شيعہ جواب ديتے ہيں
25
2
''تقيہ'' قرآن و سنت كے آئينہ ميں

27 دوسرا مسئلہ جس پر ہميشہ ہمارے متعصب مخالفين اور بہانہ تلاش كرنے والے افراد، مكتب اہلبيت كے پيروكاروں پر تشنيع كرتے ہيں ،''تقيہ''كا مسئلہ ہے _
وہ كہتے ہيں تم كيوں تقيہ كرتے ہو؟كيا تقيہ ايك قسم كا نفاق نہيں ہے ؟
يہ لوگ اس مسئلہ كو اتنا بڑھا چڑھا كر پيش كرتے ہيں كہ گويا تقيہ كوئي حرام كام يا گناہ كبيرہ يا اس سے بھى بڑھ كر كوئي گناہ ہے _يہ لوگ اس بات سے غافل ہيں كہ قرآن مجيد نے متعدد آيات ميں تقيہ كو مخصوص شرائط كے ساتھ جائز شمار كيا ہے _اور خود انكے اپنے مصادر ميں منقول روايات اس بات كى تائيد كرتى ہيں _اور اس سے بڑھ كر تقيہ (اپنى مخصوص شرائط كے ساتھ)ايك واضح عقلى فيصلہ ہے _خود ان كے بہت سے لوگوں نے اپنى ذاتى زندگى ميں اس كا تجربہ كيا ہے اور اس پر عمل كرتے ہيں _
اس بات كى وضاحت كے ليے چند نكات كى طرف توجہ ضرورى ہے _

1-تقيہ كيا ہے ؟
تقيہ يہ ہے كہ انسان اپنے مذہبى عقيدہ كو شديداور متعصب مخالفين كے سامنے كہ جو اس كے لئے خطرہ ايجاد كرسكتے ہوں چھپا لے_ مثال كے طور پر اگر ايك موحّد مسلمان،ہٹ دھرم بت پرستوں كے چنگل ميں پھنس جائے، اب اگر وہ اسلام اور توحيد كا اظہار كرتا ہے تو وہ اس كا خون بہا ديں گے يا اسے جان ،مال يا ناموس كے اعتبار سے شديد نقصان پہنچائيں گے _ اس

28
حالت ميں مسلمان اپنے عقيدہ كو ان سے پنہاں كر ليتا ہے تا كہ انكے گزند سے امان ميں رہے يا مثلا،اگر ايك شيعہ مسلمان كسى بيابان ميں ايك ھٹ دھرم وہابى كے ہاتھوں گرفتار ہوجائے جو شيعوں كا خون بہانا مباح سمجھتا ہے _ اس حالت ميں وہ مومن اگر اپنى جان،مال اور ناموس كى حفاظت كے لئے اُس وہابى سے اپنا عقيدہ چھپا ليتا ہے تو ہر عاقل اس بات كى تصديق كرتا ہے كہ ايسى حالت ميں يہ كام مكمل طور پر منطقى ہے اور عقل بھى يہاں يہى حكم لگاتى تھے _كيونكہ خواہ مخواہ اپنى جان كو متعصب لوگوں كى نذرنہيں كرنا چاہيئے

2_تقيہ اور نفاق كا فرق:
نفاق بالكلتقيہ كے مقابلے ميں ہے_ منافق وہ ہوتا ہے جو باطن ميں اسلامى قوانين پر عقيدہ نہ ركھتا ہو يا انكے بارے ميں شك ركھتا ہو ليكن مسلمانوں كے در ميان اسلام كا اظہار كر تا ہو_
جس تقيہ كے ہم قائل ہيں وہ يہ ہے كہ انسان باطن ميں صحيح اسلامى عقيدہ ركھتا ہو، البتہ صرف ان شدت پسند وہابيوں كا پيروكارو نہيں ہے جو اپنے علاوہ تمام مسلمانوں كو كافر سمجھتے ہيں اور انكے ليے كفر كا خط كھينچ ديتے ہيں اور انہيں دھمكياںديتے ہيں_ جب بھى ايسا با ايمان شخص اپنى جان،مال يا ناموس كى حفاظت كے لئے اس متعصب ٹولے سے اپنا عقيدہ چھپا لے اس كو تقيہ كہتے ہيں اور اسكے مقابل والا نكتہ نفاق ہے_

3_تقيہ عقل كے ترازو ميں :
تقيہ حقيقت ميں ايك دفاعى ڈھال ہے_ اسى ليے ہمارى روايات ميں اسے (تُرس

29
المومن) يعنى (باايمان لوگوں كى ڈھال)كے عنوان سے ياد كيا گيا ہے _كسى انسان كى عقل اجازت نہيں ديتى كہ انسان اپنے باطنى عقيدہ كا خطرناك اور غير منطقى افراد كے سامنے اظہار كرے اور خواہ مخواہ اپنى جان، مال يا ناموس كو خطرے ميں ڈالے _كيونكہ بلاوجہ طاقت اوروسائل كو ضائع كرنا كوئي عقلى كام نہيں ہے _
تقيہ:اس طريقہ كار كے مشابہہ ہے جسے تمام فوجى ،ميدان جنگ ميں استعمال كرتے ہيں اپنے آپ كو دختوں ،سرنگوں اور ريت كے ٹيلوںكے پيچھے چھپا ليتے ہيں اور اپنا لباس درختوں كى شاخوں كے رنگ جيسا انتخاب كرتے ہيں تا كہ بلا وجہ ان كا خون ہدر نہ جائے _
دنيا كے تمام عقلاء اپنى جان كى حفاظت كے لئے سخت دشمن كے مقابلے ميں تقيہ والى روش سے استفادہ كرتے ہيں_ كبھى بھى عقلائ، كسى كو ايسا طريقہ اپنا نے پر سرزنش نہيں كريںگے_آپ دنيا ميں ايك انسان بھى ايسا نہيں ڈھونڈسكتے جو تقيہ كو اس كى شرائط كے ساتھ قبول نہ كرتاہو_

4_تقيہ كتاب الہى ميں:
قرآن مجيد نے متعدد آيات ميں تقيہ كو كفار اور مخالفين كے مقابلہ ميں جائز قرارديا ہے _ مثال كے طور پر چند آيات پيشخدمت ہيں_
الف)آل فرعون كے مؤمن كى داستان ميں يوں بيان ہوا ہے _
(و قال رجل مومن من آل فرعون يكتم ايمانہ اتقتلون رجلا ان يقول ربى اللہ و قد جاء كم

30
بالبينات ...)(1)
آل فرعون ميں سے ايك باايمان مرد نے كہ جو (موسى كى شريعت پر) اپنے ايمان كو چھپا تا تھا كہا: كيا تم ايسے مرد كو قتل كرنا چاہتے ہو جو كہتا ہے كہ ميرا پروردگار خدا ہے اوروہ اپنے ساتھ واضح معجزات اور روشن دلائل ركھتا ہے_
پھر مزيد مؤمن كہتا ہے (اسے اس كے حال پر چھوڑ دو اگر جھوٹ كہتا ہے تو اسجھوٹ كا اثر اس كے دامن گير ہوگا اور اگر سچ كہتا ہے تو ممكن ہے بعض عذاب كى جو دھمكياں اس نے سنائي ہيں وہ تمہارے دامن گير ہوجائيں)پس اس طريقے سے آل فرعون كے اس مومن نے تقيہ كى حالت ميں (يعنى اپنے ايمان كو مخفى ركھتے ہوئے ) اس ھٹ دھرم اور متعصب ٹولے كو كہ جو حضرت موسى (ع) كے قتل كے درپے تھا ضرورى نصيحتيں كرديں _
ب)قرآن مجيد كے ايك دوسرے صريح فرمان ميں ہم يوں پڑھتے ہيں _
(لايتخذ المومنون الكافرين اولياء من دون
المومنين و من يفعل ذلك فليس من اللہ فى شئي الا ان تتقو منہم تقاة ً___) (2)
مومنين كو نہيں چاہيے كہ كفار كو اپنا دوست بنائيں _ جو بھى ايسا كريگا وہ خدا سے بيگانہ ہے ہاں مگر يہ كہ تقيہ كے طور پر ايسا كيا جائے _
اس آيت ميں دشمنان حق كى دوستى سے مكمل طور پر منع كيا گيا ہے مگر اس صورت ميں اجازت ہے كہ جب ان كے ساتھ اظہار دوستى نہ كرنا مسلمان كى آزار و اذيت كا سبب بنے، اس وقت ايك دفاعى ڈھال كے طور پر ان كى دوستى سے تقيہ كى صورت ميں فائدہ اٹھايا جائے_
-------------------------
1)سورہ غافر آيت 28_
2)سورہ آل عمران آيت 28_

31
ج) جناب عمار ياسر اور انكے ماں ،باپ كى داستان كو تمام مفسرين نے نقل كيا ہے _ يہ تينوںاشخاص مشركين عرب كے چنگل ميں پھنس گئے تھے _اور مشركين نے انہيں پيغمبر اكرم (ص) سے اظہار براء ت كرنے كوكہا _جناب عمار كے والدين نے اعلان لا تعلقى سے انكار كيا جس كے نتيجہ ميں وہ شہيد ہوگئے _ليكن جناب عمار نے تقيہ كرتے ہوئے انكى مرضى كى بات كہہ دي_ اور اس كے بعد جب گريہ كرتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں آئے تو اس وقت يہ آيت نازل ہوئي _
(من كفر بالله من بعد ايمانہ الا من اكرہ و
قلبہ مطمئن بالايمان ...)(1)
جو لوگ ايمان لانے كے بعد كافر ہو جائيں ... انكے لئے شديد عذاب ہے مگر وہ لوگ جنہيں مجبور كيا جائے_
پيغمبر اكرم (ص) نے جناب عمار كے والدين كو شہداء ميں شمار كيا اور جناب عمار ياسر كى آنكھوں سے آنسو صاف كيے اور فرمايا تجھ پر كوئي گناہ نہيں ہے اگر پھر مشركين تمھيں مجبور كريں تو انہى كلمات كا تكرار كرنا_تمام مسلمان مفسرين كا اس آيت كى شان نزول كے بارے ميں اتفاق ہے كہ يہ آيت جناب عمار ياسر اور انكے والدين كے بارے ميں نازل ہوئي اور بعد ميں رسول خدا (ص) نے يہ جملات بھى ادا فرمائے_ تو اس اتفاق سے عياں ہوجاتا ہے كہ سب مسلمان تقيہ كے جواز كے قائل ہيں_ ہاں يہ بات باعث تعجب ہے كہ قرآن مجيد سے اتنى محكم ادلہ اور اہل سنت مفسرين كے اقوال كے با وجود شيعہ كو تقيہ كى خاطر مورد طعن قرار ديا جاتا ہے-_
------------------------------
1) سورة النحل آيت 106_

32
جى ہاں نہ تو جناب عمار منافق تھے نہ ہى آل فرعون كا وہ مومن منافق تھا بلكہ تقيہ كے دستور الہى سے انہوں نے فائدہ اٹھايا_

5_تقيہ اسلامى روايات ميں :
اسلامى روايات ميں بھى تقيہ كاكثرت سے ذكر ملتا ہے_مثال كے طور پر مسند ابى شيبہ اہل سنت كى معروف مسند ہے _اس ميں (مسيلمہ كذاب) كى داستان ميں نقل ہوا ہے كہ مسيلمہ كذاب نے رسو ل خدا (ص) كے دو اصحاب كو اپنے اثر و رسوخ والے علاقے ميں گرفتار كرليا اور دونوں سے سوال كيا كہ كيا تم گواہى ديتے ہو كہ ميں خدا كا نمائندہ ہوں؟ ايك نے گواہى دے كر اپنى جان بچالى اور دوسرے نے گواہى نہيں دى تو اسكى گردن اڑادى گئي_ جب يہ خبر رسول خدا (ص) تك پہنچى تو آپ(ص) نے فرمايا جو قتل ہو گيا اس نے صداقت كے راستے پر قدم اٹھايا اور دوسرے نے رخصت الہى كو قبول كرليا اوراس پر كوئي گناہ نہيں ہے (1)
ائمہ اہل بيت كى احاديث ميں بھى بالخصوص ان ائمہ كے كلمات ميں كہ جو بنوعباس اور بنو اُميّہ كى حكومت كے زمانہ ميں زندگى بسر كرتے تھے اور اس دور ميں جہاں كہيں محب على ملتا اسے قتل كرديا جاتا تھا_تقيہ كا حكم كثرت سے ملتا ہے _ كيونكہ وہ مامور تھے كہ ظالم اور بے رحم دشمنوں سے اپنى جان بچانے كے لئے تقيہ كى ڈھالسے استفادہ كريں_

6_كيا تقيہ صرف كفار كے مقابلے ميں ہے؟
ہمارے بعض مخالفين جب ان واضح آيات اور مندرجہ بالاروايات كا سامنا كرتے ہيں تو اسلام ميں تقيہ كے جواز كو قبول كرنے كے علاوہ انكے پاس كوئي چارہ نہيں ہوتا_ اس وقت وہ
------------------------------
1) مسند ابى شيبہ ، ج12 ص 358_

33
يوں راہ فرار تلاش كرتے ہيں كہ تقيہ تو صرف كفار كے مقابلہ ميں ہوتا ہے_ مسلمانوں كے مقابلے ميں تقيہ جائز نہيں ہے _ حالانكہ مندرجہ بالا ادلہ كى روشنى ميں بالكل واضح ہے كہ ان دو موارد ميں كوئي فرق نہيں ہے_
1_ اگر تقيہ كا مفہوم متعصب اور خطرناك افراد كے مقابلے ميں اپنى جان ،مال اور ناموس كى حفاظت كرنا ہے، اور حقيقت ميںبھى يو نہى ہے، تو پھر نا آگاہ اور متعصب مسلمان اور كافركے در ميان كيا فرق ہے ؟ اگر عقل و خرد يہ حكم لگاتى ہے كہ ان امور كى حفاظت ضرورى ہے اور انہيں بيہودہ طور پر ضائع كرنا مناسب نہيں ہے تو پھر ان دومقامات ميں كيا فرق ہے_
دنيا ميں ايسے افراد بھى موجود ہيں جو انتہائي جہالت اور غلط پروپيگنڈہ كى وجہ سے كہتے ہيں كہ شيعہ كا خون بہانا قربت الہى كا ذريعہ بنتا ہے _ اب اگر كوئي مخلص شيعہ جو امير المومنين _ كا حقيقى پيرو كار ہو اور اس جنايت كارٹولے كے ہاتھوں گرفتار ہوجائے اور وہ اس سے پوچھيں كہ بتا تيرا مذہب كيا ہے ؟ اب اگر يہ شخص واضح بتادے كہ ميں شيعہ ہوں تو يہ خواہ مخواہ اپنى گردن كو جہالت كى تلوار كے سپردكرنے كے علاوہ كوئي اور چيزہے؟ كوئي بھى صاحب عقل و خرد يہ حكم لگا سكتا ہے ؟
باالفاظ ديگر جو كام مشركين عرب نے جناب عمار و ياسريا مسيلمہ كذاب كے پيروكاروں نے دواصحاب رسول خدا كے ساتھ كيا اگر وہى كام بنو اميہ اور بنو عباس كے خلفاء اور جاہل مسلمان، شيعوں كے ساتھ انجام ديں تو كيا ہم تقيہ كو حرام كہيں اور اہل بيتكے سينكڑوں بلكہ ہزاروں مخلص پيروكاروں كى نابودى كے اسباب فراہم كريں صرف اس خاطر كہ يہ حاكم بظاہر مسلمان تھے ؟
اگر ائمہ اہل بيتتقيہ كے مسئلہ پربہت زيادہ تاكيد نہ كرتے يہاںتك كہ فرمايا ہے

34
(تسعة اعشار الدين التقيہ) دس ميں سے نو حصے دين تقيہ ہے _(1)
تو بنو اميہ اور بنو عباس كے دور ميں شيعوں كے مقتولين كى تعداد شايد لاكھوں بلكہ كروڑوں تك پہنچ جاتى _ يعنى انكى بے رحمانہ اوروحشيانہ قتل و غارت دسيوں گنا زيادہ ہوجاتي_
آيا ان شرائط ميں تقيہ كى مشروعيت كے بارے ميں ذرہ برابر شك رہ جاتا ہے ؟ہم يہ بات فراموش نہيں كرسكتے كہ جب اہل سنت بھى سالہا سال مذہبى اختلافات كى خاطر ايك دوسرے سے تقيہ كرتے تھے _ من جملہ قرآن مجيد كے حادث يا قديم ہونے پر انكا شديد اختلاف تھا اور اس راہ ميں بہت ساروں كا خون بہايا گيا (وہى نزاع كہ جو آج محققين كى نظر ميں بالكل بيہودہ اوربے معنى نزاع ہے )كيا جو گروہ اپنے آپ كو حق پر سمجھتا تھا اگر ان ميں سے كوئي شخص مخالفين كے چنگل ميں گرفتار ہوجاتا تو كيا اسے صراحت كے ساتھ كہہ دينا چاہيے كہ ميرا يہ عقيدہ ہے چاہے اس كا خون بہہ جائے اور اس كے خون بہنے كا نہ كوئي فائدہ ہو اور نہ كوئي تاثير؟
2_جناب فخر رازى اس آيت (الا ان تتقوا منہم تقاة )(2)كى تفسير ميں كہتے ہيں كہ آيت كا ظہور يہ ہے كہ تقيہ غالب كافروں كے مقابلے ميں جائزہے ( الا ان مذہب الشافعى _رض_ان الحالة بين المسلمين اذا شاكلت الحالة بين المسلمين و المشركين حلّت التقيہ محاماة على النفس ) ليكن مذہب شافعى يہ ہے كہ اگر مسلمانوں كى كيفيت بھى ايك دوسرے كے ساتھ مسلمين و كفار جيسى ہوجائے تو اپنى جان كى حفاظت كے لئے تقيہ جائزہے _
------------------------------
1) بحارالانوار ، جلد 109، ص 254_
2) سورة آل عمران آية 28_

35
اس كے بعد حفظ مال كى خاطر تقيہ كے جواز پر دليل پيش كرتے ہيںكہ حديث نبوى ہے (حرمة مال المسلم كحرمة دمہ ) مسلمان كے مال كا احترام اس كے خون كى مانند ہے ) اور اسى طرح دوسرى حديث ميں ہے (من قتل دون مالہ فہو شہيد) جو اپنے مال كى حفاظت كرتے ہوئے ماراجائے وہ شہيد ہے (1)_
تفسير نيشاپورى ميں كہ جو تفسير طبرى كے حاشيہ پر لكھى گئي ہے يوں بيان كيا گيا ہے كہ قال الامام الشافعى :
(تجوز التقيہ بين المسلمين كما تجوز بين الكافرين محاماة عن النفس ) (2)
امام شافعى فرماتے ہيں كہ جان كى حفاظت كى خاطر مسلمانوں سے تقيہ كرنا بھى جائز ہے _ جس طرح كفار سے تقيہ كرنا جائز ہے _
3_دلچسب بات يہ ہے كہ بنى عباس كى خلافت كے دور ميں بعض اہل سنت محدثين (قرآن مجيد كے قديم ہونے ) پر عقيدہ ركھنے كيوجہ سے بنو عباس كے حكّام كى طرف سے دباؤ كا شكار ہوئے انہوں نے تقيہ كرتے ہوئے اعتراف كرليا كہ قرآن مجيد حادث ہے اوراس طرح انہوںنے اپنى جان بچالى _
''ابن سعد'' مشہور مورخ كتاب طبقات ميںاور طبرى ايك اور مشہور مورخ اپنى تاريخ كى كتاب ميں دو خطوط كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ جو مامون كى طرف سے اسى مسئلہ كے بارے ميں بغداد كے پوليس افسر (اسحق بن ابراہيم) كى طرف ارسال كيے گئے _
----------------------------
1) تفسير كبير فخر رازي، جلد 8 ص 13_
2) تفسير نيشابورى (تفسير الطبرى كے حاشيہ پر) جلد 3، ص 118_

36
پہلے خط كے بارے ميں ابن سعد يوں لكھتا ہے كہ مامون نے پوليس افسر كو لكھا كہ سات مشہور محدثين ( محمد بن سعد كاتب واقدى _ابو مسلم_يحيى بن معين_زہير بن حرب_ اسمعيل بن داوود_ اسمعيل بن ابى مسعود_ و احمد بن الدورقى ) كو حفاظتى اقدامات كے ساتھ ميرى طرف بھيج دو_جب يہ افراد مامون كے پاس پہنچے تو اس نے ان سے آزمانے كے ليے سوال كيا كہ قرآن مجيد كے بارے ميں تمہارا عقيدہ كيا ہے؟ تو سب نے جواب ديا كہ قرآن مجيد مخلوق ہے (حالانكہ اس وقت محدثين كے درميان مشہور نظريہ اس كے برعكس تھا يعنى قرآن مجيد كے قديم ہونے كے قائل تھے اور ان محدثين كا بھى يہى عقيدہ تھا (1) ہاں انہوں نے مامون كى سخت سزاؤں كے خوف سےتقيہ كيا اور قرآن مجيد كے مخلوق ہونے كا اعتراف كرليا اور اپنى جان بچالى _مامون كے دوسرے خط كے بارے ميں كہ جسے طبرى نے نقل كيا ہے اور وہ بھى بغداد كے پوليس افسر كے نام تھايوں پڑھتے ہيں كہ جب مامون كا خط اس كے پاس پہنچاتو اس نے بعض محدثين كو كہ جنكى تعداد شايد 26چھبيس افراد تھى حاضر كيا اور مامون كا خط انكے سامنے پڑھا_پھر ہر ايك كو الگ الگ پكار كر قرآن مجيد كے بارے ميں اُسكا عقيدہ معلوم كيا_ ان ميں سوائے چار افراد كے سب نے اعتراف كيا كہ قرآن مجيد مخلوق ہے ( اور تقيہ كركے اپنى جان بچالى ) جن چار افراد نے اعتراف نہيں كيا انكے نام يہ تھے احمد ابن حنبل ، سجادہ ، القواريري، اور محمد بن نوح _ پوليس انسپكٹر نے حكم ديا كہ انہيں زنجيروں ميں جكڑ كر زندان ميں ڈال ديا جائے _ دوسرے دن دوبارہ ان چاروںافراد كو بلايا اور قرآن مجيد كے بارے ميں اپنے سوال كا تكرار كيا _سجادة نے اعتراف كرليا كہ قرآن مجيد مخلوق ہے وہ آزاد ہو
--------------------------------
1) طبقات ابن سعد، جلد 7،ص 167، چاپ بيروت_

37
گيا _ باقى تين نے مخالفت پر اصرار كيا ،انہيں دوبارہ زندان بھيج ديا گيا_ اگلے دن پھر ان تين افراد كو بلايا گيا اس مرتبہ (القواريري)نے اپنا بيان واپس لے ليا اور آزاد ہوگيا_ليكن احمد ابن حنبل اور محمد بن نوح اسى طرح اپنے عقيدہ پر مصّر رہے _ پوليس انسپكٹر نے انہيں (طرطوس ) (1) شہر ميں جلا وطن كرديا_
جب كچھ لوگوں نے ان تقيہ كرنے والوں پر اعتراض كيا تو انہوں نے كفار كے مقابلے ميں جناب عمار ياسر كے عمل كو دليل كے طور پر پيش كيا (2)ان موارد سے بالكل روشن ہوجاتا ہے كہ جس دقت انسان كسى چنگل ميں گرفتار ہوجائے اور اس وقت ظالموں سے نجات پانے كا تنہا راستہ تقيہ ہوتو وہ يہ راستہ اختيار كر سكتا ہے خواہ يہ تقيہ كافر كے مقابلہ ميں ہو يا مسلمان كے مقابلے ميں ہو_

7) حرام تقيہ:
بعض موارد ميں تقيہ حرام ہے اور يہ اس وقت ہے كہ جب ايك فرد يا گروہ كے تقيہ كرنے اور اپنا مذہبى عقيدہ چھپا نے سے اسلام كى بنياد كو خطرہ لاحق ہوتا ہو يا مسلمانوں كو شديد نقصان ہو تا ہو_ اس وقت اپنے حقيقى عقيدہ كو ظاہر كرنا چاہيے، چاہے ان كے لئے خطرے كا باعث ہى كيوں نہ ہو _اور جو لوگ خيال كرتے ہيں كہ يہ اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈالنا ہے اور قرآن مجيد نے صراحت كے ساتھ اس سے منع فرمايا ہے ( ولا تلقو بايديكم الى التہلكة) يہ
--------------------------
1) يہ شام ميں دريا كے كنارے ايك شہر ہے (معجم البلدان جلد4، ص 30)_
2) تاريخ طبرى جلد 7، ص 197_

38
لوگ سخت خطاء سے دوچار ہيں كيونكہ اس كا لازمہ يہ ہے كہ ميدان جہاد ميں حاضر ہونا بھى حرام ہو حالانكہ كوئي بھى عاقل ايسى بات نہيں كرتا ہے _يہاں سے واضح ہوتا ہے كہ يزيد كے مقابلے ميں امام حسين _ كا قيام يقينا ايك دينى فريضہ تھا _ اسى لئے امام _ تقيہ كے طور پر بھى يزيديوں اور بنو اميہ كے غاصب خلفاء كے ساتھ كسى قسم كى نرمى دكھانے پر راضى نہ ہوئے_ كيونكہ وہ جانتے تھے كہ ايسا كرنے سے اسلام كى بنياد كو شديد دھچكا لگے گا_ آپ (ع) كا قيام اور آپكى شہادت مسلمانوں كى بيدارى اور اسلام كو جاہليت كے چنگل سے نجات دلانے كا باعث نبي_

(مصلحت آميز ) تقيّہ:
يہ تقيہ كى ايك دوسرى قسم ہے اور اس سے مراد يہ ہے كہ ايك مذہب والے ،مسلمانوں كى صفوں ميں وحدت برقرار ركھنے كے لئے ان باتوں ميں جن سے دين و مذہب كى بنيادكو كوئي نقصان نہيں پہنچتا، دوسرے تمام فرقوں كے ساتھ ہماہنگى اور يكجہتى كا ثبوت ديتے ہيں _ مثلا مكتب اہل بيتكے پيرو كار يہ عقيدہ ركھتے ہيں كہ كپڑے اور قالين پر سجدہ نہيں ہوتااورپتھريا مٹى و غيرہ پر سجدہ كرنا ضرورى ہے _اور پيغمبر اكرم (ص) كى اس مشہور حديث (جعلت لى الارض مسجداً و طہورا)(1) ''زمين كو ميرے لئے محل سجدہ اور وسيلہ تيمّم قرار ديا گيا ہے '' كو اپنى دليل قرار ديتے ہيں اب اگر وہ وحدت برقرار ركھنے كيلئے ديگر مسلمانوں كى صفوں ميں انكى مساجد ميںيامسجد الحرام اور مسجد نبوى ميں جب نماز پرھتے ہيں تو ناگزير كپڑے پر سجدہ كرتے ہيں _ يہ كام جائز ہے اور ايسى نماز ہمارے عقيدہ كے مطابق
-----------------------------
1)صحيح بخارى جلد 1 ص 91و سنن بيہقى ،جلد 2 ص 433(اور بھى بہت سى كتب ميں يہ حديث نقل ہوئي ہے )_

39 درست ہے اور اسے ہم مدارا كرنے والا ( مصلحت آميز )تقيہ كہتے ہيں _كيونكہ اس ميں جان و مال كا خوف دركار نہيں ہے بلكہ اس ميں تمام اسلامى فرقوں كے ساتھ مدارا كرنے اورحسن معاشرت كا عنوان در پيش ہے _تقيہ كى بحث كا ايك بزرگ عالم دين كے كلام كے ساتھ اختتام كرتے ہيں _
ايك شيعہ عالم دين كى مصر ميں الازہر كے ايك بزرگ استاد سے ملاقات ہوئي اس نے شيعہ عالم كو سرزنش كرتے ہوئے كہا-ميں نے سنا ہے تم لوگ تقيہ كرتے ہو؟ شيعہ عالم دين نے جواب ميں كہا( لعن الله من حملنا على التقية ) رحمت الہى سے دور ہوں وہ لوگ جنہوں نے ہميں تقيہ پر مجبور كيا (1)
------------------------------------
1) يعنى اگر دشمنوں كى طرف سے ہمارى جان و مال كو خطرہ نہ ہوتا تو ہم كبھى بھى تقيہ نہ كرتے (مترجم)