دسواں سوال
رجعت کیا ہے اور آپ اس پر کیوں عقیدہ رکھتے ہیں؟
جواب: عربی لغت میں رجعت کے معنی ہیں ''لوٹنا'' اسی طرح اصطلاح میں ''موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کچھ انسانوں کے اس دنیا میں لوٹنے '' کو رجعت کہا جاتا ہے یہ رجعت حضرت مہدی ـ کے ظہور کے دور میں واقع ہوگی یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو نہ تو عقل کے مخالف ہے اور نہ ہی منطق وحی کے برخلاف ہے.
اسلام اور دوسرے ادیان الہی کی نظر میں انسان کے وجود میں جو چیز اصل ہے وہ اس کی روح ہے جسے ''نفس'' کے نام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے یہی وہ چیز ہے جو بدن کے فنا ہوجانے کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور اپنی جاودانہ زندگی بسر کرتی رہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید کی نگاہ میں پروردگار عالم کی ذات قادر مطلق ہے اور کوئی بھی چیز اس کی لامحدود قدرت کو محدود نہیں کرسکتی .
ان دو مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رجعت کا مسئلہ عقل کی نگاہ سے ایک ممکن امر ہے کیونکہ تھوڑی سی فکر سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک گروہ کو اس دنیا میں دوبارہ واپس بھیجنا ان کی پہلی خلقت کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ آسان ہے.
لہذا وہ پروردگار جس نے انہیں پہلے مرحلے میں خلق فرمایا ہے یقینا ان کو دوبارہ اس دنیا میں لوٹانے پر قادر ہے اگر وحی الھی کی بنیاد پر رجعت کو گزشتہ امتوں میںتلاش کیا جائے تواس کے مختلف نمونے مل سکتے ہیں.
قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:
( وَِذْ قُلْتُمْ یَامُوسَی لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ حَتَّی نَرَی اﷲَ جَہْرَةً فََخَذَتْکُمْ الصَّاعِقَةُ وََنْتُمْ تَنظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَاکُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ)(١)
اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ ہم اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو آشکارا طور پر نہ دیکھ لیں جس کے بعد بجلی نے تم کو لے ڈالا اور تم دیکھتے ہی رہ گئے . پھر ہم نے تمہیں موت کے بعد زندہ کردیا کہ شاید شکر گزار بن جاؤ.
اسی طرح قرآن مجید ایک اور مقام پر حضرت عیسی ـ کی زبان سے نقل کرتے ہوئے فرماتا ہے:
( وَُحْی الْمَوْتَی بِِذْنِ اﷲِ) (٢)
.............
(١) سورہ بقرہ آیت :٥٥۔٥٦
(٢)سورہ آل عمران آیت: ٤٩
اور میں خدا کی اجازت سے مردوں کو زندہ کروںگا.
قرآن مجید نے نہ صرف یہ کہ رجعت کو ایک ممکن امر قرار دیا ہے بلکہ انسانوں کے ایک ایسے گروہ کی تائید بھی کی جو اس دنیا سے جاچکا تھا اور پھر اس دنیا میں دوبارہ واپس آگیا قرآن مجید نے مندرجہ ذیل دو آیتوں میں ان دو گروہوں کا تذکرہ کیا ہے جو مرنے کے بعد قیامت سے قبل دنیا میں واپس آئے ہیں.
(وَِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْہِمْ َخْرَجْنَا لَہُمْ دَابَّةً مِنْ الَْرْضِ تُکَلِّمُہُمْ َنَّ النَّاسَ کَانُوا بِآیَاتِنَا لایُوقِنُونَ وَیَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ کُلِّ ُمَّةٍ فَوْجًا مِمَّنْ یُکَذِّبُ بِآیَاتِنَا فَہُمْ یُوزَعُونَ )(١)
اور جب ان پر وعدہ پورا ہوگا تو ہم زمین سے ایک چلنے والی مخلوق کو نکال کر کھڑا کردیں گے جو ان سے یہ بات کرے کہ کون لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے . اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے اور پھر ان کو روک لیا جائے گا.
ان دو آیتوں کے ذریعہ قیامت سے پہلے واقع ہونے والی رجعت کے سلسلے میں استدلال کرنے کے لئے مندرجہ ذیل نکات کی طرف توجہ ضروری ہے:
.............
(١)سورہ نمل آیت ٨٢اور ٨٣.
١۔تمام مسلمان مفسرین کا یہ نظریہ ہے کہ یہ دو آیتیں قیامت سے متعلق ہیں اور پہلی آیت قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کو بیان کررہی ہے، اس سلسلے میں جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر ''الدرالمنثور'' میں ابن ابی شیبہ اورانہوں نے حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ ''خروج دابة'' (چلنے والی مخلوق کا نکلنا) قیامت سے پہلے رونماہونے
والے واقعات میں سے ایک ہے.(١)
٢۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو محشور کیا جائے گا ، اور ایسا نہیں ہے کہ اس دن ہر امت میں سے ایک خاص گروہ کو محشور کیا جائے گا. قرآن مجید نے قیامت میں تمام انسانوں کے محشور ہونے کے بارے میں یوں فرمایا ہے:
(ذٰلِکَ یَوْم مَجْمُوع لَہُ النَّاسُ)(٢)
وہ ایک دن ہے جس میں تمام لوگ جمع کئے جائیں گے.(٣)
اور ایک جگہ فرماتا ہے:
( وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الَْرْضَ بَارِزَةً وَ حَشَرْنَاہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ َحَدًا)(٤)
.............
(١)تفسیر درمنثور جلد ٥ ص ١٧٧۔ سورہ نمل کی آیت نمبر ٨٢کی تفسیر کے ذیل میں.
(٢)سورہ ہود آیت : ١٠٣
(٣)تفسیر درمنثور جلد ٣ ص ٣٤٩ ۔اس دن کی تفسیر قیامت سے کی گئی ہے۔
(٤)سورہ کہف آیت: ٤٧
اورجس دن ہم پہاڑوں کو حرکت میں لائیں گے اور تم زمین کو بالکل کھلا ہوا دیکھو گے اور ہم سب کو اس طرح جمع کریں گے کہ کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑیں گے .
اس اعتبار سے قیامت کے دن تمام انسان محشور ہوں گے اور یہ بات انسانوں کے کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ہے.
٣۔ان دو گذشتہ آیتوں میں دوسری آیت اس بات کا صریح اعلان کررہی ہے کہ امتوں میں سے کچھ خاص افراد کو محشور کیا جائے گا اور تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گاکیونکہ آیہ کریمہ میں ہے :
(ویوم نحشرمن کل أمة فوجاً ممن یُّکذِّب بآیاتنا)
اور اس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کی ایک فوج اکھٹا کریں گے جو ہماری آیتوں کی تکذیب کیا کرتے تھے.
آیت کا یہ حصہ واضح طور پر اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ تمام انسانوں کو محشور نہیں کیا جائے گا.
نتیجہ:ان تین مختصر مقدموں کی روشنی میں یہ مطلب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ آیات الہی کی تکذیب کرنے والے انسانوں میں سے ایک خاص گروہ کا محشور ہونا ایک ایسا واقعہ ہے جو قیامت سے پہلے واقع ہوگا اور یہی بات دوسری آیت سے بھی سمجھ میںآتی ہے.
کیونکہ قیامت کے دن کوئی خاص گروہ محشور نہیں ہوگا بلکہ اس دن تمام انسان محشور کئے جائیں گے اس بیان کے ساتھ ہمارا یہ دعوی صحیح ثابت ہوجاتا ہے کہ انسانوں کے ایک خاص گروہ کو ان کی موت کے بعد قیامت سے پہلے اس دنیا میں لوٹایا جائے گااور اسی کا نام ''رجعت'' ہے.
اسی طرح اہل بیت پیغمبر ۖ نے بھی جو ہمیشہ قرآن کے ہمراہ ہیں اور کلام الہی کے حقیقی مفسر ہیں اس سلسلے میں اپنی احادیث کے ذریعہ وضاحت فرمائی ہے یہاں پر ہم اختصار کی وجہ سے ان کے صرف دو ارشادات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
امام صادق ـ فرماتے ہیں:
''أیام اللّہ ثلاثة یوم القائم ـ ویوم الکَرّة، و یوم القیامة ''
خدا کے تین دن ہیں حضرت امام مہدی ـ کا دن ،رجعت کا دن ، اور قیامت کا دن .
اور ایک مقام پر فرماتے ہیں :
''لیس منا مَن لم یؤمن بکرّتنا۔''
جو شخص ہماری رجعت کو قبول نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے.
آخر میں مناسب ہے کہ دو اہم نکتوں کو واضح کردیا جائے:
١۔رجعت کا فلسفہ
رجعت کے اسباب وعلل کے بارے میںغور کرنے سے دو اہم مقاصد سمجھ میں آتے ہیں. پہلا مقصد یہ ہے کہ رجعت کے ذریعہ اسلام کی حقیقی عزت و عظمت اور کفر کی ذلت کو آشکار کیا جائے اور دوسرامقصد یہ ہے کہ باایمان اور نیک انسانوں کو ان کے اعمال کی جزا مل سکے اور کافروں اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے.
٢۔رجعت اور تناسخ (١)کے درمیان واضح فرق
یہاں پر اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شیعہ جس رجعت پر عقیدہ رکھتے ہیں :اس کا لازمہ تناسخ کا معتقد ہونا نہیں ہے کیونکہ نظریہ تناسخ کی بنیاد قیامت کے انکار پر ہے
اور تناسخ والے اپنے اس نظرئیے کے مطابق دنیا کو دائمی طور پر گردش میں جانتے ہیں اوراس کا ہر دور اپنے پہلے والے دور کی تکرار ہے.
اس نظرئیے کے مطابق انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح دوبارہ اس دنیا میں پلٹتی ہے اور کسی دوسرے بدن میں منتقل ہوجاتی ہے اور اگر وہ روح گزشتہ زمانے میں کسی نیک آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اب اس زمانے میں کسی ایسے آدمی کے بد ن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی خوشی و مسرت کے ساتھ بسر ہونے والی ہو لیکن اگر
.............
(١)تناسخ : یعنی روح کا ایک بدن سے نکل کر دوسرے میں داخل ہوجاناجسے آواگون کہتے ہیں.(مترجم)
یہ روح گزشتہ زمانے میں کسی بدکار آدمی کے جسم میں رہی ہو تو اس زمانے میں ایسے آدمی کے بدن میں منتقل ہو جائے گی جس کی زندگی سختیوں میں گزرنے والی ہو اس نظریئے کے اعتبار سے روح کا اس طرح سے واپس لوٹنا ہی اسکی قیامت ہے.
جبکہ رجعت کا عقیدہ رکھنے والے اسلامی شریعت کی پیروی کرتے ہوئے قیامت اور معاد پر مکمل ایمان رکھتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ کسی روح کاایک بدن سے کسی دوسرے بدن میں منتقل ہونا محال ہے(١)
اہل تشیع صرف یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انسانوں میں سے ایک گروہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں واپس آئے گا اور چند حکمتوں اور مصلحتوں کے پورا ہوجانے کے بعد پھر اس دنیا سے چلا جائے گا. یہاں تک کہ یہ گروہ بھی باقی انسانوں کے ساتھ قیامت کے دن اٹھایا جائے گا. اس اعتبار سے روح ایک بدن سے جدا ہونے کے بعد ہرگز دوسرے بدن میں منتقل نہیں ہوگی۔
.............
(١)صدرالمتألہین نے اپنی کتاب اسفار (جلد ٩ باب ٨ فصل اول ص٣) میں نظریہ تناسخ کو باطل کرتے
ہوئے یوں تحریر فرمایا ہے: اگر ایک بدن سے نکلی ہوئی روح کسی دوسرے بدن میںاس حالت میں داخل ہوجائے جبکہ وہ بدن ابھی جنین کی شکل میں رحم مادر میں ہے یا اس کے علاوہ کسی دوسرے مرحلہ میں ہو تو اس صورت میںیہ لازم آئے گا کہ ایک ہی چیز بالقوہ بھی ہو اوربالفعل بھی،اور جو چیز بالفعل ہے اس کا بالقوة ہونا محال ہے اس لئے کہ ان دونوں میں مادی و اتحادی ترکیب ہے اور ایسی ترکیب طبیعی محال ہے جس میں دو ایسے امر جمع ہورہے ہوں جن میں سے ایک بالفعل ہے اور دوسرا بالقوہ.
گیارہواں سوال
جس شفاعت کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں وہ کیا ہے؟
جواب: شفاعت، اسلام کی ایک ایسی مسلم الثبوت اصل ہے جسے تمام اسلامی فرقوں نے قرآن کی آیات اور روایات کی پیروی کرتے ہوئے قبول کیا ہے بس صرف ان کے درمیان شفاعت کے نتیجے کے بارے میں اختلاف نظر ہے .
شفاعت کی حقیقت یہ ہے کہ ایک ایسا محترم انسان جو پروردگار کے نزدیک صاحب مقام ومنزلت ہو وہ خداوند متعال سے کسی شخص کے گناہوں کی بخشش یا اس کے درجات کی بلندی کی دعا کرے.
رسول گرامی ۖ فرماتے ہیں:
''أعطیت خمسًا...و أعطیت الشفاعة فادخرتھا لأمت ''(١)
.............
(١) مسند احمدجلد ١ ص ٣٠١ ، صحیح بخاری جلد ١ ص٩١ ط مصر.
پانچ چیزیں مجھے عطا کی گئی ہیں ... اور شفاعت مجھے عطا ہوئی ہے جسے میں نے اپنی امت کے لئے ذخیرہ کردیا ہے.
شفاعت کا دائرہ
قرآن مجید کی نگاہ میں وہ شفاعت صحیح نہیں ہے جو کسی قید اور شرط کے بغیرہو بلکہ شفاعت صرف مندرجہ ذیل صورتوں میں مؤثر ہوگی:
١۔شفاعت کرنے والا اس وقت شفاعت کرسکتا ہے جب کہ اسے شفاعت کرنے کے لئے خداوندعالم کی جانب سے اجازت حاصل ہو لہذا صرف وہ لوگ شفاعت کرسکتے ہیں جنہیں خدا سے معنوی قربت بھی حاصل ہو اوروہ اذن شفاعت بھی رکھتے ہوں قرآن مجید اس بارے میں فرماتا ہے:
(لایَمْلِکُونَ الشَّفَاعَةَ ِلاَّ مَنْ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَانِ عَہْدًا)(١)
اس وقت کوئی شفاعت کے سلسلے میں صاحب اختیار نہ ہوگا مگر وہ جس نے رحمان کی بارگاہ میں شفاعت کا عہد لے لیا ہے .
اور ایک اور جگہ پر فرماتا ہے:
.............
(١)سورہ مریم آیت: ٨٧
( یَوْمَئِذٍ لاتَنفَعُ الشَّفَاعَةُ ِلاَّ مَنْ َذِنَ لَہُ
الرَّحْمَانُ وَرَضَِ لَہُ قَوْلاً )(١)
اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی سوائے ان کے جنہیں خدا نے اجازت دے دی ہو اور وہ ان کی بات سے راضی ہو.
٢۔ضروری ہے کہ جو شخص شفاعت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ شفاعت کرنے والے کے ذریعے فیض الہی کو لینے کی صلاحیت رکھتا ہو.
یعنی اس شخص کا خدا سے ایمانی رابطہ اور شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے ، لہذا کفار چونکہ خداوندکریم سے ایمانی رابطہ نہیں رکھتے اور اسی طرح بعض گنہگار مسلمان جیسے بے نمازی اور قاتل افرادچونکہ شفاعت کرنے والے سے روحانی رشتہ توڑ بیٹھے ہیں لہذا یہ سب شفاعت کے مستحق قرار نہیں پائیں گے.
قرآن مجید بے نمازی اور منکر قیامت کے بارے میں فرماتا ہے:
( فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِینَ )(٢)
تو انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچائے گی.
اور قرآن مجید ظالم افراد کے بارے میں فرماتا ہے :
(مَا لِلظَّالِمِینَ مِنْ حَمِیمٍ وَلاَشَفِیعٍ یُطَاعُ )(٣)
اور ظالموں کیلئے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ ہی سفارش کرنے والا جس کی بات سن لی جائے .
.............
(١)سورہ طہ آیت: ١٠٩
(٢)سورہ مدثر آیت : ٤٨
(٣)سورہ غافر آیت :١٨
شفاعت کا فلسفہ
شفاعت ، توبہ کی طرح امید کا ایک دروازہ ہے جسے ایسے لوگوں کیلئے قرار دیا گیا ہے جو گناہ اور ضلالت کے راستے کو چھوڑ کر اپنی باقی ماندہ عمر کو خدا کی اطاعت میں گزارنا چاہتے ہیں کیونکہ جب بھی گنہگار انسان یہ احساس کرلے کہ صرف چند محدود شرطوں کیساتھ (نہ یہ کہ ہر حالت میں) شفاعت کرنیوالے کی شفاعت کا مستحق ہوسکتا ہے تو پھر وہ کوشش کریگا کہ ان شرطوں کا خیال رکھے اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے.
شفاعت کا نتیجہ
مفسرین کے درمیان اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ شفاعت کا نتیجہ گناہوں کی بخشش ہے یااس کا نتیجہ بلندی درجات ہے لیکن اگر پیغمبرگرامیۖ کے اس ارشاد کو ملاحظہ کیا جائے جس میں آنحضرت ۖ فرماتے ہیں کہ :
''اِنّ شفاعت یوم القیامة لأھل الکبائر مِن أمت''(١)
''میری شفاعت قیامت کے دن میری امت کے ان افراد کے لئے ہوگی جو گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہیں.''
تو پہلا نظریہ زیادہ صحیح نظر آتا ہے۔
.............
(١)سنن ابن ماجہ جلد ٢ ص ٥٨٣،مسند احمد جلد ٣ ص ٢١٣، سنن ابی داؤد جلد ٢ ص ٥٣٧، سنن ترمذی جلد ٤ ص ٤٥
|