شيعہ جواب ديتے ہيں
41
3
عدالت صحابہ

43
اس ميں كوئي شك و شبہہ نہيں ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) كے اصحاب خصوصى امتيازات سے بہرہ مند تھے _ وحى الہى اور آيات كو پيغمبر اكرم(ص) كى زبان مبارك سے سنتے تھے_ آنحضرت(ص) كے معجزات كا مشاہدہ كرتے تھے _اور آپكى قيمتى باتوں كے ذريعے پرورش پاتے تھے آنحضرت (ص) كے عملى نمونوں اور اسوہ حسنہ سے بہرہ مند تھے _
اسى وجہ سے انكے در ميان ايسى بزرگ اور ممتاز شخصيات نے تربيت پائي كہ جہان اسلام جنكے وجود پر فخر و مباہات كرتا ہے _ ليكن اہم مسئلہ يہ ہے كہ كہ كيا تمام اصحاب بغير كسى استثناء كے مومن،صالح،سچے،درستكار اور عادل افراد تھے يا ان كے در ميان غير صالح افراد بھى موجود تھے _

1_ دو متضاد عقيدے :
صحابہ كے بارے ميں دو مختلف عقيدے موجود ہيں : پہلا عقيدہ يہ كہ تمام اصحاب بغير كسى استثناء كے پاكيزگى و طہارت كے نور سے منور ہيں اور سب ہى صالح، عادل ، باتقوى اور صادق تھے _ اسى وجہ سے ان ميں سے جو بھى پيغمبر اكرم(ص) سے حديث نقل كرے صحيح اور قابل قبول ہے _ اور ان پر كوئي چھوٹا سا اعتراض بھى نہيں كيا جا سكتا ہے اور اگر ان سے غلط كام سرزد ہوجائے تو ان كى توجيہ كرنا چاہيئے_يہ اہل سنت كے اكثر گروہوںكا عقيدہ ہے _

44
دوسرا عقيدہ يہ ہے كہ اگر چہ ان كے در ميان باشخصيت،فداكار،پاك اور باتقوى افراد موجود تھے ليكن منافق اور غير صالح افراد بھى موجود تھے _اور قرآن مجيد اور پيغمبر اكرم (ص) نے ان سے اظہار بيزارى كيا ہے _
با الفاظ ديگر اچھے اور برے كى تشخيص كا جو معيار ہر جگہ استعمال ہوتا ہے وہى معيار ہم يہاں بھى جارى كريں گے _ ہاں چونكہ يہ پيغمبر اكرم(ص) كے اصحاب تھے اس لئے ان كے بارے ميں ہمارا اصلى و بنيادى نظريہ يہ ہوگا كہ يہ نيك و پاك افراد ہيں ،ليكن اس كے با وجود ہم حقائق سے ہرگز چشم پوشى نہيں كريں گے _اور عدالت و صدق سے منافى اعمال كے صدورپر غض بصر نہيں كريں گے _چونكہ يہ كام ،اسلام اور مسلمين پر ايك كارى ضرب لگا تا ہے اور اسلام كى چار ديوارى ميں منافقين كے داخلہ كا سبب بنتا ہے_
مذہب شيعہ اور اہلسنت كے روشن فكر علماء كے ايك گروہ نے اس عقيدہ كا انتخاب كيا ہے_

2_تنزيہ كے سلسلہ ميں شدّت پسندي:
تنزيہ صحابہ والے نظريہ كے طرفداروں كے ايگ گروہ نے اتنى شدت اختيار كى ہے كہ جو بھى اصحاب پر تنقيد كر دے اسے فاسق اوركبھى ملحد اور زنديق شمار كرتا ہے اور يا اس كا خون بہانا مُباح سمجھتا ہے_
من جملہ ابو زرعہ رازى كى كتاب '' الاصابة'' ميں يوںملتا ہے:'' اگر ديكھو كوئي شخص اصحاب پيغمبر(ص) ميں سے كسى پر تنقيد كر رہا ہے تو جان لو كہ وہ زنديق ہے_ يہ فتوى اس لئے ہے چونكہ رسولخدا(ص) حق اور قرآن حق ہے اور جو كچھ پيغمبر پر نازل ہوا حق ہے اور ان تمام چيزوں كو

45
صحابہ نے ہم تك پہنچايا ہے اور يہ ( مخالفين) چاہتے ہيں ہمارے شہود (گواہوں) كو بے اعتبار كرديں تا كہ كتاب و سنت ہاتھ سے چلى جائے''(1)
'' عبداللہ موصلى '' اپنى كتاب '' حتى لا ننخدع '' ميں يوں رقمطراز ہيں'' يہ اصحاب ايسا گروہ ہے جنہيں اللہ تعالى نے اپنے پيغمبر(ص) كى ہم نشينى اور دين و شريعت كے قوام كے ليے چُن ليا ہے_ اور انہيں پيغمبر(ص) كا وزير قرار ديا ہے_ انكى محبت كو دين و ايمان اور انكے بُغض كو كفر و نفاق شمار كيا ہے اور امت پر واجب كيا ہے كہ ان سب كو دوست ركھيں اور ہميشہ انكى خوبياں اور فضائل بيان كريں اور انكى آپس ميں جو جنگيں اور جھگڑے ہوئے ہيں ان پر خاموشى اختيار كريں'' (2)
عنقريب روشن ہو جائيگا كہ يہ بات قرآن و سنت كے خلاف ہے_

3_ لا جواب سوالات:
ہر عقلمند اور منصف مزاج انسان جو ہر بات كو بغير دليل اور آنكھيں بند كر كے قبول نہيں كرتا اپنے آپ سے يہ سوالات كرتا ہے_
اللہ تعالى قرآن مجيد ميں ازواج پيغمبر(ص) كے بارے ميں يوں فرماتا ہے كہ:
'' يَانسائَ النّبى مَن يَات منكُنَّ بفاحشة: مبيّنة: يُضاعَفُ لَہَا العذابُ ضعفَين و كانَ ذلك على الله يسيراً'' (3)
---------------------------
1) الاصابہ ، جلد 1، ص 17_
2) حتى لاننخدع ، ص 2_
3)سورہ احزاب، آيت 30_

46
اے ازواج رسول(ص) تم ميں سے جس نے بھى كھلم كھلا گناہ كيا اس كى سزا دو برابر ہوگى اور يہ بات اللہ تعالى كے ليے انتہائي آسان ہے_
ہم صحابہ كى جو بھى تفسير كريں ( عنقريب اصحاب كى مختلف تعريفيں بيان ہونگي) بلاشك ازواج نبي(ص) اصحاب كا روشن ترين مصداق ہيں_
قرآن مجيد كہتا ہے كہ نہ صرف يہ كہ انكے گناہوں سے چشم پوشى نہيں كى جائے گى بلكہ انكى سزا دوبرابر ہوگي_
كيا ہم اس آيت پريا نظريہ تنزيہ كے طرفداروں كى بلا مشروط حمايت پريقين ركھيں؟
نيز قرآن مجيد ،شيخ الانبياء حضرت نوح _ كے فرزند كے بارے ميں اس كى غلطيوں كى وجہ سے يوں فرماتا ہے '' إنّہ عملٌ غيرُ صالح:'' وہ غير صالح عمل ہے _(1)
اور جناب نوح (ع) كو خبردار كيا گيا كہ اس كى شفاعت نہ كريں
كيا ايك نبي(ع) كا فرزند اہم ہوتا ہے يا اس كے اصحاب و اعوان؟
حضرت نوح اور لوط عليہما السلام كى بيويوں كے بارے ميں قرآن مجيد يوں كہتا ہے:
'' وَ فَخَانَتاہُما فلم يُغنيَا عنہما من الله شَيئاً و قيلَ ادخُلا النّارَ مع الدَّاخلين''(2)
ان دو نے اپنے شوہروں ( نوح (ع) اور لوط(ع) ) كے ساتھ خيانت كى ( اور دشمنوں كا ساتھ ديا) اور وہ دو پيغمبر انكى شفاعت نہ كر سكے اور ان دونوں كو حكم ديا گيا كہ دوزخيوں كے ساتھ آگ ميں داخل ہوجاؤ_
-------------------
1) سورة ہود آيت 46_
2)سورة تحريم آيت 10_

47 كيا يہ آيات صراحت كے ساتھ بيان نہيں كر رہيں كہ افراد كى خوبى اور بدى كا معيار انكا اپنا ايمان اور عمل ہے_ حتى كہ اگر بُرے اعمال ہوں تو نبي(ع) كى بيوى يا بيٹا ہونا بھى جہنم ميں جانے سے نہيں روك سكتا_
اس كے باوجود كيا صحيح ہے كہ ہم آنكھيں بند كرليں اور كہيں كہ فلاں شخص چونكہ كچھ عرصہ كے ليئے بنى (ص) كا صحابى رہا ہے لہذا اس كى محبت دين و ايمان اور اس كى مخالفت كفر و نفاق ہے_ چاہے وہ صحابى بعد ميں منافقين كى صف ميں داخل ہوگيا ہو اور اس نے نبى اكرم(ص) كا دل دكھايا ہو اور مسلمانوں كے ساتھ خيانت كى ہو_ كيا عقل و خرد اس بات كو قبول كرتى ہے؟
اگر كوئي كہے كہ طلحہ و زبير ابتدائ-ے اسلام ميں اچھے انسان تھے ليكن جس وقت حكومت كى ہوس اُن پر سوار ہوئي تو انہوں نے زوجہ رسول(ص) ( حضرت عائشےہ) كواپنے ساتھ ليا اور حضرت علي(ع) كے ساتھ اپنى بيعت و پيمان توڑ ڈالى حالانكہ تقريبا تمام مسلمانوں نے ان كے ہاتھ پر بيعت كرلى تھي_ پھر انہوں نے جنگ جمل كى آتش كو بھڑ كايا اور اس طرح سترہ ہزار مسلمان اس جنگ كا لقمہ بن گئے_ پس يہ لوگ راہ راست سے منحرف ہوگئے تھے اور اس عظيم تعداد كا خون انكى گردن پر ہے اور قيامت كے دن يہ جوابدہ ہونگے_

كيا يہ بات حقيقت كے خلاف ہے؟
يا اگر كوئي كہے چونكہ معاويہ نے حضرت على (ع) كى بيعت كى خلاف ورزى كى اور جس خلافت كو تمام مسلمانوں نے قبول كر ليا تھا تو اس نے انكار كيا اور جنگ صفين كى آگ بھڑكائي جس ميں ايك لاكھ سے زيادہ مسلمان لقمہ اجل بن گئے_ لہذا معاويہ سمتگر آدمى تھا_ كيا يہ بات نا حق ہے؟

48
كيا تاريخ كے ان تلخ حقائق سے چشم پوشى كى جاسكتى ہيں_ يا ان غلط توجيہات كى خاطر كہ جنہيں كوئي بھى عقلمند آدمى قبول نہيں كرتا ان نہايت افسوس ناك حوادث سے صرف نظر كيا جاسكتا ہے؟ كيا '' عبداللہ موصلى كے بقول ايسے افراد كى محبت، دين و ايمان ہے اور انكا بغض كفر و نفاق ہے؟
كيا ہمارا فريضہ يہ ہے كہ ان غلط كاموں كے سامنے جو ہزاروں مسلمانوں كے قتل كے موجب بنے ہيں سكوت اختيار كريں؟ كونسى عقل يہ حكم لگاتى ہے؟ قرآن مجيد كہتا ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) كے گرد جمع ہونے والوں ميں منافق لوگ بھى تھے كيا ان آيات قرآن سے چشم پوشى كرليں؟
قرآن مجيد يوں فرماتا ہے :
'' و ممَّن حَولَكم من الأعراب مُنافقُونَ و من أہل المدينة مَرَدُوا على النّفاق لا تَعلَمُہُم نَحنُ نَعلَمُہُم ...''(1)
كيا آپ يہ توقع ركھتے ہيں كہ اس قسم كى منطق كو دنيا كے عقلمند انسان قبول كرليں؟

4: صحابہ كون ہيں؟
اس مقام پر ايك اور اہم نكتہ مفہوم '' صحابہ'' ہے_
صحابہ كہ جن كے بارے ميں طہارت و پاكيزگى كى بات كى جاتى ہے تو مسئلہ يہ ہے كہ صحابہ سے كون لوگ مراد ہيں _اس سلسلہ ميں علمائے اہل سنت كى جانب سے مكمل طور پر مختلف تعريفيں بيان كى گئي ہيں_
-----------------------
1)سورہ توبہ آيت 101_

49
1_ بعض نے تو اس كے مفہوم كو بہت وسيع كرديا ہے _وہ كہتے ہيں كہ مسلمانوں ميں سے جس نے بھى آنحضرت (ص) كو ديكھا ہے وہ آپ (ص) كاصحابى ہے
اسى تعبير كو '' بخاري'' نے ذكر كيا ہے وہ يوں لكھتے ہيں '' من صَحَبَ رسولُ الله او رآہ من المسلمين فہو من أصحابہ''
اہل سنت كے معروف عالم جناب احمد بن حنبل نے بھى صحابى كے مفہوم كو بہت وسيع بيان كيا ہے وہ لكھتے ہيں ''أصحابُ رسول الله كلُّ منَ صَحَبہ ، شَہراً أو يَوماً أو سَاعَةً أو رَآہ''
''رسولخدا(ص) كا صحابى وہ ہے كہ جس نے رسولخدا(ص) كى صحبت اختيار كى ہو چاہے ايك ماہ ايك دن يا حتى ايك گھنٹے كيلئے بھى بلكہ اگر كسى نے آنحضرت(ص) كى زيارت كى ہو وہ بھى صحابى ہے''
2_ بعض علماء نے صحابى كى تعريف كو محدود انداز ميں پيش كيا ہے مثلا '' قاضى ابوبكر محمد ابن الطيّب'' لكھتے ہيں كہ اگرچہ صحابى كا لغوى معنى عام ہے ليكن اُمت كے عرف عام ميں اس اصطلاح كا اطلاق صرف اُن افراد پرہوتا ہے جو كافى عرصہ تك آنحضرت(ص) كى صحبت ميں رہے ہوںنہ ان لوگوں پركہ جو صرف ايك گھنٹہ كى محفل ميں بيٹھاہو يا آپ(ص) كے ساتھ چند قدم تك چلا ہو يا اُس نے ايك آدھ حديث آنحضرت(ص) سے سُن لى ہو''_
3_ بعض علماء نے صحابى كى تعريف كا دائرہ اس سے بھى زيادہ تنگ كرديا ہے جيسے'' سعيد بن المسيّب'' لكھتے ہيں كہ '' پيغمبر (ص) كا صحابى وہ ہے جو كم از كم ايك يا دو سال آنحضرت(ص) كے ساتھ رہا ہو اور ايك يا دو غزووں ميں اس نے آنحضرت(ص) كے ساتھ شركت كى ہو''(1)
-----------------------------
1) تفسير قرطبي، جلد 8، ص 237_

50
ان تعاريف اور ديگر تعريفوں ميں كہ جنہيں طوالت كے خوف كيوجہ سے ذكر نہيں كيا جا رہا ہے مشخّص نہيں ہے كہ اس قداست كے دائرے ميں آنے والے افراد كون سے ہيں_ اكثر علماء نے اسى وسيع معنى كو اختيار كيا ہے_اگرچہ ہمارى مدّ نظر ابحاث ميں ان تعريفوں كے اختلاف سے زيادہ فرق نہيں پڑتا ہے_ جيسا كہ عنقريب روشن ہوجائيگا كہ سيرت رسول(ص) كى خلاف ورزى كرنيوالے اكثروہ افراد ہيں جو كافى عرصہ تك آپ(ص) كے ہمنشين رہے ہيں_

5:''عقيدہ تنزيہ كا اصلى سبب''
اس كے باجود كہ اصحاب كى اس حد تك پاكيزگى كا عقيدہ ركھنا كہ جو بعض لحاظ سے عصمت كے مشابہ ہے نہ تو قرآن مجيد ميں اس كا حكم آيا ہے نہ احاديث ميں بلكہ قرآن ، سنت اور تاريخ سے اس كے برعكس مطلب ثابت ہے حتى كہ كہا جاسكتا ہے كہ پہلى صدى ميں اس قسم كا كوئي عقيدہ موجود نہيں تھا_ تو پھر ديكھنا يہ ہے كہ بعد والى صديوں ميں يہ مسئلہ كيوں اور كس د ليل كى بناپرپيش كيا گياہے؟
ہمارے خيال كے مطابق اس عقيدہ كے انتخاب كى چند وجوہات تھيں
1_ اگر كمال حُسن ظن سے كام ليا جائے تو ايك وجہ تو يہى ہے جسے سابقہ ابحاث ميں ذكر كيا گيا ہے كہ بعض لوگ گمان كرتے ہيں كہ اگر صحابہ كرام كا تقدس پائمال ہوجائے تو انكے اور پيغمبر(ص) كے درميان حلقہ اتصال ٹوٹ جائے گا_كيونكہ قرآن مجيد اور پيغمبر اكرم(ص) كى سنت انكے واسطہ سے ہم تك پہنچى ہے_
ليكن اس بات كا جواب بالكل واضح ہے كيونكہ كوئي بھى مسلمان معاذ اللہ تمام اصحاب كو غلط اور كاذب نہيں كہتا ہے كيونكہ انكے درميان ثقہ اور مورد اطمينان افراد كثرت كے ساتھ

51
تھے،وہى بااعتماد افراد ہمارے اور پيغمبر اكرم(ص) كے درميان حلقہ اتصال بن سكتے ہيں_ جس طرح ہم شيعہ، اہلبيت(ع) كے اصحاب كے بارے ميں يہى نظريہ ركھتے ہيں_
دلچسپ بات يہ ہے كہ بعد والى صديوں ميں بھى يہى مشكل موجود ہے كيونكہ آج ہم كئي واسطوں كے ذريعے اپنے آپ كو زمانہ پيغمبر(ص) كے ساتھ متّصل كرتے ہيں_ ليكن كسى نے دعوى نہيں كيا كہ يہ تمام واسطے ،ثقہ اور صادق ہيں اور ہر صدى كے لوگ بڑے مقدس تھے اور اگر ايسا نہ ہوتو ہمارا دين متزلزل ہوجائيگا_
بلكہ سب يہى كہتے ہيں كہ روايات كو ثقہ اور عادل افراد سے اخذ كرنا چاہيئے_
علم رجال كى كتب تحرير كرنے كا مقصد يہى ہے كہ ثقہ كو غير ثقہ سے ممتاز كيا جاسكے_
تواب كيا مشكل ہے كہ اصحاب كرام كے بارے ميں بھى ہم وہيطريقہ عمل اختيار كريں جو ان سے بعد والوں كے بارے ميں اختيار كرتے ہيں؟
2: بعض لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ بعض صحابہ كے بارے ميں ''جرح'' يعنى انكے نقائص بيان كرنے اور ان پر تنقيد كرنے سے پيغمبر اسلام(ص) كے مقام و منزلت ميں كمى واقع ہوتى ہے_ اس ليے اصحاب پر تنقيد جائز نہيں ہے_
جو لوگ اس دليل كا سہارا ليتے ہيں ان سے ہمارا سوال يہ ہے كہ كيا قرآن مجيد نے پيغمبر(ص) كے گرد جمع ہونے والے منافقين پر شديد ترين حملے نہيں كيے ہيں؟ كيا آنحضرت(ص) كے خالص اور صادق اصحاب كے درميان منافقين كى موجودگى كى وجہ سے آپ(ص) كى شان ميں كمى واقع ہوئي ہے؟ ہرگزايسا نہيں ہے
خلاصہ يہ كہ ہميشہ اور ہر زمانے ميں حتى تمام انبياء كے زمانوں ميں اچھے اور بُرے افراد

52
موجود تھے_ اور انبياء كے مقام و منزلت پر اس سے كوئي فرق نہيں پڑتا تھا_
3_ اگر اصحاب كے اعمال پر جرح و تنقيد كا سلسلہ شروع ہوجائے تو بعض خلفاء راشدين كى شخصيت پر حرف آتا ہے_اس لئے ان كے تقدس كى حفاظت كيلئے صحابہ كى قداست پر تاكيد كرنا چاہئے تا كہ كوئي شخص مثلا حضرت عثمان كے اُن كاموں پر اعتراض نہ كرے جو بيت المال كے بارے ميں اور اس كے علاوہ ان كے دور حكومت ميں وقوع پذير ہوئے اور يہ نہ كہے كہ انہوں نے ايسا كيوںكيا_
يہاںتك كہ اس قداست كے قالب ميں معاويہ اور اس كے اقدامات ;جيسے كہ اس نے خليفہ رسول(ص) حضرت على _ كى مخالفت كى اور اُن كے ساتھ جنگيں كيں اور مسلمانوں كے قتل عام كا موجب بنا;كى توجيہ كى جاسكے، اور اس ہتھيار كے ذريعے ايسے افراد كو تنقيد سے بچايا جاسكے_ البتہ اس سے پتہ چلتا ہے كہ اس قداست والے مسئلہ كى بنياد ابتدائي صديوں كے سياستدانوں نے ركھي_ جسطرح انہوں نے كلمہ '' اولى الامر'' كى تفسير، ''حاكم وقت'' كى تا كہ بنو اميہ اور بنو عباس كے ظالم حكام كى اطاعت كو بھى ثابت كيا جاسكے نيز يہ حكام كا سياسى پروگرام اور لائحہ عمل تھا_ ہمارا يہ خيال ہے كہ ايسى باتوں سے ان كا مقصدسب صحابہ كو بچانا نہ تھا بلكہ اپنے مورد نظر افراد كى حمايت مقصود تھي_
4_ بعض لوگ يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ اصحاب كے تقدس كا عقيدہ قرآن مجيد اور سنت نبوي(ص) كے فرمان كے مطابق ہے كيونكہ قرآن مجيد كى بعض آيات اوربعض احاديث ميں يہ مسئلہ بيان كيا گيا ہے_
اگرچہ يہ بہترين توجيہ ہے ليكن جب ہم ادّلہ كى تحقيق كرتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے كہ ان آيات و روايات ميں جس چيز كو وہ ثابت كرنا چاہتے ہيں موجود نہيں ہے_سب سے اہم آيت

53
جس كو دليل كے طور پر ذكر كيا گيا ہے مندرجہ ذيل آيت ہے:
'' و السابقون الاوّلون من المُہاجرينَ و الأنصار وَ الَّذين اتّبعُوہُم إےحسان رَضى الله عنہم و رَضُو عنہ و أعَدَّ لہم جَنّات: تَجرى تَحتہَا الأنہارُ خالدين فيہا أبداً ذلك الفَوزُ العظيم'' (1)
مہاجرين اور انصار ميں سے سبقت كرنے والے اور جنہوں نے نيكى كے ساتھ انكى پيروى كى اللہ تعالى ان سے راضى ہے اور وہ خدا سے راضى ہيں اور اللہ تعالى نے انكے لئے باغات تيار كر ركھے ہيں جنكے نيچے نہريں بہہ رہى ہيں يہ ہميشہ ان ميں رہيں گے اور يہ بہت بڑى كاميابى ہے _
اہلسنت كے بہت سے مفسّرين نے اس آيت كے ذيل ميں ( بعض صحابہ اور پيغمبر(ص) اكرم سے حديث ) نقل كى ہے جس كا مضمون يہ ہے كہ '' جميع أصحاب رسول الله فى الجنّة مُحسنہم ومُسيئہم'' اس حديث ميں مذكورہ بالا آيت سے استناد كيا گيا ہے_ (2)
دلچسپ يہ ہے كہ مذكورہ بالا آيت كہتى ہے كہ تابعين اس صورت ميں اہل نجات ہيں جب نيكيوں ميں صحابہ كى پيروى كريں ( نہ برائيوں ميں) اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ صحابہ كے ليے بہشت كى ضمانت دى گئي ہے _كيا اس كا مفہوم يہ ہے كہ وہ گناہوں ميں آزاد ہيں؟
جو پيغمبر(ص) ، لوگوں كى ہدايت اور اصلاح كے لئے آيا ہے كيا ممكن ہے كہ وہ اپنے دوستوں كو استثناء كر دے اور ان كے گناہوں سے چشم پوشى كرے_ حالانكہ قرآن مجيد ،ازواج رسول(ص) كے بارے ميں فرماتا ہے كہ جو سب سے نزديك صحابيہ تھيں، اگر تم نے گناہ كيا تو تمہارى سزا دو
-----------------------
1) سورة توبہ آيت 100_
2) تفسير كبير فخر رازى و تفسير المنار ذيل آيت مذكورہ_

54
برابر ہے_(1)
قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ اگر اس آيت ميں كسى قسم كا ابہام بھى ہو تو اسے سورة فتح كى آيت نمبر 29 رفع كر ديتى ہے كيونكہ يہ آيت پيغمبر اكرم(ص) كے سچّے اصحاب كى صفات بيان كر رہى ہے_
''أشدَّاء عَلى الكفّار رُحَمَائُ بَينَہُم تراہُم رُكَّعاً سُجَّداً يَبتَغُونَ فَضلاً منَ الله و رضوَاناً سيمَاہُم فى وُجُوہہم من أثَر السُجُود''
يہ لوگ كفار كے مقابلے ميں شديد اور زبردست ہيں اور آپس ميں مہربان ہيں انہيں ہميشہ ركوع و سجود كى حالت ميں ديكھو گے اس حال ميں كہ مسلسل فضل و رضائے خدا كو طلب كرتے ہيں_ سجدہ كے آثار ان كے چہروں پر نماياں ہيں''_
جنہوں نے جمل و صفّين جيسى جنگوں كى آگ بھڑكائي اور امام وقت كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے اورہزاروں مسلمانوں كو قتل كرايا_ كيا وہ ان سات صفات كے مصداق تھے؟ كيا وہ آپس ميں مہربان تھے؟ كيا انكے عمل كى شدت كفار كے مقابلے ميں تھى يا مسلمانوں كے مقابلے ميں؟
اللہ تعالى نے اسى آيت كے ذيل ميں ايك جملہ ارشاد فرمايا ہے جو مقصود كو مزيد روشن كرتا ہے
''وَعَدَ الله الّذين آمَنُو و عَملُو الصّالحات منہم مَغفرَةً و أجراً عَظيماً''(2)
اللہ تعالى نے ( ان اصحاب ميں سے) جو ايمان لائے اور اعمال صالح انجام ديتے
----------------------
1) سورہ احزاب آيہ 30_
2) سورہ فتح آيہ 29_

55 رہے ان سے مغفرت اور اجر عظيم كا وعدہ ديا ہے_
پس واضح ہوگيا كہ مغفرت اور اجر عظيم كا وعدہ صرف ان لوگوں كے ليے ہے جو با ايمان اور اعمال صالح انجام ديتے ہيں_ جن لوگوں نے جنگ جمل ميں مسلمانوں كو قتل كيا اور اس جيسى جنگوں كو بھڑكايا اور حضرت عثمان كے دور ميں بيت المال كو ہڑپ كيا وہ كيا اعمال صالح انجام دينے والے تھے؟
قابل توجہ بات يہ ہے كہ اللہ تعالى نے اپنے اولوالعزم پيغمبروں كا ايك ترك اولى كى خاطر مؤاخذہ كياہے _ حضرت آدم(ع) كو ايك ترك اولى كى خاطر بہشت سے نكال ديا_ حضرت يونس (ع) كو ايك ترك اولى كى خاطر ايك عرصہ مچھلى كے پيٹ ميں ،تين اندھيروں ميںبند ركھا_
حضرت نوح (ع) كو اپنے گناہ گار بيٹے كى سفارش پر تنبيہ فرمائي_تو اب كيا يہ يقين كرنے كى بات ہے كہ اصحاب پيغمبر(ص) اس قانون سے مستثنى ہوں_

6_ كيا تمام اصحاب بغير استثناء كے عادل تھے؟:
جيسا كہ بيان كيا گيا ہے اكثر برادران اہلسنت اسى بات كے قائل ہيں كہ تمام صحابہ يعني
جو پيغمبر اكرم(ص) كے زمانے ميں تھے يا جنہوں نے آپ(ص) كے زمانے كو پويا اور كچھ عرصہ تك آپ(ص) كے ساتھ رہے ہيں بغير كسى استثناء كے مقام عدالت پر فائز تھے اور قرآن مجيد اسى بات كى گواہى ديتا ہے_
مقام افسوس يہ ہے كہ ان بھائيوں نےقرآن كى كچھ اُن آيات كو جو ان كے نفع ميں تھيں قبول كر ليا ہے ليكن دوسرى آيات سے انہوں نے چشم پوشى كى ہے اُن آيات سے جن ميں اس

56
بات سے استثناء موجود ہے ( جيسا كہ واضح ہے كہ ہر عموم كے لئے عام طور پر استثناء موجود ہوتا ہے)_
ہم عرض كريں گے:
كہ يہ كيسى عدالت ہے جس كے خلاف قرآن مجيد نے بارہا گواہى دى ہے _ من جملہ سورة آل عمران كى آيت 155 ميں يوں بيان ہوا ہے_
'' انّ الّذين تَوَلَّوا منكُم يَومَ التقيَ الجَمعَان انّما إستَزَلَّہُم الشَيطانُ ببَعض مَا كَسَبُوا وَ لَقَد عَفاَ الله عنہم إنّ الله غفورٌ حَليم''
اس آيت ميں ان لوگوں كى طرف اشارہ كيا گيا ہے جو جنگ اُحد كے دن فرار كر گئے اور پيغمبر اكرم(ص) كو دشمن كے مقابلہ ميں تنہا چھوڑ گئے تھے_ آيت فرماتى ہے '' جو لوگ دو لشكروں كے روبرو ہونے والے دن ( يعنى جنگ احد ميں ) فرار كر گئے تھے_ شيطان نے انہيں انكے بعض گناہوں كى وجہ سے بہكا ليا اللہ تعالى نے انہيں معاف كرديا چونكہ اللہ تعالى بخشنے والا اور بردبار ہے''_
اس آيت سے بخوبى واضح ہوجاتا ہے كہ اُس دن ايك گروہ فرار كر گيا تھا اور تاريخ ميں اس گروہ كى تعداد بہت زيادہ ذكر كى گئي ہے اور دلچسپ يہ ہے كہ قرآن مجيد كہتا ہے شيطان نے ان پر غلبہ كيا اور يہ غلبہ انكے اُن گناہوں كى وجہ سے تھا جس كے وہ پہلے مرتكب ہوچكے تھے_ اس سے پتہ چلا كہ سابقہ گناہ ايك بڑے گناہ يعنى غزوہ سے فرار اور ميدان اور دشمنسے پشت كركے فرار كرنے كا موجب بنے_ اگرچہ آيت كا ذيل يہ ہے كہ اللہ تعالى نے انہيں بخش ديا_

57
يہ بخشش پروردگارپيغمبر اكرم(ص) كى وجہ سے تھي_
اس كا يہ مطلب نہيں كہ وہ عادل تھے اور انہوں نے گناہ نہيں كيا_ بلكہ صراحت كے ساتھ قرآن مجيد فرما رہا ہے كہ انہوں نے متعدّد گناہ كيئے_
يہ كيسى عدالت ہے كہ اللہ تعالى قرآن مجيد ميں سورة حجرات كى آية نمبر 6 ميں بعض كو فاسق كے عنوان سے ياد كر رہا ہے:
''يا ايّہا الّذين آمَنُو إن جاء كُم فاسقٌ بنَبا فَتَبَيَّنُوا أن تُصيبُوا قوماً بجہالة فَتُصبحُوا على مَا فَعَلتُم نَادمين''
اے ايمان والو اگر كوئي فاسق تمہارے پاس خبر لے كر آئے تو اس كے بارے ميں تحقيق كرو كہيں ايسا نہ ہو كہ لا علمى ميں تم لوگ كسى كونقصان پہنچا بيٹھواور پھر بعد ميں اپنے كيے پر پشيمان ہو''
مفسّرين كے درميان مشہور ہے كہ يہ آيت '' وليد بن عُقبہ كے بارے ميں نازل ہوئي ہے_ پيغمبر اكرم' نے اسے ايك جماعت كے ساتھ '' بنى المصطلق'' قبيلہ كے پاس زكات كى جمع آورى كے ليئے بھيجا_ واپسى پر وليد نے كہا كہ وہ زكوة نہيں ديتے اور اسلام كے خلاف انہوں نے قيام كرليا ہے مسلمانوں كے ايگ گروہ نے وليد كى بات پر يقين كرليا اور اس قبيلہ كے ساتھ جنگ كے ليے تيار ہوگئے_ ليكن سورہ حجرات كى يہ آيت نازل ہوئي اور مسلمانوں كو خبردار كيا كہ اگر ايك فاسق آدمى خبر لے كر آئے تو اس كے بارے ميں تحقيق كرليا كرو_ كہيں ايسا نہ ہو كہ اس جھوٹى خبر كى وجہ سے تم كسى قبيلہ كو نقصان پہنچاؤ اور پھر بعد ميں اپنے كيئے پر

58
پشيمان ہو_
اتفاقاً تحقيق كے بعد واضح ہوا كہ بنى المصطلق قبيلہ كے لوگ مؤمن ہيں اور وليد كے استقبال كے ليئے باہر آئے تھے نہ اسلام اوراس كے خلاف قيام كرنے كے ليے ليكن چونكہ وليد انكے ساتھ سابقہ ( قبل از اسلام ) دشمنى ركھتا تھا اسى امر كا بہانہ بنا كر واپس چلا آيا اور غلط خبر پيغمبر اكرم(ص) كى خدمت ميں پيش كردي_ وليد صحابى پيغمبر(ص) تھا_ يعنى اُن افراد ميں سے تھا جنہوں نے پيغمبر اكرم (ص) كے زمانے كوپايا اور آپ(ص) كى خدمت ميں رہے_ جبكہ قرآن مجيد اس آيت ميں اُسے فاسق بتارہا ہے _كيا يہ آيت تمام اصحاب كى عدالت والے نظريہ كے ساتھ سازگار ہے؟
يہ كيسى عدالت ہے كہ بعض اصحاب زكاة كى تقسيم كے وقت پيغمبر اكرم(ص) پر اعتراض كرتے ہيں__ قرآن مجيد انكے اعتراض كو سورہ توبہ آيہ58 ميں نقل فرماتا ہے :
'' و منہم مَن يَلمزُك فى الصّدقات فان اُعطُوا منہا رَضُوا وَ إن لم يُعطُوا منہا اذأ ہم يَسخَطُون''
'' انكے درميان ايے لوگ بھى ہيں جو غنائم كى تقسيم ميں آپ(ص) پر اعتراض كرتے ہيں اگر انہيں اس ميں سے عطا كيا جائے تو راضى ہيں اور اگر نہ ديا جائے تو غصّے ميں رہتے ہيں'' كيا اس قسم كے افراد عادل ہيں؟
يہ كيسى عدالت ہے كہ قرآن مجيد سورہ احزاب كى آيت نمبر 12 اور 13 ميں جنگ احزاب كى منظر كشى كرتے ہوئے فرماتا ہے كہ بعض منافقين او ر بيماردل لوگ جو پيغمبر اكرم' كى خدمت ميں تھے اور انہوں نے جنگ ميں شركت كى ليكن پيغمبر اكرم(ص) پر فريب كارى كى تہمت لگائي_

59
'' ما وَعَدَنا الله و رسُولہ الاّ غُروراً'' خدا اور رسول(ص) نے ہميں صرف اور صرف جھوٹے وعدے ديئے ہيں ان ميں سے بعض يہ خيال ركھتے تھے كہ اس جنگ ميں پيغمبر اكرم(ص) كو شكست ہوگى اور احتمالاً وہ قتل ہوجائيں گے اور اسلام كى بساط لپٹ جائيگي_
يا ان روايا ت كے مطابق جنہيں شيعہ و سنّى نے نقل كيا ہے يہ معلوم ہوتاہے كہ خندق كھودنے كے دوران ايك پتھر ملا جسے آپ(ص) نے توڑا اور مسلمانوں كو شام ، ايران اور يمن كى فتح كا وعدہ ديا تو ايك گروہ نے آنحضرت(ص) كى اس بات كا مذاق اڑايا_
كيا يہ اصحاب نہيں تھے؟اور اس سے زيادہ عجيب بات كو بعد والى آيت بيان كر رہى ہے كہ '' ان ميں سے ايك گروہ نے ( مدينہ كے بعض لوگوں كو كہ جو جنگ ميں حاضر ہوئے تھے مخاطب كر كے )كہا يہ تمہارے ٹھہرنے كى جگہ نہيں ہے اپنے گھروں كو واپس چلے جاؤ ''و إذ قَالَت طائفةٌ منہم يا اَہلَ يَثربَ لا مُقَامَ لكم فَارجعُوا''
اور پھر ايك گروہ آنحضرت(ص) كى خدمت ميں آيا اور ميدان احزاب سے فرار كرنے كے بہانے بنانے لگا_ اسى آيت ميں يوں ارشاد ہے ''وَ يَستَأذنُ فريقٌ منہم النّبى يَقُولُون إن بُيُوتَنَا عَورَة و مَا ہى بعَورَة إن يُريدُونَ الا فراراً'' ان ميں سے ايك گروہ پيغمبر اكرم(ص) سے واپسى كى اجازت مانگتا تھا اور كہتا تھا كہ ہمارے گھر اكيلے ہيں لہذا ہميں اجازت ديجئے تا كہ اپنے گھروں كى حفاظت كے ليے واپس مدينہ چلے جائيں_يہ لوگ جھوٹ بول رہے تھے ان كے گھر اكيلے نہيں تھے_ يہ صرف فرار كا بہانہ تلاش كر رہے تھے'' اب خود ہى فيصلہ كيجئے ہم كيسے ان تمام امورسے چشم پوشى كرليں اور ان پر تنقيد كو جائز نہ سمجھيں؟

60
ان سب سے بدتر بعض اصحاب كا پيغمبر اكرم(ص) كى طرف خيانت كى نسبت دينا ہے اور قرآن مجيد نے سورة آل عمران كى آيت 161 ميں اسے منعكس كيا ہے '' و ما كَانَ لنَبيّ أن يَغُلَّ و من يَغلُل يَأت بما غَلَّ يَومَ القيامَة ثُم تُوَفّى كُلّ نفس: مّا كسبَت و ہُم لا يُظلَمُونَ''
''ممكن نہيں ہے كہ كوئي نبى خيانت كرے اور جو كوئي خيانت كرے گا قيامت كے دن جس قسم كى خيانت كى ہوگى اسے اپنے ساتھ ديكھے گا_ پھر ہر ايك كو اس كے اعمال كا بدلہ ديا جائيگا_ اور كسى پر ظلم نہيں كيا جائيگا'' يعنى اگر سزا ملے گى تو انكے اپنے اعمال كا نتيجہ ہوگي_
اس آيت كى دو شأن نزول بيان كى گئي ہيں_ بعض نے كہا ہے كہ يہ آيت ''عبداللہ بن جُبير'' كے دوستوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے كہ وہ جنگ اُحد ميں ''عينين'' نامى مورچہ ميں تھے_ اور جب جنگ كى ابتداء ميں اسلام كا لشكر دشمن پر فتح پاگيا تو عبداللہ كے ہمراہ تيرانداز تھے حالانكہ رسولخدا(ص) نے فرمايا تھا كہ تمہيںاپنى جگہ سے حركت نہيں كرنى جبكہ اس گروہ نے اپنا مورچہ چھوڑ ديا اور غنائم لوٹنے كے پيچھے دوڑ پڑے_ اس سے بھى بُرا عمل انكى باتيں تھيں كہ كہتے تھے كہ ہميں خطرہ ہے كہيں رسولخدا(ص) ہمارا حق ہميں نہ ديں (اور اس قسم كے جملے كہے جنہيں لكھنے سے قلم شرم محسوس كرتى ہے)_
''ابن كثير'' اور '' طبري'' نے اسى آيت كے ذيل ميں اپنى تفسير ميں ايك اور شان نزول كوذكر كيا ہے_ وہ يہ كہ جنگ بدر ميں كاميابى كے بعد ايك سرخ رنگ كا قيمتى كپڑا گم ہوگيا_ بعض كم عقل لوگوں نے رسولخدا(ص) كو خيانت سے متہم كيا_ كچھ ہى دير گزرى تھى كہ كپڑا مل گيا اور معلوم ہوا كہ لشكر ميں موجود فلاں شخص نے اٹھايا تھا_

61
پيغمبر اكرم(ص) كى طرف اس قسم كى ناروا نسبتيں دينے كے باوجود كيا عدالت باقى رہتى ہے؟ اگر ہم اپنے وجدان كے ساتھ قضاوت كريں تو كيا قبول كريں گے كہ اس قسم كے افراد عادل اور پاك و پاكيزہ تھے اور كسى كو انكے ايسے كاموں پر تنقيد كرنے كا حق نہيں ہے؟
ہم اس بات كا انكار نہيں كرتے ہيں كہ پيغمبر اكرم(ص) كے اكثر اصحاب و ياران با تقوى اور پاكيزہ انسان تھے_ ليكن سب كے ليے ايك ہى حكم لگا دينا اور سب پر تقوى اور عدالت كى قلعى چڑھا دينا اور ان پر كسى قسم كى تنقيد كرنے كا حق سلب كردينا ايك انتہائي عجيب بات ہے_
يہ كيسى عدالت ہے كہ ايك انسان جو ظاہراً پيغمبر اكرم(ص) كے اصحاب ميں سے ہے ( ہمارا مقصود معاويہ ہے ) نبى اكرم(ص) كے با عظمت صحابى حضرت على _ پر سال ہا سال سبّ و لعن كرتا ہے اور تمام شہروں ميں سب كواس كام كا حكم ديتا ہے_
ان دو احاديث كى طرف توجہ فرمايئے
1_ صحيح مسلم ميں كہ جو اہلسنت كى معتبر ترين كتاب ہے يوں بيان ہوا ہے_
كہ ''معاويہ'' نے ''سعد بن ابى وقاص''سے كہا كہ كيوں ابو تراب (على ابن ابى طالب) پر سبّ و لعن سے پرہيز كرتے ہو؟ اس نے كہا ميں نے پيغمبر اكرم (ص) سے اُن كے بارے ميں تين فضائل ايسے سنے ہيں كہ اگر وہ ميرے بارے ميں ہوتے تو ميرے ليئے دنيا كى عظيم دولت سے زيادہ اہميت ركھتے _ اس ليے ميں اُن پر سَبّ و شتم نہيں كرتا ہوں_ (1)
---------------------------------
1) صحيح مسلم، جلد 4 ص 1871، كتاب فضائل الصحابہ اور اسى طرح كتاب فتح البارى فى شرح صحيح البخاري، جلد 7 ص 60 پر بھى يہ حديث بيان ہوئي ہے ( وہ تين فضلتيں يہ ہيں: 1_ حديث منزلت، 2_حديث لاعطين الراية غداً 3_ آيت مباہلہ)_

62
2_ كتاب '' العقد الفريد'' ميں كہ جسے اہلسنت كے بزرگ عالم دين ( ابن عبد ربّہ اندلسى ) نے تأليف كيا ہے يوں بيان ہوا ہے كہ جب امام حسن ابن على عليہما السلام كى شہادت ہوئي، اس كے بعد معاويہ مكّہ كے بعد مدينہ آيا اُس كا ارادہ تھا كہ مدينہ ميں منبر رسول (ص) سے حضرت على _ پَر سبّ و لعن كرے_ لوگوں نے كہا كہ '' سعد بن ابى وقاص'' بھى مسجد ميں ہے اورہمارے خيال كے مطابق وہ تيرى اس بات كو تحمل نہيں كريگا اور شديد ردّ عمل كا اظہار كرے گا لہذا كسى كو اُس كے پاس بھيج كر اُس كى نظر معلوم كرلو_
معاويہ نے ايك آدمى كو سعد كے پاس بھيجا اور اس مطلب كے بارے ميں استفسار كيا سعد نے جواب ميں كہا كہ اگر معاويہ نے يہ كام كيا توميں رسولخدا(ص) كى مسجد سے باہر چلا جاؤں گا اور پھر كبھى بھى مسجد نبوى ميں داخل نہيں ہوں گا_
معاويہ نے يہ پيغام اور ردّ عمل سّننے كے بعد سب و شتم سے پرہيز كيا_ يہاں تك كہ سعد فوت ہوگئے _ سعد كى وفات كے بعد معاويہ نے منبر سے حضرت على (ع) پر لعنت كى اور اپنے تمام اہلكاروں كو حكم ديا كہ منبروں سے حضرت پر لعن و سب كريں _ اُن سب نے بھى يہى كام كيا_ اس بات كا جب جناب ام سلمہ زوجہ پيغمبر(ص) كو پتہ چلا تو انہوں نے معاويہ كے نام ايك خط ميں يوں لكھا كہ '' تم كيوں منبروں سے خدا و رسول(ص) پر سبّ و لعن كرتے ہو كيا تم يوں نہيں كہتے ہو كہ على (ع) اور اسكے چاہنے والوں اور محبت كرنيوالوں پر لعنت، ميں گواہى ديتى ہوں كہ اللہ تعالى ،حضرت علي(ع) سے محبت كرتا ہے اور رسولخدا(ص) بھى حضرت على (ع) سے بہت محبت كرتے ہيں_ پس حقيقت ميں تم خدا اور رسولخدا(ص) پر سبّ و لعن كرتے ہو'' معاويہ نے جناب ام سلمہ كا خط پڑھا ليكن اس كى كوئي پرواہ نہ كى (1)
--------------------------
1)العقد الفريد، جلد 4 ص 366 و جواہر المطالب فى مناقب الامام على ابن ابى طالب، جلد 2 ص 228 تاليف محمد بن احمد الدمشقى الشافعي، متوفائے قرن نہم ہجرى قمري_

63
كيا اس قسم كے بُرے كام عدالت كے ساتھ سازگار ہيں؟ كيا كوئي عاقل يا عادل انسان يہ جرا ت كرسكتا ہے كہ حضرت على (ع) جيسى با عظمت شخصيت كو اس شرمناك انداز اور اتنے وسيع پيمانے پر گالياں دے_

ايك عرب شاعريوں كہتا ہے:
اعلى المنابر تعلنون بسبّہ و بسيفہ نصبت لكم أعوادہا؟
كيا منبر سے اس شخصيت پر لعن كرتے ہو جس كى تلوار كى بركت سے يہ منبرقائم ہوئے ہيں_

7_اصحاب پيغمبر(ص) كى اقسام:
رسولخدا(ص) كے اصحاب كو _ قرآن مجيد كى گواہى كے مطابق _ پانچ اصلى گروہوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_
1_ پاك و صالح: يہ افراد مؤمن اور با اخلاص تھے_ ايمان ان كے دل كى گہرائيوں ميں نفوذ كرچكا تھا_ يہ لوگ راہ خدا ميں اور كلمہ اسلام كى بلندى كے ليے كسى قسم كے ايثار اور قربانى سے دريغ نہيں كرتے تھے_ يہ وہى گروہ ہے جس كى طرف سورہ توبہ كى آيت نمبر 100 ميں اشارہ ہوا ہے كہ اللہ تعالى ان سے راضى تھا اور يہ بھى اللہ تعالى كے الطاف پر راضى تھے_'' رضى الله عنہم و رَضوُ عنہ''
2_ مؤمن خطاكار: يہ وہ گروہ ہے جو ايمان اور عمل صالح ركھنے كے باوجود كبھى كبھار لغزش كا شكار ہوجاتے تھے اور اعمال صالح اور غير صالح كو آپس ميں مخلوط كرديتے تھے_
اور اپنے گناہوں كا اعتراف كرتے تھے_ ان كے عفو و بخشش كى اميد ہے جيسا كہ سورہ توبہ

64
كى آية 102 ميں پہلے گروہ كو بيان كرنے كے بعد اللہ تعالى نے اس گروہ كا تذكرہ كيا ہے_
''و آخَرُون اعتَرفُوا بذُنُوبہم خَلَطُوا عَمَلاً صَالحاً و آخَرَ سَيّأً عَسى الله أن يَتُوبَ عليہم''
3_ گناہگار افراد: يہ وہ گروہ ہے جس كے ليے قرآن مجيد نے فاسق كا نام انتخاب كيا ہے_ كہ اگر فاسق تمہارے لئے خبر لائے تو بغير تحقيق كے قبول نہ كرنا_ سورہ حجرات كى آيت نمبر 6 ميں اس مطلب كى طرف اشارہ ہوا ہے: '' يا ايّہا الّذين آمنوا ان جاء كُم فاسقٌ بنباء فَتَبَيّنُوا'' اس آيت كا مصداق شيعہ و سنّى تفاسير ميں ذكر كيا گيا ہے_
4_ ظاہرى مسلمان: يہ وہ لوگ ہيں جو اسلام كا دعوى كرتے تھے ليكن ايمان ان كے دلوں ميں داخل نہيں ہوا تھا_ سورہ حجرات كى چودھويں آيت ميں اس گروہ كى طرف اشارہ ہوا ہے ''قال الاعرابُ آمَنّا قُل لَم تُؤمنُوا و لكن قُولُوا أسلَمنا و لَمَّا يَدخُل الايمانُ فى قُلوبكُم''
5_ منافقين: يہ وہ گروہ ہے جو روح نفاق كے ساتھ مسلمانوں كے درميان چھپے ہوئے تھے كبھى ان كى شناخت ہوجاتى اور كبھى نہ ہوتى تھي_ يہ لوگ اسلام اور مسلمين كى ترقى كى راہ ميں روڑے اٹكانے سے باز نہيں رہتے تھے_ سورہ توبہ ميں ہى مؤمن و صالح گروہ كى طرف اشارہ كے بعد آيت 101 ميں ان منافقين كا تذكرہ كيا گيا ہے_
'' و ممَّن حَولَكُم منَ الاعراب مُنافقُونَ و من اَہل المَدينَة مَرَدوا عَلى النّفاق'' بے شك ان تمام گروہوں نے پيغمبر اكرم (ص) كا ديدار كيا تھا اور آنحضرت (ص) كے ساتھ مصاحبت اور معاشرت ركھتے تھے_ اور ان ميں سے بہت ساروں نے غزووں مين شركت كى

65
تھي_ اور ہم صحابہ كى جو تعريف بھى كريں ان پانچوں گروہوںپر صادق آتى ہے كيا سب كو اہل بہشت اور پاكيزہ شمار كيا جاسكتا ہے؟ كيا قرآن مجيد كى صراحت كے بعد يہ مناسب نہيں ہے كہ ہم راہ اعتدال كو اپنائيں اور اصحاب كو قرآن مجيد ميں بيان شدہ پانچ گروہوں ميں تقسيم كريں اور ان ميں سے نيك و باتقوى اصحاب كے ليے انتہائي احترام كے قائل ہوں اور ديگر گروہوں ميں سے ہر ايك كو انكے مقام پر ركھيں_ اور غلّو، افراط اور تعصّب سے پرہيز كريں_( اور انصاف كے ساتھ قضاوت كريں)
8_تاريخى گواہي: تمام اصحاب كى قداست كے عقيدے نے اس كے طرفداروں كے لئے بہت سى مشكلات ايجاد كى ہيں_ ان عظيم مشكلات ميں سے ايك تاريخى حقائق ہيں_ كيونكہ انكى معروف اور مورد اعتماد تاريخى كتب ميں حتى صحاح ستّہ كى احاديث ميں بعض صحابہ كى شديدلڑائي اور جنگ كے تذكرے ہيں ايسى صورتحال ميں ہم فريقين كو عادل، صالح اور مقدس شمار نہيں كرسكتے ہيں كيونكہ يہ كام ضدّين كے درميان جمع كرنا ہے اور ضدين كے درميان جمع نہ ہوسكنا ايك واضح عقلى فيصلہ ہے جس كا انكار ممكن نہيں ہے_
جنگ جمل اور صفين كے علاوہ كہ جو طلحہ ، زُبير اور معاويہ نے امام المسلمين حضرت على _ كے مقابلہ ميں لڑيں اگر ہم حقائق سے چشم پوشى نہ كريں تو حتماً جنگ بھڑكانے والوں كى غلطيوں اور جنايتوں كا اعتراف كريں گے_ اوراس سلسلہ ميں بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں_اس مختصر كتاب ميں ہم صرف تين نمونوں پر اكتفا كريں گے_
1_ امام بُخارى اپنى كتاب صحيح ميں كتا ب التفسير ميں مسئلہ افك كے بارے ميں ( زوجہ پيغمبر(ص) كے بارے ميں جو تہمت لگائي گئي تھى ) لكھتے ہيں: كہ ايك دن پيغمبر اكرم (ص) منبر پر تشريف

66
لے گئے اور فرمايا اے مسلمانو ں كون اس شخص كوسزادے گا ( مقصود عبداللہ بن سلول تھا جو منافقين كاايك سر غنہ تھا ) مجھے بتايا گيا ہے كہ اس نے ميرى بيوى پر تہمت لگائي ہے حالانكہ ميں نے اپنى بيوى ميں كوئي ايسى بات نہيں ديكھي ... سعد بن معاذ انصارى ( مشہور صحابى ) اٹھ كھڑے ہوئے اور عرض كي، ميں اس كو سزا دوں گا اگر يہ '' اوس'' قبيلہ سے ہوا تو ميں اس كى گردن اڑا دونگا اور اگر يہ خزرج قبيلہ سے ہوا تو جو حكم آپ صادر فرمائيںگے ہم انجام ديں گے_ سعد بن عبادہ، خزرج قبيلہ كا سردار كہ جو اس سے پہلے صالح آدمى تھا قبائلى تعصب كى وجہ سے سعد بن معاذ كو كہنے لگا خدا كى قسم تو جھوٹ بول رہا ہے تيرى اتنى جرا ت نہيں ہے كہ تو يہ كام كرسكے اسيد بن خُضير ( سعد بن معاذ كا چچا زاد) كہنے لگا كہ خدا كى قسم تو جھوٹا ہے يہ شخص منافقين ميں سے ہے ہم اسے ضرور قتل كريں گے_ نزديك تھا كہ قبيلہ اوس و خزرج كى آپس ميں جنگ چھڑ جائے_ رسولخدا(ص) نے انہيں خاموش كرايا(1) كيا يہ سب افراد صالح صحابى تھے؟
2: معروف دانشمند '' بلاذري'' اپنى كتاب '' الانساب'' ميں لكھتے ہيں كہ '' سعد بن ابى وقاص'' كوفہ كے والى تھے، حضرت عثمان نے انہيں معزول كرديا اور '' وليد بن عقبہ'' كو انكى جگہ گورنر بناديا_ عبداللہ بن مسعود اس دوران بيت المال كے خزانہ دار تھے جب وليد ،كوفہ ميں داخل ہوا تو اس نے عبداللہ ابن مسعود سے بيت المال كى چابياں طلب كيں_ عبداللہ نے چابياں وليد كے سامنے پھينكتے ہوئے كہا كہ خليفہ نے سنت ( رسول(ص) ) كو تبديل كرديا ہے_ سعد بن ابى وقاص جيسے آدمى كو معزول كركے وليد جيسے آدمى كو اپنا جانشين منتخب كر ليا ہے؟ وليد نے حضرت عثمان كو خط ميں لكھا كہ عبداللہ بن مسعود آپ پر تنقيد كرتا ہے خليفہ نے جواب لكھا
--------------------------
1) صحيح بخاري، جلد 5 ص 57_

67
كہ اسے حكومت كى نگرانى ميں ميرے پاس بھيج ديا جائے _جب عبداللہ بن مسعود مدينہ ميں وارد ہوا تو خليفہ منبر پر تھے جيسے ہى انكى نظر عبداللہ بن مسعود پر پڑى تو كہنے لگے بُرا جانورداخل ہوگيا ہے ( اور بہت سى گالياں ديں قلم جنہيں لكھنے سے شرم محسوس كرتا ہے) عبداللہ بن مسعود كہنے لگے ميں ايسا نہيں ہوں،ميں رسولخدا(ص) كا صحابى ہوں_ جنگ بدر اور بيعت رضوان ميں شريك تھا_
حضرت عائشےہ ،عبداللہ كى حمايت كے ليے اٹھيں ليكن حضرت عثمان كا غلام ،عبداللہ كو مسجد سے باہر لے گيا اور انہيں زمين پر پٹخا اور انكى پسلياں توڑديں (1)
3: بلاذرى اپنى اُسى كتاب انساب الاشراف ميں نقل كرتے ہيں كہ مدينہ كے بيت المال ميں بعض جواہرات اور زيورات تھے حضرت عثمان نے ان ميں سے كچھ زيورات اپنے گھروالوں كو بخش ديئےجب لوگوں نے ديكھا تو كھلے عام اعتراض شروغ كرديا اور انكے بارے ميں سخت وگھٹيا باتيں كہيں حضرت عثمان كو غصہ آگيا اور وہ منبر پر گئے اور خطبہ كے دوران كہا ہم غنائم ميں سے اپنى ضرورت كے مطابق اٹھائيں گے اگرچہ لوگوں كى ناك زمين پر رگڑى جائے
اس پر حضرت على _ نے كہا كہ '' مسلمان خود تمہارا راستہ روك ليں گے''
جناب عمّار ياسر نے كہا: سب سے پہلے ميرى ناك زمين پر رگڑى جائے گي
( اس بات كى طرف اشارہ تھا كہ ميں تنقيد سے باز نہيں آؤنگا)
حضرت عثمان كو غصہ آگيا اور كہنے لگے تو نے ميرى شان ميں گستاخى كى ہے_ اس كو گرفتار
--------------------------
1) انساب الاشراف، جلد 6 ص 147، تاريخ ابن كثير، جلد 7 ص 163و 183 حوادث سال 32 ( خلاصہ)_

68
كر لو_ لوگوں نے جناب عمّار كو پكڑ ليا اور عثمان كے گھر لے گئے وہاں انہيں اسقدر ماراگيا كہ وہ بے ہوش ہوگئے_ اس كے بعد انہيں جناب ام سلمہ ( زوجہ پيغمبر (ص) ) كے گھر لايا گيا وہ اس وقت بے ہوشى كے عالم ميں تھے يہاںتك كہ انكى ظہر، عصر اور مغرب كى نماز قضاء ہوگئي_ جب انہيں ہوش آيا تو انہوں نے وضو كركے نماز ادا كى اور كہنے لگے يہ پہلى بار نہيں ہے كہ ہميں خدا كى خاطر اذيت و آزار پہنچائي جارہى ہے_(1) ( ان واقعات كى طرف اشارہ تھا جنكا زمانہ جاہليت ميں كفار كيطرف سے انہيں سامنا كرنا پڑا تھا)_
ہم ہرگز مائل نہيں ہيں كہ تاريخ اسلام كے اس قسم كے ناگوار حوادث كو نقل كريں ( ترسم آزردہ شوى ورنہ سخن بسيار است) اگر ہمارے بھائي تمام صحابہ اور انكے تمام كاموں كے تقدّس پر اصرار نہ كرتے تو شايد اتنى مقداركے نقل كرنے ميں بھى مصلحت نہيں تھي_ اب سوال يہ ہے كہ اصحاب رسول(ص) ميں سے تين پاكيزہ ترين افراد ( سعد بن معاذ ،عبداللہ ابن مسعود اور عمار ياسر) كو گالياں دينے اور مارنے پٹينے كى كيا تو جيہ ہوسكتى ہے؟ ايك باعظمت صحابى كو اتنا مارا جائے كے اسكى پسلياں ٹوٹ جائيں اور دوسرے كو اتنا مارا جائے كہ بے ہوش ہوجائے اور اس كى نمازيں قضاہوجائيں_
كيا يہ تاريخى شواہد كہ جنكے نمونے بہت زيادہ ہيں ہميں اجازت ديتے ہيں كہ ہم حقائق سے چشم پوشى كريں اور كہيں كہ تمام اصحاب اچھے اور انكے تمام كام صحيح تھے_ اور ايك سپاہ ''سپاہ صحابہ '' كے نام سے بناديں اور انكے تمام كاموں كا بلا مشروط دفاع كريں_
كيا كوئي بھى عقلمند اس قسم كے افكار كو پسند كرتا ہے؟
----------------------------
1) انساب الاشراف جلد 6 ص 161_

69
اس مقام پر پھر تكرار كرتے ہيں كہ رسولخدا(ص) كے اصحاب ميں مؤمن ، صالح اور پارسا افراد بہت سے تھے ليكن كچھ ايسے افراد بھى تھے جنكے كاموں پر تنقيد كرنا چاہيے اور انكى تحليل كرتے ہوئے انہيں عقل كے ترازو پر تولنا چاہيے اور اس كے بعد انكے بارے ميں حكم لگانا چاہيے_

9_ پيغمبر(ص) كے زمانے ميں يا اس كے بعد بعض صحابہ پر حدّ كا جارى ہونا
صحاح ستّہ يا برادران اہلسنت كى ديگر معروف كتابوں ميں كچھ موارد ايسے ديكھنے كو ملتے ہيں جن ميں بعض اصحاب، رسولخدا(ص) كے زمانے ميں يا اس كے بعد ايسے گناہوں كے مرتكب ہوئے جن كى حد وسزا تھي_ لہذا اُن پر حد جارى كى گئي _
كيا اس كے باوجود آپ كہہ سكتے ہيں كہ يہ سب عادل تھے؟ اور ان سے كوئي غلطى نہيں ہوئي؟ يہ كيسى عدالت ہے كہ ايسا گناہ كيا جائے جس پر حد جارى ہوتى ہو اور ان پرحد جارى ہونے كے بعد بھى عدالت اپنى جگہ محكم باقى رہتى ہے؟
ہم ذيل ميں نمونہ كے طور پر چند موارد كى طرف اشارہ كرتے ہيں:
الف) ''نعيمان'' صحابى نے شراب پي، پيغمبر اكرم (ص) نے حكم صادر فرمايا اور اسے تازيانے مارے گئے (1)
ب) ''بنى اسلم '' قبيلہ كے ايك مرد نے زنائے محصّن كيا تھا_ پيغمبر اكرم (ص) كے حكم پر اسے سنگسار كرديا گيا (2)
-------------------------------
1)صحيح بخارى ، جلد 8 ص 13، حديث نمبر 6775 ، كتاب الحدّ_
2) صحيح بخارى ، جلد 8 ص 22 ، حديث 6820_

70
ج) واقعہ افك ميں پيغمبر اكرم (ص) كے حكم پر چند افراد پر حدّ قذف جارى كى گئي تھى (1)
د) پيغمبر اكرم (ص) كے بعد عبدالرحمن بن عمر اور عقبہ بن حارث بدرى نے شراب پى او ر مصر كے امير عمر ابن عاص نے ان پر حدّ شرعى جارى كى _ اس كے بعد عمر نے دوبارہ اپنے بيٹے كو بلايا اور دوبارہ اس پر حدّ جارى كى (2)
ہ) وليد بن عقبہ كا واقعہ مشہور ہے كہ اس نے شراب پى اور مستى كے عالَم ميں صبح كى نماز چار ركعت پڑھا دى _ اُسے مدينہ حاضر كركے شراب كى حد اس پر جارى كى گئي_(3)
ان كے علاوہ اور بہت سے موارد ہيں، مصلحت كى خاطر جن كے ذكر سے اجتناب كيا جا رہا ہے_ اس كے باوجود كيا اب بھى ہم حقائق كے سامنے آنكھيں اور كان بند كرليں اور كہہ ديں كہ سب اصحاب عادل تھے؟

10_ نادرست توجيہات
1_ تنزيہ او رہر لحاظ سے تقدّس كے نظريہ كے طرفدار جب متضاد حالات كے انبوہ سے روبرو ہوتے ہيں تو اپنے آپ كو اس توجيہ كے ساتھ قانع كرتے ہيں كہ سب صحابہ ''مجتہد'' تھے اور ہر ايك نے اپنے اجتہاد كے مطابق عمل كيا_يقيناً يہ تو ضمير اوروجدان كو فريب دينا ہے كہ يہ برادران اس قسم كے آشكار اختلافات ميں اس بوگس توجيہہ كا سہارا ليں_
-----------------------------
1) المعجم الكبير، جلد 23 ص 128 و كتب ديگر_
2) السنن الكبرى ، جلد 8 ص 312 اور بہت سى كتب _
3) صحيح مسلم، جلد 5 ، ص 126 حديث نمبر 1707_

71
كيا بيت المال كو ہڑپ كرنے كے بارے ميں ايك معمولى سى تنقيد اور سادہ سے امر بالمعروف و نہى عن المنكر كے مقابلے ميں ايك مؤمن صحابى كو اتنا مارنا كہ وہ بے ہوش اور اس كى نمازيں قضا ہوجائيں، اجتہاد ہے؟ كيا ايك اور مشہور صحابى كى پسلياں توڑ دينا صرف اس اعتراض كى خاطر جو اس نے كياكہ كيوں ايك شرابى ( وليد ) كو كوفہ كا حاكم تعيين كيا گيا ہے، اجتہاد شمار ہوتا ہے؟
اس سے بڑھ كر امام المسلمين كے مقابلے ميں كہ جو مقامات الہى كے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں كے منتخب كردہ اتّفاقى خليفہ تھے، صرف جاہ طلبى اور حكومت حاصل كرنے كى خاطر جنگ كى آگ بھڑ كانا جس ميں ہزاروں مسلمانوں كا خون بہہ جائے، اجتہاد شمار ہوتا ہے؟
اگر يہ موارد اور ان كى مثل ، اجتہاد كى شاخيس شمار ہوتى ہيں تو پھر طول تاريخ ميں ہونے والى تمام جنايات كى يہى توجيہ كى جاسكتى ہے_
اس كے علاوہ كيا اجتہاد صرف اصحاب ميں منحصر تھا يا كم از كم چند صديوں بعد بھى امت اسلامى ميں كثرت كے ساتھ مجتہد موجود تھے بلكہ بعض علمائے اہلسنت كے اعتراف اور تمام علمائے شيعہ كے مطابق آج بھى تمام آگاہ علماء كے لئے اجتہاد كا دورازہ كھلا ہے؟
جو افراد اس قسم كے بھيانك افعال انجام ديں كيا آپ انكے افعال كى توجيہہ كرنے كو حاضر ہيں؟ يقيناًايسا نہيںہے_
2: كبھى كہا جاتا ہے كہ ہمارا فريضہ يہ ہے كہ انكے بارے ميں سكوت اختيار كريں_
'' تلك اُمةٌ قد خَلَت لَہَا ما كَسَبَت و لَكُم ما كَسَبتُم و لَا تُسأَلُونَ عَمّا كَانُوا يَعمَلُون'' (1)
------------------------
1) سورة بقرہ آيت 134_

72
وہ ايك اُمّت ہيں جو گزرچكے انكے اعمال انكے ليئےيں اور تمہارے اعمال تمہارے ليئےاور آپ سے انكے اعمال كے بارے ميں نہيں پوچھا جائيگا_
ليكن سوال يہ ہے كہ اگر وہ ہمارى سرنوشت ميں مؤثر نہ ہوتے تو پھر يہ بات اچھى تھى _ ليكن ہم چاہتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) كى روايات كو انكے توسط سے دريافت كريں اور انہيں اپنے ليئے نمونہ عمل قرار ديں_ تو كيا اس وقت يہ ہمارا حق نہيں ہے كہ ثقہ اور غير ثقہ اسى طرح عادل اور فاسق كى شناخت كريں تا كہ اس آيت '' إن جاء كم فاسقٌ بنبائ: فَتَبَيَّنُوا'' اگر فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تحقيق كيجئے ''(1)پر عمل كرسكيں_

11_ مظلوميّت على (ع)
جو بھى تاريخ اسلام كا مطالعہ كرے اس نكتہ كو با آسانى درك كرسكتا ہے كہ انتہائي افسوس كا مقام ہے كہ حضرت على _ جو علم و تقوى كا پہاڑ، پيغمبر اكرم (ص) كے نزديك ترين ساتھى اور اسلام كے سب سے بڑے مدافع تھے، انہيں اسطرح ہتك حرمت، توہين اور سبّ و شتم كا نشانہ بناياگيا_
انكے دوستوں كو اسطرح دردناك اذيتوں اور مظالم سے دوچار كيا گيا كہ تاريخ ميں اسكى نظير نہيں ملتي_ وہ بھى ان افراد كيطرف سے جو اپنے آپ كو پيغمبر اكرم (ص) كا صحابى شمار كرتے ہيں_
چند نمونے ملاحظہ فرمايئے
الف) لوگوں نے على ابن جہم خراسانى كو ديكھا كہ اپنے باپ پر لعنت كر رہا ہے جب وجہ
-----------------------
1) سورة حجرات آية 6_

73
پوچھى گئي تو كہنے لگا: اس لئے لعنت كر رہاہوں كيونكہ اس نے ميرا نام على ركھا ہے_(1)
ب ) معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو آئين نامہ ميں لكھا: جس نے بھى ابوتراب (على _ ) اور انكے خاندان كى كوئي فضيلت نقل كى وہ ہمارى امان سے خارج ہے (اس كى جان و مال مباح ہے ) اس آئين نامہ كے بعد سب خطباء پورى مملكت ميں منبر سے على الاعلان حضرت على (ع) پر سبّ و شتم كرتے اور اُن سے اظہار بيزارى كرتے تھے_ اس طرح ناروا نسبتيں انكى اور انكے خاندان كى طرف ديتے تھے_ (2)
ج ) بنواميّہ جب بھى سُنتے كہ كسى نو مولود كا نام على ركھا گيا ہے اسے فوراً قتل كرديتے_ يہ بات سلمة بن شبيب نے ابوعبدالرحمن عقرى سے نقل كى ہے_(3)
د) زمخشرى اور سيوطى نقل كرتے ہيں كہ بنو اميّہ كے دور حكومت ميں ستّر ہزار سے زيادہ منابر سے سبّ على (ع) كيا جاتاتھا اور يہ بدعت معاويہ نے ايجاد كى تھي_(4)
ہ) جس وقت عمر بن عبدالعزيز نے حكم ديا كہ اس بُرى بدعت كو ختم كيا جائے اور نماز جمعہ كے خطبوں ميں اميرالمؤمنين على _ كو بُرا بھلانہ كہا جائے تو مسجد سے نالہ و فرياد بلند
ہوگئي اور سب عمربن عبدالعزيز كو كہنے لگے '' تركتَ السُنّة تركتَ السُنّة'' تونے سنت كو ترك كرديا ہے_ تونے سنّت كو ترك كرديا ہے_(5)
--------------------------
1) لسان الميزان ، جلد 4 ص 210_
2) النصائح الكافيہ ص 72_
3) تہذيب الكمال ، جلد 20، ص 429 و سير اعلام النبلاء ، جلد 5، ص 102_
4) ربيع الابرار ، جلد 2، ص 186 و النصائح الكافيہ، ص 79 عن السيوطي_
5) النصائح الكافيہ ، ص 116 و تہنئة الصديق المحبوب، تاليف سقاف ص 59_

74
يہ سب اس صورت ميں ہے كہ برادران اہلسنت كى معتبر اور صحيح كتب كى روايت كے مطابق پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا ہے كہ '' مَن سَبَّ عليّاً فَقد سَبّنى و مَن سبّنى فقد سبَّ الله '' جس نے على (ع) كو گالى دى اس نے مجھے گالى دى اور جس نے مجھے گالى دى اس نے خدا كو گالى دى '' (1)

12: ايك دلچسپ داستان
حُسن اختتام كے طور پر شايد اس واقعہ كو نقل كرنے ميں كوئي مضائقہ نہ ہو كہ جو خود ہمارے ساتھ مسجد الحرام ميں پيش آيا ہے_
ايك دفعہ جب عمرہ پر جانے كا اتفاق ہوا تو ايك رات ہم مغرب و عشاء كى نماز كے درميان مسجد الحرام ميں بيٹھے تھے كہ كچھ علماء حجاز كے ساتھ تمام اصحاب كے تقدّس كے بارے ميں ہمارى بحث شروع ہوگئي، وہ معمول كے مطابق اعتقاد ركھتے تھے كہ اصحاب پر معمولى سى بھى تنقيد نہيں كرنا چاہيے _يايوں كہہ ديجئے كہ پھول سے زيادہ نازك اعتراض بھى ان پر نہيں كرنا چاہئے _ ہم نے اُن كے ايك عالم كو مخاطب كركے كہا : آپ فرض كيجيئے كہ اس وقت'' جنگ صفين '' كا ميدان گرم ہے_ آپ دو صفوں ميں سے كس كا انتخاب كريں گے؟ صف على (ع) كا يا صف معاويہ كا؟
كہنے لگے: يقيناً صف على (ع) كا انتخاب كروں گا_
ميں نے كہا: اگر حضرت على (ع) آپ كو حكم ديں كہ يہ تلوار لے كر كر معاويہ كو قتل كرديں تو آپ كيا كريں گے؟
-----------------------
1) اخرجہ الحاكم و صَحَّہُ و ا قرّہ الذہبى ( مستدرك الصحيحين ، جلد 3، ص 121)_

75
كچھ دير سوچنے كے بعد كہنے لگے كہ معاويہ كو قتل كردوں گا ليكن اس پر كبھى بھى تنقيد نہيں كرونگا
ہاں يہ ہے غير منطقى عقائد پر اصرار كرنے كا نتيجہ كہ اس وقت دفاع بھى غير منطقى ہوتا ہے اور انسان سنگلاخ ميں پھنس جاتا ہے_
حق يہ ہے كہ يوں كہيں: قرآن مجيد اور تاريخ اسلام كى شہادت كے مطابق، اصحاب پيغمبر اكرم (ص) ايك تقسيم كے مطابق چند گروہوں پر مشتمل تھے_ اصحاب كا ايك گروہ ايسا تھا جو شروع ميں پاك، صادق اور صالح تھا اور آخر تك وہ اپنے تقوى پر ثابت قدم رہے_ ''عاشُوا سعداء و ماتوا السعدائ'' انہوں نے سعادت كى زندگى گذارى اور سعادت كى موت پائي_
ايك گروہ ايسا تھا جو آنحضرت(ص) كى زندگى ميں تو صالح اور پاك افراد كى صف ميں تھے ليكن بعد ميں انہوں نے جاہ طلبى اور حبّ دنيا كى خاطر اپنا راستہ تبديل كر ليا تھا_اور ان كا خاتمہ خير و سعادت پر نہيں ہوا ( جيسے جمل و صفين كى آگ بھڑ كانے والے)
اور تيسرا گروہ شروع سے ہى منافقوں اور دنيا پرستوں كى صف ميں تھا_ اپنے خاص مقاصد كى خاطر وہ مسلمانوں كى صفوں ميں گھسے ہوئے تھے جيسے ابوسفيان و غيرہ يہاں پر پہلے گروہ كى طرف اشارہ كرتے ہوئے ہم يوں كہيں گے_
'' ربّنا اغفر لنا و لإخواننا الّذين سَبَقُونَا بالإيمان و لا تجعَل فى قلوبنا غلّاً للّذين آمَنُوا رَبّنا إنّك رَء وفٌ رَّحيم'' (1)
-----------------------
1) سورہ حشرآيت 10_