استاد محترم سے چند سوال
﴿کتاب و سنّت کی روشن شاہراہ پر متلاشیان حق کاسفر﴾
 

سنّت اور بدعت
۔حدیث ثقلین کی صحیح عبارت
سوال 130:کیا یہ صحیح ہے کہ حدیث ثقلین جو متواتر ہے اس میں ﴿﴿کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی ﴾﴾ہے جیسا کہ امام مسلم و ترمذی نے نقل کیا اور البانی نے اس کی تصریح کی ہے .
اور جس حدیث میں ﴿﴿کتاب اللہ وسنّتی ﴾﴾ہے وہ ضعیف ہے جیسا کہ امام مالک نے بھی اسے مرسل قرار دیا ہے ﴿۱﴾.
جبکہ حضرت عمر (رض) رسالتمآب (ص) کی رحلت کے دن باربار اصرار کر رہے تھے کہ ﴿﴿حسبنا کتاب اللہ ﴾﴾ ہمارے لئے قرآن کافی ہے اور ہمیں سنّت کی ضرورت نہیں ہے تو پھر ہم ہمیشہ خطبوں اور محافل میں سنّت والی عبارت کو کیوں نقل کرتے ہیں ؟

۔ہماری کتب میں خرافات
سوال 131: کیایہ صحیح ہے کہ ہم اہل سنت کی کتابوں میں ایسے مطالب کثرت سے پائے جاتے ہیں جو جھوٹ ،غلو اورخلاف عقل ہیں؟ مثال کے طور پر امام ذہبی لکھتے ہیں :
بکر بن سہل دمیاطی متوفی ۹۸۲ھ صبح سے عصر تک آٹھ مرتبہ پورا قرآن ختم کر لیا کرتے ﴿﴿سمعت بکر بن سھل الدمیاطی یقول: ھجرت أی بکرت یوم الجمعۃ فقرأت الی العصر ثمان ختمات﴾﴾ ﴿۲﴾ اسی طرح فضائل اعمال میں لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ (رح) جھڑتے گناہوں کو دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ کون کیا گناہ کرتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ مؤطا امام مالک ۲: ۹۹۸
۲۔ سیر اعلام النبلائ ۳۱: ۷۲۴؛تاریخ بغداد ۸: ۲۹؛ المنتظم ۶: ۶۳؛ البدایۃ والنھایۃ ۱۱: ۵۹؛ طبقات الحفاظ : ۵۹۲؛شذرات الذھب ۲:۱۰۲
کیا یہ غلو ،جھوٹ اور خلاف عقل نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟

۔ صحابہ کرام (رح) اور تابعین کا متعہ کرنا ۔
سوال 132: کیا یہ صحیح ہے کہ ہمارے موجودہ علمائ متعہ کو حرام قرا ر دیتے ہیں جبکہ صحابہ کرام اور تابعین اسے جائز سمجھتے اور اس پر عمل بھی کیا کرتے تھے ؟ جیسے عمران بن حصین، ابو سعید خدری ، جابر بن عبداللہ انصاری ، زید بن ثابن ، عبداللہ بن مسعود ، سلمہ بن الاکوع ، حضرت علی(رض) ، عمرو بن حریث ، حضرت معاویہ(رض) ، سلمہ بنامیہ ، عمرو بن حوشب ،ابی بن کعب ، اسمائ بنت ابوبکر(رض) ،اسی طرح عبداللہ بن زبیر تو پیدا ہی متعہ سے ہوئے تھے ﴿۱﴾انس بن مالک ، اسی طرح تابعیں و محدثین میں سے امام مالک بن انس ، احمد بن حنبل ،سعید بن جبیر ،عطا بن رباح ، طاوؤس یمانی ،عمرو بن دینار، مجاہد بن جبر ،سدّی ، حکم بن عتیبہ ،ابن ابی ملیکہ،افر ، فربن اوس وغیرہ.﴿۲﴾
اور پھر مزے کی بات تو یہ کہ عبداللہ بن جریج جن کی عدالت پر تمام اہل سنّت کااتفاق ہے اور صحاح ستہ میں ان سے روایات بھی نقل کی گئی ہیں.امام ذہبی ان کے متعلق لکھتے ہیں:
﴿﴿تزوّج نحوا من سبعین امرأۃ نکاح متعۃ ...وعن الشّافعی استتمع ابن جریج بتسعین امرأۃ﴾﴾
انہوں نے ستر عورتوں سے نکاح متعہ کیا اور شافعی کا کہناہے: اس نے نوّے عورتوں سے متعہ کیا . ﴿۳﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔محلٰی ۹:۹۱۵؛ مسند طیالسی:۷۲۲؛ زادالعاد ۱ : ۹۱۲؛ العقد الفرید ۴: ۳۱
۲۔ المحبّر : ۹۸۲؛ تفسیر کبیر ۰۱: ۳۵؛ شرح زرقانی ۳:۳۵۱؛ المحلّیٰ ۹: ۹۱۵؛ صحیح مسلم ۱: ۳۲۶؛ مصنّف عبدالرزاق ۷: ۹۹۴؛مبسوط سرخسی ۵: ۲۵۱؛الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی۱ :۰۹۱؛المغنی ۶:۴۴۶؛الدر المنثور ۲: ۰۴۱
۳۔سیر اعلام النبلائ ۴: ۱۲۳؛ تذکرۃ الحفاظ : ۰۹؛میزان الاعتدال ۲: ۹۵۶


نماز میں ہاتھ باندھنے پرصحیح حدیث کا موجود نہ ہون ۔
سوال 133: کیا یہ صحیح ہے کہ ہمارے پاس نماز میں ہاتھ باندھنے کے متعلق ایک بھی صحیح حدیث رسول (ص) موجود نہیں ہے اور سب سے مستند دلیل جو ہم پیش کرتے ہیں وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے جبکہ ان دونوں کی سند مرسل ہونے کے علاوہ ان کے متن میں بھی مشکل پائی جاتی ہے جیسا کہ امام عینی ،﴿۱﴾ ، اور سیوطی ﴿۲﴾نے اسے صراحتا بیان کیا ہے۔
جبکہ آئمہ اربعہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کی بھی اجازت دیتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم نماز میں ہاتھ باندھنے پر اس قدراصرار کرتے ہیں ؟ کیا یہ ایک واضح بدعت نہیں ہے ؟

پیغمبر (ص) اور صحابہ کرام(رح) کا پتھر اور مٹی پر سجدہ کرن
سوال 134: کیا یہ بھی درست کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرم اور صحابہ کرام(رض) خاک ،پتھر یا کھجور کی چٹائی کے ٹکڑے پر سجدہ کیا کرتے جسے خمرہ کہا جاتا ہے ؟ جیسا کہ حضرت انس بن مالک (رض) فرماتے ہیں:
﴿﴿کان رسول اللہ یصلی علی الخمرۃ ویسجد علیھا ﴾﴾﴿۳﴾
رسول اللہ (ص) چٹائی پر نماز پڑھتے اور اسی پر سجدہ کیا کرتے .
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) فرماتے ہیں : ﴿﴿کنت أصلّی مع رسول اللہ۔ ۔الظھر فآخذ قبضۃ من الحصٰی فی کفّی حتّٰی تبرد وأضعھا بجبھتی اذا سجدت من شدۃ الحرّ﴾﴾
میں ظہر کی نماز رسول اللہ (ص) کے ہمراہ باجماعت ادا کیا کرتا تو کنکروں کی ایک مٹھی بھر کر رکھ لیتا تاکہ وہ ٹھنڈے ہوجائیں اور جب سجدے میں جاتا تو ان پر سجدہ کیا کرتا .﴿۴ ﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ۵: ۷۸۲﴾ شوکانی﴿نیل الاأوطار ۲:۷۸۱
۲۔ التوشیح علی الجامع الصحیح ۱: ۳۶۴
۳۔صحیح مسلم ۱: ۱۰۱؛ مجمع الزوائد ۲: ۷۵
۴۔ السنن الکبرٰی ۲: ۹۳۴،طبع دارالفکر
میرا سوال یہ ہے کہ ہم کس لئے شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں جبکہ خود پیغمبر (ص) اور صحابہ کرام (رض) بھی مٹی یا
پتھر کے کنکروں پر سجدہ کیا کرتے ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ ہم کس دلیل کی بنا پرقالین پر سجدہ کر تے ہیں جبکہ سیرت رسول(ص) و صحابہ کرام (رض) کے عمل میں اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی ؟

۔حنبلی تحریف قرآن کے قائل
سوال 135: کیا یہ صحیح ہے کہ اہل سنّت میں سے حنبلی حضرات قرآن میں تحریف کے قائل ہیں اس لئے کہ وہ نماز کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھتے اور نہ ہی اسے قرآن کا جزئ سمجھتے ہیں جبکہ یہ قرآن کی تمام سورتوں کے شروع میں موجود ہے اوران کے اس عقیدے کامطلب تو یہ ہے کہ قرآن میں اسے اضافہ کر دیا گیا ہے اور یہی تحریف قرآن ہے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے :
﴿﴿ثارت الحنابلۃ ببغداد ومقدمھم ابویعلٰی وابن التمیمی وأنکروا الجھر بالبسملۃ ... ﴾﴾﴿۱﴾

۔عورت کی دُبر میں جماع کرنا
سوال 136: کیا یہ صحیح ہے کہ ذہبی اور دیگر علمائے اہل سنّت اپنی بیوی کی دُبر میںجماع کرنے کو حراما ور گناہ کبیرہ سمجھتے ہیںجبکہ عبداللہ بن عمر ، زید بن اسلم ، نافع ،مالک اور نسائی اسے مباح سمجھتے تھے ؟
۱۔ امام مالک فرماتے ہیں: مجھے کوئی ایسا فقیہ نہیں ملا جو دُبر میں جامع کو حلال نہ سمجھتا ہو.﴿۲﴾
۲۔امام نسائی سے اس کے حرام ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اس پر کوئی دلیل نہیں ہے .﴿ ۳﴾
تو اب ہم کس کے نظریہ کومانیں ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔تاریخ الاسلام :۳۲،حوادث سال ۷۴۴
۲۔المغنی : ۲۲؛کتاب الکبائر :۴۲؛المجموع ۶۱: ۰۲۴
۳۔سیر اعلام النبلائ ۴۱: ۸۲۱


۔لوگوں کا متعہ حرام قرار دینے پر اعتراض ۔
سوال 137: کیا یہ صحیح ہے کہ جب حضرت عمر (رض)نے متعہ کو حرام قرار دیا تو لوگوں نے ان پر شدید اعتراض کیا ؟ جیسا کہ طبری نے لکھا ہے:
عمران بن اسود نے حضرت عمر(رض) سے کہا : لوگ کہتے ہیں آپ نے ہم پر متعۃ النسائ کو حرام قرار دیا جبکہ خدانے اس چھوٹ دے رکھی تھی اور ہم تھوڑے سے پیسوں یا مٹھی بھر گندم ﴿۱﴾دے کر متعہ کر لیا کرتے تھے.﴿۲﴾

نماز تراویح حضرت عمر(رض) کی بدعت ۔
سوال 138: کیا یہ درست نہیں ہے کہ نماز تراویح حضرت عمر کی بدعات میں سے ہے اور پیغمبر(ص) کے زمانے میں اس کا مسلمانوں کے درمیان نام و نشان تک نہ تھا جیسا کہ ہمارے جید علمائ نے اس حقیقت کو عیاں کیا ہے :
۱۔ ابن ہمام: تاریخ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا آغاز حضرت عمر (رض) کے زمانے میں ہوا .﴿۳﴾
۲۔ جب پیغمبر (ص) کی رحلت ہوئی تب تک مسلمان نماز تراویح نہیں پڑھا کرتے تھے جیسا کہ ثبت ہوا ہے کہ عمر (رض) نے لوگوں کو ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا .﴿۴﴾
۳۔ عینی: جب پیغمبر (ص) کی رحلت ہوئی تب تک مسلمان نماز تراویح نہیں پڑھا کرتے تھے اور میراخیال یہ ہے
کہ یہ حضرت عمر (رض) کے اجتہاد کانتیجہ ہے .﴿۵﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ادوار الاجتہاد :۶۱
۲۔طبری ۲: ۹۷۵
۳۔ فتح القدیر ۱: ۷۰۴
۴۔ فتح الباری شرح صحیح بخاری ۴: ۶۹۲
۵۔ عمدۃ القاری فی شرح صحیح بخاری ۱: ۲۴۳
۴۔ امام بخاری نے عبداللہ بن عبدالقاری سے نقل کیا ہے کہ ایک دن حضرت عمر مسجد کے پاس سے گذرے تو کای دیکھا کہ لوگ جداجدا نماز میں مشغول ہیں لہذا سوچا کہ اگر یہ سب ایک شخص کی امامت میں نماز ادا کریں تو کتنا بہتر ہوگا لہذا ابی بن کعب کو اس کا حکم دیا ۔دوسری رات وہاں سے گذرے تو حضرت عمر (رض) دیکھا کہ لوگ ابی کے پیچھے نماز اداکررہے ہیں تو فرمایا : ﴿﴿نعم البدعۃ ھذہ ﴾﴾ یہ کتنی اچھی بدعت ہے.﴿ ۱﴾
کیا رسول اکرم (ص) نے بدعتی شخص کو گمراہ اور جہنمی قرار نہیں دیا؟ کلّ بدعۃ ضلالۃ وکلّ ضلالۃ فی النار. ﴿۲﴾
تو جب نماز تراویح نہ تو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانہ میں تھی ا ور نہ ہی حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں .تو پھر ہمیں اس قدر اس پر اصرارکرکے جہنّم خریدنے کی کیا ضرورت ہے ؟

بسم اللہ کا آہستہ پڑھنا بنو امیہ کی بدعت ۔
سوال 139: کیا یہ صحیح ہے کہ نماز میں آہستہ بسم اللہ الرّحمن الرّحیم پڑھنا امویوں کی بدعات میں سے اور سنّت رسول (ص) کے خلاف ہے جیسا کہ امام زہری نے اس کی وضاحت کی اور حضرت ابوہریرہ اور امام علی بن موسٰی الرّضا بھی بلند آواز سے پڑھا کرتے .اسی معروف مفسّر اہل سنّت علاّمہ فخر رازی کے بقول یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ حضرت علی (رض) بلند آواز سے بسم اللہ پڑھا کرتے .﴿ ۳﴾
امام زہری کہتے ہیں : ﴿﴿اوّل من قرأ ﴿﴿بسم اللہ الرّحمن الرّحیم ﴾﴾ سرّا بالمدینۃ عمرو بن سعید بن العاص . ﴾﴾
مدینہ میں سب سے پہلے جس شخص نے آہستہ بسم اللہ پڑھی وہ عمرو بن سعید بن عاص تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔صحیح بخاری ۱: ۲۴۳
۲۔ سبل السلام ۲: ۰۱؛ مسند احمد ۳: ۰۱۳
۳۔التفسیر الکبیر ۱: ۵۰۲


بنو امیہ کا سنّت پیغمبر (ص) کی مخالفت کرنا ۔
سوال 140: کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت معاویہ (رض) ،حضرت علی (رض) سے بغض کی وجہ سے سنّت نبوی پر عمل نہیں کیا کرتے تھے؟ جیسا کہ بیہقی نے لکھا ہے کہ حضرت معاویہ (رض)نے حضرت علی(رض) کی مخالفت میں عرفہ کے دن تلبیہ سے روک دیا .
سعید بن جبیر کہتے ہیں :ہم عرفہ کے دن عبداللہ بن عباس(رض) کے پاس بیٹھے تھے کہ ابن عباس (رض)نے کہا: اے سعید ! آج لوگوں کے تکبیر بلند کرنے کی آواز سنائی نہیں دے رہی ؟ میں نے کہا: لوگ معاویہ (رض) سے ڈرتے ہیں.اتنا سنتے ہی ابن عباس اچانک اٹھے اور بلند آواز سے کہا:
﴿﴿لبیک اللّھمّ لبیک وان رغم عنف معاویۃ ،اللّھمّ العنھم فقد ترکواالسّنۃ من بغض علیّ رضی اللہ عنہ﴾﴾﴿۱﴾
لبیک اللّھمّ لبیک ،ہم حضرت معاویہ(رض) کی ناک زمین پر رگڑ دیں گے .اے خدا! ان پر لعنت فرما .انہوں نے علی (رض) کے بغض میں سنّت رسول کو چھوڑ دیا ہے .
سنن نسائی کے شارح سندی اس جملے کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں:
﴿﴿أی لأجل بغضہ أی ھوکان یتقیّد بالسنن فھؤلائ ترکوھا بغضا لہ، ﴾﴾
یعنی انہوں نے حضرت علی (رض) کے بغض میں سنّت کو چھوڑ دیا اس لئے کہ وہ سنّتوں کے پابند تھے .

سلف اور مستحبات
سوال 141:کیا یہ صحیح ہے کہ ہمارا نعرہ شیعوں کی مخالفت کرناہے اگرچہ ان کا کوئی کام سنّت رسول (ص) کے مطابق ہی کیوں نہ ہو ؟ جیسے قبر کو ہموار کرنا، باقی انبیائ پر صلوات بھیجنا اور دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ...۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں :
شیعوں کی مخالفت اور ان رابطہ ختم کرنے کے لئے شیعوں کو پہچاننا ایک مستحب کو انجام دینے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔السنن الکبرٰی ۷: ۵۴۲، طبع دارالفکر ،۵: ۳۸۱، طبع دارالکتب العلمیہ ؛ سنن نسائی ۵: ۳۵۲
زیادہ مہم ہے یہی وجہ ہے کہ بعض فقہائ کا کہنا ہے کہ اگر بعض مستحبات شیعوں کا شعار ہوں تو انہیں ترک کردینا چاہیے .﴿۱﴾
قبر کو ہموار کرنے کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ سنّت یہ کہ قبر ہموار ہو لیکن افضل یہ ہے کہ ہموار نہ ہو اس لئے کہ یہ شیعوں کا شعار ہے اور بہتر یہ ہے کہ اس سنّت کو چھوڑ دیا جائے تاکہ ان کی مخالفت ہوسکے﴿۲﴾
اسی طرح پیغمبر کے علاوہ باقی انبیائ پر صلوات بھیجنا ،﴿۳﴾ باقی انبیا ئ پر سلام بھیجنا،﴿۴﴾عمامہ باندھنے کا طریقہ ﴿۵﴾.کیا یہ اسلام و پیغمبر سے انحراف اور ان کی مخالفت کرنا نہیں ہے ؟
اور کہیں اسی وجہ سے تو ہم اذان میں حضرت علی (رض) کے خدا کے ولی ہونے کی گواہی سے نہیںبھاگتے ہیں کہ وہ شیعوں کا شعار بن چکا ہے ؟

۔صحابہ کرام (رض) اور تابعین(رح) کا پاؤں کا مسح کرن
سوال 142: کیا یہ صحیح ہے کہ بہت سارے صحابہ کرام(رض) وتابعین وضو میں پاؤں کا مسح کیا کرتے تھے اور بعض تو اسے واجب سمجھتے تھے ؟ جیسے حضرت علی (رض) ، عبداللہ بن عباس ،عکرمہ ، انس بن مالک ، شعبی ، حسن بصری ، ابو جعفر محمد باقر رضی اللہ عنہ .﴿۶﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔منہاج السّنۃ ۲: ۳۴۱.ومن ھنا ذھب من ذھب من الفقھائ الی ترک بعض المستحبات اذا صارت شعارا لھم ...
۲۔ المجموع نووی ۵: ۹۲۲؛ ارشاد السّاری ۲: ۸۶۴
۳۔تفسیر کشاف ۳: ۱۴۵
۴۔ فتح الباری ۱۱: ۲۴۱
۵۔شرح المواہب اللدنیۃ ۵: ۳۱
۶۔المحلّیٰ ۲: ۶۵؛تفسیر کبیر ۱۱: ۱۶۱؛ مغنی ۱: ۲۳۱
جیسا کہ ابن حزم ، فخر رازی اور ابن قدامہ وغیرہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے.پس کیا وجہ ہے کہ ہم پاؤں کے دھونے کو واجب سمجھتے ہیں اور جو نہ دھوئے اس کے وضو کو باطل سمجھتے ہیں؟
انس بن مالک جو دس سال تک حضور علیہ الصلّاۃ والسّلام کے خادم رہے اور حضرت علی(رض) تیس سال تک آپ(ص) کے ساتھ ساتھ رہے .کیا یہ دونوں جلیل القدر صحابی جھوٹ اور غلط کام پر اصرار کر رہے ہیں؟!

۔الصّلاۃ خیر من النّوم حضرت عمر (رض) کی بدعت
سوال143:کیا یہ حقیقت ہے کہ اذان میں ﴿﴿الصّلاۃ خیر من النوم ﴾﴾ حضڑت عمر (رض) کی ایجاد کردہ بدعت ہے جبکہ پیغمبر کے زمانہ میں یہ جملہ اذان میں موجود نہیں تھا ؟
جیسا کہ امام ابن حزم ، امام مالک او رامام قرطبی نے واضح طور پر کہا ہے:
۱۔ امام مالک: ﴿﴿انّ المؤذن جائ الی عمر بن الخطاب یؤذنہ، لصلاۃ الصبح فوجدہ، نائما فقال :الصّلاۃ خیر من النوم فأمرہ، أن یجعلھا فی ندائ الصبح﴾﴾﴿۱﴾
مؤذن حضرت عمر (رض) کو صبح کی نماز کے لئے بیدار کرنے آیا تو دیکھا کہ وہ سو رہے ہیں . کہا : نماز نیند سے بہتر ہے .پس عمر (رض) نے اسے حکم دیا کہ جملہ آج کے بعد صبح کی اذان میں کہا جائے .
۲۔امام ابن حزم :﴿﴿الصّلاۃ خیر من النوم ،ولانقول بھذا أیضا لأنّہ، لم یأت عن رسول اللہ ﴾﴾ ﴿۲﴾
ہم الصلاۃ خیر من النوم نہیں کہتے اس لئے کہ یہ جملہ آنحضرت سے نقل نہیں ہوا۔

۔اذان میں حاکم وقت پر سلام کرنا
سوال 144: کیا یہ صحیح ہے کہ ہمارے مذہب میں اذان میں حی علی الصلاۃ سے پہلے’’السّلام علیک ایّھاالأمیر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،، کہنا جائز ہے ؟ جیسا کہ حلبی ، سرخسی اور دوسرے علمائ نے لکھاہے:
۱۔ سرخسی : ﴿﴿قد روی عن أبی یوسف رحمۃ اللہ أنّہ، قال: لا بأس بأن یخصّ الأمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔موطأ ۱: ۲۷
۲۔المحلّی ۳: ۱۶۱
بالتثویب فیأتی بابہ، فیقول : السّلام أیّھا الامیر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ،حی ّعلی الصلاۃ مرّتین حیّ علی الفلاح مرّتین ، الصلاۃ یرحمک اللہ ﴾﴾﴿۱﴾
۲۔حلبی : ﴿﴿عن أبی یوسف : لاأری بأسا أن یقول المؤذن السّلام علیک أیّھاالأمیر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، ،حیّ علی الصّلاۃ ،حیّ علی الفلاح ،الصّلاۃ یرحمک اللہ لاشتغال الأمرائ بمصالح المسلمین أی ولھذا کان مؤذن عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ یفعلہ،﴾﴾ .﴿۲﴾
اگر ہمارے مذہب میں کسی جملے کااذان میں اضافہ کرنا جائز ہے جو پیغمبر کے زمانہ مبارک میں نہ تھا تو پھر ہم شیعوں پر کیوں اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اذان میں ’’أشھد أنّ علیّا ولیّ اللہ ،، کیوں کہتے ہیں جبکہ یہ جملہ اذان میں نہیں تھا ؟

۔حمار یعفور کا کلام کرن
سوال 145: کیا یہ بھی صحیح ہے کہ حمار یعفور کا پیغمبر سے باتیں کرنے والا قصّہ ہماری کتب میں بھی موجود ہے. ﴿۳﴾؟ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اس قصّہ کے شیعوں کی کتاب کافی کے اندر موجود ہونے کی وجہ سے ان کی اس پوری کتاب کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ وہ خود بھی اس قصّہ والی روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں؟

۔قرآن کو جلانا جائز ہے ؟
سوال146: کیا یہ صحیح ہے کہ ہماری حدیث کی کتب میں بیان ہوا ہے کہ قرآن کو زمین پر رکھنا جائز نہیں جبکہ اسے جلادینا جائز ہے ؟ جیسا کہ ابن ابی داؤد نے اسی باب سے ایک مکمل باب کھولا ہے:’’ حرق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔المبسوط ۱: ۱۳۱
۲۔سیرۃ الحلبیہ ۳: ۴۰۳؛الھدایۃ فی شرح البدایۃ ۱: ۲۴؛ جامع صغیر ۱: ۸۳؛ تاریخ دمشق ۰۶: ۰۴؛شرح زرقانی ۱: ۵۱۲؛ تنویر الھوالک ۱: ۱۷؛ الذخیرۃ ۲:۷۴؛مواہب الجلیل ۱: ۱۳۴؛ الطبقات الکبرٰی ۵:۴۳۳اور ۹۵۳
۳۔حیاۃ الحیوان ۱: ۵۵۳؛ تاریخ دمشق ۴: ۲۳۲؛ البدایۃ والنھایۃ ۲:۹۳
المصحف اذا استغنی عنہ،،، اور پھر لکھا ہے : ﴿﴿انّہ، لم یر بأسا أن یحرق الکتب وقال : انّما المائ والنّار خلقان من خلق اللہ تعالٰی ﴾﴾ ﴿۱﴾
جب قرآن کی ضرورت نہ ہو تو اسے جلادینا .

۔حضرت عائشہ (رض) کی بکری کا قرآن کھا جان
سوال 147: کیا یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید کا کچھ حصّہ حضرت عائشہ (رض) کی بکری کھا گئی تھی اور اب اس کا نام و نشان تک نہیں ہے ؟جیسا کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں :
زنا کار کو سنگسار کرنے اور جوان کی رضاع والی آیت قرآن کا حصّہ تھی اور ایک ورق پر لکھی ہوئی تھی . جب پیغمبر کی وفات ہوئی تو ہم ان کے سوگ میں مشغول تھے کہ اتنے بکری آئی اور اس نے ان آیات کو کھا لیا :
﴿﴿لقد نزلت آیۃ الرّجم والرّضاع الکبیر عشرا ،ولقد کان فی صحیفۃ تحت سریری فلمّا مات رسول اللہ وتشاغلنا بموتہ دخل داجن فأکلھا﴾﴾ ﴿۲﴾

۔حضرت عمر (رض) کا تحریف قرآن کا فتوٰی
سوال 148: کیا یہ درست ہے کہ حضرت عمر (رض) قرآن کے قائل تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ آیت رجم گم ہوچکی ہے ؟ حضرت عائشہ (رض) سورہ احزاب کے دوتہائی گم ہوجانے کی قائل تھیں ؟ اور حضرت موسٰی اشعری قرآن کی دو سورتوں بنام خلع و حفد کے گم ہو جانے کے قائل تھے ؟ کیا اس قسم کے دعوؤں کا معنٰی یہ نہیں ہے کہ قرآن میں تحریف ہو چکی ہے اور وہ پورا قرآن اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں ہے؟
کیا ہم عیسائیوں اور یہودیوں سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ تورات و انجیل میں تو تحریف واقع ہوئی ہے لیکن قرآن محفوظ ہے ؟ !
اور پھر کیسی عجیب بات ہے کہ ہمارے بڑے تحریف قرآن کے قائل ہیں جبکہ ہم یہ تہمت شیعوں پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔کتاب المصاحف ۲: ۶۶۶،طبع دارالبشائر
۲۔سنن ابن ماجہ ۱: ۶۲۶
لگاتے ہیں باوجود اس کے کہ ان کے علمائ تحریف قرآن کی نفی پر کئی ایک کتب تألیف کر چکے ہیں؟
۱۔ حضرت عمر (رض) نے منبر پر کہا :
﴿﴿انّ اللہ قد بعث محمّدا بالحقّ وأنزل علیہ الکتاب ، فکان ممّا أنزل اللہ آیۃ الرّجم فقرأنا ھا وعقلناھا ووعیناھا ، فلذا رجم رسو ل اللہ ، ورجمنا بعدہ، فأخشٰی ان طال بالنّاس زمان أن یقول قائل : واللہ ما نجد آیۃ الرّجم فی کتاب اللہ فیضلّوا بترک فریضۃ أنزلھا اللہ ، والرّجم فی کتاب اللہ حقّ علی من زنی اذا أحصن من الرّجال ...ثمّ انّ کنّا نقرأ فیما نقرأ من کتاب اللہ أن لا ترغبوا عن آبائکم فانّہ، کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم ...﴿۱﴾
سیوطی نے حضرت عمر (رض) سے یوں نقل کیا ہے : ﴿﴿اذا زنی الشیخ والشیخۃفارجموھما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم ﴾﴾﴿۲﴾
۲۔ حضرت عائشہ(رض) فرماتی ہیں:
﴿﴿ کانت سورۃنقرأ فی زمن النّبی مأتی آیۃ ، فلمّا کتب عثمان المصاحف لم نقدر منھا الاّ ھو الآن ﴾﴾﴿۳﴾
۳۔ ابو موسٰی اشعری : انہوں نے ایک دن کوفہ والوں سے کہا: ہم پیغمبر کے زمانہ میں ایک سورہ پڑھا کرتے تھے جو سورہ برائت کے برابر تھی جو ابھی بھول گئی ہے مگر یہ کہ اس میں سے فقط ایک آیت مجھے یاد ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔صحیح بخاری ۸: ۶۲؛صحیح مسلم ۵: ۶۱۱؛ مسنداحمد ۱: ۷۴
۲۔الاتقان ۱:۱۲۱
۳۔ الاتقان ۲: ۰۴
﴿﴿لوکان لابن آدم وادیان من مال لابتغی وادیا ثالثا ولایمل الجوف ابن آدم الاّالتّراب﴾﴾
وہی کہتے ہیں : سورہ سبّح کی طرح کی ایک اور سورہ بھی موجود تھی جو مجھے بھول گئی ہے اور اس کی ایک ہی آیت اب ذہن میں ہے او روہ یہ ہے :
﴿﴿یاأیّھا الّذین آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون ،فتکتب شھادۃ فی أعناقھم فتسأ لون عنھا یوم القیامۃ﴾﴾﴿۱﴾
۴۔نیز حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں:
﴿﴿ کان فیما انزل من القرآن : عشر رضعات معلومات یحرّمن ،ثمّ نسجن معلومات ،فتوفٰی رسو ل اللہ وھنّ فیما یقرئ من القرآن ﴾﴾﴿۲﴾
۵۔مسلمہ بن مخلد انصاری فرماتے ہیں:
﴿﴿أخبرونی بآیتین فی القرآن لم یکتبا فی المصحف فلم یخبروہ، ، وعندھم سعد بن مالک ، فقال ابن مسلمہ : انّ الّذین آمنوا وھاجروا وجاھدوا فی سبیل اللہ بأموالھم وأنفسھم آلا أبشروا أنتم المفلحون والّذین آووھم ونصروھم وجادلوا عنھم القوم الّذین غضب اللہ علیھم أولئک لا تعلم نفس ما أخفی لھم من قرّۃ أعین جزائ بما کانوا یعلمون ﴾﴾ ﴿۳﴾
۶۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔صحیح مسلم ۳ : ۰۰۱
۲۔صحیح مسلم ۴: ۷۶۱
۳۔الاتقان ۲: ۲۴۔۱۴۔۰۴
قرآن کی بہت سی آیات گم ہوچکی ہیں﴿﴿لیقولنّ أحدکم قد أخذت القرآن کلّہ وما یدریہ ماکلّہ، ؟ قد ذھب منہ، قرآن کثیر ولیقل قدأخذت منہ ما ظھر ﴾﴾﴿۱﴾
کوئی بھی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے پورا قرآن حاصل کر لیا ہے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ پورا قرآن کس قدر تھا کیونکہ اس کا بہت زیادہ حصہ ضائع ہو چکا ہے .بلکہ اسے چاہیے کہ وہ یہ کہے کہ میں نے جوقرآن موجود ہے اس میں سے حاصل کر لیا ہے .
۷۔نیز حضرت عائشہ (رض) کے مصحف میں یوں ذکر ہوا ہے :
﴿﴿انّ اللہ وملائکتہ یصلّون علی النبی یاأیّھاالّذین آمنوا صلّوا علییہ وسلّمو ا تسلیما وعلی الّذین یصلّون الصفّوف الاوّل ﴾﴾﴿۲﴾

۔حضرت عائشہ (رض) کا ماتم کرنا
سوال 149: کیا یہ بھی صحیح ہے کہ سب سے پہلے ماتم اور عزاداری کرنے والی حضرت عائشہ(رض) تھیں ؟اس لئے کہ وہ فرماتی ہیں:
﴿﴿عن عبّاد : سمعت عائشۃ تقول: مات رسول اللہ ثمّ وضعت رأسہ، علی وسادۃ وقمت ألتدم أی أضرب صدری مع النّسائ وأضرب وجھی ﴾﴾﴿۳﴾
پیغمبر کی وفات ہوئی تو میں نے ان کا سر تکیے پر رکھا اور دوسری عورتوں کے ہمراہ اپنا سراور منہ پیٹنا شروع کیا .
اسی طرح شام میں بنو سفیان کی عورتوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر اپنا سینہ پیٹا .جیسا کہ ابن عبد ربہ، اندلسی لکھتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔الاتقان ۲: ۲۴۔۱۴۔۰۴
۲۔ حوالہ سابق
۳۔السیرۃ النبویۃ ۴: ۵۰۳
﴿﴿قالت فاطمۃ : فدخلت الیھنّ فماوجدت فیھنّ سفیانیۃ الاّ ملتدمۃ تبکی﴾﴾﴿۱﴾

۔شامیوں کا ایک سال تک حضرت عثمان(رض) کی عزاراری کروانا
سوال 150: کیا یہ درست ہے کہ حضرت عثما ن (رض) کی شہادت پر شامیوں نے ایک سال تک عزاداری اور گریہ کیا؟ اگر یہ درست ہے کہ ُمردے پر گریہ کرنا جائز نہیں ہے تو پھر حضرت معاویہ (رض) کے سامنے کیوں ایک سال تک عزاداری و گریہ ہوتا رہا اور انہوں نے روکاہی نہیںبلکہ ان کی حمایت بھی کی ؟جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے:
﴿﴿نصب معاویۃ القمیص علی منبر دمشق والأصابع معلقۃ فیہ والآلیٰ رجال من أھل الشّام لایأتون النسائ ، ولا یمسّون الغسل الاّ من حلم ،ولا ینامون علی فراش حتٰی
یقتلوا قتلۃ عثمان او نفنی أرواحھم وبکوہ، سنۃ ﴾﴾﴿۲﴾
حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عثمان(رض) کی قمیص اور ان کی انگلیاں منبر پر لٹکا دیں .اور کچھ شامیوں نے یہ قسم کھائی کہ جب تک عثمان(رض) کے قاتلوں سے انتقام نہ لے لیں یا خود نہ مارے جائیں تب تک نہ تو آرام سے سوئیں گے اور نہ ہی اپنی بیویوں کے پاس جائیں گے .اور پھر ایک سال تک ان پر گریہ کیا .
کیا وجہ ہے کہ ان میت پر رونے والوں پر کسی عالم دین نے کفر یا شرک کا فتوٰی نہیں لگایا جبکہ حضرت حسین (رض) پر رونے والوں کے کفر وشرک کے فتوے آئے دن جاری کئے جاتے ہیں ؟ کیا یہ اہل بیت پیغمبر سے بغض وعناد کی علامت نہیں تو او ر کیا ہے؟ !

۔ہمارے نزدیک عورت کا مقام
سوال 150: کیا ہمارے مذہب میں عورت کا مقام کتّے ، گدھے اور خنزیر کے برابرہے ؟ جیسا کہ ہماری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔العقد الفرید ۴: ۳۸۳
۲۔تاریخ الاسلام ﴿ الخلفائ﴾ : ۲۵۴
کتب میں درج ہے کہ نماز پڑھتے وقت سامنے کوئی چیز رکھ دو تاکہ اگر عورت ، گدھا یا اونٹ سامنے سے گذرے تو نماز کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑے:
﴿﴿قال : والظُّعن یمرّون بین یدیہ : المرأۃ والحمار والبعیر﴾﴾ ﴿۱﴾
حضرت ابو ہریرہ (رض) کہتے ہیں:
﴿﴿یقطع الصّلاۃ المرأۃ والحمار والکلب﴾﴾ ﴿۲﴾
نمازی کے سامنے سے عورت ، گدھے یا کتّے کے گذرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے.
امام احمد بن حنبل کہتے ہیں :
﴿﴿یقطع الصلاۃ الکلب الأسود والحمار والمرأۃ ﴾﴾﴿۳﴾
کالا کتّا ، گدھا اور عورت نماز کو باطل کردیتے ہیں.
عکرمہ کہتے ہیں:
﴿﴿یقطع الصّلاۃ الکلب والمرأۃ والخنزیر والحمار والیھودی والنصرانی والمجوسی ﴾﴾ ﴿۴﴾
کتّا ، عورت ، خنزیر ، گدھا ، یہودی ، نصرانی اور مجوسی نماز کو باطل کردیتے ہیں.
کیا اسلام میں عورت کا یہی مقام ہے کہ اسے کتّے ،خنزیر اور گدھے کے برابر قرار دیاجائے ؟ کیا یہ انسانی کرامت کی توہین نہیں ہے؟!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔السنن الکبرٰی ۳: ۶۶۱اور ۴: ۵۵۳؛ مصنّف ابن ابی شیبہ ۱: ۵۱۳
۲۔صحیح مسلم ۱: ۵۴۱؛ المحلّٰی ۴: ۸
۳۔المحلّیٰ ۴: ۱۱، مسئلہ یقطع صلاۃ المصلّی ، طبع دارالآفاق الجدیدۃ بیروت .
۴۔المحلّیٰ ۴: ۱۱؛ مصنّف ابن ابی شیبہ ۱: ۵۱۳
آخر میں استاد محترم سے یہ امید رکھتا ہوں کہ اگرچہ یہ سوالات آپ کے لئے انتہائی معمولی ہیں لیکن ان کا جواب عنایت فرمائیںگے تاکہ یوں نوجوان نسل کی خدمت ہو سکے اور انہیں ہر طرح کے فکری واعتقادی انحراف سے بچایا جا سکے
.انشائ اللہ
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،