شيعہ جواب ديتے ہيں


ستائیسواں سوال

شیعہ پانچ نمازوں کو تین اوقات میں کیوں پڑھتے ہیں؟

جواب: بہتر ہے کہ اس بحث کی وضاحت کے لئے سب سے پہلے اس بارے میں فقہاء کے نظریات بیان کردئیے جائیں :
١۔سارے اسلامی فرقے اس مسئلہ پر متفق ہیں کہ میدان'' عرفات'' میں ظہر کے وقت نماز ظہر اور نماز عصر کو اکھٹا اور بغیر فاصلے کے پڑھا جاسکتا ہے اسی طرح ''مزدلفہ'' میں عشا کے وقت نماز مغرب اور عشا کو ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے .
٢۔حنفی فرقہ کا کہنا ہے کہ : نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا ایک وقت میں پڑھنا صرف دو ہی مقامات ''میدان عرفات'' اور ''مزدلفہ'' میں جائز ہے اور باقی جگہوں پر اس طرح ایک ساتھ نمازیں نہ پڑھی جائیں .
٣۔حنبلی، مالکی اور شافعی فرقوں کا کہنا ہے کہ: نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ان گزشتہ دو مقامات کے علاوہ سفر کی حالت میں بھی ایک ساتھ ادا کیا جاسکتا ہے ان فرقوں میں سے کچھ لوگ بعض اضطراری موقعوں جیسے بارش کے وقت یا نمازی کے بیمار ہونے پر یا پھر دشمن کے ڈر سے ان نمازوں کو ساتھ میں پڑھنا جائز قرار دیتے ہیں (١)
٤۔شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر اور اسی طرح نماز مغرب و عشاء کے لئے ایک ''خاص وقت'' ہے اور ایک ''مشترک وقت'':
الف:نماز ظہر کا خاص وقت شرعی ظہر (زوال آفتاب) سے لیکر اتنی دیر تک ہے جس میں چار رکعت نما زپڑھی جاسکے .
ب: نمازعصر کا مخصوص وقت وہ ہے کہ جب غروب آفتاب میں اتنا وقت باقی بچا ہو کہ اس میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے.
ج:نماز ظہر و عصر کا مشترک وقت نماز ظہر کے مخصوص وقت کے ختم ہونے اور نماز عصر کے مخصوص وقت کے شروع ہونے تک ہے.
شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان تمام مشترک اوقات میں نماز ظہر و عصر کو اکٹھا اور فاصلے کے بغیر پڑھ سکتے ہیں.
لیکن اہل سنت کہتے ہیں : کہ نماز ظہر کا مخصوص وقت، شرعی ظہر (زوال آفتاب) سے لیکر اس وقت تک ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے اس وقت میں نماز عصر نہیں پڑھی جاسکتی اور اس کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک نماز عصر کا مخصوص وقت ہے اس وقت میں نماز ظہر نہیں پڑھی جاسکتی.
د:نماز مغرب کا مخصوص وقت شرعی مغرب کی ابتدا سے لے کر اس وقت تک ہے
.............
(١)''الفقہ علی المذاھب الاربعہ'' کتاب الصلوة الجمع بین الصلا تین تقدیمًا و تاخیرًا ، سے اقتباس
کہ جس میں تین رکعت نماز پڑھی جاسکتی ہے .اس وقت میں صرف نماز مغرب ہی پڑھی جاسکتی ہے.
ھ: نماز عشاء کا مخصوص وقت یہ ہے کہ جب آدھی رات میں صرف اتنا وقت رہ جائے کہ اس میں چار رکعت نماز پڑھی جاسکے تواس کوتاہ وقت میں صرف نماز عشاء ہی پڑھی جائے گی۔
و: مغرب و عشاء کی نمازوں کا مشترک وقت نماز مغرب کے مخصوص وقت کے ختم ہونے سے لے کر نماز عشاء کے مخصوص وقت تک ہے.
شیعہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس مشترک وقت کے اندر مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے ادا کی جاسکتی ہیں لیکن اہل سنت یہ کہتے ہیں کہ نماز مغرب کا مخصوص وقت غروب آفتاب سے لے کر مغرب کی سرخی زائل ہونے تک ہے اور اس وقت میں نماز عشاء نہیں پڑھی جاسکتی پھر مغرب کی سرخی کے زائل ہونے سے لیکر آدھی رات تک نماز عشاء کا خاص وقت ہے اور اس وقت میں نماز مغرب ادا نہیں کی جاسکتی.
نتیجہ:یہ نکلتا ہے کہ شیعوں کے نظرئیے کے مطابق شرعی ظہر کا وقت آجانے پر نماز ظہر بجالانے کے بعد بلافاصلہ نماز عصر ادا کرسکتے ہیں نماز ظہر کو اس وقت نہ پڑھ کر نماز عصر کے خاص وقت تک پڑھتے ہیں۔ اس طرح کہ نماز ظہر کو نماز عصر کے خاص وقت کے پہنچنے سے پہلے ختم کردیں اور اس کے بعد نماز عصر پڑھ لیں اس طرح نماز ظہر و عصرکو جمع کیا جاسکتا ہے اگرچہ مستحب یہ ہے کہ نماز ظہر کو زوال کے بعد ادا کیا جائے اور نماز عصر کو اس وقت ادا کیا جائے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے.
اسی طرح شرعی مغرب کے وقت نماز مغرب کے بجالانے کے بعد بلا فاصلہ نماز عشا پڑھ سکتے ہیں یا پھر اگر چاہیں تو نماز مغرب کو نماز عشاء کے خاص وقت کے قریب پڑھیں وہ اس طرح کہ نماز مغرب کو نماز عشاء کے خاص وقت کے پہنچنے سے پہلے ختم کردیں اور اس کے بعد نماز عشاء پڑھ لیں اس طرح نماز مغرب و عشاء کو ساتھ میں پڑھا جاسکتا ہے . اگرچہ مستحب یہ ہے کہ نماز مغرب کو شرعی مغرب کے بعد ادا کیا جائے اور نماز عشاء کو مغرب کی سرخی کے زائل ہوجانے کے بعد بجالایا جائے یہ شیعوں کو نظریہ تھا .
لیکن اہل سنت کہتے ہیں کہ نماز ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کو کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت میں ایک ساتھ ادا کرنا صحیح نہیں ہے اس اعتبار سے بحث اس میں ہے کہ کیا ہر جگہ اور ہر وقت میں دو نمازیں ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں ٹھیک اسی طرح جیسے میدان عرفہ اور مزدلفہ میں دو نمازوں کو ایک ساتھ ایک ہی وقت میں پڑھا جاتا ہے .
٥۔سارے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ پیغمبراکرمۖ نے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھی تھیں لیکن اس روایت کی تفسیر میں دو نظرئیے پائے جاتے ہیں :
الف: شیعہ کہتے ہیں کہ اس روایت سے مراد یہ ہے کہ نماز ظہر کے ابتدائی وقت میں ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد نماز عصر کو بجالایا جاسکتا ہے اور اسی طرح نماز مغرب کے ابتدائی وقت میں مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد نماز عشا کو پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مسئلہ کسی خاص وقت اور کسی خاص جگہ یا خاص حالات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہر جگہ اور ہر وقت میں ایک ساتھ دونمازیں ادا کی جاسکتی ہیں .
ب:اہل سنت کہتے ہیں مذکورہ روایت سے مراد یہ ہے کہ نماز ظہر کو اس کے آخری وقت میں اور نماز عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا جائے اور اسی طرح نماز مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور نماز عشاء کو اس کے اول وقت میں پڑھاجائے .
اب ہم اس مسئلے کی وضاحت کے لئے ان روایات کی تحقیق کرکے یہ ثابت کریں گے کہ ان روایات میں دو نمازوں کو جمع کرنے سے وہی مراد ہے جو شیعہ کہتے ہیں . یعنی دو نمازوں کو ایک ہی نماز کے وقت میں پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مراد نہیں ہے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کواس کے اول وقت میں پڑھا جائے :
روایات میں دو نمازوں کے ایک ہی ساتھ پڑھنے کا تذکرہ
١۔احمد ابن حنبل نے اپنے کتاب مسند میں جابر بن زید سے روایت کی ہے
أخبرن جابر بن زید أنہ سمع ابن عباس یقول: صلّیت مع رسول اللّہ ۖ ثمانیًا جمیعًا، و سبعًا جمیعًا قال قلت لہ یا أبا الشعثاء أظنّہ أخّرالظھر وعجّل العصر و أخّر المغرب وعجّل العشاء قال وأنا أظن ذلک.(١)
.............
(١)مسند احمد ابن حنبل ، جلد١ ص ٢٢١
جابر بن زید کا بیان ہے کہ انہوں نے ابن عباس سے سنا ہے کہ وہ کہہ رہے تھے : میں نے پیغمبراکرمۖ کے ساتھ آٹھ رکعت نماز (ظہر و عصر) اور سات رکعت نماز (مغرب وعشاء ) کو ایک ساتھ پڑھا ہے ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابوشعثاء سے کہا: میرا یہ گمان ہے کہ رسول خداۖ نے نماز ظہر کو تاخیر سے پڑھا ہے اور نماز عصر کو جلد ادا کیا ہے اسی طرح نماز مغرب کو بھی تاخیر سے پڑھا ہے اور نماز عشاء کو جلدی ادا کیا ہے ابوشعثاء نے کہا میرا بھی یہی گمان ہے .
اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کوایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے پڑھا تھا .
٢۔احمد ابن حنبل نے عبداللہ بن شقیق سے درج ذیل روایت نقل کی ہے :
''خطبنا ابن عباس یومًا بعد العصر حتی غربت
الشمس و بدت النجوم و علق الناس ینادونہ
الصلاة و ف القوم رجل من بن تمیم فجعل یقول:
الصلاة الصلاة : قال فغضب قال أتعلّمن بالسنة؟
شھدت رسول اللّہ ۖ جمع بین الظہر والعصر
والمغرب والعشاء . قال عبداللہ فوجدت ف
نفس من ذلک شیئًا فلقیت أباھریرة فسألتہ
فوافقہ''(١)
.............
(١)مسند احمد، جلد١ ص ٢٥١.
ایک دن عصر کے بعد ابن عباس نے ہمارے درمیان خطبہ دیا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے اور لوگ نماز کی ندائیں دینے لگے ان میں سے بنی تمیم قبیلے کا ایک شخص''نماز '' ''نماز '' کہنے لگا ابن عباس نے غصے میں کہا کیا تم مجھے سنت پیغمبر کی تعلیم دینا چاہتے ہو؟ میں نے خود رسول خداۖ کو ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھتے دیکھا ہے عبداللہ نے کہا اس مسئلے سے متعلق میرے ذہن میں شک پیدا ہوگیا تو میں ابوہریرہ کے پاس گیا اور ان سے سوال کیا تو انہوں نے ابن عباس کی بات کی تائید کی .
اس حدیث میں دو صحابی ''عبداللہ ابن عباس'' اور ''ابوہریرہ'' اس حقیقت کی گواہی دے رہے ہیں کہ پیغمبراکرم ۖ نے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا ہے اور ابن عباس نے بھی پیغمبراکرم ۖ کے اس عمل کی پیروی کی ہے.
٣۔مالک بن انس کا اپنی کتاب ''موطأ'' میں بیان ہے:
صلّیٰ رسول اللّہ ۖ الظہر والعصر جمیعًا والمغرب والعشاء جمیعًا ف غیر خوف ولا سفر(١)
.............
(١)موطأ مالک ، کتاب الصلوة طبع ٣ (بیروت) ص ١٢٥ حدیث ١٧٨ صحیح مسلم جلد ٢ ص ١٥١ طبع بیروت ، باب
الجمع بین الصلاتین فی الحضر.
رسول خدا ۖ نے ظہر وعصر اور مغرب و عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھی تھیں جبکہ نہ تو کسی قسم کا خوف تھا اور نہ ہی آپۖ سفر میں تھے .
٤۔مالک بن انس نے معاذبن جبل سے یہ روایت نقل کی ہے :
فکان رسول اللّہ ۖ یجمع بین الظہر والعصر والمغرب والعشائ(١)
رسول خدا ۖ نماز ظہر عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ بجالاتے تھے .
٥۔ مالک بن انس نے نافع سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے یوں روایت نقل کی ہے :
کان رسول اللّہ ۖ اِذا عجّل بہ السیر یجمع بین المغرب والعشائ.(٢)
جس وقت رسول خداۖ کو کوئی مسافت جلدی طے کرنی ہوتی تو وہ مغرب و عشاء کی نمازوں کوایک ساتھ بجالاتے تھے .
٦۔مالک ابن انس نے ابوہریرہ سے یوں روایت نقل کی ہے :
.............
(١)موطا مالک کتاب الصلوة صفحہ ١٣٤ حدیث ١٧٦ طبع ٣ بیروت سال طبع ١٤٠٣ھ. صحیح مسلم طبع مصر جز ٢ صفحہ ١٥٢.
(٢) موطأ مالک کتاب الصلوة ص ١٢٥ حدیث ١٧٧.
ن رسو ل اللہ ۖ کان یجمع بین الظہر والعصر ف سفرہ اِلی تبوک (١)
پیغمبراکرمۖ نے تبوک کے راستے میں ظہر و عصر کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں تھیں .
٧۔مالک نے اپنی کتاب موطأ میں نافع سے یوں روایت نقل کی ہے :
ن عبداللّہ بن عمر کان اِذا جمع الأمراء بین المغرب والعشاء ف المطر جمع معھم (٢)
جب بھی بارش کے دوران حکام مغرب اور عشاء کو اکھٹا پڑھتے تھے تو عبداللہ بن عمر بھی ان کے ساتھ اپنی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرتے تھے.
٨۔مالک ابن انس نے علی بن حسین سے یوں نقل کیا ہے :
کان رسول اللّہ ۖ اِذا أراد أن یسیر یومہ جمع بین الظہر والعصر و اِذا أراد أن یسیر لیلہ جمع بین المغرب والعشاء (٣)
.............
(١)موطأ مالک کتاب الصلوة ص ١٢٤ حدیث ١٧٥.
(٢) موطأ مالک کتاب الصلوة ص ١٢٥ حدیث ١٧٩.
(٣)موطأ مالک، کتاب الصلوة ص ١٢٥ حدیث ١٨١.
پیغمبراکرم ۖ جب دن میں سفر کرنا چاہتے تھے تو ظہر اور عصر کی نمازوں کو اکھٹا ادا کرلیا کرتے تھے اور جب رات میں سفر کرنا ہوتا تھا تو مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھتے تھے .
٩۔ محمد زرقانی نے موطأ کی شرح میں ابن شعثا سے یوں روایت نقل کی ہے
اِنّ ابن عباس صلّیٰ بالبصرة الظھر والعصر لیس بینھما شء والمغرب والعشاء لیس بینھما شء (١)
بے شک ابن عباس نے بصرہ میں نماز ظہر و عصر کو ایک ساتھ اور بغیر فاصلے کے پڑھا تھا اور اسی طرح نماز مغرب وعشاء کو بھی اکھٹا اور بغیر فاصلے کے بجالائے تھے
١٠۔زرقانی نے طبرانی سے اور انھوںنے ابن مسعود سے نقل کیا ہے :
جمع النبّ ۖ بین الظہر والعصر و بین المغرب والعشاء فقیل لہ ف ذلک فقال : صنعت ھذا لئلا تحرج أمت(٢)
پیغمبراکرمۖ نے جب نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تو آنحضرتۖ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا
.............
(١)موطأپرزرقانی کی شرح ، جز اول باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر والسفر ص ٢٩٤طبع مصر.
(٢)گزشتہ حوالہ.
جواب میں آپ ۖنے فرمایا کہ میں نے اس عمل کو اس لئے انجام دیا ہے تاکہ میری امت مشقت میں نہ پڑ جائے.
١١۔مسلم بن حجاج نے ابوزبیر سے اور انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے یوں روایت نقل کی ہے :
صلّیٰ رسول اللّہ ۖ بین الظہر والعصرجمیعًا بالمدینة ف غیر خوف ولاسفر(١)
پیغمبراکرمۖ نے مدینہ منورہ میں بغیر خوف و سفر کے نماز ظہر و عصر کوایک ساتھ پڑھا تھا .
اس کے بعد ابن عباس نے پیغمبر اکرمۖ کے اس عمل کے بارے میں کہا کہ :
آنحضرت چاہتے تھے کہ ان کی امت میں سے کوئی بھی شخص مشقت میں نہ پڑ نے پائے (٢)
١٢۔مسلم نے اپنی کتاب صحیح میں سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے یوں روایت نقل کی ہے :
جمع رسول اللّہ ۖ بین الظہر والعصر والمغرب والعشاء ف المدینة من غیر خوف
.............
(١)صحیح مسلم جزء ٢ ص ١٥١ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر ،طبع مصر .
(٢)یہ مطلب گزشتہ کتاب میں اسی حدیث کے ذیل میں مذکور ہے.
ولامطر. (١)
پیغمبر اکرمۖ نے مدینہ منورہ میں بغیر خوف اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا.
اس وقت سعید ابن جبیر نے ابن عباس سے پوچھا کہ پیغمبر اکرمۖ نے اس طرح کیوں کیا؟ تو ابن عباس نے کہا آنحضرت ۖ اپنی امت کو زحمت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے. (٢)
١٣۔ابوعبداللہ بخاری نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں اس سلسلے میں ''باب تأخیر الظہراِلی العصر '' کے نام سے ایک مستقل باب قرار دیا ہے.(٣)
یہ خود عنوان اس بات کا بہترین گواہ ہے کہ نماز ظہر میں تاخیر کرکے اسے نماز عصر کے وقت میں اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اس کے بعد بخاری نے اسی مذکورہ باب میں درج ذیل روایت نقل کی ہے :
نّ النبّ ۖ صلّیٰ بالمدینة سبعًا و ثمانیًا الظھر والعصر والمغرب والعشاء (٤)
.............
(١)گزشتہ حوالہ، صفحہ نمبر ١٥٢ .
(٢)یہ مطلب گزشتہ کتاب کے صفحہ ص ١٥٢ میں اسی حدیث کے ذیل میں مذکور ہے .
(٣)صحیح بخاری جز اول ص ١١٠ کتاب الصلوة باب تاخیر الظہر الی العصر طبع مصر نسخہ امیریہ ١٣١٤ھ.
(٤) گزشتہ حوالہ.
بہ تحقیق پیغمبر اکرمۖنے مدینہ میں سات رکعت (نماز مغرب و عشائ) اور آٹھ رکعت (نماز ظہر وعصر)پڑھی ہیں .
اس روایت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جس طرح نماز ظہر میں تاخیر کرکے اسے نماز عصر کے وقت میں نماز عصر کے ساتھ بجالایا جاسکتا ہے ،اسی طرح سیاق حدیث میں موجود قرینہ اور پیغمبراکرم ۖ کی سیرت سے سمجھ میں آتاہے کہ نماز مغرب میں بھی دیر کر کے اسے نماز عشاء کے وقت میں نماز عشاء کے ساتھ بجالایا جاسکتا ہے .
١٤۔بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں ایک اور مقام پر لکھاہے :
قال ابن عمر و أبو أیوب و ابن عباس رض اللّہ عنھم صلّیٰ النبّ ۖ المغرب والعشاء (١)
عبد اللہ بن عمر و ابوایوب انصاری اور عبداللہ بن عباس نے کہا ہے کہ : پیغمبرخداۖ نے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا ہے.
بخاری اس حدیث سے مسلم طور پر یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ پیغمبر اکرمۖ نے نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھا کیونکہ یہ تو یقینی ہے کہ بخاری ہرگز اس حدیث کے ذریعے حضورۖ کے نمازی ہونے کو ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے .
.............
(١)صحیح بخاری جز اول کتاب الصلوة باب ذکر العشاء ص ١١٣ طبع مصر ١٣١٤ھ.
١٥۔مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں بیان کیا ہے :
قال رجل لابن عباس الصلاة فسکت ثم قال الصلاة فسکت ثم قال الصلاة فسکت ثم قال:لا أم لک أتعلمنا بالصلٰوة و کنّا نجمع بین الصلا تین علیٰ عھد رسول اللّہ . ۖ(١)
ایک شخص نے ابن عباس سے کہا : ''نماز'' تو ابن عباس نے کچھ نہ کہا اس شخص نے پھر کہا ''نماز'' پھر بھی ابن عباس نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اس شخص نے پھر کہا ''نماز'' لیکن ابن عباس نے پھر کوئی جواب نہیں دیا جب اس شخص نے چوتھی مرتبہ کہا: ''نماز'' تب ابن عباس بولے او بے اصل!تم ہمیں نماز کی تعلیم دینا چاہتے ہو ؟ جبکہ ہم پیغمبر خداۖ کے زمانے میں دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالایا کرتے تھے .
١٦۔مسلم نے یوں روایت نقل کی ہے :
اِنّ رسول اللّہ ۖ جمع بین الصلاة ف سفرة سافرھا ف غزوة تبوک فجمع بین الظہر والعصر والمغرب والعشاء . قال سعید فقلت: لابن عباس:
.............
(١)صحیح مسلم جز ٢ ص ١٥٣ باب الجمع بین الصلاتین فی الحضر
ما حملہ علی ذلک ؟ قال أراد أن لایحرج اُمتہ (١)
پیغمبر خداۖ نے غزوہ تبوک کے سفر میں نمازوں کو جمع کر کے نماز ظہر و عصر اور مغرب عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھا سعید بن جبیر نے کہا کہ میں نے ابن عباس سے آنحضرتۖ کے اس عمل کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا آنحضرت چاہتے تھے کہ ان کی امت مشقت میں نہ پڑ ے .
١٧۔ مسلم ابن حجاج نے معاذ سے اس طرح نقل کیا ہے :
خرجنا مع رسول اللّہ ۖ ف غزوة تبوک فکان یُصلّ الظہر والعصر جمیعًا والمغرب و العشاء جمیعًا.(٢)
ہم پیغمبرخداۖ کے ساتھ غزوہ تبوک کی طرف نکلے تو آنحضرت ۖ نے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب وعشاء کو ایک ساتھ پڑھا .
١٨۔مالک ابن انس کا اپنی کتاب ''الموطأ'' میں بیان ہے کہ :
عن ابن شھاب أنّہ سأل سالم بن عبداللہ : ھل یجمع بین الظہر والعصر ف السفر؟ فقال نعم
.............
(١)صحیح مسلم جز ٢ ص ١٥١ طبع مصر
(٢)گزشتہ حوالہ
لابأس بذلک ، ألم تر الیٰ الصلاة الناس بعرفة ؟(١)
ابن شہاب نے سالم بن عبد اللہ سے سوال کیا کہ کیا حالت سفر میں نماز ظہر و عصر کو ایک ساتھ بجالایا جاسکتا تھا ؟ سالم بن عبداللہ نے جواب دیا ہاں اس کام میں کوئی حرج نہیں ہے کیا تم نے عرفہ کے دن لوگوںکو نماز پڑھتے نہیں دیکھا ہے؟
یہاں پر اس نکتے کا ذکر ضروری ہے کہ عرفہ کے دن نماز ظہر و عصر کو نماز ظہر کے وقت میں بجالانے کو سب مسلمان جائز سمجھتے ہیں اس مقام پر سالم بن عبداللہ نے کہا تھا کہ جیسے لوگ عرفہ کے دن دو نمازوں کو اکھٹا پڑھتے ہیں اسی طرح عام دنوں میں بھی دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا جاسکتا ہے .
١٩۔متقی ہندی اپنی کتاب ''کنزالعمال'' میں لکھتے ہیں :
قال عبداللّہ: جمع لنا رسول اللّہ ۖ مقیمًا غیر مسافر بین الظہر والعصر والمغرب والعشاء فقال رجل لابن عمر : لم تری النبّ ۖ فعل ذلک ؟ قال : لِأن لایحرج اُمتہ ان جمع رجل.(٢)
.............
(١)موطأ مالک ص ١٢٥ حدیث ١٨٠ طبع ٣ ،بیروت.
(٢) کنزالعمال کتاب الصلوة ،باب الرابع فی صلاة المسافر باب جمع جلد ٨ ص ٢٤٦ طبع ١حلب ١٣٩١ھ.
عبد اللہ ابن عمر نے کہا: کہ پیغمبر خداۖ نے بغیر سفر کے نماز ظہر
وعصر اور مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا ایک شخص نے ابن عمر سے سوال کیا کہ پیغمبراکرمۖ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو ابن عمر نے جواب دیا کہ آنحضرتۖ اپنی امت کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے تاکہ اگر کوئی شخص چاہے تو دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالائے .
٢٠۔اسی طرح کنزالعمال میں یہ روایت بھی موجود ہے :
عن جابر أنّ النبّ ۖ جمع بین الظہر والعصر بأذان و اِقامتین(١)
نبی اکرم ۖ نے ظہر وعصر کی نمازوں کو اکھٹا ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ پڑھا تھا .
٢١۔ کنزالعمال میں درج ذیل روایت بھی موجود ہے:
عن جابر أنّ رسول اللّہ ۖ غربت لہ الشمس بمکة فجمع بینھما بسرف(٢)
جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ مکہ میں ایک دفعہ جب آفتاب غروب ہوگیا تو رسول خداۖ نے ''سرف'' (٣)کے مقام پر نماز مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا.
.............
(١)کنزالعمال کتاب الصلوة ، باب الرابع فی صلوة المسافر باب جمع جلد٨ ص ٢٤٧ طبع ١ حلب.
(٢) گزشتہ حوالہ.
(٣)سرف مکہ سے نومیل کے فاصلے پر واقع مقام کا نام ہے (یہ بات کنزالعمال سے اسی حدیث کے ذیل سے ماخوذ ہے)
٢٢۔کنزالعمال میں ابن عباس سے یوں منقول ہے :
جمع رسول اللّہ ۖ بین الظہر والعصر والمغرب والعشاء بالمدینة ف غیر سفر ولا مطر قال : قلت لابن عباس : لم تراہ فعل ذلک؟ قال: أراد التوسعة علیٰ أمتہ(١)
پیغمبر خداۖ نے مدینہ میں بغیر سفر اور بارش کے نماز ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو اکھٹا پڑھا تھا. راوی کہتا ہے کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا آنحضرتۖ کے اس عمل کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ تو ابن عباس نے جواب دیا آنحضرتۖ اپنی امت کے لئے سہولت اور آسانی قرار دینا چاہتے تھے .

نتیجہ:
اب ہم گزشتہ روایات کی روشنی میں دو نمازوں کو جمع کرنے کے سلسلے میں شیعوں کے نظریہ کے صحیح ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے:
١۔دونمازوں کو ایک وقت میں ایک ساتھ بجالانے کی اجازت نمازیوں کی سہولت اور انہیں مشقت سے بچانے کے لئے دی گئی ہے.
متعدد روایات میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر نماز ظہر و عصر یا مغرب و
.............
(١)کنزالعمال ،کتاب الصلوة ، الباب الرابع ، باب جمع جلد ٨.
عشاء کو ایک وقت میں بجالانا جائز نہ ہوتا تو یہ امر مسلمانوں کے لئے زحمت و مشقت کا باعث بنتا اسی وجہ سے پیغمبر اسلامۖ نے مسلمانوں کی سہولت اور آسانی کے لئے دو نمازوں کو ایک وقت میں بجالانے کو جائز قرار دیا ہے (اس سلسلے میں دسویں ، سولہویں ، انیسویں ، اور بائیسویں حدیث کا مطالعہ فرمائیے)
واضح ہے کہ اگر ان روایات سے یہ مراد ہو کہ نماز ظہر کواسکے آخری وقت( جب ہر چیز کا سایہ اسکے برابر ہوجائے ) تک تاخیر کر کے پڑھا جائے اور نماز عصر کو اسکے اول وقت میں بجالایا جائے اس طرح ہر دو نمازیں ایک ساتھ مگر اپنے اوقات ہی میں پڑھی جائیں( اہل سنت حضرات ان روایات سے یہی مراد لیتے ہیں ) تو ایسے کام میں کسی طرح کی سہولت نہیں ہوگی بلکہ یہ کام مزید مشقت کا باعث بنے گا جبکہ دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالانے کی اجازت کا یہ مقصد تھا کہ نمازیوںکیلئے سہولت ہو.
اس بیان سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ گزشتہ روایات سے مراد یہ ہے کہ دو نمازوں کو ان کے مشترک وقت کے ہر حصے میں بجالایا جاسکتا ہے اب نماز گزار کو اختیار ہے کہ وہ مشترک وقت کے ابتدائی حصے میں نماز پڑھے یا اس کے آخری حصے میں اور ان روایات سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری کو اس کے اول وقت میں ادا کیا جائے.
٢۔روز عرفہ دونمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے حکم سے باقی دنوں میں نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے تمام اسلامی فرقوں کے نزدیک عرفہ کے دن ظہر وعصر کی نمازوں کو ایک وقت میں بجالانا جائز ہے (١)
مزیدبراں گزشتہ روایات میں سے بعض اس بات کی گواہ ہیں کہ میدان عرفات کی طرح باقی مقامات پر بھی نمازوں کو اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اب اس اعتبار سے روز عرفہ اور باقی عام دنوں کے درمیان یا عرفات کی سرزمین اور باقی عام جگہوں میں کوئی فرق نہیں ہے اس سلسلہ میں اٹھارویں حدیث کا مطالعہ فرمائیں .
لہذا جس طرح مسلمانوں کے متفقہ نظرئیے کے مطابق عرفہ میں ظہر و عصر کی نمازوں کو ظہر کے وقت پر ایک ساتھ پڑھا جاتا ہے اسی طرح عرفہ کے علاوہ بھی ان نمازوں کو ظہر کے وقت اکھٹا پڑھنا بالکل صحیح ہے .
٣۔سفر کی حالت میں دو نمازوں کو اکھٹا پڑھنے کے حکم سے غیر سفر میں بھی نمازوں کے ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے .ایک طرف سے حنبلی، مالکی، اور شافعی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حالت سفرمیں دو نمازوں کو اکھٹا بجالایا جاسکتا ہے اور دوسری طرف گزشتہ روایات صراحت کے ساتھ کہہ رہی ہیں کہ اس اعتبار سے سفر اور غیر سفر میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ پیغمبراکرمۖ نے دونوں حالتوں میں نمازوں کو اکھٹا پڑھا تھا.
(اس سلسلے میں تیسری، گیارہویں، تیرہویں، اور بائیسویں حدیث کا مطالعہ فرمائیں)
اس بنیاد پر (شیعوں کے نظرئیے کے مطابق) جس طرح حالت سفر میں دو
.............
(١)الفقہ علی المذاھب الاربعہ ، کتاب الصلوة ،الجمع بین الصلوٰتین تقدیما و تاخیرا .
نمازوں کو اکھٹا بجالانا صحیح ہے اسی طرح عام حالات میں بھی دو نمازوں کو اکھٹا پڑھا جاسکتا ہے .
٤۔اضطراری حالت میں دو نمازوں کے اکھٹا پڑھنے کے حکم سے عام حالت میں بھی نمازوں کے اکھٹا پڑھنے کا جواز معلوم ہوجاتا ہے.اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں میںسے بہت سی روایات اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ پیغمبراکرمۖ اور ان کے اصحاب نے چند اضطراری موقعوں پر جیسے بارش کے وقت یا دشمن کے خوف سے یا بیماری کی حالت میں نمازوں کو ایک ساتھ اور ایک ہی وقت میں (ٹھیک اسی طرح جیسے شیعہ کہتے ہیں) پڑھا تھا اور اسی وجہ سے مختلف اسلامی فرقوں کے فقہاء نے بعض اضطراری حالات میںدو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنا جائز قرار دیا ہے جب کہ گزشتہ روایات اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کررہی ہیں کہ اس سلسلے میں اضطراری اور عام حالت میں کوئی فرق نہیں ہے . اور پیغمبراکرمۖ نے دونوں حالتوں میں اپنی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا ہے .
اس سلسلے میں تیسری، گیارہویں ، اور بارہویں ، اور بائیسویں روایت کا مطالعہ کیجئے
٥۔اصحاب پیغمبرۖ کی روش سے دو نمازوں کے ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے.
گزشتہ روایات میں یہ نکتہ موجود ہے کہ آنحضرتۖ کے بہت سے اصحاب دو نمازوں کو ایک وقت میں بجالاتے تھے جیسے کہ عبداللہ ابن عباس نے نماز مغرب میں اتنی دیر کردی تھی کہ اندھیرا چھا گیا تھا اور آسمان پر ستارے چمکنے لگے تھے اور لوگوں نے نماز کی صدائیں دینا شروع کردی تھیں مگر ابن عباس نے ان کی طرف توجہ نہیں کی تھی سرانجام جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تب انہوں نے نماز مغرب و عشاء پڑھی تھی.اور اعتراض کرنے والوں کو یہ جواب دیا تھا : میں نے پیغمبراسلامۖ کو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے نیز ابوہریرہ نے بھی ابن عباس کی اس بات کی تائید کی تھی (اس سلسلے میں دوسری، ساتویں، نویں ، اور پندہوریں روایت کا مطالعہ فرمائیں)
گزشتہ روایات کی روشنی میں اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ پیغمبراسلامۖ کے صحابی ابن عباس نے شیعوں کی طرح دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھا تھا .
٦۔پیغمبراسلامۖ کی سیرت سے دو نمازوں کو ایک ساتھ بجالانے کا جواز معلوم ہوتا ہے. اکیسویں حدیث کی روشنی میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ نماز مغرب کے وقت پیغمبراکرمۖ مکہ مکرمہ میں تشریف فرماتھے لیکن آنحضرتۖ نے نماز مغرب میں تاخیر کی تھی اور ''سرف'' نامی علاقہ( جو مکہ سے نومیل کے فاصلے پر واقع تھا)میں پہنچ کر نماز مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا تھاجب کہ یہ واضح ہے کہ اگر آنحضرت مکہ سے مغرب کے اول وقت میں چلے ہوں گے تو اس زمانے کی کم رفتار سواری کے ذریعے سفر کرنے کی وجہ سے یقینا رات کا کافی حصہ گزر جانے کے بعد ہی سرف کے مقام تک پہنچے ہوں گے اسی وجہ سے حضورۖ نے مغرب و عشاء کی نمازوں کو ایک ساتھ پڑھا تھا اہل سنت حضرات کی صحیح اور مسند کتابوں سے منقول گزشتہ روایات شیعوں کے نظرئیے( ظہر و عصر یا مغرب و عشاء کی نمازوں کو ہر وقت ، ہر جگہ اور ہر طرح کی صورتحال میں ایک ساتھ پڑھنا جائز ہے )کے صحیح ہونے کی گواہی دیتی ہیں.