اقسام شفاعت
شفاعت کے مفہوم کی وسعت کی بناء پر اسے چند قسمو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
١۔ قیامت میںشفاعت :
شفاعت کی اس قسم سے مراد انبیاء ، آئمہ ، شھداء اور صالحین کامخلوق اور خدا کے درمیان واسطہ بننا ہے جس کے نتیجے میں گنہگار مؤمنین کے گناہ بخش دیے جائیں گے . تمام مسلمان شفاعت کی اس قسم کو قبول کرتے ہیں یہاں تک کہ وہابی بھی ۔
٢۔ دنیا میں شفاعت کا طلب کرنا :
شفاعت کی اس قسم میں ہم اسی دنیا میں انبیاء ، آئمہ اور اولیاء الہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ آخرت میں ہماری شفاعت کریں . شفاعت کی اس قسم کو بھی تمام مسلمان قبول کرتے ہیں سوا ئے وہابیوں کے کہ وہ اسے شرک قرار دیتے ہیں .
شفاعت کی پہلی قسم کو دو طرح سے ثابت کیاجا سکتا ہے :
آیات کی روشنی میں
قرآن کریم کی اس آیت میںیوں وارد ہوا ہے :
(( ومن اللیل فتھجد بہ نافلة لک عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا))
اور رات کا ایک حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہیںیہ آپ کے لیے اضافہ خیر ہے عنقریب آپ کا پرور دگار اسی طرح آپ کو مقام محمود تک پہنچا دے گا ( ١)
مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں لکھاہے کہ ((مقام محمود )) سے مراد وہی مقام شفاعت ہے .
دوسری آیت میں فرمایا:(( ولسوف یعطیک ربّک فترضیٰ)) (٢)
اور عنقریب تمہارا پروردگار تمہیں اس قدر عطا کر دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے .
احادیث کی روشنی میں
جیسا کہ بیان کیا جاچکا کہ شفاعت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں سے صرف دو کو بیان کر رہے ہیں :
پہلی حدیث : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
((أعطیت خمسا....وأعطیت الشفاعة ، فأدّخر تھا لأمتی لمن لا یشرک باللہ شیئا)) (٣)
مجھے پانچ چیزیں عطاکی گئی ہیں .... ان میں سے ایک شفاعت ہے جسے میں نے اپنی امت کے ان لوگوں کے لیے بچا رکھا ہے جو کسی کو خدا کا شریک نہیں ٹھہراتے .
------------
١۔سورہ اسراء : ٧٩ .
٢۔ سورہ ضحیٰ : ٥.
٣۔ مسند احمد ١: ٣٠١ ؛ سنن نسائی ١: ٢١١.
دوسری حدیث: اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنا اوّل شافع و اوّل مشفع .(١)
میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہو گی .
علمائے اسلام کے اقوال کی روشنی میں
علمائے اسلام نے شفاعت کے بارے میں اپنے نظریات کو یوں بیان کیا ہے :
١۔ شیخ مفید فرماتے ہیں :
شیعہ اثنا عشریہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روز قیامت ایک ایسے گروہ کی شفاعت کریں گے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں گے .
نیز امیر المؤمنین علیہ السلام اور بقیہ آئمہ اطہار علیہم السلام بھی روز قیامت گنہگاروں کی شفاعت کریں گے . اور ان کی شفاعت بھی سے بہت سے گنہگار نجات پائیں گے .( اوائل المقالات فی المذاھب والمختارات : ٢٩. اس کتاب میں یوں بیان ہوا ہے :(( اتفقت الامامیة علی أنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یشفع یوم القیامة لجماعة من مرتکبی الکبائر من امتہ ، وأنّ امیر المؤمنین علیہ السلام یشفع فی اصحابہ الذنوب من شیعتہ ، وأنّ أئمة آل محمد علیہم السلام کذالک . وینجی اللہ بشفاعتھم کثیرا من الخاطئین )) [
٢۔ علا مہ مجلسی فرماتے ہیں :
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شفاعت ضروریات دین میں سے ہے ؛ اس معنیٰ میں کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقط اپنی ہی امت کی نہیں بلکہ دوسرے انبیاء کی امتوں کی بھی شفاعت کریں گے۔(٢)
------------
١۔ سنن ترمذی ٥: ٢٤٨، باب ٢٢، حدیث ٣٦٩٥.
٢۔ بحارالأنوار ٨: ٢٩ اور ٦٣
٣۔ فخر رازی لکھتے ہیں :
امت اسلام کے اجماع و اتفاق کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روز قیامت شفاعت کا حق رکھتے ہیں . اور خدا وند متعال کا یہ فرمان :(( عسیٰ أن یبعثک ربّک مقاما محمودا )) اور (( ولسوف یعطیک ربّک فترضیٰ )) اسی بات پر دلالت کر رہا ہے (١).
٤۔ ابو بکر کلا باذی (م ٣٨٠ھ) لکھتے ہیں :
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ خدا و رسول ۖ نے شفاعت کے بارے میں جوکچھ بیان کیا ہے اس کا اقرار کرنا واجب ہے .اور اس کی دلیل یہ آیت ہے کہ خدا نے فرمایا : ((عنقریب تمہیں عطاکروں گا کہ خوش ہو جاؤ گے)) (٢)
قابل ذکرہے کہ ابن تیمہ اور محمد بن عبدالوہاب نے بھی شفاعت کی اس قسم کا اقرار کیا ہے اور وہ اسکا انکار نہیں کر سکتے (٣)
------------
١۔ مفاتیح الغیب ٣: ٥٥؛ اس میں یوں ذکر ہوا ہے : (( أجمعت الأمة علی أنّ لمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ شفاعة فی الآخرة و حمل علی ذلک قولہ تعالی : عسی أن یبعثک ربک مقاما محمودا أو قولہ تعالی : ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ)).
٢۔لتعرف مذھب اہل التصوف : ٥٤؛ تحقیق عبدالحلیم . اس کتاب میں لکھاہے : (( أنّ العلماء قد اجتمعوا علی أنّ الاقرار بجملة ماذکراللہ سبحانہ وجائت بہ الروایات عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ فی الشفاعة، واجب لقولہ تعالی : ( ولسوف یعطیک ) وقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ : ( شفاعتی لأھل الکبائر من امتی ))
٣۔مجموعة الرسائل الکبرٰی : ٤٠٣؛الھدیة السنیة ،الرسالة الثانیة : ٤٢.
|