہ استغاثہ کرنے والا شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خالق حقیقی اور مؤثر واقعی خداوند متعال کی ذات ہے اور پیغمبر ۖ صرف واسطہ ہیں حاجات کی بر آوری کے لئے .اس لئے کہ خدا نے انہیں بھلائی کا چشمہ قرار دیا ہے اور وہ ان کی شفاعت اور دعا کو قبول کرتا ہے .اور تمام مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے.(١)
ہاں ! ابن تیمیہ پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد انہیںپکارنے کو شرک سمجھتا ہے جبکہ ابوبکر کے
زمانہ میں مسیلمہ کذّاب کے ساتھ جنگ میں لشکراسلام کانعرہ (( یا محمداہ! )) تھا .
------------
١۔ فرقان القرآن : ١٣٣؛ الغدیر ٥: ١٥٥.
٢۔ البدایة والنھایة ٦: ٣٢٦.
|