بیسواں سوال
شیعہ حضرات زیارت کرتے وقت حرم کے دروازوں
اور دیواروں کو کیوں چومتے ہیں اور انہیںباعث برکت
کیوں سمجھتے ہیں؟
جواب:اولیائے الہی سے منسوب اشیاء کو اپنے لئے باعث برکت سمجھنا کوئی ایسا جدید مسئلہ نہیں ہے جو مسلمانوں کے درمیان آج پیدا ہوا ہو بلکہ اس کی بنیادیں رسول خداۖ اور ان کے صحابہ کے زمانے میں دکھائی دیتی ہیں . اس عمل کو نبی اکرمۖ اور ان کے اصحاب ہی نے انجام نہیں دیا ہے بلکہ گزشتہ انبیاء بھی ایسا ہی کرتے تھے اب ہم آپ کے سامنے اس عمل کے جائز ہونے کے سلسلے میں قرآن مجید اور سنت پیغمبرۖسے چنددلیلیں پیش کرتے ہیں:
١۔قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ جس وقت حضرت یوسفـ نے اپنے بھائیوں کے سامنے خود کو پہچنوایا اور ان کے گناہوں کو معاف کردیا تو یہ فرمایا:
(اِذْہَبُوا بِقَمِیصِ ہَذَا فََلْقُوہُ عَلیٰ وَجْہِ َبِ یَْتِ بَصِیرًا)(١)
میری یہ قمیص لے کر جاؤ اورمیرے بابا کے چہرے پر ڈال دو کہ انکی بصارت پلٹ آئے گی.
اور پھرقرآن فرماتا ہے:
(فَلَمَّا َنْ جَائَ الْبَشِیرُ َلْقَاہُ عَلَیٰ وَجْہِہِ فَارْتَدَّ بَصِیرًا)(٢)
اور اس کے بعد جب بشارت دینے والے نے آکر قمیص کو یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو وہ دوبارہ صاحب بصارت ہوگئے .
قرآن مجید کی یہ آیتیں گواہی دے رہی ہیں کہ ایک نبی (جناب یعقوبـ) نے دوسرے نبی (جناب یوسفـ) کی قمیص کو باعث برکت سمجھا تھا اور یہی نہیں بلکہ حضرت یعقوبـ کا یہ عمل ان کی بصارت کے لوٹنے کا سبب بنا تھا. کیا یہاں پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان دو انبیاء کے اس عمل نے انہیں توحید اور عبادت خدا کے دائرے سے خارج کردیا تھا!؟
٢۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول خداۖ خانہ کعبہ کا طواف کرتے وقت
انہوں نے جواب دیا:
.............
(١)سورہ یوسف آیت:٩٣
(٢)سورہ یوسف آیت:٩٦
''رایت رسول اللہ ۖ یستلمہ و یقبلہ ''(١)
میں نے رسول خداۖ کو دیکھا ہے کہ وہ حجر اسود کو سلام کررہے تھے اور بوسے دے رہے تھے.
اگر ایک پتھر کو سلام کرنا اور بوسے دینا شرک ہوتا تو نبی اکرمۖ ہرگز اس عمل کو انجام نہ دیتے.
٣۔صحیح، مسنداور تاریخی کتابوںمیں بہت سی ایسی روایات ہیں جن کے مطابق صحابۂ کرام آنحضرتۖ سے منسوب اشیاء جیسے آپۖ کا لباس، آپ کے وضو کا پانی اور برتن وغیرہ کو باعث برکت سمجھتے تھے اگر ان روایات کا مطالعہ کیا جائے تو اس عمل کے جائزہونے میں کسی بھی قسم کی تردید باقی نہیں رہے گی.
اگرچہ اس بارے میں وارد ہونے والی روایات کی تعداد زیادہ ہے اور سب کو اس مختصر کتاب میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی یہاں ہم ان میں سے بعض روایتوں کو نمونہ کے طور پر پیش کررہے ہیں :
الف: بخاری نے اپنی کتاب صحیح میں آنحضرتۖ اور ان کے اصحاب کے خصوصیات کو بیان کرنے والی ایک طولانی روایت کے ضمن میں یوں نقل کیا ہے:
''واذا توضّأ کادوا یقتتلون علیٰ وضوئہ''(٢)
.............
(١)صحیح بخاری جزئ٢ کتاب الحج باب تقبیل الحجر ص ١٥١ اور ص ١٥٢ طبع مصر.
(٢)صحیح بخاری جلد٣ باب مایجوز من الشروط ف الاسلام باب الشروط ف الجہاد والمصالحة ص ١٩٥
جس وقت پیغمبر خداۖ وضو کرتے تھے تو نزدیک ہوتا تھا کہ مسلمان آپۖ کے وضوکے پانی کو حاصل کرنے کے لئے آپس میں جنگ شروع کردیں.
ب:ابن حجر کہتے ہیں کہ:
''اِنّ النب ۖ کان یؤت بالصبیان فیبرک علیھم''(١)
بے شک نبی اکرم ۖ کی خدمت میں بچوں کو لایا جاتا تھا اور آنحضرتۖ اپنے وجود کی برکت سے انہیں بھی بابرکت بنا دیتے تھے.
ج:محمد طاہر مکی کہتے ہیں: ام ثابت سے روایت ہوئی ہے وہ کہتی ہیں: کہ رسول خداۖ میرے ہاں تشریف لائے اور آپ نے دیوار پر آویزاں ایک مشک کے دھانے سے کھڑے ہو کر پانی نوش فرمایا یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اٹھی اور میں نے اس مشک کے دھانے کو کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا اور پھر اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں : اسی حدیث کو ترمذی نے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح اور حسن ہے اور کتاب ریاض الصالحین میں اس حدیث کی شرح میں کہا گیا ہے کہ ام ثابت نے مشک کے دھانے کو اس لئے کاٹ لیا تھا تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے پاس محفوظ کرلیں جہاں سے پیغمبر اکرمۖ نے پانی نوش فرمایا تھا کیونکہ وہ اسے باعث برکت سمجھتی تھیںاسی طرح صحابہ کی بھی یہی کوشش رہتی تھی کہ وہ اس جگہ سے پانی پئیں جہاں سے پیغمبراکرمۖ نے پانی پیا ہو.(٢)
.............
(١)الاصابة جلد١ خطبہ کتاب ص٧ طبع مصر
(٢)تبرک الصحابہ (محمد طاہر مکی) فصل اول ص٢٩ترجمہ انصاری.
''کان رسول اللّہ ۖ اِذا صلیٰ الغداة جاء خدم المدینة بآنیتھم فیھا الماء فما یُؤتی بانائٍ اِلا غمس یدہ فیھا فربما جاؤوہ ف الغداة الباردة فیغمس یدہ فیھا ''(١)
رسول خدا ۖ جب نماز صبح سے فارغ ہوجاتے تو مدینہ کے خادم پانی کے برتن لئے آنحضرتۖ کی خدمت میں آتے تھے اور آپ ۖ ان سب برتنوں میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے تھے بعض اوقات تو وہ لوگ ٹھنڈک والی صبح میں آنحضرت ۖ کی خدمت میں پہنچ جاتے تھے لیکن پھربھی آنحضرت ۖ ان کے برتنوں میں ہاتھ ڈبو دیتے تھے. (٢)
گذشتہ دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اولیائے الہی سے منسوب اشیاء کو باعث برکت قرار دینا ایک جائز عمل ہے اور وہ لوگ جو شیعوں پر اس عمل کی وجہ سے تہمت لگاتے ہیں وہ توحید اور شرک کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ نہیں پائے ہیں کیونکہ شر ک کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی عبادت کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی خدا سمجھا جائے یا یہ عقیدہ ہو کہ خدائی امور اس کے سپرد کردئیے گئے ہیں اور وہ اپنے وجود اور
.............
(١)صحیح مسلم جزء ٧ کتاب الفضائل باب قرب النبیۖ من الناس و تبرکھم بہ، ص٧٩.
(٢)مزید معلومات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں:
صحیح بخاری، کتاب اشربہ ،مؤطا مالک جلد١ ص١٣٨ باب صلوة علی النبیۖ، اسدالغابة جلد٥ ص٩٠، مسند احمد جلد٤ ص ٣٢، الاستیعاب (الاصابة) کے حاشیے میں جلد٣ ص ٦٣١، فتح الباری جلد١ صفحہ ٢٨١ اور ٢٨٢.
تاثیر رکھنے میں خدا سے بے نیاز ہے.
جبکہ شیعہ اولیائے الہی اور ان سے متعلق اشیاء کو خدا کی مخلوق اور اس کا محتاج سمجھتے ہیں اور وہ اپنے اماموں اور دین کے پرچمداروں کے احترام اور ان سے سچی محبت کے اظہار کے لئے ان بزرگوں کو باعث برکت قرار دے کر ان سے فیض حاصل کرتے ہیں .
شیعوں کا پیغمبر اسلامۖ اور ان کے اہل بیت ٪ کے حرم میں جاکر ان کی ضریح مقدس کو بوسہ دینا یا حرم کے در ودیوار کو مس کرنا صرف اس وجہ سے ہے کہ ان کے دل پیغمبرخداۖ اور ان کی عترت کے عشق سے سرشار ہیں اور یہ عشق ہر انسان کی فطرت میں پایا جاتا ہے اور یہ ایک انسانی محبت کاجذبہ ہے جو ہر محبتی انسان کے اندر ظاہر ہوتا ہے : اس بارے میں ایک شاعر کہتا ہے:
أمر علیٰ الدیار دیار سلمیٰ اقبل ذاالجدار و ذالجدار ا
وما حُبّ الدیار شغفن قلب ولکن حُبّ مَن سکن الدیارا
میں جب سلمیٰ کے دیار سے گزرتا ہوں تو اس دیوار اور اس دیوار کے بوسے لیتا ہوںاس دیار کی محبت نے میرے دل کولبھایا نہیں ہے بلکہ اس دیار کے ساکن کی محبت نے میرے قلب کو اسیر کرلیا ہے۔
اکیسواں سوال
کیا اسلام کی نگاہ میں دین سیاست سے جدا نہیںہے؟
جواب: اس سوال کے جواب سے قبل بہتر یہ ہے کہ پہلے سیاست کے معنی کو واضح کردیا جائے تاکہ دین اور سیاست کا رابطہ سمجھ میں آسکے یہاں سیاست کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں .
١۔سیاست کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے ہر قسم کے وسیلے کو اختیار کیا جائے چاہے وہ وسیلہ دھوکہ اور فریب کاری ہی کیوں نہ ہو (یعنی مقصد کے حصول کے لئے کسی بھی چیز کو وسیلہ بنایا جاسکتا ہے) واضح ہے کہ اس قسم کی سیاست دھوکے اور فریب سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے اور ایسی سیاست کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے.
٢۔سیاست کے یہ معنی مراد لئے جائیں کہ اسلامی اصولوں کے مطابق انسانی معاشرے کے نظام کو چلایا جائے اس قسم کی سیاست کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں کے نظام کو قرآن اور سنت کی روشنی میں چلایا جائے ایسی سیاست دین کا حصہ ہے اور ہرگز اس سے جدا نہیں ہے.
اب ہم یہاں پر سیاست اور دین کے درمیان رابطے اور حکومت کو تشکیل دینے سے متعلق چند دلیلیں پیش کریں گے : اس سلسلے میں واضح ترین گواہ پیغمبر خداۖ کا عمل ہے پیغمبرخداۖ کے اقوال اور کردار کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آنحضرتۖ نے اپنی دعوت اسلام کے آغاز ہی سے ایک ایسی مضبوط حکومت قائم کرنے کا ارادہ کرلیا تھا جس کی بنیاد خدا پر ایمان کے محکم عقیدہ پر استوار تھی اور جو اسلام کے مقاصد کو پورا کرسکتی تھی یہاں پر بہتر ہے کہ ہم رسول خداۖ کے اس عزم و ارادہ کے سلسلے میں چند شواہد پیش کریں:
پیغمبرخداۖ اسلامی حکومت کے بانی ہیں
١۔جس وقت رسول خدا ۖ کو حکم ملا کہ لوگوں کو کھلم کھلا طریقے سے اسلام کی دعوت دیں تو اس وقت آنحضرتۖ نے مختلف طریقوں سے جہاد و ہدایت کے زمینے کو ہموار کیا اور اسلامی سپاہیوں کی تربیت اور ان کی آمادگی کا بیڑا اٹھایا اس سلسلے میں آپ نزدیک اور دور سے زیارت کعبہ کے لئے آنے والے افراد سے ملاقات کرتے تھے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے اسی دوران آپۖ نے مدینے کے دو گروہوں سے عقبہ کے مقام پر ملاقات کی اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ وہ لوگ آنحضرتۖ کو اپنے شہر میںبلائیںگے اور آپ ۖ کی حمایت کریں(١)اور اس طرح اسلامی حکومت قائم
.............
(١) سیرہ ہشام جلد١ ص٤٣١ مبحث عقبہ اولی طبع دوم مصر
کرنے کے لئے آنحضرتۖ کی سیاست کا آغاز ہوا .
٢۔رسول خداۖ نے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ایک ایسی مضبوط فوج تیار کی جس نے بیاسی جنگیں لڑیں اور ان جنگوں میں کامیابی حاصل کر کے اسلامی حکومت کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا.
٣۔مدینے میں اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد آنحضرتۖ نے اس زمانے کی سیاسی اور اجتماعی بڑی طاقتوں کے پاس اپنے سفیراور خطوط بھیج کر ان سے رابطہ قائم کیا اور بہت سے قبیلوں کے سربراہوں سے اقتصادی ،سیاسی اور فوجی معاہدے کئے تاریخ نے پیغمبرخداۖ کے ان خطوط کی خصوصیات و تفصیلات کو بیان کیا ہے جو آپۖ نے ایران کے شہنشاہ ''کسریٰ'' ، روم کے بادشاہ ''قیصر'' ، مصر کے بادشاہ ''مقوقس''، حبشہ کے بادشاہ ''نجاشی'' اور دوسرے بادشاہوں کو بھیجے تھے . بعض محققین نے آنحضرتۖ کے ان خطوط کو اپنی مستقل کتابوں میں جمع کیا ہے(١)
٤۔رسول خداۖ نے اسلام کے مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور اسلامی حکومت کے استحکام کے لئے بہت سے قبیلوں اور شہروں کے لئے حکام معین فرمائے تھے ہم یہاں اس سلسلے میں بطور مثال ایک نمونے کا ذکر کرتے ہیںپیغمبر اسلام ۖ نے رفاعہ بن زید کو اپنا نمائندہ بنا کرانھیں ان کے اپنے قبیلے کی طرف روانہ کیا اور خط میں یوں تحریر فرمایا :
''بسم اللہ الرحمن الرحیم ، (ھذا کتاب) من
.............
(1)جیسے کہ''الوثائق السیاسیہ'' (مؤلفہ محمد حمید اللہ) ''مکاتیب الرسول''(مؤلفہ علی احمدی) ہیں.
محمد رسول اللّہ ۖ لرفاعة بن زید بعثتہ اِلیٰ قومہ عامة و من دخل فیھم یدعوھم اِلیٰ اللّہ والیٰ رسولہ فمن اقبل منھم فف حزب اللّہ و حزب رسولہ و من أدبر فلہ أمان شہرین''(١)
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت ہی رحم کرنے والا ہے محمد رسول خداۖ کی طرف سے یہ نوشتہ رفاعہ بن زید کے نام، بے شک میں انہیں ان کی قوم کے عام لوگوں اور قوم میں شامل ہوجانے والوں کی طرف بھیج رہا ہوں تاکہ وہ انہیں خدا اور اس کے رسول کی طرف دعوت دیں پس جس نے ان کی دعوت کو قبول کیا وہ خدا اور اس کے رسول کے گروہ میں شامل ہو گیا.اور جو ان کی دعوت سے روگردانی کرے گا اس کے لئے صرف دو ماہ کی امان ہے.
پیغمبر اسلامۖ کے ان اقدامات سے بخوبی یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپۖ بعثت کے آغاز ہی سے ایک ایسی مضبوط حکومت بنانا چاہتے تھے کہ جس کے سائے میںانسانی معاشرے کی زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق، اسلام کے احکام کونافذ کیا جاسکے، اب سوال یہ ہے کہ رسول خداۖ کا مختلف گروہوں اور قدرتمند قبیلوں سے معاہدہ کرنا ،ایک
.............
(١) مکاتیب الرسول جلد ١ ص ١٤٤.
مضبوط فوج تیار کرنا، مختلف ممالک میں سفیر بھیجنا اور اس زمانے کے بادشاہوں کو خبردار کرنا، نیز ان سے خط و کتابت کرنا ساتھ ہی ساتھ شہروں کے گورنر اور حکام معین کرنا اور ایسے ہی دوسرے امور کا انجام دینا اگر سیاست نہیں تھا تو اور کیا تھا؟ پیغمبر اسلام ۖ کی سیرت کے علاوہ خلفائے راشدین کا کردار اور خاص طور پرحضرت امیرالمومنین علی بن ابی طالب ـ کا طرز عمل بھی شیعوں اور اہل سنت دونوں فرقوں کیلئے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ سیاست دین سے جدانہیں ہے.دونوں اسلامی فرقوں کے علماء نے حکومت
قائم کرنے کے سلسلے میںقرآن مجید اور سنت پیغمبرۖ سے مفصل دلیلیں بیان کی ہیں نمونے کے طور پر ہم ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں:
ابوالحسن ماوردی نے اپنی کتاب ''احکام سلطانیہ'' میں یوں لکھا ہے:
''المامة موضوعة لخلافة النبّوة ف حراسة الدین و سیاسة الدنیا و عقدھا لمن یقوم بھا ف الأمة واجب بالجماع''(١)
امامت کو نبوت کی جانشینی کے لئے قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ دین کی حفاظت کی جاسکے اور دنیا کی سیاست و حکومت کا کام بھی چل سکے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایسی حکومت قائم کرنااس شخص پر واجب ہوجاتا ہے جو اس کام کو انجام دے سکتا ہو۔
.............
(١)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص٥ طبع مصر.
اہل سنت کے مشہور عالم ماوردی نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دو طرح کی دلیلیں پیش کی ہیں:
١۔ عقلی دلیل
٢۔ شرعی دلیل
عقلی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
''لما ف طباع العقلاء من التسلیم لزعیم یمنعھم من التظالم و یفعل بینھم ف التنازع والتخاصم ولولا الولاة لکانوا فوضیٰ مھملین ھمجاً مضاعین''(١)
کیونکہ یہ بات عقلاء کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی رہبر کی پیروی کرتے ہیں تاکہ وہ انہیں ایک دوسرے پر ظلم و ستم کرنے سے روکے اور اختلاف اور جھگڑوں کی صورت میں ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرے اور اگر ایسے حکام نہ ہوتے تولوگ پراگندہ اور پریشان ہوجاتے اور پھر کسی کام کے نہ رہ جاتے.
اور شرعی دلیل کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
''ولکن جاء الشرع بتفویض الأمور اِلی ولیہ ف الدین قال اللّہ عزّوجلّ ( یَا َیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا
.............
(١)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص٥ طبع مصر.
َطِیعُوا اﷲَ وََطِیعُوا الرَّسُولَ وَُوْلِ الَْمْرِ مِنْکُم)ففرض علینا طاعة أول الأمر فینا وھم الأئمة المأتمرون علینا''(١)
لیکن شرعی دلیل میں یہ ہے کہ دین کے امور کو ولی کے سپرد کردیا گیا ہے خداوندکریم فرماتا ہے:ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمہیں میں سے ہیں.پس خداوند نے ہم پرصاحبان امر کی اطاعت کو واجب کردیا ہے اور وہ ہمارے امام ہیں جو ہم پر حکومت کرتے ہیں .
شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضل بن شاذان سے ایک روایت نقل کی ہے جو ہمارے آٹھویں امام علی بن موسیٰ الرضا ـ کی طرف منسوب ہے اس طولانی روایت میں امام ـ نے حکومت قائم کرنے کو ایک لازمی امر قرار دیا ہے . ہم اس روایت کے چند جملے ذکر کرتے ہیں :
''نّا لا نجد فرقة من الفرق ولا ملة من الملل
بقوا و عاشوا ِلاّ بقیّم و رئیس، لما لابدّ لھم
منہ من أمر الدین والدنیا، فلم یجزفحکمة
الحکیمأن یترک الخلق لما یعلم انہ لابدّ لھم منہ
.............
(١)الاحکام السلطانیة (ماوردی) باب اول ص٥ طبع مصر.
والقوام لھم لاّ بہ فیقاتلون بہ عدوھم و یقسمون بہ فیئھم و یقیمون بہ جمعتھم و جماعتھم و یمنع ظالمھم من مظلومھم ''(١)
ہمیں کوئی ایسی قوم یا ملت نہیں ملے گی جو اس دنیا میں باقی رہی ہواور اس نے زندگی گزاری ہو سوائے یہ کہ اس کے پاس ایک ایسا رہبر اور رئیس رہا ہو جس کے وہ لوگ دین اور دنیا کے امور میں محتاج رہے ہوں پس خداوند حکیم کی حکمت سے یہ بات دور ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک ایسی چیز عطا نہ فرمائے جسکے وہ لوگ محتاج ہیں اور اسکے بغیر باقی نہیں رہ سکتے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رہبر ہی کی ہمراہی میں اپنے دشمنوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں اور اسی کے حکم سے مال غنیمت کو تقسیم کرتے ہیں اور اس کی اقتداء میں نماز جمعہ اور بقیہ نمازیں باجماعت ادا کرتے ہیں اور رہبر ہی ظالموں سے مظلوموں کو بچاتا ہے.
اس سلسلے میں وارد ہونے والی ساری روایتوں کی تشریح کرنا اور تمام مسلمان فقہاء کے اقوال کا جائزہ لینا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے باہر ہے اس کام کے لئے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔اسلامی فقہ کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ شریعت کے بہت سے قوانین ایسے ہیں جو ایکمضبوط حکومت کے بغیر نافذ
نہیں کئے جاسکتے ہیں.
اسلام ہمیں جہاد اور دفاع کرنے ، ظالم سے انتقام لینے اور مظلوم کی حمایت کرنے، شرعی حدود اور تعزیرات جاری کرنے، امر بالمعروف و نھی عن المنکر انجام دینے، ایک مالی نظام برقرار کرنے اور اسلامی معاشرے میں وحدت قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اب یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ اہداف ایک مضبوط نظام اور حکومت کے بغیر پورے نہیں ہوسکتے کیونکہ شریعت کی حمایت اور اسلام سے دفاع کرنے کے لئے ایک تربیت یافتہ فوج کی ضرورت ہوتی ہے اور اس قسم کی طاقتور فوج تیار کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی اصولوں کے مطابق ایک مضبوط حکومت قائم کی جائے اور اسی طرح فرائض کی پابندی اور گناہوں سے دوری کے لئے حدود اور تعزیرات کو جاری کرنا اور ظالموں سے مظلوموں کا حق لینا ایک حکومت اور نظام کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اگر قوی حکومت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ فتنہ اور آشوب کی آماجگاہ بن جائے گا اگرچہ حکومت قائم کرنے کے لازمی ہونے کے سلسلے میں ہماری ان دلیلوں کے علاوہ بھی بہت سی دلیلیں ہیں لیکن ان دلیلوں ہی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف دین سیاست سے جدا نہیں ہے بلکہ شریعت کے قوانین کے مطابق اسلامی حکومت قائم کرنا ایک لازمی امر ہے جو کہ اس دنیا میں پائے جانے والے ہر اسلامی معاشرہ کے لئے ایک فریضہ قرار دیا گیا ہے۔
.............
(١) علل الشرائع باب ١٨٢ حدیث نمبر٩ ص ٢٥٣
|