شيعہ جواب ديتے ہيں
215
10
اَوليائے الہى سے توسّل

217
''توسّل'' قرآنى آيات اور عقل كے آئينہ ميں:
بارگاہ الہى ميں اوليائے الہى سے توسّل كے ذريعہ مادّى اور معنوى مشكلات حل كرانے كا مسئلہ، وہابيوں اور ديگر مسلمانوں كے درميان ايك اہم ترين اور متنازعہ مسئلہ ہے_ وہابى صراحت كے ساتھ كہتے ہيں كہ نيك اعمال كے ذريعے توسّل كرنے ميں كوئي حرج نہيں ہے ليكن اوليائے الہى كے ساتھ توسّل كرنا جائز نہيں ہے كيونكہ وہ لوگ اسے ايك قسم كا شرك سمجھتے ہيں_ جبكہ دنيا كے دوسرے مسلمان اس توسّل كو ( جس كے مفہوم كى ہم وضاحت كريں گے ) جائز سمجھتے ہيں_
وہابيوں كا گمان يہ ہے كہ قرآن مجيد كى آيات اس توسّل سے منع كرتى ہيں اور اسے شرك قرار ديتى ہيں _ من جملہ يہ آيت كريمہ
'' ما نعبد ہم الّا ليقرّبُونا الى اللہ زُلفى '' (1)
يہ آيت فرشتوں كى مانندمعبودوں كے بارے ميں ہے كہ جن كے ليے مشركين كہتے تھے '' كہ ہم اس ليے ان كى پوجا كرتے ہيں تا كہ يہ ہميں خدا كے نزديك كريں'' اور اس بات كو
--------------------
1) سورة زمر آية 3_

218
قرآن مجيد نے شركقرار ديا ہے _ ايك اور آيت ميں يوں ارشاد ربُ العزّت ہے '' فلا تدعوا مع اللہ ا حداً'' خدا كے ساتھ كسى كو نہ پكارو'' (1)
ايك دوسرى روايت ميںيوں بيان كيا گيا ہے '' والّذين يَدعُونَ من دُونہ لا يستجيبون لہم بشيئ:،'' جو غير خدا كوپكارتے ہيں ، وہ انكى كوئي حاجت پورى نہيں كرسكتے ہيں'' (2)
وہابيوں كا توہّم اور خيال يہ ہے كہ يہ آيات اوليائے الہى كے ساتھ توسّل كرنے كى نفى كر رہى ہيں_
اس كے علاوہ وہ ايك اور بات بھى كرتے ہيں وہ يہ كہ بالفرض اگر بعض روايات كى روشنى ميںپيغمبر اكرم(ص) كى زندگى ميں اُن سے توسّل جائز ہو ليكن وفات كے بعد ان سے توسّل كے جواز پر كوئي دليل نہيں ہے_
يہ وہابيوں كے دعووں كا خلاصہ تھا ليكن مقام افسوس يہ ہے كہ اسى قسم كى بے دليل باتوںكى خاطر وہابيوں نے بہت سے مسلمانوں پر شرك اوركفر كى تہمتيں لگائيں اور ان كے خون بہانے كو مباح قرار ديا ہے ، اسى طرح انكے مال كو مباح جانا ہے _ اسى بہانے بہت سا خون بہايا گيا اور بہت سا مال غارت كيا گيا ہے _
اس وقت جبكہ ہم انكے عقيدہ كو سمجھ چكے ہيں بہتر ہے كہ اصل مسئلہ كى طرف لوٹ كر اسى توسّل كے مسئلہ كو بنيادى طور پر حل كريں_
-----------------------
1) سورہ جن ، آية 18_
2) سورة رعد، آيہ 14_

219
سب سے پہلے ہم '' توسل'' كو لغت، آيات اور روايات كى روشنى ميں ديكھتے ہيں: سب ميں '' توسّل'' وسيلہ كے انتخاب كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے اور وسيلہ اس چيز كو كہاجاتا ہے جو انسان كوكسى دوسرے سے قريب كرے
لغت كى مشہور كتاب '' لسان العرب'' ميں توسّل كو يوں بيان كيا گيا ہے _
''وصَّل الى الله وسيلةً اذا عَمل عملاً تقرب اليہ والوسيلة ما يتقرّب بہ الى الغير; خدا كى طرف توسّل كرنا اور وسيلہ منتخب كرنا يہ ہے كہ انسان ايسا عمل انجام دے جس سے اسے خدا كا قرب نصيب ہو ، اور وسيلہ اس چيز كے معنى ميں ہے جس كے ذريعے انسان دوسرى چيز سے نزديك ہوتا ہے ''
مصباح اللغة ميں بھى يوں ہى بيان كيا گيا ہے : '' الوسيلة ما يتقرّب بہ الى الشيء و الجمع الوسائل'' وسيلہ اس شے كوكہتے ہيں جس كے ذريعے، انسان دوسرى شے يا شخص كے نزديك ہوتا ہے اور وسيلہ كى جمع ''وسائل '' ہے_
مقاييس اللغة ميں يوں بيان كيا گيا ہے : '' الوسيلة الرغبة و الطلب'' وسيلة رغبت اور طلب كے معنى ميں ہے'' _
ان لغت كى كتب كے مطابق، وسيلہ، تقرب حاصل كرنے كے معنى ميں بھى ہے اور اس چيز كے معنى بھى ہے جس كے ذريعے انسان دوسرى شے كا قرب حاصل كرتا ہے _ اور يہ ايك وسيع مفہوم ہے
اب ہم قرآن مجيد كى آيات كى طرف رجوع كرتے ہيں_
قرآن مجيد ميں وسيلہ كى اصطلاح دو آيات ميںاستعمال ہوئي ہے_

220
1_ سورہ مائدہ كى 35ويں آيت ميں يوں ارشاد ہے :
'' يا ايّہا الّذين آمنو اتقوا الله و ابتغوا اليہ الوسيلة و جاہدُوا فى سبيلہ لعلكم تفلحون''
اس آيت ميں تمام اہل ايمان كو مخاطب قرار دياگيا ہے اورتين دستور بيان كيے گئے ہيں _
اوّل تقوى كا حكم، دوّم، وسيلہ منتخب كرنے كا حكم ، وہ وسيلہ جو ہميںخدا سے نزديك كرے_ سوّم : راہ خدا ميںجہاد كرنے كا حكم، ان مجموعہ صفات ( تقوى ، توسّل اور جہاد) كانتيجہ وہى چيز ہے جسے آيت كے آخر ميں بيان كياگيا ہے: '' لعلكم تفلحون'' يعنى يہ صفات تمہارى فلاح اور رستگارى كا باعث ہيں''
2_ سورة اسرا كى آيت 57 ميںوسيلہ كا تذكرہ كياگيا ہے _ آيت 57 كے معنى كو سمجھنے كے ليے ہميںپہلے آيت 56 كامطالعہ كرنا چاہيے جس ميں يوں ارشاد ہے
''قل ادعوا الّذين زَعمتم من دُونہ فَلا يملكونَ كشفَ الضُرّ عنكم و لا تحويلاً''
اے پيغمبر: كہہ ديجئے كہ خدا كے علاوہ تم جنہيں پكارتے ہو اور انہيں اپنا معبود تصوّر كرتے ہو انہيں پكار كر ديكھ لوكہ وہ تمہارى مشكل كوحل كريں، وہ تمہارى كوئي مشكل حل نہيں كرسكتے ہيں اور نہ ہى كسى قسم كى تبديلى لاسكتے ہيں''
''قُل ادعوا الّذين'' والے جملہ سے معلوم ہوتا ہے كہ اس آيت ميں معبودوں سے مراد بت يا اس قسم كى كوئي اور چيزنہيں ہے ، كيونكہ كلمہ الذين صاحب شعور اور صاحب عقل افراد كے

221
ليے استعمال كياجاتا ہے_ لہذا اس آيت ميں وہ فرشتے مراد ہيں جنہيں لوگ پوجتے تھے يا حضرت عيسى مراد ہيں كہ ايك گروہ معبود كے عنوان سے انكى پرستش كرتا تھا_ يہ آيت بيان كررہى ہے كہ نہ فرشتے اور نہ ہى حضرت عيسى (ع) تمہارى مشكل كو حل كرسكتے ہيں _
بعد والى آيت ميںيوں ارشاد ہے '' اولئك الّذين يَدعُون يبتغون الى ربّہم الوسيلة ; خود يہ لوگ ( فرشتے اور حضرت عيسى (ع) ) وہ ہيں جو خداوند كى بارگاہ ميں وسيلہ كے ذريعہ تقرب حاصل كرتے ہيں وہ وسيلہ كہ ايہم اقرب جو سب سے زيادہ نزديك ہو '' و يرجون رحمة'';اور اللہ تعالى كى رحمت كى اميد ركھتے ہيں'' '' و يخافون عذابہ '' اور اس كے عذاب سے ڈرتے ہيں كيونكہ '' انّ عذاب ربك كان محذوراً ; تيرے پروردگار كاعذاب ايسا ہے جس سے سب ڈرتے ہيں''_
وہابيوں كى سب سے بڑى غلطى يہ ہے كہ وہ گمان كرتے ہيں كہ اوليائے الہى كے ساتھ توسّل كا مفہوم يہ ہے كہ انہيں ( كاشف الضر) سمجھا جائے يعنى انہيں مستقل طور پر مشكلات كا حل كرنے والا سمجھا جائے اور قضائے حاجات اور دفع كر بات كا سرچشمہ سمجھا جائے حالانكہ توسّل كا يہ معنى نہيں ہے _
جن آيات كو وہابيوں نے پيش كيا ہے وہ عبادت كے بارے ميں بيان كرتى ہيں _ حالانكہ كوئي بھى اوليائے الہى كى عبادت نہيں كرتا ہے _
ہم جس وقت پيغمبر اكرم(ص) كے ساتھ توسّل كرتے ہيں كيا انكى عبادت كرتے ہيں؟ كيا ہم پيغمبر اكرم(ص) كو اللہ تعالى كے علاوہ مستقل طور پر مؤثر اور كاشف ضر سمجھتے ہيں؟
جس توسّل كى طرف قرآن مجيد نے دعوت دى ہے وہ يہ ہے كہ اس وسيلہ كے ذريعے خدا

222
كے نزديك ہوں، يعنى يہ ذوات مقدّسہ، بارگاہ خدا ميں شفاعت كرتى ہيں_ وہ چيز جو ہم نے شفاعت كے بارے ميں بيان كى ہے_
در حقيقت توسّل كى واقعيّت اور شفاعت كى واقعيّت ايك ہى ہے_ بہت سى آيات شفاعت كو ثابت كرتى ہيں اور دو آيات توسل كو بيان كرتى ہيں دلچسپ بات يہ ہے كہ سورة مائدہ كى 57 نمبر آيت '' ايہم اقرب'' كے ذريعے توسّل كو بيان كرتى ہے يعنى فرشتے اور حضرت عيسى (ع) بھى اپنے ليے وسيلہ منتخب كرتے ہيں وہ وسيلہ جو زيادہ نزديك ہے ''ہم'' جمع كى ضمير ہے جو صاحب عقول كے ليے استعمال كيجاتى ہے_ يعنى اوليائے الہى اور صالحين كے ساتھ توسّل كرتے ہيں، ان صالحين ميں سے ہر ايك خدا كے نزديك تر ہيں_
بہرحال سب سے پہلے واضح ہونا چاہيے كہ اوليائے الہى كے ساتھ توسّل كيا ہے؟
كيا يہ توسّل ان كى عبادت اور پوجا كرنا ہے؟ ہرگز ايسا نہيں ہے_
كيا انہيں مستقل طور پر مؤثر جاننا ہے؟ ہرگز ايسا نہيں ہے_ كيا انہيںمستقل طور پر قاضى الحاجات اوركاشف الكربات جاننا ہے؟ ہرگز ايسا نہيں ہے بلكہ يہ ذوات مقدّسہ اس شخص كے ليے جس نے انكے ساتھ توسّل كيا ہے خداوندعالم كى بارگاہ ميں شفاعت اور سفارش كرتى ہيں_ اس كى مثال ايسے دى جاسكتى ہے كہ ميں كسى بڑى شخصيّت كے گھر جانا چاہتا ہوں وہ مجھے نہيں جانتا ہے ، ميں ايك ايسے شخص كوواسطہ بناتا ہوں كہ جو مجھے بھى جانتا ہے اور اس كے اس شخصيت كے ساتھ بھى تعلقات ہيں_ اسے كہتاہوں كے آپ ميرے ساتھ چليں اور اس شخصيت كے ساتھ ميرا تعارف كراديں اور سفارش كرديں_ يہ كام نہ تو عبادت ہے اور نہ ہى تاثير ميںاسے مستقل سمجھنا ہے_

223
يہاں مناسب يہ كہ ہم '' ابن علوي'' كا كلام نقل كريں جو انہوں نے اپنى مشہور كتاب ''مفہوم يجب ان تصحّح'' ميں بيان كيا ہے_ وہ كہتے ہيں كہ بہت سے لوگوں نے توسّل كى حقيقت كے سمجھنے ميں غلطى كى ہے_ اس ليے ہم (اپنى نظر كے مطابق) توسّل كا صحيح مفہوم پيش كرتے ہيں_ اور اسے بيان كرنے سے پہلے محترم قارى كى توجہ چند نكات كى طرف مبذول كراتے ہيں_
1_ توسّل دعا كا ايك انداز ہے اور حقيقت ميں اللہ تبارك و تعالى كى طرف توجّہ كرنے كا ايك دروازہ ہے، پس ہدف اور اصلى مقصد اللہ تعالى ہے، اور جس شخصيّت كے ساتھ آپ توسّل كر رہے ہيں وہ واسطہ اور تقرب بہ خدا كا وسيلہ ہے، اگر كوئي توسّل ميں اس كے علاوہ كوئي عقيدہ ركھتا ہوتو وہ مشرك ہے_
2_ جو انسان كسى شخصيّت كے وسيلہ سے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں حاضرى ديتا ہے حقيقت ميں يہ انسان كا اسى شخصيّت كے ساتھ اظہار محبّت ہے اوروہ اس شخصيت كے بارے ميں اعتقاد ركھتا ہے كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں مقرّب ہے اور بالفرض اگر مسئلہ الٹ ثابت ہوجائے تو وہى انسان اس شخصيّت سے مكمل طور پر دورى اختيار كرليتا ہے بلكہ اس كى مخالفت كرنے لگتا ہے_ تو ہميں يہاں تك معيار كا علم ہوگيا ہے كہ توسّل كا معيار خداوند كے نزديك اس شخصيّت كا مقربّ ہونا ہے_
3_ اگر توسّل كرنے والا انسان اس بات كا عقيدہ ركھتا ہو كہ ( متوسّلٌ بہ) جس شخصيّت كے ساتھ اس نے توسّل كيا ہے، وہ ذاتى اور مستقل طور پر نفع ونقصان پہنچانے ميں اللہ تعالى كى طرح ہے، تو ايسا انسان مشرك ہے _

224
4_ توسّل كوئي واجب يا ضرورى چيز نہيںہے اور نہ ہى يہ دعا قبول ہونے كا منحصر راستہ ہے، اہم چيز دعا ہے اور خداوند كى بارگاہ ميں حاضر ہونا ہے جس صورت ميں بھى ہو_ جيسا كہ خود خداوند نے ارشاد فرمايا ہے كہ ''واذا سا لك عبادى عنّى فانّى قريبٌ''(1)
''ابن علوى مالكي'' اس مقدمہ كو بيان كرنے كے بعد، توسّل كے بارے ميں اہلسنت كے علما، فقہاء اور متكلمين كے نظريات بيان كرتا ہے_ اور كہتا ہے كہ اعمال صالحہ كے ذريعے توسّل الى اللہ كى مشروعيّت ( جواز) كے بارے ميں مسلمانوں كے درميان كوئي اختلاف نہيں ہے يعنى انسان نيك اعمال كے وسيلہ سے اللہ تعالى كا تقرب حاصل كرنے كى كوشش كرے، يہ اختلافى مسئلہ نہيں ہے_ مثلاً كوئي روزہ ركھتا ہے، نماز پڑھتا ہے، قرآن مجيد كى تلاوت كرتا ہے، صدقہ ديتا ہے اور ان اعمال كے ذريعے اللہ تعالى كا تقرب حاصل كرنے كى كوشش كرتا ہے_ يہ چيز مسلّماً صحيح ہے_
اس قسم كے توسّل كو حتى كہ سلفيوں نے بھى قبول كيا ہے _ من جملہ ''جناب ابن تيميّہ نے اپنى مختلف كتب ميں بالخصوص اپنى كتاب '' القاعدة الجليلة فى التوسّل و الوسيلة'' ميں اس قسم كے توسّل كو قبول كيا ہے_
ابن تيميّہ نے اس قسم كے توسّل يعنى نيك اعمال كے ذريعے توسّل كے جواز كے بارے ميں تصريح كى ہے_ پس اختلاف كہاں ہے؟
كيا اختلاف ، اعمال صالحہ كے علاوہ توسّل كے بارے ميں ہے؟ مثلاً اوليائے الہى كے ساتھ توسّل كيا جائے اور يوں كہا جائے : اللّہم انّى اتوسّل اليك بنبيك محمّد(ص) ;
----------------------------
1) سورہ بقرة آيہ 186 (ترجمہ )جب ميرے بندے مجھ سے سوال كرتے ہيں تو ميں قريب ہوں'' _

225
بارالہا ميں تيرى بارگاہ ميں تقرب كے ليے تيرے نبى محمد مصطفى صلّى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى ذات كو وسيلہ بناتا ہوں_ اس كے بعد ابن علوى اضافہ كرتے ہوئے يوں لكھتے ہيں كہ اس معنى ميں اختلاف اور وہابيوں كا اوليائے الہيسے توسّل كا انكار كرناحقيقت ميں صرف ظاہرى اور لفظى اختلاف ہے، واقعى اورحقيقى اختلاف نہيں ہے_
باالفاظ ديگر صرف لفظوں كا نزاع ہے_كيونكہ اوليائے الہى كے ساتھ توسّل حقيقت ميںانكے نيك اعمال كے ساتھ توسّل ہے اور يہ ايك جائز امر ہے_
پس اگر مخالفين بھى انصاف اور بصيرت كى نگاہ سے ديكھيں تو انكے ليے مطلب واضح اور اعتراض ختم ہوجائيگا، اسطرح فتنہ خاموش جائيگا_ اورمسلمانوں پر مشرك اور ضلالت كى تہمت لگانے كى نوبت نہيں آئيگي_
اس كے بعد موصوف اس مطلب كى وضاحت كرتے ہوئے لكھتے ہيں كہ جوانسان بھى اوليائے الہى كے ساتھ توسّل كرتا ہے اس ليے ہے كہ وہ ان سے محبّت كرتاہے_
اور كيوں اس كے ساتھ محبت كرتا ہے؟ اس ليے كہ اس انسان كا عقيدہ ہے كہ وہ شخص اللہ كا نيك بندہ ہے، يا اس ليئےہ وہ شخص اللہ كے ساتھ محبت كرتا تھا_ يا اللہ تعالى اس كے ساتھ محبّت كرتا ہے_ يا يہ كہ انسان اس وسيلہ كو پسند كرتا ہے اور اس كے ساتھ محبت كرتا ہے_ جب ہم ان تمام امور ميں غور و فكر كرتے ہيں تو ديكھتے ہيں كہ ان سب كے باطن ميں عمل پوشيدہ ہے يعنى حقيقت ميں يہ خدا كى بارگاہ ميں نيك اعمال كے ذريعے توسّل ہے_ اور يہ وہى چيز ہے جس پر تمام مسلمانوں كا اتفاق ہے_(1)
----------------------------
1) كتاب مفاہيم يجب ان تصحّح ص 116، 117_

226
البتہ ہم بعد ميں بيان كريں گے كہ اوليائے الہى كے ساتھ توسّل اگر چہ انكى شان اور مقام كى خاطر ہو نہ انكے نيك اعمال كى خاطر اس اعتبار سے كہ يہ ذوات مقدسہ خداوند كى بارگاہ ميں آبرومند ، عزيز اور سربلند ہيں يا كسى بھى خاطر يہ توسّل ہو، تو جب تك انہيں تاثير ميں مستقل نہ سمجھيں بلكہ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں انہيں شفيع سمجھيں تو ايسا توسّل نہ كفر ہے اور نہ خلاف شرع_
قرآن مجيد ميں متعدّد مقامات پر اس قسم كے توسّل كى طرف اشارہ كيا گياہے شرك تو تب ہوتا ہے كہ ہم كسى چيز كو اللہ تعالى كے مقابلے ميں مستقل طور پر مؤثر سمجھيں_ وہابيوں كى غلطى يہ ہے كہ انہوں نے اس آيت '' ما نعبدہم الّا ليقرّبونا الى اللہ زلفي'' (1) ميں ''عبادت اور ''شفاعت'' كو آپس ميں مخلوط كرديا ہے_ اور يہ گمان كيا ہے كہ شفاعت بھى شرك ہے_ حالانكہ ان واسطوں كى عبادت كرنا شرك ہے نہ انكى شفاعت اور انكے ساتھ توسل كرنا شرك ہے _ (غور كيجيئے

توسل، اسلامى احاديث كى روشنى ميں:
آيات توسّل ،كے اطلاق كے علاوہ ،جوہر اس توسل كو جو اسلام كے صحيح اعتقادى اصولوں كے خلاف نہ ہو، جائز بلكہ مطلوب قرار ديتى ہيں، ہمارے پاس توسل كے بارے ميں بہت سى روايات بھى ہيں جو متواتر ياتواتر كے نزديك ہيں _
ان ميں سے بہت سى روايات خود پيغمبر اكرم(ص) كى ذ ات كے ساتھ توسّل سے مربوط ہيں_ كہ وہ توسل كبھى آپ(ص) كى ولادت سے پہلے كبھى ولادت كے بعد، آپ كى حيات ميں يا آپ(ص) كى رحلت كے بعد، كيا گياہے_
---------------------------
1) سورہ زمر، آيت 3_

227
البتہ كچھ روايات پيغمبر اكرم(ص) كے علاوہ ديگر دينى شخصيات سے توسّل كے ساتھ مربوط ہيں_
ان ميں سے بعض روايات ،در خواست اور دعا كى صورت ،بعض بارگاہ الہى ميں شفاعت كے تقاضا كى صورت ميں ہيں، بعض ميں اللہ تعالى كو پيغمبر اكرم(ص) كے مقام كا واسطہ دياگيا ہے_ خلاصہ يہ كہ توسّل كى تمام اقسام ان روايات ميں ديكھنے كو ملتى ہيں_ اور اس انداز ميں ہيں كہ بہانے تلاش كرنے والے تمام وہابيوں پر راستہ بند كرديتى ہيں_
اب ان روايات كے چند نمونوں كو ملاحظہ فرمايئے

1_ پيغمبر اكرم(ص) كى ولادت سے پہلے حضرت آدم(ع) كا آپ(ص) سے توسّل كرنا
''حاكم'' نے ''مستدرك'' اور ديگر محدثين نے اپنى كتب ميں اس حديث كو نقل كيا ہے كہ آنحضرت(ص) نے فرمايا: كہ جس وقت حضرت آدم (ع) سے خطا سرزد ہوئي تو آپ (ع) نے اللہ سے دعا كرتے ہوئے عرض كيا: '' يا ربّ اسئلك بحقّ محمّد: لمّا غفرت لي'' پروردگارا ميں تجھے حضرت محمد(ص) كے حق كا واسطہ دے كر سوال كرتا ہوں كہ مجھے بخش دے'' اللہ تعالى نے فرمايا كہ تو نے محمد(ص) كو كہاں سے پہچانا حالانكہ ابھى ميں نے اسے خلق نہيں كيا ہے ؟
حضرت آدم (ع) نے عرض كي: پروردگارا اس معرفت كا سبب يہ ہے كہ جب تو نے مجھے اپنى قدرت سے خلق كيا اور مجھ ميں روح پھونكي، ميں نے سر اٹھا كر ديكھا تو يہ جملہ عرش كے پائے پر لكھا ہوا تھا: '' لا الہ الّا الله محمّد رسول الله '' اس عبارت سے ميں سمجھ گيا كہ يہ جو محمّد كا نام تو نے اپنے نام كے ساتھ لكھا ہے وہ تمام مخلوقات ميں سے تيرے نزديك سب سے زيادہ محبوب ہے اللہ تعالى نے فرمايا: اے آدم تو نے سچ كہا'' انہ لاحب الخلق الَّي'' وہ

228
ميرے نزديك تمام مخلوقات سے زيادہ محبوب ہے:
'' ''ادعونى بحقّہ فقدغفرت لك''(1)
اس كے حق كا واسطہ دے كر مجھے سے مانگ ميںتجھے معاف كردونگا''
دوسرى حديث حضرت ابوطالب كے توسّل كے ساتھ مربوط ہے جو انہوں نے پيغمبر اكرم(ص) كے بچپن كے زمانے ميں آپ(ص) كے ساتھ كيا_ حديث كا خلاصہ يوں ہے كہ جسے ''ابن عساكر'' نے ''فتح الباري'' ميں نقل كيا ہے:
كہ ايك مرتبہ مكہ ميں خشك سالى ہوگئي، تمام قريش جمع ہوكر حضرت ابوطالب(ع) كے پاس گئے اور كہنے لگے كہ سارے كھيت خشك ہوچكے ہيں، قحط نے ہر جگہ تباہى مچا ركھى ہے_ آؤ خداوند كے حضور چليں اور بارش كے ليے دعا كريں_
حضرت ابوطالب(ع) ساتھ چلے اور انكے ساتھ ايك بچہ بھى تھا ( بچے سے مراد پيغمبر اكرم(ص) ہيں جو ابھى طفوليّت كا زمانہ گزار رہے تھے ) اس بچے كا چہرہ آفتاب كى طرح درخشاں تھا_ جناب ابوطالب(ع) نے اس بچے كو گود ميں ليا ہواتھا _ اسى حالت ميں اپنى كمر كو خانہ كعبہ كى ديوار كے ساتھ لگايا اور اس بچے سے توسل كيا; اسى وقت آسمان پر بادل اُمڈ آئے اور ايسى بارش برسى كہ جس كے نتيجے ميں خشك بيابان سرسبز ہوگئے_ اس وقت جناب ابوطالب(ع) نے پيغمبر(ص) كى شان ميں ايك شعر كہا جويوں ہے_
--------------------------------
1) حاكم نے مستدرك ، جلد 2 ص 615 پر اورحافظ سيوطى نے ''الخصائص النبويّة'' ميں اسے نقل كيا ہے اور صحيح قرار ديا ہے اور بيہقى نے اسے ''دلائل النبوة'' ميں نقل كيا ہے كہ عام طور پر اس كتاب ميں وہ ضعيف روايت نقل نہيں كرتے ہيں اور قسطلانى اور زرقانى نے مذاہب اللدنيّہ ميں اس حديث كونقل كيا اور صحيح قرار ديا ہے اور ديگر علماء نے بھى اسے نقل كيا ہے _ مزيد توضيح كے ليئےتاب '' مفاہيم يجب ان تصحّح ص 121 اور اسكے بعد رجوع فرمائيں''_

229
''و ابيض يستسقى الغمام بوجہہ
ثمال اليتامى عصمة للا رامل ''(1)
كہ پيغمبر اكرم(ص) كے نورانى چہرے كے صدقے يہ بادل برس رہے ہيں_ يہ بچہ يتيموں كا ملجا اور بيوہ عورتوں كى پناہ گاہ بنے گا ''
ايك نابينا مرد نے پيغمبر اكرم(ص) كى ذ ات سے توسّل كيا_ وہ آپ(ص) كى نبوّت كے زمانے ميں آپكى خدمت ميں پہنچا، توسّل كر كے شفا پالى اور اسكى آنكھيں واپس لوٹ آئيں
يہ روايت صحيح ترمذي، اسى طرح سنن ابن ماجہ ، مسند احمد اورديگر كتب ميں نقل ہوئي ہے (1) اس سے پتہ چلتا ہے كہ سند كے اعتبار سے حديث محكم ہے_ بہرحال حديث يوں ہے_
''كہ ايك نابينا آدمى آنحضرت(ص) كى خدمت ميں پہنچا اورعرض كرنے لگا:
اے رسول(ص) خدا اللہ تعالى سے دُعا كيجئے كہ وہ مجھے شفا دے اور ميرى آنكھوں كى بينائي مجھے لوٹا دے _
پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا: اگر تو كہتا ہے تو ميں تيرے ليے دعا كرنے كو تيار ہوں اور اگر صبر كرتا ہے تو يہ صبر تيرے ليئے بہتر ہے( اور شايد تيرى مصلحت اسى حالت ميں ہو) ليكن اس بوڑھے آدمى نے اپنى حاجت پر اصرار كيا_ تو اس پر پيغمبر اكرم(ص) نے اس بوڑھے آدمى كو حكم ديا كہ مكمل اور اَچھے اندازميں وضو كرو اور دو ركعت نماز پڑھو ، نماز كے بعد يہ دعا پڑھو:
'' اللّہم انّى اسئلك و ا توجّہ اليك بنبيك محمّد (ص)
نبّى الرّحمة يا محمّد (ص) انّى اتوجّہ بك الى
----------------------------
1) فتح الباري، جلد 2 ص 494 و اسى طرح سيرہ حلبي، جلد 1 ص 116_

230
ربّى فى حاجتى لتُقضى ، اللّہم شَفعّہ، فيَّ''(1)
بار الہا ميں تجھ سے سوال كرتا ہوں اور تيرى طرف توجہ كرتا ہوں تيرے نبى محمد مصطفي(ص) كے واسطے كہ جو نبى رحمت ہيں_ اے محمد(ص) ميں آپ(ص) كے وسيلہ سے اپنے پروردگار كى طرف اپنى حاجت طلب كرنے چلا ہوں تا كہ ميرى حاجت پورى ہوجائے اور اے اللہ انہيں ميرا شفيع قرار دے_
وہ نابينا آدمى چلاتا كہ وضو كرے، نماز پڑھے اور پيغمبر اكرم(ص) كى تعليم دى ہوئي دعاپڑھے_ اس حديث كا راوى عثمان بن عمير كہتا ہے كہ ہم بہت سے افراد اسى محفل ميں بيٹھے ہوئے تھے اور باتيں كررہے تھے_ كچھ دير بعد وہى بوڑھا آدمى مجلس ميں داخل ہوا اس حال ميں كہ اس كى آنكھيں بينا ہوچكى تھيں اور نابينائي كا كوئي اثر اس پر باقى نہيںتھا _
دلچسپ يہ ہے كہ بہت سے اہلسنت كے اكابر نے صراحت كے ساتھ كہا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے_ ترمذى نے اس حديث كو صحيح جانا ہے _ ابن ماجہ نے بھى كہا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے_ رفاعى نے بھى كہا ہے كہ بلاشك و شبہہ يہ حديث صحيح اور مشہور ہے _(2)

پيغمبر اكرم(ص) كى رحلت كے بعد اُن سے توسل''
اہلسنت كے معروف عالم دين '' دارمي'' نے اپنى مشہور كتاب ''سنن دارمي'' ميں ايك
-----------------------------------
1) صحيح ترمذى ، ص 119، حديث 3578، اور سنن ابن ماجہ، جلد 1، ص 441، حديث 1385 ، ومسند احمد، جلد 4، ص 138_
2) مزيد وضاحت كے ليے آپ كتاب مجموعة الرسائل و المسائل ، جلد 1 ص 18 طبع بيروت ، كيطرف رجوع فرمائيں_ ابن تيميّہ كى عين عبارت يہ ہے '' ان النسائي و الترمذى رويا حديثاً صحيحاً ان النّبى علّم رجلاً ان يدعو فيسال الله ثم يخاطب النبى فيوسّل بہ ثم يسال الله قبول شفاعتہ''

231
باب اس عنوان سے قرار دياہے كہ '' باب ماحكم اللہ تعالى نبيّہ (ص) بعد موتہ'' ( يہ باب اس كرامت اور احترام كے بارے ميں ہے جو اللہ تعالى نے پيغمبر(ص) كے ساتھ مختص كيا ہے ان كى رحلت كے بعد) اس باب ميں وہ يوں رقمطراز ہيں_
'' ايك مرتبہ مدينہ ميں شديد قحط پڑ گيا_ بعض لوگ حضرت عائشےہ كى خدمت ميںگئے اور ان سے چارہ جوئي كے ليے كہا_ حضرت عائشےہ نے فرمايا جاؤ پيغمبر اكرم(ص) كى قبر پر چلے جاؤ_ اور قبر والے كمرے كى چھت ميںسوارخ كرو، اس انداز ميں كہ آسمان اندر سے نظر آئے اور پھر نتيجہ كى انتظار كرو_ لوگ گئے انہوںنے اسى انداز ميں سوراخ كيا كہ آسمان وہاں سے نظر آتا تھا; بارش برسنا شروع ہوگئي اسقدر بارش برسى كہ كچھ ہى عرصہ ميں بيابان سرسبز ہوگئے اور اونٹ فربہ ہوگئے _(1)
''پيغمبر اكرم(ص) كے چچا حضرت عباس سے توسل'':
امام بخارى نے صحيح بخارى ميں نقل كيا ہے كہ ايك مرتبہ مدينہ ميں قحط تھا تو حضرت عمر ابن خطاب نے اللہ تعالى كو حضرت عباس بن عبدالمطلب كا واسطہ ديتے ہوئے باران رحمت طلب كى انكى دعا كى عبارت يہ تھى '' اللّہم انّاكنّا نتوسّل اليك بنبيّنا و تسقينا و انّا نتوسّل اليك بعمّ نبيّنا فاسقنا'' بارالہا ہم اپنے پيغمبر (ص) كے ساتھ توسل كرتے تھے تو توہم پر باران رحمت نازل فرماتا تھا_ آج ہم تجھے اپنے نبي(ص) كے چچا كاواسطہ دے كر دعا كرتے ہيں كہ ہم پر باران رحمت نازل فرما''
راوى كہتا ہے، اس دعا كے بعد فراوان بارش نازل ہوئي (2)
-----------------------------
1) سنن دارمي، جلد 1 ص 43_
2) صحيح بخاري، جلد 2 ص 16، باب صلاة الاستسقائ_

232
6_ ابن حجر مكّى نےصواعق محرقہ ميں امام شافعى سے نقل كيا ہے كہ امام شافعى ہميشہ اہلبيت(ع) رسول(ص) كے ساتھ توسّل كرتے تھے انہوں نے يہ مشہور شعر، ان سے نقل كيا ہے:

آل النّبى ذريعتى
و ہم اليہ وسيلتي
ا َرجوا بہم ا عطى غداً
بيد اليمين صحيفتي

رسولخدا(ص) كاخاندان ميرا وسيلہ ہيں، خداوند كى بارگاہ ميں وہى ميرے تقرب كا ذريعہ ہيں _ ميں اميد كرتا ہوں كہ كل قيامت كے دن انكى بركت سے ميرا نامہ اعمال ميرے دائيں ہاتھ ميں تھمايا جائے
اس حديث كو ''رفاعي'' نے اپنى كتاب ''كتاب التوصل الى حقيقة التوسّل'' ميں بيان كيا ہے(1)
اسى مصنف نے كہ جو توسّل كے بارے ميں بہت سخت عقيدہ ركھتا ہے_ اہلسنت كے مختلف منابع سے 26 احاديث توسّل كے بارے ميں نقل كى ہيں اگر چہ اس كى كوشش يہى رہى ہے كہ بعض احاديث كے بارے ميں خدشہ ظاہر كرے ليكن احاديث تواتر كى حد تك ياتواتر كے قريب ہيں اور اہلسنت كى مشہور كتب ميں نقل كى گئي ہيں_لہذا ان احاديث پر اتنى جلدى اعتراض نہيں كيا جاسكتا ہے _ اور ہم نے تو يہاں پر اس باب سے صرف چند احاديث كا تذكرہ كيا ہے ورنہ اس بارے ميں احاديث بہت زيادہ ہيں _
-----------------------
1)التوصل إلى حقيقة التوسّل ، ص 329_

233
چند قابل توجّہ نكات

1_ وہابيوں كے بہانے:
متعصّب وہابى اپنے ہدف كو ثابت كرنے كيلئے، يعنى ان مسلمانوں پر فسق اور كفر كى تہمت لگانے كے ليے كہ جو اولياء كے سا تھ توسّل كرتے ہيں، مندرجہ بالا آيات اور روايات كے مقابلے ميں كہ جو مختلف شكلوں ميں توسّل كوجائز قرارديتى ہيں بہانے بناتے ہيں اور يہ بہانہ جوئي ايسے ہى ہے جيسے بچے بہانے بناتے ہيں
كبھى يہ لوگ كہتے ہيں كہ ان صالحين اور بزرگان كى ذات سے توسّل كرنا حرام ہے، ان كے مقام كے ساتھ توسّل كرنا حرام نہيں ہے_ اسى طرح انكى دعا اور شفاعت ميں بھى كوئي حرج نہيں ہے صرف انكى ذات كے ساتھ توسّل كرنا حرام ہے_
كبھى كہتے ہيں كہ انكى زندگى ميں توسّل كرنا تو جائز ہے ليكن وفات كے بعد توسّل كرنا جائز نہيں ہے_ چونكہ جب وہ اس دنيا سے منتقل ہوجاتے ہيں توان كا ہمارے ساتھ رابطہ منقطع ہوجاتا ہے_ قرآن مجيد فرماتا ہے '' انّك لا تُسمع الموتى '' اے پيغمبر آپ(ص) مردوں تك اپنى آواز نہيں پہنچا سكتے ہيں '' (1) يعنى آپ(ص) كا رابطہ انكے ساتھ منقطع ہوچكا ہے_
ليكن اس قسم كى بہانہ تراشياں واقعاً شرمناك ہيں كيونكہ :
اوّلاً: قرآن مجيد نے ايك عامّ حكم بيان كيا ہے ہم اس آيت كے عموم يا اطلاق كے ساتھ تمسك كرتے ہوئے توسّل كى ان تمام اقسام كو جائز سمجھتے ہيں جو '' توحيد عبادي'' اور توحيد افعالي'' كے ساتھ منافى نہ ہوں_
-------------------------
1) سورة نمل آية 80_

234
قرآن مجيد ميں ہے '' وابتغوا اليہ الوسيلہ'' جيسا كہ بيان كيا ہے وسيلہ اس چيز كو كہتے ہيں جو خدا كے تقرّب كا ذريعہ بنے_ پس جو شے بھى آپ كو خدا كے قريب كرنے كا وسيلہ بن سكتى ہے آپ اسے انتخاب كرسكتے ہيں_ چاہے وہ پيغمبر(ص) كى دعا ہو يا شفاعت، مقام پيغمبر(ص) ہو يا ذات پيغمبر(ص) كہ وہ اللہ تعالى كى بندگي، اطاعت، عبوديت اور ديگر صفات حسنہ كى وجہ سے اس كى بارگاہ ميں محبوب و مقرّب ہے_
اللہ تعالى نے اس آيت ميں فرمايا ہے كہ ان امور كے ذريعے بارگاہ خدا ميں تقرّب حاصل كرو_ پس وسيلہ كو صرف انسان كے اپنے نيك اعمال ميں منحصر كرنے پر كوئي دليل نہيں ہے جس كا وہابى دعوى كرتے ہيں_
وسيلہ كى جو اقسام ہم نے بيان كى ہيں نہ تو يہ توحيد در عبادت ميں رخنہ پيدا كرتى ہيں كيونكہ ہم صرف خدا كى عبادت كرتے ہيں نہ پيغمبر اكرم(ص) كى اور نہ ہى توحيد افعالى ميں خدشہ ايجاد كرتى ہيں، كيونكہ صرف اللہ تعالى نفع و نقصان كا مالك ہے، اس كے علاوہ جس كسى كے پاس جو كچھ بھى ہے وہ اللہ تعالى كى طرف سے عطا كردہ ہے اور اسى كے واسطہ سے ہے _
آيات ميں اس قسم كے عموم كے بعد اب كس چيز كا انتظار ہے؟
يہ بہانہ تراشى تو ايسے ہے جيسے قرآن مجيد فرماتا ہے'' فاقرء وا ما تيسَّر من القرآن'' جتنا قرآن مجيد كى تلاوت كرسكتے ہو كرو '' (1) اب ا گر كوئي بہانہ بنائے اور شك كرے كہ كھڑے ہوكر قرآن مجيد كى تلاوت كرنا جائز ہے يا نہيں؟ ليٹ كر تلاوت كرنا كيسے ہے؟ آيت كا عموم كہہ رہا ہے تلاوت قرآن كى تمام اقسام جائز ہيں_ تلاوت سفر ميں ہو يا حضر ميں_ وضو كے ساتھ ہو يا بغير وضو كے اس وقت تك جائز ہے جب تك كوئي دليل اس عموم كے خلاف قائم نہ ہوجائے _

235
قرآن مجيد كے عمومات اور اطلاقات اس وقت تك قابل عمل ہيں، جب تك كوئي مانع اور ركاوٹ در پيش نہ آئے_ توسّل والى آيات بھى عام ہيں اور آيات قرآن كے عموم پر عمل كياجاسكتا ہے جب تك كوئي مانع نہ ہو_ پس ہم بھى ان عمومات پر عمل كريں گے اور يہ بہانے تراشياں قبول نہيں كريںگے_
ثانياً: توسّل كے مسئلہ ميں بيان ہونے والى روايات كہ جن ميں سے بعض كو ہم نے اوپرپيش كيا ہے اس قدر متنوّع ہيں كہ توسّل كى تمام اقسام كى اجازت ديتى ہيں_ خود پيغمبر اكرم(ص) كى ذات كے ساتھ توسّل جيسے نابينا والے واقعہ ميں بيان ہوا_ پيغمبر اكرم(ص) كى قبر مبارك كے ساتھ توسّل جيسا كہ بعض واقعات ميں بيان ہوا_ اسى طرح پيغمبر كى دعا سے توسّل، انكى شفاعت سے توسّل جيسا كہ ديگر واقعات ميںبھى بيان كياگيا ہے _ ان متنوّع اور مختلف روايات كى روشنى ميں بہانہ تراشيوں كى كوئي گنجائشے باقى نہيں رہتى ہے_
ثالثاً: پيغمبر اكرم(ص) كى ذات سے توسل سے كيا مراد ہے؟ ہمارى نظر ميں كيوںپيغمبر اكرم(ص) كى ذات كااحترام ہے اور ہم انہيں اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شفيع بناتے ہيں؟ يہ اس ليے كہ پيغمبر اكرم(ص) اطاعت اور عبوديّت كى اعلى ترين منزل پر فائز تھے_ پس حقيقت ميںپيغمبر(ص) كى ذات كے سا تھ توسّل انكى اطاعات، عبادات اور افعال حسنہ كے ساتھ توسّل ہے او ريہ وہى چيز ہے جسے متعصب وہابى بھى جائزقرار ديتے ہيں_ كيونكہ وہ بھى قائل ہيں كہ طاعات كے ساتھ توسل كرنے ميں كوئي حرج نہيں ہے_
پس صرف الفاظ كا جھگڑا ہے _
تعجّب كى بات تو يہ ہے كہ بعض وہابى پيغمبر اكرم(ص) كى برزخى زندگى كا انكار كرتے ہيں اور انكى وفات كو (معاذ اللہ )كفار كى وفات جيسا سمجھتے ہيں _ حالانكہ قرآن مجيد شہداء كے ليے حيات

236
جاويد كا تذكرہ كرتا ہے '' بل احيائٌ عند ربّہم يرزقون'' (1)
كيا پيغمبر اكرم(ص) كا مقام شہداء كے مقام سے كم ہے، جبكہ آپ سب لوگ اپنى نمازوں ميں ان پر درودبھيجتے ہيں_ اگر رسولخدا(ص) وفات كے بعد توسل كرنے والوں كے توسّل كو نہيں سنتے توپھر آپ كا سلام بھيجنا بے فائدہ ہے ( خدا سے پناہ مانگتے ہيں اس اندھے تعصب سے كہ جو انسان كو كہاں سے كہاںتك پہنچاديتا ہے) _
البتہ ان ميں سے بعض علماء آنحضرت كى حيات برزخى كے قائل ہيں انہيں اپنے اس نظريہ كے مطابق اپنا اعتراض واپس لے لينا چاہيے_

2_ ''افراطى اور غالى افراد''
ہم افراط اور تفريط كرنے وا لے دونوں گروہوں كے درميان ميں ہيں ايك طرف وہ لوگ ہيں جو توسّل كے مسئلہ ميں مقصّر ہيں اور اعتراض تراشى كرتے ہيں اور جس توسّل كى قرآن و حديث نے اجازت دى ہے وہ اسے جائز نہيں سمجھتے ہيں_ اور گمان كرتے ہيں كہ ان كا يہ نظريہ انكى توحيدكے كمال كا باعث ہے حالانكہ وہ سراسر غلطى پر ہيں_ كيونكہ اوليائے الہى كے ساتھ انكى اطاعت ، عبادت، اعمال اور بارگاہ الہى ميں انكے تقرّب كيوجہ سے توسّل كرنا، مسئلہ توحيد پر تاكيد ہے اور ہر شے كا خدا سے طلب كرنا ہے_
دوسرى طرف ايك افراطى گروہ ہے جو توسّل كى آڑ ميں غلّو كا راستہ اختيار كرتے ہيں_ ان غاليوں كا خطرہ اور نقصان اس پہلے گروہ سے كم نہيں ہے كيونكہ يہ لوگ بعض اوقات ايسے جملے استعمال كرتے ہيں جو توحيد افعالى كے ساتھ سازگار نہيں ہيں_ يا بعض اوقات ايسى باتيں
---------------------------
1)سورة آل عمران آيت 169_

237
كرتے ہيں جو عبادت ميں توحيد كے ساتھ منافى ہيں_ چونكہ ''لامؤثر فى الوجود الّا اللّہ'' اس عالم وجود ميں مؤثّر واقعى صرف اللہ تعالى كى ذات ہے اور جو كچھ بھى موجود ہے اس كى بدولت ہے_
لہذا جس طرح ہميں صحيح توسّل كے منكر افراد كے ساتھ مقابلہ كرنا چاہيے يا انہيں ارشاد كرنا چاہيے اور غلطيوں سے روكنا چاہيے، اسى طرح افراطى گروہ اور غاليوں كو بھى ارشاد كرنا چاہيے اور انہيں راہ راست كى طرف لوٹانا چاہيے_
در واقع يہ كہا جاسكتا ہے كہ توسّل كے منكرين كى پيدائشے كا ايك سبب توسّل كے قائل افراد ميں سے بعض كا افراط اور غلّو ہے جب انہوں نے افراط سے كام لينا شروع كيا تو فطرتى سى بات تھى كہ تفريطى ٹولہ انكے مقابلے ميں ايجاد ہوجائيگا_ يہ ايك ايسا قانون ہے جو تمام اعتقادي، اجتماعى اور سياسى مسائل ميں پايا جاتا ہے اور انحرافى گروہ ہميشہ ايك دوسرے كے لازم و ملزوم ہوتے ہيں اور دونوں گروہ غلط راستے پر ہٹ دھرمى كے ساتھ گامزن رہتے ہيں_

3: تنہا توسّل كافى نہيں ہے _
لوگوں كو اس بات كى تلقين كرنى چاہيے كہ صرف اوليائے الہى اور صالحين كے ساتھ توسّل پر اكتفانہ كريں_ كيونكہ توسّل تو ہمارے ليئے ايك درس ہے_ وہ اسطرح كہ ذہن ميں سوال اٹھتا ہے، كہ ہم ان اولياء كے ساتھ كيوں توسّل كرتے ہيں ؟ جواب يہ ہے كہ اس ليے توسّل كرتے ہيں كيونكہ يہ لوگ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں آبرومند ہيں، كيوں آبرومند ہيں؟اپنے نيك اعمال كى وجہ سے آبرومند ہيں پس ہميں بھى نيك اعمال كى طرف جانا چاہيے_ يہاں سے پتہ چلتا ہے كہ توسّل ہميں درس ديتا ہے كہ اللہ تعالى كا قرب نيك اعمال كے ذريعے
238
حاصل كيا جاسكتا ہے_
اور اوليائے الہى كے ساتھ توسّل بھى انكے نيك اعمال كيوجہ سے ہى كيا جاتا ہے_ وہ اپنے اعمال صالح كيوجہ سے خدا كا قرب حاصل كرچكے ہيں اور ہم توسّل ميں ان سے تقاضا كرتے ہيں كہ اللہ تعالى كے ہاں ہمارى بھى شفاعت كريں ، لہذا ہميں بھى كوشش كرنى چاہيے كہ جس راستے كو انہوں نے طے كيا ہے ہم بھى اس راستے پر عمل پيرا ہوں_ توسّل كو ايك انسان ساز اور تربيت كرنے والے مكتب ميں تبديل ہونا چاہيے_ كہيں ايسا نہ ہو كہ ہم توسّل پر ہى رك جائيں اور اس كے بلند مقاصد كو فراموش كرديں_ يہ ايك اہم بات تھى جس كى طرف ہم سب كو متوجہ رہنا چاہيے_

4: امور تكوينى ميں توسّل:
ايك اور نكتہ جس كى طرف توجہ ضرورى ہے، يہ ہے كہ عالم اسباب كے ساتھ توسّل جسطرح امور تشريعى ميں موجود ہے اسى طرح امور تكوينى ميں بھى موجود ہے اور ان ميں سے كوئي سا توسل بھى توحيد كى راہ ميں مانع نہيں ہے_ ہم جس وقت اپنے مطلوبہ نتائج تك پہنچنا چاہتے ہيں تو اپنى عادى زندگى ميں اسباب كے پيچھے جاتے ہيں، زمين ميں ہل چلاتے ہيں، بيج بوتے ہيں آبيارى كرتے ہيں_ فصل كى حفاظت كرتے ہيں، اور پھر موقع پر فصل كاٹتے ہيں اور اس سے اپنى زندگى ميں استفادہ كرتے ہيں كيا يہ اسباب كے ساتھ توسّل كرنا ہميں اللہ تعالى سے غافل كرديتا ہے؟ كيا اس بات كا عقيدہ ركھنا كہ زمين سبزہ اگاتى ہے_ اور سورج كانور اور بارش كے حيات بحش قطرے بيج، گل و گياہ اور پھلوں كى پرورش ميں مددگار ثابت ہوتے ہيں_ يا كلّى طور پر عالم اسباب كے وسيلہ ہونے كے بارے ميں عقيدہ ركھنا كيا توحيد افعالى كے منافى

239
ہے؟ يقينا منافى نہيںہے_ كيونكہ ہم عالم اسباب ميں صرف اسباب مہيّا كرتے ہيں اور مسبب الاسباب اللہ تعالى كى ذات كو جانتے ہيں _
پس جس طرح طبيعى اسباب كے ساتھ توسّل كرنا توحيد كے ساتھ منافى نہيں ہے اسى طرح عالم تشريع ميں انبيائ، اولياء اور معصومين (ع) كے ساتھ توسّل كرنا اور ان سے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شفاعت كا تقاضا كرنا بھى توحيد كے ساتھ منافى نہيں ہے_
البتہ اس عالم تكوين كے بارے ميں بھى ايك افراطى گروہ موجود ہے جو اصلاً عالم اسباب كا انكار كرتے ہيں_ وہ گمان كرتے ہيں كہ عالم اسباب پر عقيدہ ركھنا توحيد افعالى كے ساتھ منافى ہے_ اسى ليے وہ قائل ہيں كہ آگ نہيں جلاتى ہے بلكہ جس وقت آگ كسى شے كے نزديك ہوتى ہے تو اللہ تعالى اس شے كو جلاتا ہے، اسى طرح پانى آگ كو نہيں بجھاتا ہے بلكہ جس وقت آگ پر پانى ڈالا جاتا ہے تو اللہ تعالى اس آگ كو بجھاديتا ہے_ يہ لوگ اس انداز ميں علّت اور معلول كے درميان پائے جانے والے تمام واضح اور بديہى روابط كا انكار كرتے ہيں_
حالانكہ قرآن مجيد واضح انداز ميں عالم اسباب كو قبول كرتا ہے اور فرماتا ہے كہ ہم بادلوں كو بھيجتے ہيں اور يہ بادل تشنہ زمينوں كو سيراب كرتے ہيں اور انكے ذريعے مردہ زمينيں زندہ ہوجاتى ہيں '' فيُحيى بہ الارض بعد موتہا'' (1)
''يُحيى بہ '' يعنى يہ بارش كے قطرے زمين كو حيات بخشتے ہيں_ اس كے علاوہ بہت سى آيات عالم اسباب كے وسيلہ ہونے كو واضح طور پر بيان كرتى ہيں ليكن بہرحال يہ اسباب ذاتى طور پر كوئي قدرت نہيں ركھتے ہيں بلكہ جو كچھ بھى ان كے پاس ہے اللہ تعالى كى طرف سے عطا كردہ ہے_ يہ آثار اللہ تعالى نے انہيں عطا فرمائے ہيں_ جس طرح اسباب طبيعى كے منكر،
-----------------------
1) سورة روم آية 24_

240
غافل خطاكار ہيں اسى طرح عالم تشريع ميں بھى اسباب كا انكار كرنے والے غلطى پر ہيں_
ہم اميد كرتے ہيں كہ گذشتہ سطور كى روشنى ميں يہ لوگ تعصّب سے ہاتھ كھينچ ليں اور صحيح راستہ كا انتخاب كرليں اور اسطرح بے جا تكفير اور تفسيق كا خاتمہ ہوجائے اورپورى دنيا كے مسلمان آپس ميں اتحادّ كا مظاہرہ كرتے ہوئے ان دشمنوں كے مقابلے ميں سيسہ پلائي ہوئي ديوار كى طرح ڈٹ جائيں جنہوں نے قرآن، اسلام اور خدا كو اپنے حملوں كا نشانہ بنايا ہوا ہے_ اور اسطرح اسلامى تعليمات كو ہر قسم كے شرك ، غلو و زيادتى اور كوتاہى و نقصان سے پاك كر كے پورى دنيا كے سامنے پيش كريں _

والسلام
شعبان 1426 ھ ق
ناصر مكارم شيرازي