اٹھارہواں سوال
متعہ کیا ہے اور شیعہ اسے کیوں حلال سمجھتے ہیں؟
جواب:نکاح، مرد اور عورت کے درمیان ایک ارتباط کا نام ہے . بعض اوقات یہ ارتباط دائمی ہوتا ہے اور عقد پڑھتے وقت اس میں زمانے کی کوئی قید ذکر نہیں کی جاتی لیکن بسا اوقات یہی ارتباط ایک معین مدت کے لئے انجام پاتا ہے یہ دونوں ہی عقد شرعی نکاح کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کے درمیان صرف ''دائمی'' اور ''موقت'' کا فرق ہوتا ہے لیکن یہ دونوں باقی خصوصیات میں مشترک ہیں اب ہم یہاں نکاح ''متعہ'' کی ان شرائط کا ذکر کریں گے جو نکاح ''دائم'' کی طرح معتبر ہیں :
١۔مرد اور عورت کے درمیان آپس میں کوئی نسبی و سببی اور کوئی شرعی مانع نہ ہو ورنہ ان کا عقد باطل ہے .
٢۔ طرفین کی رضامندی سے معین کئے جانے والے مہرکا تذکرہ عقد میں ہونا چاہئے .
٣۔نکاح کی مدت معین ہونی چاہئے.
٤۔شرعی طریقے سے عقد پڑھا جانا چاہئے.
٥۔ان دونوں سے جو اولاد پیدا ہوگی وہ شرعی طور پر ان دونوں کی شمار ہوگی اور جس طرح نکاح دائم سے پیدا ہونے والی اولاد کانام شناختی کارڈ وغیرہ میں درج ہوتا ہے اسی طرح عقد متعہ سے پیدا ہونے والی اولاد کا نام بھی شناختی کارڈ میں شامل کیا جاتا ہے.
٦۔اس اولاد کا نان ونفقہ والد کے ذمے ہے اور یہ اولاد ماں اور باپ دونوں سے میراث پائے گی.
٧۔جس وقت عقد متعہ کی مدت ختم ہوجائے تو اگر عورت یائسہ نہ ہو تو وہ شرعی طور پر عدہ گزارے گی اور اگراثنائے عدت میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ حاملہ ہے تو وضع حمل سے پہلے کسی بھی قسم کا عقد نہیں کرسکتی. اسی طرح نکاح دائم کے باقی احکام بھی متعہ میں جاری ہوں گے ان دونوں میں فرق صرف یہ ہے کہ چونکہ عقد متعہ چند ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے حلال کیا گیا ہے لہذا اس عورت کا نان ونفقہ مرد کے ذمے نہیں ہے اور اگر عقد متعہ پڑھتے وقت عورت کی طرف سے میراث لینے کی شرط نہ لگائی جائی تو یہ عورت شوہر کی میراث نہیں پائے گی واضح ہے کہ ان دو فرقوں سے نکاح کی حقیقت میں کوئی اثر نہیں پڑتا۔
ہم سب اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام ایک دائمی شریعت اور آخری شریعت ہے لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ انسانوں کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اب یہاں پر اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ ایک ایسا جوان شخص جو کہ تعلیم حاصل کرنے کیلئے کسی دوسرے شہر یا ملک میں زندگی بسر کررہا ہو اور محدود وسائل کی وجہ سے دائمی عقد نہ کرسکتا ہو اسکے سامنے صرف تین راستے ہیں اور ان میں سے وہ کسی ایک کا انتخاب کرے گا۔
الف:کنوارہ ہی رہے.
ب:گناہ اور آلودگی کی دلدل میں دھنس جائے.
ج:گذشتہ شرائط کے ساتھ ایک ایسی عورت کے ساتھ ایک محدود اور معین مدت کے لئے شادی کر لے جس سے شرعا عقد جائز ہو . پہلی صورت کے بارے میں یہ کہنا چاہئے اس میں اکثر افراد شکست کھاجاتے ہیں اگرچہ بعض ایسے انگشت شمار اشخاص ضرور مل جائیں گے جو اپنی خواہشات کو دبا کر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں لیکن اس روش پر عمل پیرا ہونا سب کے بس کی بات نہیںہے .
دوسرے راستے کو اختیار کرنے والوں کا انجام تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا اور اسلام کی نگاہ میں بھی یہ ایک حرام عمل ہے.اس فعل کو فطری تقاضے کا نام دے کر صحیح قرار دینا ایک غلط فکر ہے .
اب صرف تیسرا راستہ بچتا ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے اور یہی مناسب اور صحیح بھی ہے پیغمبر خداۖ کے زمانے میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا ہے اس مسئلے میں اختلاف آنحضرتۖ کے بعد پیدا ہوا ہے .
یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ وہ لوگ جو عقد متعہ سے خوف وہراس رکھتے ہیںانہیں اس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ تمام اسلامی مجتہدین اور محققین نے اس متعہ کو معنوی اعتبار سے نکاح دائم میں بھی اس طرح میں قبول کیا ہے کہ جب مرد اور عورت آپس میں عقد دائم تو کریں لیکن ان کی نیت یہ ہو کہ ایک سال کے بعد یا اس سے کمتر یا بیشتر مدت میں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے تو وہ طلاق کے ذریعہ جدا ہو سکتے ہیں .
واضح ہے کہ اس قسم کی شادی ظاہری اعتبار سے تو دائمی ہے لیکن حقیقت میں معین وقت کے لئے ہے اور اس قسم کے دائمی نکاح اور عقد متعہ کے درمیان صرف یہ فرق ہے کہ عقد متعہ ظاہری اور باطنی ہر دو اعتبار سے معین وقت کے لئے ہوتا ہے جبکہ اس قسم کا دائمی نکاح ظاہری طور پر تو ہمیشہ کے لئے ہے لیکن باطنی طور پر ایک محدود وقت کے لئے انجام پایا ہے.
وہ لوگ جو اس قسم کے دائمی نکاح کو جائز سمجھتے ہیںجیسا کہ اس کو تمام مسلمان فقہاء جائز قرار دیتے ہیں تووہ عقد متعہ کو حلال سمجھنے میں کیوں خوف وہراس محسوس کرتے ہیں.یہاں تک ہم نے عقد متعہ کی حقیقت سے آشنائی حاصل کی اب ہم دلیلوں کی روشنی میں اس کے جواز کو ثابت کریں گے اس سلسلے میں ہم دو مرحلوں میں بحث کریں گے:
١۔صدر اسلام میں عقد متعہ کا شرعا جائز ہونا.
٢۔رسول خداۖ کے زمانے میں اس حکم شرعی کا منسوخ نہ ہونا.
عقد متعہ کا جواز اس آیۂ شریفہ سے ثابت ہوتا ہے :
( فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ ُجُورَہُنَّ فَرِیضَة)(١)
پس جب بھی تم ان عورتوں سے متعہ کرو تو انکی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دو.
اس آیہ شریفہ کے الفاظ اچھی طرح اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ آیۂ کریمہ نکاح موقت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ :
اول :اس آیت میں استمتاع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے ظاہری معنی نکاح موقت ہیں.اور اگر اس سے مراد دائمی نکاح ہوتا تو اس کیلئے قرینہ لایا جاتا.
دوم:اس آیت میں کلمہ ''اجورھن'' (ان کی اجرت) ہے اور یہ اس بات کا گواہ ہے کہ اس آیت سے مراد عقد متعہ ہے کیونکہ نکاح دائم میں لفظ ''مہر'' اور لفظ ''صداق'' استعمال کئے جاتے ہیں .
سوم: شیعہ اور سنی مفسرین اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیۂ شریفہ عقد متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر درالمنثور میں ابن جریر اور سدی سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ کے بارے میں ہے (٢)
اسی طرح ابوجعفر محمد بن جریرطبری اپنی تفسیر میں سدی اور مجاہد اور ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت نکاح موقت کے بارے میں ہے(٣)
.............
(١)سورہ نساء آیت:٢٤.
(٢)تفسیر درالمنثور جلد٢ ص١٤٠ سورہ نساء کی ٢٤ویں آیت کے ذیل میں.
(٣)جامع البیان فی تفسیر القرآن جزء ٥ ص٩.
چہارم:صاحبان صحاح و مسانیداور احادیث کی کتابوں کے مولفین نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے بعنوان مثال مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:
خرج علینا مناد رسول اللّہ ۖفقال: ن رسول اللّہ قد أذن لکم أن تستمتعوا یعن متعة النسائ.(١)
پیغمبر اکرمۖ کے منادی نے ہمارے پاس آکر کہا کہ رسول خدا ۖ نے تم لوگوں کو استمتاع کی اجازت دی ہے یعنی عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی ہے.
عقد متعہ سے متعلق صحاح اور مسانید میںجو روایات آئی ہیں ان سب کو اس کتاب میںبیان نہیں کیا جاسکتا البتہ ان سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ عالم اسلام کے تمام علماء اور مفسرین نے آغاز اسلام میں اور پیغمبر اکرم ۖ کے زمانے میں عقد متعہ کے جائز ہونے کوتسلیم کیا ہے:(٢)
.............
(١)صحیح مسلم جز ٤ ص ١٣٠ طبع مصر
(٢)نمونے کے طور پر ہم ان منابع میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :
صحیح بخاری باب تمتع٢
مسند احمد جلد٤ ص٤٣٦ اور جلد ٣ ص ٣٥٦
الموطا مالک جلد٢ ص ٣٠
سنن بہیقی جلد٧ ص ٣٠٦
تفسیر طبری جلد ٥ ص ٩
نہایہ ابن اثیر جلد٣ ص ٢٤٩
تفسیر رازی جلد٣ ص ٢٠١
تاریخ ابن خلکان جلد١ ص ٣٥٩
احکام القرآن جصاص جلد ٢ ص ١٧٨
محاضرات راغب جلد٢ ص ٩٤
الجامع الکبیر سیوطی جلد٨ ص ٢٩٣
فتح الباری ابن حجر جلد٩ ص ١٤١
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس آیت کا حکم منسوخ ہوا ہے یا نہیں؟شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جو پیغمبر خداۖ کے زمانے میںمتعہ کے شرعا جائز ہونے کے بارے میں تردید کرے بحث اس بارے میں ہے کہ یہ حکم آنحضرتۖ کے زمانے میں باقی تھا یا منسوخ ہوگیا تھا؟تاریخ اسلام اور روایات کے مطابق خلیفہ دوم کے زمانے تک مسلمان اس حکم الہی پر عمل کرتے تھے اور سب سے پہلے خلیفہ دوم نے چند مصلحتوں کی بنا پر اس حکم پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکا تھا . مسلم بن حجاج اپنی کتاب صحیح میں نقل کرتے ہیں کہ جب ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعة النساء اور متعہ حج کے سلسلے میںاختلاف ہوگیا تو جابر ابن عبداللہ نے کہا :
''فعلنا ھما مع رسول اللّہ ۖ ثم نھانا عنھما عمر فلم نعدلھما''(١)
.............
(١)سنن بیہقی جلد٧ ص٢٠٦ اور صحیح مسلم جلد١ ص٣٩٥
ہم رسول خدا ۖ کے ہمراہ متعة النساء اور متعہ حج کو انجام دیتے تھے اور پھر عمر نے ہمیںان دونوں کاموں سے روک دیا اس کے بعد سے ہم نے ان دونوں کو انجام نہیں دیا ہے.
جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر میں عبدالرزاق اور ابو داؤد اور ابن جریر سے اور ان سب نے ''حکم'' سے روایت کی ہے کہ جب حکم سے آیۂ متعہ کے بارے میں سوال کیاگیا کہ کیا یہ آیت منسوخ ہوئی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا نہیں منسوخ نہیں ہوئی ہے اور حضرت علی ـ نے فرمایا ہے:
''لولا أن عمر نھیٰ عن المتعة مازنیٰ لاّ شق''(١)
اگر عمر نے متعہ سے منع نہ کیا ہوتا تو سوائے بدبخت کے کوئی زنا نہ کرتا.
نیز علی بن محمد قوشچی کہتے ہیں کہ عمربن خطاب نے منبر پر بیٹھ کر کہا :
''أیّھا الناس ثلاث کنّ علی عھد رسول اللّہ وأنا
أنھیٰ عنھنّ و أحرمھن و أُعاقب علیھنّ وھمتعة
النساء و متعة الحج و حَّ علیٰ خیر العمل''(٢)
اے لوگو! تین چیزیں رسول خداۖ کے زمانہ میں تھیں لیکن میں ان سے منع کرتا ہوں اور انہیں حرام قرار دیتا ہوں اور جو کوئی بھی
.............
(١)تفسیر درالمنثور جلد٢ ص١٤٠ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں.
(٢)شرح تجرید قوشچی بحث امامت ص٤٨٤.
انہیں انجام دے گا، میں اسے سزا دوں گا وہ تین چیزیں یہ ہیں : متعة النساء اور متعة الحج اور حی علی خیر العمل.
عقد متعة کے جائز ہونے کے بارے میں اس قدر روایات ہیں کہ ان کو ذکر کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے.زیادہ معلومات کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ فرمائیں(١)
اب یہ مان لینا چاہیے کہ متعہ نکاح ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ نکاح کی دو قسمیں ہیں:دائمی اور موقت اور وہ عورت جس کے ساتھ نکاح موقت کیا جائے وہ اس مرد کی
.............
(١)مسند احمد جلد٣ ص٣٥٦
البیان والتبیین جاحظ جلد٢صفحہ ٢٢٣
احکام القرآن جصاص جلد١ ص ٣٤٢
تفسیر قرطبی جلد٢ ص ٣٧٠
المبسوط سرخسی حنفی کتاب الحج باب القرآن
زادالمعاد ابن قیم جلد١ ص٤٤٤
کنزالعمال جلد٨ ص٢٩٣
مسند ابی داؤد طیالسی ص٢٤٧
تاریخ طبری جلد٥ ص٣٢
المستبین طبری
تفسیر رازی جلد٣ص٢٠٠سے ٢٠٢ تک
تفسیر ابوحیان جلد٣ ص ٢١٨
زوجہ شمار ہوتی ہے اور وہ مرد بھی اس عورت کا شوہر کہلاتا ہے اس اعتبار سے فطری طور پر اس قسم کی شادی بھی نکاح سے متعلق آیتوں کے ذیل میں آئے گی مثال کے طور پر قرآن مجید کی یہ آیت ملاحظہ ہو :
( وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ ِلاَّ عَلَی َزْوَاجِہِمْ وْ مَا مَلَکَتْ َیْمَانُہُم)(١)
اور مومنین اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنیوالے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور اپنی ملکیت کی کنیزوں کے.
اب تمام گزشتہ شرائط کے ساتھ جس عورت سے متعہ کیا جائے وہ '' ِلاَّ عَلَی َزْوَاجِہِم ْ''(سوائے اپنی بیویوں کے)کا ایک مصداق قرار پائے گی یعنی یہ عورت
اس مرد کی زوجہ کہلائے گی اور لفظ '' َزْوَاجِہِم ''اس کو بھی اپنے اندر شامل کرے گا.سورہ مومنون کی یہ آیت جنسی عمل کو فقط دو قسم کی عورتوں یعنی بیویوں اور کنیزوں کے ساتھ جائز قرار دیتی ہے اور وہ عورت جس سے متعہ کیا گیا ہو وہ پہلی قسم کی عورتوں (یعنی اپنی بیویوں) میں شامل ہے.
یہاں پر بعض لوگوں کا یہ کلام تعجب خیز ہے کہ سورہ مومنون کی یہ آیت سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کیلئے ناسخ ہے جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ناسخ آیت کو منسوخ ہونے والی آیت کے بعد نازل ہونا چاہیے اور یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے سورہ مومنون جسکی
.............
(١)سورہ مومنون آیت :٥اور ٦
آیت کو ناسخ تصورکیا جارہاہے وہ مکی ہے (یعنی یہ سورہ آنحضرتۖ کی ہجرت سے قبل مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے) اور سورہ نساء جس میں آیۂ متعہ ہے مدنی ہے (یعنی یہ سورہ مدینۂ منورہ میں آنحضرتۖ کی ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے) اب سوال یہ ہے کہ مکی سورہ میں آنے والی آیت مدنی سورہ میں آنے والی آیت کیلئے کیسے ناسخ بن سکتی ہے؟
اسی طرح رسول خداۖ کے زمانے میں آیہ متعہ کے منسوخ نہ ہونے کی ایک اور واضح دلیل وہ کثیر روایات ہیں جن کے مطابق یہ آیت آنحضرتۖ کے زمانے میں منسوخ نہیں ہوئی تھی ایسی روایتوں میں سے ایک روایت تو وہی ہے جسے جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر درالمنثور میں ذکر کیا ہے اور جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے(١)
آخر میں ہم اس نکتے کا ذکر کردیں کہ وہ ائمہ معصومین ٪ جو حدیث ثقلین کے مطابق امت کے ہادی اور قرآن کے ہم پلہ ہیں انہوں نے عقد متعہ کے شرعاجائز
ہونے اور اس کے منسوخ نہ کئے جانے کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے. (٢)
ساتھ ہی ساتھ اسلام چونکہ ہرزمانے میں انسانوں کی مشکلات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا اس نے بھی چند ذکر شدہ شرائط کی رعایت کے ساتھ اس قسم کے نکاح کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ آج کی اس گمراہ کن دنیا میں جوانوں کو تباہی کے دلدل سے نجات دینے کے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے متعہ۔
.............
(١) تفسیر درالمنثور جلد٢ ص ١٤٠ اور ص ١٤١ سورہ نساء کی چوبیسویں آیت کی تفسیر کے ذیل میں.
(٢)وسائل الشیعہ جلد١٤ کتاب النکاح ابواب متعہ باب اول ص ٤٣٦.
انیسواں سوال
شیعہ خاک پر کیوں سجدہ کرتے ہیں؟
جواب:بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیںکہ خاک یا شہیدوں کی تربت پر سجدہ کرنا ان کی عبادت کرنے کے برابر ہے اوریہ ایک قسم کا شرک ہے . اس سوال کے جواب میں اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ ان دو جملوں ''السجود للّہ''و ''السجود علیٰ الأرض'' میں بڑا فرق ہے اور اس سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوال کرنے والا ان دو جملوں کے درمیان موجود فرق کو نہیں سمجھ پایا ہے.
السجود للّہ کے معنی یہ ہیں کہ سجدہ خدا کے لئے ہوتا ہے اور السجود علیٰ الأرضیعنی سجدہ زمین پر ہوتا ہے.بہ الفاظ دیگر ہم زمین پر خدائے عظیم کا سجدہ بجا لاتے ہیں اصولی طور پر دنیا کے سارے مسلمان کسی نہ کسی چیز کے اوپر سجدہ کرتے ہیں جبکہ وہ خدا کا سجدہ کرتے ہیں مسجد الحرام میں بھی لوگ پتھروں پر سجدہ کرتے ہیں جبکہ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا کا سجدہ کررہے ہیں .
اس بیان کے ساتھ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خاک یا پتوں یا کسی اور چیز پر سجدہ کرنا ان چیزوں کی عبادت نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعہ خدائے عظیم کے سامنے خود کو خاک سمجھتے ہوئے اس کے لئے سجدہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خاک شفا پر سجدہ کرنا خاک شفا کو سجدہ کرنا نہیں ہے.قرآن مجید فرماتا ہے:
( وَلِلَّہِ یَسْجُدُ مَنْ فِ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْض)(١)
اللہ ہی کو زمین و آسمان میں رہنے والے سب سجدہ کرتے ہیں.
نیز پیغمبرۖ اسلام فرماتے ہیں:
''جُعِلَتْ ل الأرض مسجدًا وطھورًا'' (٢)
زمین میرے لئے جائے سجدہ اور پاک کرنے والی قرار دی گئی ہے.
لہذا ''خد اکے لئے سجدہ '' اور ''زمین یا خاک شفا پر سجدہ'' کے درمیان آپس میں پوری طرح سازگاری ہے کیونکہ خاک اور پتوں پر سجدہ کرنا خدائے عظیم کے سامنے انتہائی درجہ کے خضوع کی علامت ہے . اس بارے میں شیعوں کے نظرئیے کی وضاحت کے لئے بہتر یہ ہے کہ ہم امام صادق ـ کے اس گہر بار ارشاد کو پیش کریں:
''عن ھشام ابن الحکم قال قلت لأب عبداللّہ ـ اخبرن عما یجوز السجود علیہ و عما لایجوز
.............
(١)سورہ رعد آیت: ١٥
(٢)صحیح بخاری کتاب الصلوة ص٩١
علیہ؟ قال : السجود لایجوز لاّعلی الأرض أو ما أنبتت لاّرض الا ماأکل أو لبس فقلت لہ:جعلت فداک ماالعلّة ف ذلک؟ قال: لأن السجود ھو الخضوع للّہ عزّوجلّ فلا ینبغ أن یکون علیٰ ما یؤکل و یلبس لأن أبناء الدنیا عبید ما یأکلون و یلبسون والساجد ف سجودہ ف عبادة اللّہ عزّوجلّ فلا ینبغ أن یضع جبھتہ ف سجودہ علیٰ معبود أبناء الدنیا الذین اغتروا بغرورھا والسجود علیٰ الأرض أفضل لأنہ أبلغ ف التواضع والخضوع للّہ عزّوجلّ''(١)
ہشام بن حکم کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق ـ کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ رہنمائی فرمائیں کہ کن چیزوں پرسجدہ کرنا صحیح ہے اور کن چیزوں پر صحیح نہیںہے؟ امام ـ نے فرمایا سجدہ صرف زمین اور اس سے اگنے والی اشیاء پر ہوسکتا ہے لیکن کھانے اور پہننے والی اشیاء پر سجدہ نہیں کیا جاسکتا میں نے عرض کی : میں آپ پرقربان ہوجاؤں اس کا کیا سبب ہے؟ امام نے فرمایا: سجدہ خداوند عزوجل کے لئے خضوع کا نام ہے پس یہ صحیح نہیں ہے کہ
.............
(١)بحارالانوار جلد ٨٥ ص١٤٧ ''علل الشرائع'' سے نقل کرتے ہوئے.
کھانے اور پہننے والی چیزوں پر سجدہ کیا جائے کیونکہ دنیا پرست افراد خوراک اور لباس کے بندے ہیں جبکہ انسان سجدے کی حالت میں اللہ عزوجل کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے.پس یہ مناسب نہیں ہے کہ اپنی پیشانی اس چیز پر رکھے جس کو دنیا پرست اپنا معبود سمجھتے ہیں اور وہ دنیا کے دھوکہ میں آگئے ہیںاور زمین پر سجدہ کرنا افضل ہے کیونکہ اس سے خدا کی بارگاہ میں زیادہ خضوع کا اظہار ہوتا ہے .
امام کا یہ کلام اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خاک پر سجدہ اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ یہ کام خدا کی بارگاہ میں تواضع کو ظاہر کرنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے.
یہاں پرایک اور سوال بھی سامنے آتا ہے کہ شیعہ صرف خاک اور بعض پتوں ہی پر کیوں سجدہ کرتے ہیں اور باقی چیزوں پرسجدہ کیوں نہیں کرتے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جس طرح یہ ضروری ہے کہ ہر عبادت کا حکم شریعت کی طرف سے ہم تک پہنچے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے تمام شرائط ، اجزاء ، اور اس کا طریقہ بھی شریعت کو بیان کرنے والی شخصیت یعنی پیغمبراکرم ۖ کے اقوال اور کردار کے ذریعے ہم تک پہنچے کیونکہ قرآن کے حکم کے مطابق تمام مسلمانوں کے لئے اسوہ اور نمونہ عمل فقط پیغمبر گرامیۖ کی ذات ہے .
اب ہم چند ایسی احادیث ذکر کرتے ہیں جو اس بارے میں پیغمبراسلامۖ کی سیرت کو بیان کرتی ہیں یہ حدیثیں اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ آنحضرتۖ خاک پر اور زمین سے اگنے والی بعض چیزوں جیسے چٹائی وغیرہ پر سجدہ فرماتے تھے اور آج شیعہ بھی اسی چیز کا عقیدہ رکھتے ہیں بہت سے مسلمان محدثین نے اپنی صحاح ومسانید میں آنحضرتۖ سے نقل کیا ہے کہ آپۖ نے زمین کو اپنے لئے سجدہ کے عنوان سے پہچنوایا تھا آنحضرتۖ فرماتے ہیں:
''جعلت ل الأرض مسجدًا و طھورًا''(١)
زمین میرے لئے جائے سجدہ اور پاک کرنے والی قرار دی گئی ہے.
١)اس حدیث میں لفظ ''جعلت ''قانون گزاری کے معنی میں ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ مسئلہ دین اسلام کی پیروی کرنے والوں کے لئے ایک حکم الہی ہے اس حدیث سے خاک، پتھر اور ہر اس چیز پر سجدے کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے کہ جس کو زمین کہا جاسکے.
٢)بعض دوسری روایات اس نکتے پردلالت کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلامۖ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانیوں کو خاک پر رکھا کریں جیسا کہ
.............
(١)سنن بیہقی جلد١ ص ٢١٢(باب التیمم بالصعید الطیب)صحیح بخاری جلد١ کتاب الصلوة ص٩١ اقتضائ
الصراط المستقیم (ابن تیمیہ) ص ٣٣٢.
زوجہ پیغمبرۖ ام سلمہ آنحضرتۖ سے روایت کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:
''ترِّب وجھک للّہ''(١)
اللہ کے لئے اپنے چہرے کو خاک پر رکھو.
اس حدیث میں ''ترب'' کے لفظ سے دو نکتے سمجھ میں آتے ہیں ایک یہ ہے کہ انسان کو سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی کو خاک پر رکھنا چاہیے دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ''ترب'' صیغہ امر ہے لہذا خاک پر سجدہ کرنا واجب ہے.
٣)خود آنحضرتۖ کا عمل بھی خاک پر سجدے کے صحیح ہونے کا بہترین گواہ ہے وائل بن حجر کہتے ہیں:
''رأیت النب ۖ اِذا سجد وضع جبھتہ و أنفہ علیٰ الأرض''(٢)
میں نے پیغمبر ۖکو دیکھا ہے کہ جب آپ سجدہ کرتے تھے تو اپنی پیشانی اور ناک کو زمین پر رکھتے تھے.
انس بن مالک اور ابن عباس اور آپۖ کی ازواج جیسے عائشہ اور ام سلمہ اور بہت سے محدثین نے اس طرح روایت کی ہے:
''کان رسول اللّہ ۖ یصل علیٰ الخمرة''(٣)
.............
(١)کنزالعمال جلد٧ ص ٤٦٥ حدیث نمبر ١٩٨٠٩ کتاب الصلوة السجود و مایتعلق بہ.
(٢) احکام القرآن (جصاص حنفی جلد٣ ص٢٠٩ باب السجود علی الوجہ)
(٣)سنن بیہقی جلد٢ ص٤٢١ کتاب الصلوة علی الخمرہ.
رسول خدا ۖ چٹائی پر نماز پڑھتے تھے (ایسی چٹائی جوکہ کھجور کی پتیوں سے تیار کی جاتی تھی)
پیغمبر اکرمۖ کے صحابی ابوسعید کہتے ہیں کہ:
''دخلت علیٰ رسول اللّہ ۖ وھو یصل علیٰ حصیر''(١)
میں رسول خداۖ کی خدمت میں حاضر ہواتو اس وقت آپ چٹائی پر نماز پڑھ رہے تھے .
یہ بات شیعوں کے نظرئیے کے صحیح ہونے کی گواہی دیتی ہے کیونکہ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ زمین سے اگنے والی ان اشیاء پر سجدہ صحیح ہے جو نہ تو کھائی جاتی ہوں اور نہ ہی پہنی جاتی ہوں.
٤)پیغمبر اسلامۖ کے اصحاب اور تابعین کی سیرت اور ان کے اقوال بھی اس بارے میں آنحضرت کی سنت کو بیان کرتے ہیں :جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں :
''کنت أصل الظہر مع رسول اللّہ ۖ فأخذ قبضة من الحصاء لتبرد ف کف أضعھا لجبھت أسجد علیھا لشدة الحرّ''(٢)
.............
(١)گذشتہ حوالہ .
(٢) سنن بیہقی جلد١ ص٤٣٩کتاب الصلوة باب ماروی فی التعجیل بھا فی شدة الحر.
جب میں رسول اللہ ۖ کے ساتھ نماز ظہر پڑھتا تھا تو اپنی مٹھی میں سنگ ریزے اٹھا لیتا تھا تاکہ وہ میرے ہاتھ میں ٹھنڈے ہو جائیں اور انہیں سجدہ کے وقت اپنی پیشانی کے نیچے رکھ سکوں کیونکہ گرمی بہت شدید تھی.
اور پھر خود راوی نے اس بات کا اضافہ کیا ہے کہ اگر اپنے کپڑوں پر سجدہ کرنا جائز ہوتا تویہ سنگریزوں کے اٹھانے اور انہیں سنبھالنے سے آسان تھا .
ابن سعد (وفات ٢٠٩ ھ) اپنی کتاب ''الطبقات الکبری'' میں یوں لکھتے ہیں:
''کان مسروق اِذا خرج یخرج بلبنةٍ یسجد علیھا ف السفینة''(١)
مسروق ابن اجدع جس وقت سفر کے لئے نکلتے تھے تواپنے ساتھ ایک کچی اینٹ رکھ لیتے تھے تاکہ کشتی میں اس پر سجدہ کرسکیں .
مسروق بن اجدع پیغمبرۖ کے تابعین اورابن مسعود کے اصحاب میں سے تھے،
کتاب ''الطبقات الکبری'' کے مؤلف ان کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
'' وہ پیغمبر اکرمۖ کے بعد اہل کوفہ میں سے طبقہ اول کے لوگوں میں سے تھے اور انہوں نے ابوبکر ، عمر، عثمان، علی اور عبداللہ بن مسعود سے روایتیں نقل کی ہیں .''
اس کلام سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مٹی کی سجدہ گاہ کا ہمراہ رکھنا ہرگز شرک یا
.............
(١)''الطبقات الکبری''جلد ٦ ص٧٩ طبع بیروت مسروق بن اجدع کے حالات کو بیان کرتے ہوئے.
بدعت نہیں ہے کیونکہ صحابۂ کرام بھی ایسا کرتے تھے .(١)
نافع کہتے ہیں :
'' ان ابن عمرکان اذا سجد و علیہ العمامة یرفعھا حتیٰ یضع جبھتہ بالأرض''(٢)
عبد اللہ بن عمر سجدہ کرتے وقت اپنے عمامے کو اوپر کرلیا کرتے تھے تاکہ اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ سکیں.
رزین کہتے ہیں:
''کتب اِلّ علّ بن عبداللّہ بن عباس أن أبعث لَّ بلوح من أحجار المروة أسجد علیھا ''(٣)
علی بن عبداللہ بن عباس نے مجھے لکھا کہ مروہ پہاڑ کے ایک پتھر کی تختی میرے پاس بھیج دو تاکہ میں اس پر سجدہ کرسکوں.
٥)دوسری طرف سے مسلمان محدثین نے کچھ روایتیں نقل کی ہیں جن کے مطابق پیغمبر اسلام ۖ نے ایسے افراد کو ٹوکا ہے جو سجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی اور زمین کے درمیان عمامے کے کپڑے کو حائل کرلیا کرتے تھے .
.............
(١)اس سلسلے میں مزید شواہد کے لئے علامہ امینی کی کتاب ''سیرتنا'' کی طرف مراجعہ فرمائیں.
(٢)سنن بیہقی جلد٢ ص١٠٥( مطبوعہ حیدرآباد دکن) کتاب الصلوة باب الکشف عن السجدة فی السجود
(٣)ازرقی ،اخبار مکہ جلد ٣ ص١٥١
صالح سبائی کہتے ہیں :
''اِنّ رسول اللّہ ۖ رأی رجلاً یسجد علیٰ جنبہ و قد اعتم علیٰ جبھتہ فحسر رسول اللّہ ۖ علیٰ جبھتہ''(١)
رسول خدا ۖ نے اپنے پاس ایک ایسے شخص کو سجدہ کرتے دیکھا جس نے اپنی پیشانی پر عمامہ باندھ رکھا تھا تو آنحضرتۖ نے اس کے عمامے کو ہٹا دیا .
عیاض بن عبداللہ قرشی کہتے ہیں:
''رأی رسول اللّہ ۖ رجلاً یسجد علیٰ کور عمامتہ فأوما ٔ بیدہ ارفع عمامتک وأومأ الیٰ جبھتہ''(٢)
رسول خدا ۖ نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے عمامے کے ایک گوشے پر سجدہ کررہا تھا تو آپ نے اس کی طرف ہاتھ اٹھا کر پیشانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اپنے عمامے کو اوپر اٹھاؤ.
ان روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول خداۖ کے زمانے میں زمین پر
.............
(١)سنن بیہقی جلد٢ ص ١٠٥
(٢)گذشتہ حوالہ.
سجدہ کرنا ایک لازمی امر تھا اور جب بھی کوئی شخص عمامے پر سجدہ کرتا تو آنحضرتۖ اسے اس کام سے روکتے تھے .
٦)شیعوں کے ائمہ اطہار ٪ جوکہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن مجید سے کبھی جدا نہ ہوںگے اور دوسری طرف وہ پیغمبر اکرمۖ کے اہل بیت ہیںانہوں نے زمین پر سجدہ کو صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے امام صادق ـ فرماتے ہیں:
''السجود علیٰ الأرض فریضة و علیٰ الخمرة سنة''(١)
زمین پر سجدہ کرنا حکم الہی ہے اور چٹائی پرسجدہ سنت پیغمبر ۖ ہے.
اور ایک مقام پر فرماتے ہیں :
''السجود لایجوز اِلاعلیٰ الأرض أو علیٰ ما أنبتت الأرض اِلا ما أکل أو لبس''(٢)
سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے سوائے زمین یا اس سے اگنے والی اشیاء پر لیکن کھائی اور پہننے والی اشیاء پر سجدہ نہیں ہوسکتا.
نتیجہ:گزشتہ دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نہ صرف اہل بیت ٪ کی روایات بلکہ رسول خداۖ کی سنت اور آنحضرتۖ کے اصحاب اور تابعین کی سیرت اس
.............
(١)وسائل الشیعہ جلد٣ ص٥٩٣ کتاب الصلوة ابواب ما یسجد علیہ ،حدیث نمبر ٧.
(٢)وسائل الشیعہ جلد٣ ص٥٩١ کتاب الصلوة ابواب ما یسجد علیہ ،حدیث نمبر ١.
بات کی گواہ ہیں کہ سجدہ صرف زمین یا اس سے اگنے والی اشیاء (سوائے کھانے اور پہنے جانے والی اشیاء کے) پر ہی کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ بقیہ دوسری چیزوں پر سجدے کے جائز ہونے کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے لہذا اس احتیاط پر عمل کرتے ہوئے نجات اور کامیابی کی راہ صرف یہ ہے کہ ان چیزوں پر سجدہ کیا جائے
جن پر سب کا اتفاق ہے آخر میں ہم اس نکتے کی یاد آوری ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ بحث صرف ایک فقہی مسئلہ ہے اور اس قسم کے جزئی مسائل کے بارے میں مسلمان فقہاء کے درمیان بہت اختلافات ہیں لیکن اس قسم کے اختلافات کوکسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہیے کیونکہ اس قسم کے فقہی اختلافات اہل سنت کے چار فرقوں کے درمیان فراوان ہیں مثال کے طورپر مالکی کہتے ہیں کہ ناک کو سجدہ گاہ پر رکھنا مستحب ہے جب کہ حنبلی کہتے ہیں کہ یہ عمل واجب ہے اور اسے چھوڑنے کی صورت میں سجدہ باطل ہوجائے گا۔(١)
.............
(١) الفقہ علی المذاہب الاربعة جلد١ ص ١٦١ طبع مصر کتاب الصلوة ، بحث سجود.
|