195
9
بسم الله
سورة الحمد كا جزء ہے
197
ايك تعجب آور نكتہ :
جب شيعيان اہلبيت (ع) خانہ خدا كى زيارت سے مشرف ہوتے ہيں تو اس وحدت كو محفوظ ركھنے كے ليے جس كا حكم ائمہ اہلبيت(ع) نے ديا ہے وہ اہلسنت برادران كى نماز جماعت ميں شركت كرتے ہوئے مسجدالحرام اور مسجد النبّي(ص) ميں با جماعت نماز كا ثواب حاصل كرتے ہيں_ تو اس وقت سب سے پہلى چيز جو انكى توجہ كو اپنى طرف جلب كرتى ہے يہ ہے كہ وہ مشاہدہ كرتے ہيں كہ امام جماعت سورة الحمد كى ابتداء ميں يا تو بالكل بسم اللہ پڑھتے نہيں ہيں يا اگر پڑھتے ہيں تو آہستہ اور مخفى انداز ميں پڑھتے ہيں حتى كہ مغرب و عشاء كى نماز ميں جنہيں با آواز بلندپڑھا جاتا ہے _
حالانكہ دوسرى طرف وہ اس بات كا بھى مشاہدہ كرتے ہيں كہ موجودہ قرآن مجيد كے تمام نسخوں ميں كہ جو اكثر مكہ مكرّمہ سےشائع ہوتے ہيں سورة حمد كى سات آيات ذكر كى گئي ہيں جن ميں سے ايك بسم اللہ ہے_ يہ بات سب كے ليے تعجب كا باعث بنتى ہے كہ قرآن مجيد كى سب سے اہم ترين آيت '' بسم اللہ'' كے ساتھ يہ سلوك كيوں كيا جارہا ہے؟ او رجس وقت لوگ ہم سے سوال كرتے ہيں اور ہم انكے سامنے اس بارے ميں اہلسنت كے مذاہب و روايات كے اختلاف كا تذكرہ كرتے ہيں تو ان كے تعجب ميں اور بھى اضافہ ہوتا ہے_
اس مقام پر ضرورى ہے كہ پہلے ہم اس مسئلہ ميں موجود فتاوى اور اس كے بعد بحث ميں وارد ہونے والى مختلف روايات كى طرف رجوع كريں_
198
اس مسئلہ ميں مجموعى طور پر اہلسنت كے فقہاء تين گروہوں پر مشتمل ہيں_
1_ بعض علما كہتے ہيں كہ سورہ حمد كى ابتداء ميں بسم اللہ پڑھنا چاہيے_
جہرى نمازوں ميں بلند آواز كے ساتھ پڑھنا چاہيے اور اخفاتى نمازوں ميں آہستہ پڑھنا چاہيے_ يہ امام شافعى اور انكى پيروى كرنے والے علما ہيں _
2_ بعض علما كہتے ہيں كہ بسم اللہ پڑھى چاہيے ليكن ہميشہ دل ميں يعنى آہستہ پڑھنى چاہيے_ يہ حنبلى علماء ( امام احمد ابن حنبل كے پيروكاروں) كا نظريہ ہے_
3_ ايك گروہ بسم اللہ پڑھنے كو اصلاً ممنوع سمجھتا ہے_ يہ امام مالك كے پيروكار ہيں_ امام ابوحنيفہ كے پيروكاروں كى نظر بھى مالكى مذہب والوں كے قريب ہے_
اہلسنت كے مشہور فقيہ ''ابن قدامہ'' اپنى كتابمغنى ميں يوں رقمطراز ہيں:
'' انّ قراء ة بسم اللہ الرحمن الرّحيم مشروعةً فى اوّل الفاتحة و اوّل كلّ سورة فى قول ا كثر ا ہل العلم و قال مالك و الا وزاعى لايقرؤہا فى اول الفاتحة ... و لا تختلف الرواية عن احمد ان الجہر بہا غير مسنون ... و يروى عن عطاء و طاووس و مجاہد و سعيد بن جبير الجہر بھا و ہو مذہب الشافعي ...، (1)
سورہ حمد اور ہردوسرى سورت كے آغاز ميں بسم اللہ الرحمن الرحيم كا پڑھنا اكثر
-------------------------
1) المغنى ابن قدامہ، جلد 1 ص 521_
199
اہلسنت كے نزديك جائز ہے ليكن مالك اور اوزاعى ( اہلسنت كے فقہائ) نے كہا ہے كہ سورة حمد كى ابتداء ميں بسم اللہ نہ پڑھى جائے ( اور بسم اللہ كے بالجہر پڑھنے كے بارے ميں) جتنى روايات بھى امام احمد بن حنبل سے نقل ہوئي ہيں سب كى سب كہتى ہيں كہ بسم اللہ كو بالجہر( بلند آواز كے ساتھ) پڑھنا سنت نہيں ہے ... اور عطا، طاووس، مجاہد اور سعيد بن جبير سے روايت نقل ہوئي ہے كہ بسم اللہ كو بالجہر پڑھنا چاہيے اور امام شافعى كا بھى يہى مذہب ہے''
اس عبارت ميں انكے تينوں اقوال نقل ہوئے ہيں :
تفسير ''المنير'' ميں وھبہ زحيلى نے يوں لكھا ہے_
''قال المالكيّة و الحنفيّہ ليست البسملة بآية من الفاتحة و لا غيرہا الّا من سورة النمل ...
الّا ا ن الحنفيّة قالوا يقرء المنفرد بسم الله الرحمن الرّحيم مع الفاتحة فى كلّ ركعة: سرّاً ...
و قال الشافعيّة و الحنابلة البسملة آية من الفاتحة يجب قرائتہا فى الصلوة الّا ا ن الحنابلة قالوا كالحنفيّة يقرؤ بہا سرّاً و لايجہر بَہا و قال الشافعيّة: يسّرّ فى الصلوة السرّية و يجہر بہا فى الصلاة الجہريّة(1)
-----------------------------
1)تفسير الميز، جلد 1، ص 46_
200
امام مالك اور ابوحنيفہ كے پيروكار كہتے ہيں كہ بسم اللہ سورہ حمد اور قرآن مجيد كى ديگر سورتوں كى جزء نہيں ہے صرف سورہ نمل ميں ذكر ہونے والى آيت جو بسم اللہ پر مشتمل ہے سورت كا جزء ہے ...
ليكن امام ابوحنيفہ كے پيروكار كہتے ہيں كہ جو شخص فرادى نماز پڑھ رہا ہے وہ ہر ركعت ميں صرف سورہ حمد كے ساتھ آہستہ آواز ميں بسم اللہ پڑھے ... ليكن امام شافعى اور امام احمد بن حنبل كے پيروكار كہتے ہيں:
كہ بسم اللہ سورہ فاتحہ كى ايك آيت ہے اور نماز ميں اس كا پڑھنا واجب ہے اس فرق كے ساتھ كہ حنبلى كہتے ہيں كہ بسم اللہ كو آہستہ پڑھا جائے، بالجہر پڑھنا جائز نہيں ہے ليكن شافعى مذہب والے كہتے ہيں كہ اخفاتى نمازوں ( ظہر و عصر كى نماز) ميں آہستہ پڑھا جائے اور بالجہر نمازوں ( مغرب، عشا اور صبح كى نماز) ميں بلند آواز سے پڑھا جائے ''
ان اقوال ميں شافعى مذہب والوں كا قول: شيعہ فقہا كے نظريہ سے نزديك ہے_ اس فرق كے ساتھ كہ ہمارے علماء تمام نمازوں ميں بسم اللہ كو بالجہر پڑھنا مستحب سمجھتے ہيں اور سورہ حمد ميں بسم اللہ پڑھنے كو متفقہ طور پر واجب سمجھتے ہيں اور ديگر سورتوں ميں مشہور و معروف قول بسم اللہ كا جزء سورہ ہونا ہے_
سچ تو يہ ہے كہ ايك غيرجانبدار محقق واقعاً حيرت ميں ڈوب جاتاہے_
چونكہ وہ ديكھتاہے كہ پيغمبر اكرم(ص) نے پورے 23 سال اپنى اكثر نمازوں كو جماعت كے ساتھ اور سب كے سامنے پڑھا_ اور سب اصحاب نے آنحضرت(ص) كى نمازوں كو اپنے كانوں
201
سے سنا ليكن تھوڑا سا عرصہ گزرنے كے بعد اتنا شديد اختلاف پيدا ہوگيا ہے كہ بعض كہتے ہيں كہ بسم اللہ كا پڑھنا اصلا ممنوع ہے جبكہ بعض دوسرے كہتے ہيں كہ اسكا پڑھنا واجب ہے، ايك گروہ كہتاہے كہ آہستہ پڑھا جائے جبكہ دوسرا گروہ كہتاہے كہ جہرى نمازوں ميں بلند آواز سے پڑھنا چاہيے_
كيا اس عجيب اور ناقابل يقين اختلاف سے اس بات كا اندازہ نہيں ہوتاہے كہ يہ مسئلہ عادى نہيں ہے بلكہ اس مسئلہ كى پشت پر ايك سياسى گروہ كا ہاتھ ہے جس نے متضاد احاديث كو جعل كيا اور انہيں رسالتمآب كى طرف نسبت دے دى ہے_
امام بخارى نے صحيح بخارى ميں ايك حديث نقل كى ہے جو اس راز سے پردہ اٹھاتى ہے وہ كہتے ہيں ; مطرف نے '' عمران بن حصين'' سے نقل كيا ہے كہ جب اس نے بصرہ ميں حضرت على (ع) كے پيچھے نماز پڑھي، تو كہا
'' ذكرنا ہذا الرجل صلاة كنّا نصليہا مع رسول الله ''
اس مرد نے اپنى نماز كے ذريعے ہميں رسولخدا(ص) كى اقتداء ميں پڑھى ہوئي نمازوں كى ياد دلا دى ہے_(1)
اس سے معلوم ہوتاہے كہ ہر چيز حتى نماز بھى تبديل ہوگئي تھى امام شافعى مشہور كتاب''الام'' ميں ''وہب بن كيسان'' سے نقل كرتے ہيں كہ '' كل سنن رسول الله (ص) قد غيرّت حتى الصلاة'' پيغمبر اكرم(ص) كى تمام سنتوں حتى نماز كو تبديل كرديا گيا(2)
----------------------------
1) صحيح بخارى ج 1 ص 190_
2) الامّ، جلد 1 ص 269_
202
بسم اللہ كو بلند آواز سے پڑھنے كے بارے ميں احاديث نبوي
اس مسئلہ كے بارے ميں اہلسنت كى معروف كتب ميں مكمل طور پر مختلف اقسام كى احاديث نقل ہوئي ہيں_ يہى احاديث انكے فتاوى ميں اختلاف كا سبب بنى ہے اور عجيب يہ ہے كہكبھى ايك ہى مشخص راوى نے متضاد روايات نقل كى ہيں_ جنكے نمونے آپ آئندہ احاديث ميں ملاحظہ فرمائيںگے_
پہلى قسم كى احاديث:
اس قسم ميں وہ روايات ہيں جو نہ صرف بسم اللہ كو سورہ حمد كا جزء شمار كرتى ہيں بلكہ بلند آواز ميں پڑھنے كو بھى مستحب (يا ضروري) قرار ديتى ہيں اس گروہ ميں ہم پانچ مشہور راويوں كى پانچ احاديث پر اكتفاء كرتے ہيں:
1_ يہ حديث امير المؤمنين على (ع) سے نقل ہوئي ہے _ انكا مقام و منزلت سب پر عياں ہيں كہ وہ جلوت و خلوت اور سفر وحضر ميں رسول خدا(ص) كے ساتھ رہے ہيں_دار قطنى نے اپنى كتاب سنن ميں آ پ (ع) سے اس حديث كو نقل كيا ہے كہ
'' كان النبى (ص) يجہر ببسم الله الرحمن الرحيم فى السورتين جميعاً'' (1)
پيغمبر اكرم(ص) دو سورتوں (حمد اور بعد والى سورت) ميں بسم اللہ الرحمن الرحيم كو بلند آواز سے پڑھتے تھے''
----------------------------
1) سنن دار قطني، جلد 1 ص302، اسى حديث كو سيوطى نے درّ المنثور ميں جلد 1 ص 22 پر نقل كيا ہے _
203
2_ يہ روايت انس بن مالك سے نقل ہوئي ہے كہ جو پيغمبر اكرم(ص) كے خصوصى خادم اور جوانى سے ہى آپ(ص) كى خدمت ميں پہنچ گئے تھے_ حاكم نے مستدرك ميں اس روايت كو نقل كيا ہے _ وہ كہتے ہيں :
'' صلّيت خلف النبى و خلف ابى بكر و خلف عمر و خلف عثمان و خلف على كلَّہم كانوا يجہرون بقرائة بسم الله الرحمن الرحيم'' (1)
3 _ حضرت عائشےہ عام طور پر شب و روز پيغمبر اكرم(ص) كے ہمراہ تھيں _دارقطنى كى روايت كے مطابق وہ فرماتى ہيں كہ :
''ان رسول الله (ص) كا ن يجہر ببسم الله الرحمن الرحيم'' (2)
رسول خدا(ص) بسم اللہ الرحمن الرحيم كو بلند آواز كے ساتھ پڑھتے تھے''
4_ اہلسنت كے معروف راوى جناب ابوہريرة كہ جن كى بہت سى روايات كو صحاح ستّہ ميں نقل كيا گيا ہے يوں كہتے ہيں '' كان رسول الله صلى الله عليہ و آلہ يجہر ببسم الله الرحمن الرّحيم فى الصلوة'' كہ رسولخدا(ص) نماز ميں بسم اللہ الرحمن الرّحيم بلند آواز كے ساتھ پڑھا كرتے تھے_
----------------------------------
1) مستدرك الصحيحين، جلد 1 ،ص 232، ميں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبكر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت على كے پيچھے نمازيں پڑھيں سب كے سب بسم اللہ كو بلند آواز كے ساتھ پڑھتے تھے_مترجم
2) الدّر المنثور جلد 1 ص 23_
204
يہ حديث تين معروف كتب '' السنن الكبري'' (1) '' مستدرك حاكم'' (2) اور ''سنن دار قطني'' (3) ميں نقل ہوئي ہے_
5_ ايك اور حديث ميں آيا ہے كہ جبرائيل امين نے بھى پيغمبر اكرم(ص) كو نماز كى تعليم ديتے وقت بسم اللہ كو بلند آواز كے ساتھ پڑھا_ دار قطنى كى نقل كے مطابق نعمان بن بشير يوں كہتے ہيں ''اَمَّنى جبرئيل عند الكعبة فجہر ببسم الله الرحمن الر ّحيم'' جبرائيل امين نے خانہ كعبہ كے پاس ميرى امامت كى ( مجھے نماز پڑھائي) اور بسم اللہ كو بلند آواز سے پڑھا(4)
دلچسپ يہ ہے كہ بعض معروف علماء نے بسم اللہ بالجہر پڑھنے والى احاديث كو نقل كرنے كے ساتھ يہ تصريح كى ہے كہ ان احاديث كے راوى عام طور پر ثقہ ہيں جيسے حاكم نے مستدرك ميں اس بات كى تصريح كى ہے_
يہاں ہميں اس بات كا اضافہ كرنا چاہيے كہ مكتب اہلبيتكى فقہ و حديث كى كتب ميں بسم اللہ كو سورة حمد كى ايك آيت شمار كياگيا ہے اور اس بارے ميں احاديث تقريباً متواتر ہيں اور اسى طرح بہت سى احاديث ميں بسم اللہ كو بالجہر پڑھنے كے بارے ميں تصريح كى گئي ہے_
ان روايات كے بارے ميں مزيد آگاہى كے ليئے كتاب ''وسائل الشيعہ'' ميں ''نماز ميں قراء ت'' والے ابواب ميں سے باب نمبر 11 ،12،21 ،22 كى طرف رجوع كيا جائے_ وہاں دسيوں
---------------------------------
1) السنن الكبرى جلد 2 ، ص 47_
2) مستدرك الصحيحين، جلد 1، ص 208_
3) دار قطني،جلد 1 ،ص 306 _
4) سنن دار قطني، جلد 1، ص 309_
205
روايات آئمہ اہلبيت (ع) سے نقل كى گئي ہيں اور ديگر معتبر كتب جيسے كافي، عيون اخبار الرّضا(ع) ، اور مستدرك الوسائل ميں ( نماز ميں قرائت قرآن كے مربوطہ ابواب ميں ) بھى بہت سى روايات ذكر كى گئي ہيں_
حديث ثقلين كى روشنى ميں كہ جسے فريقين نے نقل كيا ہے اور اس ميںحكم ديا گيا ہے كہ ميرے بعد قرآن مجيد اور ميرے اہلبيت(ع) كا دامن تھام كر ركھنا تا كہ گمراہى سے بچے رہو_ كيا ہميں اس قسم كے اختلاف انگير مسئلہ ميں مذہب اہلبيت كى پيروى نہيں كرنا چاہيے (تا كہ گمراہى سے محفوظ رہيں )؟
دوسرى قسم كى احاديث:
يہ قسم ان احاديث پرمشتمل ہے جو بسم اللہ كو سورہ حمد كا جزء شمار نہيں كرتيں يا بسم اللہ كوبلند آواز كے ساتھ پڑھنے سے منع كرتى ہيں_
1_ يہ حديث صحيح مسلم ميں قتادہ سے نقل ہوئي ہے جس ميں انس كہتے ہيں كہ:
'' صلّيت مع رسول الله (ص) و ابى بكر و عمر و عثمان فلم اسمع احداً منہم يقرء بسم الله الرحمن الرّحيم'' (1)
ميں نے رسولخدا (ص) ، حضرت ابوبكر، حضرت عمر اور حضرت عثمان كے ساتھ نماز پڑھى ميں نے كسى سے نہيں سنا كہ انہوںنے نماز ميں بسم اللہ الرحمن الرّحيم پڑھى ہو''
---------------------------
1)صحيح مسلم، جلد 2، '' باب حجة من قال لا يجہر بالبسملة'' ص 12_
206
توجہ كرنى چاہيےكہ اس حديث ميں حضرت على (ع) كى قراء ت كے بارے ميں كوئي بات نہيں كى گئي ہے
واقعاً تعجب آور ہے كہ ايك معّين شخص جيسے انس ايك مرتبہ كہتے ہيں كہ ميں نے رسولخدا(ص) ، خلفائے ثلاثہ اور حضرت على (ع) كے پيچھے نماز پڑھي_ سب كے سب بسم اللہ كو بلند آواز كے ساتھ پڑھتے تھے_ دوسرى جگہ وہى كہتے ہيں كہ ميں نے رسولخدا(ص) اور خلفائے ثلاثہ كے پيچھے نماز پڑھى كسى نے بھى نماز ميں بسم اللہ نہيں پڑھى چہ جائيكہ بلند آواز سے پڑھنا_
كيا ہرصاحب فہم يہاں يہ سوچنے پر مجبور نہيں ہوتا كہ پہلى حديث كو بے اثر كرنے كے ليئے جاعلين حديث نے ( جيسا كہ عنقريب بيان كيا جائيگا) اس دوسرى حديث كوجعل كيا ہے اور اسے انس كى طرف نسبت دى ہے اور چونكہ حضرت على (ع) كا بسم اللہ كو بلند آواز سے پڑھنا مشہور ہے اور انكے پيروكار جہاں كہيں بھى ہيں يہى كام كرتے ہيں اس ليے ان كا نام نہيں ليا گيا ہے تاكہ ڈھول كاپول نہ كھل جائے؟
2_ سنن بيہقى ميں عبداللہ بن مغفل سے نقل ہوا ہے، وہ كہتے ہيں:
''سمعنى ا بى و ا نا ا قرا بسم الله الرحمن الرّحيم فقال; ا ى بنيّ محدث؟ صلَّيتُ خلف رسول الله صلى الله عليہ و آلہ و ا بى بكر و عمر و عثمان فلم ا سمع ا حداً منہم جہر بسم الله الرّحمن الرّحيم'' (1)
---------------------------------
1) السنن الكبري، جلد 2 ، ص 52_
207
ميرے والد نے مجھے نماز ميں بسم اللہ پڑھتے سنا توكہنے لگے: كيا بدعت ايجاد كرنا چاہتے ہو ؟ ميں نے رسولخدا(ص) حضرت ابوبكر، حضرت عمر اور حضرت عثمان كے پيچھے نماز پڑھى ان ميں سے كسى كو ميں نہيں ديكھا كہ بسم اللہ كوبلند آواز كے ساتھ پڑھتا ہو'' _
اس حديث ميں بھى حضرت على _ كى نماز كا تذكرہ نہيں ہوا ہے
3_ جناب طبرانى كى كتاب'' المعجم الوسيط'' ميں ابن عباس سے نقل ہوا ہے كہ :
'' كان رسول الله صلى الله عليہ و آلہ اذا قرء بسم الله الرّحمن الرّحيم ہزء منہ المشركون و قالوا محمد يذكرا لہ اليمامة_ وكان مسيلمة يسمى ''الرّحمن'' فلمّا نزلت ہذہ الآية امر رسول الله صلى الله عليہ و آلہ ان لا يجہر بہا؟
كہ رسولخدا(ص) جب نماز ميںبسم اللہ الرحمن الرحيم پڑھتے تھے تو مشركين تمسخر كرتے تھے_ كيونكہ يمامہ كى سرزمين پر خدائي كا دعوى كرنے والے مسيلمہ كا نام رحمن تھا_ اس ليئے مشركين كہتے تھے كہ محمد(ص) كى مراد وہى يمامہ كا خدا ہے_ اس وجہ سے پيغمبر اكرم(ص) نے حكم دے ديا تھا كہ اس آيت كو بلند آواز سے نہ پڑھا جائے ''
اس حديث ميں جعلى ہونے كے آثار بالكل نماياں ہيں كيونكہ :
اولّا: رحمن كاكلمہ قرآن مجيد ميں صرف بسم اللہ الرّحمن الرّحيم ميں نہيں آيا ہے بلكہ اور بھى 56 مقامات پر ذكر ہوا ہے_ صرف سورہ مريم ميں ہى اس كا سولہ16 مرتبہ تكرار ہوا ہے_ اگر
208
يہى وجہ ہے تو قرآن مجيد كى دوسرى سورتوں كو بھى نہيں پڑھنا چاہيے، كہيں مشركين مسلمانوں كامذاق نہ اڑائيں _
ثانياً : مشركين تو قرآن مجيد كى تمام آيات كا تمسخركرتے تھے جيسا كہ متعدد آيات ميں اس بات كا تذكرہ كياگياہے من جملہ سورہ نساء كى چاليس نمبر آيت '' اذا سمعتم آيات الله يكفر بہا و يُستہزا بہا فلا تقعدوا معہم''
مشركين نماز كے ليے دى جانے والى اذان كا بھى مذاق اڑاتے تھے جيسے سورہ مائدہ كى 58 نمبر آيت ميں تذكرہ ہوا ہے ''و اذا ناديتم الى الصلوة اتخذوہا ہُزُواً '' كيا پيغمبر اكرم(ص) نے اذان كے ترك كرنے كا بھى حكم ديا ہے_ يا اذان آہستہ كہنے كا حكم ديا ہے كہ كہيں مشركين مذاق نہ اڑائيں _
بنيادى طور پر مشركين خود پيغمبر اكرم(ص) كا استہزاء كرتے تھے جيسا كہ اس آيت ميں تذكرہ ہوا ہے ''و اذا آك الذين كفروا ان يتّخذونك الّا ہُزُواً'' (1)
اگر يہى دليل ہے تو خود پيغمبر اكرم(ص) كو لوگوں كى آنكھوں سے پوشيدہ ہوجانا چاہيے تھا_
ان سب ادلّہ سے قطع نظر اللہ تعالى نے اپنے حبيب كو بڑى صراحت كے ساتھ وعدہ ديا تھا كہ آپ(ص) كو استہزا كرنے والون كے شر سے محفوظ ركھے گا '' انّا كفيناك المستہزئين'' (2)
ثالثاً: مسيلمہ كوئي ايسى شخصيت نہيں تھا جس كو اسقدر اہميت دى جاتى كہ پيغمبر اكرم(ص) اس كا نام
---------------------------
1) سورة انبياء آيت 36_
2) سورة حجرات آيت 95_
209
رحمن ہونے كى وجہ سے قرآن مجيد كى آيات كو مخفى كرتے يا آہستہ پڑھتے_ خاص طور پر اس بات كيطرف بھى توجہ رہے كہ مسيلمہ كے دعوے ہجرت كے دسويں سال منظر عام پر آئے تھے اوراس وقت اسلام مكمل طور پر قوت اور قدرت پيدا كرچكا تھا_
ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے كہ حديث گھڑنے والے اپنے كام ميں مہارت نہيں ركھتے تھے اور نا آگاہ تھے_
4: ابن ابى شيبہ نے اپنى كتاب '' مصنف'' ميں ابن عباس سے نقل كيا ہے '' الجہر ببسم الله الرحمن الرّحيم قرائة الا عراب'' بسم اللہ كو بلند آواز كے ساتھ پڑھنا عرب كے بدّووں كى عادت تھي'' (1)
حالانكہ ايك اور حديث ميں على ابن زيد بن جدعان نے بيان كيا ہے كہ ''عبادلہ'' ( يعنى عبداللہ ابن عباس، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبير) تينوں بسم اللہ كوبلند آواز كے ساتھ پڑھتے تھے''(2)
اس سے بڑھ كر حضرت على _ بسم اللہ كو ہميشہ بالجہر پڑھتے تھے_ يہ بات تمام شيعہ و سنى كتب ميں مشہور ہے كيا على _ بيابانى اعراب ميں سے تھے؟ كيا ان متضاد احاديث كا وجود انكے سياسى ہونے كى دليل نہيں ہے؟
ہاں حقيقت يہ ہے كہ حضرت على _ ہميشہ بسم اللہ كو بالجہر پڑھتے تھے_ جب اميرالمؤمنين كى شہادت اور امام حسن _ كى مختصر سى خلافت كے بعد معاويہ كے ہاتھ ميںحكومت
-----------------------------------
1) مصنف ابن ابى شيبة ، جلد 2 ص 89_
2) الدر المنثور ،جلد 1 ص 21_
210
كى باگ ڈور آگئي، تو اس كى پورى كوشش يہ تھى كہ تمام آثار علوى كو عالم اسلام كے صفحہ سے مٹا دے كيونكہ وہ جانتا تھا كہ مسلمانوں ميں آپ(ع) كے فكرى اور معنوى افكار كا نفوذ اس كى سلطنت كے ليے خطرہ ہے_
اس بات كا منہ بولتا ثبوت اس حديث ميں ملتا ہے جسے حاكم نے مستدرك ميںنقل كيا اور معتبر قرار ديا ہے (پيغمبر اكرم(ص) كے خصوصى خادم ) جناب انس بن مالك فرماتے ہيں كہ معاوية مدينہ ميں آيا اس نے جہرى نماز ( مغرب، عشاء ويا صبح كى نماز) ميں سورة الحمد سے پہلے بسم اللہ كو پڑھا ليكن بعد والى سورت ميں نہيں پڑھا_ جب نماز ختم كى تو ہر طرف سے مہاجرين و انصار كى ( كہ جو شايد جان بچانے كى خاطر نماز ميں شريك ہوئے تھے) صدائيں بلند ہوگئيں '' اسرقت الصلوة ام نسيت؟ '' كہ تو نے نماز ميں سے چورى كى ہے يا بھول گياہے ؟ معاويہ نے بعد والى نماز ميں سورہ حمد سے پہلے اور بعد والى سورت سے پہلے بھى بسم اللہ پڑھي''(1)
معاويہ گويا اس بات كے ذريعے مہاجرين و انصار كو آزمانا چاہتا تھا كہ يہ لوگ بسم اللہ اور اس كے بالجہر پڑھنے كے سلسلہ ميں كتنى توجہ و سنجيدگى ركھتے ہيں_ ليكن اس نے اپنا كام شام اور ديگر علاقوں ميں جارى ركھا_
ما بين الدّفتين قرآن ہے:
يقينا جو كچھ قرآن كى دو جلد كے درميان ہے وہ قرآن مجيد كا جزء ہے_ يہ جو بعض لوگ كہتے ہيں كہ بسم اللہ قرآن مجيد كا جز نہيں ہے صرف سورتوں كو ايك دوسرے سے جدا كرنے
---------------------------------
1) مستدرك الصحيحين، جلد 1 ص 233_
211
كے ليے ہے_ اوّلاً يہ بات سورہ حمد كے بارے ميں صحيح نہيں ہے كيونكہ جيسا كہ قرآن مجيد كے تمام نسخوں ميں آيات كے نمبر لگائے گئے ہيں_ بسم اللہ كو سورہ حمد كى آيت شمار كيا گيا ہے_
ثانياً: يہ سورتوں كو ايك دوسرے سے جدا كرنے والا كام كيوں سورہ براء ة ميں نہيں كيا گياہے_ اور اگر جواب ميں كہا جائے كہ چونكہ اس سورت كا سابقہ سورہ ( سورة انفال) كے ساتھ رابطہ ہے تو يہ بات كسى صورت ميں بھى قابل قبول نہيں ہے كيونكہ اتفاقاً سورہ انفال كى آخرى آيات اور سورہ براء ة كى ابتدائي آيات كے درميان كوئي مفہومى رابطہ نہيں ہے_ حالانكہ قرآن مجيد ميں اور كئي سورتيں ہيں جو ايك دوسرے كے ساتھ ارتباط ركھتى ہيں ليكن بسم اللہ نے انہيں ايك دوسرے سے جدا كرديا ہے_
حق يہ ہے كہ كہا جائے بسم اللہ ہر سورہ كا جزء ہے_ جيسا كہ قرآن مجيد كا ظاہر بھى اس بات كى خبر ديتا ہے _ اور اگر سورہ توبہ ميں بسم اللہ كو ذكر نہيں كياگيا ہے تو اس كى وجہ يہ ہے اس سورت كا آغاز پيمان شكن دشمنوں كے ساتھ اعلان جنگ كے ذريعے ہوتا ہے اور اعلان جنگ ، رحمن اور رحيم كے نام كے ساتھ سازگارى نہيں ركھتا ہے كيونكہ يہ نام رحمت عامّہ اور رحمت خاصہ الہى كى حكايت كرتا ہے _
بحث كا خلاصہ :
1_ پيغمبر اكرم(ص) سورہ حمد اورديگر تمام سورتوں كى ابتدا ميں بسم اللہ پڑھتے تھے( ان كثير روايات كے مطابق جو آپ(ص) كے نزديك ترين افراد سے نقل ہوئي ہيں ) اور متعدد روايات كے مطابق آپ(ص) بسم اللہ كو بالجہر پڑھا كرتے تھے_
2_ سابقہ روايات كے مقابلے ميں جو روايات كہتى ہيں كہ بسم اللہ اصلاً قرآن مجيد كا جزء
212
نہيں ہے يا آنحضرت(ص) ہميشہ اسے بالاخفات پڑھتے تھے_ مشكوك ہيں بلكہ خود ان روايات ميں ايسے قرائن موجود ہيں جن سے اندازہ ہوتا ہے كہ يہ روايات جعلى اور ان كے پيچھے بنو اميّہ كى پر اسرار سياستيں ہيں _ كيونكہ يہ بات مشہور تھى كہ حضرت على _ بسم اللہ كو بالجہر پڑھتے ہيں اور يہ تو معلوم ہے كہ جو كچھ بھى حضرت على (ع) كى خصوصيت يا علامت شمار ہوتى تھى ( اگر چہ وہ پيغمبر اكرم(ص) سے حاصل كى ہوئي ہوتى تھي) بنو اميّہ اس كى شدت كے ساتھ مخالفت كرتے تھے يہ موضوع اس شديد اعتراض كے ذريعے آشكار ہو جاتا ہے كہ جو اصحاب نے معاويہ پر كيا _ اور اس كے علاوہ بھى قرائن و شواہد موجود ہيں جنہيں ہم نے سطور بالا ميں ذكر كيا ہے _
3_ ائمہ ا ہلبيتكا اميرالمؤمنين(ع) ( كہ انہوں نے سالہا سال پيغمبر اكرم(ص) سے بسم اللہ كو بالجہر ادا كرنے كا درس ليا تھا) كى پيروى كرتے ہوئے اس بات پر اتفاق ہے_ يہاںتك كہ امام جعفر صادق _ فرماتے ہيں :
''اجتمع آلُ محمّد صلى الله عليہ و آلہ على الجہر ببسم اللہ الرّحمن الرّحيم ''(1)
كہ آل محمّد (ص) كا بسم اللہ كے بلند پڑھنے پر اتفاق ہے ''
حداقل اس قسم كے مسائل ميں حديث ثقلين پر عمل كرتے ہوئے روايات اہلبيت (ع) كيطرف توجّہ كرنى چاہيے اور تمام اہلسنت فقہاء كو چاہيے كہ امام شافعى كى طرح حداقل جہرى نمازوں ميں بسم اللہ كو بالجہر پڑھنا واجب قرار ديں_
4_ حسن اختتام كے عنوان سے اس بحث كے آخر پر دو باتيں جناب فخررازى صاحب''تفسير الكبير'' سے نقل كرتے ہيں :
---------------------------------
1) مستدرك الوسائل ، جلد 4 ص 189_
213
وہ كہتے ہيں كہ:
''انّ عليّا _ كا ن يبالغ فى الجہر بالتسمية فلما وصلت الدولة الى بنى اميّہ بالغوا فى المنع من الجہر سعياً فى ابطال آثار علّى _ '' (1)
حضرت على _ بسم اللہ كے بالجہر پڑھنے پر اصرار كرتے تھے، جب حكومت، بنواميہ كے ہاتھ آئي تو انہوں نے بسم اللہ كے بلند پڑھنے سے منع كرنے پر اصرار كيا تا كہ حضرت على _ كے آثار كو مٹايا جاسكے''
اہلسنت كے اس عظيم دانشمند كى گواہى كے ذريعے بسم اللہ كے آہستہ پڑھنے يا اس كے حذف كرنے والے مسئلہ كا سياسى ہونا اور زيادہ آشكار ہوجاتا ہے _اسى كتاب ميں ايك اور مقام پر جناب فخررازي، مشہور محدث بيہقى سے اس بات كونقل كرنے كے بعد كہ حضرت عمر ابن خطاب، جناب ابن عباس، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبير سب كے سب بسم اللہ كو بلند آواز سے پڑھتے تھے اس بات كا اضافہ كرتے ہيں:
'' اَمّا ا نَّ على ابن ابى طالب كان يجہر بالتسمية فقد ثبت بالتواتر و من اقتدى فى دينہ بعلّى ابن ابى طالب فقد اہتدي، و الدليل عليہ قول رسول الله اللّہم ا در الحق مع على حيث دار، (2)
---------------------------------
1) تفسير كبير فخررازى ، جلد 1، ص 206_
2) ايضاً ص 204 و 205_
214
بہر حال حضرت على (ع) بسم اللہ كو بالجہر پڑھتے تھے يہ بات تواتر كے ذريعہ ثابت ہے اور جو بھى دين ميں حضرت على (ع) كى پيروى كريگا يقينا ہدايت پاجائيگا_ اس بات كى دليل رسولخدا(ص) كى يہ حديث ہے كہ بارالہا حق كو ہميشہ على (ع) كے ساتھ ركھ اور حق كو اسى طرف پھير دے جس طرف على (ع) رخ كرے''
|