شيعہ جواب ديتے ہيں
143
7
جمع بين صلاتين

145
بيان مسئلہ:
نماز، خالق اور مخلوق كے درميان ايك اہم ترين رابطہ اور تربيّت كے ايك اعلى ترين لائحہ عمل كا نام ہے_ نماز خودسازى اور تزكيہ نفوس كا ايك بہترين وسيلہ اور فحشاء و منكر سے روكنے والے عمل كا نام ہے_ نماز قرب الہى كا بہترين ذريعہ ہے_
اور با جماعت نماز مسلمانوں كى قوّت و قدرت اور انكى صفوف ميں وحدت كا مظہر اور اسلامى معاشرے كے ليے با افتخار زندگى كا باعث ہے_
نماز اصولى طور پر دن رات ميں پانچ مرتبہ انجام دى جاتى ہے جس سے انسان كے دل و جان ہميشہ فيض الہى كے چشمہ زلال سے دُھلتے رہتے ہيں_
نماز كو رسول خدا(ص) نے اپنى آنكھوں كا نور قرار ديا اور اس كے ليے '' قرةُ عينى فى الصلاة '' (1) ارشاد فرمايا اور اسے مؤمن كى معراج شمار كرتے ہوئے_ ''الصلوة معراج المؤمن'' (2) كى صدا بلند كى اور اسے متّقين كے ليئے قرب الہى كے وسيلہ كے عنوان سے
-------------------------
1) مكارم الاخلاق ، ص 461_
2) اگرچہ يہ جملہ كتب احاديث ميں نہيں ملا ليكن اسقدر مشہور ہے كہ علامہ مجلسى نے اپنے بيانات كے دوران اس جملہ سے استشہاد فرمايا ہے ( بحار الانوار ، جلد 79 ص 248، 303)_

146
متعارف كرايا ''الصلاة قربان كلى تقّي'' (1)
اس مقام پر موضوع سخن يہ ہے كہ كيا پانچ نمازوں كا پانچ اوقات ميں عليحدہ عليحدہ انجام دينا ايك واجبى حكم ہے؟ اور اس كے بغير نماز باطل ہوجاتى ہے ( جسطرح وقت سے پہلے نماز پڑھ لينا ،اس كے باطل ہونے كا سبب بنتا ہے ) يا اسے تين وقتوں ميں انجام ديا جاسكتا ہے؟
( يعنى ظہر و عصر كى نماز اور مغرب و عشاء كى نماز كو جمع كر كے ادا كيا جائے) علمائے شيعہ _ مكتب اہلبيت(ع) كى پيروى كرتے ہوئے _ عموماً اس بات پر اتفاق نظر ركھتے ہيں كہ پانچ نمازوں كو تين وقتوں ميں انجام دينا جائز ہے اگرچہ افضل و بہتر يہ ہے كہ نماز پنچگانہ كو پانچ وقتوں ميں انجام ديا جائے_
ليكن علمائے اہلسنت كى اكثريت _ سوائے چند ايك كے _ اس بات كى قائل ہے كہ نماز پنچگانہ كو عليحدہ عليحدہ پانچ اوقات ميں انجام دينا واجب ہے ( صرف عرفہ كے دن ميدان عرفات ميں ظہر و عصر كى نماز وں كو اكٹھا پڑھا جاسكتا ہے اور عيد قربان كى رات مشعر الحرام ميں مغرب و عشاء والى نماز كواكٹھا بجالايا جاسكتا ہے البتہ بہت سے علماء نے سفر اور بارش كے اوقات ميں كہ جب نماز جماعت كے ليے مسجد ميں رفت وآمد مشكل ہو دو نمازوں كو اكٹھا پڑھنے كى اجازت دى ہے)_
شيعہ فقہاء كى نظر ميں _ جيسا كہ بيان ہوا _ نماز پنچگانہ كے جدا جدا پڑھنے كى فضيلت پر
تاكيد كے ساتھ _ نمازوں كو تين اوقات ميں بجالانے كى اجازت اور ترخيص كو ايك عطيہ الہى شمار كيا جاتا ہے جسے امر نماز ميں سہولت اور لوگوں كے ليے وسعت كى خاطر پيش كيا گيا ہے_
------------------------------
1) كافى جلد 3، ص 265 ، حديث 26_

147
اور اس اجازت كو روح اسلام كے ساتھ سازگار سمجھا جاتا ہے كيونكہ اسلام ايك ''شريعة سمحة و سہلة'' (آسان و سہل) ہے_
تجربے سے يہ بات ثابت ہوئي ہے كہ نماز كے ليے پانچ وقتوں پر عليحدہ عليحدہ تاكيد كبھى اس بات كا سبب بنتى ہے كہ اصل نماز بالكل فراموش ہوجائے اور بعض لوگ نماز كو ترك كرديں_

اسلامى معاشروں ميںپانچ اوقات پر اصرار كے آثار:
اسلام نے كيوں عرفہكے دن ظہر و عصر كى نماز اور مشعر الحرام ميں مغرب اور عشاء كى نمازوں كو جمع كرنے كى اجازت دى ہے؟
كيوں بہت سے اہلسنت فقہائ، روايات نبوي(ص) كى روشنى ميں سفر كے دوران اور بارش كے اوقات ميں دو نمازوں كے اكٹھا پڑھنے كو جائز سمجھتے ہيں؟ يقيناً امت كى سہولت كى خاطر يہ احكام نازل ہوئے ہيں_
يہ تسہيل تقاضا كرتى ہے كہ ديگر مشكلات ميں بھى چاہے سابقہ زمانے ميں ہوں يا اس دور ميں _ نماز كے جمع كرنے كى اجازت دينى چاہيے_
ہمارے زمانے ميں لوگوں كى زندگى تبديل ہوچكى ہے_ كارخانوں ميں بہت سے مزدوروں، دفتروں ميں بہت سے ملازمين اور كلاسوں ميں بہت سے طالب علموں كو پانچ وقت نماز كى فرصت نہيں ملتى ہے يعنى انكے ليےكام كرنا كافى دشوار اور پيچيدہ ہوجاتا ہے_
پس ان روايات كے مطابق جو پيغمبر اكرم(ص) سے نقل ہوئي ہيں اور آئمہ طاہرين نے ان پر تاكيد كى ہے اگر لوگوں كو دو نمازوں كو اكٹھا پڑھنے كى اجازت دے دى جائے تو اس اعتبار سے

148
انكے كام ميں سہولت حاصل ہوگي_ اور نماز پڑھنے والوں كى تعداد بڑھ جائيگي_
اگر ايسا نہ كيا جائے تو ترك نماز ميں اضافہ ہوگا اور تارك صلوة لوگوں كى تعداد بڑھتى جائيگى شايد يہى وجہ ہے كہ بہت سے اہلسنت كے جوان نماز كو چھوڑ تے ہيں اور اہل تشيع ميں تاركين نماز كى تعداد بہت كم ہے_
انصاف يہ ہے كہ '' بُعثتُ الى الشريعة السمحة السہلة'' (1) اور رسولخدا(ص) سے نقل ہونے والى متعدد روايات كى روشنى ميں لوگوں كو تين اوقات ميں نماز پڑھنے كى اجازت دينى چاہيے اسى طرح فرادى نماز كى بھى اجازت دينى چاہيے تا كہ زندگى كى مشكلات، ترك نماز كا موجب نہ بنے _ اگرچہ اسلام ميں پانچ وقت نماز كى فضيلت پر تاكيد ہوئي ہے اور وہ بھى جماعت كے ساتھ_

دو نمازوں كو اكٹھا پڑھنے كے جواز پر روايات:
اہلسنت كى معروف كتب جيسے صحيح مسلم ، صحيح بخارى ، سنن ترمذى ، مؤطّاء مالك، مسند احمد، سنن نسائي، مصنف عبدالرّزاق اور ديگر مشہور كتابوں ميں تقريباً تيس 30 روايات نقل كى گئي ہيں جن ميں بغير سفر اور مطر ( بارش) كے، بغير خوف اور ضرر كے ، نماز ظہر و عصر يا نماز مغرب و عشاء كے اكٹھا پڑھنے كو نقل كيا گيا ہے_ ان ميں سے اكثر روايات كو ان پانچ مشہور اصحاب نے نقل كيا ہے_
1_ ابن عباس، 2، جابر ابن عبداللہ انصاري، 3_ ابو ايّوب انصارى ، 4_ عبداللہ ابن عمر ، 5_ ابوہريرہ ، ان ميں سے بعض كو ہم قارئين محترم كے ليئے نقل كرتے ہيں_
------------------------------
1)مُجھے ايك سہل اور آسان شريعت كے ساتھ مبعوث كيا گيا ہے ( ترجمہ)_

149
1_ ابوزبير نے سعيد بن جبير سے ، انہوں نے ابن عباس سے نقل كيا ہے كہ '' صلّى رسول اللہ(ص) الظہر و العصر جميعاً بالمدينة فى غير خوف و لا سفر'' رسولخدا(ص) نے مدنيةميں بغير كسى خوف اور سفر كے نماز ظہر او ر عصر كو اكٹھا انجام ديا_
ابو الزبيركہتے ہيں ميں نے سعيد ابن جبير سے پوچھا كہ پيغمبراكرم(ص) نے ايسا كيوں كيا؟ تو وہ كہنے لگے كہ يہى سوال ميں نے ابن عباس سے كيا تھا تو انہوں نے جواب ميں كہا تھا '' أراد أن لا يَحرجَ أحداً من أمّتہ '' آنحضرت(ص) كا مقصد يہ تھا كہ ميرى امت كا كوئي مسلمان بھى زحمت ميں نہ پڑے'' (1)

2_ايك اور حديث ميں ابن عباس سے نقل كيا گيا ہے '' جَمع رسول اللّہ بين الظہر و العصر و المغرب و العشاء فى المدينة فى غير خوف و لا مطر'' ''پيغمبر اكرم(ص) نے مدينہ ميں بغير كسى خوف اور بارش كے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء كو اكٹھا انجام ديا''_
حديث كے ذيل ميں آيا ہے كہ جب ابن عباس سے سوال كيا گيا كہ پيغمبر اكرم(ص) كا اس جمع بين صلاتين سے كيا مقصد تھا تو انہوں نے جواب ميں كہا'' أراد أن لا يحرج'' آنحضرت(ص) كا يہ مقصد تھا كہ كوئي مسلمان بھى زحمت و مشقت سے دوچار نہ ہو_(2)

3_ عبداللہ ابن شقيق كہتے ہيں:
' ' خطبنا ابن عباس يوماً بعد العصر حتى غربت الشمس و بدت النجوم و جعل الناس يقولون الصلاة، الصلاة قال فجائہ، رجل من بنى تميم لا
----------------------------
1) صحيح مسلم، جلد 2،ص 151_
2) صحيح مسلم، جلد 2،ص 152_

150
يفتر و لا يتني: الصلوة ، الصلوة فقال ابن عباس أتعلّمنى بالسّنّة لا اَمّ لك ثمّ قال: رايت رسول الله جمع بين الظہر و العصر و المغرب و العشاء قال عبدالله بن شقيق: فحاك فى صدرى من ذلك شيء فأتيتُ ابا ہريرہ فسألتہ ، فصّدق مقالتَہ'' (1)
كہ ايك دن ابن عباس نے نماز عصر كے بعد خطبہ پڑھنا شروع كيا يہاںتك كہ سورج غروب ہوگيا اور ستارے ظاہر ہوگئے ، لوگوں نے نماز، نماز كى آوازيں لگانا شروع كرديں_ ايسے ميں بنو تميم قبيلہ كا ايك آدمى آيا وہ مسلسل نماز، نماز كى صدائيں بلند كر رہا تھا اس پر ابن عباس نے كہا ، تو مجھے سنت رسول(ص) سكھانا چاہتا ہے اے بے حسب و نسب ميں نے ديكھا ہے كہ رسولخدا(ص) نے نماز ظہر و عصر كو ،اسى طرح نماز مغرب و عشاء كو اكٹھا پڑھا ہے عبداللہ بن شقيق كہتا ہے ميرے دل ميں شك سا پيدا ہوگيا، ميں ابوہريرہ كے پاس آيا اور اُن سے يہى بات دريافت كى انہوں نے ابن عباس كے كلام كى تصديق كي_

4_ جابر ابن زيدلكھتے ہيں كہ ابن عباس نے كہا كہ : '' صلّى النّبي(ص) سبعاً جميعاً و ثمانياً جميعاً'' پيغمبر اكرم(ص) نے سات ركعتيں اور آٹھ ركعتيں اكٹھى پڑھيں'' (مغرب اور عشاء كى نماز اسى طرح ظہر اور عصر كى نماز كے اكٹھا پڑھنے كى طرف اشارہ ہے) (2)
----------------------------
1) سابقہ مدرك_
2) صحيح بخارى ، جلد 1، ص 140 ( باب وقت المغرب)_

151
5_ سعيد بن جُبير، ابن عباس سے نقل كرتے ہيں كہ:
'' جَمع رسولُ الله (صلى الله عليہ و آلہ و سلم ) بين الظہر و العصر و بين المغرب و العشاء بالمدينة من غير خوف و لا مطرً قال: فقيل لأبن عباس : ما أراد بذلك؟ قال أراد أن لا يحرج أمتّہ''(1)
'' پيغمبر اكرم (ص) نے مدينہ ميں بغير دشمن كے خوف اور بارش كے ، ظہر و عصر كى نماز، اسى طرح مغرب و عشاء كى نمازوں كو اكٹھا پڑھا، ابن عباس سے پوچھا گيا كہ آنحضرت(ص) كا اس كام سے كيا مقصدتھا؟ تو انہوں نے كہا آپ(ص) چاہتے تھے كہ انكى امت مشقّت ميں نہ پڑے''

6_ امام احمد ابن حنبل نے بھى اسى كے مشابہ حديث اپنى كتاب مسند ميں ابن عباس سے نقل كى ہے_(2)

7_ امام مالك نے اپنى كتاب '' مؤطا'' ميں مدينہ كا تذكرہ كيے بغير ابن عباس سے يہ حديث نقل كى ہے:
'' صلَّ رسولُ الله (ص) الظہر و العصر جميعاً و المغرب و العشاء جميعاً فى غير خوف و لا مطر''(3)
-------------------------------
1) سنن ترمذى ، جلد 121 حديث 187_
2) مسند احمد، جلد 1 ، ص 223_
3) مؤطا مالك، جلد 1 ، ص 144_

152
'' رسولخدا(ص) نے ظہر و عصر كى نماز كو اسى طرح مغرب و عشاء كى نماز كو اكٹھا پڑھا حالانكہ نہ تو دشمن كا خوف تھا اور نہ ہى بارش كا خطرہ''

8: '' مصنف عبدالرزاق'' نامى كتاب ميں جناب عبداللہ ابن عمر سے نقل كيا گيا ہے كہ:
'' جَمع لنا رسولُ الله صلَّى الله عليہ و آلہ و سلم مقيماً غير مسافربين الظہر و العصرفقال رجلٌ لأبن عمر : لم ترى النّبى (ص) فعل ذلك؟ قال لأن لا يحرج اُمّتہ أن جمع رجل'' (1)
پيغمبر اكرم (ص) نے بغير سفر كے يعنى قيام كى حالت ميں ظہر و عصر كى نمازوں كو اكٹھا پڑھايا، كسى نے ابن عمر سے پوچھا آپ كے خيال كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) نے يہ كام كيوں كيا؟ اس پرانہوں نے كہا آپ(ص) نے يہ كام اس ليے انجام ديا كہ اگر امت ميں سے كوئي ان دو نمازوں كو اكٹھا پڑھ لے توزحمت ميں مبتلا نہ ہو( لوگ اس پراعتراض نہ كريں)_

9_ جابر ابن عبداللہ كہتے ہيں كہ:
'' جَمع رسولُ الله (ص) بين الظہر و العصر و المغرب و العشاء فى المدينة للرّخص من غير خوف: و لا علّة'' (2)
'' رسولخدا(ص) نے مدينہ ميں بغير دشمن كے خوف اوربغير كسى عذر كے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء كى نمازوں كو اكٹھا پڑھا تا كہ امت كے ليے اجازت اور رخصت شمار ہو _
------------------------------------
1) مصنف عبدالرزاق ، جلد 2 ، ص 556_
2) معانى الآثار، جلد 1 ، ص 161_

153
10_ ابوہريرہ نيز نقل كرتے ہيں كہ:
'' جمع رسول الله (صلى الله عليہ و آلہ و سلم ) بين الصلوتين فى المدينة من غير خوف:''(1)
رسولخدا(ص) نے مدينہ ميں بغير دشمن كے خوف كے دو نمازوں كو اكٹھا پڑھا _

11_ عبداللہ بن مسعود بھى نقل كرتے ہيں كہ:
'' جمع رسول الله (ص) بين الاولى و العصر و المغرب و العشاء فقيل لہ فقال(ص) : صنعتہ لئلّا تكون أمتى فى حرج'' (2)
رسولخدا(ص) نے مدينہ ميں ظہر و عصر كى نماز، اسى طرح مغرب و عشاء كى نمازوں كو اكٹھا پڑھا_ كسى نے آپ (ص) سے اس كے سبب كے بارے ميں سوال كيا تو آپ(ص) نے فرمايا كہ يہ كام ميں نے اس ليے كيا ہے تا كہ ميرى امّت مشقّت ميں نہ پڑے_
اسى طرح اور بہت سى احاديث موجود ہيں جو اسى مطلب كى طرف اشارہ كرتى ہيں_
يہاںپر دوسوال پيش نظر ہيں:

1_ مذكورہ احاديث كا نتيجہ :
مذكورہ بالا تقريباً تمام احاديث ميں '' كہ جو اہلسنت كى مشہور اور درجہ اول كى كتب ميں ذكر ہوئي ہيں اور ان كى سند بعض بزرگ اصحاب تك پہنچتى ہے'' د و نكات پر تاكيد كى گئي ہے:
------------------------------
1) مسند البزّاز، جلد 1 ، ص 283_
2) المعجم الكبير طہراني، جلد 10، ص 219 ، حديث 10525_

154
ايك تو يہ كہ رسولخدا(ص) نے دو نمازوں كو اس حال ميں اكٹھا انجام ديا كہ كسى قسم كى مشكل جيسے دشمن كا خوف، سفر ، بارش و غيرہ، در پيش نہيں تھي_
اور دوسرے يہ كہ آپ(ص) كا مقصد '' امت كو رخصت دينا'' اور '' عسر و حرج سے نجات دلانا'' تھا_
آيا ان نكات كى روشنى ميں سزاوار ہے كہ بعض لوگ اعتراض تراشى كريں اوريوں كہيں كہ يہ اكٹھا پڑھنا اضطرارى موارد ميں تھا؟ہم كيوں حقائق سے چشم پوشى كريں، اور اپنے خام نظريات كو رسولخدا(ص) كے صريح فرامين پر ترجيح ديں؟
خدا اور اس كے رسول(ص) نے اجازت دى ہے ليكن افسوس يہ ہے كہ امّت كے بعض متعصّب لوگ اجازت نہيں ديتے آخر كيوں؟
يہ لوگ كيوں نہيں چاہتے ہيں كہ مسلمان جوان ہر حال ميں اور ہر جگہ پر ، اسلامى ممالك كے اندر اور باہر، يونيور سٹيوں، دفتروں اور كارخانوں ميں اس اہم ترين اسلامى فريضہ (يعنى يوميہ نمازيوں) پر عمل كريں؟
ہمارا نظريہ ہے كہ اسلام قيامت تك ہر زمان اور ہر مكان كے ليے ہے_
پيغمبر اكرم (ص) يقينا اپنى وسعت نظرى كے ذريعہ تمام دنيا كے مسلمانوں اور تمام زمانوں اور صديوں كے لوگوں كو مدنظر ركھے ہوئے تھے وہ جانتے تھے كہ اگر تمام لوگوں كو پانچ وقت ميں نماز پڑھنے پر مقيّد كريں گے تو اس كے نتيجے ميں بعض لوگ تارك الصلاة ہوجائيں گے ( جيسا كہ ہم آجكل ديكھ رہے ہيں) اسى ليے انہوں نے اپنى امت پر احسان كيا اور كام كو آسان

155
كرديا تا كہ سب لوگ ہر زمان و مكان ميں آسانى كے ساتھ روزانہ كى نمازوں كو بجالا سكيں_
قرآن مجيد فرماتا ہے:
'' و مَا جَعَل عَليكُم فى الدّين من حَرَج:'' (1)

2_ قرآن مجيد اور نماز كے تين اوقات:
اسى مسئلہ ميں تعجب كى بات يہ ہے كہ قرآن مجيد كى دو آيات ميں جب نماز كے اوقات كا تذكرہ كيا گيا ہے، وہاں يوميہ نمازوں كے ليے صرف تين اوقات ذكر كيے گئے ہيں_ تعجب يہ ہے كہ كيوں ان بھائيوں ميں سے ايك گروہ پانچ اوقات كے وجوب پر اصرار كرتا ہے_
پانچ اوقات ميں نماز كى زيادہ فضيلت كے بارے ميں كسى كو انكار نہيں ہے_ ہميں بھى اگر توفيق الہى شامل حال رہے تو پانچ اوقات ميں نماز ادا كرتے ہيں_
اختلاف صرف ان پانچ اوقات كے وجوب كے بارے ميں ہے_
1_ پہلى آيت سورہ ہود ميں ہے:''و أقم الصلوة طَرَفى النہار و زلفاً من اللّيل'' دن كے دو اطراف ميں اور رات كے كچھ حصّے ميں نماز ادا كرو ...''(2)
'' طرفى النہار'' نماز صبح كى طرف جو دن كى ابتداء ميں انجام دى جاتى ہے، اور نماز ظہر و عصر كى طرف اشارہ ہے كہ جن كا وقت سورج غروب ہونے تك باقى ہے_ بالفاظ ديگر نماز ظہر و عصر كے وقت كا غروب آفتاب تك باقى رہنا اس آيت سے با آسانى استفادہ ہوتا ہے اور ''زُلفاً من الليل'' كہ جس ميں لفظ '' زُلف'' استعمال ہوا ہے جس كے بارے ميں '' مختار
---------------------------------
1) سورة حج آيت 78_ اور اللہ نے تم پر دين كے مسئلے ميں كوئي حرج اور مشقت نہيں ركھي_
2) سورة ہود آيت 114_

156
الصحاح'' اور راغب نے كتاب المفردات ميں لكھا ہے كہ يہ '' زلفة'' كى جمع ہے اور اسے رات كے ابتدائي حصوں كے بارے ميں استعمال كيا جاتا ہے_ اس سے واضح ہوتا ہے كہ يہ ''زلفاً من الليل'' مغرب اور عشاء كے وقت كى طرف اشارہ ہے_
بنابراين اگر پيغمبر اكرم (ص) نمازوں كو عام طور پر پانچ وقتوں ميں انجام ديتے تھے تووہ يقينا ان پانچ اوقات كى فضيلت كے اعتبار سے تھا كہ جس كے ہم سب معتقد ہيں ہم كيوں قرآن مجيد كى آيت كے ظہور سے چشم پوشى كريں اور دوسرى تاويلوں كو تلاش كريں؟
2_ دوسرى آيت سورہ اسراء ميں ہے; '' أقم الصلوة لدُلُوك الشمس إلى غَسَق الليل و قرآن الفجر إنّ قرآن الفجر كانَ مشہوداً'' نماز كوزوال آفتاب كے آغاز سے رات كى تاريكى تك ادا كرو اسى طرح قرآن فجر ( نماز صبح) ادا كرو ...'' (1)
'' دلوك'' متمايل ہونے اور جھكنے كے معنى ميں آتا ہے_ يہاں نصف النہار سے سورج كے تمايل كى طرف اشارہ ہے يعنى زوال كا وقت_
'' غسق الليل'' رات كى تاريكى كے معنى ميں ہے، بعض نے اسے رات كى ابتداء سے تعبير كيا ہے اور بعض نے آدھى رات كے معنى ميں اس كى تفسير كى ہے_ جيسا كہ راغب نے ''مفردات'' ميں لكھا ہے كہ '' غسق'' رات كى و تاريكى كى شدّت كے معنى ميں ہے اور يہ وہى آدھى رات كے وقت ہوتى ہے _
ان معانى كے مطابق دلوك شمس سے نماز ظہر و عصر كے وقت كى ابتداء كى طرف اشارہ ہے اور غسق الليل سے نماز مغرب و عشاء كے وقت كى انتہا كى طرف اشارہ ہے اور قرآن فجر سے
-------------------------
1) سورة اسرائ، آيت 78_

157
نماز صبح كى طرف اشارہ ہے_
جناب فخر رازى نے اس آيت كى بہترين تفسير بيان كى ہے، وہ يوں رقمطراز ہيں كہ :
'' إن فَسّرنا الغسق بظہور اوّل الظلمة_ و حكاہ عن ابن عباس و عطا و النضر بن شميل_ كان الغسق عبارة عن أول المغرب و على ہذا التقدير يكون المذكور فى الآية ثلاث اوقات وقت الزّوال ووقت أول المغرب و وقت الفجر، و ہذا يقتضى أن يكون الزوال وقتا، للظُہر و العصر فيكون ہذا الوقت مشتركاً بين الصلوتين و أن يكون أول المغرب وقتاً للمغرب و العشاء فيكون ہذا الوقت مشتركاً ايضاً بين ہاتين الصلوتين فہذا يقتضى جواز الجمع بين الظہر و العصر و المغرب و العشاء مطلقاً''(1)
اگر ہم كلمہ غسق كو رات كى تاريكى كے آغاز كے معنى ميں تفسير كريں ( جيسا كہ ابن عباس عطا اور نضر بن شميل بھى اسى كے قائل ہيں) تو اس وقت غسق سے مغرب كے ابتدائي وقت كى طرف اشارہ ہوگا_ اور اس بناء پر آيت ميں تين اوقات ذكر
--------------------------------
1) تفسير كبير فخر رازى ، ج 21، ص 27_

158
ہوئے ہيں زوال كا وقت_ غروب كا وقت اور فجر كا وقت_ اس كے بعد كہتے ہيں كہ يہ تين اوقات تقاضا كرتے ہيں كہ زوال نماز ظہر و عصر كا مشتركہ اورغروب نماز مغرب و عشاء كا مشتركہ وقت ہو اس كا نتيجہ يہ نكلا كہ نماز ظہر اور عصر كو ،اسى طرح نماز مغرب اور عشاء كو بغير كسى قيد وشرط كے اكٹھا پڑھا جاسكتا ہے''
جناب فخر رازى نے يہاںتك تو بالكل صحيح بات بيان كى تھى اور آيت كے مفہوم كو اچھى طرح سمجھا اور سمجھايا_ ليكن اس كے بعد كہتے ہيں كہ چونكہ ہمارے پاس دليل موجود ہے كہ دو نمازوں كے درميان بغير عذر و سفر كے جمع كرنا جائز نہيں ہے، اس ليئےم آيت كو عذر كى حالت ميں محدود كريںگے_(1)
موصوف كو ياد دہانى كرانى چاہيے كہ نہ صرف يہ كہ ہمارے پاس آيت كو صرف حال عذر ميں محدود كرنے پر دليل موجود نہيں ہے بلكہ متعدّد روايات موجود ہيں ( جنكى طرف اشارہ ہوچكا ہے ) كہ رسولخدا(ص) نے بغير عذر اور بغير سفر كے نماز ظہر و عصر اور نماز مغرب و عشاء كو اكٹھا پڑھا تا كہ امّت كو سہولت دى جاسكے اور وہ اس رخصت سے بہرہ مند ہوسكيں_
علاوہ بر اين آيت كے اطلاق كو كس طرح انتہائي محدود موارد كے ساتھ مختص كيا جاسكتا ہے حالانكہ علم اصول ميں يہ بات مسلّم ہے كہ تخصيص اكثر جائز نہيں ہے_
بہرحال آيت نے بالكل وضاحت كے ساتھ نماز كے جو تين اوقات ذكر كيے ہيں اُن سے چشم پوشى نہيں كى جاسكتى ہے_
سابقہ بيان سے ہم مندرجہ ذيل نتائج اخذ كرتے ہيں_
-----------------------------
1) سابقہ مدرك_

159
1_ قرآن مجيد نے وضاحت كے ساتھ پانچ نمازوں كى تين اوقات ميں بجا آورى كو جائز قرار ديا ہے_
2_ فريقين كى كتب ميں بيان كى جانے والى اسلامى احاديث سے اس بات كا پتہ چلتا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے كئي مرتبہ دو نمازوں كو اكٹھا پڑھا حالانكہ نہ ہى سفر ميں تھے اور نہ ہى كوئي اور عذر تھا_ اور اس كام كو انہوں نے مسلمانوں كے ليئے رخصت شمار كيا تا كہ وہ مشقتسے دوچار نہ ہُوں_
3_ اگرچہ پانچ اوقات ميں نماز پڑھنا فضيلت ہے، ليكن اس فضيلت پر اصرار كرنے اور ترخيص كى راہ ميں ركاوٹ بننے كى وجہ سے بہت سے لوگ بالخصوص جوان نسل اصل نماز سے فرار كر جاتے ہيں _ اور اس بات كى تمام ذمہ دارى ترخيص كے مخالفين كے دوش پر آتى ہے_
كم از كم اہلسنت علماء اتنا قبول كرليں كہ اس مسئلہ ميں انكے جوان بھى مكتب اہلبيت(ع) كے پيروكاروں كے فتوى پر عمل كرليں جيسا كہ بزرگ عالم دين شيخ الازہر '' جناب شيخ محمد شلتوت'' نے مذہب جعفريہ كے تمام فتاوى پر عمل كرنے كو جائز قرار دياہے_
آخر ميںپھر ہم دوبارہ تاكيد كرتے ہيں _ كہ ہميں قبول كرنا چاہيے كہ آج كل دنيا ميں بہت سے مزدوروں ، ملازمين ، سكول و كا لجز كے طلاب اور ديگر طبقات كے لوگوں كے ليے پانچ اوقات ميں عليحدہ عليحدہ نماز پڑھنا بہت مشكل كام ہے_ كيا ہميں نہيں چاہيئے كہ رسولخدا(ص) كى دى گئي اس سہولتسے استفادہ كريں جو آجكل كے معاشرے كو مد نظر ركھتے ہوئے عنايت كى گئي ہے تا كہ نسل جوان اور ديگر لوگ نماز ترك كرنے كے بہانے نہ بنائيں_
كيا '' سنت '' پر اس حد تك اصرار كرنا صحيح ہے كہ جو '' فريضہ'' كے ترك كرنے كا سبب بنے؟