وہابی افکار کا ردّ
 
آنحضرت ۖ کی وفات کے بعدان سے شفاعت کی درخواست
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ پیغمبرۖسے شفاعت صرف ان کی زندگی ہی میں محدود نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام وصال کے بعد بھی پیغمبر رحمت ۖسے شفاعت کی درخواست کرتے رہتے . اس بارے میں چند روایات نقل کر رہے ہیں :

١۔ حضرت علی علیہ السلام کا آنحضرت ۖ سے شفاعت طلب کرنا :
محمد بن حبیب کہتا ہے : جب حضرت علی علیہ السلام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل وکفن دے چکے تو آپۖ کے چہرہ مبارک سے کفن کو ہٹاتے ہوئے عرض کیا :
بأبی أنت و امّی طبت حیّاو طبت میّتا بأبی أنت و امّی أذکرنا عند ربّک (1)
میرے ماں باپ آ پ ۖ پر قربان ہوں آپ نے پاک و پاکیزہ زندگی کی اور پا ک و پاکیزہ ربّ کی بارگاہ میں منتقل ہوئے . .. میرے ماں باپ آپۖ پر قربان ہوں اپنے ربّ کی بارگاہ میں ہمیں بھی یاد رکھنا.
1۔ التمہید ، ابن عبد البر ٢: ١٦٢؛شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ١٣: ٤٢، ح٢٣.
٢۔ ابوبکر کا پیغمبرۖ سے شفاعت طلب کرنا :
حضرت عائشہ کہتی ہیں : جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کی خبر ابو بکر تک پہنچی ...تو اس نے اپنے کو رسول خدا ۖ کے (بدن مبارک )کے اوپر گرایا ، چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹاکر آنحضرت ۖ کی صورت و پیشانی اور رخساروں پر ہاتھ ملتے ہوئے رو کر کہا :.اے محمد ۖ! ہمیں اپنے پرور دگار کی بارگاہ میں یاد رکھنا .(١)
------------
١۔ تمہید الأوائل و تلخیص الدلا ئل ، باقلانی ١: ٤٨٨؛ الدرر السنیّة فی الرد ّ علی الوبابیة : ٣٤؛سبل الھدی والرشاد ٢:٢٩٩، باب ٢٨. اس حدیث کا متن یہ ہے : (( قالت عائشہ وغیرھا من الصحابة : انّ الناس أفحموا ودھشوا حیث ارتفعت الرنة ... حتی جاء الخبر أبا بکر ... حتی دخل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فأکبّ علیہ و کشف عن وجھہ و مسحہ و قبّل جبینہ و خدّیہ و جعل یبکی و یقول : بأبی أنت وأمی و نفسی وأھلی طبت حیّا و مشیا أذکرنا یا محمد عند ربّک )) .
٣۔ اعرابی کا صحابہ کی موجودگی میں شفاعت طلب کرنا:
احمد زینی دحلان ( امام الحرمین ) نے اس بارے میں ابن حجر عسقلانی سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے : روایت میں آیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین بعد ایک عر ب بادیہ نشین مدینے میں وار د ہوا اورقبر پیغمبر ۖ پر جا کر اپنے کو اس پر گرایا اور قبر کی خاک کو سر میں ڈال کر کہنے لگا : یا رسول اللہ ! آپ نے اپنی زندگی میں کچھ باتیں بیان فرمائیں ، ہم نے انہیں قبول کیا . جس طرح آپ نے دستورات دینی کو خدا سے لیا اسی طرح ہم نے ان دستورات کو آپ سے لیا وہ آیات جو خدا وند متعال نے آپ پر نازل فرمائیں ان میں سے ایک یہ آیت بھی ہے :
ولو أنہم اذ ظلموا أنفسھم جاؤوک فاستغفروا اللہ واستغفرلھم الرسول لوجدوا اللہ توّابا رحیما ۔
اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے لیے استغفار کرتے اور رسو لۖ بھی ان کے لیے استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے.( ١)
یا رسول اللہۖ ! میں نے اپنے اوپر ستم کیا ہے اور آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں تا کہ خدا سے میری بخشش کی دعا کریں .
اتنے میں قبر پیغمبر ۖ سے آواز آئی کہ خد انے تجھے بخش دیا ہے .(٢)
------------
١۔سورہ نساء : ٦٤ .
٢۔الدرر السنیّة فی الردّ علی الوہابیة : ٢١، نقل از جواہر الکلام ؛ تفسیر قرطبی ٥: ٢٦٥، ذیل آیت ٦٤ سورہ نساء ؛ تفسیر بحر المحیط ابو حیّان اندلسی ٤: ١٨٠، باب ٦٤ ذیل سورہ نساء . ان کتب میں یوں نقل ہوا ہے : (( قال العلاّمة ابن حجر فی جوہر المنّظم : وروی بعض الحفاظ عن أبی سعید السمعانی أنّہ روی عن علی رضی اللہ عنہ وکرّم اللہ وجھہ : انّہم بعد دفنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بثلاثة ایّام ، جائھم أعرابی ، فرمی بنفسہ علی القبر الشریف ... و حثی ترابہ علی رأسہ ، وقال : یا رسول اللہ ! قلت فسمعنا قولک و وعیت عن اللہ ما وعینا عنک ، وکان فیما أنزل اللہ علیک قولہ تعالی : (( ولو أنہم اذ ظلموا ...)) وقد ظلمت
حیات انبیاء
اس میں شک نہیں ہے کہ انبیائے الہی اور خاص طور پر آخری سفیر الہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی حیات ابدی کے مالک ہیں . وہ دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں اور امّت کے اعمال ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں .
ان کی یہ زندگی شہداء کی زندگی سے بالا تر ہے اس لیے کہ یقینا مقام نبوت مقام شہادت سے بلند وبالا ہے اس اعتبار سے پیغمبر ۖ کی وفات کے بعد ان سے شفاعت طلب کرنا کسی مردے سے شفاعت طلب کرنا نہیں ہے.
اس بارے میں مسلمان علماء و مفکرین نے اپنی آراء بیان کی ہیں جن میں سے چند ایک کو یہاں بیان کر رہے ہیں :
قسطلانی کہتے ہیں :(( لا شک ّ أنّ حیاة الأنبیاء علیہم الصلاة و السلام ثابتة معلومة مستمرّة و نبیّنا أفضلھم ، و اذا کا ن کذالک فینبغی أن تکون حیاتہ أکمل و أتمّ من حیاة سائرھم))
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انبیاء کا وفات کے بعد بھی زندہ ہونا ایک ثابت، معلوم اور دائمی امر ہے . دوسر ی طرف ہمارے نبی ۖ باقی انبیاء سے افضل ہیں تو آنحضرت ۖ کی زندگی بھی رحلت کے بعد ان سے اکمل ہو گی .(١)
------------
١۔المواھب اللدنیّة ٣: ٤١٣.
شوکانی اپنی کتا ب (( نیل الأوطار )) فصل (( صلا ة المخلوقات علی النبی ّ وھو فی قبرہ حیّ )) میں لکھتا ہے : وقد ذھب جماعة من المحققین الی انّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حیّ بعد وفاتہ و أنّہ یسرّ بطاعات أمتہ ، وأنّ الأنبیاء لا بیلون ، مع أنّ مطلق الادراک کالعلم والسماع ثابت لسائر الموتی ، وورد النصّ فی کتاب اللہ فی حق ّ الشھدا ء أنّھم أحیاء یرزقون و أنّ الحیاة فیھم متعلقة بالجسد ، فکیف بالأنبیاء والمرسلین وقد ثبت فی حدیث : (( أنّ الأنبیاء أحیاء فی قبورھم ))
و رواہ المنذری و صحّحہ البیھقی))
محققین کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحلت کے بعد بھی زندہ ہیں اور اپنی امّت کی اطاعا ت سے خوش ہوتے ہیں .انبیاء کے بدن قبر میں بوسیدہ نہیں ہوتے . مطلقا ادراک جیسے علم وسماعت تمام مردوں کے لیے ثابت ہے اور قرآ ن کریم کی واضح نص کے مطابق شہدا ء زندہ ہیں ، انہیں رزق دیا جاتا ہے . تو ان کی زندگی ان کے بدن سے متعلق ہے . پس جب شھداء ایسے ہیں تو انبیاء و رسول تو بدرجہ اولیٰ زندہ ہیں اور ان کی زندگی ان کے جسم سے مربوط ہے .
ابن حجرہیثمی اپنی کتاب میں عبد اللہ بن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات کے بعد اپنی حیات کے بارے میں یوں فرمایا :((حیاتی خیر لکم تحدثون و یحدث لکم ، ووفاتی خیر لکم ، تعرض علیّ أعمالکم فما رأیت من خیر حمدت اللہ علیہ وما رأیت من شرّ أستغفرت اللہ لکم))
میری زندگی بھی تمہارے لیے با عث برکت ہے اور میری وفات بھی . تمہارے اعمال میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں . جب تمہارے نیک اعمال کو دیکھتا ہوں تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور جب تمہارے برے اعمال کو دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں .
ابن حجر اس حدیث کی سند کے معتبر ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس حدیث کے راوی وہی صحیح بخاری اور صحیح مسلم والے ہیں .(١)
مسلم نیشاپوری نے بھی اپنی کتاب میں اس بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث نقل کی ہے کہ آنحضرتۖ نے فرمایا : مررت علی موسیٰ لیلة اسری بی عند الکثیب الأحمر وھو قائم یصلّی فی قبرہ
جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا وہ اپنی قبر میں نماز میں مشغول تھے.(٢)
------------
١۔ مجمع الزوائد ٩ : ٢٤؛ الجامع الصغیر : ٥٨٢؛ کنز العمّال ١١: ٤٠٧.
٢۔ صحیح مسلم ٧: ١٠٢کتاب فضائل موسیٰ علیہ السلام ؛ المصنف عبد الرزّاق ٣:٥٧٧.
استغفارآیات کی روشنی میں
اب چونکہ استغفار کی بات آگئی تو مناسب یہی ہے کہ اس موضوع کو آیات و روایات کی روشنی میں پرکھا جائے . اس بارے میں قرآن کریم کی بہت سی آیات موجود ہیں جن میں سے چند ایک کو بیان کر رہے ہیں :
١۔ ہم سورہ منافقون میں پڑھتے ہیں :
((واذا قیل لھم تعالوا یستغفر لکم رسول اللہ لوّوا رؤسھم و رأیتھم یصّدون وھم مستکبرون)) ( ١)
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے حق میں استغفار کریں گے تو سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بناء پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں .
خدا وند متعال نے اس آیت مجیدہ میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت طلب کرنے سے رو گردانی کرنے کو نفاق کی علامت بیان کیا ہے .تو اس کی ضد یا نقیض وہی دنیا میں شفاعت کی درخواست کرنا ہے جو ایمان کی علامت ہے .
١۔ سورہ نساء میں بیان ہوا ہے :(( ولو أنّھم اذ ظلموا أنفسھم جاؤوک فاستغفروااللہ واستغفر لھم الرسول لوجدوا اللہ توّابا رحیما)) ( ٢)
ترجمہ: اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا توآپ کے پاس آتے اور خود بھی اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتے تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا او ر مہربان پاتے.
نیز یہ آیت بھی پیغمبر ۖ سے بخشش کے طلب کرنے کو واضح طور پر بیان کررہی ہے جو حقیقت میں وہی طلب شفاعت ہے .
------------
١۔سورہ منافقون : ٥.
٢۔سورہ نساء : ٦٤.
شفاعت کے بارے میں وہابی نظریہ
وبابی فرقہ اس بات کا مدعی ہے کہ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا حرام ہے .ابن عبد الوھاب کہتا ہے :( من جعل بینہ و بین اللہ وسائط یدعوھم و یسألھم الشفاعة کفراجماعا)(١)
جو شخص اپنے اور خدا کے درمیان واسطے قرار دے ، انہیں پکارے اور ان سے شفاعت طلب کرے تو اجماع کے مطابق اس نے کفر کیا ...؛
ہم ان کے اس نظریہ کو ردّ کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے مدعا پر محکم و قاطع ادلّہ بیان کریں گے اور پھر علمی وعقلی ادلّہ کے ساتھ ان کے نظریہ کو ردّ کریں گے .
واضح ہے کہ وہابی دونوں اعتبار سے عاجز و ناتوان ہیں اب ہم فقط ان کی ادلّہ کو بیان کرنے پر اکتفا کریں گے .
سب سے پہلی آیت جس سے وہابی استدلال کرتے ہیں وہ یہ آیت مجیدہ ہے کہ خدا وند متعال فرماتا ہے: (ویعبدون من دون اللہ مالا یضرّھم ولا ینفعھم و یقولون ھٰؤلاء شفعائنا عند اللہ قل أتنبئون اللہ بما لا یعلم فی السماوات ولا فی الأرض سبحانہ وتعالی عمّا یشرکون) (٢)
ترجمہ:اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ا ن کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ . اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کرنے والے ہیں . تو آپ کہہ دیجیے کہ تم تو خدا کو اس بات کی اطلاع کر رہے ہو جس کا علم اسے زمین و آسمان میں کہیں نہیں ہے وہ پاک وپاکیزہ ہے اور ان کے شرک سے بلند و برتر ہے .
محمد بن عبد الوہاب اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہتاہے : خدا نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ جو شخص کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دے تو اس نے در حقیقت اس کی پرستش کی اور اسے خدا کا شریک ٹھہرایا ہے.
------------
١۔ مجموعة المؤلفات ١: ٣٨٥؛ اور ٦: ٦٨ . ،٢۔ سورہ یونس : ١٨.
اس نظریہ کا جواب
ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس آیت سے اس طرح کا مفہوم لینا بہت عجیب اور خدا پر جھوٹ و افتراء کا واضح مصداق ہے . اس آیت میں کہاں یہ کہا گیا ہے کہ کسی کو خدا اور اپنے درمیان واسطہ قرار دینا شرک ہے؟ کیا اس طرح کا مفہوم لینا اس آیت مجیدہ کا مصداق نہیں ہے :
((آللہ أذن لکم أم علی اللہ تفترون)) . (١)
کیا خدا نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے یا خدا پر افترا کررہے ہو ؟
اس لیے کہ آیت کا محورغیر خدا کی عبادت ہے نہ کہ کسی کو شفیع و واسطہ قرار دینا .آیت مجیدہ سے اس طرح کا مفہوم لینا اپنے مدعا کے اثبات کی خاطر ایک طرح کا مغالطہ یا کج فہمی ہے چونکہ یقینا جو لوگ انبیاء و آئمہ اطہار اورصالحین کو واسطہ قرار دیتے ہیں وہ ان کی پرستش نہیں کرتے.
اور پھر اس آیت مجیدہ کا شان نزول بھی اس بات کی حکایت کررہا ہے کہ جن کی مذمت کی گئی وہ وہ افراد تھے جو واسطوں کی پرستش کیا کرتے تھے نہ کہ صرف ان کو واسطہ قرار دیتے تھے . چند ایک نمونوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں .
جلال الدین سیوطی لکھتاہے: نضر ( جو مشرک تھا ) نے کہا :
روز قیامت لات وعزیٰ میری شفاعت کریں گے .اس وقت خدا وند متعال نے یہ آیت نازل کی :(( فمن أظلم ممن افتری علی اللہ کذبا أو کذب بآیاتہ انّہ لا یفلح المجرمون. و یعبدون من دون اللہ مالا یضرّھم ولا ینفعھم . ..؛)) (٢)
ترجمہ : اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پرجھوٹا الزام لگائے یا اس کی آیتوں کی تکذیب کرے جب کہ وہ مجرمین کو نجات دینے والا نہیں ہے . اور یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ نقصان پہنچاسکتے ہیں نہ فائدہ ...؛
------------
١۔ سورہ یونس : ٥٩.
٢۔سورہ یونس : ١٧و ١٨.
ابن کثیر اس آیت کی تفسیر اور شان نزول کے بارے میں لکھتاہے:
خداوند متعال اس آیت میں ان مشرکین کوردّکررہا جو اس کا شریک قرار دیتے اور ان کی پرستش کیا کرتے .وہ یہ گمان کرتے کہ ان کے خیالی خداان کو پروردگار حقیقی کے ہاں نفع پہنچائیں گے . لہذا خدا وند متعال نے ان کے اس باطل عقیدے کے مقابلہ میں ان سے فرمایا : بتوں کی شفاعت نہ تو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان کو تم سے دور کر سکتی ہے . وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے بارے میں تمہارا گمان درست واقع ہو گا .(١)
ابو حیّان اندلسی نے بھی اس بارے میں یوں اظہار نظر کیا ہے :
فعل(( یعبدون )) کی ضمیر کفار کی طرف پلٹ رہی ہے . اور ((مالا یضرّھم ولا ینفعھم)) سے مراد بت ہیں جو نفع پہنچانے یا ضرر کو دفع کرنے کی قدرت نہیں رکھتے. .. اہل طائف لات کی پوجا کیا کرتے اور اہل مکہ عزٰی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پرستش کیا کرتے .(٢)
------------
١۔ تفسیر القرّن العظیم ٢:٦٢٤ ذیل آیت سورہ یونس ، اس منبع میں اس طرح سے وارد ہوا ہے ۔ ینکر تعالی علی المشرکین الذین عبدوا مع اللہ غیرہ ظانین ان تلک الالھة تنفعھم شفاعتھا عند اللہ فأخبر تعالیٰ انھا لا تنفع و لا تضر و لا تملک شیئا و لا یقع شیء مما یزعمون فیھا و لا یکون ھذ ابدا
٢۔ تفسیر البحر المحیط ؛ ج٥ ، ص ١٣٣ سورہ یونس کی اٹھار ویں آیت کے ضمن میں اس منبع میں اس طرح سے نقل ہوا ہے : الضمیر فی (( و یعبدون )) عائد علی کفار قریش الذین تقدمت محاورتھم وما لا یضرھم و لا ینفعھم ھو الاصنام ، جماد لا تقدر علی نفع و لا ضرر ۔۔۔ وکان أھل الطائف یعبدون اللات و أھل مکة العزی و مناة و أسافا و و نائلة وھبل ))
آلوسی مشرکین کی اس طرح کی عبادت کو ظلم شمار کرتے ہوئے لکھتا ہے:
یہ آیت مشرکین کے ایک اور ظلم کی حکایت کر رہی ہے اور اس جملہ کا عطف آیت نمبر ١٥ پر ہے جس میں یہ فرمایا : (( واذاتتلی علیھم )) کہ یہ آیت بھی مشرکین کے بارے میں تھی اور خدا وند متعال اس آیت کے قصہ کو اس آیت کے قصہ پر عطف کر رہا ہے . اور پھر لفظ ((ما)) اس آیت میں یا تو موصولہ ہے یا موصوفہ کہ جس سے مراد بت ہیں اور انہی کی طرف اشارہ ہے . اور اس جملہ(( نہ تمہیں نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ ہی تم سے ضرر کو دور کر سکتے ہیں )) کا معنی یہ ہے وہ شفاعت کی قدرت نہیں رکھتے . اس لیے وہ جمادات کے سوا کچھ نہیںہیں .
اس کے بعد آلوسی نے مزید لکھاہے :
اہل طائف لات کی پوجا کیاکرتے اور اہل مکہ رزی ، منات ، آسافا ، نائلہ اور ہبل کی پوجا کیا کرتے . اور کہتے کہ یہ خدا کے ہاں ہمارے شفیع ہیں .
ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے یو ں نقل کیا ہے :
نضر بن حارث کہتا ہے : جب روز قیامت آئے گا تو لات و عزٰی ہماری شفاعت کریں گے . اس کی اس گفتگو کے بعد یہ آیت نازل ہوئی . (١)
------------
١۔ تفسر روح المعانی ١١: ٨٨، ذیل آیت ١٨ سورہ یونس . اس میں یوں بیان ہوا ہے : (( ویعبدون من دون اللہ )) حکایة لجنایة أخرٰی لھم ، وھی عطف علی قولہ سبحانہ : ((واذا تتلی علیھم )) ، ( یونس : ١٥) الآیة عطف قصّة علی قصّة و((ما )) امّا موصولة أو موصوفة . والمراد بھا الأصنام . و معنی کونھا لا تضرّ ولا تنفع أنّھا لا تقدر علی ذلک لأنّھا جمادات ، وکان أھل الطائف یعبدون اللات ، وأھل مکّة العزٰی ومناة و ھبل و أسافا ونائلة و یقولون : ھٰؤلاء شفعائنا عند اللہ . ٔخرج ابن أبی حاتم عن عکرمة قال:کان نضر بن الحارث یقول: اذاکان یوم القیامة شفعت لی اللات والعزٰی ، وفیہ نزلت الآیة.
حرمت شفاعت پردوسری دلیل
وہابیوں نے غیر خداسے شفاعت طلب کرنے کے حرام ہونے کی دوسری دلیل یو ں بیان کی ہے :
المیّت لا یملک لنفسہ نفعا و لا ضرّا فضلا لمن سألہ أن یشفع لہ الی اللہ ؛(١)
میّت نہ تو اپنے نفع کا مالک ہے اور نہ ہی نقصان کا چہ جائیکہ وہ سوال کرنے والے کی خدا کے ہاںشفاعت کر سکے .
ہم ان کی اس دلیل کے جواب میں کہیں گے : ہم اس سے پہلے تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے کہ انبیاء ، آئمہ ہدٰی اور شہداء زندہ ہیں اور نعمات الہی سے بہرہ مند ہیںجو ان کی حیات مجدد کی علامت ہے
جبکہ اس فرقے کا اشتباہ اسی مقام پر ہے کہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ انبیاء کی رحلت کے بعد ان سے شفاعت کی درخواست کرنا ایساہی ہے جیسے کسی مردے سے شفاعت کی درخواست کی جائے . گویا انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت ہی نہیں کی ہے یا اس کے معنیٰ میں تدبّر نہیں کیا یا پھر باقی آیات کی مانند اس آیت کی تفسیر بھی اپنی کج فہمی کے ساتھ کی ہے . خد اوند متعال فرماتا ہے :
ولا تحسبنّ الّذین قتلوا فی سبیل اللہ أمواتا بل أحیاء عند ربّھم یرزقون . فرحین بما آتاھم اللہ من فضلہ و یستبشرون بالّذین لم یلحقوا بھم من خلفھم ألّا خوف علیھم ولا ھم یحزنون . یستبشرون بنعمة من اللہ و فضل و أنّ اللہ لا یضیع أجر المؤمنین . (٢)
ترجمہ: او ر خبر دار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ مت کہنا وہ زندہ ہیں . اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں . خدا کی طرف سے ملنے والے فضل و کرم سے خوش ہیں اور جو ابھی تک ان سے ملحق نہیں ہو سکے ہیں ان کے بارے میں خوش خبری رکھتے ہیں کہ ان کے واسطے بھی نہ کوئی خوف ہے نہ حزن . وہ اپنے پرور دگار کی نعمت ، اس کے فضل اور اس کے وعدے سے خوش ہیں کہ وہ صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا .
------------
١۔ مجموعة المؤلفات ١: ٢٩٦؛ اور ٤: ٤٢.
٢۔ سورہ آل عمران : ١٦٩ تا ١٧١.
سمھودی نے بھی کتاب (( وفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ )) میں ان روایات کو نقل کیا ہے جو انبیاء کی رحلت کے بعد بھی ان کے زندہ ہونے پر دلالت کررہی ہیں جن میں سے ایک روایت یہ ہے :
((ألأنبیاء أحیاء فی قبورھم یصلّون))
انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں.
دوسری روایت یہ ہے :
((انّ اللہ حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیائ)) ؛(١)
خدا وند متعال نے زمین پر حرام قرار دیا ہے کہ وہ انبیاء کے اجساد کو نقصان پہنچائے .
اس بارے میں اور بھی روایات وارد ہوئی ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی رحلت کے بعد ان کے زندہ و جاوید ہونے پر دلالت کرتی ہیں . جو کچھ بیان کیا گیا اس کی بناء پر اس فرقہ کا عقیدہ مسلمانوں کے ان مسلّمہ عقائد کے خلاف ہے جو انہوں نے دسیوں آیات و روایات سے لیے ہیں .
دوسری جانب چونکہ وہابی ان واضح و قاطع ادلّہ کو ردّ یا ان کی توجیہ نہیں کرسکتے لہذا ان کا تفکّر مسلمانوں کے تفکّر کے مقابل قرار پاتا ہے اور عبد الکافی سبکی کے بقول ابن تیمیہ : شذّ عن جماعة المسلمین ؛ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہو گیا .(٢)
ہم انحراف کے شر، شیطان کے وسوسے اورنفاق سے بچنے کے لیے خداوند متعا ل سے پناہ چاہتے ہیں .
------------
١۔ وفاء الوفاء بأحوال دار المصطفیٰ ٤: ١٣٤٩.
٢۔ طبقات الشافعیة الکبرٰی ١٠: ١٤٩؛ مقدمة الدرّة المضیئة فی الردّ علی ابن تیمیہ . بحوث فی الملل والنحل سبحانی ٤: ٤٢ ؛ سلفیان در گذر تاریخ : ٢٣.