شيعہ جواب ديتے ہيں


پینتیسواں سوال

کیوں منصب امامت منصب رسالت سے افضل ہے؟

جواب:اس سوال کے جواب کے لئے سب سے پہلے ہم قرآن و حدیث کی روشنی میں ان تین لفظوں نبوت، رسالت اور امامت کی وضاحت پیش کریں گے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ منصب امامت ان دو منصبوں سے افضل ہے.

١۔منصب نبوت
لفظ نبی کو''نبأ'' سے اخذ کیا گیا ہے جس سے مراد ''اہم خبر''ہے اس اعتبار سے نبی کے لغوی معنی ہیں وہ شخص جس کے پاس کوئی اہم خبر ہو یا وہ اس خبر کو پہنچانے والا ہو. (١)
قرآن کی اصطلاح میں بھی ''نبی'' ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو خداوندعالم سے مختلف طریقوں سے وحی حاصل کرتا ہو اور کسی بشر کے واسطے کے بغیر خد اکی طرف سے خبر دیتا ہو علماء نے نبی کی یہ تعریف کی ہے:
.............
(١)اگر نبی صیغۂ لازم ہو گا تو پہلے معنی میں ہوگا اور اگر متعدی ہوگا تو دوسرے معنی میں ہوگا.
اِنّہ مؤدٍ من اللّہ بلاواسطة من البشر (١)
نبی ایسا شخص ہے جو کسی بشر کے واسطے کے بغیر خدا کی طرف سے پیغام پہنچاتا ہے
اس بنیاد پر ''نبی '' کاکا م صرف یہ ہے کہ پروردگار عالم سے وحی حاصل کرے اوراس پر جوالہام ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچادے اوربس. قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:
(فبعث اللّہ النبیّین مبشرین و منذرین)(٢)
پھر اللہ نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے .

٢۔منصب رسالت
وحی الٰہی کی اصطلاح میں رسول ان پیغمبروں کو کہا جاتا ہے جو خدا سے وحی لینے اور اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ خدا کی طرف سے اس کی شریعت کو بیان کرنے اور اپنی رسالت کے اعلان کرنے کی اجازت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس سلسلے میں یہ فرماتا ہے:
(فَِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوا َنَّمَا عَلیٰ رَسُولِنَا الْبَلاغُ الْمُبِینُ)(٣)
.............
(١)رسائل العشر (مصنفہ شیخ طوسی )ص ١١١.
(٢)سورہ بقرہ آیت: ٢١٣.
(٣)سورہ مائدہ آیت ٩٢.
پھر اگر تم نے منہ پھیر لیا تو جان لو ہمارے رسول کی ذمہ داری تو بس واضح طور پر حکم پہنچادینا ہے.
لہذا منصب رسالت ایک ایسا منصب ہے جو نبی کو عطا کیا جاتا ہے دوسرے لفظوں میں نبوت اور رسالت دونوں ہی الفاظ اس خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پیغمبروں میں پائی جاتی ہے اگر پیغمبر صرف وحی الہی کو لے کر پہنچادے تو اسے نبی کہتے ہیں لیکن اگر وہ رسالت و شریعت بھی لوگوں تک پہنچائے تو اسے رسول کہا جاتا ہے .

٣۔منصب امامت
قرآن مجید کی نظر میں منصب امامت، نبوت او رسالت کے علاوہ ایک تیسرا عہد ہ ہے جس میں صاحب منصب کو لوگوں کی رہبری کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ تصرفات کا اختیار حاصل ہوتا ہے.
اب ہم قرآنی آیات کی روشنی میں اس موضوع کے بارے میں چند واضح دلائل پیش کرتے ہیں .
١۔قرآن کریم حضرت ابراہیم خلیل کو منصب امامت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:
( وَِذْ ابْتَلَی ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فََتَمَّہُنَّ قَالَ ِنِّ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِ)(١)
.............
(١)سورہ بقرہ آیت : ١٢٤.
اور (وہ وقت یاد کیجئے) جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات کے ذریعہ آزمایا اور انہوں نے ان کو پورا کردکھایا تو ارشاد ہوا میں تمہیں لوگوں کا امام بنا رہا ہوں انہوں نے کہا اور میری ذریت ؟
قرآن مجید کی اس آیت سے دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں :
الف: مذکورہ آیت بخوبی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ منصب امامت ، نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے کیونکہ حضرت ابراھیم ان آزمائشوں (منجملہ قربانی اسماعیل سے پہلے ہی ) مقام نبوت پر فائز تھے یہ بات درج ذیل دلیل سے ثابت ہوتی ہے:
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ خداوندعالم نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں حضرت اسماعیل و اسحاق عطا فرمائے تھے قرآن مجید حضرت ابراہیم کی زبان سے یوں حکایت کرتا ہے :
(الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِ وَہَبَ لِ عَلیٰ الْکِبَرِ ِسْمَاعِیلَ وَِسْحَاقَ)(١)
شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل و اسحق عطاکئے.
اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی مذکورہ آزمائشوں میں سے ایک
.............
(١)سورہ ابراہیم آیت :٣٩.
حضرت اسماعیل کی قربانی بھی تھی اور اس مشکل آزمائش کے مقابلے میں انہیں منصب امامت عطا کیا گیا تھا نیز انہیں یہ منصب ان کی عمر کے آخری حصے میں عطا کیا گیاتھا.جبکہ وہ کئی سال پہلے ہی سے منصب نبوت پر فائز تھے کیونکہ حضرت ابراہیم پر ان کی ذریت سے پہلے بھی وحی الہی (جو کہ نبوت کی نشانی ہے) نازل ہوا کرتی تھی (١)
ب:اسی طرح اس آیت ( وَِذْ ابْتَلَیٰ ِبْرَاہِیمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ...)سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امامت اور رہبری کا منصب نبوت و رسالت سے بالاتر ہے کیونکہ قرآن مجید کی گواہی کے مطابق خداوندکریم نے جناب ابراہیم کو نبوت و رسالت کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود جب انہیں امامت عطا کرنی چاہی تو انتہائی سخت قسم کے امتحان سے آزمایا تھا اور جب وہ اس امتحان میں کامیاب ہوئے تب اس کے بعد یہ منصب انہیں دیا تھا اس بات کی دلیل واضح ہے اس لئے کہ امامت کے فرائض میں وحی الہی کے حاصل کرنے اور رسالت و شریعت کے پہنچانے والے کے علاوہ امت کی رہبری اور ان کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں کمال وسعادت کی راہ پر گامزن کرنا بھی شامل ہے اب یہ بات فطری ہے کہ وہ منصب ایک خاص قسم کی عزت و عظمت کا حامل ہوگا جس کا حصول انتہائی سخت آزمائشوں کے بغیر ممکن ہی نہ ہو.
٢۔گذشتہ آیت سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خداوندعالم نے سخت آزمائشوں
.............
(١)اس سلسلے میں سورہ صافات کی آیت نمبر٩٩ سے لے کر ١٠٢ تک اور سورہ حجر کی آیت نمبر٥٣اور ٥٤ اور سورہ ہود کی آیت ٧٠ اور ٧١ کا مطالعہ فرمائیں.
کے بعد جناب ابراہیم کو امامت اورمعاشرہ کی قیادت عطا فرمائی تھی اور اس وقت جناب ابراہیم نے خدا سے درخواست کی تھی خدایا! اس منصب کو میری ذریت میں بھی قرار دینا اب قرآن مجید کی چند دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ پروردگارعالم نے جناب ابراہیم کی یہ درخواست قبول کرلی تھی اور نبوت و امامت کے بعد امت کی رہبری اور حکومت کو جناب ابراہیم کی نیک اور صالح ذریت میں بھی قرار دے دیا تھا. قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:
(فَقَدْ آتَیْنَا آلَ ِبْرَاہِیمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَآتَیْنَاہُمْ مُلْکًا عَظِیمًا)(١)
تو پھر ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور انکو عظیم سلطنت عنایت کی.
اس آیت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ''امامت'' نبوت ، سے الگ ایک منصب ہے جسے خداوندعالم نے اپنے عظیم القدر نبی جناب ابراہیم کو سخت آزمائشوں کے بعد عطا فرمایا تھا اور انہوں نے اس وقت خداوندعالم سے درخواست کی تھی کہ امامت کو میری ذریت میں بھی قرار دے تو خدائے حکیم نے ان کی یہ درخواست قبول فرمائی تھی اور انہیں آسمانی کتاب اور حکمت (جو کہ نبوت و رسالت سے مخصوص ہے) کے علاوہ ''ملک عظیم'' (یعنی لوگوں پر حکومت)بھی عطا کی تھی .
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ خداوندکریم نے جناب ابراہیم کی ذریت کے بعض افراد (جیسے حضرت یوسف حضرت داؤد اور حضرت سلیمان ) کو منصب نبوت کے علاوہ حکومت کرنے اور لوگوں کی رہبری کے لئے بھی منتخب فرمایا تھا ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ امامت کا عہدہ نبوت و رسالت کے علاوہ ایک تیسرا منصب ہے جو کہ مزید قدرت اور ذمہ داریوں کی وجہ سے دوسرے عہدوں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے .
.............
(١)سورہ نساء آیت ٥٤.

منصب امامت کی برتری
گذشتہ بیانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ نبی اور رسول کا کام صرف لوگوں تک پیغام پہنچانا اور انہیں راہ دکھانا ہے اور اگر کوئی نبی منصب امامت پر فائز ہوجاتا ہے تو اس کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور نتیجے میں معاشرے کو سنوارنے اور سعادت مند بنانے کے لئے شریعت کے احکامات کو نافذ کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے دوش پر آجاتی ہے اس طرح وہ امت کو ایسے راستے پر گامزن کردیتا ہے جس سے وہ دونوں جہان میں خوشبخت بن جاتی ہے .
واضح ہے کہ اس قسم کی اہم ذمہ داری ایک عظیم معنوی قدرت او ر خاص لیاقت کی نیاز مند ہے اور اس سنگین عہدے کے لئے راہ خدا میں صبراور ثبات قدم کی ضرورت ہے کیونکہ اس راہ میں ہمیشہ سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے خواہشات نفسانی سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ عشق خدا اور رضائے پروردگار کے بغیر اس عظیم منصب کا حصول ممکن نہیں ہے ان ہی سب وجہوں سے خداوندعظیم نے جناب ابراہیم کو ان کی عمر کے آخری حصے میں انتہائی سخت آزمائشوں کے بعد یہ منصب عطا کیا تھا اور پھر اپنے بہترین بندوں جیسے حضرت پیغمبر ختمی مرتبت ۖکو یہ منصب امامت و رہبری عنایت فرمایا تھا.

کیا نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں؟
اس سوال سے ایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ : کیا ہر نبی کے لئے امام ہونا اور ہر امام کے لئے نبی ہونا ضروری ہے؟
ان دو سوالوں کا جواب منفی ہے ہم اس جواب کو واضح کرنے کیلئے وحی الہی کا سہارا لیں گے وہ آیتیں جو طالوت اور ظالم جالوت کی جنگ کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ خداوند عالم نے حضرت موسیٰ کے بعد منصب نبوت کو بظاہر ''اشموئیل'' نامی شخص کو عطا فرمایا تھا اور ساتھ ہی ساتھ منصب امامت و حکومت کو جناب طالوت کے سپرد کیا تھا اس قصے کی تفصیل یوں بیان کی گئی ہے :
حضرت موسیٰ کی وفات کے بعدبنی اسرائیل کے ایک گروہ نے اپنے زمانے کے پیغمبرسے کہا کہ ہمارے لئے ایک حکمران معین کیجئے تاکہ اس کی سربراہی میں ہم راہ خدا میں جنگ کریںتو اس وقت ان کے پیغمبر نے ان سے یوں کہا:
( وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ ِنَّ اﷲَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا قَالُوا َنَّیٰ یَکُونُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ َحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِنْ الْمَالِ قَالَ ِنَّ اﷲَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَةً فِ الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاﷲُ یُؤْتِ مُلْکَہُ مَنْ یَشَائُ وَاﷲُ وَاسِع عَلِیم)(١)
اور ان کے پیغمبرنے ان سے کہا : اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے . ان لوگوں نے کہا: اسے ہم پربادشاہی کرنے کا حق کیسے مل گیا ہے؟ ہم خود بادشاہی کے اس سے زیادہ حق دار ہیں . وہ تو کوئی دولت مند آدمی نہیں ہے . نبی نے جواب دیاکہ اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے اور اسے علم اور جسمانی طاقت کی فراوانی سے نوازا ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دے دیتا ہے اور اللہ بڑا وسعت والا، دانا ہے.
اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :
١۔یہ ممکن ہے کہ کچھ مصلحتیں اس بات کا تقاضا کریں کہ منصب نبوت کو منصب امامت سے جدا کردیا جائے اور ایک ہی زمانے میں دو الگ الگ افراد نبی و امام ہوں اور ان میں سے ہر ایک اپنے خاص منصب ہی کی لیاقت وصلاحیت رکھتا ہو .
اسی لئے بنی اسرائیل نے اپنے زمانے میں ان دو منصبوں کے جدا ہونے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا کہ اے پیغمبر آپ طالوت سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں .بلکہ
.............
(١)سورہ بقرہ آیت ٢٤٧.
انہوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ ہم اس سے زیادہ حکومت کے حقدار ہیں.
٢۔جناب طالوت کو حکومت خداوندکریم ہی نے عطا کی تھی قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے :
(ِنَّ اﷲَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوتَ مَلِکًا)اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے اور یہ بھی ارشاد ہوتا ہے(ِنَّ اﷲَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ) بے شک اللہ نے اسے تمہارے لئے منتخب کیا ہے.
٣۔جناب طالوت کایہ الہی منصب صرف فوج کی سربراہی تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ بنی اسرائیل کے حاکم و فرمانروا بھی تھے کیونکہ قرآن نے انہیں ''مَلِکاً'' کہہ کر یاد کیا ہے اگرچہ اس دن اس رہبری کامقصد یہ تھا کہ جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کی سربراہی کریں لیکن ان کا یہ الہی منصب انہیں دوسری حکومتی ذمہ داریوں کو بھی انجام دینے کی اجازت دیتا تھا .
اس لئے قرآن مجید اس آیت کے اختتام میں فرماتا ہے :
(وَاﷲُ یُؤْتِ مُلْکَہُ مَنْ یَشَائ) اور اللہ جسے چاہے اپنا ملک دیدے .
٤۔امت کی رہبری اور امامت کے لئے اہم ترین شرط یہ ہے کہ اس میں علمی، جسمانی،اور معنوی توانائی پائی جاتی ہو اس قسم کی صلاحیت اس زمانے میں زیادہ اہمیت رکھتی تھی کیونکہ ان ایام میں حاکم خود میدان میں حاضر ہو کر جنگ کرتا تھا(١)
.............
(١)منشور جاوید (مصنفہ استاد جعفرسبحانی) سے ماخوذ.
گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبوت اور امامت ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے کہ ایک شخص نبی تو ہو لیکن منصب امامت پر فائز نہ ہو یا یہ کہ کوئی شخص خدا کی جانب سے امام تو ہو لیکن اسے عہدۂ نبوت حاصل نہ ہوا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پروردگارعالم یہ دونوں منصب ایک ہی شخص کو عطا کردے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:
(فَہَزَمُوہُمْ بِِذْنِ اﷲِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاہُ اﷲُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَائُ)(١)
چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے جالوت کے لشکر کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطافرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھادیا.
.............
(١)سورہ بقرہ آیت ٢٥١.