وہ قبور اور جنازے جن سے تبرّک حاصل کیا گیا
روایت میں بیان ہوا ہے : ایک شخص نے سعد ( صحابی رسول ۖ)کی قبر کی مٹی اٹھائی اور تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ا س سے مُشک کی خوشبو آرہی ہے.(١)
عبداللہ بن غالب حدانی روز ترویہ( ماہ ذیحجہ کی آٹھویں تاریخ کو روز ترویہ کہا جاتا ہے .مترجم) قتل کر دئیے گئے،ان کی قبر کی مٹی سے مُشک کی خوشبو آتی تھی جس کی وجہ سے لوگ اسے اپنے کپڑوں پر ملا کرتے.(٢)
حنبلیوں کے امام احمد بن حنبل نے ٢٤١ہجری میںوفات پائی ، ان کی قبر مشہور زیارت گاہ ہے اور لوگ وہاں سے تبرک حاصل کرتے ہیں.(٣)
سبکی نے امام بخاری کی وفات اور اس کے دفن کے بارے میں یوں لکھا ہے:
جب بخاری کو دفن کر دیا گیا تو لوگ ا س کی قبر کی مٹی اٹھا کر لے جایا کرتے یہاں تک کہ خود قبر ظاہر ہونے لگی اور قبر کو بچانا بھی مشکل ہوگیا تھا لہذا قبر کے اوپر ایک جالی لگا دی گئی جو مربع یا مستطیل نما تھی اور اس میں سوراخ تھے اور پھر کسی کا ہاتھ قبر تک نہیں پہنچتا تھا .(٤)
------------
١۔ الطبقات الکبرٰی ٣: ٤٣١؛ سیر أعلام النبلائ١: ٢٨٩.
٢۔ حلیة الأولیا ء ٢: ٢٥٨.
٣۔ طبقات حنابلہ ،ابویعلی ٢: ٢٥١؛ قابل ذکر ہے کہ بغداد میں اب اس قبر کا کوئی نشان نہیں ہے .
٤۔ الطبقات الشافعیة الکبرٰی ٢: ٢٣٣؛ سیر أعلام النبلاء ١٢: ٤٦٧.
دوسری جانب ابن تیمیہ کے پیروکار اس کے جنازے اور اس کے غسل کے پانی سے تبرّک حاصل کیا کرتے .سوال یہ پید اہوتا ہے کہ کیا ابن تیمیہ کے پیروکار مشرک اور اہل بدعت تھے ؟ کیا یہ فتوٰی اس کے اپنے پیرو کاروں کے لئے نہیں ہے ؟
کیا تبرّک اور مس کرنے کا جائز ہونا ایک عقلی امر اور مسلمانوں میں عام نہیں تھااور اس کے حرام ہونے کا فتوٰی دینا ایک غیرمعقول اور غیر شرعی کام نہیں ہے؟
ہاں ابن تیمیہ کے تشییع جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی وہ تبرّک حاصل کرنے کے لئے اپنے رومال اور پگڑیاں اس کے جنازے پرپھینک رہے تھے اور اس کے جنازے کے تختہ کی لکڑیاں توڑ کر تبرّک سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے . انہوں نے بچ جانے والے سدر کو خرید کر آپس میں بانٹا نقل ہوا ہے : وہ رسّی جو سیماب میں تر تھی اور ابن تیمیہ جوؤں کو دور کرنے کے لئے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ،وہ ایک سو پچاس درہم میں خریدی گئی. (١)
ابن تیمیہ اور وہابی فکر کے مطابق تو یہ سب کام شرک کے واضح نمونے ہیں بنا بر ایں اس کے جنازے میں شریک تمام لوگ مشرک تھے .
تبرّک کے دیگر نمونوں میں سے ایک یحیٰی بن مجاہد (م ٣٦٦ھ) سے تبرّک حاصل کرنا ہے . ابن بشکوال کہتے ہیں وہ زاہدعصر اور اپنے شہر کے عابد شخص تھے،لوگ اس سے تبرّک حاصل کرتے اور اس کی دعا کا سہارا لیتے ۔(٢)
------------
١۔البدایة والنھایة ١٤: ١٣٦؛الکنی والالقاب١:٢٣٧.
٢۔سیر أعلام النبلائ١٦:٢٤٥.
باعظمت چیزوں سے تبرّک حاصل کرنا
مسلمان باعظمت چیزوں سے بھی تبرّک حاصل کیا کرتے ، سبکی کہتے ہیں :٦٤٢ہجری میں میرے والد دارالحدیث اشرفیہ میں ساکن ہوئے تو وہ ہر شب اس کے برآمدہ میں جاکر فرش پر عبادت کیا کرتے اور اپنی صورت کو اس پر ملتے . یہ فرش اشرف ( وقف کرنے والے) کے زمانہ سے وہا ں پر موجود تھا اور نووی درس پڑھاتے وقت اس پر بیٹھا کرتے تھے ۔(١)
امام غزالی پیغمبر ۖ کی زیارت کے آداب میں لکھتے ہیں :
زائر کو چاہیئے کہ وہ اریس نامی کنویں کے پا س جائے اس لئے کہ کہا گیا ہے کہ پیغمبر ۖ نے اس میں آب دہن پھینکا تھا .یہ کنواں مسجد کے قریب ہے پیغمبر ۖ نے اس سے پانی پیا اور اس کے پانی سے وضو کیا.البتہ مدینہ منوّرہ میں تیس مکان مساجد و زیارت کے عنوان سے معروف ہیں اور شہر کے لوگ ان سے آشنا ہیں اور زائر کو چاہیے کہ و ہ اپنی طاقت کے مطابق وہاں جائے ،نیز شفاو تبرّ ک حاصل کرنے کے لئے اس کنویں کے پاس جائے جس سے آنحضرت ۖ نے پانی پیااوروضو وغسل کیا ۔(٢)
امام احمد بن حنبل کے بیٹے کے پاس اپنے باپ کی نشانی ایک کرتہ تھا وہ کہتے تھے : میں اس میں نماز پڑھتا ہوںاور اس سے تبرّک حاصل کرتا ہوں.( ٣)
------------
١۔الطّبقات الشافعیة الکبرٰی ٨: ٣٩٦.
٢۔ احیاء العلوم ١: ٢٦٠.
٣۔سیر أعلام النبلاء ١١: ٢٣٠.
مختلف صدیوں اور زمانوں میں تبرّک کے بارے میں جو مسلمانوں کی سیرت بیان کی گئی ہے اسے مدّ نظر رکھتے ہوئے کیا یہ وہابیوں کے اسلام او ر توحید سے انحراف کی دلیل نہیں ہے؟
محمد بن اسماعیل بخاری ٢٥٦ ہجری میں فوت ہوئے ، سمر قند کے لوگوں نے اسے دفن کیا اور اس کی قبر کی مٹی سے تبرّک حاصل کیا . کیا وہ کافر تھے ؟
آپ کس بناء پر مسلمانوں پر حملہ آور ہو تے ہیںاور ان کی طرف ناروا نسبت دیتے ہیں ؟
پس کہاں ہے تمہارے کلام میں تقوٰی و عفت ؟
اسلام اور سنت نبوی میں کہاں تمہارے یہ افکار وفتاوٰی موجود ہیں ؟ ہم تبرّک کے بارے میں اسی قدرنصوص پر اکتفاء کرتے ہیں ایسی نصوص جن میں قبور سے تبرّک کو مسلمانوں کے درمیان پیغمبر ۖ سے لے کر آج تک ایک رائج امر بیان کیاگیا اور پھر کسی فقیہ نے نہ یہ کہ اس کے حرام ہونے کا فتوٰی نہیں دیا بلکہ اس کے جواز ، رجحان اور استحباب کی بھی تصریح کی ہے .ہم اس بحث کو ذہبی کے کلام پرتمام کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں :
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں : میں نے اپنے باپ احمد بن حنبل کو دیکھا انہوں نے پیغمبر ۖ کا بال مبارک اپنے ہا تھ میں لیا ہوا تھا اسے کپڑوں سے مس کرتے اور چومتے ، میرے خیال کے مطابق وہ اسے اپنی آنکھوں پر بھی لگایا کرتے . اسی طرح اسے پانی میں ڈال کر اس پانی کو شفاکے طور پر پیا کرتے . ایک دن میں نے دیکھاکہ پیغمبر ۖ کے برتن کو پانی میں دھو کر اس پانی کو پی رہے تھے .
ذہبی کہتے ہیں : کہاں ہے وہ ضدی انسان جو احمد کے ا س عمل کاانکار کرے ؟ جبکہ ایسا عمل ثابت ہے .
عبداللہ نے اپنے باپ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو منبر رسول ۖ کے دستے کو مس کر رہا تھا تو انہوں نے جواب میں کہا : ایسے عمل میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی .میں خوارج اوراہل بدعت کے انحرافی افکار سے خدا کی بارگاہ میں پناہ مانگتا ہوں.(١)
------------
١۔ سیر أعلام النبلاء ١١: ٢١٢.
|