وہابی افکار کا ردّ
 
دنیا میں شفاعت
انبیاء و آئمہ طاہرین اور صالحین سے اسی دنیا میں شفاعت کی درخواست کرنے کے جوازوتائیدکے
بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئی ایک روایات ہم تک پہنچی ہیں جن کے ہوتے ہوئے کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے . اس لیے کہ پیغمبر صلی اللہ کی ولادت سے پہلے ، آپ کی زندگی میں اور آپۖ کی رحلت کے بعد شفاعت کا طلب کرنا واقع ہوا ہے اور آپ نے اس کی تائید فرمائی ہے . یا یہ کہ آنحضرت ۖ کے صحابہ کرام نے آپ کی رحلت کے بعد اس طرح شفاعت طلب کی یا ان کے سامنے شفاعت طلب کی گئی اور انہوں نے اس سے منع نہیں کیا .

ولادت پیغمبر ۖ سے پہلے ان سے شفاعت طلب کرنا
معتبر تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ تبع بن حسان حمیری نے آنحضرت ۖ کی ولادت سے ہزار سال پہلے ایک نامہ میں ان سے شفاعت کی درخواست کی اور جب یہ نامہ آنحضرت ۖ کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے اس کی تائید بھی کی اور یوں فرمایا : (( مرحبا بتبع الأخ الصالح . آفرین اے نیک بھائی . ) )
یہ تعبیر شفاعت کی در خواست کی تائید اور اس سے راضی ہونے کی حکایت کر رہی ہے . اصل واقعہ کو امام جعفر صادق علیہ السلام کے معاصر ابن اسحاق نے اپنی کتاب (( المبدأ و قصص الأنبیائ)) میں نقل کیا ہے اور حلبی( م ١٠٤٤ھ) نے اسے((السیرة الحلبیة)) میں ابن اسحاق سے نقل کیا .
تبع بن حسّان نے اس نامہ میں پیغمبرۖ کو یوں خطاب کیا ہے : اے محمد ! میں تمہارے پروردگار جس کی قدرت میں تمام مخلوقات ہیں اس پر اور ان تمام احکام پر ایمان رکھتا ہوں جو اس کی طرف سے تم پر نازل ہوئے ہیں . پس اگر تمہاری رسالت کے زمانہ کو پا لیا تو بہت اچھا . اور اگر درک نہ کر سکا تو آپ ۖ سے درخواست کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میری شفاعت کرنا اور اس دن مجھے فراموش نہ کرنا .
ابن اسحاق مزید لکھتاہے : ابی لیلیٰ کے خاندان کے ایک فرد نے مدینہ کی طرف ہجرت کے دوران راستے میں یہ نامہ پیغمبرۖ کی خدمت میں پیش کیا . پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نامہ وصول کرنے کے بعد تین بار فرمایا : مرحبا بتبع الأخ الصالح .
حلبی نے اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ تبع کے اس نامہ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے درمیان ایک ہزار سال کا فاصلہ تھا.(١)
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا شرک کا باعث بنتا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس شرک آلود کام کی تائید کریں اور اسکے انجام دینے والے کو بھائی سے تعبیر کریں .؟!
کیا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مشرک شخص کو بھائی کہہ کر خطاب کر رہے ہیں ؟!
------------
١۔ السیرة الحلبیة ٢: ٢٧٩. اس کتاب میں یوں بیان ہوا ہے : (( امّا بعد یا محمد ! فانیّ آمنت بک و بربّک وربّ کلّ شیء وبکل ما جائک من ربّک من شرائع الاسلام والایمان و انّی قلت ذلک ، فان ادرکتک فیھا ، وان لم ادرکک فاشفع لی یوم القیامة ولا تنسی ...
وکتب عنوان الکتاب الی محمد بن عبداللہ خاتم النبیین والمرسلین ورسول ربّ العالمین ، من تبع الاول حمیر أمانة اللہ فی ید من وقع ھذاالکتاب الی أن یدفعہ الی صاحبہ ودفعہ الی رأس العلماء المذکورین ...
ثمّ وصل الکتاب الی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی ید بعض ولد العالم المذکور حین ھاجر وھو بین مکة والمدینة ... و بعد قراء ة الکتاب علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : مرحبا بتبع الأخ الصالح ، ثلاث مرّات
. وکان بین تبع ھذا أی بین قولہ : (( انہ آمن بہ وعلی دینہ )) وبین مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ألف سنة .
پیغمبرۖ کی زندگی میں ان سے شفاعت کا طلب کرنا
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ حیات میں موجود روایات پر نگاہ ڈالنے سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام رسول خداۖ سے شفاعت کی درخواست کیا کرتے تھے . جن میں سے دو مورد کی طرف اشارہ کررہے ہیں :

١۔انس کی روایت:
انس بن مالک کہتے ہیں : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کی کہ وہ روز قیامت میری شفاعت کریں .
آنحضرتۖ نے میری درخواست کوقبول کرلیا اور فرمایا: میں اسے انجام دوں گا .
میں نے عرض کیا : اس دن میں کس مقام پر آپ سے ملاقات کروں ؟
فرمایا : پل صراط کے کنارے. ۔
میں نے عرض کیا : اگر وہاں آپۖ کو نہ پا سکوں تو پھر ؟ (١)
فرمایا : میزان کے کنارے۔
میں نے پھر عرض کیا : اگر وہاں بھی آپ کو نہ پا سکا تو پھر ؟
فرمایا : حوض کے کنارے . اس لیے کہ میں ان تین مقامات کے علاوہ کہیں اور نہیں ہوں گا.
------------
١۔سنن ترمذی ٤: ٦٢١ ، ح ٢٤٣٣. اس روایت کا متن یوں ہے : انس بن مالک کہتے ہیں : سألت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أن یشفع لی یوم القیامة ؟
فقال : أنا فاعل . .......قلت : فأین اطلبک ؟
قال: اولا علی الصراط .
قلت : فان لم ألقک ؟
قال : عند المیزان .
قلت: فان لم ألقک ؟
قال : عند الحوض ؛ فانّی لا أخطی ھذا المواضع .
٢۔سواد بن قارب کی روایت:
روایت میں آیا ہے کہ ایک دن سواد بن قارب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور اشعار کی صورت میں آنحضرت ۖ سے شفاعت طلب کرتے ہوئے کہا :
وکن لی شفیعا یوم لا ذو شفاعة
سواک بمغن فتیلا عن سواد بن قارب (١)
اے پیغمبر ! روز قیامت میری شفاعت کرنا ، اس روز کہ جب دوسروں کی شفاعت خرما کے برابر بھی میرے کام نہ آئے گی .
------------
١۔ الاصابة ٢: ٦٧٥،ح ١١٠٩؛ الاحادیث الطوال طبرانی : ٢٥٦ ؛ الدّرر السّنیة فی الرد علی الوھابیة: ٢٧