٣۔تبرّک
تبرّک کی تعریف
لفظ تبرّک مادہ ((برکت)) سے لیا گیا ہے.اس لفظ کا لغوی معنی زیادتی اور کثرت ہے اور اصطلاح میں اس کا معنٰی ایک موحّد و مسلمان شخص کا انبیاء وصالحین یا ان کے باقی ماند ہ آثار سے خیر وبرکت اورکثرت و افزونی کا طلب کرنا ہے ۔
واضح ہے کہ نہ صرف یہ کہ ایسے عمل کے انجام دینے کی حرمت پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ شرعی اعتبار سے اس کا انجام دینا رجحان بھی رکھتا ہے.قرآن مجید فرماتا ہے:
(ومن یعظّم شعائر اللہ فانّھا من تقوی القلوب)(١)
ہر عقل شعائر کی تعظیم کا حکم لگاتی ہے اس لئے کہ ایسے اعمال انسان کو خدا سے نزدیک کرنے کا باعث بنتے ہیں .البتہ قرآن مجید کے اندر اس طرح کے نمونوں کی کوئی کمی نہیں ہے انہی نمونوں میں سے ایک یہ آیت کریمہ ہے جس کی ہم تلاوت کرتے رہتے ہیں:
(( قال الّذین غلبوا علی أمرھم لنتّخذنّ علیھم مسجدا )) (٢)
ترجمہ: اور جو لوگ دوسروں کی رائے پر غالب آئے انہوں نے کہا ہم ان پر مسجد بنائیں گے ۔
اس کے دیگر نمونے سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٢٥ اورسورہ یوسف کی آیت نمبر ٢١ میں بیان ہوئے ہیں .
------------
١۔حجّ: ٣٢،
٢۔سورہ کہف١ ٢.
وہابیوں کا نظریہ
طول تاریخ اسلام میں مسلمان اسی سیرت پر عمل پیرا رہے ہیں لیکن ماضی قریب سے تا بہ حال ابن تیمیہ اور اس کے پیروکار قبور سے تبرّک حاصل کرنے،ان پر ہا تھ اورصورت کے مس کرنیاور انہیںچومنے کو حرام قراردیتے ہیں اور مسلمانوں پر کفر و شرک کی تہمت لگاتے ہوئے انہیں ((قبوریون )) اور (( قبروں کے پجاری)) کہتے ہیں .ان کی نظر میں مسلمانوں کا یہ عمل زمانہ جاہلیت کے لوگوںکے اس عمل کی مانند ہے جسے وہ بتوں کے لئے انجام دیتے تھے۔
اس نظریہ کا جواب
ہم اس نظریہ کا جواب تین طرح سے دیتے ہیں :
١۔در حقیقت تبرّک وہی شعائر الٰہی کی تعظیم ہے جو شرعی طور پر رجحان رکھتا ہے اور انبیاء و اولیاء کا احترام ان کی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتا بلکہ ہمیشہ کے لئے واجب ہے .
اس بارے میں امام مالک منصور سے کہتے ہیں : (( پیغمبر کا احترام ان کی وفات کے بعد بھی ویسا ہی ہے جیسا ان کی زندگی میں تھا .))(١)
٢۔ اگر شعائر الہی کی تعظیم اورقبور کا احترام جو کہ عبادت شمار ہوتا ہے ،ان کا چومنا شرک ہو تو بہت سے امور حرام قرار پائیں گے جن میں سے خانہ کعبہ کی تعظیم ، حجرا سود کی تعظیم اور اس کا بوسہ لینا ، مقام ابراہیم علیہ السلام اور مسجد نبوی کی تعظیم ،ملائکہ کا حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ ریز ہونا ، جناب یوسف علیہ السلام کے والدین اور ان کے بھائیوں کا ان کے سامنے سجدہ کرنا اور والدین کی تعظیم یہ سب شرک قرار پائے گا جبکہ واضح ہے کہ ان میں سے ہر ایک عمل نہ یہ کہ شرک نہیں ہے بلکہ عین عبادت ہے۔
٣۔ وہابیوں کا یہ نظریہ صحابہ کرام ، اولیاء الٰہی اورفقہائے اہل سنّت کے طریقہ کے مخالف ہے اس لئے کہ مختلف روایات کے مطابق صحابہ کرام ، اولیائے الٰہی اور مسلمان متعدد مقامات پر اسی سیرت پر عمل کرتے ہوئے تبرّک حاصل کرتے رہے ہیںجس کے چند ایک نمونے حاضر خدمت ہیں ۔
------------
١۔ الدرر السنیّة فی الردّ علی الوھابیة ، زینی دحلان ، ص ١٦،طبع مصر سال ١٢٩٩ھ ، وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی، ج ٤،ص ١٣٧٦ ، المواھب اللدنیة ،ج ٣،ص ٤٠٩.
خاک مدینہ اور قبر پیغمبر کی خاک سے تبرّک
مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،قبر حضرت حمزہ سیدالشھداء بلکہ پورے مدینہ منوّرہ کی خاک سے تبرّک حاصل کیا کرتے،اس بارے میں روایات میں بیان ہوا ہے کہ مدینہ منوّرہ کی خاک جذام ،سردرد اور ہر طرح کی بیماری سے شفاکا موجب بنتی ہے.اور انہیں روایات کی بناء پر فقہائے اسلام نے مذکورہ خاک سے تبرّک کے جواز یا رجحان کا فتوی دیا ہے بطور مثال چند نمونے پیش کر رہے ہیں:
١۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکا تبرّک حاصل کرنا :
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دفن کر دیا گیا تو فاطمہ علیھا السلام آنحضرت کی قبر کے کنارے کھڑی ہوگیئں ،قبر سے کچھ مٹی اٹھائی اور چہرے پر مل کر آنسو بہاتے ہوئے یہ دو شعر پڑھے:
ماذاعلی من شمّ تربة أحمد
أن لا یشمّ مدی الزمان غوالیا
صبّت علیّ مصائب لو أنّھا
صبّت علی الأیام صرن لیالیا
کیا ہوگا اس شخص کا جو قبر احمد کی خاک کو سونگھ لے کہ جب تک زندہ رہے قیمتی ترین خوشبو کے سونگھنے کی ضرورت نہ پڑے، مجھ پر ایسے مصائب آئے کہ اگر دنوں پر پڑتے تو وہ سیاہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے ۔(١)
٢۔ تبرّک عبداللہ بن عمر :
ابن حملہ کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر ہمیشہ اپنے دائیں ہاتھ کو تبرّک حاصل کرنے کے لئے قبر پیغمبر اکرم ۖ پررکھا کرتے ،اسی طرح بلال حبشی تبرّک کے طور پر اپنے رخساروں کو قبر پیغمبر ۖپر رکھا کرتے۔(٢)
٣۔ ابو ایوب انصاری کا قبر پیغمبر سے متبرّک ہونا :
داؤود بن صالح کہتے ہیں : ایک دن مروان نے دیکھا کہ کوئی شخص قبر پیغمبر پر رخسر رکھے ہوئے ہے وہ اس کے قریب گیا اور اسے گردن سے پکڑ کر کہا : جانتے ہو کیا کر رہے ہو؟
مروان نے جب توجہ کی تو کیا دیکھا ابوایوب انصاری ہیں .انہوں نے کہا : ہاں مجھے معلوم ہے کہ کیا کر رہا ہوں ؟ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا بلکہ رسول خدا ۖ کے پاس آیا ہوں .میں نے آنحضرت (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
لا تبکوا علی الدین اذاولیہ أھلہ ، ولکن أبکواعلیہ اذا ولیہ غیر أھلہ .(٣)
جب تک دین کی سر پرستی اہل لوگ کر رہے ہیں تب تک اس پر گریہ مت کرو ،لیکن جب نااہل اس کے سرپرست بن بیٹھیں تو اس وقت اس پر گریہ کرو۔
------------
١۔ الاتحاف، شبراوی ،ص ٩٠؛ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی،ج ٤،ص ١٤٠٤،ارشادالساری ،ج ٣،ص ٣٥٢،طبع دارالفکر.
٢۔ وفاء الوفاء بأخبار المصطفٰی ،ج ٤،ص ١٤٠٥؛شرح الشفاء ،ج٢،ص ١٩٩.
٣۔المستدرک علی الصحیحین، ج ٤،ص ٥٦،ح ٨٥٧١.
٤۔ صحابہ کرام وغیرہ کامتبرّک ہونا :
سمھودی کہتے ہیں : صحابہ کرام اور دوسرے افراد قبر پیغمبر ۖکی خاک کو بطور تبرّک اٹھایا کرتے .وہ اس دیوار سے خاک کو اٹھایا کرتے جس سے قبر کی طرف سوراخ موجود تھا .اور پھر حضرت عائشہ نے انہیں پراکندہ کیا اور اس سوراخ کو بند کروادیا .
حضرت عائشہ کے اس عمل کی توجیہ میں کہا گیا ہے: صحابہ کرام اور دوسرے افراد کا یہ عمل قبر مبارک کی بدنمائی اور خرابی کا باعث بن رہا تھا ۔(١)
٥۔حضرت حمزہ کی قبرکی خاک سے تبرّک:
ابن فرحون کہتے ہیں : آج بھی لوگ حضرت حمزہ کی قبر کی مٹی بطور تبرّک لے جاتے ہیں اور اس سے تسبیح بناتے ہیں بناء بر ایں لوگوں کا یہ عمل خاک مدینہ کو منتقل کرنے کے جائز ہونے کی دلیل ہے(٢)
------------
١۔ حوالہ سابق ١: ٦٩.
٢۔ حوالہ سابق ١: ١١٦.
|