بتیسواں سوال
ایران کے بنیادی قانون میں کیوں جعفری مذہب
(شیعہ اثناعشری) کو حکومت کا مذہب قرار دیا گیا ہے؟
جواب:اس میں شک نہیں کہ جمہوری اسلامی ایران کے بنیادی قانون کی نظر میں تمام اسلامی مذاہب محترم و معزز شمار کئے جاتے ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اسلامی و فقہی مذاہب (:جیسے جعفری، مالکی، شافعی، حنبلی ، حنفی و...) کے ماننے والے اپنے فردی اور اجتماعی احکام میں یکساں اور متحد نہیں ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات دکھائی دیتے ہیں دوسری طرف سے ایک معاشرے کے قوانین و حقوق کا آپس میں منظم اور یک رنگ ہونا وقت کی شدید ترین ضرورت ہے اس اعتبار سے واضح ہے کہ ہر سرزمین پر ان مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی اجتماعی قوانین کو نافذ کرسکتا ہے اس لئے کہ قانون گزاروں کے مختلف ہونے سے کبھی بھی ایک جیسے اور یکساں قوانین نہیں بنائے جاسکتے اس بنیاد پر یہ ضروری ہے کہ ہر معاشرے میں اسلامی اور فقہی مذاہب میں سے صرف ایک مذہب ہی باضابطہ طور پراجتماعی قوانین کا ماخذ قرار پائے تاکہ اس مملکت کے قوانین و ضوابط میں کسی طرح کی دو روئی اور بدنظمی پیدا نہ ہونے پائے اور فردی و اجتماعی امور میںمنظم اور یکساں قوانین و ضوابط بنانے کا زمینہ ہموار ہوسکے .
جعفری مذہب کی تعیین کا معیار
گزشتہ وضاحت کے بعد اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے کس معیار کے تحت تمام مذاہب میں سے صرف جعفری مذہب کو ملک کے قوانین و ضوابط کا ماخذ قرار دیا ہے؟
اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے چونکہ ایران میں عوام کی اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے جو جعفری مذہب کو مانتے ہیں لہذا اس ملک کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا جو کہ ایک فطری امر ہے اور تمام منطقی اور حقوقی ضابطوں سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے.
ایران میں دوسرے اسلامی مذاہب کا درجہ
اگرچہ ایران کے بنیادی قوانین میں جعفری مذہب کو ملک کا رسمی مذہب قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس اسلامی مملکت میں دوسرے اسلامی مذاہب (جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی کو) نہ صرف محترم شمار کیا گیا ہے بلکہ ان مذاہب کے ماننے والوں کو درج ذیل امور میں اپنی فقہ پر عمل کرنے میں مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے:
١۔اپنے مذہبی مراسم کے انجام دینے میں .
٢۔اپنی دینی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں.
٣۔اپنے ذاتی اور شخصی کاموں کو انجام دینے میں.
٤۔اپنے مذہب کے خصوصی قوانین و ضوابط میں (جیسے نکاح، طلاق، میراث، وصیت وغیرہ).
اس کے علاوہ اگر کسی علاقے میں مذکورہ مذاہب میں سے کسی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں کے قونصل خانوں میں ان کے لئے ان کے مذہب کے مطابق قوانین و ضوابط وضع کئے جائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے حقوق بھی محفوظ رہیں گے .
یہاں پر اس موضوع کی مزید وضاحت کے لئے ہم ایران کے بنیادی قانون کی بارہویں اصل کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں :
''ایران کا رسمی دین اسلام اور مذہب جعفری اثنا عشری ہے یہ ہمیشہ رہے گا اور ناقابل تبدیل ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذہبوں. جیسے شافعی، حنبلی ،حنفی، مالکی، اور زیدی مذاہب کے ماننے والے بھی مکمل طور پر محترم شمار کئے جائیں گے '' اور ان مذاہب کے پیرو اپنی فقہ کے مطابق اپنے مذہبی رسومات کے انجام دینے میں آزاد ہوں گے اور اسی طرح وہ اپنی دینی تعلیم و تربیت اور اپنے ذاتی مسائل جیسے نکاح ،طلاق ، میراث،وصیت،لڑائی جھگڑوں کے مسائل اور عدالتوں میں مقدموں کے سلسلے میں رسمی طور پر اپنے مذہب کی فقہ پر عمل کرنے کا اختیار رکھتے ہیں اور جس جگہ بھی مذکورہ مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کے پیرو اکثریت میں ہوں گے اس جگہ کے علاقائی قوانین ان کے مذہب کے مطابق ہوں گے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق بھی محفوظ ہوں گے ایران کے قانون اساسی کی اس بارہویں اصل کی روشنی میں تمام اسلامی مذاہب کا احترام روشن ہوجاتا ہے ۔
تینتیسواں سوال
کیا شیعہ نماز وتر کو واجب سمجھتے ہیں؟
جواب:نوافل شب میں سے ایک نماز وتر بھی ہے جس کا پڑھنا اسلام کے ماننے والوں اور رسولۖ خدا کی پیروی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے لیکن شیعہ فقہاء نے کتاب و سنت کی روشنی میں چند امور کو پیغمبراسلامۖ کی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے ان ہی میں سے ایک حضورۖ پر اس نماز کا واجب ہونا بھی ہے .
چنانچہ علامہ حلی نے اپنی کتاب ''تذکرة الفقہائ'' میںتقریباً ستر چیزوں کو پیغمبراکرم ۖ کی خصوصیات میںشمار کیا ہے اور انہوں نے اپنے کلام کے آغاز ہی میں یہ کہا ہے:
''فأمّا الواجبات علیہ دون غیرہ من أمّتہ أمور: الف۔ السواک ،ب۔ الوتر، ج۔الأضحیہ، رو عنہۖ أنہ قال : ثلاث کتب علّ ولم تکتب علیکم : السواک والوتر والأضحیّة... ''(١)
.............
(١)تذکرة الفقہاء جلد٢ کتاب النکاح مقدمہ چہارم۔
وہ چیزیں جو صرف پیغمبراسلامۖ پر واجب ہیں اور ان کی امت کے لئے واجب نہیں ہیں وہ یہ ہیں:الف :مسواک کرنا،ب:نماز وتر پڑھنا، ج: قربانی کرنا،.
رسول خدا سے نقل ہوا ہے کہ آنحضرتۖ نے فرمایاہے : تین چیزیں میرے اوپر واجب کی گئی ہیں لیکن تم لوگوں پر واجب نہیںہیں اور وہ ہیں مسواک کرنا ، نماز وتر پڑھنا اور قربانی کرنا ''اس بنیاد پر نماز وتر شیعوں کی نظر میں صرف رسول خداۖ پر واجب ہے اور دوسروں کے لئے اس کا پڑھنا مستحب ہے.
چونتیسواں سوال
کیا اولیائے خدا کی غیبی طاقت پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟
جواب: یہ بات واضح ہے کہ جب کبھی کوئی شخص دوسرے سے کسی کام کی درخواست کرتا ہے تو وہ اس شخص کو اس کام کے انجام دینے میں اپنے سے قوی اور طاقتور سمجھتا ہے اور یہ طاقت دو قسم کی ہوتی ہے :
١۔کبھی یہ قدرت مادی اور فطری ہوتی ہے جیسے ہم کسی شخص سے کہیں مجھے ایک گلاس پانی لادو .
٢۔بعض اوقات یہ طاقت مادی اور فطری نہیں ہوتی بلکہ غیبی صورت میں ہوتی ہے جیسے کسی شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ خدا کے کچھ نیک بندے جناب عیسیٰ کی طرح لاعلاج مرض سے شفا عطا کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور مسیحائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شدید قسم کے مریض کو بھی نجات عطا کرتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی غیبی طاقتوں پر انہیں خدا کے ارادے اور قدرت کا محتاج سمجھ کر عقیدہ رکھنا فطری و مادی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کی طرح ہے اور یہ ہرگز شرک قرار نہیں پاسکتا اس لئے کہ خداوندعالم ہی نے یہ مادی اور فطری طاقتیں انسان کو عطا کی ہیں اور اسی نے غیبی طاقتوں کو اپنے نیک بندوں کو عنایت فرمایا ہے .
یہاں پر ہم اس جواب کی مزید وضاحت کرنے کے لئے یہ کہیں گے کہ اولیائے خدا کی غیبی قدرت و طاقت پر دو طرح سے عقیدہ رکھا جاسکتا ہے :
١۔کسی شخص کی غیبی قدرت پر اس طرح عقیدہ رکھا جائے کہ اسے اپنی اس طاقت میں مستقل اوراصل سمجھیں اور خدائی امور کو مستقل طور پر اس کی طرف نسبت دینے لگیں اس صورت میں شک نہیں کہ یہ عقیدہ شرک شمار ہوگا کیونکہ اس طرح ہم نے غیر خدا کو طاقت میں مستقل سمجھ کر خدائی امور کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا ہے جب کہ یہ طے ہے کہ پروردگار عالم کی لامتناہی طاقت و قدرت ہی سے تمام طاقتوں اور قدرتوں کاسرچشمہ بناہے .
٢۔خدا کے نیک اور باایمان بندوں کی غیبی طاقت پر اس طرح اعتقاد رکھیں کہ انہوں نے اپنی یہ قدرت پروردگار عالم کی لامحدود قدرت سے حاصل کی ہے اور درحقیقت ان قدرتوں کو حاصل کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کے ذریعے خدا کی لامحدود قدرت کا اظہار کیا جاسکے اور وہ خود اپنی ذات میں کسی طرح کا استقلال نہیں رکھتے ہیںبلکہ وہ اپنی ہستی اور اپنی غیبی قدرت کے استعمال میں پوری طرح ذات پروردگار پر منحصر ہیں.
واضح ہے کہ اس طرح کا عقیدہ اولیائے الہی کو خدا سمجھنے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دینے کی طرح نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں پروردگار عالم کے نیک بندے اس کی اجازت اور ارادے سے اس کی عطا کردہ غیبی طاقت کا اظہا ر کرتے ہیں . قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:
(وَمَا کَانَ لِرَسُولٍ َنْ یَْتَِ بِآیَةٍ ِلاَّ بِِذْنِ اﷲِ )(١)
اور کسی رسول کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی نشانی لے آئے.
اس بیان کی روشنی میں واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا عقیدہ باعث شرک قرار نہیں پائے گا بلکہ توحید و یکتا پرستی سے مکمل طورپر مطابقت رکھنے والا عقیدہ نظر آئے گا.
قرآن مجید کی نظر میں اولیائے الہی کی غیبی طاقت
مسلمانوں کی آسمانی کتاب نے وضاحت کے ساتھ پروردگار عالم کے ان نیک بندوں کا تذکرہ کیا ہے جنہوں نے پروردگار عالم کی اجازت سے اپنی حیرت انگیز قدرت کا مظاہرہ کیا تھا اس سلسلے میں قرآن مجید کے بعض جملے ملاحظہ ہوں:
.............
(١)سورہ رعد آیت : ٣٨
١۔حضرت موسیٰ کی غیبی طاقت
خداوندعالم نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا تھا کہ اپنے عصا کو پتھر پر ماریں تاکہ اس
سے پانی کے چشمے جاری ہوجائیں:
(وَِذْ اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِہِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًا )(١)
اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا : اپنا عصا پتھر پر مارو جس کے نتیجے میں اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے.
حضرت عیسیٰ کی غیبی طاقت
قرآن مجید میں مختلف اور متعدد مقامات پر حضرت عیسیٰ کی غیبی قدرت کا تذکرہ ہوا ہے ہم ان میں سے بعض کو یہاں پیش کرتے ہیں:
( َنِّ َخْلُقُ لَکُمْ مِنْ الطِّینِ کَہَیْئَةِ الطَّیْرِ فََنفُخُ فِیہِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِِذْنِ اﷲِ وَُبْرِئُ الَْکْمَہَ وَالَْبْرَصَ وَُحْیِ الْمَوْتَیٰ بِِذْنِ اﷲِ )(٢)
(حضرت عیسیٰ نے فرمایا)میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل کا مجسمہ بناؤں گا اور اس میں پھونک ماروںگا تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جائے گا اور میں پیدائشی اندھے اور برص
کے مریض کا علاج کروں گا اور خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ کروں گا.
.............
(١)سورہ بقرہ آیت: ٦٠
(٢)سورہ آل عمران آیت : ٤٩
حضرت سلیمان کی غیبی طاقت
حضرت سلیمان کی غیبی طاقتوں کے سلسلے میں قرآن مجیدیہ فرماتا ہے:
(وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ یَاَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنطِقَ الطَّیْرِ وَُوتِینَا مِنْ کُلِّ شَْئٍ ِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِینُ )(١)
اور سلیمان، داؤد کے وارث بنے اور انہوں نے کہااے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان کا علم دیا گیا ہے اور ہمیں ہر طرح کی چیزیں عنایت کی گئی ہیں بے شک یہ تو ایک نمایاں فضل ہے.
اس میں شک نہیں ہے کہ اس قسم کے کام جیسے حضرت موسیٰ کا سخت پتھر پر عصا مار کر پانی کے چشمے جاری کردینا حضرت عیسیٰ کا گیلی مٹی سے پرندوں کا خلق کردینا اور لاعلاج مریضوں کو شفا عطا کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا حضرت سلیمان کا پرندوں کی زبان سمجھنا یہ سب نظام فطرت کے خلاف شمار ہوتے ہیں اور درحقیقت انبیائے الہی نے اپنے ان کاموں کو اپنی غیبی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے انجام دیا ہے .
جب قرآن مجید نے اپنی آیات میں بیان کیا ہے کہ خداوندعالم کے نیک بندے
غیبی طاقت رکھتے ہیں تو اب کیا ان آیات کے مضامین پر عقیدہ رکھنا شرک یا بدعت شمار کیا جاسکتا ہے؟ان بیانات کی روشنی میں بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خدا کے نیک بندوں کی غیبی قدرتوں پر عقیدہ رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انہیں خدا مانا جائے یا ان کی طرف خدائی امور کی نسبت دی جائے اس لئے کہ ان کے بارے میں اس قسم
کے عقیدہ سے ان کی خدائی لازم آتی ہے اور اگر ایسا ہے تو پھر حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور حضرت سلیمان وغیرہ قرآن کی نظر میں خدا شمار ہونگے جب کہ سب مسلمان یہ جانتے ہیں کہ کتاب الہٰی کی نگاہ میں اولیائے الہی صرف خد اکے نیک بندوں کی حیثیت رکھتے ہیں یہاں تک کی گفتگو سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اولیائے الہی کی غیبی طاقت کے سلسلے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہیں یہ قدرت پروردگار کی لامحدود قدرت ہی سے حاصل ہوئی ہے اور درحقیقت ان کی اس قدرت کے ذریعے پروردگار عالم کی لامحدود قدرت کا اظہار ہوتا ہے تو اس صورت میں ہمارے یہ عقائد باعث شرک قرار نہیں پائیں گے بلکہ عقیدہ توحید کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آئیں گے کیونکہ توحید اور یکتا پرستی کا معیار یہ ہے کہ ہم دنیا کی تمام قدرتوں کو خدا کی طرف پلٹائیں اور اسی کی ذات کو تمام قدرتوں اور جنبشوں کا سرچشمہ قرار دیں ۔
.............
(١)سورہ نمل آیت :١٦
|