شيعہ جواب ديتے ہيں


چوتھا سوال

''ائمہ'' کون ہیں؟

جواب: پیغمبر گرامی اسلامۖ نے اپنی زندگی ہی میں یہ بات واضح کردی تھی کہ آپ ۖ کے بعد بارہ خلیفے ہوں گے اورسب قریش میں سے ہوں گے اور اسلام کی عزت انہیں خلفاء کی مرہون منت ہوگی.
جابربن سمرہ کہتے ہیں :
''سمعت رسول اللہ ۖ یقول: لایزال السلام عزیزأ اِلی اثن عشر خلیفةً ثم قال کلمة لا أسمعھا فقلت لأب: ماقال ؟ فقال:کلھم من قریش.''(١)
میں نے پیغمبر خدا ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اسلام کو بارہ خلفاء کے ذریعہ عزت حاصل ہوگی اور پھر پیغمبر اکرمۖ نے کوئی لفظ کہا جسے میں نے نہیں سنا میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ پیغمبر اکرمۖ نے کیا
.............
(١)صحیح مسلم جلد ٦ صفحہ ٢ طبع مصر

فرمایاہے.جواب دیا کہ پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا کہ یہ سب قریش میں سے ہوں گے .
اسلام کی تاریخ میں ایسے بارہ خلفاء جو اسلام کی عزت کے محافظ اور نگہبان رہے ہوں ان بارہ اماموں کے علاوہ نہیں ملتے جن کو شیعہ اپنے امام مانتے ہیں کیونکہ جن بارہ خلفاء کا تعارف خود پیغمبر اکرمۖ نے کرایا تھا وہی آنحضرتۖ کے بلا فصل خلیفہ شمار ہوتے ہیں .
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بارہ افراد کون ہیں؟
اگر ہم ان چار خلفاء سے کہ جن کو اہل سنت خلفاء راشدین کہتے ہیں ، چشم پوشی کرلیں تو دوسرے خلفاء میں سے کوئی بھی عزت اسلام کا باعث نہیں تھاجیسا کہ اموی اور عباسی خلفاء کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے. لیکن شیعوں کے سبھی بارہ ائمہ اپنے اپنے زمانے میں تقوی اور پرہیزگاری کے پیکر تھے.
وہ سب پیغمبراکرمۖ کی سنت کے محافظ تھے نیز وہ سب صحابہ کرام، تابعین اور بعد میں آنے والی نسلوں کی توجہ کا مرکز قرار پائے .
مورخین نے بھی انکے علم اور ان کی وثاقت کی صاف لفظوں میں گواہی دی ہے.
ان بارہ اماموں کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:
١۔امام علی ابن ابی طالب ـ
٢۔امام حسن بن علی (مجتبیٰ) ـ
٣۔ امام حسین بن علی ـ
٤۔ امام علی ابن الحسین (زین العابدین) ـ
٥۔امام محمد بن علی (باقر) ـ
٦۔ امام جعفر بن محمد (صادق) ـ
٧۔ امام موسیٰ بن جعفر (کاظم) ـ
٨۔ امام علی بن موسیٰ (رضا) ـ
٩۔ امام محمد بن علی (تقی) ـ
١٠۔ امام علی بن محمد (نقی) ـ
١١۔ امام حسن بن علی (عسکری) ـ
١٢۔ امام مہدی (قائم) ـ
آپ کے سلسلے میں مسلمان محدثین نے پیغمبراسلامۖ سے متواتر احادیث نقل کی ہیں کہ جن میں آپ کو مہدی موعود (جن کا وعدہ کیا گیا ہے) کے نام سے یاد کیاگیا ہے.
یہ وہ ائمہ معصومین ہیں کہ جنکے اسمائے مبارک پیغمبرۖ اسلام نے بیان فرمائے ہیں انکی زندگی سے متعارف ہونے کیلئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا:
١. تذکرة الخواص (تذکرة خواص الامّہ)
٢.کفایة الاثر
٣.وفیات الاعیان
٤. اعیان الشیعہ(سید محسن امین عاملی) یہ کتاب بقیہ کتابوں کی نسبت زیادہ جامع ہے.

پانچواں سوال

حضرت محمد ۖپر صلوات پڑھتے وقت کیوں آل کا اضافہ کرتے ہیں اور: اللّھم صل علی محمد و آل محمد کہتے ہیں؟

جواب: یہ ایک مسلم اور قطعی بات ہے کہ خود پیغمبراکرمۖ نے مسلمانوں کو درود پڑھنے کا یہ طریقہ سکھایا ہے جس وقت یہ آیۂ شریفہ:
( ِنَّ اﷲَ وَمَلَائِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِِِّ یٰاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیمًا) (١) نازل ہوئی تو مسلمانوں نے آنحضرتۖ سے پوچھا : ہم کس طرح درود پڑھیں ؟
پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا: ''لاتُصلُّوا علَّ الصلاة البتراء '' مجھ پر ناقص صلوات مت پڑھنا'' مسلمانوں نے پھر آنحضرتۖ سے سوال کیا:ہم کس طرح درود پڑھیں؟
.............
(١)سورہ احزاب آیت ٥٦

پیغمبر خداۖ نے فرمایا کہو: اللھم صلِّ علی محمد و آل محمد.(١)
اہل بیت ٪ قدرومنزلت کے ایک ایسے عظیم درجہ پر فائز ہیں جسے امام شافعی نے اپنے ان مشہورا شعار میں قلمبند کیا ہے:
یاأھل بیت رسول اللہ حبُّکم
فرض من اللہ ف القرآن انزلہ
کفاکم من عظیم القدر أنکم
مَن لم یصلِّ علیکم لاصلاة لہ (٢)
ترجمہ:اے اہل بیت پیغمبرۖ آپ کی محبت کو خدا نے قرآن میں نازل کر کے واجب قرار دے دیا ہے.آپ کی قدر ومنزلت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ جو شخص بھی آپ پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز ہی نہیں ہوتی.

.............
(١) الصواعق المحرقہ (ابن حجر) طبع دوم مکتبة القاہرہ مصر باب ١١ فصل اول ص ١٤٦ اورایسی روایت تفسیر
در المنثور جلد ٥ سورہ احزاب کی آیت ٥٦ کے ذیل میں بھی موجود ہے اس روایت کو صاحب تفسیر نے محدثین اور کتب صحاح اور کتب مسانید(جیسے عبدالرزاق ، ابن ابی شبیہ، احمد ، بخاری ، مسلم، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ اور ابن مردویہ) سے نقل کیا ہے ۔ مذکورہ راویوں نے کعب ابن عجرہ سے اور انہوں نے رسول خدا ۖ سے نقل کیا ہے.
(٢) الصواعق المحرقہ (ابن حجر) باب ١١ ص ١٤٨ فصل اول اور کتاب اتحاف (شبراوی) ص ٢٩ اور کتاب
مشارق الانوار (حمزاوی مالکی) ص ٨٨ اور کتاب المواہب (زرقانی) اور کتاب الاسعاف (صبان) ص ١٩٩.


چھٹا سوال

آپ اپنے اماموں کو معصوم کیوںکہتے ہیں؟

جواب:شیعوں کے ائمہ ٪ جو کہ رسول ۖ کے اہل بیت ہیں ان کی عصمت پر بہت سی دلیلیں موجود ہیں. ہم ان میں سے صرف ایک دلیل کا یہاں پر تذکرہ کرتے ہیں:
شیعہ اور سنی دانشوروں نے یہ نقل کیا ہے کہ پیغمبر خداۖ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ ارشاد فرمایا ہے :
''اِن تارک فیکم الثقلین کتاب اللّہ و أھل بیت و انھما لن یفترقا حتی یردا علَّ الحوض۔''(١)
میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں''کتاب خدا'' (قرآن) اور ''میرے اہل بیت '' یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر
میرے پاس پہنچیں گے .
.............
(١) مستدرک حاکم ، جزء سوم ص ١٤٨۔اور الصواعق المحرقہ ابن حجر باب ١١ فصل اول ص ١٤٩اور اسی سے ملتی جلتی روایات کنز العمال جزء اول باب الاعتصام بالکتاب والسنة ص ٤٤، اور مسند احمد جز ء پنجم ص ١٨٩ ، ١٨٢اور دیگر کتب میں موجود ہیں.
یہاں پر ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ : قرآن مجید ہر قسم کے انحراف اور گمراہی سے محفوظ ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وحیِ الہی کی طرف غلطی اور خطا کی نسبت دی جائے جبکہ قرآن کو نازل کرنے والی ذات، پروردگار عالم کی ہے اور اسے لانے والا فرشتۂ وحی ہے اور اسے لینے والی شخصیت پیغمبر خداۖ کی ہے اور ان تینوں کا معصوم ہونا آفتاب کی طرح روشن ہے اسی طرح سارے مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ پیغمبرخدا ۖ وحی کے لینے، اس کی حفاظت کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کے سلسلے میں ہر قسم کے اشتباہ سے محفوظ تھے لھذا یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جب کتاب خدا اس پائیدار اور محکم عصمت کے حصار میں ہے تو رسول خداۖ کے اہل بیت ٪ بھی ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ ہیں کیونکہ حدیث ثقلین میں پیغمبرخداۖ نے اپنی عترت کو امت کی ہدایت اور رہبری کے اعتبار سے قرآن مجید کا ہم رتبہ اور ہم پلہ قرار دیا ہے.اور چونکہ عترت پیغمبرۖ اور قرآن مجید ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں لہذا یہ دونوں عصمت کے لحاظ سے بھی ایک جیسے ہیں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ غیر معصوم فرد یا افراد کو قرآن مجید کا ہم پلہ قراردینے کی کوئی وجہ نہ تھی.
اسی طرح ائمہ معصومین ٪ کی عصمت کے سلسلے میں واضح ترین گواہ پیغمبر اکرم ۖ کا یہ جملہ ہے:
'' لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض.''
یہ دو ہرگز (ہدایت اور رہبری میں) ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیںگے.
اگر پیغمبرخداۖ کے اہل بیت ہر قسم کی لغزشوں سے محفوظ نہ ہوں اور ان کے لئے بعض کاموں میں خطا کا امکان پایا جاتا ہو تو وہ قرآن مجید سے جدا ہوکر (معاذاللہ) گمراہی کے راستے پر چل پڑیں گے . کیونکہ قرآن مجید میں خطا اور غلطی کا امکان نہیں ہے لیکن رسول خداۖ نے انتہائی شدت کے ساتھ اس فرضیہ کی نفی فرمائی ہے.
البتہ یہ نکتہ واضح رہے کہ اس حدیث میں لفظ اہل بیت سے آنحضرتۖ کی مراد آپۖ کے تمام نسبی اور سببی رشتہ دار نہیں ہیں کیونکہ اس بات میں شک نہیں ہے کہ وہ سب کے سب لغزشوں سے محفوظ نہیں تھے.
لہذا آنحضرت ۖ کی عترت میں سے صرف ایک خاص گروہ اس قسم کے افتخار سے سرفراز تھا اور یہ قدر ومنزلت صرف کچھ گنے چنے افراد کے لئے تھی اور یہ افراد وہی ائمہ اہل بیت ٪ ہیں جو ہر زمانے میں امت کو راہ دکھانے والے، سنت پیغمبرۖ کے محافظ اور آنحضرتۖ کی شریعت کے پاسبان تھے۔