٤۔استغاثہ
حاجت کی درخواست
وہ موضوعات جو طول تاریخ میں مسلمانوں کے درمیان رائج رہے ہیں ان میں سے ایک استغاثہ اور غیرخداسے مدد طلب کرنا ہے . اس موضوع میں بھی وہابیوں کانظریہ تمام مسلمانوں کے نظریے کے مخالف ہے .
ابن تیمیہ کہتا ہے :
اگر کوئی شخص ایسے مردے سے جو عالم برزخ میں موجود ہے یہ کہے : میری مدد کو پہنچ ، میری مدد کر یا میری شفاعت کر ،دشمن کے مقابلہ میں میری نصرت فرما اور اسی طرح کے دیگر کلمات جبکہ ان کاموں کو خدا کے سوا کوئی انجام نہیں دے سکتا تو وہ مشرک ہے اور اس کا یہ عمل شرک کی اقسام میں سے شمار ہو گا .( ١)
وہ اپنے رسالہ (( زیارة القبور والاستنجاد بالمقبور )) میں لکھتا ہے:(٢)
اگر کوئی شخص کسی نبی یا ولی کی قبر پر جا کر اس سے مدد طلب کرے .مثال کے طور پر اس سے درخواست کرے کہ مجھے بیماری سے شفا دے و... تو وہ واضح طور پر شرک کا مرتکب ہوا ہے ایسا جملہ کہنے والے کو چاہیے کہ توبہ کرے اور توبہ نہیں کرتا تو اس کی گردن اڑا دی جائے.(٣)
------------
١۔الھدیة السّنیة : ٤٠.
٢۔ رسالہ زیارة القبور : ١٨،٢١و ١٥٦.
٣۔قابل ذکر ہے کہ وہابی آج بھی اپنی فقہی کتب میں اس طرح کے خرافات لکھتے رہتے ہیں مثال کے طور پر کتاب(( فتاوٰی اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ٨:٣١٥))
نیز محمد بن عبدالوہاب کہتا ہے:
غیر خدا سے حاجت کی درخواست اور ان کو پکارنا دین سے خروج اور مشرکین کے دائرہ میں شامل ہونے کا باعث بنتا ہے ایسے شخص کا مال وجان مباح ہے مگر یہ کہ توبہ کر لے .( ١)
وہابی مردے سے دعا طلب کرنے کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے:
( (ان المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ أحدا) )(٢)
اور مساجد سب اللہ کے لئے ہیں لہذا اس کے علاوہ کسی کو مت پکارو.
وہابی نظریہ کی تحقیق اور اس پر اعتراض
جیسا کہ عرض کرچکے کہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا مسلمانوں کے درمیان رائج امور میں سے ہے .اب وہابیوں کے نظریہ کی گہری تحقیق اور اس پر اعتراض کو بیان کریں گے .ہم ان کے جواب
پر یہ لکھا ہے:
اہل سنت کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹیاں شیعہ یا کیمونسٹ بچوں کو مت دیں اور اگر ایسا عقد واقع ہو جائے تو وہ باطل ہے اس لئے کہ شیعوں میں اہل بیت کو پکارنا اور استغاثہ رائج ہے جو شرک اکبر ہے. اسی کتاب کا مؤلف ایک اور مقام پر لکھتا ہے :
وہ ( شیعہ)ایسے مشرک ہیںجو شرک اکبر کاارتکاب کر کے د ین اسلام سے خارج ہو گئے ہیں اس بنا پر ان کو اپنی بیٹی دینا یا ان کی خواتین سے شادی کرنا حرام ہے .اسی طرح ان کے ذبیحے کا کھانا بھی حرام ہے۔
------------
١۔کشف الشبہات : ٥٨ .
٢۔سورہ جن: ١٨.
میں کہتے ہیںغیر خدا سے مدد تین طرح سے ممکن ہے :
١۔ اس شخص کوفقط نام سے آواز دی جائے .مثال کے طور پر یہ کہیں : یا محمد ! یا عبدالقادر ! یا اہل بیت .
٢۔ کبھی یوں مدد طلب کی جاتی ہے : اے فلاں ! میرا قرض ادا کر اور مجھے شفا دے .یا محمد ! اپنے فضل و کرم سے مجھے بے نیاز کردیں .
٣۔ اور کبھی اس طرح ندادی جاتی ہے : اے فلاں ! میری شفاعت کر .اے فلاں! خدا سے میری حاجت برآوری کی دعا کریں.
واضح ہے کہ ان تین قسموں میں سے کسی ایک میں بھی کوئی ممانعت نہیں ہے اس لئے کہ ہر مسلمان موحّدکا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی ایسی ذات نہیں ہے جو مستقل طور پر کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہو یا کسی سے ضرر کو دفع کر سکتی ہو .
بنابر ایں ایسا شخص جسے خداوند متعال نے منتخب کرلیا اور اسے دوسروں پر برتری دی ہے اس کی طرف رجوع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ شخص ( نبی و...)واسطہ بنے اوردعا کرے تاکہ جلد حاجت روائی ہو.
اگر کوئی یہ کہے : (( یامحمد ! خداسے میری حاجت پوری ہونے کی دعاکریں . )) تو اس کا حقیقی مقصد خدا وند متعال ہے جس کے ہاتھ میں پوری قدرت ہے اور یہ فعل کو سبب کی طرف نسبت دینے کے باب سے ہے اوریہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کہا جائے کہ بہار نے سبزہ ہی سبزہ کردیا.
قرآن مجید میں بھی اس طرح کے بہت سے مواردپائے جاتے ہیں جہاں بظاہر فعل کی نسبت بندوں کی طرف دی گئی ہے جن میں سے صرف دو موارد کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :
١۔ سورہ توبہ میں ارشاد ہوتا ہے:
(( ولوأنّھم رضوا ما آتا ھم اللہ ورسولہ وقالوا حسبنا اللہ سیؤتینا اللہ من فضلہ ورسولہ انّا الی اللہ راغبون ) ) (١)
ترجمہ: اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ۖنے دیا ہے اور یہ کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے عنقریب اللہ اور اس کا رسول ۖہمیں اپنے فضل سے نوازیں گے بے شک ہم خدا کی طرف راغب ہیں ۔
در حقیقت بے نیاز کرنا صرف خدا ہی کی جانب سے ہے لیکن خداوند متعال نے اس آیت مجیدہ میں اپنے رسول کو بھی رزق دینے میں شریک کیا ہے جبکہ وہابی اس طرح کی گفتگو (( مجھے رزق دے )) کو شرک وکفر قرار دیتے ہیں .
٢۔ سورہ آل عمران میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کی زبانی یوں پڑھتے ہیں :
((انّی أخلق لکم من الطین کھیئة الطیر فأنفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ وأبریء الأکمہ والأبرص وأحی الموتی باذن اللہ...)) (٢)
ترجمہ: میں مٹی سے تمہارے لیے ایک چیز پرندے کی صورت میں بناؤں گا پھر اس میں پھونکوں گا کہ خدا کے ارادہ سے پرندہ بن جائے گا اور میں مادر زاد اندھے اور برص میں مبتلا شخص کو ٹھیک کروں گا اور مردوں کو خدا کے ارادہ سے زندہ کروں گا ۔
اس آیت مجیدہ میں بھی خداوند متعال خلق کرنے ،برص کی بیماری اورپیدائشی نابینوں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کرنے کی نسبت حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف دے رہا ہے . اگر یہ سب
------------
١۔ سورہ توبہ : ٥٩.
٢۔ سورہ آل عمران : ٤٩.
جائز ہے کہ یقینا جائز ہے تو پھر رسول گرامی اسلام یا ولی خداسے بیماری کی شفا ، حاجت کی بر آوری اور قرض کے ادا ہونے کی درخواست کرنااور وہ بھی باحکم خدا ،کیسے شرک ہو سکتا ہے .
بنا بر ایں استغاثہ وہی کسی شخص سے دعا کی درخواست کرنا ہے کہ جس میں کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ہے چاہے مدد کرنے والا مقام ومرتبہ کے اعتبار سے جس کی مدد کر رہا ہے اس سے بلند وبر ترہو یا کمتر .
مزے کی بات تو یہ ہے کہ خود ابن تیمیہ لکھتا ہے :
رسول خدا ۖ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا :
(( مامن رجل یدعولہ أخوہ بظھر الغیب دعوة الّا وکّل اللہ بھا ملکا ، کلّما دعا لأخیہ دعوة ، قال الملک : ولک مثل ذلک .))
اگر کوئی شخص اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کے لئے دعا کرے تو خدا وند متعال فرشتے اس کے بھائی کی جانب سے وکیل معین کرتا ہے اور جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے دعاکرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو .( ١)
اس حدیث شریف کے مطابق ایسا عمل جائز ہے . اسی طرح دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے:
ایک مرتبہ جب قحط سالی ہوئی تو لوگوں نے پیغمبر ۖ سے درخواست کی کہ وہ باران رحمت کی دعا کریں .آنحضرت نے خدا وند متعال کی بارگا ہ میں دعا فرمائی تو بارش برس پڑی .(٢)
------------
١۔ْرسالہ زیارة القبور : ١٢؛ کشف الارتیاب : ٢٢٣.
٢۔ مسند احمد ٣: ٢٤٥،ح ١٣٥٩١.
جو کچھ بیان کیا گیا اس کے مطابق اگر کوئی شخص کسی سے اپنے پاس بلانے کی درخواست کرے ،یا اس سے مدد طلب کرے یا اس سے کوئی چیز طلب کرے ، یا یہ کہ وہ اس کی حاجت پوری کرے تو نہ تو اس نے اس شخص کی عبادت کی ہے اور نہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے .
اسی طرح جو شخص پیغمبر کو پکارتا پے تاکہ وہ اسکی شفاعت کریںتو وہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ درحقیقت معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے اگر وہ چاہے تو پیغمبر ۖ سے قبول کرے اور اگر نہ چاہے تو ردّ کر سکتا ہے . پیغمبر ۖ صرف فیض الہی کے پہنچانے میں واسطہ ہیں اور درخواست کرنے والا شخص بھی مستقل سمجھ کر ان سے درخواست نہیں کرتا .
دوسری جانب جیسا کہ ((شفاعت ))کی بحث میں بیان کرچکے کہ انبیاء الہی موت کے بعد بھی زندہ ہیں بنابر ایں انبیا ء یا اولیاء جو اس دنیا سے منتقل ہو چکے ان سے توسّل کرنے والوں کی آواز سننے میں شرعی طور پر کوئی مانع موجود نہیں ہے ا سلئے کہ وہ زند ہ ہیں .نتیجةََ وہابیوں کے یہ نظریات کہ انبیاء و اولیاء مردہ ہیں اور مردہ کچھ سن نہیں سکتا لہذا ان سے توسّل اور حاجت طلب کرنا درست نہیں ہے ، یہ باطل اور فضول باتیں ہیں۔
فقہاء کی نظر میں استغاثہ اور مددطلب کرنا
جوکچھ بیان کیا گیا اس سے یہ روشن ہوگیا کہ استغاثہ اور غیر خدا سے مدد طلب کرنے کے بارے میں وہابیوں کا نظریہ باطل ہے اور علمائے اہل سنّت نے بھی اس عقیدہ کے باطل ہونے کی تاکید فرمائی ہے جس کے چند ایک نمونے پیش کر رہے ہیں :
١۔ علاّمہ قسطلانی(م ٩٢٣ھ) کہتے ہیں:
پیغمبر ۖ کی زیارت کرنے والے شخص کے لئے سزاواریہ ہے کہ وہ آنحضرت کے روضہ مبارک میں عاجزی ودعا کرے .اسی طرح آنحضرت سے استغاثة کرے ،ان سے شفاعت طلب کرے اور ان سے توسّل کرے.(١)
٢۔ علاّمہ مراغی(م٨١٦ھ) کہتے ہیں:
پیغمبر کی ولادت سے پہلے یا ولادت کے بعد ، اسی طرح ان کے اس دنیا سے انتقا ل کے بعد جب وہ عالم برزخ میں ہوں تب یاجس دن دوبارہ زندہ کیا جائیگا یعنی بروزقیامت ،ان سے توسّل کرنے اورمددو شفاعت طلب کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے.(٢)
٣۔ قیروانی مالکی ( م ٧٣٧ھ ) زیارت قبور کے بارے میں ایک الگ فصل میں لکھتے ہیں:
انبیاء و رسل ۔خدا کا درود وسلام ہو ان پر ۔ کا احترام یہ ہے کہ زائر ان کی قبور پر جائے اوروہیں دور سے ہی ان کی زیارت کا قصد کرلے .اور پھر تواضع وعاجزی ،انکساری ،رازونیاز اور خضوع کے ساتھ ان کی قبر کے کنارے کھڑا ہو کر قلب وفکر کو ان کی طرف متوجہ کرے اور پھر دل کی
------------
١۔المواہب اللدنیة ٣: ٤١٧.
٢۔ تحقیق النضرة : ١١٣.
آنکھوں سے ان کا مشاہدہ کرے اس لئے کہ ان کے بدن مبارک نہ تو گلے سڑے ہیں اور نہ ہی پراکندہ ہوئے ہیں .
پس اپنے گناہوں کی بخشش اور تمناؤں کی حاجت روائی کے لئے خداوند متعال کے ہاں ان کے وسیلہ سے توسّل کرے.اوران سے استغاثہ اور اپنی حاجت طلب کرے اور یہ یقین اور حسن ظنّ رکھے کہ ان کی برکت سے دعا قبول ہوتی ہے اس لئے کہ وہ خداکے کھلے دروازے ہیںاور سنّت الہی بھی یہی ہے کہ وہ لوگوں کی حاجات کو ان کے وسیلے اور ان کے ہاتھوں سے پورا فرماتا ہے.
اولین وآخرین کے سردار و سرور ،پیغمبراسلام ۖ کی زیارت کرتے وقت جو کچھ باقی انبیاء کے لئے بیان کیا گیا ہے اس سے کئی برابر زیادہ انجام دے . اور زیادہ سے زیادہ عاجزی وتواضع اوردل شکستگی کے ساتھ ان کی قبرپر کھڑا ہو اس لئے کہ وہ ایسے شفیع ہیں کہ جن کی شفاعت ردّ نہیں ہوتی اور جو بھی ان کاارادہ کرکے ان کی قبر مبارک پرجائے، ان سے استغاثہ و فریاد کرے تو ناامید واپس نہیں آئے گا .اور آنحضرت ۔ خداکا درود وسلام ہوان پر ۔ سے توسّل گناہوں اور خطاؤں کے محو ہونے کا باعث بنتا ہے۔(١)
------------
١۔المدخل فی فضل زیارة القبور ١: ٢٥٧؛الغدیر ٥: ١١١.
|