شيعہ جواب ديتے ہيں


چوبیسواں سوال

کیا غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہے؟

جواب: لفظ توحید اور شرک کے معنی جاننے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی آیات اورحدیثوںکا مطالعہ کیا جائے کیونکہ قرآن مجید اور سنت رسول ۖ حق کو باطل سے اور توحید کو شرک سے جدا کرنے کا بہترین معیار ہیں .
اس بنیاد پر بہتر ہے کہ ہر قسم کے نظریہ اور عمل کو قرآن اور سنت پیغمبر ۖ کی روشنی میں زندہ اور بے تعصب ضمیر کے ساتھ پرکھیں اب ہم یہاں پر قرآن و سنت سے غیر خدا کی قسم کھانے کے جائز ہونے پر چند دلیلیں پیش کریں گے :
١۔قرآن مجید میں چند محترم مخلوقات جیسے''پیغمبراکرمۖ ''اور ''روح انسان'' ''قلم'' ''سورج'' ''چاند'' ''ستارے'' ''دن اور رات'' ''آسمان اور زمین'' ''زمانے'' ''پہاڑ اور سمندر'' وغیرہ کی قسم کھائی گئی ہے یہاں ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :
الف: ( لَعَمْرُکَ ِنَّہُمْ لَفِ سَکْرَتِہِمْ یَعْمَہُونَ)(١)
.............
(١)سورہ حجر آیت ٧٢
(پیغمبرۖ!) آپ کی جان کی قسم یہ لوگ اپنی خواہش نفس کے نشے میں اندھے ہورہے ہیں.
ب: (وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَاة وَالْقَمَرِ ِذَا تَلاَہَاة وَالنَّہَارِ ِذَا جَلاَّہَاة وَاللَّیْلِ ِذَا یَغْشَاہَاة وَالسَّمَائِ وَمَا بَنَاہَاة وَالَْرْضِ وَمَا طَحَاہَاة وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَاة فََلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا... )(١)
آفتاب اور اس کی روشنی کی قسم. اور چاند کی قسم جب وہ اس کے پیچھے چلے. اور دن کی قسم جب وہ روشنی بخشے.اور رات کی قسم جب وہ اسے ڈھانک لے . اور آسمان کی قسم اور جس نے اسے بنایا. اور زمین کی قسم اور جس نے اسے بچھایا . اور نفس کی قسم اور جس نے اسے درست کیا. پھر بدی اور تقوی کی ہدایت دی ہے.
ج: (وَالنَّجْمِ ِذَا ہَوَی )(٢)
قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا.
د: ( وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُونَ )(٣)
.............
(١)سورہ شمس آیت ١ تا ٨
(٢)سورہ نجم آیت:١
(٣)سورہ قلم آیت:١
ھ: (وَالْعَصْرِ ة ِنَّ الِْنسَانَ لَفِ خُسْرٍ )(١)
قسم ہے عصر کی . بے شک انسان خسارے میں ہے.
و: (وَالْفَجْرِ ة وَلَیَالٍ عَشْرٍ)(٢)
قسم ہے فجر کی . اور دس راتوں کی.
ز: (وَالطُّورِ ة وَکِتَابٍ مَسْطُورٍ ة فِ رَقٍّ مَنْشُورٍ ة وَالْبَیْتِ الْمَعْمُورِة وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ ة وَالْبَحْرِ الْمَسْجُور)(٣)
طور کی قسم. اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم . جو کشادہ اوراق میں ہے . اور بیت معمور کی قسم . اور بلند چھت (آسمان)کی قسم. اور بھڑکتے ہوئے سمند ر کی قسم.
اسی طرح ان سورتوں '' نازعات'' ''مرسلات '' ''بروج'' ''طارق'' ''بلد'' ''تین'' ''ضحی'' میں بھی دنیا کی مختلف اشیاء کی قسمیں کھائی گئی ہیں .
اگر غیر خدا کی قسم کھانا شرک ہوتا تو اس قرآن مجید میں جو توحید کا مظہر ہے ، ہر گز غیر خدا کی قسمیں نہ کھائی جاتیں اور اگر اس قسم کی قسمیں کھانا صرف خداوند کی
.............
(١)سورہ عصر آیت ١ ا ور٢.
(٢)سورہ فجر آیت : ١ اور ٢.
(٣)سورہ طور آیت نمبر ١ سے ٦ تک.
خصوصیات میں سے ہوتا تو قرآن مجیدمیں ضرور اس بات کی طرف متوجہ کرادیا جاتا تاکہ بعدمیں کسی کو دھوکہ نہ ہو .
٢۔دنیا کے سارے مسلمان رسول خداۖ کو اپنے لئے اسوہ عمل سمجھتے ہیں اور آنحضرتۖ کی سیرت کو حق اور باطل کی شناخت کے لئے میزان قرار دیتے ہیں .
عالم اسلام کے محققین اور اہل سنت کی صحیح اور مسند کتابوں کے مؤلفین نے پیغمبر خداۖ کی بہت سی ایسی قسموں کو نقل کیا ہے جو حضور اکرمۖ نے غیر خدا کے نام سے کھائی تھیں.
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں پیغمبراسلامۖ سے یوں روایت کی ہے :
''فلعمر لأن تتکلم بمعروف و تنھیٰ عن منکر خیر من أن تسکت''..(١)
میری جان کی قسم ! تمہارے خاموش رہنے سے کہیں بہتر یہ ہے کہ تم امر بمعروف اور نھی از منکر کرو.
مسلم بن حجاج کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے کہ :
جاء رجل اِلی النب ۖ فقال: یا رسول اللّہ أّ الصدقة أعظم أجرًا؟ فقال: أما و أبیک لتنبأنّہ أن تصدق و أنت صحیح شحیح تخشی الفقر و تأمل البقائ.....(٢)
.............
(١)مسند احمد جلد ٥ ص ٢٢٤ اور ٢٢٥ حدیث بشیر ابن خصاصیہ سدوسی.
(٢)صحیح مسلم، جزء سوم ، طبع مصر ، کتاب الزکاة، باب بیان ان افضل الصدقة ، صدقة الصحیح الشحیح، ص ٩٣ اور ٩٤
ایک شخص نبی اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ کو نسا صدقہ زیادہ اجر رکھتا ہے ؟ پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا: تمہارے باپ کی قسم یقینا تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ( سب سے زیادہ اجر والا صدقہ) یہ ہے کہ تم صحت مندی، آرزوئے حیات ، خوف فقر اور امید بقاء کے ساتھ صدقہ دو .جو لوگ دنیا کے اکثر مسلمانوں کو صرف اس وجہ سے مشرک سمجھتے ہیں کہ وہ سب غیر خدا کی قسم کھاتے ہیں تو وہ پیغمبر خدا کے اس عمل کی کیا تاویل کریں گے ؟
٣۔کتاب خدا اور سنت پیغمبرۖ کے علاوہ رسول خداۖ کے انتہائی قریبی اور متعبر اصحاب کی سیرت بھی اس عمل کے جائز ہونے کی بہترین دلیل ہے .
عالم اسلام کے عظیم الشأن رہبر حضرت علی بن ابی طالبـ نے اپنے بہت سے گہربار خطبوں اور بیانات میں اپنی جان کی قسم کھائی ہے وہ فرماتے ہیں :
ولعمر لیضعفن لکم التیہ من بعد أضعافا(١)
میری جان کی قسم میرے بعد تمہاری یہ حیرانی اور سرگردانی کئی گنا بڑھ جائے گی ۔
ایک جگہ اور فرماتے ہیں :
''ولعمر لأن لم تنزع عن غیک و شقاقک لتعرفنھم عن قلیل یطلبونک''(٢)
.............
(١)نہج البلاغہ (محمد عبدہ) خطبہ نمبر ١٦١.
(٢)نہج البلاغہ (محمد عبدہ) مکتوب نمبر ٩.
میری جان کی قسم اگر تم اپنی گمراہی اور شقاوت سے دست بردار نہ ہوئے تو عنقریب انہیں دیکھو گے کہ وہ لوگ تمہیں بھی ڈھونڈ لیں گے. (١)
اب واضح ہے کہ ان سب روایات کے مقابلے میں اجتہاد اور استحسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور کوئی بھی دلیل قرآن مجید کی آیتوں، پیغمبراکرمۖ کی سنت اور معتبر صحابہ کی سیرت کو غلط قرار نہیں دے سکتی اور نہ ہی ان کی طرف شرک کی نسبت دے سکتی ہے.
نتیجہ:گزشتہ دلائل کے مجموعے سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ قرآن و سنت اور مومنین کی سیرت کے اعتبار سے غیر خدا کی قسم کھانا ایک جائز اور مسلم اصل کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی بھی طرح عقیدہ توحید سے نہیں ٹکراتا .
لہذا اگر کوئی روایت ظاہری طور پر ان یقینی دلیلیوں کی مخالفت کرے تو اس کی تاویل کرنی چاہیے تاکہ وہ قرآن و روایات کی مسلم اصل کے موافق ہوجائے .
بعض اوقات ایک ایسی مبہم سی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جس میں اس عمل کی مخالفت کی گئی ہے یہاں ہم اس روایت کو اسکے جواب کے ساتھ بیان کرتے ہیں :
اِن رسول اللّٰہ سمع عمر و ھو یقول : وأب،فقال: اِن اللّٰہ ینھاکم أن تحلفوا بآبائکم و من کان حالفاً فلیحلف باللّہ أو یسکت(٢)
.............
(١)اور زیادہ موارد کی آگاہی کے لئے خطبہ نمبر ١٦٨،١٨٢،اور ١٨٧ اورمکتوب نمبر ٦ اور ٥٤ کی طرف رجوع فرمائیے.
(٢)سنن الکبری ، جلد ١٠ ص ٢٩ اور سنن نسائی جلد٧ صفحہ نمبر٥ اور ٦.
رسول خدا ۖ نے حضرت عمر کو یہ کہتے ہوئے سنامیرے باپ کی قسم (یہ سن کر) پیغمبر اسلامۖ نے فرمایا خداوند کریم نے تم لوگوں کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے منع کیا ہے اور جسے قسم کھانا ہو وہ خدا کی قسم کھائے یا پھر چپ رہے .
اگرچہ یہ حدیث قرآن کی ان آیات اور روایات کے مقابلے میں جو غیر خدا
کی قسم کھانے کو جائز قرار دیتی ہیں ، کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے لیکن پھر بھی اس حدیث کو آیات اور روایات کے ہمراہ لانے کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ پیغمبر اسلامۖ نے حضرت عمر اور ان جیسے افراد کو اپنے باپ کی قسم کھانے سے اس لئے روکا تھا کہ ان کے باپ مسلمان نہیں تھے اور غیر مسلموں کی قسمیںنہیں کھائی جاسکتیں۔

پچیسواں سوال

کیا اولیائے خدا سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے؟

جواب:توسل کے معنی یہ ہیں کہ تقرب الہی کے لئے کسی محترم مخلوق کو اپنے اور خدا کے درمیان وسیلہ قرار دیا جائے .
ابن منظور لسان العرب میںلکھتے ہیں :
''توسّل اِلیہ بکذا ، تقرب اِلیہ بحرمة آصرة تعطفہ علیہ''(١)
اس نے فلان چیز کے ذریعہ اس شخصیت سے توسل کیا یعنی اس نے اس چیز کی حرمت کے ذریعہ اس ذات سے قربت اختیار کی جب کہ اس کی حرمت سے اپنی قلبی محبت کو اپنے اندر محسوس کیا .
قرآن مجید فرماتا ہے:
.............
(١)لسان العرب، جلد ١١ ص ٧٣٤ .
( یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اﷲَ وَابْتَغُوا ِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ وَجَاہِدُوا فِ سَبِیلِہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ)(١)
ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو کہ شاید اس طرح کامیاب ہوجاؤ .
جوہری ''صحاح اللّغة'' میں ''وسیلہ'' کی تعریف کو یوں بیان کرتے ہیں:
''الوسیلة ما یتقرّب بہ الی الغیر''
وسیلہ ایسی چیز ہے جسکے ذریعہ کسی دوسرے کے قریب ہوا جائے اس اعتبار سے بعض اوقات انسان کے نیک اعمال اور خدا کی خالص عبادت اس کیلئے وسیلہ بنتے ہیں اور کبھی کبھی خدا کے محترم اور مقدس بندے انسان کے لئے وسیلہ قرار پاتے ہیں .

توسل کی قسمیں
توسل کی تین قسمیں ہیں:

١۔نیک اعمال سے توسل؛
جلال الدین سیوطی نے اس آیت (وَابْتَغُوا ِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ) کے ذیل میں اس روایت کا ذکرکیا ہے:
عن قتادة ف قولہ تعالیٰ''وَابْتَغُوا ِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ''قال : تقرّبوا اِلی اللّہ بطاعتہ والعمل بما یرضیہ(١)
.............
(١)سورہ مائدہ آیت:٣٥.
(٢)تفسیر درالمنثور جلد٢ ص ٢٨٠مطبوعہ بیروت اسی آیت کی تفسیر کے ذیل میں.
(وَابْتَغُوا ِلَیْہِ الْوَسِیلَةَ)اس آیت کے متعلق قتادة کا بیان ہے . کہ خدا کی اطاعت اور اس کو خوشنود کرنے والے عمل کے ذریعہ خدا سے قربت اختیار کرو .

٢۔خدا کے نیک بندوں کی دعاؤں سے توسل !
قرآن مجید نے جناب یوسفـ کے بھائیوں اور جناب یعقوب کی گفتگو کو یوں بیان کیا ہے :
( قَالُوا یَاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا ِنَّا کُنَّا خَاطِئِینَة قَالَ سَوْفَ َسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّ ِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ)(١)
ان لوگوں نے کہا بابا جان اب آپ ہمارے گناہوں کیلئے استغفار کریں ہم یقینا خطاکار تھے انہوں نے کہاکہ میں عنقریب تمہارے حق میں استغفار کروں گا کہ میرا پروردگار بہت بخشنے والا اور مہربان ہے .
اس آیت سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب یعقوب ـ کے بیٹوں نے اپنے والد کی دعا اور ان کے استغفار سے توسل کیا تھا حضرت یعقوب ـ نے بھی نہ صرف ان کے توسل پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ ان سے وعدہ بھی کیا کہ وہ ان کے حق میں دعا اور استغفار کریںگے .
.............
(١)سورہ یوسف آیت نمبر ٩٧ اور ٩٨.


٣۔قرب الہی کے حصول کیلئے خداوند کریم کے محترم اور مقدس بندوں سے توسل:
اس قسم کے توسل کی مثالیں، اوائل اسلام میں آنحضرتۖ کے اصحاب کی سیرت میں دکھائی دیتی ہیںاب ہم یہاں اس مسئلے کی دلیلوں کو احادیث اور سیرت
صحابہ کی روشنی میں پیش کرتے ہیں .
احمدابن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں عثمان بن حنیف سے یہ روایت نقل کی ہے :
اِن رجلاً ضریر البصر أتی النبّ ۖ فقال ادع اللّہ أن یعافین قال: اِن شئت دعوت لک و اِن شئت أخرت ذاک فھو خیر فقال ادعہ فأمرہ أن یتوضأ فیحسن وضوئہ فیصل رکعتین و یدعو بھذا الدعائ: اللّھم اِنّ أسئلک و أتوجہ اِلیک بنبیک محمدٍ نبّ الرحمة یا محمد اِنّ توجّھت بک اِلیٰ ربّ ف حاجت ھذہ ، فتقض ل اللّھم شفّعہ فّ.(١)
ایک نابینا شخص رسول خدا ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپۖ پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا بخشے آنحضرت نے فرمایا اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہارے لئے دعا کرتا
.............
(١)مسند احمد بن حنبل ، جلد ٤ ص ١٣٨ روایات عثمان بن حنیف ،مستدرک حاکم ؛ جلد ١ کتاب صلوة التطوع
طبع بیروت ٣١٣،سنن ابن ماجہ جلد ١ ص ٤٤١طبع دار احیاء الکتب العربیہ، ''التاج '' جلد ١ ص ٢٨٦،الجامع الصغیر (سیوطی) ص ٥٩،التوسل و الوسیلہ (ابن تیمیہ) ص ٩٨طبع بیروت.
ہوں لیکن اگر چاہو تو اس سلسلے میں کچھ تاخیر کردی جائے اور یہی بہتر بھی ہے اس نے عرض کیا کہ آپۖ دعا فرمادیں تو پیغمبرخداۖ نے اس شخص کو حکم دیا کہ وہ وضو کو اچھے طریقے سے انجام دے اور پھر دو رکعت نماز بجا لائے اور یہ دعا پڑھے :اے معبود میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں تیرے پیغمبر نبی رحمتۖ حضرت محمدۖ کے وسیلے سے اے محمد ۖ میں آپکے وسیلے سے اپنی اس حاجت میں اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں تاکہ آپ میری حاجت کو قبول فرمائیں اے معبود ان کو میرے لئے شفیع قرار دے.
محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جیسا کہ حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب مستدرک میں اس حدیث کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ'' یہ ایک صحیح حدیث ہے'' ابن ماجہ نے بھی ابو اسحاق سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ :'' یہ روایت صحیح ہے'' اسی طرح ترمذی نے اپنی کتاب ''ابواب الادعیہ'' میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی تائید کی ہے ''محمد بن نسیب الرفاعی '' نے بھی اپنی کتاب ''التوصل الی حقیقة التوسل'' میں یوں بیان کیا ہے
لاشک اِن ھذا الحدیث صحیح و مشھور ...و قد ثبت فیہ بلا شک ولاریب ارتداد بصر الأعمی بدعاء رسول اللّہ ۖ (١)
.............
(١)التوصل الی حقیقة التوسل ص ١٥٨ طبع بیروت.
بے شک یہ حدیث صحیح اور مشہور ہے...بہ تحقیق اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا ۖکی دعا کے نتیجے میں اس اندھے شخص کی بصارت لوٹ آئی تھی اس حدیث سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ حاجات کے لئے پیغمبرخداۖ کو وسیلہ بنا کر ان سے توسل کرنا ایک جائز عمل ہے کیونکہ رسول خدا نے اس نابینا شخص کو حکم دیا تھا کہ وہ اس طرح دعا کرے اور حضور(ص) کو اپنے اور پروردگار کے درمیان وسیلہ قرار دے اس طرح یہ حدیث اولیائے الہی سے توسل کو ثابت کرتی ہے .
٢۔ابوعبداللہ بخاری کا اپنی کتاب صحیح میں بیان ہے :
اِن عمربن الخطاب رض اللّہ عنہ کان اِذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبدالمطلب فقال : اللّھم اِن کنّا نتوسّل اِلیک بنبیّنا فتسقینا و اِنّا نتوسّل اِلیک بعمّ نبیّنا فاسقنا: قال، فیُسقون.(١)
جب قحط پڑتا تھا تو عمر ابن خطاب ہمیشہ عباس ابن عبدالمطلب کے وسیلے سے بارش کیلئے دعا کرتے تھے اور کہتے تھے ''خدایا ! پیغمبر کے زمانے میں ہم آنحضرت ۖ سے متوسل ہوتے تھے اور تو ہم پر بارش نازل کرتا تھا اب ہم پیغمبرۖ کے چچا کے وسیلے سے تجھ
.............
(١)صحیح بخاری جز ٢ کتاب الجمعہ باب الاستسقاء ص ٢٧ طبع مصر.
سے توسل کررہے ہیں تاکہ تو ہمیں سیراب کردے '' چنانچہ اس طرح وہ سیراب کردئیے جاتے تھے.
٣۔صدر اسلام کے مسلمانوں کے درمیان اولیائے الہی سے توسل اس حد
تک رائج تھا کہ وہ لوگ اپنے اشعار میں بھی حضور ۖ کے وسیلہ ہونے کا تذکرہ کرتے تھے بطور مثال سواد ابن قارب کا یہ قصیدہ ملاحظہ فرمائیں جس میں انہوں نے حضور اکرم ۖ کی مدح سرائی کی ہے :
واشھد أن لاربّ غیرہ
وأنک مأمون علیٰ کل غالب
و أنک أدنیٰ المرسلین وسیلة
اِلی اللّہ یابن الأکرمین الأطائب(١)
میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے اور آپۖ ہر پوشیدہ چیز کے لئے امین ہیں اور اے مکرم اور پاک طینت افراد کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپۖ تمام نبیوں کے درمیان پروردگار کا نزدیک ترین وسیلہ ہیں.
پیغمبر خدا نے سواد بن قارب سے یہ قصیدہ سنا تھا لیکن اس کے اشعار پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور نہ ہی سواد کے اس کام کو شرک و بدعت قرار دیا تھا .
امام شافعی نے بھی اپنے ان اشعار میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے :
آل النبّ ذریعت
ھم الیہ وسیلت
أرجوبھم أعطی غدًا
بید الیمین صحیفت(٢)
.............
(١) الدر السنیہ ،مؤلفہ سید احمد بن زینی دحلان ص ٢٩ طبرانی سے نقل کرتے ہوئے.
(٢)الصواعق المحرقہ ،مؤلفہ ابن حجر عسقلانی ص ١٧٨طبع قاہرہ.
پروردگار تک پہنچنے کے لئے پیغمبر کی آل میرے لئے وسیلہ ہیں میں ان کی وجہ سے امیدوار ہوں کہ میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا.
اولیائے الہی سے توسل کے جائز ہونے کے سلسلے میں بہت سی روایات آئی ہیں اور انہی روایات کی روشنی میں پیغمبرخداۖ صحابہ اور علمائے اسلام کا اس موضوع سے متعلق نظریہ معلوم ہوجاتا ہے اور مزید گفتگو کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ہے ۔ ہمارے اسی بیان سے ان لوگوں کا یہ کلام کہ خدا کے محترم بندوں سے توسل کرنا شرک اور بدعت ہے ، باطل ہوجاتا ہے ۔