شيعہ جواب ديتے ہيں


چھتیسواں سوال

توحید اور شرک کی شناخت کا معیار کیاہے؟
''توحید'' اور شرک کی بحثوں میں سب سے اہم مسئلہ ان دونوں کی شناخت کے معیار کا ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بعض دوسرے اہم مسائل بھی حل نہیں ہوپائیں گے اس لئے ہم مسئلہ توحید و شرک پر مختلف زاویوں سے مختصراً بحث پیش کررہے ہیں :

١۔توحید ذاتی
توحید ذاتی دو صورتوں میں پیش کی جاتی ہے :
الف:خدا ایک ہے اور کوئی اس جیسا نہیں (اس مفہوم کو علم کلام کے علماء واجب الوجود کے نام سے یاد کرتے ہیں ) اور یہ وہی توحید ہے کہ جسے خداوند عالم نے مختلف صورتوں میں قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے ملاحظہ ہو:
(لیس کمثلہ شئ)
اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے.(١)
ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:
( ولم یکن لہ کفواً أحد)(٢)
اور کوئی بھی اس کا کفو اور ہمسر نہیں ہے.
البتہ بعض اوقات توحید کی اس قسم کی تفسیر عامیانہ طور پر کردی جاتی ہے کہ جس میں توحید عددی کا رنگ دکھائی دینے لگتا ہے وہ اس طرح کہ : کہا جاتا ہے کہ خدا ایک ہے اور دو نہیں اس قسم کا جملہ سن کر کچھ کہے بغیر واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کی طرف اس قسم کی توحید (عددی) کی نسبت دینا صحیح نہیں ہے.
ب: خدا کی ذات بسیط ہے نہ کہ مرکب کیونکہ ہرمرکب موجود (چاہے اس کا وجودذہنی اجزاء سے مرکب ہو یا خارجی اجزاء سے مرکب ہو ) اپنے وجود میں اجزاء کا محتاج ہوتا ہے اور محتاج ہونا ممکن ہونے کی علامت ہے اور ہر ممکن علت کا محتاج ہوتا ہے. اور یہ سب کچھ واجب الوجود کے ساتھ کسی بھی صورت میں مطابقت نہیں رکھتا .
.............
(١)سورہ شوریٰ آیت: ١١.
(٢)سورہ اخلاص آیت:٤.

٢۔ خالقیت میںتوحید
توحیدکے وہ مراتب جنہیں عقل و نقل دونوں نے قبول کیا ہے ان میں سے ایک توحید خالقیت بھی ہے عقل کی روسے خداوندعالم کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ سب عالم
امکان کے زمرے میں آتا ہے اور ہر قسم کے جمال وکمال سے عاری ہوتا ہے اور جو کچھ عالم امکان میں پایا جاتا ہے وہ غنی بالذات (خدا)کی بے کراں رحمتسے فیض یاب ہوتا ہے اس اعتبار سے اس دنیا میں دکھائی دینے والے جمال وکمال کے جلوے اسی کے مرہون منت ہوتے ہیں قرآن مجید نے بھی توحید خالقیت کے سلسلے میں بہت سی آیات پیش کی ہیں ہم ان میں سے صرف ایک آیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
( قُلْ اﷲُ خَالِقُ کُلِّ شَْئٍ وَہُوَ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ )(١)
کہہ دیجئے : ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے اور وہ یکتا ، بڑا غالب ہے.
لہذاخدا پرستوں میں مجموعی طور پر توحید خالقیت کے سلسلے میں اختلاف نہیں پایا جاتا ہے صرف اتنا فرق ہے کہ توحید خالقیت کے بارے میں دو قسم کی تفسیریں پائی جاتی ہیں ان دونوں کو ہم یہاں بیان کرتے ہیں:
الف:موجودات عالم میں پائے جانے والے ہر قسم کی علت اور معلول والے نظام اور نیز ان کے درمیان پائے جانے والے سبب او ر مسبب کے رابطے سب ہی علة العلل (جس کی کوئی علت نہ ہو)اور مسبب الاسباب(جس کا کوئی سبب نہ ہو) تک پہنچتے ہیں اور درحقیقت اصلی اور مستقل خالق خداوندعالم ہی کی ذات ہے اور خدا کے علاوہ باقی سب علل واسباب ، خداوندعالم کی اجازت و مشیت کے تابع ہیں.
اس نظریہ میںدنیا میں علت و معلول کے نظام کا اعتراف کیا گیا ہے .اور علم بشر
.............
(١)سورہ رعد آیت: ١٦.
نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے لیکن اس کے باوجود کل نظام کا تعلق ایک لحاظ سے خدا ہی سے ہے اور اسی نے اسباب کو سببیت ، علت کو علیت اور موثر کو تاثیر عطا کی ہے .
ب:اس دنیا میں صرف ایک ہی خالق کا وجود ہے اور وہ خداوندعالم کی ذات ہے اور نظام ہستی میں اشیاء کے درمیان ایک دوسرے کیلئے کسی قسم کی اثر گزاری اور اثرپذیری نہیں پائی جاتی بلکہ تمام مادی موجودات کا خالق بلا واسطہ خدا ہی ہے .اسی طرح انسان کی طاقت بھی اس کے اعمال پر اثر انداز نہیں ہوتی ہے . لہذا نظام ہستی میں صرف ایک ہی علت پائی جاتی ہے اور وہی ان فطری علتوں کی رئیس و اصل ہے .
البتہ توحید خالقیت کی یہ تفسیر اشاعرہ نے پیش کی ہے لیکن ان میں سے بعض افراد جیسے امام الحرمین (١)اور شیخ محمدعبدہ نے رسالہ توحید میں اس تفسیر کو چھوڑ کر پہلی تفسیر کو مانا ہے .

٣۔تدبیرمیںتوحید
چونکہ عالم کو خلق کرنا خدا ہی سے مخصوص ہے لہذا نظام ہستی کی تدبیر بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اس دنیا میں صرف ایک ہی مدبر کا وجود ہے اور وہ عقلی دلیل کہ جو توحید خالقیت کو ثابت کرتی ہے وہی دلیل تدبیر میں بھی توحید کو ثابت کرتی ہے .
قرآن مجید کی متعدد آیات نے خداوندعالم کے مدبر ہونے کو بیان کیا ہے اس سلسلے میں یہ آیت ملاحظہ ہو:
.............
(١)ملل و نحل(شہرستانی)جلد١.
(َغَیْرَ اﷲِ َبْغِ رَبًّا وَہُوَ رَبُّ کُلِّ شَْئ)(١)
کہہ دیجئے : کہ کیا میں خد اکے علاوہ کوئی اور رب تلاش کروں جب کہ وہ ہر چیز کا رب ہے.
البتہ وہ دونوں تفسیریں جو توحید خالقیت میں پائی جاتی ہیں وہی توحید تدبیری میں بھی پائی جاتی ہیں اور ہمارے عقیدے کے مطابق توحید تدبیری سے مراد یہ ہے کہ مستقل طور پر تدبیر کرنا صرف خدا سے مخصوص ہے
اس بنیاد پر نظام ہستی کے موجودات کے درمیان بعض تدبیریں خدا کے ارادے اور مشیت سے وجود میں آتی ہیں قرآن مجید نے بھی حق سے متمسک مدبروں کے بارے میں یوں فرمایا ہے :
(فالمدبرات امرًا)(٢)
پھر امر کی تدبیر کرنے والے ہیں.

٤۔حاکمیت میں توحید
حاکمیت میں توحید سے مراد یہ ہے کہ حکومت کا حق فقط خداوندعالم کو ہے اور صرف وہی انسانوں پر حاکم ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :
.............
(١)سورہ انعام آیت:١٦٤.
(٢)سورہ نازعات آیت :٥ .
(اِنِ الْحُکْمُ اِلا لِلّٰہ)(١)
حکم کرنے کا حق صرف خدا کو ہے.
اس اعتبارسے خدا کے علاوہ کسی اور کی حکومت صرف خدا کے ارادے اور مشیت سے ہونی چاہیے تاکہ نیک اور صالح افراد ہی معاشرے کے امور کی باگ ڈور سنبھالیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کی راہ پر گامزن کرسکیں جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے :
(یَادَاوُودُ ِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِ الَْرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ)(٢)
اے داؤدہم نے آپ کو زمین پر اپنا جانشین بنایا ہے لہذا آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں.
.............
(١)سورہ یوسف آیت :٤٠.
(٢)سورہ ص آیت٢٦.