شيعہ جواب ديتے ہيں


اٹھائیسواں سوال

شیعوں کی فقہ کے ماخذ کون سے ہیں؟

جواب:شیعہ ،قرآن مجید اور سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے احکام شرعی کو درج ذیل چاربنیادی مآخذ سے حاصل کرتے ہیں :
١۔کتاب خدا
٢۔سنت
٣۔اجماع
٤۔عقل
مذکورہ ماخذو منابع میں سے قرآن مجید اور سنت نبویۖ فقہ شیعہ کے بنیادی ترین ماخذ ہیں اب ہم یہاں ان دونوں کے سلسلے میں اختصار کیساتھ گفتگو کریںگے :

کتاب خدا؛ قرآن مجید
مکتب تشیع کے پیرو قرآن مجید کو اپنی فقہ کا محکم ترین منبع اور احکام الہی، کی شناخت کا معیار سمجھتے ہیں کیونکہ شیعوں کے ائمہ ٪ نے فقہی احکام کے حصول کے لئے قرآن مجید کو ایک محکم مرجع قرار دیا ہے اور یہ حکم دیا ہے کہ کسی بھی نظرئیے کو قبول کرنے سے پہلے اسے قرآن مجید پر پرکھا جائے اگر وہ نظریہ قرآن سے مطابقت رکھتا ہو تو اسے قبول کرلیا جائے ورنہ اس نظرئیے کو نہ مانا جائے .
اس سلسلے میں امام صادق ـفرماتے ہیں:
وکل حدیث لایوافق کتاب اللّہ فھو زخرف.(١)
ہر وہ کلام جو کتاب خدا سے مطابقت نہ رکھتا ہو وہ باطل ہے.
اسی طرح امام صادق ـنے رسول خداۖ سے یوں نقل کیا ہے:
أیّھا الناس ماجائکم عن یوافق کتاب اللّہ فأنا قلتہ وماجاء کم یخالف کتاب اللّہ فلم أقلہ(٢)
اے لوگو! ہر وہ کلام جو میری طرف سے تم تک پہنچے اگر وہ کتاب خدا کے مطابق ہو تو وہ میرا قول ہے لیکن اگر تم تک پہنچنے والا کلام کتاب خدا کا مخالف ہو تو وہ میرا قول نہیں ہے.
ان دو حدیثوں سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ شیعوں کے ائمہ ٪ کی نگاہ میں احکام شرعی کو حاصل کرنے کے لئے کتاب خدا محکم ترین ماخذ شمار ہوتی ہے.
.............
(١)اصول کافی، جلد١ ، کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب ، حدیث ٣.
(٢) گذشتہ حوالہ حدیث ٥.


سنت


حضرت رسول اکرم ۖ کا قول و فعل اور کسی کام کے سلسلے میں
آنحضرتۖ کی تائید کو سنت کہتے ہیں اسے شیعوں کی فقہ کا دوسرا ماخذ شمار کیا جاتا ہے سنت نبویۖ کو نقل کرنے والے ائمہ معصومین٪ ہیں جو آنحضرتۖ کے علوم کے خزینہ دار ہیں.
البتہ نبی اکرمۖ کے چند دوسرے طریقوں سے نقل ہونے والے ارشادات کو بھی شیعہ قبول کرتے ہیں.یہاں پرضروری ہے کہ ہم دو چیزوں کے متعلق بحث کریں :
سنت نبویۖ سے تمسک کی دلیلیں: شیعوں کے ائمہ ٪ نے اپنی پیروی کرنے والوں کوجس طرح قرآن مجید پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح انہوں نے سنت نبوی کی پیروی کرنے کی بھی تاکید کی ہے اور ہمیشہ اپنے ارشادات میں ان دونوں سے تمسک اختیار کرنے کا حکم دیا ہے . امام صادق ـ فرماتے ہیں :
اِذا ورد علیکم حدیث فوجدتم لہ شاھدًا من کتاب اللّہ أو من قول رسول ۖواِلا فالذ جائکم بہ أولیٰ بہ.(١)
جب کوئی کلام تم تک پہنچے تو اگر تمہیں کتاب خدا یا سنت نبویۖ سے اس کی تائید حاصل ہوجائے تو اسے قبول کرلینا ور نہ وہ کلام
بیان کرنے والے ہی کو مبارک ہو .
.............
(١)اصول کافی جلد١ کتاب فضل العلم ، باب الاخذ بالسنہ و شواھد الکتاب حدیث ٢.
اسی طرح امام محمدباقر ـ نے ایک جامع الشرائط فقیہ کے لئے سنت نبی اکرم سے تمسک کو اہم ترین شرط قرار دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:
اِنّ الفقیہ حق الفقیہ الزاھد ف الدنیا والراغب ف الآخرة المتمسک بسنّة النبّ ۖ (١)
بے شک حقیقی فقیہ وہ ہے جو دنیا سے رغبت نہ رکھتا ہو اور آخرت کا اشتیاق رکھتا ہو ، نیز سنت نبوی ۖسے تمسک رکھنے والا ہو.
ائمہ معصومین ٪ نے اس حد تک سنت نبویۖ کی تاکید فرمائی ہے کہ وہ کتاب خدا اور سنت نبوی کی مخالفت کو کفر کی اساس قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں امام صادق ـ یوں فرماتے ہیں :
مَن خالف کتاب اللّہ وسنّة محمّد ۖ فقد کفر.(٢)
جس شخص نے کتاب خدا اور سنت محمدی ۖ کی مخالفت کی وہ کافر ہوگیا .
اس بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ شیعہ مسلمانوں کے بقیہ فرقوں کی بہ نسبت نبی اکرمۖ کی سنت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسی طرح بعض لوگوں کایہ نظریہ بھی باطل ہوجاتا ہے کہ شیعہ نبی اکرمۖ کی سنت سے بیگانہ اور دور ہیں .
.............
(١) گذشتہ حوالہ حدیث ٨
(٢) گذشتہ حوالہ حدیث ٦


احادیث اہل بیت سے تمسک کے دلائل
عترت پیغمبرکی احادیث کے سلسلے میںشیعوں کے نظریہ کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ہم ذیل کے دو موضوعات پر گفتگو کریں :

الف: ائمہ معصومین کی احادیث کی حقیقت.
ب:اہل بیت رسولۖ سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل . اب ہم یہاں ان دو موضوعات کے سلسلے میں مختصر طور پر تحقیقی گفتگو کریں گے :

عترت رسولۖ کی احادیث کی حقیقت
شیعوںکے نکتہ نظر سے فقط خداوندحکیم ہی انسانوں کے لئے شریعت قرار دینے اور قانون وضع کرنے کا حق رکھتا ہے اور اس کی طرف سے یہ شریعت اور قوانین پیغمبراکرمۖ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچتے ہیں. واضح ہے کہ نبی اکرمۖ خدا اور انسانوں کے درمیان وحی کے ذریعہ حاصل ہونے والی شریعت کے پہنچانے کے لئے واسطے کی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے اگر شیعہ اہل بیت ٪ کی احادیث کو اپنی فقہ کے ماخذ میں شمار کرتے ہیں تو ہرگز اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اہل بیت ٪ کی احادیث سنت نبویۖ کے مقابلے میں کوئی مستقل حیثیت رکھتی ہیں بلکہ احادیث اہل بیت ٪ اس وجہ سے معتبر ہیں کہ وہ سنت نبویۖ کو بیان کرتی ہیں.
اس اعتبارسے ائمہ معصومین ٪ کبھی بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں فرماتے بلکہ جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہ در حقیقت سنت پیغمبرۖ ہی کی وضاحت ہوتی ہے یہاں پر ہم اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ائمہ معصومین ٪ کی چند روایات پیش کریں گے :
١۔امام صادق ـ نے ایک شخص کے سوال کے جواب میں یوں فرمایاہے:
مھما أجبتک فیہ بشء فھو عن رسول اللہ ۖ لسنا نقول برأینا من شئ.(١)
اس سلسلے میںجو جواب میں نے تمہیںدیا ہے وہ رسول خداۖ کی طرف سے ہے ہم کبھی بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے :اور ایک مقام پر یوں فرماتے ہیں:
حدیث حدیث أب ، و حدیث أب حدیث جد و حدیث جد حدیث الحسین وحدیث الحسین حدیث الحسن و حدیث الحسن حدیث أمیرالمؤمنین ، و حدیث أمیر المؤمنین حدیث رسول اللّہ ۖ و حدیث رسول اللّہ قول اللّہ عزّ وجلّ.(٢)
میری حدیث میرے والد (امام باقر ـ)کی حدیث ہے ،
.............
(١)جامع الاحادیث الشیعہ جلد١ ص ١٢٩
(٢) گذشتہ حوالہ ص ١٢٧
اور میرے والد کی حدیث میرے دادا (امام زین العابدین ـ) کی حدیث ہے اور میرے دادا کی حدیث امام حسین ـ کی حدیث ہے اور امام حسین ـ کی حدیث امام حسن ـ کی حدیث ہے اور امام حسن ـ کی حدیث امیر المومنین ـ کی حدیث ہے اور امیر المومنین ـکی حدیث رسول خدا ۖکی حدیث ہے اور رسول خدا ۖکی حدیث خداوندمتعال کا قول ہے .
٢۔امام محمد باقر ـنے جابر سے یوں فرمایا تھا :
حدثن أب عن جد رسول اللّہ ۖ عن جبرائیل ـ عن اللّہ عزّوجلّ و کلما أحدّثک بھذا الأسناد.(١)
میرے پدربزرگوار نے میرے دادا رسول خدا ۖ سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور انہوں نے خداوندعالم سے روایت کی ہے اور جو کچھ میں تمہارے لئے بیان کرتا ہوں ان سب کا سلسلہ سند یہی ہوتا ہے.
.............
(١) گذشتہ حوالہ ص١٢٨


اہل بیت پیغمبرۖ سے تمسک کے اہم اور ضروری ہونے کے دلائل
شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے محدثین اس بات کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول خدا ۖ
نے بھی میراث کے طور پر اپنی امت کے لئے دو قیمتی چیزیں چھوڑی ہیں اور تمام مسلمانوں کو ان کی پیروی کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک کتاب خدا ہے اور دوسرے آنحضرتۖ کے اہل بیت ہیں یہاں ہم نمونے کے طور پر ان روایات میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :
١۔ ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ انصاری سے اور انہوں نے نبی اکرمۖ سے روایت کی ہے :
یاأیّھا النّاس اِنّ قد ترکت فیکم ما اِن أخذتم بہ لن تضلّوا : کتاب اللّہ و عترت أہل بیت.(١)
اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ کتاب خدا اور میری عترت ہیں.
٢۔اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب صحیح میں یہ حدیث نقل کی ہے :
قال رسول اللّہ ۖ اِنّ تارک فیکم ما اِن تمسکتم بہ لن تضلّوا بعد أحدھما أعظم من الآخر : کتاب اللّہ حبل ممدود من السماء اِلیٰ الأرض و عترت أھل بیت ولن یفترقا حتیٰ یردا
.............
(١)صحیح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اہل بیت النبی جلد٥ ص ٦٦٢ حدیث ٣٧٨٦ طبع بیروت.
علّ الحوض فانظروا کیف تخلفون فیھما.(١)
میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے . ان دو چیزوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک آویزاں ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.
٣۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں پیغمبراکرم ۖ سے یہ روایت نقل کی ہے:
ألا أیّھا النّاس فاِنّما أنا بشر یوشک أن یأت رسول ربّ فأجیب و أنا تارک فیکم ثقلین أولھما کتاب اللّہ فیہ الھدیٰ والنور فخدوا بکتاب اللّہ واستمسکوا بہ فحثّ علیٰ کتاب اللّہ و رغّب فیہ ثم قال : أہل بیت أذکرکم اللّہ ف أہل بیت أذکرکم اللّہ ف أہل بیت أذکرکم اللّہ ف أہل بیت.(٢)
.............
(١) گذشتہ حوالہ ص ٦٦٣ حدیث ٣٧٨٨.
(٢)صحیح مسلم جز ٧ فضائل علی ابن ابی طالب ص ١٢٢ اور ١٢٣.

اے لوگو!بے شک میں ایک بشر ہوںاور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اسکی دعوت قبول کروں اور میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہاہوں ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر اسلامۖ نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اور اس کے بعد یوں فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور میں تمہیں اپنے اہل بیت کے سلسلے میں وصیت و تاکید کرتا ہوں اور اس جملے کو تین مرتبہ دہرایا .
٤۔بعض محدثین نے پیغمبراسلامۖ سے یہ روایت نقل کی ہے:
اِنّ تارک فیکم الثقلین کتاب اللّہ و أہل بیتو اِنّھما لن یفترقا حتیٰ یردا علّ الحوض(١)
بے شک! میں تمہارے درمیان دووزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں .
.............
(١)مستدرک حاکم جز ٣ ص ١٤٨ ، الصواعق المحرقہ باب ١١ فصل اول ص ١٤٩ اس مضمون کے قریب بعض
درج ذیل کتابوں میں بھی روایات موجود ہیں.مسنداحمد جز ٥ ص١٨٢اور ١٨٣۔کنز العمال ،جز اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ٤٤.
یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس سلسلے میں اتنی زیادہ حدیثیں موجود ہیں کہ ان سب کا اس مختصر کتاب میں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے.علامہ میرحامد حسین نے اس روایت کے سلسلۂ سند کو اپنی چھ جلدوں والی کتاب (عبقات الانوار) میں جمع کر کے پیش کیا ہے.
گذشتہ احادیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ کتاب خدا اور سنت نبویۖ کے ساتھ ساتھ آنحضرتۖ کے اہل بیتۖ سے تمسک اور ان کی پیروی بھی اسلام کے ضروریات میں سے ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عترت پیغمبر ۖسے مراد کون افراد ہیں کہ جن کی پیروی کو نبی اکرم ۖ نے سب مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے ؟
اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ہم احادیث کی روشنی میں عترت نبیۖ کے سلسلے میں تحقیق پیش کرنا چاہیں گے:

اہل بیت پیغمبر ۖکون ہیں؟
گذشتہ روایات سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبراسلامۖ نے سب مسلمانوں کو اپنی عترت کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور کتاب خدا کی طرح انہیں بھی لوگوں کا مرجع قرار دیا ہے اور صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ ''قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے'' اس بنیاد پر اہل بیت پیغمبرۖ وہ ہیں کہ جنہیں آپۖ نے قرآن مجید کا ہم پلہ قرار دیا ہے اور جو معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ معارف اسلامی سے مکمل طور پر آگاہی رکھتے ہیں.کیونکہ اگر وہ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو قرآن مجید سے جدا ہو جائیں گے جبکہ پیغمبراسلام ۖ نے فرمایا ہے کہ : قرآن اور عترت ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں . اس طرح یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بیت ٪ اور ان کی اعلی صفات کی صحیح طور پر شناخت ایک ضروری امر ہے اب ہم اس سلسلے میں مسلمانوں کے درمیان بزرگ سمجھنے جانے والے محدثین سے منقول روایات کی روشنی میں چند واضح دلیلیں پیش کریں گے :
١۔ مسلم بن حجاج نے حدیث ثقلین کا ذکر کرنے کے بعد یوں کہا ہے کہ:
''یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے پوچھا اہل بیت پیغمبرۖ کون ہیں ؟ کیا وہ پیغمبراکرم ۖ کی بیویاں ہیں؟'' زید بن ارقم نے جواب دیا :
لا و أیم اللّہ اِنّ المرأہ تکون مع الرجل العصر من الدھر ثم یطلّقھا فترجع اِلیٰ أبیھا و قومھا أھل بیتہ أصلہ و عصبتہ الذین حرموا الصدقة بعدہ.(١)
نہیں خدا کی قسم عورت جب ایک مدت تک کسی مرد کے ساتھ رہتی ہے اور پھر وہ مرد اسے طلاق دے دیتاہے تو وہ عورت اپنے باپ اور رشتے داروں کے پاس واپس چلی جاتی ہے اہل بیت
.............
(١)صحیح مسلم جز ٧ باب فضائل علی بن ابی طالب ـ ،ص ١٣٢طبع مصر.
پیغمبرۖ سے مراد وہ افراد ہیں جو پیغمبراکرمۖ کے اصلی اور قریبی رشتہ دار ہیں کہ جن پر آنحضرتۖ کے بعد صدقہ حرام ہے.
یہ قول بخوبی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ وہ عترت پیغمبرۖ جن سے تمسک قرآن کی پیروی کی طرح واجب ہے ان سے ہرگز آنحضرتۖ کی بیویاں مراد نہیں ہیں بلکہ اہل بیت پیغمبرۖ سے وہ افراد مراد ہیں جو آنحضرتۖ سے جسمانی اور معنوی رشتہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر چندخاص صلاحتیں بھی پائی جاتی ہوں.تبھی تو وہ قرآن مجید کی طرح مسلمانوں کا مرجع قرار پاسکتے ہیں.
٢۔پیغمبراکرمۖ نے صرف اہل بیت ٪ کے اوصاف بیان کرنے پر ہی اکتفاء نہیں کی تھی بلکہ حضور اکرمۖ نے ان کی تعداد (جو کہ بارہ ہے)کو بھی صاف لفظوں میں بیان کردیا تھا :
مسلم نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ہے:
سمعت رسول اللّہ ۖ یقول: لایزال الاِسلام عزیزًا اِلیٰ اثن عشر خلیفة ثم قال کلمة لم أفھمھا فقلت لأب ماقال ؟ فقال: کلھم من قریش.(١)
میں نے پیغمبرخدا ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبراکرمۖ نے کوئی لفظ
.............
(١)صحیح مسلم جلد ٦ ص٣ طبع مصر.
کہا جسے میں نہیں سمجھ سکا لہذا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبراکرمۖ نے کیا فرمایا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا ہے کہ وہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے .
مسلم بن حجاج نے اسی طرح رسول خداۖ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے :
لایزال أمر الناس ماضیًا ماولیھم اثنا عشر رجلاً.(١)
لوگوں کے امور اس وقت تک بہترین انداز میں گزریں گے جب تک ان کے بارہ والی رہیں گے.
یہ دو روایتیں شیعوں کے اس عقیدے کی واضح گواہ ہیں'' کہ پیغمبراسلامۖ کے بعد عالم اسلام کے بارہ امام ہی لوگوں کے حقیقی پیشوا ہیں'' کیونکہ اسلام میں ایسے بارہ خلفاء جو پیغمبراسلامۖ کے بعد بلافاصلہ مسلمانوں کے مرجع اور عزت اسلام کا سبب بنے ہوں ، اہل بیت کے بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے کیونکہ اگر اہل سنت کے درمیان خلفاء راشدین کہے جانے والے چار خلفاء سے صرف نظر کرلیا جائے پھر بھی بنی امیہ اور بنی عباس کے حکمرانوں کی تاریخ اس بات کی بخوبی گواہی دیتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے برے کردار کی وجہ سے اسلام اور مسلمین کی رسوائی کا سبب بنتے رہے ہیںاس اعتبار سے وہ (اہل بیت)کہ جنہیں پیغمبراسلام ۖ نے قرآن مجید کا ہم پلہ اور مسلمانوں کا مرجع
.............
(١) گذشتہ حوالہ.
قرار دیا ہے وہ عترت نبیۖ کے وہی بارہ امام ہیں جو سنت نبیۖ کے محافظ اور آنحضرتۖ کے علوم کے خزینہ داررہے ہیں.
٣۔حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالبـ کی نگاہ میں بھی مسلمانوں کے ائمہ کو بنی ہاشم سے ہونا چاہیے یہ بات شیعوں کے اس نظرئیے (کہ اہل بیت کی شناخت حاصل کرنا ضروری ہے) پر ایک اور واضح دلیل ہے . حضرت امام علی ـ فرماتے ہیں:
اِنّ الأئمة من قریش غرسوا ف ھذا البطن من بن ہاشم لاتصلح علیٰ مَن سواھم ولا تصلح الولاة من غیرھم۔(١)
یاد رکھو قریش کے سارے امام جناب ہاشم کی اسی کشت زار میں قرار دئیے گئے ہیں اور یہ امامت نہ ان کے علاوہ کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ ان سے باہر کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے.

نتیجہ:
گزشتہ روایات کی روشنی میں دو حقیقتیں آشکار ہوجاتی ہیں:
١۔قرآن مجید کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اہل بیت ٪ سے تمسک اور ان کی پیروی بھی واجب ہے .
٢۔پیغمبر اسلام کے اہل بیت جو قرآن مجید کے ہم پلہ اور مسلمانوں کے مرجع ہیں مندرجہ ذیل خصوصیات کے مالک ہیں:
.............
(١)نہج البلاغہ (صبحی صالح)خطبہ ١٤٤.
الف:وہ سب قبیلۂ قریش اور بنی ہاشم کے خاندان میں سے ہیں.
ب:وہ سب پیغمبراکرمۖ کے ایسے رشتہ دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے .
ج:وہ سب عصمت کے درجے پر فائز ہیں ورنہ وہ عملی طور پر کتاب خدا سے جدا ہوجائیں گے جبکہ پیغمبراکرمۖ کا ارشاد ہے کہ یہ دونوں(قرآن و عترت) ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں گے .
د:ان کی تعداد بارہ ہے جو یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے امام ہوں گے.
ھ:پیغمبراکرمۖ کے یہ بارہ خلفاء اسلام کی عزت و شوکت کا سبب بنیںگے.
گذشتہ روایات میںموجود اوصاف کو مدنظر رکھنے سے یہ بات آفتاب کی مانند روشن ہوجاتی ہے کہ وہ اہل بیت جن کی پیروی کا پیغمبراکرمۖ نے حکم فرمایا ہے ان سے آنحضرتۖ کی مراد وہی بارہ ائمہ٪ ہیں جن کی پیروی کرنے اور احکام فقہ میں ان سے تمسک اختیار کرنے کو شیعہ اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں۔