77
4
بزرگوں كى قبروں كا احترام
79
اجمالى خاكہ
اس مسئلہ ميں ہمارے مخاطب صرف شدت پسند وہابى ہيں_كيونكہ اسلام كے بزرگوں كى قبور كى زيارت كو مسلمانوں كے تمام فرقے (سوائے اس چھوٹے سے گروہ كے ) جائز سمجھتے ہيں_ بہرحال بعض وہابى ہم پر اعتراض كرتے ہيں كہ تم كيوں مذہبى رہنماؤں كى زيارت كے ليے جاتے ہو؟
اور ہميں '' قبوريّون'' كہہ كر پكارتے ہيں_حالانكہ پورى دنيا ميں لوگ اپنے گذشتہ بزرگوں كى آرام گاہوں كى اہميت كے قائل ہيں اور انكى زيارت كے ليے جاتے ہيں_
مسلمان بھى ہميشہ اپنے بزرگوں كے مزاروں كى اہميت كے قائل تھے اور ہيں اور انكى زيارت كے ليے جاتے تھے اور جاتے ہيں_ صرف ايك چھوٹا سا شدت پسند وہابى ٹولہ انكى مخالفت كرتا ہے اور اپنے آپ كو پورى دنيا كے مسلمان ہونے كا دعويدار اور ٹھيكيدار سمجھتا ہے_
البتہ بعض مشہور وہابى علماء نے صراحت كے ساتھ كہا ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى قبر مبارك كى زيارت كرنا مستحب ہے، ليكن زيارت كى نيّت سے رخت سفر نہيں باندھنا چاہيے _ يعنى مسجد النبى (ص) كى زيارت كے قصد يا اس ميں عبادت كى نيّت سے يا عمرہ كى نيت سے مدينہ آئيں اور ضمناً پيغمبر اكرم (ص) كى قبر كى زيارت بھى كرليں_ ليكن خود زيارت كے قصد سے بار سفر نہيں باندھنا چاہيئے_
'' بن باز'' مشہور وہابى مفتى كہ جو كچھ عرصہ قبل ہى فوت ہوئے ہيں_ الجزيرہ اخبار كے مطابق وہ يہ كہتے تھے'' جو مسجد نبوي(ص) كى زيارت كرے اس كے ليے مستحب ہے كہ روضہ رسول(ص)
80
ميں دو ركعت نماز ادا كرے اور پھر آنحضرت(ص) پر سلام كہے اور نيز مستحب ہے كہ جنت البقيع ميں جا كر وہاں مدفون شہداء پر سلام كہے''(1)
اہلسنت كے چاروں ائمہ '' الفقہ على المذاہب الاربعہ'' كى نقل كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) كى قبر مبارك كى زيارت كو بغير ان قيود اور شروط كے مستحب سمجھتے ہيں_
اس كتاب ميں يوں نقل ہوا ہے'' پيغمبر اكرم (ص) كى قبر كى زيارت اہم ترين مستحبّات ميں سے ہے اور اس بارے ميں متعدّد احاديث نقل ہوئي ہيں'' اس كے بعد انہوں نے چھ احاديث نقل كى ہيں_(2)
يہ وہابى ٹولہ اس مسئلہ ميں مجموعى طور پر تين نكات ميں دنيا كے باقى مسلمانوں كے ساتھ اختلاف ركھتا ہے_
1_ قبروں پر تعمير كرنا
2_ قبور كى زيارت كے ليئے سفر كا سامان باندھنا ( شدّ رحال )
3_ خواتين كا قبروں پر جانا
انہوں نے بعض روايات كے ذريعے ان تين موارد كى حرمت كو ثابت كرنے كى كوشش كى ہے كہ ان روايات كى يا تو سند درست نہيں يا اس مطلب پر ان كى دلالت مردود ہے ( انشااللہ عنقريب ان روايات كى تشريح بيان كى جائے گئي) ہمارے خيال كے مطابق يہ لو گ اس غلط حركت كے ليے كچھ اور مقصدركھتے ہيں اور وہ يہ ہے كہ يہ لوگ توحيد و شرك والے مسئلہ ميں وسوسے ميں گرفتار ہيں_ شايد خيال كرتے ہيں كہ قبروں كى زيارت كرنا انكى پوجا كرنے كے مترادف ہے اس ليے انكے علاوہ پورى دنيا كے مسلمان انكے نزديك مشرك اور ملحد ہيں
----------------------
1) الجزيرہ اخبار شمارہ 6826( 22 ذى القعدہ 1411 ق)_
2) الفقہ على المذاہب الاربعہ، جلد 1 ،ص 590_
81
زيارت قبول كى گذشتہ تاريخ:
گذشتہ لوگوں كى قبروں كا احترام ( بالخصوص بزرگ شخصيّات كى قبروں كا احترام ) بہت قديم زمانے سے چلا آرہاہے_ ہزاروں سال پہلے سے لوگ اپنے مردوں كا احترام كرتے تھے اور انكى قبروں اور بالخصوص بزرگان كى قبروں كى تكريم كرتے تھے_ اس كام كا فلسفہ اور مثبت آثار بہت زيادہ ہيں_
1_ گذشتہ لوگوں كى تكريم كا سب سے پہلا فائدہ، ان بزرگوں كى حرمت كى حفاظت ہے اور ان كى قدردانى انسانى عزت و شرافت كى علامت ہے_ اسى طرح جوانوںكے ليے ان كى سيرت پر عمل پيرا ہونے كے ليئےشويق كا باعث بنتى ہے_
2_ دوسرا فائدہ ان كى خاموش مگر گويا قبروں سے درس عبرت حاصل كرنا اور آئينہ دل سے غفلت كے زنگ كو دور كركے دنياوى زرق و برق كے مقابلے ميں ہوشيارى اور بيدارى پيدا كرنا ہے اور ہوا و ہوس پر قابو پانا ہے_
جيسا كہ اميرالمؤمنين(ع) نے فرمايا كہ مُردے بہترين وعظ و نصيحت كرنے والے ہيں_
3_ تيسرا فائدہ پسماندگان كى تسلى كا حصول ہے كيونكہ لوگ اپنے عزيزوں كى قبروں پر سكون كا احساس كرتے ہيں_ گويا وہ انكے ساتھ ہمنشين ہيں_ اسطرح قبروں پر جانے سے انكے غم كى شدت ميں كمى آجاتى ہے شايد يہى وجہ ہے كہ جو جنازے مفقود الاثر ہوجاتے ہيں انكے وارث انكے ليے ايك قبر كى علامت اور شبيہ بنا ليتے ہيں اور وہاں پرانہيں ياد كرتے ہيں_
4_ چوتھا فائدہ يہ كہ گذشتہ شخصيات كى قبروں كى تعظيم و تكريم ہر قوم و ملت كى ثقافتى ميراث كو زندہ ركھنے كا ايك طريقہ شمار ہوتى ہے اور ہر قوم اپنى قديمى ثقافت كے ساتھ زندہ رہتى ہے_ پورى دنيا كے مسلمان ايك عظيم اور بے نياز ثقافت ركھتے ہيں جس كا ايك اہم حصہ
82
شہدائ، علمائے سلف اور سابقہ دانشوروں كى آرامگاہوں كى صورت ميں ہے اور بالخصوص بزرگان دين اور روحانى پيشواؤں كے مزاروں ميں نہفتہ ہے_ ايسے بزرگوں كى قبور كى يادمنانا اور انكى حفاظت و تكريم اسلام اور سنّت پيغمبر(ص) كى حفاظت كا موجب بنتى ہے_
وہ لوگ كتنے بے سليقہ ہيں جنہوں نے مكہ ، مدينہ اور بعض دوسرے شہروں ميں بزرگان اسلام كے پر افتخار آثار كو محو كر كے اسلامى معاشرے كو عظيم خسارے سے دوچار كرديا ہے_
نہايت افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ نادان اور محدود فكر ركھنے والے سلفيوں نے غير معقول بہانوں كى آڑ ميں يہ كام كركے پيكر اسلام كى ثقافتى ميراث پر ايسى شديد ضربيں لگائي ہيں جنكى تلافى نا ممكن ہے_
كيا يہ عظيم تاريخى آثار صرف اس ٹولے كے ساتھ مخصوص ہيں كہ اسقدر بے رحمى كے ساتھ انہيں نابود كيا جارہا ہے_ كيا ان آثار كى حفاظت و پاسدارى پورى دنيا كے اسلام سے آگاہ دانشوروں كى ايك كميٹى كے ہاتھ ميں نہيںہونى چاہيے؟
5_ پانچواں فائدہ يہ كہ دين كے عظيم پيشواؤں كى قبروں كى زيارت اور بارگاہ الہى ميں ان سے شفاعت كا تقاضا كرنا عند اللہ، توبہ اور انابہ كے ہمراہ ہوتا ہے_ اور يہ چيز نفوس كى تربيّت اور اخلاق و ايمان كى پرورش ميں انتہائي مؤثر ہے بہت سے گناہوں ميں آلودہ لوگ جب انكى بارگاہ ملكوتى ميں حاضرى ديتے ہيں تو توبہ كر ليتے ہيں اور ہميشہ كے ليئے ان كى اصلاح ہوجاتى ہے_ اور جو نيك و صالح افراد ہوتے ہيں انكے روحانى ومعنوى مراتب ميں مزيد اضافہ ہوجاتا ہے _
قبور كى زيارت كے سلسلہ ميں شرك كا توہّم:
كبھى كمزور فكر لوگ ائمہ اطہار كى قبو ر كے زائرين پر '' شرك'' كا ليبل لگاديتے ہيں يقينا اگر
83
وہ زيارت كے مفہوم اور زيارت ناموں ميں موجود مواد سے آگاہى ركھتے تو اپنى ان باتوں پر شرمندہ ہوتے_
كوئي بھى عقلمند آدمى پيغمبر اكرم (ص) يا آئمہكى پرستش نہيں كرتا ہے_ بلكہ يہ بات تو انكے ذہن ميں خطور بھى نہيں كرتى ہے_ تمام آگاہ مؤمنين احترام اور طلب شفاعت كے ليئےيارت كو جاتے ہيں_
ہم اكثر اوقات زيارت نامہ پڑھنے سے پہلے سو مرتبہ '' اللہ اكبر'' كہتے ہيں اور اسطرح سو مرتبہ توحيد كى تاكيد كرتے ہيں اورشرك كے ہر قسم كے شبہہ كو اپنے سے دور كرتے ہيں_
معروف زيارت نامہ '' امين اللہ '' ميں ہم آئمہ كى قبروں پر جا كر يوں كہتے ہيں:
''أشہَدُ أنّك جَاہَدتَ فى الله حقَّ جہادہ و عَملتَ بكتابہ و اتَّبَعتَ سُنَنَ نبيّہ حتى دَعاك الله إلى جَوارہ''
'' ہم گواہى ديتے ہيں كہ آپ نے راہ خدا ميں جہاد كيا اور جہاد كا حق ادا كرديا_ كتاب خدا پر عمل كيا اور سنت پيغمبر(ص) كى پيروى كى يہانتك كہ اللہ تعالى نے آپ كو اس جہان سے اپنى جوار رحمت ميں بُلاليا_''
كيا اس سے بڑھ كر توحيد ہوسكتى ہے؟
اسى طرح مشہور زيارت جامعہ كبيرہ ميں ہم يُوں پڑھتے ہيں كہ:
'' الى الله تدعُون و عليہ تَدُلُّون و بہ تؤمنوُن و لَہ تُسلّمُونَ و بأمرہ تَعمَلُون و إلى سَبيلہ
84
تَرشُدُونَ''
( ان چھ جملوں ميں سب ضميريں اللہ تبارك و تعالى كى طرف لوٹتى ہيں، زائرين يوں كہتے ہيں)'' كہ آپ آئمہ، اللہ تعالى كى طرف دعوت ديتے اور اس كى طرف راہنمائي كرتے ہيں_ اور آپ اللہ تعالى پر ايمان ركھتے ہيں اور اس كے سامنے تسليم ہيں اور لوگوں كو اللہ كے راستے كى طرف ارشاد و ہدايت كرتے ہيں''
ان زيارت ناموں ميں ہر جگہ اللہ تعالى اور دعوت توحيد كى بات ہے كيا يہ شرك ہے يا ايمان؟ اسى زيارت نامہ ميں ايك جگہ يوں كہتے ہيں:
'' مستشفعٌ إلى الله عزّوجل بكم'' ميں آپ كے وسيلہ سے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شفاعت كو طلب كرتا ہوں_
اور اگر بالفرض زيارت ناموں كى بعض تعبيروں ميں ابہام بھى ہو تو ان محكمات كيوجہ سے كاملاً روشن ہوجاتا ہے_
كيا شفاعت طلب كرنا توحيد ى نظريات كے ساتھ سازگار ہے؟
ايك اور بڑى خطا جس سے وہابى دوچار ہوئے ہيں يہ ہے كہ وہ بارگاہ ربّ العزت ميں اولياء الہى سے شفاعت طلب كرنے كو بتوں سے شفاعت طلب كرنے پر قياس كرتے ہيں (وہى بُت جو بے جان اور بے عقل و شعور ہيں)
حالانكہ قرآن مجيد نے كئي بار بيان كيا ہے كہ انبياء الہي، اسكى بارگاہ ميں گناہگاروں كى شفاعت كرتے تھے_ چند نمونے حاضر خدمت ہيں:
1_ برادران يوسف نے حضرت يوسف(ع) كى عظمت اور اپنى غلطيوں كو سمجھنے كے بعد حضرت
85
يعقوب(ع) سے شفاعت كا تقاضا كيا اور انہوں نے بھى انہيں مُثبت وعدہ ديا_
'' قالُوا يا أبَانَا استغفر لنا ذُنوبَنا إنّا كُنّا خَاطئين، قال سَوفَ أستغفرُ لكم رَبّى إنَّہ ہُو الغفورُ الرّحيم''(1)
كيا ( معاذ اللہ ) يعقوب مشرك پيغمبر(ص) تھے؟
2_ قرآن مجيد گنہگاروں كو توبہ اور پيغمبر اكرم (ص) سے شفاعت طلب كرنے كى تشويق كرتے ہوئے يوں فرماتا ہے:
''و لَو انّہم إذ ظَّلَموا أنفسَہُم جَاء وك فاستغفروا الله و استغفر لَہُم الرَّسُولّ لَوَجَدُوا الله تَوّاباً رحيماً''
'' جب بھى وہ اگراپنے آپ پر ( گناہوں كى وجہ سے ) ظلم كرتے اور آپ (ص) كى خدمت ميں آتے اور توبہ كرتے اور رسولخدا(ص) بھى انكے ليے استغفار كرتے_ تو وہ اللہ تعالى كو توبہ قبول كرنيوالا اور مہربان پاتے '' (2)
كيا يہ آيت شرك كى طرف تشويق كر رہى ہے؟
3_ قرآن مجيد منافقين كى مذمّت ميں يوں كہتا ہے:
'' و إذا قيلَ لَہُم تَعَالَوا يَستَغفر لكم رَسُولُ الله لَوَّوا رُئُوسَہُم و رأيتَہُم يَصُدُّونَ وَ ہُم مُستَكبرُون'' (3)
---------------------------
1) سورة يوسف آيات 97 ، 98_
2) سورة نساء آيت 64_
3) سورة منافقون آيت 5_
86
جب انہيں كہا جاتا ہے كہ آؤ تا كہ رسولخدا(ص) تمہارے ليئے مغفرت طلب كريں تو وہ (طنزيہ ) سر ہلاتے ہيں اور آپ(ص) نے ديكھا كہ وہ آپكى باتوں سے بے پرواہى برتتے اور تكبّر كرتے ہيں''
كيا قرآن مجيد، كفار اور منافقين كو شرك كى طرف دعوت دے رہا ہے؟
4_ ہم جانتے ہيں كہ قوم لوط بدترين امت تھى ليكن اس كے باوجود حضرت ابراہيم _ شيخ الانبياء نے انكے بارے ميں شفاعت كى ( اور خداوند سے درخواست كى كہ انہيں مزيد مہلت دى جائے شايد توبہ كرليں ) ليكن يہ قوم چونكہ اپنى حد سے بڑھى ہوئي بد اعماليوں كى وجہ سے شفاعت كى قابليت كھوچكى تھى _ اس ليے حضرت ابراہيم (ع) كو كہاگيا كہ انكى شفاعت سے صرف نظر كيجئے _
'' فلمَّا ذہَبَ عن إبراہيمَ الرّوعُ و جَاء تہُ البُشرى يُجادلُنا فى قوم لُوط، إنّ إبراہيمَ لَحليمٌ أواہٌ مُنيبٌ يَا إبراہيمُ أعرض عَن ہذا إنَّہ قد جَاء أمرُ رَبّك و أنہم آتيہم عذابٌ غَيرُ مَردُود'' (1)
'' جس وقت ابراہيم كا خوف ( اجنبى فرشتوں كى وجہ سے ) ختم ہوگيا اور ( بيٹے كى ولادت كى ) بشارت انہيں مل گئي تو قوم لوط كے بارے ميں ہم سے گفتگو كرنے لگے (اور شفاعت كرنے لگے) كيونكہ ابراہيم (ع) بردبار، دلسوز اور توبہ كرنے والے تھے (ہم نے ان سے كہا ) اے ابراہيم(ع) اس (درخواست ) سے صرف نظر كيجئے كيونكہ آپ كے پروردگار كا فرمان پہنچ چكا ہے اور يقينى طور پر ناقابل رفع عذاب انكى طرف آئيگا ''
---------------------
1) سورة ہود آيات 74 تا 76_
87
دلچسب يہ ہے كہ اللہ تعالى نے اس شفاعت كے مقابلے ميں حضرت ابراہيم (ع) كى عجيب تمجيد فرمائي اور كہا '' إنّ ابراہيم لَحليم اواہُ مُنيبٌ'' ليكن اس مقام پر انہيں تذكر ديا ہے كہ پانى سر سے گذر چكا ہے اور شفاعت كى گنجائشے باقى نہيں رہى ہے_
اوليا ء الہى كى شفاعت اُنكى ظاہرى زندگى كے ساتھ مخصوص نہيں ہے:
بہانہ تلاش كرنے والے جب ايسى آيات كا مشاہدہ كرتے ہيں كہ جن ميں صراحت كے ساتھ انبيائے الہى كى شفاعت كى قبوليت كا تذكرہ ہے اور ان آيات كو قبول كرنے كے سواء كوئي چارہ بھى نہيں ہے تو پھر ايك اور بہانہ بناتے ہيں اور يوں كہتے ہيں كہ يہ آيات انبياء كرام كى زندگى كے ساتھ مربوط ہيں_ ان كى وفات كے بعد شفاعت پر كوئي دليل نہيں ہے اسطرح شرك والى شاخ كو چھوڑ كر دوسرى شاخ كو پكڑ تے ہيں_
ليكن اس جگہ يہ سوال سامنے آئيگا كہ كيا پيغمبر اكرم(ص) اپنى رحلت كے بعد خاك ميں تبديل اور مكمل طور پر نابود ہوگئے ہيں يا حيات برزخى ركھتے ہيں؟ ( جسطرح بعض وہابى علماء نے ہمارے سامنے اس بات كا اقرار كيا ہے)
اگر حيات برزخى نہيں ركھتے تو اولاً كيا پيغمبر اكرم (ص) كا مقام شہداء سے كم ہے جنكے بارے ميں قرآن مجيد گواہى ديتا ہے كہ '' بل أحيائٌ عند ربّہم يُرزَقُون'' (1)
ثانياً : تمام مسلمان نماز كے تشہدّميں آنحضرت(ص) پر سلام بھيجتے ہيں اور يوں كہتے ہيں: ''السلام عليك ايّہا النبيّ ...'' اگر آنحضرت (ص) موجود نہيں ہيں تو كيا يہ كسى خيالى شے كو سلام كيا جاتا ہے؟
---------------------------
1) سورہ آل عمران آيت 169_
88
ثالثاً: كيا آپ معتقد نہيں ہيں كہ مسجد نبوى ميں پيغمبر اكرم (ص) كے مزار كے قريب آہستہ بولنا چاہيے كيونكہ قرآن مجيد نے حكم ديا ہے كہ '' يا ايّہا الذين آمنوا لا ترفَعُوا أصواتكم فَوقَ صوت النّبي ...'' (1) اور اس آيت كو تحرير كر كے آپ لوگوں نے پيغمبر اكرم (ص) كى ضريح پر نصب كيا ہوا ہے؟
ہم ان متضاد باتوں كو كيسے قبول كريں
رابعاً: موت نہ فقط زندگى كا اختتام نہيں ہے بلكہ ايك نئي ولادت اور زندگى ميں وسعت كا نام ہے_ '' الناس نيامٌ فإذا ماتُوا إنتبہوا'' (2) لوگ غفلت ميں ہيں جب مريں گے تو بيدار ہونگے_
خامساً: ايك معتبر حديث ميں جسے اہلسنت كى معتبر كتب ميں ذكر كيا گيا ہے_ عبداللہ بن عمر نے رسولخدا(ص) سے يوں نقل كيا ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا'' من زارَ قبرى وَجَبَت لہ شفاعتي'' (3) جس نے ميرى قبر كى زيارت كى اسكے ليے ميرى شفاعت يقينى ہوگئي_
ايك اور حديث ميں يہى راوى پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كرتا ہے '' مَن زَارنى بَعدَ مَوتى فَانّما زارنى فى حياتي'' (4) جس نے ميرى رحلت كے بعد ميرى زيارت كى وہ ايسا ہي
-----------------------------
1) سورة حجرات آيت 2_ اے صاحبان ايمان ،اپنى آوازوں كو نبى كى آواز سے بلند نہ كيجئے_
2) عوالى اللئالي، جلد 4 ص 73_
3) دار قطنى مشہور محدث نے اس حديث كو اپنى كتاب '' سنن'' ميں نقل كيا ہے ( جلد 2 ص 278) دلچسپ يہ ہے كہ علامہ امينى نے اسى حديث كو اہلسنت كى 41 مشہور كتابوں سے نقل كيا ہے ملاحظہ فرمائيں الغدير ج 5 ص 93
4) (سابقہ مدرك) علامہ امينى نے اس حديث كو 13 كتابوں سے نقل كيا ہے_
89
ہے جيسے اس نے ميرى زندگى ميں ميرى زيارت كى ہو''
لہذا حيات اور ممات كے درميان فرق ڈالنا صرف ايك موہوم خيال ہے_ اور اس كے ساتھ ساتھ اس حديث كے اطلاق سے يہ بھى بخوبى معلوم ہوجاتا ہے كہ آپ(ص) كى قبر كى زيارت كے قصد سے '' شدّ رحال'' سامان باندھنے اور سفر كرنے ميں كوئي اشكال نہيں ہے_
خواتين اور قبور كى زيارت
خواتين زيادہ عطوفت اور رقّت قلب كى وجہ سے اپنے عزيزوں كى قبروں پر جانے كى زيادہ ضرورت محسوس كرتى ہيں تا كہ انہيں صبر اور تسلّى حاصل ہوسكے_ اور تجربے كے ذريعے يہ بات ثابت ہے كہ اولياء الہى كى قبور كى زيارت كے ليے بھى وہ زيادہ مشتاق ہوتى ہيں_
ليكن مقام افسوس ہے كہ يہ وہابى ٹولہ ايك مشكوك حديث كى خاطر، خواتين كو ان قبور كى زيارت سے شدت سے منع كرتے ہيں_ حتى كہ جنوب ايران ميں انكى عوام كى زبانوں پريہ بات مشہورہے كہ اگر كوئي عورت كسى كى قبر پر جائے تو وہ مُردہ اس خاتون كو بالكل برہنہ حالت ميں ديكھتا ہے
ايك عالم كہہ رہے تھے ميں نے وہابيوں سے كہا كہ پيغمبر اكرم (ص) اور خليفہ اوّل و دوّم كى قبريں حضرت عائشےہ كے كمرے ميں تھيں اور وہ كافى عرصہ تك اُسى كمرہ ميں رہتى رہيں يا كم از كم كمرہ ميں آمد و رفت ركھتى تھيں_
بہرحال ( خواتين كے ليئےيارت قبور كى حرمت پر ) ان كے پاس دليل كے طور پر ايك مشہور حديث ہے جسے وہ رسولخدا(ص) كى طرف نسبت ديتے ہيں كہ آپ(ص) نے فرمايا '' لعن الله زائرات القبور'' '' اللہ تعالى قبروں كى زيارت كرنے والى خواتين پر لعنت كرے''
90
بعض كتابوں ميں '' زائرات'' كے لفظ كى بجائے ''زوّارات القبور'' نقل كيا گيا ہے كہ جو مبالغہ كےليے استعمال كيا جاتا ہے_
اہلسنت كے بعض علماء جيسے ترمذى (1) و غيرہ فرماتے ہيں كہ يہ حديث اس زمانے كے ساتھ مخصوص ہے جب آنحضرت(ص) نے اس بات سے منع فرمايا تھا_ بعد ميں يہ حكم نسخ ہوگيا تھا اور آپ(ص) نے اجازت فرمادى تھي ...
بعض ديگر علماء كہتے ہيں كہ يہ حديث ان خواتين كے ساتھ مخصوص ہے جو اپنا زيادہ وقت زيارت قبور كے ليے صَرف كرتى تھيں اور اس طرح انكے شوہروں كے حقوق ضائع ہوتے تھے اور لفظ '' زوّارات'' و الانسخہ كہ جو مبالغے كا صيغہ ہے اس بات كى دليل ہے_
يہ برادران چاہے سب چيزوں كا انكار كرديں ليكن حضرت عائشےہ كے كام كاتو انكار نہيں كرسكتے ہيں كيونكہ پيغمبر اكرم(ص) اور پہلے و دوسرے خليفہ كى قبريں انكے گھر ميں تھيں اور وہ ہميشہ ان قبروں كے نزديك تھيں_
'' شدّ رحال'' فقط تين مساجد كے ليے
تاريخ اسلام ميں صديوں سے مسلمان، پيغمبر اكرم(ص) اور بزرگان بقيع كى قبور كى زيارت كے ليے شدّ رحال كرتے تھے ( يعنى اس زيارت كے قصد سے سامان باندھتے ) اور سفر كرتے تھے اور كسى كو كوئي اعتراض نہيں ہوتا تھا_
-------------------------------
1) سنن ترمذى ، جلد 3 ص 371 ( انہوں نے باب كا عنوان يہ ركھا ہے '' باب ما جاء من الرخصة فى زيارة القبور'' يعنى وہ باب جس ميں زيارت قبور كى اجازت دى گئي ہے_
91
يہاںتك كہ ساتويں صدى ميں ابن تيميّہ كا زمانہ آيا اور اس نے اپنے پيروكاروں كو اس بات سے منع كيااور كہا كہ '' شدّ رحال'' صرف تين مسجدوں كى زيارت كے ليے جائز ہے اور بقيہ مسجدوں كے ليے حرام ہے اور اس بارے ميں دليل كے طور پر ابوہريرہ كى اس حديث كو نقل كيا كہ ابوہريرہ نے پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كيا ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا :
'' لا تشد الرحال الا الى ثلاثة مساجد، مسجدى ہذا و مسجد الحرام و مسجد الاقصى '' (1)
صرف تين مساجد كے ليئے رخت سفر باندھا جاتا ہے ايك ميرى مسجد اور دوسرى مسجد الحرام اور تيسرى مسجد الاقصى (1)
حالانكہ اولاً اس حديث كا موضوع مساجد كے ساتھ مخصوص ہے نہ دوسرے مقامات كى زيارت كے ساتھ _ لہذا اس حديث كا مفہوم يہ ہوگا كہ تين مساجد كے علاوہ ديگر مسجدوں كے ليے سامان سفر نہيں باندھا جاتا ہے_
ثانياً: يہ حديث ايك اور طر ح بھى نقل ہوئي ہے اور اس نقل كے مطابق انكے مقصود پر اصلاً دلالت نہيں كرتى ہے وہ اسطرح كہ ''تشدّ الرحال الى ثلاث مساجد'' تين مساجد كے ليئے سامان سفر باندھا جاتا ہے'' (1) اور يہ در حقيقت اس كام پر تشويق كرنا ہے_ اس تشويق سے دوسرے مقامات كى زيارت كى نفى نہيں ہوتى ہے كيونكہ ايك شے كے ثابت كرنے سے دوسرى شے كى نفى نہيں ہوتى _ اور چونكہ معلوم نہيں ہے كہ اصل حديث كا متن پہلى طرح يا دوسرى طرح تھا اس ليے حديث مجمل ہوجائيگى اور استدلال كے قابل نہيں رہے گي_
-----------------------
1) صحيح مسلم جلد 4 ص 126_
2) مصدر سابق_
92
ممكن ہے كوئي كہے كہ اسى كتاب ميں دوسرے مقام پر يوں نقل كيا گيا ہے كہ '' انّما يسافر الى ثلاثة مساجد'' سفر صرف تين مساجد كے ليے جائز ہے''
لہذا شدّ رحال صرف تين مساجد كے ليے جائز ہے
اس سوال كا جواب واضح ہے اولاً: امّت كا اس بات پر اجماع ہے كہ بہت سے دينى اور غير دينى سفر مختلف مقاصد كے ليے جائز ہيں_ سفر صرف تين مساجد كے ليے منحصر نہيں ہے لہذا يہ حصر اصطلاحاً '' حصر اضافى '' ہے يعنى مساجد ميں سے يہ تين مسجديں ہيں جنكے ليے شدّ رحال كيا جاتا ہے _ ثانياً : حديث كا متن مشكوك ہے معلوم نہيں ہے كہ پہلا متن درست ہے يا دوسرا يا تيسرا_ اور يہ انتہائي بعيد ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے اس مطلب كو تين مرتبہ مختلف الفاظ ميں بيان كيا ہو_ ظاہراً يہ لگتا ہے كہ راويوں نے نقل بہ معنى كيا ہے لہذا اس حديث ميں ابہام پايا جاتا ہے اور جب كسى حديث كا متن مبہم ہوتو اس كے ساتھ كيا گيا استدلال معتبر نہيں ہوتا ہے_
كيا قبور پر عمارت بنانا ممنوع ہے؟
صديوں سے يہ سلسلہ چلا آرہا ہے كہ مسلمان بزرگان اسلام كى قبور پر تاريخى اور عام عمارتيں تعمير كرتے تھے اور ان كى قبور كى زيارت كے ليے آتے اوران سے متبرك ہوتے تھے اور اس بات پر كوئي اعتراض نہيں كرتا تھا_ حقيقت ميں اس عمل پر مسلمانوں كا اجماع تھا اور اس سيرت عملى كے بارے ميں كسى كا اختلاف نہيں تھا_
مورخين نے تاريخ ميں جيسے مسعودى نے مروّج الذہب ميں ( كہ جنہوں نے چوتھى صدى ميں زندگى گذارى ہے) او ر سيّا حوں جيسے ابن جُبير اور ابن بطوطہ نے ساتويں اور آٹھويں صدى ميں اپنے سفر ناموں ميں اس قسم كى عظيم عمارتوں كا تذكرہ كيا ہے_
-----------------------
1)صحيح مسلم، ج4 ص 126_
93
يہاںتك كہ ساتويں صدى ميں ابن تيميّہ اور بارہويں صدى ميں انكے شاگرد محمد ابن عبدالوہاب پيدا ہوئے اور انہوں نے قبور پر ان عمارتوں كو بدعت، شرك اور حرام قرار ديا_
وہابيوں كے پاس چونكہ اسلامى مسائل كى تحليل كے ليے علمى قدرت كم تھى اس ليے بالخصوص توحيد اور شرك كے مسئلہ ميں وسواس كا شكار ہوگئے _ انہيں جہاں بھى كوئي دستاويز ملى اس كى مخالفت كے ليے اٹھ كھڑے ہوئے_ اسى ليے زيارت ، شفاعت ، قبروں پر عمارات اور ديگر مسائل كو انہوں نے شريعت كے خلاف شمار كرتے ہوئے شرك اور بدعت كے ساتھ تعبير كيا_ اور ان ميں سے اہم ترين مسئلہ بزرگان دين كى قبروں پر تعميرات كرانے كامسئلہ ہے آج بھى سوائے حجاز كے پورى دنيا ميں سابقہ انبياء اور بزرگان دين كى قبور پر عظيم تاريخى عمارتيں موجود ہيں جو بہت سى تاريخى يادوں كو تازہ كرتى ہيں_
مصر سے ليكر ہندوستان تك اور الجزائر سے ليكر انڈونيشيا تك سب لوگ اپنے ملك ميں موجود اسلامى آثار كا احترام كرتے ہيں اور بزرگان دين كى قبروں كے ليئےيك خاص اہميت كے قائل ہيں_ ليكن حجاز ميں ايسى بات نظر نہيں آتى ہے_ اس كى وجہ يہ ہے كہ وہ لوگ اسلامى مفاہيم كى صحيح تحليل نہيں كر پائے ہيں_
وہابيت كے ہاتھوں ثقافتى ميراث كى نابودي
گذشتہ صدى ميں سرزمين وحى پر ايك تلخ واقعہ رونما ہوا جس نے مسلمانوں كو ہميشہ كے ليئےسلامى تاريخ كے آثار سے محروم كرديا اور وہ حادثہ وہابيت كا بر سر اقتدار آنا تھا_ تقريباً يہى (80) سال پہلے ( 1344 ھ ق) جب حجاز كيحكومت وہابيت كے ہاتھوں آئي تو انہوں نے ايك بے بنياد سازش كے تحت تمام اسلامى تاريخ كى عمارتوں كو شرك يا بدعت كے بہانے سے
94
ويران كركے خاك كے ساتھ يكساں كرديا_
البتہ انكى يہ جرا ت نہ ہوئي كہ پيغمبر(ص) گرامى اسلام كى قبر مطہر كو خراب كريں_ اس خوف سے كہ كہيں پورى دنيا كے مسلمان انكے خلاف اٹھ كھڑے نہ ہوں اور حقيقت ميں ان تقيہ كے مخالفين نے دوسرے سب مسلمانوں سے تقيہ كيا
مكہ مكرّمہ كے بعض سفروں كے دوران ہم نے دوستانہ ماحول ميں وہابيت كے بزرگان سے يہ دريافت كيا كہ آپ نے سوائے روضہ رسول(ص) كے باقى سب قبور كو ويران كرديا ہے اس قبر كے باقى ركھنے كا راز كيا ہے؟ تو اس سوال كے جواب ميں انكے پاس كوئي عذر و بہانہ نہيں تھا_
بہرحال قوموں كى حيات مختلف امور كے ساتھ وابستہ ہے جن ميں سے ايك انكى ثقافتى ميراث اوراپنے دينى و علمى آثار كى حفاظت ہے_ جبكہ نہايت افسوس كے ساتھ يہ كہنا پڑتا ہے كہ سرزمين وحى بالخصوص مكہ اور مدينہ ميں مسلمانوں كى غلط تدبير كى وجہ سے ايك پسماندہ ذہنيت ركھنے والے كج سليقہ اور متعصّب ٹولے نے اسلام كى انتہائي قيمتى ميراث كو بوگس بہانوں كے ذريعہ برباد كر ديا ہے_ ايسى ميراث جس كى ہر ايك عمارت اسلام كى پر افتخار تاريخ كو ياد دلاتى تھي_
صرف آئمہ اطہار (ع) اور جنت البقيع ميںمدفون دوسرے بزرگوں كى قبروں كو ويران نہيں كيا گيا بلكہ اس ٹولے نے جہاں بھى كہيں اسلامى تاريخ كا كوئي اثر پايا اسے ويران كرديا_ اور اس سے ايك بہت بڑا ناقابل تلافى خسارہ مسلمانوں كے دامن گير ہوا_
يہ تاريخى آثار ايك عجيب جاذبيّت ركھتے تھے_ اور انسان كو اسلامى تاريخ كى گہرائيوںسے آشنا كرتے تھے_ جنت البقيع ايك وقت انتہائي با عظمت جلوہ ركھتا تھا اور اس كا ہر گوشہ ايك اہم تاريخى حادثہ كى ياد دلاتا تھا ليكن آج ايك ويران بيابان ميں تبديل ہوچكا ہے،
95
جو انتہائي عجيب لگتا ہے اور وہ بھى بڑے بڑے خوبصورت ہوٹلوں اور زرق برق والى عمارتوں كے درميان اور زياہ عجيب لگتا ہے_ اس كے لوہے كى سلاخوں كے دروازے صرف ايك دو گھنٹے كے ليئے وہ بھى فقط مرد زائرين كيلئے كھولے جاتے ہيں _
بہانے:
1_ قبروں كو مسجد نہيں بنانا چاہيے:
كبھى كہتے ہيں كہ قبروں پر عمارت بنانا انكى پرستش كا باعث بنتا ہے_ اور بنى اكرم(ص) كى يہ حديث اس كے جائز نہ ہونے پر دليل ہے'' لعن الله اليھود اتّخذوا قبور انبيائہم مساجد'' '' اللہ تعالى نے يہوديوں پر لعنت كى ہے كيونكہ انہوں نے اپنے انبياء كى قبروں كو مسجد بناليا تھا''(1)
سب مسلمانوں پر واضح ہے كہ كوئي بھى اوليائے الہى كى قبروں كى پوجا نہيں كرتا ہے_ اور زيارت اور عبادت كے درميان واضح فرق ہے_ ہم جس طرح زندہ لوگوں كى زيارت و ملاقات كے ليے جاتے ہيں بزرگوں كا احترام كرتے ہيں اور اُن سے التماس دُعا كرتے ہيں ايسے ہى مردوں كى زيارت كے ليئے بھى جاتے ہيں اور بزرگان دين اور شہداء فى سبيل اللہ كا احترام كرتے ہيں اور اُن سے التماس دعا كہتے ہيں_
كيا كوئي بھى عاقل يہ كہتا ہے كہ زندگى ميں بزرگوں كى زيارت اس طرح كرنا جس طرح كہ بتايا گياہے عبادت يا كفر و شرك ہے؟ مرنے كے بعد بھى انكى زيارت اسى طرح ہے_
------------------------
1) صحيح بخاري، جلد1، ص 110 يہى حديث '' و النصارى '' كے لفظ كے اضافہ كے ساتھ صحيح مسلم ميں بھى آئي ہے (جلد 2، ص 67)_
96
پيغمبر اكرم (ص) جنت البقيع ميں قبروں كى زيارت كے ليے جايا كرتے تھے اور كتب اہلسنت ميں بھى بہت سى روايات پيغمبر اكرم (ص) كى قبراور ديگر قبور كى زيارت كے بارے ميںذكر ہوئي ہيں_ اگر اللہ تعالى نے يہوديوں پر لعنت كى ہے اس كى وجہ يہ ہے كہ انہوں نے انبياء كى قبروں كو سجدہ گاہ ( سجدہ كا مقام ) قرار ديا تھا_ جبكہ كوئي بھى مسلمان كسى قبر كو اپنا سجدہ كا مقام قرار نہيں ديتا ہے_ قابل توجہ بات يہ ہے كہ آج بھى پيغمبر اسلام (ص) كا روضہ مبارك، مسجد نبوى كے ساتھ موجود ہے اور تمام مسلمان حتى كہ وہابى بھى اس روضہ مقدسہ ( مسجد نبوى كے اس حصے ميںجو آنحضرت(ص) كى قبر مبارك سے متّصل ہے ) كے ساتھ پانچ وقت واجب نمازيں اور اس كے علاوہ مستحبى نمازيں پڑھتے ہيں اور آخر ميں پيغمبر اكرم (ص) كى قبر كى زيارت كرتے ہيں _ كيا يہ كام قبروں كى پوجا شمار ہوتا ہے اور حرام ہے؟ يا يہ كہ پيغمبر اكرم(ص) كى قبر اس حرمت سے مستثنى ہے؟ كيا غير خدا كى پوجا كى حرمت كى دليليں بھى قابل استثناء ہيں؟
يقينا قبروں كى زيارت انكى عبادت شمار نہيں ہوتى ہے اور پيغمبر اكرم (ص) كى قبر مبارك كے ساتھ يا ديگر اولياء الہى كى قبروں كے نزديك نماز پڑھنے ميں كوئي حرج نہيں ہے اور مندرجہ بالا حديث ان لوگوں كے ساتھ مخصوص ہے جو واقعاً قبروں كى پوجا اور پرستش كرتے تھے _جو لوگ شيعوں كى اپنے آئمہ اطہار كى قبور كى زيارت كے ساتھ آشنا ہيں وُہ جانتے ہيں كہ جب واجب نمازوں كے اوقات ميں مؤذن اذان ديتا ہے تو سب رو بہ قبلہ كھڑے ہو كر ان نمازوں كو جماعت كے ساتھ انجام ديتے ہيں_ اور زيارت كرتے وقت سب سے پہلے سو مرتبہ تكبير كہتے ہيں اور زيارت كے بعد دو ركعت نماز زيارت رو بہ قبلہ انجام ديتے ہيں تا كہ ابتدا اور انتہاء ميں روشن ہوجائے كہ پرستش صرف اللہ تعالى كے ساتھ مخصوص ہے_
97
ليكن مقام افسوس يہ ہے كہ كچھ خاص مقاصد كى خاطر تہمت، افتراء اور جھوٹ كے دروازے كھول ديئےے ہيں اور وہابى حضرات جوكہ اقلّيت ميں ہيں اپنے تمام مخالفين پر قسم قسم كى تہمتيں لگاتے ہيں_ انكى باتوں كى بہترين توجيہہ ہم يہى كرسكتے ہيں كہ يہ لوگ كم علمى كى وجہ سے مسائل كى درست تحليل نہيں كر سكتے اور توحيد و شرك كى حقيقت كو خوب سمجھ نہيں پائے ہيں اور انہيںعبادت و زيارت ميں واضح طور پر فرق معلوم نہيں ہوسكا ہے_
2_ايك اور بہانہ:
صحيح مسلم سے ايك حديث نقل كرتے ہيں كہ ابوالھيّاج نے پيغمبر اكرم(ص) سے اسطرح حديث نقل كى ہے:
'' قال لى على ابن ابى طالب ا لا ابعثك على ما بعثنى عليہ رسول الله ا ن لا تدع تمثالاً الّاطمستہ و لا قبراً مشرفا الا سوّيتہ'' (1)
'' حضرت على نے مجھے فرمايا كيا تجھے وہ ذمہ دارى سونپوں جو مجھے رسول خدا(ص) نے سونپى تھي: كہ جہاں ( ذى روح) كى تصوير ديكھو مٹادو او ر جہاں كہيں اُبھرى ہوئي قبر ديكھو اسے صاف كردو''
اس حديث سے غلط مفہوم نكالنے كى وجہ سے بعض لوگوں نے بيلچے اٹھاليے اور تمام بزرگان دين كى قبريں ويران كرديں_ صرف پيغمبر اكرم(ص) اور پہلے و دوسرے خليفہ كى قبريں باقى رہنے ديں اور ايسے استثناء كے قائل ہوئے جس پر كوئي دليل موجود نہيں ہے_
----------------------------
1) صحيح مسلم، جلد 3 ص 61 يہ روايت اہلسنت كے بعض ديگر مصادر ميں بھى نقل ہوئي ہے_
98
ليكن اولا: اس حديث كى سند ميں كئي افراد ايسے ہيں جو رجال اہلسنت كے مطابق بھى مورد تائيد نہيں ہيں اور ان ميں سے بعض دھوكہ و فريب دينے والے شمار ہوتے ہيں جيسے بالخصوص '' سفيان ثورى '' اور '' ابن ابى ثابت''
ثانياً: بالفرض اگر يہ حديث صيح ہو تو اس كا مفہوم يہ ہے كہ قبر كى پشت صاف ہونى چاہئے (مچھلى كى پشت كى طرح ابھرى ہوئي نہيں ہونى چاہيے جيسا كہ كفار كى رسم تھى ) اور بہت سے اہل سنت فقہاء نے فتوى ديا ہے كہ قبر كى پشت صاف اور مسطّح ہونى چاہيے اور يہ بات مذكورہ بحث كے ساتھ مربوط نہيں ہے_
ثالثاً: فرض كرليتے ہيں كہ حديث كا مفہوم يہ ہے كہ قبر زمين كے ساتھ ہم سطح ہونى چاہيے اور بالكل اُبھرى ہوئي نہيں ہونى چاہيے _ ليكن اس مسئلہ كا قبروں پر عمارت بنانے سے كيا تعلق ہے؟ فرض كيجئے پيغمبر اكرم(ص) كى قبر مبارك كا پتھر زمين كے ساتھ ہم سطح اور اس كے ساتھ ساتھ يہ روضہ گنبد اور بارگاہ جو آجكل موجود ہے يہ بھى باقى ہو ان دونوں كے درميان كيا منافات ہے؟
جسطرح قرآن مجيد ميں پڑھتے ہيں كہ جس وقت اصحاب كہف كا راز فاش ہوگيا تو لوگوں نے كہا كہ ان كى قبروں پر عمارت بنائيں گے_ قرآن مجيد يوں فرماتا ہيں '' قال الذين غَلبُوا على أَمرہم لنتّخذّن عليہم مسجداً'' جو لوگ انكے واقعہ سے آشنا تھے كہنے لگے ان كے مقام پر مسجد بنائيں گے _(1)
قرآن مجيد نے مثبت اندازميں اس داستان كو نقل كيا اور اس پر اعتراض نہيں كياہے_ اس كا مطلب يہ ہے كہ بزرگان كى قبروں كے ساتھ مسجد بنانے ميں كوئي حرج نہيں ہے_
---------------------
1) سورة كہف آيت 21_
99
بزرگان دين كى قبور كى زيارت كے مثبت آثار
اگر لوگوں كو صحيح تعليم دى جائے كہ ہر قسم كے افراط وتفريط سے پرہيز كرتے ہوئے ان مزاروں كے پاس ياد خدا ميں رہيں اور اپنے گناہوں سے توبہ كرتے ہوئے اوليائے الہى كى افكار سے الہام ليں تو يقيناً يہ قبريں تعليم و تربيت كا مركز اور اللہ تعالى كى طرف توبہ اور تہذيب نفوس كا محور بن جائيں گيں_
يہ بات ہمارے ليے تجربہ شدہ ہے كہ ہر سال آئمہ اطہار اور شہدائے راہ حق كى قبور كى زيارت كو جانے والے لاكھوں زائرين، بہتر جذبہ اور نوراني، صاف اور پاكيزہ دل كے ساتھ واپس آتے ہيں اور اس زيارت كى نوارنيت ،كافى عرصہ تك انكے عمل سے نماياں ہوتى ہے_ اور جب يہ لوگ ان بزرگان كو درگاہ ربُّ العزّت ميں شفاعت كے ليے پكارتے ہيں اور اللہ تعالى سے اپنے گناہوں كى توبہ اور دينى و دنيوى حاجات طلب كرتے ہيں تو روحانى اورمعنوى رابطہ برقرار كرنے كى خاطرانكے ليے ضرورى ہوتا ہے كہ حتماً گناہوں سے دورى اختيار كريں اور نيكى و پاكى كے راستے پر چليں_ اسطرح يہ توسّل انكى نيكى كا باعث بنتا ہے_
علاوہ بر اين بزرگان كى طرف يہ توجّہ اور توسّل اور اللہ تعالى كى بارگاہ ميں ان سے شفاعت طلب كرنا انسان كو مشكلات كے مقابلے ميں باہمت بناتا ہے اور مايوسى و نااميدى كى راہ ميں ركاوٹ بنتا ہے اور اس كے جسمانى و روحانى درد و غم كا مداوا بنتا ہے_ اس كے علاوہ اور بہت سى بركتوں كا موجب بنتا ہے_
ہم زيارت، شفاعت اور توسّل والے مسائل ميں كج فہمى كى وجہ سے كيوں لوگوں كو ان روحانى وجسمانى اور معنوى بركتوں سے محروم كريں؟ كونسى عقل سليم اس بات كى اجازت ديتى
100
ہے؟ ان روحانى و معنوى منزلوں كو طے كرنے سے روكنا عظيم خسارے اور نقصان كا موجب بنے گا_ ليكن كيا كريں افسوس يہ ہے بعض لوگوں كے توحيد و شرك كے مسئلہ ميں بے جا وسواس نے بہت سے لوگوں كو اس عظيم فيض سے محروم كرديا ہے_
3:تبرّك كو چاہنا اور طلب كرناممنوع ہے_
بہانہ ديگر : جو لوگ بزرگان كى قبروں كى زيارت كے ليے جاتے ہيں اور ان قبور سے متبرك ہوتے ہيں اور كبھى قبر يا ضريح كو چومتے ہيں_ اس سے شرك كى بو آتى ہے_ اس ليئےاجى صاحبان نے ديكھا ہوگا كہ پيغمبر اكرم (ص) كى قبر مبارك كے نزديك ہر طرف سرسخت سپاہى كھڑے ہوتے ہيں اور نبي(ص) كے عاشقوں كو ان كى ضريح اور قبر مطہّر كى طرف كھلنے والى جالى كے نزديك جانے سے روكتے ہيں _كبھى اس حرمت كو '' ابن تيميہ'' اور '' محمد ابن عبدالوہاب'' كى طرف نسبت ديتے ہيں_ ہميں يقين ہے كہ اگر يہ دو افراد كہ جو وہابيت كے بانى ہيں رسولخدا(ص) كے زمانے ميں ہوتے اور صلح حديبيہ اور فتح مكہ كے موقع پر اپنى آنكھوں سے ديكھتے كہ جب آنحضرت(ص) وضو كرتے تو اصحاب كرام ايك دوسرے سے آگے بڑھ كر وضو كا پانى لينے كى كوشش كرتے تا كہ ايك قطرہ بھى زمين پر نہ گرے(1)
ايسا منظر ديكھ كر اگريہ افراد زبان سے اعتراض نہ كرسكتے تو دل ہى دل ميں ضرور كڑھتے اور يوں كہتے كہ يہ كام پيغمبر اكرم (ص) اور صحابہ كرام كى شان كے مطابق نہيں ہے اس سے تو شرك كى بو آتى ہے
------------------
1) يہ مسئلہ پيغمبر اكرم(ص) كى زندگى ميں كئي مرتبہ وقوع پذير ہوا ( صحيح مسلم، جلد 4 ، ص 1943 اور كنز العمال ،جلد 16 ص 249 كى طرف رجوع كياجائے)_
101
اور يا اگريہ لوگ نبى اكرم (ص) كى رحلت كے بعد مدينہ ميں ہوتے تو اپنى آنكھوں سے ديكھتے كہ آنحضرت(ص) كے سب سے پہلے ميزبان جناب ابوايوب انصارى قبر مبارك پر رخسار ركھ كے تبرك حاصل كرتے تھے_(1) يا حضرت بلال مؤذّن آنحضرت (ص) كى قبر كے نزديك بيٹھ كر شديد گريہ كرتے تھے اور شدت غم كيوجہ سے اپنا چہرہ قبر مبارك پر رگڑ تے تھے_(2) وہابى حضرت، بلال اور ابو ايوب انصارى كا گريبان پكڑ كر انہيں دور دھكيلتے كہ يہ كام شرك ہے_ وہى كام كہ جو آجكل اس مكتب كے پيروكار رسولخدا(ص) كے زائرين كے ساتھ كرتے ہيں_
حالانكہ تبرك حاصل كرنے كا پرستش و پوجا كے ساتھ ذرہ بھر بھى كوئي تعلق نہيں ہے بلكہ اس تبرك كا مطلب ايك قسم كا احترام و ادب ہے_ اس اميد كے ساتھ كہ جس خدا نے اپنے رسول(ص) كو مبعوث فرمايا ہے اس ادب و احترام كى خاطر زيارت كرنيوالے پر اپنى رحمت و بركت نازل فرمائے_
علمائے اسلام كى اہم ذمہ داري:
اس وجہ سے كہ عوام الناس كے بعض كاموں كى وجہ سے مخالفين كو بہانہ مل جاتا ہے اس ليے تمام علماء اعلام اور دانشمند حضرات كى يہ ذمہ دارى بنتى ہے كہ عوام كو پيغمبر اكرم(ص) ، آئمہ بقيع اور ديگر آئمہ اطہار و شہدائے اسلام كى قبور مباركہ كے نزديك غير سنجيدہ حركات كرنے سے روكيں اور انہيں زيارت، توسّل ، تبرك اور شفاعت كے حقيقى مفہوم كى تعليم ديں_
------------------------
1) مستدرك الصحيحين ، جلد 4 ، ص 560_
2) تاريخ ابن عساكر، جلد 7 ص 137_
102
تمام لوگوں پر يہ واضح كرديں كہ تمام امور اللہ تعالى كے اختيار ميں ہيں اور وہى ذات مسبّب الاسباب ،قاضى الحاجات، كاشف الكربات اور كافى المہمات ہے_ اگر ہم پيغمبر اكرم (ص) اورآئمہ اطہار كے ساتھ توسل كرتے ہيں تو يہ ذوات مقدّسہ بھى اذن پروردگار اور اس كى مدد كے ساتھ ہر كام انجام ديتے ہيں_ يا اس كے حضور ہمارى شفاعت اور اس سے ہمارى حاجات كے برآنے كا تقاضا كرتے ہيں_
عوام ميں سے بعض لوگوں كا ان قبور مقدسہ كے سامنے سجدہ كرنا يا ايسے جملے ادا كرنا جن سے انكى الوہيّت كى بو آتى ہو يا ضريح پر كسى چيز سے گرہ لگانا و غيرہ يہ تمام ناشائستہ امور ہيں اور ان سے مشكل ايجاد ہوتى ہے_ اور ايك مثبت اور انتہائي تعميرى كام ( زيارت) كا چہرہ مسخ ہوجاتا ہے اور تجھ مجھ كو بہانہ مل جاتا ہے جس كى وجہ سے وہ تمام لوگوں كو زيارت كى بركتوں سے محروم كرديتے ہيں_
|