حرم اولیاء کی تزیین
 
صابر: سلام علیکم
باقر: علیکم السلام و رحمۃ اللہ
باقر: یہاں پر اپنے ایک بھائی سے ملنے آیا ہوں ۔
صابر: تو پھر مجھے یہ افتخار دیں کہ کچھ در آپ کی خدمت رہوں اور سر فراز ہو سکوں۔
باقر: میں بہت زیادہ مصروف ہوں اور بہت اہم کام صرف ’’صلہ رحم ‘‘اور اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لئے چھوڑ کر آیا ہوں اس لئے کہ وقت بہت کم ہے ۔ آپ سے چاہتا ہوں کہ مجھے معاف فرمائیں ۔
صابر: نا ممکن ہے ۔دو دوست ۱۰ سال کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات کریں اور ایک گنٹھہ بھی ساتھ بیٹھ کر گفتگو نہ کریں ۔دوسرے طرف میں دینی بھائی ہونے کے لحاظ سے آپ پر حق رکھتا ہوں اور یہ کہ میری ایک مؤمن بھائی کے ساتھ شیعہ اور سنی ی بحث چل رہی ہے اور مجھے آپ پر اعتماد ہے اس لئے چاہتا ہوں کہ آپ سے اس بارے میں گفتگو کروں تا کہ حقیقت میرے لئے روشن ہوجائے ۔
باقر : ٹھیک ہے ،میں تیار ہوں ،
پھر دونوں صابر کے گھر کی طرف چل دئے اور جب دونوں دوستوں کے درمیان کچھ دیر گفتگو ہوچکی تو باقر نے صابر سے پوچھا: آپ کی اس برادر دینی سے کس مسئلہ پر بات ہورہی ہے ؟
صابر: پیغمبرو، اماموں ،علماء اور صالحین وغیرہ کی قبروں کی سونے ،چاندی اور دوسرے چیزوں سے زینت دینے کے بارے میں ۔
باقر: اس کام میں کیا پریشانی ہے ؟
صابر : کیا یہ کام حرام ہونا چاہیے؟
باقر: کس وجہ سے حرام ہونا چاہیئے ؟
صابر: کیا مردہ کو اس زینت سے کوئی فائدہ ملتا ہے ۔
باقر: نہیں
صابر: اس بنا پر یہ کام اسراف ہے اور خدا کا اس بارے میں ارشاد ہے کہ:(۔۔۔ولا تبنذر تبذیراً ان المبذرین کانوا اخوان الشیٰطین۔۔۔ (سورہ اسرء آیۃ26۔27)اور اسراف سے کام نہ لینا۔اسراف کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں ۔۔۔۔)
باقر: کعبہ کے زیورات ( اور وہ سونا چاندی جو اس پر لگا ہوا ہے ) کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
صابر: بولنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ، اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ۔
باقر: جا ہلیت کے زمانے سے آج تک کثیر تعداد میں سونے اور چاندی کے زیورات ’’کعبہ‘‘ پر چڑ ھتے رہے ہیں ۔’’ابن خلدوں ‘‘(۹)نے ’’مقدمہ ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’امت جہالت کے زمانے سے کعبہ کو عظیم مانتی تھی اور کسریٰ اور دیگر بادشاہی کعبہ کے لئے کثیر ہدیہ بھیجا کرتے تھے دو سونے کہ ہرن اور تلواریں جو جناب عبد المطلب کو ’’چاہ زم زم‘‘ گھودتے ہوئے ملے تھے جو کہ بہت مشہور قصہ ہے ،جس وقت رسول خداؐ نے مکہ کو فتح کیا اس وقت حرم میں موجود ’’کویں ‘‘میں آپ کو ۲۰ لاکھ سونے کے دینار ملے تھے (جو کہ کعبہ کو ہدیہ کئے گئے تھے )علی ابن ابی طالب (ع) نے رسول خدا(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا کہ ( یا رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) ، اس دولت کا استعمال کفار اور مشرکین سے جنگ کے لئے کتنا اچھا ہوگا ،)لیکن پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ایس نہیں کیا ۔ ابوبکر نے بھی ایسا کیا اور ان کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ (ابن خلدون اسی طرح آگے کہتا ہے ) ’’ابو وائل نے شیبہ بن عثمان سے روایت کی ہے کہ شیبہ نے کہا : عمر کے پاس تھا ، عمر نے کہا کہ چھاہتا ہوں کہ خانہ کعبہ میں موجود تمام سونا اور چاندی مسلمانوں میں تقسیم کردوں ۔
میں نے کہا : کای کرنے جارہے ہو ؟ (یعنی تم یہ کرنے کا حق نہیں رکھتا )
عمر نے کہا : کیوں؟
میں نے جواب دیا : تم سے پہلے ( پیغمبر اور ابو بکر ) جو مسلمانوں کے حاکم تھے انھوں نے یہ کام نہیں کیا ۔
عمر نے کہا : پھر مجھے ان کی پیروی کرنی چاہیئے(10)
اس حال میں صابر میرے بھائی تھے تم سے میں ایک سؤال کرتا ہوں کیا کعبہ اس سونے اور چاندی استعمال کرتا تھا یا خدا وند (جو ان چیزوں سے پاک ہے ) اس سے کوئی فائدہ اٹھاتا تھا ،
صابر: ان تمام حالات میں پیغمبر (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اس عظیم دولت کو ہاتھ نہیں لگایا جب کہ اس زمانے میں اسلام کو اس دولت کی ضرورت تھی تا کہ اسلام دنیا میں پھیل سکے ۔
شاید یہ سوال ہو کہ آخر پیغمبر(صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ضرورت کے باوجود ایک بھی درہم یا دینار اس دولت سے نہیں کیا ۔
جواب واضع ہے کہ اس عظیم دولت کی کعبہ میں جوجودگی اس کی عظمت اور بزرگی کو لوگوں کی نظر میں بلند کرتی تھی ،البتہ یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ خدا کے نزدیک کعبہ کی عظمت اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ جو ہم تصور بھی نہیں کرسکتے اور اس زینت کے نہ ہونے سے کعبہ کی عظمت میں کوئی کمی نہیںآئے گی ۔
لہٰذا اسی طرح سونے کے گنبد ، دروازہ وغیرہ جو اولیاء خدا کی قبروں پر بنائے جاتے ہیں جیسے حرم حضرت علی(ع) ، حرم حضرت امام حسین (ع) حرم حضرت امام رضا (ع) وغیرہ بھی اسی طرح ہیں کہ ان چیزوں کے ہونے سے آپ کی منزلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور اگر یہ چیزیں موجود نہ ہوں تو بھی ان مقامات کی منزلت میں کوئی کمی نہیں رہے گی مثال کے طور پر امام حسن (ع) کی قبر اگر چہ دھوپ اور سورج کی تپش میں بغیر کسی گنبد اور حرم کے ہے لیکن آپ کی منزلت امام حسین(ع) سے برتر ہے جن کے پاس وصیع حرم اور سونے کا گنبد اور دروازہ وغیرہ بھی موجود ہے ۔ لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ قیمتی پتھر اور سونے اور چاندی سے گنبد اور دروازوں کا بنانا ان اولیاء خدا کی مقام اور ان کی منزلت کے سامنے تعظیم ہے ۔
صابر: کیا اس کام سے اولیاء خدا لوگوں کی نظر میں معظم ومعزز ہوئے ہیں ؟
باقر: بالکل ، میں آپ کے سامنے ایک مثال دیتا ہوں ، اگر آپ یہودیوں کے قبر ستان میں جائے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کے علماء کی قبریں ویران ہیں اور اس پر کوئی عمارت نہیں جہاں آنے والے سر کو چھپا سکے ۔لیکن مسیحیوں کے طرف معاملہ بر عکس ہے کہ ان کے علماء کی قبر یں سونے اور چاندی سے زینت دی گئی ہیں اور اس پر عمارتیں بھی بنی ہوئی ہیں ۔ اب آپ بتائیے کہ اگر چہ آپ مسلمان ہیں اور دونوں ہی آپ کی نظر میں باطل ہیں پھر بھی ان دونوں میں سے کوئی آپ کی نظر میں بڑا اور عظمت والا دیکھائی دیگا ۔
صابر: طبیعی بات ہے کہ ایسا منظر دیکھنے کے بعد مسیحی علماء کا مرتبہ بلند اور یہودی بہت نظر آئیں گے ۔
باقر: اسی بنا پر جب شیعہ اور سنی اپنے پیغمبروں ، اماموں اور پیشواں کی قبر وں پر زینت کرتے تو وہ ان کے مقام اور منزلت کی تعظیم کرتے ہیں ۔
صابر: آپ جو کہہ رہے ہیں وہ صحیح ہے ۔ لیکن کیا اس نظر یہ سے اسراف کا پہلو بھی ختم ہوجاتا ہے ؟
باقر : بالکل ، یہ کام نہ صرف یہ کہ اسراف نہیں ہے بلکہ یہ ثابت ہونے کے بعد کے اس کام اولیاء خدا کی تعظیم ہوتی ہے ، خود اسلام کی بھی تعظیم ہوتی ہے ۔کیونکہ پر وہ کام جو اسلام کے عظمت اور مقام کو بلند کرے وہ شعار الھی ہے اور خدا نے اس کے لئے ارشاد فرمایا ہے کہ : ’’ومن یعظم شعائراللہ فانھامن تقوی القلوب".حج 32 (اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا ، یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی (11)
اسی دلیل سے جو بھی یہ کام انجام دے گا وہ خداکے نزدیک اجر کا مستحق ہے ۔
صابر: آپ کا وقت لینے کے لئے معافی چاہتا ہوں ۔ لیکن آپ نے مجھے نادانی کی تاریکی سے علم کی روشنی کی طرف جو ہدایت کی اس کے لئے آپ کا شکر گزار ہوں ۔ آج سے پہلے میں ان مقامات کی زینت کے بارے میں زیادہ سوچتا تھا لیکن ان کام کے صحیح ہونے کو نہیں مانتا تھا لیکن آخر کار آپ کی باتو ں سے بات واضع و روشن ہوگئی اور آپ اس کا سبب ہوئے کہ کھوئی ہوئی چیز کو میں نے حاصل کر لیا ۔
باقر: تو آپ کے تمام شکوک بر طرف ہوگئے ؟
صابر : جی ہاں اور یہ کہ یہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام مستحب ہے اور قرآن کریم نے بھی اس کی طرف دعوت دی ہے ۔
باقر: پھر بھی میں اس ضمینے میں کسی بھی بات اور شک کہ دور کرنے کے لئے ہمیشہ حاضر ہوں ،تا کہ ہم دونوں ہی حقیقت کو جان سکے
صابر: آپ کا بہت بہت شکریہ ،خدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ۔