شيعہ جواب ديتے ہيں


پندرہواں سوال

''بدائ'' کیا ہے اور آپ اس کا عقیدہ کیوںرکھتے ہیں؟

جواب:عربی زبان میں لفظ ''بدائ'' کے معنی آشکار اور ظاہر ہونے کے ہیں اسی طرح شیعہ علماء کی اصطلاح میں ایک انسان کے نیک اور پسندیدہ اعمال کی وجہ سے اس کی تقدیر و سرنوشت میں تبدیلی کو ''بدائ'' کہا جاتا ہے.
عقیدۂ بداء شیعیت کی آفاقی تعلیمات کے عظیم عقائد میں سے ایک ہے جسکی اساس وحی الہی اور عقلی استدلال پر استوار ہے. قرآن کریم کی نگاہ میں ایسا نہیں ہے کہ انسان کے ہاتھ اس کے مقدرات کے سامنے ہمیشہ کے لئے باندھ دئیے گئے ہوں بلکہ سعادت کی راہ اس کے لئے کھلی ہوئی ہے اور وہ راہ حق کی طرف پلٹ کر اپنے اچھے اعمال کے ذریعہ اپنی زندگی کے انجام کوبدل سکتا ہے اس حقیقت کو اس کتاب الہی نے ایک عمومی اور مستحکم اصل کے عنوان سے یوں بیان کیا ہے:
( ِنَّ اﷲَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بَِنفُسِہِمْ)(١)
اور خداوند کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرلے.
اور ایک جگہ فرماتا ہے:
( وَلَوْ َنَّ َہْلَ الْقُرَی آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکَاتٍ مِنْ السَّمَائِ وَالَْرْضِ)(٢)
اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے راستے کھول دیتے.
اسی طرح حضرت یونس کی سرنوشت کی تبدیلی کے بارے میں فرماتا ہے:
( فَلَوْلاَنَّہُ کَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِینَ لَلَبِثَ فِ بَطْنِہِ ِلَی یَوْمِ یُبْعَثُونَ)(٣)
پھر اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو روز قیامت تک اسی (مچھلی) کے شکم میں رہ جاتے.
اس آخری آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ظاہری اعتبار سے حضرت یونس نبی کا قیامت تک اس خاص زندان میں باقی رہنا قطعی تھا لیکن ان کے نیک اعمال
.............
(١)سورہ رعد آیت:١١
(٢)سورہ اعراف آیت:٩٦
(٣)سورہ صافات آیت ١٤٣اور ١٤٤

(تسبیح پروردگار) نے ان کی سرنوشت کوبدل دیا اور انہیںاس سے نجات دلائی.
یہ حقیقت اسلامی روایات میں بھی بیان ہوئی ہے پیغمبر گرامیۖ اس بارے میں فرماتے ہیں:
''اِن الرجل لیُحرم الرزق بالذنب یصیبہ ولا یرد القدر
اِلا الدعاء ولا یزید ف العمر اِلا البرّ''(١)
بے شک انسان گناہ کی وجہ سے اپنی روزی سے محروم ہوجاتا ہے ایسے موقع پر دعا کے علاوہ کوئی اور چیز اس کی تقدیر کو تبدیل نہیں کرسکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی اور چیز اس کی عمر کو نہیں بڑھا سکتی.
یہ اور اس قسم کی دوسری روایتوں سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے کہ انسان گناہ کی بدولت روزی سے محروم ہو جاتا ہے ؛ لیکن اپنے نیک اعمال (جیسے دعا مانگنے) کے ذریعہ اپنی سرنوشت کو بدل سکتا ہے اور نیکی کر کے اپنی عمر بڑھا سکتاہے.
نتیجہ:قرآنی آیات اور سنت پیغمبرۖ سے استفادہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس مادی دنیا کے اسباب و مسببات اور کاموں کے ردعمل سے بھی تقدیر بدل جاتی ہے یا اولیائے خدا (جیسے نبی یاامام) انسان کو خبر دے کہ اگر اس کا طرز عمل اسی طرح رہا تو اس کا مقدر یہ ہوگا لیکن اگر وہ یکبارگی کسی وجہ سے اپنے کردار کو سنوار لے تو
.............
(١) مسند احمد جلد ٥ ص ٢٧٧ او رمستدرک حاکم جلد ١ ص ٤٩٣ اور اسی کی مثل ''التاج الجامع للاصول '' جلد ٥ ص ١١١ میں ہے.

اپنی عاقبت کو تبدیل کرسکتا ہے.
اس حقیقت کو خدا کی وحی، پیغمبراسلامۖ کی سنت اور عقل سلیم کے فیصلوں سے درس لے کر حاصل کیا گیا ہے۔ اوراسے شیعہ علماء بداء کے نام سے یاد کرتے ہیں.
یہاں پر اس بات کا واضح کردینا مناسب ہوگا کہ ''بدائ'' کی تعبیر عالم تشیع سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ تعبیر پیغمبراکرمۖ کی احادیث اور اہل سنت کی تحریروں میں بھی
دکھائی دیتی ہے نمونے کے طور پر ذیل کی حدیث ملاحظہ ہو جس میں پیغمبر اکرمۖ نے اس کلمہ کو استعمال فرمایا ہے:
''وبداللّہ عزّ وجلّ أن یبتلیھم''(١)
اس نکتے کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بداء کے یہ معنی نہیں ہیں کہ خداوند کریم کے لامتناہی علم میں کسی قسم کی تبدیلی رونما ہوتی ہے کیونکہ خداوندکریم ابتداء ہی سے انسانی افعال کے فطری نتائج اور بدا کا موجب بننے والے عوامل سے بخوبی آگاہ ہے اس بات کی قرآن مجید نے بھی خبر دی ہے.
( یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَائُ وَیُثْبِتُ وَعِنْدَہُ ُمُّ الْکِتَابِ)(٢)
اللہ جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے یا برقرار رکھتا ہے کہ اصل کتاب اسی کے پاس ہے.
.............
(١)النہایہ فی غریب الحدیث والاثر ، مؤلف مجدالدین مبارک بن محمد جزری جلد١ ص ١٠٩
(٢)سورہ رعد آیت: ٣٩

لہذا خداوند کریم ظہور بداء کے وقت اس حقیقت کو ہمارے لئے آشکار کرتا ہے جو ازل ہی سے اس کے علم میں تھی اسی وجہ سے امام صادق ـ فرماتے ہیں:
''مابدا اللہ ف شء اِلا کان ف علمہ قبل أن یبدولہ ''(١)
خدا وندعالم کو کسی چیز میں بداء نہیںہوتا ہے مگر یہ کہ ازل سے اس کو اس کا علم تھا .

بداء کا فلسفہ
اس میں شک نہیں کہ اگر انسان یہ جان لے کہ تقدیر کو بدلنا اس کے اختیار میں ہے تو وہ ہمیشہ اپنے مستقبل کو سنوارنے کے درپے رہے گا اور زیادہ سے زیادہ ہمت اور کوشش کے ساتھ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گا .
دوسرے لفظوں میںیہ کہا جائے کہ جس طرح توبہ اور شفاعت انسان کو ناامیدی اور مایوسی سے نجات دلاتی ہے اسی طرح بداء کا عقیدہ بھی انسان کے اندر نشاط اور شادابی پیدا کرتا ہے اور انسان کو روشن مستقبل کا امیدوار بناتا ہے کیونکہ اس عقیدے کی روشنی میں انسان یہ جان لیتا ہے کہ پروردگار عالم کے حکم سے وہ اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور ایک بہتر مستقبل حاصل کر کے اپنی عاقبت سنوار سکتا ہے۔
.............
(١) اصول کافی جلد ١ کتاب التوحید باب البداء حدیث نمبر٩


سولہواں سوال

کیا شیعہ قرآن مجید میں تحریف کے قائل ہیں؟

جواب: شیعوں کے مشہور علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید میں کسی بھی قسم کی تحریف نہیں ہوئی ہے اور وہ قرآن جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے بعینہ وہی آسمانی کتاب ہے جو پیغمبر گرامی ۖ پر نازل ہوئی تھی اور اس میں کسی قسم کی زیادتی اور کمی نہیں ہوئی ہے اس بات کی وضاحت کے لئے ہم یہاںچند شواہد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
١۔پروردگار عالم مسلمانوں کی آسمانی کتاب کی صیانت اور حفاظت کی ضمانت لیتے ہوئے فرماتا ہے :
( ِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ )(١)
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.
.............
(١) سورہ حجر آیت :٩

واضح ہے کہ ساری دنیا کے شیعہ چونکہ قرآن مجید کو اپنے افکار اور کردار کے لئے
اساس قرار دیتے ہیں لہذا اس آیہ شریفہ کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے اس آیت میں موجود اس پیغام پر کامل ایمان رکھتے ہیں جو اس کتاب خدا کی حفاظت سے متعلق ہے .
٢۔شیعوں کے عظیم الشأن امام حضرت علی ـ نے جو ہمیشہ پیغمبر اکرم ۖ کے ہمراہ رہے اور کاتبان وحی میں سے ایک تھے آپ سے لوگوں کو مختلف موقعوں اور مناسبتوں پر اسی قرآن کی طرف دعوت دی ہے ہم اس سلسلے میں ان کے کلام کے کچھ حصے یہاں پیش کرتے ہیں:
''واعلموا أن ھذا القرآن ھو الناصح الذ لایغش والھاد الذ لایضلّ'' (١)
جان لو کہ یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو ہرگز خیانت نہیں کرتا اور ایسا رہنمائی کرنے والا ہے جو ہرگز گمراہ نہیں کرتا.
''ن اللّہ سبحانہ لم یعط أحداً بمثل ھذا القرآن فنہ حبل اللّہ المتین و سببہ المبین''(٢)
بے شک خداوند سبحان نے کسی بھی شخص کو اس قرآن کے جیسی نصیحت عطا نہیں فرمائی ہے کہ یہی خدا کی محکم رسی اور اس کا واضح وسیلہ ہے.
.............
(١)نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر ١٧٦
(٢)گذشتہ حوالہ.

''ثم أنزل علیہ الکتاب نورًا لا تطفأ مصابیحہ و سراجًا لا یخبو توقدہ.ومنھاجًا لا یضل نھجہ . .. و فرقانا لا یخمد برھانہ''(١)
اور پھر آپۖ پر ایسی کتاب کو نازل کیا جس کا نور کبھی خاموش نہیں ہوگااور جس کے چراغ کی لو کبھی مدھم نہیں پڑ سکتی وہ ایسا راستہ ہے جس پر چلنے والا کبھی بھٹک نہیں سکتا اور ایسا حق اور باطل کا امتیاز ہے جو کمزور نہیں پڑ سکتا .
شیعوں کے امام عالی شان امام حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب ـ کے گہربار کلام سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید کی مثال ایک ایسے روشن چراغ کی ہے جو ہمیشہ اپنے پیروکاروں کے لئے مشعل راہ کا کام کرے گا. اور ساتھ ہی ساتھ اس میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں ہوگی جو اس کے نور کے خاموش ہوجانے یا انسانوں کی گمراہی کا باعث ہو .
٣۔شیعہ علماء اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام ۖ نے یہ ارشاد فرمایا ہے :
''میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا (قرآن) ہے اور دوسرے میرے اہل بیت
.............
(١)نہج البلاغہ (صبحی صالح) خطبہ نمبر١٩٨

ہیں جب تک تم ان دو سے متمسک رہو گے ہرگز گمراہ نہیں ہوگے.''
یہ حدیث اسلام کی متواتر احادیث میں ایک ہے جسے شیعہ اور سنی دونوں فرقوں نے نقل کیا ہے.
اس بیان سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ شیعوں کی نظر میں کتاب خدا میں ہرگز کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر قرآن مجید میں تحریف کا امکان ہوتا تو اس سے تمسک اختیار کر کے ہدایت حاصل کرنا اور گمراہی سے بچنا ممکن نہ ہوتااور پھر اس کے نتیجہ میںقرآن اور حدیث ثقلین کے درمیان ٹکراؤ ہوجاتا .
٤.شیعوں کے اماموں نے اپنی روایات میں (جنہیں ہمارے تمام علماء اور فقہا نے نقل کیا ہے) اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ قرآن مجید حق وباطل اور صحیح و غلط کے درمیان فرق پیدا کرنے والا ہے لہذا ہر کلام حتی ہم تک پہنچنے والی روایات کے لئے ضروری ہے کہ انہیں قرآن مجید کے میزان پر تولا جائے اگر وہ قرآنی آیات کے مطابق ہوں تو حق ہیں ورنہ باطل. اس سلسلے میں شیعوں کی فقہ اور احادیث سے متعلق کتابوں میں بہت سی روایتیں ہیں ہم یہاں ان میں سے صرف ایک روایت کو پیش کرتے ہیں :
امام صادق ـ فرماتے ہیں:
''مالم یوافق من الحدیث القرآن فھو زخرف''(١)
ہر وہ کلام باطل ہے جو قرآن سے مطابقت نہ رکھتا ہو .
.............
(١) اصول کافی جلد١ کتاب فضل العلم باب الاخذ بالسنة و شواہد الکتاب روایت نمبر ٤

اس قسم کی روایات سے بھی یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید میں کسی بھی قسم کی تحریف نہیں کی جاسکتی اسی وجہ سے اس کتاب کی یہ خاصیت ہے کہ وہ حق و باطل میں فرق پیدا کرنے والی ہے اورہمیشہ باقی رہنے والی ہے .
٥.شیعوں کے بزرگ علماء نے ہمیشہ اسلام اور تشیع کی آفاقی تہذیب کی حفاظت کی ہے ان سب نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ قرآن مجیدمیں کبھی کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے چوں کہ ان تمام بزرگوں کے نام تحریر کرنا دشوار کام ہے لہذا ہم بطور نمونہ ان میں سے بعض کا ذکر کرتے ہیں :
١۔جناب ابوجعفر محمد بن علی بن حسین بابویہ قمی (متوفی ٣٨١ ھ) جو ''شیخ صدوق'' کے نام سے مشہور ہیں فرماتے ہیں :
'' قرآن مجید کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے وہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں باطل نہیں آسکتا وہ پروردگار حکیم و علیم کی بارگاہ سے نازل ہواہے اور اسی کی ذات اس کو نازل کرنے اور اس کی محافظت کرنے والی ہے .''(١)
٢۔جناب سید مرتضیٰ علی بن حسین موسوی علوی (متوفی ٤٣٦ھ)جو ''علم الہدیٰ'' کے نام سے مشہور ہیںفرماتے ہیں:
.............
(١) الاعتقادات ص ٩٣

''پیغمبر اکرم ۖ کے بعض صحابۂ کرام جیسے عبداللہ بن مسعود اور اُبیّ بن کعب وغیرہ نے بارہا آنحضرت ۖ کے حضور میں قرآن مجید کو اول سے لے کر آخر تک پڑھا ہے یہ بات اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ قرآن مجید ترتیب کے ساتھ اور ہر طرح کی کمی یا پراگندگی کے بغیر اسی زمانے میں جمع کر کے مرتب کیا جاچکا تھا.''(١)
٣۔جناب ابوجعفر محمد بن حسن طوسی (متوفی ٤٦٠ ھ)جوکہ شیخ الطائفہ کے نام سے مشہور تھے وہ فرماتے ہیں:
''قرآن مجید میں کمی یا زیادتی کا نظریہ کسی بھی اعتبار سے اس مقدس کتاب کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتاکیونکہ تمام مسلمان اس
بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں کسی طرح کی زیادتی واقع نہیں ہوئی ہے اسی طرح ظاہراً سارے مسلمان متفق ہیں کہ قرآن مجیدمیں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور یہ نظریہ کہ (قرآن میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی ہے) ہمارے مذہب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے جناب سید مرتضی نے بھی اس بات کی تائید کی ہے اور روایات کے ظاہری مفہوم سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کچھ لوگوں نے بعض ایسی روایتوں کی طرف اشارہ کیا ہے
.............
(١) مجمع البیان جلد١ ص ١٠ میں سید مرتضیٰ کی کتاب ''المسائل الطر ابلیسیات''سے نقل کرتے ہوئے.

جن میں قرآن مجید کی آیات میں کمی یا ان کے جابجا ہوجانے کا ذکر ہے ایسی روایتیں شیعہ اور سنی دونوں ہی کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ لیکن چونکہ یہ روایتیں خبر واحد ہیں ان سے نہ تو یقین حاصل ہوتا ہے اور نہ ہی ان پر عمل کیا جاسکتا ہے . (١) لہذا بہتر یہ ہے کہ اس قسم کی روایتوں سے روگردانی کی جائے۔''(٢)
٤۔جناب ابوعلی طبرسی صاحب تفسیر ''مجمع البیان'' فرماتے ہیں:
''پوری امت اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ قرآن مجید میں کسی بھی قسم کا اضافہ نہیں ہوا ہے ا س کے برخلاف ہمارے مذہب کے کچھ افراد اور اہل سنت کے درمیان ''حشویہ'' فرقہ کے ماننے والے قرآن مجید کی آیات میں کمی کے سلسلے میں بعض روایتوں کو پیش کرتے ہیں لیکن جس چیز کو ہمارے مذہب نے مانا ہے جو صحیح بھی ہے وہ اس نظریہ کے برخلاف ہے.''(٣)
٥۔جناب علی بن طاؤس حلی (متوفی ٦٦٤ھ) جو ''سید بن طاؤس'' کے نام سے مشہور ہیں فرماتے ہیں :
.............
(١) ایسی روایت جو حد تواتر تک نہ پہنچتی ہو اور اس کے صدق کا یقین بھی نہ کیا جاسکتا ہووہ خبر واحد کہلاتی ہے.(مترجم)
(٢)تفسیر تبیان جلد ١ ص ٣.
(٣)تفسیر مجمع البیان جلد ١ ص ١٠.
''شیعوں کی نگاہ میں قرآن مجید میں کسی بھی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے''(١)
٦۔ جناب شیخ زین الدین عاملی (متوفی ٨٧٧ھ) اس آیہ کریمہ:
( ِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ )کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
''یعنی ہم قرآن مجید کو ہر قسم کی تبدیلی اور زیادتی سے محفوظ رکھیں گے.''(٢)
٧۔کتاب احقاق الحق کے مؤلف سید نور اللہ تستری (شہادت ١٠١٩ ھ) جو کہ شہید ثالث کے لقب سے مشہور ہیں فرماتے ہیں:
'' بعض لوگوں نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے کہ وہ قرآن میں تبدیلی کے قائل ہیں لیکن یہ سارے شیعوں کا عقیدہ نہیں ہے بلکہ ان میں سے بہت تھوڑے سے افراد ایسا عقیدہ رکھتے ہیں اور ایسے افراد شیعوں کے درمیان مقبول نہیں ہیں .''(٣)
٨۔جناب محمد بن حسین (متوفی ١٠٣٠ھ)جو''بہاء الدین عاملی '' کے نام سے مشہور ہیں فرماتے ہیں کہ:
.............
(١) سعد السعود ص ١١٤٤
(٢)اظہار الحق ج٢ ص ١٣٠
(٣)آلاء الرحمن ص ٢٥
''صحیح یہ ہے کہ قرآن مجید ہر قسم کی کمی و زیادتی سے محفوظ ہے اور یہ کہنا کہ امیر المومنین علی ـ کا نام قرآن مجید سے حذف کردیا گیا ہے'' ایک ایسی بات ہے جو علماء کے نزدیک ثابت نہیں ہے جو شخص بھی تاریخ اور روایات کا مطالعہ کرے گااس کو معلوم ہوجائے گا کہ قرآن مجید متواتر روایات اور پیغمبر اکرمۖ کے ہزاروں اصحاب کے نقل کرنے کی وجہ سے ثابت و استوارہے اور پیغمبراکرم ۖ کے زمانے میں ہی پورا قرآن جمع کیا جاچکا تھا.'' (١)
٩۔کتاب وافی کے مؤلف جناب فیض کاشانی (متوفی ١٠٩١ھ) نے آیت (ِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ)کو اور اس جیسی آیتوں کو قرآن مجید میں عدم تحریف کی دلیل قرار دیتے ہوئے یوں لکھا ہے:
''اس صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہو ساتھ ہی ساتھ تحریف پر دلالت کرنے والی روایتیں کتاب خدا کی مخالف بھی ہیں لہذا ضروری ہے کہ اس قسم کی روایات کو باطل سمجھا جائے.''(٢)
١٠۔جناب شیخ حر عاملی (متوفی ١١٠٤ھ) فرماتے ہیں کہ :
''تاریخ اور روایات کی چھان بین کرنے والا شخص اس بات کو
.............
(١)آلاء الرحمن ص ٢٥
(٢)تفسیر صافی جلد ١ ص ٥١
اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ قرآن مجید، متواتر روایات اور ہزاروں صحابہ کرام کے نقل کرنے سے ثابت و محفوظ رہا ہے اور یہ قرآن پیغمبر اکرم ۖ کے زمانے میں ہی منظم صورت میں جمع کیا جاچکا تھا.' ' (١)
١١۔بزرگ محقق ''جناب کاشف الغطائ'' اپنی معروف کتاب ''کشف الغطائ'' میں لکھتے ہیں:
''اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید خداوندکریم کی صیانت و حفاظت کے سائے میں ہرقسم کی کمی و تبدیلی سے محفوظ رہا ہے ا س بات کی گواہی خود قرآن مجیدبھی دیتا ہے اور ہرزمانے کے علماء نے بھی یک زبان ہو کر اس کی گواہی دی ہے اس سلسلے میں ایک مختصر سے گروہ کا مخالفت کرنا قابل اعتناء نہیں ہے .''
١٢۔اس سلسلہ میں انقلاب اسلامی کے رہبر حضرت آیة اللہ العظمیٰ امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا بیان بھی موجود ہے جسے ہم ایک واضح شاہد کے طور پر پیش کرتے ہیں:
ہر وہ شخص جو قرآن مجید کے جمع کرنے اس کی حفاظت کرنے، اس کو حفظ کرنے ، اس کی تلاوت کرنے اور اس کے لکھنے کے بارے میں مسلمانوں کی احتیاط سے آگاہی رکھتا ہو وہ قرآن کے سلسلے میں نظریہ تحریف کے باطل ہونے کی گواہی دے گا اور وہ
.............
(١)آلاء الرحمن ص ٢٥
روایات جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں جن کے ذریعے استدلال نہیں کیا جاسکتا یا پھر مجہول ہیں جس سے ان کے جعلی ہونے کی نشاندہی ہوتی ہے یا یہ روایتیں قرآن کی تاویل اور تفسیر کے بارے میں ہیں یا پھر کسی اور قسم کی ہیں جن کے بیان کے لئے ایک جامع کتاب تالیف کرنے کی ضرورت ہے اگر موضوع بحث سے خارج ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو یہاں پر ہم قرآن کی تاریخ بیان کرتے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کرتے کہ ان چند صدیوں میں اس قرآن پر کیسے حالات گزرے ہیں اور اس بات کو بھی روشن کردیتے کہ جو قرآن مجید آج ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ بعینہ وہی آسمان سے آنے والی کتاب ہے اور وہ اختلاف جو قرآن کے قاریوں کے درمیان پایا جاتا ہے وہ ایک جدید امر ہے جس کا اس قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہے جسے لے کر جبرئیل امین ـ پیغمبر ۖ کے قلب مطہر پر نازل ہوئے تھے.''(١)
نتیجہ:مسلمانوںکی اکثریت خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی اس بات کی معتقد ہے کہ یہ آسمانی کتاب بعینہ وہی قرآن ہے جو پیغمبر خدا ۖ پر نازل ہوئی تھی اور وہ ہر قسم کی تحریف ، تبدیلی ، کمی اور زیادتی سے محفوظ ہے.
.............
(١)تہذیب الاصول ، جعفر سبحانی(دروس امام خمینی قدس سرہ )جلد٢ص٩٦
ہمارے اس بیان سے شیعوں کی طرف دی جانے والی یہ نسبت باطل ہوجاتی ہے کہ وہ قرآن میں تحریف کے قائل ہیں اگر اس تہمت کا سبب یہ ہے کہ چند ضعیف روایات ہمارے ہاں نقل ہوئی ہیں تو ہمارا جواب یہ ہوگا کہ ان ضعیف روایات کو شیعوں کے ایک مختصر فرقے ہی نے نہیں بلکہ اہل سنت کے بہت سے مفسرین نے بھی اپنے ہاں نقل کیا ہے یہاں ہم نمونے کے طور پر ان میں سے بعض روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :
١۔ابوعبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی اپنی تفسیر میں ابوبکر انبازی سے اور نیز
ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ سورہ احزاب (جس میں تہتر آیتیں ہیں) پیغمبر ۖ کے زمانے میں سورہ بقرہ (جس میں دو سو چھیاسی آیتیں ہیں) کے برابر تھا اور اسوقت اس سورہ میں آیہ ''رجم'' بھی شامل تھی .(١)
(لیکن اب سورہ احزاب میں یہ آیت نہیں ہے)اور نیز اس کتاب میں عائشہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
''پیغمبر ۖ کے زمانے میں سورۂ احزاب میں دوسو آیتیں تھیں پھر بعد میں جب مصحف لکھا گیا تو جتنی اب اس سورہ میں آیتیں ہیں ان سے زیادہ نہ مل سکیں'' (٢)
٢۔کتاب ''الاتقان'' کے مؤلف نقل کرتے ہیں کہ ''اُبیّ '' کے قرآن میں ایک سو سولہ
.............
(١)تفسیر قرطبی جز ١٤ ص ١١٣ سورہ احزاب کی تفسیر کی ابتداء میں.
(٢)گذشتہ حوالہ
سورے تھے کیونکہ اس میں دو سورے حفد اور خلع بھی تھے .جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے سوروں کی تعداد ایک سو چودہ ہے اور ان دو سوروں (حفد اور خلع) کا قرآن مجید میں نام ونشان تک نہیں ہے. (1)
٣۔ہبة اللہ بن سلامہ اپنی کتاب ''الناسخ والمنسوخ'' میں انس بن مالک سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں : ''پیغمبر اکرمۖ کے زمانے میں ہم ایک ایسا سورہ پڑھتے تھے جو سورۂ توبہ کے برابر تھا مجھے اس سورہ کی صرف ایک ہی آیت یاد ہے اور وہ یہ ہے:
''لوأن لابن آدم وادیان من الذھب لابتغیٰ اِلیھما ثالثاً ولو أن لہ ثالثاً لابتغیٰ لیھا رابعاً ولا یملأ جوف ابن آدم اِلا التراب و یتوب اللّہ علیٰ مَن تاب!''
جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس قسم کی آیت قرآن میں موجود نہیں ہے اوریہ جملے قرآنی بلاغت سے بھی مغایرت رکھتے ہیں.
٤۔.جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر در المنثور میں عمر بن خطاب سے روایت کرتے ہیں کہ سورہ احزاب سورہ بقرہ کے برابر تھا اور آیہ ''رجم'' بھی اس میں موجود تھی (٢)
لہذا شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کے کچھ افراد نے قرآن میں تحریف کے بارے
.............
(١) اتقان جلد ١ ص ٦٧.
(٢)تفسیر درالمنثور جلد ٥ ص ١٨٠ سورہ احزاب کی تفسیر کی ابتداء میں
میں ایسی ضعیف روایتوں کو نقل کیا ہے جنہیں مسلمانوں کی اکثریت نے خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی قبول نہیں کیا ہے .
بلکہ قرآن کی آیتوں، عالم اسلام کی صحیح اور متواتر روایتوں ،اجماع، ہزاروں اصحاب پیغمبرۖ کے نظریات اور دنیا کے تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید میں کسی بھی قسم کی تحریف ، تبدیلی ، کمی یازیادتی نہ آج تک ہوئی ہے اور نہ ہی رہتی دنیا تک ہوگی۔