کتاب شناسی | |||||
المراجعات
یہ کتاب ان خطوط کا مجموعہ ہے جو امامت اہلبیت ٪کے سلسلے میں سید عبد الحسین شرف الدین اور ”سلیم البشری ،اہل سنت کے بڑے عالم اور جامعہ الازہر کے رئیس“کے درمیان لکھے گئے تھے ۔اس بحث کے نتیجہ میں الازہر کے استاد (رئیس)نے مذہب تشیع کو حق مانا اور اعلان کیا کہ تشیع فروع اور اصول دین میں خاندان رسالت سے اماموں کی پیروی کرتے ہیں ۔ )حقیة الشیعہ الاثنی عشریة(شیعہ دوازدہ امامی کی حقیقت)
یہ کتاب ڈاکٹر اسعد وحید قاسم (جو کہ غزہ (فلسطین)سے تعلق رکھتے ہیں)کی شیعہ مذہب کے بارے میں کی گئی تحقیق ہے اور یہی کتاب سبب بنی کہ ڈاکٹر امامت اہلبیت ٪ کو مان لیں اور مذہب تشیع کا انتخاب کریں ۔¿ مو لف نے اہلسنت کے مصادر سے کتاب لکھی ہے اور شیعوں کی حقانیت کو ثابت کیا ہے ، ڈاکٹر اسعد کا” المنبر “ مجلہ کے ساتھ ایک انٹرویو ہے جس میں آپ فرماتے ہیں : ۱۔جب میں نے صحیح بخاری کی اسناد سے شیعوں کی حقانیت کو ثابت کیا تو وہابیوں نے میرے کفر کا فتویٰ دے دیا ۔ رسول اسلام (ص) کی رحلت کے بعد جو واقعات پیش آئے اس میں مذہب پنجم کی راہ و روش صحیح ہے میں اور میرے ساتھی کہا کرتے تھے :شیعہ اسلام کے لئے یہود و نصارا سے بھی زیادہ خطرناک ہیں لیکن میں حقیقت تک پہونچا۔ حدیث منزلت میں لفظ (بعدی)حضرت (ع)کے وصی اور خلافت بلا فصل کی تاکید ہے ۔ مذہب تشیع میں :عقائد صاف و روشن اور منطقی تر ،احکام سازگار اور اخلاقی ڈھانچا بہت بلند ہے ۔ رکبت السفینة(جب میں کشتی نجات پر سوار ہوگیا )
یہ کتاب ایک اردنی محقق ”مروان خلیفات “(فارغ التحصیل شریعت کالج اردن )(جس نے مذہب شیعہ کو اختیار کیا ہے )کی لکھی ہوئی ہے ۔شیعہ ہونے سے پہلے اس کی اپنے ساتھیوں سے گفت وگو و بحث ہوئی جس کی وجہ سے اس نے مذہب اہل بیت ٪ کے بارے میں تحقیق کرنا شروع کی۔ آخر میں مذہب شیعہ کی حقانیت اس پر واضح ہوگئی اور یہ کہ یہ مذہب اصل اسلام ہے ۔ مو ¿لف نے وہابیت کی رد ”رد ّوہابیت“اور اہل تسنن کے مدارس دینی کے نساب پر بھی انگلی اٹھائی ہے اس کا ماننا ہے کہ سنی مدارس ابھی اس بات کے محتاج ہی کہ اپنے مکتب کی درستی اور اس کے اصل اسلام سے نزدیک ہونے کو ثابت کریں ۔ الخدعہ (رحلتی من السنّةالی الشیعة)”تسنن سے تشیع کی طرف میرا سفر“
اس کتاب کا مولف ایک مصری صحافی ”صالح الوردانی“ہے،اس نے اس کتاب میں ان سختیوں کا ذکر کیا ہے ہے جو مذہب اہلبیت ٪ کو اختیار کرنے کے سلسلے میں پیش آئیں ۔اس نے اپنی دلیلوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ مذہب اہلبیت ٪وہی اسلام ہے جو خدا نے خلق کے لئے بھیجا ہے ۔ اس زمینہ میں اس کی دوسری کتابیں بھی ہیں کہ جن میں تاریخ ،عقائد ومذاہب اسلامی پر الگ گفتگو ہوئی ہے ۔ رسالة المنبر(مجلہ المنبر شمارہ ۲۲ ،ذی الحجہ سال ۲۲۴۱ھ)نے اس مولف سے ایک ملاقات کی اور انٹرویو لیا جس کے چندچیزیں مہم ذیل میں ذکر کررہے ہیں : ۔اہل تسنن کو ایک تحریک کی ضرورت ہے جس سے وہ صحابہ کے سلسلے کے توہم سے نجات حاصل کرسکیں ۔ ۔سنی فکر امت کے لئے عدالت ،صلح اورامنیت بخشنے میں ناکام ہے ۔ ۔سنی فکر میں تحقیق اور تفکر کے ذریعہ میں مذہب اہلبیت ٪ تک پہنچا نہ کہ شیعہ فکر سے ۔ ۔وہ جوان جو شیعہ ہوگئے ہیں ان کو گھر والوں نے باہر کردیا ہے اور وہ ایک روٹی کی تلاش میں ہیں تاکہ اپنی بھوک مٹاسکیں ۔ ۔تشیع نے تفکر اور دوسرے فکر کے ابزار کو محترم مانا ہے وہ باب اجتہاد کھلا رکھا ،حکومتوں کے ساتھ سازش نہیں کرتا جبکہ تسنن اس کے بالکل برعکس عمل کرتاہے ۔ ۔سقافت تشیع ترقی یافتہ ذہن ،فکر کی آزادی اور رفتار کی برتری کی وجہ سے اہل تسنن پر برتری رکھتا ہے ۔ لماذا اخترت مذھب اہل البیت ؟(میں نے مذہب اہل بیت کیوں اختیار کیا؟)
شیخ محمد مرعی انطاکی (شام کے قاضی القضات) اس کتاب کے مو لف ہیں ۔یہ شام (سوریا)کے سب سے مڑے سنی عالم دین اور مذہب شافعی کے ماننے والے تھے اور انھوں نے مذہب اہلبیت ٪ کو اختیار کیا ۔ مطالعہ اور تحقیق کے بعد وہ شیعہ ہوئے کیوں کہ وہ اسی نتیجہ پر پہونچے کہ اہلبیت ٪ اسلام حقیقی کے پہچنوانے والے ہیں اور احکام اسلام کے صحیح مفسر ہیں ۔ الحقیقة الضائعة (کھوئی ہوئی حقیقت)
شیخ معتصم سید احمد ،ایک بزرگ عالم دین ،اس کتاب کے مولف ہیں ۔تحقیقات اور مطالعات کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ تنہا مکتب اہلبیت کا عقیدہ حق ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ مذہب تشیع اختیار کرنے سے پہلے وہ سرگردان اور گم ہوکرغلط راستے پر چل رہے تھے اور اب جب کہ مذہب اہلبیت اختیار کرلیا ہے اور اس پر عقیدہ رکھتے ہیں تو در اصل ساحل امن پر پہنچ گئے ہیں ۔ شبھائے پیشاور )پیشاور کی راتیں )peshawar`sNights
پیشاور (جو پاکستان کا ایک شہر ہے)میں چار سنی علماءاور ایک شیعہ عالم دین سید محمد موسوی شیرازی (سلطان الواعظین)کے درمیان بحث ومناظرہ کے کئی جلسے ہوئے اخباروں نے ان بحثوں کو چھاپا جس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ شیعہ ہوئے ۔سلطان الواعظین کی ایک اور کتاب (فرق ناجیہ )نام کی ہے جس میں ان کے اور چند سنی طلبہ کے بیچ مناظرہ اور ان سنی طلبہ کے شیعہ ہونے اس مناظرہ کی تمام تفصیل کو جمع کیا ہے ۔ المواجھة مع رسول اللہ (ص)وآلہ)پیامبر اور ان کی خاندان سے مقابلہ)
خط اہلبیت اور بنی امیہ کے درمیان موجود فاصلہ اور فرق جو حکومت حاصل کرنے کے لئے تھااس کتاب کا موضوع ہے جو کہ ایک اردنی وکیل احمد حسین یعقوب نے لکھی ہے اور یہی چیز اس کے شیعہ ہونے کا سبب بھی بنی ۔تشیع اور تسنن کے موضوع پر ان کی کئی دوسری کتابیں بھی ہیں ۔ ”المنبر “ جریدہ کو دئے گئے ایک انٹرویو میں اپنے شیعہ ہونے کی داستان سنائی ہے (شمارہ ۰۱ ،ذی الحجہ۱۲۴۱ھ) کون عاقل اور متفکر ہے جو آل محمد ٪کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرے ؟ میں نے اپنے خدا سے عہد کیا ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک اہلبیت کی حقانیت کا دفاع کروں گا ۔ کیا مسلمان یقین کریں گے کہ پیغمبر نے بتوں کے لئے قربانی کی اور اس قربانی کا گوشت کھایا ؟یہ بات بخاری نے اپنی (صحیح )میں لکھی ہے ۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شیعہ ہوا وہوس سے دور خدا کے حکم سے اور احکام شرعی کے اساس پر اہل بیت ٪ کی پیروی کرتے ہیں ۔ لقد شیعنی الحسین)امام حسین نے مجھے شیعہ کردیا )
یہ کتاب مغرب کے ایک صحافی ادریس الحسینی نے لکھی ہے جس میں مذہب اہلبیت ٪ کو بحث کا موضوع بنا کر اس کی حقانیت کو ثابت کرتے ہوئے اپنی شیعیت کا اعلان کیا ہے اور اس خاندان کے دشمنوں کی بدکاریوں کو بڑی جرائت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔(المنبر)کو دئے گئے انٹرویو میں قابل توجہ نکات کی طرف اشارہ کیا ہے (شمارہ ۳، جمادی الاول ۱۲۴۱ھ) مجھے آزادی بیان دیجئے ،پوری دنیا کے لوگوں کو شیعہ کردوں گا ۔ تشیع روح کی معراج اور مستقبل کی طرف توجہ دلانے والی ہے ۔ جی ہاں !امام حسین -نے مجھے شیعہ کیا !لیکن میں اب بھی سنی ہوں اس فرق کے ساتھ کہ اب میں اصل سنت رسول کی پیروی کرنے والا ہوں ۔ السلفیة بین اہل السنة والامامیہ
محمد الکثیری ،جو ایک مغربی محقق ہے جس نے مذہب اہلبیت ٪ کو اختیار کیا ،اس نے سلفی (وہابیوں)کی پیدائش اور اسلام کو پہنچنے والے نقصانات کو اس کتاب میں بیان کیا ہے ۔وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ سلفی (وہابیت )شیعہ سے پہلے سنیوں کی نظر میں باطل ہے ۔ فلسطینی لیڈر محمد شحادہ سے انٹرویو
محمد شحادہ فلسطین جہاد کے ایک لیڈر ،نے مذہب اہلبیت ٪ کو سب سے برتر مان کر اپنا یا (اختیار کیا)اور تمام نفرتوںاور کینوں کے باوجود ،ذریعہ ¿ اطلاععات کو انٹرویو دئے اور اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا اور من جملہ سعودی عرب کے جریدہ (المجلّہ ) میں بھی یہ اعلان کیا ۔المنبر “نے بھی آپ سے ایک انٹرویو لیا ااس انٹرویو کے درمیان محمد شحاد نے ایک نکتہ بیان کیا جو ہم ذیل میں ذکر کررہے ہیں: ۔میں اس لئے شیعہ ہوا کیوں کہ علی - کو مظلوم پایا۔ ۔تشیع سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اتنی مدت سنی رہا ۔ میں امید کرتا ہوں کہ میں (پھر میں ہدایت پاگیا )کہنے والاآخری فرد نہ ہوں۔ فلسطین میں تشیع کے فروغ کے لئے ہم کوشش کریں گے اور خدا سے اس کام میں کامیابی کے خواہاں ہیں ۔ اپنے مولا امام زمانہ (عج)کی خدمت میں فریاد کرتا ہوں کہ اے مہدی !ہماری مدد کو آئیں کہ وقت آگیا ہے ۔ دفاع من وحی الشریعة ضمن السنة والشیعة
(شریعت کا دفاع اہل تسنن ااور اہل تشیع کی نظر میں)یہ کتاب ایک سنی دانشمند شیخ حسین الرجاءکی کاوش ہے جو سوریا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس میں مو ¿ لف نے ان تمام چیزوں کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے وہ شیعہ ہوئے ۔ وہ شہر ”حطلہ“کے ریش سفید اور سنی وقم کے سربراہ تھے لہذا لوگوں نے بھی آ پ کی پیروی کی اور شہر حطلہ کے کافی لوگ شیعہ ہوگئے اور کشتی نجات پر سووار ہوگئے ۔ ”المنبر“نے آپ سے ایک انٹرویو کیا اور اس میں ان کے شیعہ ہونے کی داستان کو بیان کیا ،ہم ذیل میں چند نکات ذکرکرہے ہیں: ۔چار سال کے مطالعہ ااور تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچاکہ حق خاندان رسالت کے پا س ہے ۔ ۔ہمارے قریہ کا ایک شخص شیعہ ہوگیا میں اپنے خیال میں اس کی ہدایت کرنے گیا تاکہ وہ اپنے سابق (پہلے)مذہب کی طرف لوٹ آئے لیکن اس نے مجھے حقیق ہدایت کردی ۔ ۔جب مذہب شیعہ کی حقانیت مجھ پر آشکار ہوگئی تو میں نے طے کیا کہ چاہے جان چلی جائے لیکن شیعیت کو اختیار کروں گا ۔ ۔شیعہ ہونے کے بعد اہل سنت کے ایک بزرگ سے مناظرہ کیا وہ جب مجھے قانع نہ کرسکا تو غصہ کے عالم میں اس نے اپنا عمامہ اتارا اور پھاڑ کر پھینک دیا ۔ ۔تشیع ہمیشہ مظلوم رہی اور شیعہ تاریخ کے مظلوم اافراد ہیں ۔ شیخ شحاة (مصر کے ایک عالم دین) سے انٹرویو
شیخ حسن شحاة ”الازھر یونیورسٹی“کے ایک دانشمند نے مذہب تشیع اختیار کرلیا ا س کی وجہ سے مصر کے سنی علماءخصوصاً قاھرہ کے علماءمیں تنش پیدا ہوئی ،اخبارات نے اس پر بہت لکھا اور لوگوں کو ان کے خلاف ورغلایا ،آخر میں حکومت نے صحابہ کی توہین کے الزام میں ان کو جیل میں ڈال دیا کیوں کہ شیخ حسن شحاة نے جمعہ کے خطبہ میں ان حقائق کی طرف اشارہ کیا جو ان پر روشن ہوگئے تھے ۔(رسالہ المنبر شمارہ ۱۱، محرم ۲۲۴۱ھ )نے ان سے ایک انٹرویو لیا ،ہم اس میں سے چند نکات یہاں ذکر کررہے ہیں : ۔امیر المومنین حضرت علی -سے محبت کا اعلان میری تمام دارائی کے عوض میںتمام ہوا لیکن میرے پاس ان حضرت کو دینے کے لئے یہی چیز تھی ۔ ۔مصر میں عاشور کے دن عید کی خوشی منائی جاتی ہے میرے تمام وجود نے فریاد کی کس طرح فرزند رسول کی شہادت پر تم لوگ تالی بجارہے ہواور خوش ہورہے ہو ۔یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ معاویہ ایک سرکش گروہ کا سردار تھا اس حال میں کوئی اس کو (معاوویہ کو)سرور،سردار،آقا اور جس سے خدا راضی ہو کیسے کہہ سکتا ہے ؟ حاشیہ
۱۔ صحیح بخاری ،ج۱ص۱۲۸،حدیث ۳۲۸ ، کتاب تیمم صحیح مسلم : ج۲ص ۹ حدیث ۵ کتاب مساجد و موانع الصلاۃ ،سنن ترمذی ، ج۲ ،ص ۱۳۱ ، باب ۳۶ حدیث ۳۱۷ شیخ صدوق من لا یحضرہ الفقیہ ،ج۱،ص۱۵۵ باب ۳۸حدیث ۱شیخ حر عاملی : وسائل الشیعہ ج۲،۹۶۹:۹۷، باب ۷،حدیث ۳ جواز تشیع۲۔ایک روایت میں رسول اسلام (ص)نے فرمایا :میرا بیٹا حسین (ع)کربلا نام کی جگہ پر دفن کیا جائے گا زمین کا وہ حصہ ”قبّة الاسلام “یعنی اسلام کی ڈھال ہے اور خدا نے نوح کے ساتھ ی مومنوں کو ہیں توفان سے نجات دی تھی ۔ اسی طرح امام باقر (ع)نے ارشاد فرمایا : غاضریہ(کربلا کا ایک اور نام)وہ جگہ ہے جہاں موسیٰ بن عمران نے خداسے کلام کیا اور نوح نے خداسے مناجات کی اور یہسرزمین خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے ۔ اور اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا ”اولیا“اور اپنے پیغمبر کی اولاد کی قبریں یہاں قرار نہ دیتا (دوسو پیغمبر اور دو سو وصی(جانشین پیغمبر)کربلا سے اپنے معبود سے ملاقات کے لئے گئے (انتقال کیا) پس غاضریہ میں ہماری قبروں کی زیارت کرو ،خدا نے کعبہ کو امن و امان کی جگہ قرار دینے سے ۲۴ ہزار سال پہلے امن و مبارک حرم قرار دیا ،کربلا کی زمین اور فرات کا پانی وہ پہلی زمین اور پانی ہیں جنھیں خدا نے مقدس اور مبارک بنایا (کامل الزیارات ابن قولویہ ص۴۴۴،ب۸۸ فضیلت کربلا) علاءابن ابی عاثہ کہتے یہں :راس الحالوت نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے : جب بھی کربلا پہونچتا تھا اپنی سواری کو تیز کردیتا تھا اور تیزی سے وہاں سے نکل جاتا تھا،میں نے اس کی وجہ پوچھی؟ جواب دیا: ہم اپنی باتوں میں کہا کرتے تھے کہ ایک پیامبر زادہ اس سرزمین پر مارا جائے گا اور میں اس ڈر سے کہ وہی مقتول ہوں اس جگہ سے تیزی سے گذر جاتاتھا ۔ جس وقت امام حسین (ع) شہید ہوئے ہم نے کہا کہ : یہ وہی واقعہ ہے جس کی باتیں ہوتی تھیں میرے باپ نے کہا: اس واقعہ کے بعد میں کربلا سے جب بھی گذرتا بہت آہستہ حرکت کرتا (چلتا)(تاریخ طبری ج۵ ص۳۹۳ حوادث سال۶۰ہجری ۔الکامل فی التاریخ ج۴ ص۰۹ حوادث سال۶۱ہجری) مصباح المتہجد ص۷۳۴میں آیا ہے: معاویہ ابن عمار نے روایت کی ہے کہ امام صادق (ع) کے پاس زرد رنگ کا ایک کپڑاتھا کہ جس میں کچھ مقدار میں امام حسین (ع)کی تربت موجود تھی جب نماز کا وقت ہوتا تو وہ تربت کو اپنے سجادہ پر رکھتے اور اس پر سجدہ کرتے اور کہتے :”السجود علی تربة الحسین (ع) یفرق الحجب السبع“ ۔ ۴۔کامل الزیارات ،ص ۲۷۴ ۵۔اہل سنت کے علماءنے شیعہ کی تعریف (معانی)یوں بیان کی ہیں :”شیعہ وہ گروہ ہے جو فقط علی (کرم اللہ وجہہ )کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی محبت کو اپنے دل میں رکھتے ہیں ،ان کی امامت اور خلافت کو ”نص“اور ”وصیت“مانتے ہیں ،وہ معتقد ہیں کہ امامت ان کی اولاد پر منحصر ہے اور اگر ان کے ہاتھ سے نکل جائے تو بے شک ظلم و ستم کی وجہ سے ایسا ہوا ہے جو دوسروں نے آپ حضرات پر کیا ہے یا اس امام کی تقیہ کی وجہ سے ہے“(الملل والنحل ،شہرستانی ج۱ ص ۶۴۱۔۷۴۱،فصل ۶) (اشیاع )شیعہ کی جمع ہے ”شیعہ“کسی ایک فرد یا گروہ کے دوستوں اور مددگاروں کو کہا جاتا ہے لیکن صدر اسلام میں یہ کلمہ علی اور ان کے گھر والوں کے دوستوں کے لئے استعمال کیا جانے لگا ۔ شیعہ عامہ کے مقابلہ میں بھی ہےں اس لئے ”خاصہ “کہلاتے ہیں ۔ خاصہ نزدیک کے رشتہ داروں کے معنی میں ہے جو ”تغلیب “کی وجہ سے علی (ع) کے چاہنے والوں کو کہا گیا ہے ۔ شیعہ ایک پرانا نام ہے ۔ مرحوم کاشف الغطاءکہتے ہیں : تشیع اسلام کے ساتھ پنپا ہے اور اس مدعا پر شاہد وہ روایات ہیں جو اہل سنت کے علماءنے نقل کی ہیں اور ان کے موثق ہونے میں کوئی شک نہیں اور کسی طرح کا کوئی جھوٹ اس میں داخل نہیں ہوسکتا ان میں سے ایک وہ تفسیر ہے جو ”سیوطی“نے آیہ ¿”اولئک ھم خیر البریة وہی لوگ بہترین خلق ہیں “کے ذیل میں لکھی ہے ۔ وہ کہتے ہیں :ابن عساکر نے جابر ابن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے کہا :ہم پیغمبر کی خدمت میں تھے علی (ع) تشریف لائے پیامبر نے فرمایا: اس کی قسم کہ جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہ شخص اور اس کے شیعہ روز قیامت سچے ہیں ،رسول اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اس قول کے بعد یہ آیت نازل ہوئی (الدرالمنثور فی تفسیر کتاب اللہ الماثور) ابن ہشام لکھتے ہیں :امت عرب سقیفہ کے دن شیعہ اور سنی کے دو گروہ میں بٹ گئی ۔ محمد ابو زہرہ اس مسئلہ میں کہتے ہیں :شیعہ اسلام کا سب قدیم سیاسی اسلامی مذہب ہے جو عثمان کی حکومت کے آخری حصہ میں ظاہر ہوا اور خلافت علی (ع) کے زمانہ میں رشد حاصل کیا ،کیوں کہ علی لوگوں سے جتنے نزدیک ہوتے لوگوں کے دلوں میں ان کی دینداری ،علم و دانش ااور ہیبت اور زیادہ ہوجاتی (تاریخ المذاہب الاسلامیہ) ابن ابی الحدید معتزلی نے بھی شرح نہج البلاغہ نے لکھا ہے :ایک شعی معاویہ کے زمانے میں اپنے آپ کو کتابی (یہودی و مسیحی )کہلانے پر راضی تھا لیکن شیعہ نہ کہا،تشیع کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ لوگ فضائل اہل بیت ٪ ،ان کے علم و دانش ک یپیروی ،بدعت گذاروں سے دوری اور بہترین اخلاق سے آراستہ پاک طینت رکھنے والوں کی پیروی کرتے ہیں۔ (شیخ محمد خلیل الدین : تاریخ الفرق الاسلامیہ ص۸۰۱۔۹۰۱) لفظ سنّت روش ،طریقت کے معنی میں ہے لیکن فرقہ شناسوں کے درمیان ایک دوسرا معنی رکھتا ہے ۔ فقہ اور حدیث کے اعتبار سے ”فعل ،قوقل اوراستقرار(خاموشی) پیامبرپر اطلاق ہوتا ہے ۔ سنت شیعہ کے مقابلہ میں قرار دی گئی :اہ؛ سنت وجماعت خاصہ کے مقابلہ میں ہے ۔ ابن تیمیہ کے نزدیک سنت یعنی عثمانی اور علی ؑ سے محبت اور ابو بکر و عمر کو ان دونوں پر مقدم کرنا ۔فرق و مذاہب کی تعداد زیادہ ہونے سے بعض کا خیال یہ ہے ”سنی“ان کو کہا جاتا ہے جو شیخین (ابوبکر و عمر) سے محبت کریں اور ان دو کی پیروی کریں (تاریخ الفرق الاسلامیہ ص۴۴۔۵۴) ۶۔سورہ حج ۲۲ آیت ۳۲ ۷۔ سورہ حج ۲۲ آیت ۳۲ ۸۔سورہ اسراء ۱۷ آیت ۲۶۔۲۷ ۹۔ابن خلدون ۔عبدالرحمن بن خلدون حضرمی،۷۳۲ ھجری میں تیونس میں پیدا ہوا ۔اصل میں اشبیلیہ(سیویل) اندلس(اسپین)کا تھا ۔ابن الخطیب نے اپنی کتاب "الاحاطۃ فی اخبار غرناطہ " میں اس طرح لکھا ہے کہ :"وہ (ابن خلدون)مغرب کا رہنے والا ہے (بردۃ)کی اتنی بھترین شرح کی ہے کہ وہ اس کی حافظہ کی سرشاری اور ادراک کی تنوع کی دلیل بن گیں ہے۔ابن رشد کی بھت سی کتابوں کا خلاصہ کیا اور سلطان ابو سالم کے واسطہ فلسفہ اور دیگر کتابوں پر تعلیقہ لگایا۔ سن ۸۰۸ ھجری میں مصر میں وفات کی۔اس کی معروفترین کتاب "تاریخ ابن خلدون " ہے۔ ۱۰۔تاریخ ابن خلدون ج۱،ص۳۵۳ ۱۱۔ سورہ حج ۲۲ آیت ۳۲ (علی ابن احمد معروف بہ ”ابن حزم ظاہری“)کی الفصل فی الملل والامواءوالنحل ،(شہرستانی الملل والنحل)۱۲۔ حسن ابن موسیٰ نوبختی کی” فرق الشیعہ“ محمد خلیل الزبن کی ”تاریخ الفرق الاسلامیہ“ امام ترتیب کے ساتھ علی ابن ابی طالب - ،جوانان جنت کے سردار اور رسول کے نواسے حسن و حسین ٭(علی (ع)کے بیٹے) اور حسین - کے ۹ بیٹے ۱۳۔ اکثر فرق اسلامی کے نزدیک متواتر روایات نے امات کو قریش سے ۱۲افراد کو مانا ہے جو اس طرح ہیں علی ابن ابی طالب - ،حسن ابن علی -، حسین ابن علی -،علی ابن حسین -، محمد ابن علی - ، جعفر ابن محمد -، موسیٰ ابن جعفر -، علی ابن موسیٰ -، محمد ابن علی - ، علی ابن محمد -،حسن ابن علی - ،حجة ابن الحسن - جن کا لقب(صاحب الزمان اور مہدی ہے ) ۱۴۔صحیح بخاری ،ج۱،ص۳،حدیث ۱ ،باب ۱،کتاب (بدء الوحی الی رسول اللہ(ص)؛تفسیر الکبیر ،فخر رازی ،ج۴،ص۵،مساٗلہ ۴ تفسیر آیت ۱۱۲ سورہ بقرہ تھذیب الاحکام ،ج۱ ص ۸۳ ۱۵۔(کشف الارتیاب ص۱۳۹)(خلاصۃ الکلام ،ص۲۳۰ سے نقل کی گئی ) ۱۶۔سورہ ق ایت ۲۲ ۱۷۔سورہ بقرہ ۲،آیت ۱۵۴ ۱۸۔سورہ ال عمران ۳،آیت ۱۶۹ ۱۹۔صحیح بخاری،ج۱،ص ۴۶۲ باب ۸۵ حدیث ۱۳۰۴ بخاری نے اس روایت کو اس طرح بھی نقل کیا ہے : پیامبر” قلیت بدر“سے گذرے اور مشرکین کی لاشوں (کشتوں )سے کہا: تمہارے خداﺅں جو وعدہ کیا تھا کیا اسے سچا مانا ؟ ساتھیوں نے کہا :”مردوں سے بات کررہے ہیں ؟“ پیامبر نے فرمایا: تم لوگ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو لیکن وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ ۲۰۔احیاء العلوم ج۴،ص ۴۹۳،باب ۷ ۲۱۔ احیاء العلوم ج۴،ص ۴۹۳،باب ۷ ۲۲۔صحیح بخاری(صحیح بخاری ج۱ ص۴۶۲ باب ۸۵ حدیث ۱۳۰۴) ۲۳۔کشف الارتیاب ،ص ۱۳۹ ۲۴۔صحابی اس کو کہتے ہیں جس نے رسول (ص) پر ایمان رکھتے ہوے آپ سے ملاقات کی ہو اور مسلمان مرا ہو۔اگر چہ اس بیچ کے زمانہ وہ مرتد ہو گیا ہو(الرعایۃ فی علم الدرایۃ،ص ۳۳۹) ۲۵۔سنن کبری،بیھقی؛المصنف،ابن ابی شیبہ،ج۷،ص۴۸۱اور سیرہ،احمد بن زینی دحلان۔ ۲۶۔( الدرالسنیۃ ص ۱۸)یا رسول اللہ استسق لامتک فانھم ھلکوا ۲۷۔ سمہودی خلاصۃ الکلام ص۱۷چاپ مصر ۱۳۰۵قمری اور طبرانی نے معجم الکبیر ج۹ ، ص۱۸ ) ۲۸۔خلاصۃ الکلام ص۱۷ ۲۹۔خلاصۃ الکلام ص۱۷ ۳۰۔ سنن دارمی جلد ۱ ص ۴۳ ،۴۴ ۲۵۔ صحیح بخاری ج۱ ص۳ اس طرح تفسیر کبیر ج۴ ص۵،تفسیر ایۃ۱۱۲ سورہ بقرہ ) ۲۶۔ صحیح مسلم ج۲،ص۶۳ ،سنن نسائی ج۳، ص۷۶ ) ۲۷۔ سنن ابن ماجہ ج۱،ص۵۰۰،احیاء علوم الدین ج۴،ص۴۹۰ ۲۸۔ سنن ابن ماجہ ج۱، ص۵۰۱۔ ۲۹۔ صحیح مسلم ج۲، ص۳۶۵۔ منتخب کنز العمال (حاشیہ سند احمد ج۲، ص ۸۹ میں عبارت ’’من المؤمنین والمؤمنات" ۳۰۔( علی بن عمر دار قطنی سنن ج،۲ص ۲۷۸۔ احیاء العلوم ج۴ص، ۹۱۔۴۹۔ سنن کبریٰ ج۵، ص ۲۵۴ ۳۱۔.(احیاء العلوم ج۴، ص۴۹۱ ۔۔منتخب کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج۲، ص۳۹۲) ۳۲۔( کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج۲، ص ۲۹۳ ۳۳۔۔۔(کنز العمال حاشیہ مسند احمد ج۲، ص۳۹۲) ۳۴۔کنزالعمال حاشیہ مسند احمد ج۲، ص۳۹۲) ۳۵:۔احیاء علوم الدین ج۴،ص،۴۹۰۔۴۹۱ 12۔سنن ابن ماجہ ج۱،ص۵۰۰،باب ۴۷،حدیث ۱۵۶۹ ۳۵۔محمد بن اسماعیل (بخاری)،کے بارے میں حافظ عقیلی کہتے ہیں جب بخاری نے اپنی کتاب "صحیح"لکھ لی تو اس کو احمد بن حمبل ،یحیی بن معین ،علی بن المدینی و غیرہ کو دکھایا،سب نے اس کی تعریف کی اور چار موارد کے علاوہ اس کو صحیح جانا۔ نساءی نے کتاب بخاری کے بارے میں کہا ہے کہ :تمام کتابوں میں محمد بن اسماعیل بخاری کی کتاب سب سے بھتر ہے۔ حاکم نیشاپوری کھتے ہیں:خدا رحمت کرے محمد بن اسماعیل پر،جس نے اصول(حدیث)کو جمع کیااور دوسروں کے لیے سنگ بنیادرکھ دی ،اس کے بعد جس نے بھی اس میدان میں قدم رکھا ہے یقیناً اس نے صحیح بخاری سے مدد حاصل کی ہے۔ ۳۶۔مسلم بن حجاج قشیری۔حافظ،ابو علی نیشاپوری صحیح کے بارے میں کہتے ہیں"اسمان کے نیچے علم حدیث میں صحیح مسلم سے بہتر کتاب موجود نہیں ہے۔ ۳۷۔احمد ابن شعیب نساءی۔ابن رشید فھری نساءی کی کتاب کے بارے میں کہتے ہیں :"نساءی کی کتاب 'سنن'میں بدیع ترین کتاب ہے۔نساءی کی کتاب میں مسلم اور بخاری دونوں کا تریقہ اخیتار کیا گیا اور کتاب العلل سے بھی مدد حاصل کی ہے۔ ۳۸۔ جب حاجی حج تمتع کا عمرہ انجام دے اور احرام سے باہر آجائے تو پھر جب تک وہ دو بارہ حج تمتع کا احرم نہ باندھے اس وقت تک وہ تمام مباح کاموں کو انجام دے سکتا ہے جو حالت احرام پہ اس پر حرام تھے ۔ ۳۹۔جاحظ البیان و التبیان ج۲ ، ص۲۲۳ ۔تفسیر قرطبی ج۲، ص۹۱۔۳۹۰ ۔تفسیر کبیر ج۲، ص۱۶۔۲۰۲ ۔۲۰۱ ۴۰۔تاریخ ابن خلکان ،ج۲ ص۳۵۹ قال رسول اللہ (ص): ”حلال محمد حلال الی یوم القیامة وحرامہ حرام الی یوم القیامة“۴۱۔ سنن ابن داؤد سجستاتی ،ج۱،ص۶ باب دو حدیث ۱۲۔کافی ج۱، ص۵ حدیث ۱۹ ۔ وسائل الشیعہ ج۱۸، ص۱۲۴ ۴۲۔(الغدیر ج۶ ،ص۲۳۶ ۔۲۲۹) ۴۳۔ آج مسلمانوں کی تعداد تقریباً دو عرب ہے کہ ان میں سے آدھے شیعہ ہیں (انور سادات صدر جہور مصر نے اسلامی کنفرنس جو قاہرہ میں منعقد ہوئی تھی میں کہا تھا کہ (سروے)کے مطابق شیعہ مسلمان جمیعت کے آدھے کو تشکیل دیتے ہیں ۴۴۔(بحار انوار ج۱۰، ص۱۱۱) ۴۵۔( مسند احمد بن حنبل ج۳ ،ص۱۷۔۲۶۔۹ ۵۔ج،۴ ص۳۶۸ ۴۶۔ محمد ابن مسلم نے امام باقر -سے جابر ابن عبد اللہ سے نقل کرتے ہیں :مسلمان رسول خدا (ص) کے ساتھ جنگ پر گئے اور آپ نے ان کے لئے (متعہ )حلال کیا اور اس کوحرام نہیں کیاحضرت علی -کہا کرتے تھے : اگر خطاب کے بیٹے (عمر)حکومت حاصل کرنے میں مجھ سے آگے نہ بڑھا ہوتا تو شقی کے علاوہ کوئی زنا نہ کرتا۔(بحار الانوار ج۰۰۱، ص۴۱۳ ، باب ۰۱، حدیث ۵۱۔تفسیر مجمع البیان ج۵، ص۹ صحیح سند کے ساتھ ( بحار انوار ج،۱۰۰ص۳۱۴۔ تفسیرمجمع البیان ج۵،ص۹ ) ۴۷۔ تفسیر قرطبی ج۲، ص ۳۸۵ حدیث۱۰۲۶۔روایت کے آگے اس طرح ہے ”آیہ متعہ قرآن میں آئی ہے اور پیامبر نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے لیکن اس کو نسخ کرنے والی آیت نازل نہیںہوئی اور رسول خدا (ص)نے بھی اپنی زندگی میں ہمیں اس سے نہیں منع کیا (آپ کے بعد)اس شخص نے جو چاہا کہا “ ۴۸۔ صحیح بخاری ج۵،ص۱۹۵۳ ۔ صحیح مسلم ،ج۳ص۱۵۳۔۱۹۲۔سنن کبریٰ ۲۰۰۔ الدرمنثور ج۲،ص۳۰۷ ۴۹۔ مسند احمد ج۲ ص۹۵ ۵۰۔ المحاضرات ج۲،ص۹۴ ۵۱۔ صحیح مسلم ج۳ ،ص۱۹۸ ۔۱۹۷ ،سنن الکبریٰ ،ج۷ ،ص۲۰۵ ۵۲۔ فتح الباری ،ج۹ ص۱۴۱ |