پہلا سوال
''وعترتی اہل بیتی '' صحیح ہے یا ''وسنتی''؟
حدیث ثقلین ایک بے حد مشہور حدیث ہے جسے محدثین نے اپنی کتابوں میںان دو طریقوں سے نقل کیا ہے :
الف:''کتاب اللّہ و عترت أہل بیت''
ب:''کتاب اللّہ وسنت''
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دو میں سے کونسی حدیث صحیح ہے ؟
جواب: پیغمبر اسلام ۖ سے جو حدیث صحیح اور معتبر طریقے سے نقل ہوئی ہے اس میں لفظ ''اہل بیتی '' آیا ہے . اور وہ روایت جس میں ''اہل بیتی''کی جگہ ''سنتی'' آیا ہے وہ سند کے اعتبار سے باطل اور ناقابل قبول ہے ہاں جس حدیث میں ''واہل بیتی'' ہے اس کی سند مکمل طور پر صحیح ہے .
حدیث ''واہل بیتی'' کی سند
اس مضمون کی حدیث کو دو بزرگ محدثوں نے نقل کیا ہے :
١۔ مسلم ،اپنی صحیح میں زید بن ارقم سے نقل کرتے ہیں: ایک دن پیغمبر اکرمۖ نے ایک ایسے تالاب کے کنارے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا نام ''خم'' تھا یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھا اس خطبے میں آپۖ نے خداوندکریم کی حمدو ثنا کے بعد لوگوں کو نصیحت فرمائی اور یوں فرمایا:
''ألاٰ أیّہاالناس ، فاِنما أنا بشر یوشک أن یأت رسول رب فأجیب وأنا تارک فیکم الثقلین. أولھما کتاب اللّہ فیہ الھدی والنور ، فخذوا کتاب اللہ واستمسکوا بہ ، فحث علی کتاب اللّہ ورغب فیہ ثم قال: وأھل بیت اُذکرکم اللّہ ف أھل بیت . اُذکرکم اللّہ ف أھل بیت . اُذکرکم اللّہ ف أھل بیت .''(١)
اے لوگو! بے شک میں ایک بشر ہوںاور قریب ہے کہ میرے پروردگار کا بھیجا ہوا نمائندہ آئے اور میں اس کی دعوت قبول کروں میں تمہارے درمیان دو وزنی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ایک کتاب خدا ہے جس میں ہدایت اور نور ہے کتاب خدا کو لے لو اور اسے تھامے رکھو اور پھر پیغمبر اسلامۖ نے کتاب خدا پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس کی جانب رغبت دلائی اس کے بعد یوں
.............
(١)صحیح مسلم جلد٤ ص١٨٠٣حدیث نمبر ٢٤٠٨طبع عبدالباقی
فرمایا اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں . اپنے اہل بیت کے سلسلے میں،میںتمہیںخدا کی یاد دلاتا ہوں اور اس جملے کی تین مرتبہ تکرار فرمائی.
اس حدیث کے متن کو دارمی نے بھی اپنی کتاب سنن(١) میں نقل کیا ہے . پس کہنا چاہئے کہ حدیث ثقلین کے مذکورہ فقرے کیلئے یہ دونوں ہی سندیں روز روشن کی طرح واضح ہیں اور ان میں کوئی خدشہ نہیں ہے .
٢۔ ترمذی نے اس حدیث کے متن کو لفظ ''عترتی اھل بیتی'' کے ساتھ نقل کیا ہے : متنِ حدیث اس طرح ہے:
''اِنّ تارک فیکم ما اِن تمسکتم بہ لن تضلوا
بعد ، أحدھما أعظم من الاخر : کتاب اللّہ
حبل ممدود من السماء اِلی الأرض و عترت
أھل بیت ، لن یفترقا حتی یردا علَّ الحوض
فانظروا کیف تخلفون فیھما''(١)
میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان سے متمسک رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے ، ان دو چیزوں میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے ، کتاب خدا ایک ایسی رسی ہے جو آسمان
.............
(١)سنن دارمی جلد٢ ص ٤٣٢،٤٣١
(٢)سنن ترمذی جلد٥ص٦٦٣نمبر٣٧٧٨٨
سے زمین تک آویزاں ہے اور دوسرے میرے اہل بیت ہیں . اور یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے آملیں .لہذا یہ دیکھنا کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو.
صحیح کے مؤلف مسلم اور سنن کے مؤلف ترمذی نے لفظ ''اہل بیتی '' پرزور دیا ہے اور یہی مطلب ہمارے نظریہ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے یہی نہیں بلکہ ان کی نقل کردہ
سندیں پوری طرح سے قابل اعتماد اور خصوصی طور پر معتبر مانی گئی ہیں.
لفظ ''و سنتی'' والی حدیث کی سند
وہ روایت کہ جس میں لفظ'' اہل بیتی '' کی جگہ ''سنتی'' آیا ہے جعلی ہے. اس کی سند ضعیف ہے اور اسے اموی حکومت کے درباریوں نے گھڑا ہے .
١۔ حاکم نیشا پوری نے اپنی کتاب مستدرک میں مذکورہ مضمون کو ذیل کی سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے.
''عباس بن أب أویس'' عن ''أب أویس'' عن ''ثور بن زیدالدیلم''عن ''عکرمہ'' عن ''ابن عباس'' قال رسول اللّہ :''یا أیّھا الناس اِنّ قد ترکت فیکم ، اِن اعتصمتم بہ فلن تضلوا أبداً کتاب اللّہ و سنة نبیہ.''
اے لوگو! میں نے تمہارے درمیان دو چیزوں کو چھوڑاہے اگر تم نے ان دونوں کو تھامے رکھاتو ہر گز گمراہ نہ ہوگے . اور وہ کتاب خدا اور سنت پیغمبرۖ ہیں.(١)
اس حدیث کے اس مضمون کے راویوں کے درمیان ایک ایسے باپ بیٹے ہیں جو سند کی دنیا میں آفت شمار ہوتے ہیں وہ باپ بیٹے اسماعیل بن ابی اویس اور ابو اویس ہیں کسی نے بھی ان کے موثق ہونے کی شہادت نہیں دی ہے بلکہ ان کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ یہ دونوں جھوٹے اور حدیثیں گھڑنے والے تھے.
ان دو کے بارے میں علمائے رجال کا نظریہ
حافظ مزی نے اپنی کتاب تہذیب الکمال میں اسماعیل اور اس کے باپ کے بارے میں علم رجا ل کے محققین کا نظریہ اس طرح نقل کیا ہے: یحییٰ بن معین ( جن کا شمار علم رجال کے بزرگ علماء میں ہوتا ہے) کہتے ہیں کہ ابو اویس اور ان کا بیٹا دونوں ہی ضعیف ہیں.
اسی طرح یحییٰ بن معین سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ یہ دونوں حدیث کے چورتھے۔ ابن معین سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ابو اویس کے بیٹے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا.
ابو اویس کے بیٹے کے بارے میں نسائی کہتے تھے کہ وہ ضعیف اور ناقابل اعتماد ہے .
.............
(١)حاکم مستدرک جلدنمبر١ ص٩٣
ابوالقاسم لالکائی نے لکھا ہے کہ ''نسائی'' نے اس کے خلاف بہت سی باتیں کہی ہیںاور یہاں تک کہا ہے کہ اس کی حدیثوں کو چھوڑ دیا جائے.
ابن عدی (جو کہ علماء رجال میں سے ہیں) کہتے ہیں کہ ابن ابی اویس نے اپنے ماموں مالک سے ایسی عجیب و غریب روایتیں نقل کی ہیں جن کو ماننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ہے(١)
ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری کے مقدمہ میں لکھتے ہیں ، ابن ابی اویس کی حدیث سے ہر گز حجت قائم نہیں کی جاسکتی ، چونکہ نسائی نے اس کی مذمت کی ہے.(٢)
حافظ سید احمد بن صدیق اپنی کتاب فتح الملک العلی میںسلمہ بن شیب سے اسماعیل بن ابی اویس کے بارے میں نقل کرتے ہیں ، سلمہ بن شیب کہتے ہیں کہ میں نے خوداسماعیل بن ابی اویس سے سنا ہے کہ وہ کہہ رہا تھا : جب میں یہ دیکھتا کہ مدینہ والے کسی مسئلے میں اختلاف کر کے دو گروہوں میں بٹ گئے ہیں تو اس وقت میں حدیث گھڑ لیتاتھا .(٣)
اس اعتبار سے اسماعیل بن ابی اویس کا جرم یہ ہے کہ وہ حدیثیں گھڑتا تھا ابن معین نے کہا ہے کہ وہ جھوٹا تھا اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کی حدیث کو نہ تو صحیح مسلم نے نقل کیا ہے
.............
(١) حافظ مزی ، کتاب تھذیب الکمال ج ٣ ص ١٢٧
(٢) مقدمہ فتح الباری ابن حجر عسقلانی ص ٣٩١ طبع دار المعرفة
(٣) کتاب فتح الملک العلی ، حافظ سید احمد ص ١٥
اور نہ ہی ترمذی نے ، اور نہ ہی دوسری کتب صحاح میں اس کی حدیث کو نقل کیا گیا ہے.
اور اسی طرح ابو اویس کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ ابو حاتم رازی نے اپنی کتاب ''جرح و تعدیل'' میں اس کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ ابو اویس کی حدیثیں کتابوں میں لکھی تو جاتی ہیں مگر ان سے حجت قائم نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس کی حدیثیں قوی اور محکم نہیں ہیں (١)
اسی طرح ابو حاتم نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ ابو اویس قابل اعتماد نہیں ہے.
جب وہ روایت صحیح نہیں ہوسکتی جس کی سند میں یہ دو افراد ہوں تو پھر اس روایت کا کیا حال ہوگا جو ایک صحیح اور قابل عمل روایت کی مخالف ہو.
یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث کے ناقل حاکم نیشاپوری نے خود اس
حدیث کے ضعیف ہونے کا اعتراف کیا ہے اسی وجہ سے انہوں نے اس حدیث کی سند کی تصحیح نہیں کی ہے لیکن اس حدیث کے صحیح ہونے کے لئے ایک گواہ لائے ہیں جو خود سندکے اعتبارسے کمزور اور ناقابل اعتبار ہے اسی وجہ سے یہ شاہد حدیث کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اور ضعیف بنا رہا ہے اب ہم یہاں ان کے لائے ہوئے فضول گواہ کو درج ذیل عنوان کی صورت میں ذکر کرتے ہیں:
.............
(١)الجرح والتعدیل جلد ٥ ص ٩٢ ابو حاتم رازی
حدیث''وسنتی'' کی دوسری سند
حاکم نیشاپوری نے اس حدیث کو ابو ہریرہ سے مرفوع (١)طریقہ سے ایک ایسی سند کے ساتھ جسے ہم بعد میں پیش کریں گے یوں نقل کیا ہے:
اِن قد ترکت فیکم شیئین لن تضلوا بعدھما : کتاب اللّہ و سنت و لن یفترقا حتی یردا علَّالحوض. (٢)
اس متن کوحاکم نیشاپوری نے درج ذیل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
''الضب'' عن ''صالح بن موسیٰ الطلح'' عن ''عبدالعزیز بن رفیع'' عن ''أب صالح'' عن ''أب ہریرہ''
یہ حدیث بھی پہلی حدیث کی طرح جعلی ہے . اس حدیث کے سلسلہ سند میں صالح بن موسی الطلحی نامی شخص ہے جس کے بارے میں ہم علم رجال کے بزرگ علماء کے
نظریات کو یہاں بیان کرتے ہیں:
یحییٰ بن معین کہتے ہیں: کہ صالح بن موسیٰ قابل اعتماد نہیںہے . ابو حاتم رازی کہتے ہیں ، اس کی حدیث ضعیف اور ناقابل قبول ہے اس نے بہت سے موثق و معتبر
.............
(١)حدیث مرفوع: ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند سے ایک یا کئی افراد حذف ہوں اور ان کی جگہ کلمہ ''رفعہ'' استعمال کردیا گیا ہوتو ایسی حدیث ضعیف ہوگی.(مترجم)
(٢) حاکم مستدرک جلد ١ ص ٩٣
افراد کی طرف نسبت دے کر بہت سی ناقابل قبول احادیث کو نقل کیا ہے .
نسائی کہتے ہیں کہ صالح بن موسیٰ کی نقل کردہ احادیث لکھنے کے قابل نہیں ہیں، ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ اس کی نقل کردہ احادیث متروک ہیں .(١)
ابن حجر اپنی کتاب '' تھذیب التھذیب'' میں لکھتے ہیں : ابن حِبانّ کہتے ہیں : کہ صالح بن موسیٰ موثق افراد کی طرف ایسی باتوں کی نسبت دیتا ہے جو ذرا بھی ان کی باتوں سے مشابہت نہیں رکھتیں سر انجام اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں: اس کی حدیث نہ تو دلیل بن سکتی ہے اور نہ ہی اس کی حدیث حجت ہے ابونعیم اس کے بارے میں یوں کہتے ہیں: اس کی حدیث متروک ہے۔وہ ہمیشہ ناقابل قبول حدیثیں نقل کرتا تھا(٢)
اسی طرح ابن حجر اپنی کتاب تقریب (٣) میںکہتے ہیں کہ اس کی حدیث متروک ہے اسی طرح ذہبی نے اپنی کتاب کاشف (٤) میں اس کے بارے میں لکھا ہے کہ صالح بن موسیٰ کی حدیث ضعیف ہے.
یہاں تک کہ ذہبی نے صالح بن موسیٰ کی اسی حدیث کو اپنی کتاب ''میزان الاعتدال''
میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ صالح بن موسیٰ کی نقل کردہ یہ حدیث اس کی ناقابل قبول احادیث میں سے ہے.(٥)
.............
(١)تہذیب الکمال جلد ١٣ ص ٩٦ حافظ مزی.
(٢)تہذیب التہذیب جلد ٤ ص ٣٥٥، ابن حجر
(٣)ترجمہ تقریب ، نمبر ٢٨٩١، ابن حجر
(٤)ترجمہ الکاشف، نمبر ٢٤١٢ ذہبی
(٥)میزان الاعتدال جلد٢ ص ٣٠٢ ذہبی
حدیث ''وسنتی''کی تیسری سند
ابن عبدالبرنے اپنی کتاب ''تمہید''(١) میں اس حدیث کے متن کو درج ذیل سلسلہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے.
''عبدالرحمن بن یحییٰ '' عن ''احمد بن سعید '' عن ''محمد بن ابراھیم الدبیل'' عن ''عل بن زید الفرائض'' عن ''الحنین'' عن ''کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف'' عن ''أبیہ'' عن ''جدہ'' .
امام شافعی نے کثیر بن عبداللہ کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جھوٹ کے ارکان میں سے ایک رکن تھا۔ (٢)
ابوداؤد کہتے ہیں کہ وہ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے افراد میں سے تھا.(٣)
ابن حبان اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ عبداللہ بن کثیر نے حدیث کی جو کتاب اپنے باپ اور دادا سے نقل کی ہے اس کی بنیاد جعل حدیث پر ہے اس کی کتاب سے کچھ نقل کرنا اور عبداللہ بن کثیر سے روایت لینا قطعا حرام ہے صرف اس صورت میں صحیح ہے کہ اس کی بات کو تعجب کے طور پر یا تنقید کرنے کے لئے نقل کیا جائے. (٤)
.............
(١) التمہید، جلد ٢٤ ص ٣٣١
(٢) تھذیب التھذیب جلد ٨ ص ٣٧٧ ( دارالفکر) اور تھذیب الکمال جلد ٢٤ ص ١٣٨
(٣) گزشتہ کتابوں سے مأخوذ
(٤) المجروحین، جلد ٢ ص ٢٢١ ابن حبان
نسائی اور دارقطنی کہتے ہیں : اس کی حدیث متروک ہے امام احمد کہتے ہیں : کہ وہ معتبر راوی نہیں ہے اور اعتماد کے لائق نہیں ہے.
اسی طرح اس کے بارے میں ابن معین کا بھی یہی نظریہ ہے تعجب انگیز بات تویہ ہے کہ ابن حجر نے ''التقریب'' کے ترجمہ میں صالح بن موسیٰ کو فقط ضعیف کہنے پر اکتفاء کیا ہے اور صالح بن موسیٰ کو جھوٹا کہنے والوںکو شدت پسند قرار دیا ہے ،حالانکہ علمائے رجال نے اس کے بارے میں جھوٹا اور حدیثیں گھڑنے والا جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں یہاں تک کہ ذھبی اس کے بارے میں کہتے ہیں : اس کی باتیں باطل اور ضعیف ہیں.
سند کے بغیر متن کا نقل
امام مالک نے اسی متن کو کتاب ''الموطا''(١) میں سند کے بغیراور بصورت مرسل(٢) نقل کیا ہے جبکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس قسم کی حدیث کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس تحقیق سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث جس میں ''وسنتی'' ہے وہ جعلی اور من گھڑت ہے اور اسے جھوٹے راویوں اور اموی حکومت کے درباریوں نے ''وعترتی'' کے کلمہ والی صحیح حدیث کے مقابلے میں گھڑا ہے لہذا مساجد کے خطباء ،
.............
(١) الموطا ، مالک ص ٨٨٩ حدیث ٣
(٢)روایت مرسل : ایسی روایت کو کہا جاتا ہے جس کے سلسلہ سند سے کوئی راوی حذف ہو جیسے کہا جائے ''عن رجل'' یا عن بعض اصحابنا تو ایسی روایت مرسلہ ہوگی(مترجم)
مقررین اور ائمہ جماعت حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس حدیث کوچھوڑ دیںجو رسول ۖ نے بیان نہیں کی ہے بلکہ اس کی جگہ صحیح حدیث سے لوگوں کو آشنا کریں . اور وہ حدیث جسے مسلم نے اپنی کتاب ''صحیح'' میں لفظ ''و اہل بیتی'' کے ساتھ اور ترمذی نے لفظ ''عترتی و اہل بیتی'' کے ساتھ نقل کیا ہے اسے لوگوںکے سامنے بیان کریں اسی طرح علم ودانش کے متلاشی افراد کے لئے ضروری ہے کہ علم حدیث سیکھیں تاکہ صحیح اور ضعیف حدیث کو ایک دوسرے سے جدا کرسکیں.
آخر میں ہم یہ یاددلا دیں کہ حدیث ثقلین میں لفظ ''اہل بیتی'' سے پیغمبر اسلامۖ کی مراد حضرت علی ـ اور وہ حضرت فاطمہ زہرا ، حضرت امام حسن ـ اورحضرت امام حسین ـ ہیں ۔
کیونکہ مسلم نے(١) اپنی کتاب صحیح میںاور ترمذی نے (٢) اپنی کتاب سنن میںحضرت عائشہ سے اس طرح نقل کیا ہے:
نزلت ھذہ الآیة علیٰ النب ۖ .( اِنّما یریدُ اللّہُ لیذھبَ عَنْکم الرِجْسَ أھْلَ البیتِ و یُطِّھرکم تطھیراً)ف بیت أم سلمة فدعا النب ۖ فاطمة و حسناً و حسیناً فجللھم بکسائٍ و عَلّ خلف
.............
(١)صحیح مسلم جلد ٤ ص ١٨٨٣ ح ٢٤٢٤
(٢)ترمذی جلد ٥ ص ٦٦٣
ظھرہ فجللّہ بکساء ثم قال : أللّھم ھٰؤلائِ أھل بیت فأذھبعنھم الرجس و طھرھم تطھیرا. قالت أم سلمة و أنا معھم یا نب اللّہ؟ قال أنتِ علیٰ مکانک و أنتِ اِلی الخیر.(١)
یہ آیت( اِنّما یریداللہُ لیذھبَ عَنْکم الرِجْسَ اَھْلَ البیتِ و یُطَھِّرکم تطھیراً)ام سلمہ کے گھر میںنازل ہوئی ہے پیغمبر اسلامۖ نے فاطمہ ،حسن و حسین کو اپنی عبا کے اندر لے لیا اس وقت علی آنحضرتۖ کے پیچھے تھے آ پ نے ان کوبھی چادر کے اندر بلا لیااورفرمایا : اے میرے پروردگار یہ میرے اہل بیت ہیںپلیدیوں کو ان سے دور رکھ اور ان کو پاک وپاکیزہ قرار دے۔ ام سلمہ نے کہا : اے پیغمبر خداۖ کیا میں بھی ان میں سے ہوں(یعنی آیت میں جو لفظ اہل بیت آیا ہے میں بھی اس میں شامل ہوں؟) پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا تم اپنی جگہ پر ہی رہو (عبا کے نیچے مت آؤ) اور تم نیکی کے راستے پر ہو۔''
حدیث ثقلین کا مفہوم
چونکہ رسول اسلام نے عترت کو قرآن کاہم پلہ قرار دیا ہے اور دونوں کو امت کے
.............
(١)اقتباس از حسن بن علی السقاف صحیح صفة صلاة النبی ۖ ص ٢٩٤. ٢٨٩
درمیان حجت خدا قرار دیا ہے لہٰذا اس سے دو نتیجے نکلتے ہیں:
١۔ قرآن کی طرح عترت رسولۖ کا کلام بھی حجت ہے اور تمام دینی امور خواہ وہ عقیدے سے متعلق ہوں یا فقہ سے متعلق ان سب میں ضروری ہے کہ ان کے کلام سے
تمسک کیا جائے ،اور ان کی طرف سے دلیل و رہنمائی مل جانے کے بعد ان سے روگردانی کر کے کسی اور کی طرف نہیں جانا چاہئے .
پیغمبر خداۖ کی وفات کے بعد مسلمان خلافت اور امت کے سیاسی امور کی رہبری کے مسئلہ میں دو گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنی بات کو حق ثابت کرنے کے لئے دلیل پیش کرنے لگا اگرچہ مسلمانوں کے درمیان اس مسئلہ میں اختلاف ہے مگر اہل بیت کی علمی مرجعیت کے سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں کیا جاسکتا .
کیونکہ سارے مسلمان حدیث ثقلین کے صحیح ہونے پر متفق ہیں اور یہ حدیث عقائد اور احکام میں قرآن اور عترت کو مرجع قرار دیتی ہے اگر امت اسلامی اس حدیث پر عمل کرتی تو اس کے درمیان اختلاف کا دائرہ محدود اور وحدت کا دائرہ وسیع ہوجاتا.
٢۔ قرآن مجید، کلام خدا ہونے کے لحاظ سے ہر قسم کی خطا اور غلطی سے محفوظ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں خطا اور غلطی کا احتمال دیا جائے جبکہ خداوند کریم نے اس کی یوں توصیف کی ہے:
( لاٰیْتِیہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاٰمِنْ خَلْفِہِ تَنزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ) (١)
''باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے اور یہ حکیم و حمید خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے .''
اگر قرآن مجید ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے تو اس کے ہم رتبہ اور ہم پلہ افراد بھی ہر قسم
کی خطا سے محفوظ ہیں کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک یا کئی خطاکار افراد قرآن مجید کے ہم پلہ اور ہم وزن قرار پائیں۔ یہ حدیث گواہ ہے کہ وہ افراد ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ اور معصوم ہیں البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ عصمت کا لازمہ نبوت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی معصوم ہو لیکن نبی نہ ہوجیسے حضرت مریم اس آیۂ شریفہ :
(ِنَّ اﷲَ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلَی نِسَائِ الْعَالَمِینَ)(٢)
(اے مریم !) خدا نے تمہیں چن لیا اور پاکیزہ بنادیا ہے اور عالمین کی عورتوں میں منتخب قرار دیا ہے ۔
کے مطابق گناہ سے تو پاک ہیں لیکن پیغمبر نہیں ہیں۔
.............
(١)سورہ فصلت آیت ٤٢
(٢) سورہ آل عمران آیت ٤٢
|