وہابی افکار کا ردّ
 
خاک مدینہ سے علاج
نقل شدہ روایات کے مطابق مسلمان خاک مدینہ کو بطور تبرّک استعمال کیا کرتے . سمھودی کہتے ہیں :
ابن نجّار کی کتاب اور ابن جوزی کی کتاب الوفاء سے ہم تک یہ روایت پہنچی ہے:
غبار المدینة شفاء من الجذام(1)
------------
1۔ فیض القدیر ٤: ٤٠٠؛ التیسیر بشرح الجامع الصغیر ٢: ١٥٩.
مناوی فیض القدیر میں لکھتے ہیں: ابوسلمہ کہتے ہیں : مجھ سے پیغمبر ۖ کی یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا : غبارالمدینة شفاء من الجذامیعنی مدینہ منورہ کا غبار جذام کی بیماری کے لئے شفاء کا باعث ہے
وہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
ایک شخص جذام کے مرض میں مبتلا تھا ہم نے دیکھا کہ بیماری سے اس کی حالت بہت بری ہوچکی تھی اس نے مدینہ منوّرہ کی خاک شفاء کے طور پر استعمال کی ،ایک دن گھر سے باہر آیا اور ( قبا کے راستہ میں وادی بطحان کے اندر)کومة البیضاء نامی ریت کے ٹیلہ پر جاکر اپنے بدن کو زمین پر ملا جس سے اسے شفا مل گئی ۔(١)

تبرّک اور اہل سنّت فقہاء کا نظریہ
گزشتہ صفحات میں ہم نے بیان کیا کہ فقہائے اہل سنت نے تبرّک کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے .عبداللہ بن حنبل کہتے ہیں : میں نے اپنے والد سے پوچھا : ایک شخص منبر رسول ۖ کو تبرّک کے طور پر مس کررہا تھا اور اسے چوم رہا تھا اور یہی عمل قبر مبارک پیغمبر ۖ پر بھی بجا لا رہا تھا ،کیا یہ عمل جائز ہے؟
فرمایا : اس میں کوئی عیب نہیں ہے . (٢)
یہی روایت کتاب(( الجامع فی العلل و معرفة الرجال )) میں اس اضافہ کے ساتھ نقل ہوئی ہے کہ : یہ شخص ان اعمال کو خداوند متعال کی بارگاہ میں تقرّب کا وسیلہ بھی قرار دیتا ہے؟
احمد بن حنبل نے جواب میں کہا : اس میں کوئی مشکل نہیں ہے .(٣)
------------
١۔فیض القدیر ٤: ٤٠٠ .
٢۔بحوالہ سابق٤: ١٤١٤؛سبل الھدی والرشاد ١٢: ٣٩٨؛ عمدة القاری ٩: ٢٤١
ابن العلا کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کا نظریہ ابن تیمیہ کو دکھایا تو وہ اسے دیکھ کر تعجب میں پڑ گیا اور کہنے لگا : مجھے احمد سے تعجب ہو رہا ہے اس لئے کہ میرے نزدیک وہ ایک باعظمت شخص ہیں.کیا واقعا یہ انہی کا جملہ ہے ۔(١)
رملی شافعی نے بھی تبرّک کے بارے میں اسی طرح کا فتوٰی دیا ہے : اگرکوئی شخص کسی نبی یا ولی یاعالم کی قبر پر تبرّک کے قصد سے ہاتھ پھیرے یا اسے چومے تو اس میں کوئی عیب نہیں ہے. (٢)
محب الدین طبری شافعی کہتے ہیں : قبر کو چومنا اور اسے مس کرنا جائز ہے اور علماء وصالحین کی بھی یہی عادت رہی ہے.(٣)
آثار پیغمبر ۖسے تبرّک
تبرّک کے دیگر نمونوں میں سے ایک پیغمبر ۖ کے بعد ان کے باقیماندہ آثار سے تبرّک حاصل کرنا ہے منبر رسول ۖ مسلمانوں کے ہاں ایک خاص عظمت و مقام ر کھتا ہے یہاں تک کہ بعض فقہاء نے اس منبر کی عظمت واحترام کی وجہ سے اس کے پاس قسم کھانے سے منع کیا ہے اور ہمیشہ اس سے تبرّک حاصل کیا کرتے .
کتاب ((آثار النّبوة)) میں نقل ہوا ہے کہ منبر پیغمبر وۖ اپنی جگہ پر موجود تھا کہ آگ کی لپیٹ میں آگیا جس سے اہل مدینہ کو بہت صدمہ پہنچا ؛ اسی آتش سوزی میںمنبر کا دستہ جس پر آنحضرت اپنادست مبارک رکھا کرتے اور پاؤں مبارک کے رکھنے کی جگہ بھی جل گئی (٤)
------------
١۔وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٤١٤.
٢۔ کنز المطالب ،حمزاوی :٢١٩؛یہ فتوی شراملسی نے شیخ ابو ضیاء سے ''مواہب اللدنیہ ''کے حاشیہ میں نقل کیا. ٣۔اسنی المطالب ١: ٣٣١؛وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤: ١٤٠٧ . ٤۔الآثارالنّبویة :
سمہودی کہتے ہیں : پیغمبر ۖ کے منبر پر غلاف کے مانند ایک کپڑا چڑھا کر روضہ آنحضرت کے پاس محراب میں رکھ دیا گیا ، لوگ اس محراب سے ہاتھ بڑھا کرتبرّک کے طور پر منبر مبارک کو مس کیا کرتے تھے .(١)
انہی روایات کی بناء پر فقہاء تبرّک اور منبر کے مس کرنے کے جواز کا فتوٰی دیا کرتے.امام مالک کے استاد یعنی یحیی بن سعید انصاری ،مالک ، ابن عمر اور مسیب سے نقل ہوا ہے کہ وہ منبر رسول ۖ کے دستے کو مس کرنا جائز قرار دیتے اور اسی طرح اس کا جائز ہونا اہل بیت علیہم السلام سے بھی نقل ہوا ہے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
واذا فرغت من الدّعا ء عند قبر النبیّ ۖ فآت المنبر فامسحہ بیدک وخذ برمّانتیہ ، وھما السفلان ، وامسح عینیک ووجھک بہ ، فانّہ یقال : انّہ شفاء للعین.(٢)
جب قبر پیغمبر ۖ کے پاس دعا سے فارغ ہوں تو منبر کے پاس جا کر اسے مس کریں اور پھر اسکے دونوں دستوں کو تھام کر اپنی صورت اور آنکھیں اس سے مس کریں ،اس لئے کہ یہ عمل آنکھوں کی شفا کا موجب ہے۔
امام غزالی نے بھی اس بارے میں اظہار نظر کرتے ہوئے لکھا ہے: جو شخص پیغمبر ۖ کی زندگی میں ان کو دیکھ کر تبرّک حاصل کر سکتا ہے وہ ان کی وفات کے بعد ان کی زیارت کرکے بھی تبرّک حاصل کر سکتا ہے اوریہی چیز پیغمبر ۖ کی زیارت کے لئے سفر کر نے کے جواز کا باعث بنتی ہے. (٣)
------------
١۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی٢: ٣٩.
٢۔ وسائل الشیعة ١: ٢٧٠،باب ٧.
٣۔احیا ء العلوم ١: ٢٥٨.
پیغمبر ۖ کے مس شدہ سکوں سے تبرّک
نقل شدہ روایات کے مطابق صحابہ کرام ان سکوں سے تبرّک حاصل کیا کرتے جنہیں پیغمبر ۖ نے مس کیا تھا . جابر بن عبداللہ کہتے ہیں: ایک سفر میں میں پیغمبر ۖ کے ہمراہ تھاتو میرا اونٹ مریض ہو گیا اور میں قافلہ سے پیچھے رہ گیا ،پیغمبر ۖ نے مجھ سے پوچھا : اے جابر ! کیا ہوا ؟
میں نے عرض کیا : میرا اونٹ مریض ہو گیا ہے. آنحضرت نے اسے ہاتھ پھیرا تو وہ اس قدر تندرست ہوگیا کہ پورے قافلے سے آگے آگے چلنے لگا. اور پھر آنحضرت نے اسے خریدنے کا فرمایا : تو میں نے عرض کیا : آپ کے لئے حاضر ہے لیکن آپ نے قبول نہ کیا .
اس کے بعد جابر کہتے ہیں : میں اسی اونٹ پر مدینہ گیا تو آنحضرت نے بلال سے فرمایا کہ اسے اونٹ کی قیمت سے کچھ زیادہ پیسے دے دو .
جابر کہتے ہیں میں نے ارادہ کیا کہ یہ اضافی پیسے مرتے دم تک اپنے سے جدا نہیں کروں گا .میں نے انہیں اپنے تھیلے میں رکھ لیا یہاں تک کہ واقعہ حرّہ( یہ وہ دن تھا جب سپاہ یزید نے مدینہ منوّرہ پر حملہ کر کے لوگوں کا وحشیانہ طریقہ سے قتل عام کیااوران کا مال لوٹ لیا ) میں شامی فوجیوں نے مجھ سے چھین لئے۔(١)
ایک اور روایت میں ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں : ایک دن حجام پیغمبر ۖ کے بال تراش رہا تھا تو صحابہ کرام اس کے ارد گرد جمع تھے او رہر ایک نے آنحضرت کا ایک ایک بال پکڑ رکھا تھا۔(٢)
نیز ایک روایت میں بیان ہوا ہے کہ احمد بن حنبل ہمیشہ اپنے پاس ایک بال رکھا کرتے اور کہتے کہ یہ پیغمبر کا ہے (٣)
------------
١۔ مسند احمد بن حنبل ٣: ٣١٤،ح ١٤٤١٦؛ صحیح بخاری ٢: ٨١٠،ح ٢١٨٥.
٢. جامع االأصول٤:١٠٢.
٣۔ سیر أعلام النبلاء ١١: ٢٥٦و٢٣٠.
نقل ہوا ہے کہ معاویہ نے مرتے وقت وصیت کی تھی کہ مجھے پیغمبر کے پیراہن اور چادر میں دفن کیاجائے اور ساتھ آنحضرت کا بال مبارک رکھا جائے .(١)
اگرچہ یہ وصیت ریا کاری کی بناء پر تھی یایہ کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے چونکہ اس کا راوی عبدالاعلی بن میمون ہے جو مجہول الحال اور رجال کی معتبر کتب میں اس کا نام ونشان تک نہیں ہے . البتہ تبرّک ایک ایساامر ہے جو مسلمانوں کے درمیان رائج رہا ہے .
کہا گیاہے کہ تاریخ میں یہ بھی نقل ہوا ہے کہ صحابہ کرام پیغمبر ۖ کے آب وضو کے قطرات سے شفاطلب کرنے کی خاطر آپس میں جھگڑا کرتے .(٢)
حضرت عائشہ کہتی ہیں : لوگ اپنے بچوں کو تبرک کے طور پر پیغمبر ۖ کے پاس لایا کرتے(٣)
ابن منکدر تابعی ہمیشہ مسجد نبوی کے صحن میں آکر لیٹ جایا کرتے اور اپنا بدن وہاں پر رگڑاکرتے، جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہا : میں نے یہاں پر پیغمبر ۖ کو دیکھا ہے .
البتہ چونکہ وہ تابعی ہیں اور پیغمبر کو درک نہیں کیا لہذا ان کا یہ کہنا کہ میں نے دیکھا ہے اس سے مراد خواب میں دیکھنا ہے.(٤)
روایت میں آیا ہے کہ کبشہ نامی عورت کہتی ہیں : ایک دن پیغمبر ۖ ہمارے پاس تشریف لائے اور لٹکی ہوئی مشک کے دہانے سے پانی پیاتو میں نے اٹھ کر مشک کے دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا .
ابن ماجہ نے اس روایت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے : مناسب یہی ہے کہ جس جگہ پیغمبر ۖ نے اپنا دہن مبارک رکھا اس سے تبرّک حاصل کیا جائے .ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا اور اسے صحیح و معتبر قراردیتے ہوئے کہا ہے : یہ روایت احمد بن حنبل نے انس سے اور اس نے امّ سلیم سے نقل کی ہے ۔(٥)
------------
١۔ تہذیب الکمال ١٨: ٥٢٦.
٢۔ تاریخ بخاری ٣: ٣٥،ح ١٨٧؛تاریخ طبری ٣: ٤٧٥.
٣۔مسند احمد بن حنبل ٦: ٢١٢؛ح ٢٥٨١٢؛ صحیح مسلم١: ٢٣٧،ح ٢٨٦.
٤۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ٤:١٤٠٦؛ سیر أعلام النبلاء ٥: ٣٥٩.،