مذہب کے وجود میں آنے کے اسباب
وہابی قائل ہیں کہ شیعہ او رغلو کا آغاز بیک وقت ہوا اس فکر کے دو اسباب ہیں:
١۔ ان کا ان دو مذاہب کے فکری عناصر سے بے خبر ہونا۔
٢۔ ایک منسجم فکری نظام پر قائم نہ ہونا۔
غالی تفکر نے آلودہ ماحول ، مجوسی افسانوں او ریہودی و مسیحی خرافات میں وجود پایا، لہٰذا غالی اور شیعی افکار (جو قرآن و سنت پر استوار ہیں) کو ایک قرار دینا مضحکہ خیز اور بیہودہ کوشش ہے۔
وہابیوں نے شیعیت سے مربوط اصل متون (حتی متون اہل سنت) کی تحقیق نہیں کی، لہٰذا جس شخص نے سب سے پہلی مرتبہ امیر المومنین حضرت علی کی ولایت کو پیش کیا، یعنی رسول اکرم ۖ سے غافل رہے اور سب سے پہلے غالی، یعنی عبداللہ بن سبا کو شیعیت کا موجد قرار دیا،یہی وجہ تھی کہ غلو اور تشیع کے ایک ہونے کا نظریہ وجود میں آیا۔
تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے پہلا فرد جس نے حضرت علی کوالٰہ و معبود قرار دیا عبداللہ ابن سبا ہے لیکن وہابیوں نے الٰہ کے لفظ میںتحریف کرتے ہوئے کہنا شروع کیا کہ عبد اللہ بن سبا وہ پہلا شخص ہے کہ جس نے حضرت علی کو پیغمبر اسلامۖ کا وصی قرار دیا اور اس طرح وہ شیعیت کی پیدائش کو عبد اللہ بن سبا سے منسوب کرتے ہیں۔
ہم نے تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''رحلتی من الوہابیہ'' میں اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خود اہلسنت قائل ہیں کہ رسول اکرم ۖ نے علی کو بعنوان وصی پیش کیا ہے، اور یہ نادانی کی انتہا ہے، کہ وہابی الوہیت و وصایت میں خلط کریں۔
وصایت کہ جو قرآن وسنت پر استوار ہے، اورالوہیت علی کہ جو شرک آمیز افکار کا نتیجہ ہے، میں کوسوں فاصلہ پایا جاتا ہے ان تمام مشکلات کی وجہ یہ ہے کہ وہابی گروہ نے مذہب تشیع کی شناخت اور ان کے اعتقادات کی تحلیل میں غلط راستہ کا انتخاب کیا ہے اوران مراحل کو طے کرنے میں منطقی ترتیب کا لحاظ نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ سنی و عاقل وہابی محققین ان انحرافات سے آگاہ ہوچکے ہیں۔
بے شمار سنی علماء نے عبد اللہ بن سبا سے وصایت کے انتساب کو شدت کے ساتھ رد کیا ہے. اور کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن سبا سے پہلے حضرت علی ، صحابہ کے درمیان وصی کی حیثیت سے معروف و مشہور تھے او رخود اہل سنت معترف ہیں کہ وہابیوں نے امامیہ کو داغدار بنانے کے لئے اس نظریہ کو پیش کیا ہے تاکہ جاہل افراد یہ تصور کریں کہ مذہب تشیع کی فکری بنیاد ( یعنی امامت اور وصایت علی کا مسئلہ) یہودی شخص نے رکھی ہے۔
تشیع کی پیدائش کے اسباب
مذہب تشیع میںامامت کی حقیقت پر مذکورہ مطالب میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ شیعوں کا بارہ اماموں سے متمسک ہونا قرآن و سنت کے محکم دلائل پر استوار ہے لہٰذا حقیقت امامت کی تحلیل سے پہلے شیعوں کی ولایت مداری کے اسباب پر گفتگو نہیں کی جاسکتی. اور جب یہ ثابت ہو جائے کہ تشیع کا ولایت اوراہل بیت ٪ سے متمسک ہونا حدیث ثقلین، حدیث اثنیٰ عشر کے اتباع کا نتیجہ ہے اور اہلبیت سے تمسک، قرآن سے متمسک ہونے کے بعد ہے ،تو یہ کہنا پڑے گا کہ تشیع و غلو کی پیدائش کے اسباب میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے، جب کہ وہابی برعکس تصور کرتے ہیں اور اس کی وجہ ان کا خلط جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوناہے. لہٰذا ضروری ہے کہ وہ اس کتاب کے پہلے مرحلہ کی طرف توجہ فرمائیں تاکہ اس مرض سے نجات پاسکیں۔
وہابیوں کے لئے مذہب امامیہ کی
خصوصیات کو کس طرح پیش کریں؟
مذہب امامیہ کے حقائق کے متعلق گفتگو کے سلیقہ سے فارغ ہونے کے بعد اب ہم اس مذہب کی خصوصیات کو بیان کرنے کی روش پیش کرتے ہیں. لہٰذا اس مقام پرتین نکات کا بیان کرنا ضروری ہے۔
١۔ مذہب امامیہ کے خصائص کا سمجھنا اس مذہب کے حقائق کو سمجھے بغیر ممکن نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم نے حقائق تشیع کو مقدم کیا۔
٢۔ کچھ خصوصیات ایسی ہیں کہ جنھیں تمام شیعہ و سنی علماء نے اسلام کے لئے ثابت قرار دیا ہے اور کچھ خصوصیات ایسی ہیں کہ جنھیں وہابیوں نے اسلام سے منسوب کیا ہے اور ان دو کے درمیان خلط ملط نے وہابیوں کو مشکل سے دوچار کیا بلکہ اسی مشکل کے سبب دیگر مذاہب کوانھوں نے متہم کیا ہے۔
٣۔ یہ بات واضح ہے کہ وہابی، امامیہ مذہب اور غالی خصائص میں فرق کے قائل نہیں، لہٰذا بعض غالی خصوصیات کو شیعیت سے منسوب کرتے ہیں ہم نے اپنی کتاب ''رحلتی من الوہابیہ'' میں مذہب تشیع کی خصوصیات کو بیان کیا ہے اور اس مقام پر بالترتیب تین خصوصیات کو پیش کرتے ہیں:
١۔ اہل بیت رسول ۖ کی نسبت امامیہ کا معتدل رویہ۔
٢۔ صحابہ کے متعلق ان کا حقیقت پسند ہونا۔
٣۔ امام مہدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت ۔
پہلی خصوصیت
امامیہ مذہب کی مہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ وہ أئمہ (ع) کی بہ نسبت افراط و تفریط کے شکار نہیں ہیںاوران کا یہی رویہ میرے شیعہ ہونے میں بے حد مؤثر ثابت ہوا۔
وہابیت کے دوران میرا یہ تصور تھا کہ اہل سنت اہل بیت ٪ کے بارے میں معتدل نظریہ رکھتے ہیں، نہ افراط کے شکار ہیں اور نہ ہی تفریط کے، (جیساکہ وہ خود اپنے متعلق یہی فکر رکھتے ہیں) لیکن سنی عالم، ابن عقیل شافعی کی کتاب (العتب الجمیل علی اہل الجرح والتعدیل) اور اسی طرح محمد ابو زھرہ کی کتاب (الامام جعفر الصادق) کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اہلبیت کے متعلق ان کا نظریہ حقیقت سے دور او رغیر معتدل ہے. اور صرف مذہب تشیع ہے کہ جن کے یہاں اس مسئلہ میں نہ افراط ہے اور نہ ہی تفریط، مہم بات تو یہ ہے کہ گر چہ اہل سنت نے نواصب او رغلات کے نظریات (جو أئمہ (ع) کے حق میں افراط و تفریط کا شکار ہیں) کو رد کرتے ہوئے ان سے برائت کا اظہار کیا ہے، لیکن خود اہل بیت ٪ کے مقابل منفی موقف رکھتے ہیں۔
یعنی اہل بیت ٪ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان پر ایمان رکھتے ہیں اوران سے متمسک رہنے کو واجب و ضروری جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سے متمسک ہونا قرآن سے متمسک ہونا ہے لیکن ان تمام باتوں پر یقین رکھنے کے باوجود غیروں سے متمسک ہیں اورقول یا فعل کے ذریعہ أئمہ (ع) کی مخالفت کرتے ہیں ،لیکن اہل تشیع غلو سے بیزاری او راہل بیت ٪ سے بغیر کسی عداوت کے رسول اکرم ۖ کی وصیت پر عمل کرتے ہیں اوران سے متمسک ہو کر ان کے گفتار و کردار کی تصدیق کرتے ہیں۔
اہل بیت ٪ کے متعلق یہی نکتہ اہل سنت و شیعہ کی روشی اختلاف کا سبب ہے اس خاص نقطہ کی وجہ سے ان دو روشوں میں فرق پایا جاتا ہے جن میں کوئی اشتراک نہیں. بحمد اللہ خدا کا لطف و کرم اور اس کی ہدایت ہے کہ ہم نے امامیہ روش کو انتخاب کیا اور وہابیت سے دستبردار ہوئے۔
دوسری خصوصیت
شیعوں کے یہاں صحابہ کے سلسلہ میں حقیقت پسند نظر پایا جاتاہے، کیونکہ وہ انھیں بشر جانتے ہیں اسی لئے تمام قوانین بشریت ان پر جاری کرتے ہیں لہٰذا دیگر تمام لوگوں کی طرح ان میں خطا کا امکان موجودہے۔
وہابیوں سے امید ہے کہ وہ میری اس بات کو عدالت صحابہ کی نقد قرار نہ دیں بلکہ حقیقت مطلب پر توجہ دیں کیونکہ وہابی اس عنوان سے وحشت زدہ ہیں اور اس کے متعلق کسی بھی قسم کی تنقید پیش نہیں کرتے، امید ہے کوئی عنوان دیئے بغیر اس مضمون پر نگاہ کی جائے۔
یہاں پر اس بات کو ذکر کرنا ضروری ہے کہ شیعوں کے نزدیک تمام صحابہ عادل نہیں، بلکہ بعض صحابیوں کی عدالت ان کے نزدیک ثابت ہے . مجھے پوری طرح تجربہ ہے کہ وہابی عنوان کو بے حد اہمیت دیتے ہیںاو ربعض اوقات عناوین ہی کی وجہ سے بحث کرنے لگتے ہیں. او رجب عنوان بدل جائے تو نزاع بھی ختم ہو جاتاہے یہی وجہ ہے کہ وہ بعض کتب کا مطالعہ ہی نہیں کرتے، لیکن اگر اس کتاب کا نام بدل دیا جائے، توآسانی کے ساتھ اس کا مطالعہ کرتے ہیں. لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ان سے گفتگو کے دوران ہوشیا ر رہیں اور مناسب عناوین کا انتخاب کریں . میں نے ٣٠٠ کیسٹیں (جس میں وہابیوں سے مناظرہ ہے) میں کوشش کی ہے، کہ لفظ شیعہ کے بجائے اثنیٰ عشریہ سے استفادہ کروں، کیونکہ وہ اس لفظ سے متنفر ہیںاور اثنیٰ عشریہ عنوان کے ذریعہ ان سے گفتگو میںآسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
اور حدیث ثقلین پیش کئے بغیر صحابہ کے متعلق گفتگو کرنا صحیح نہیں، کیونکہ وہ صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں، یہی وجہ ہے کہ حدیث ثقلین کا انکار کرتے ہیں لہٰذا جب حدیث ثقلین بیان کی جائے، تو خود بخود صحابہ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گاااور اسی طرح ،حدیث ثقلین سے پہلے حدیث غدیر کو بھی بیان نہ کیا جائے کیونکہ اس بحث کے نتیجہ میں صحابہ اور واقعہ سقیفہ سے متعلق مباحث پیش آئیں گے، کیونکہ وہابی واقعۂ غدیر اور صحابہ کے درمیان تلازم و ارتباط کے قائل ہیں. لہٰذا بے شمار وہابی حدیث غدیر کو سیاسی گفتگو قرار دیتے ہیں، جس کا وقت ان کی نظر میں گزر چکا ہے۔١
لیکن حدیث ثقلین کے متعلق ان کی نظر کچھ او رہے اور وہ اسے اہل بیت ٪ کی مرجعیت کی دلیل جانتے ہیں کہ جو عصر حاضر کے لئے بھی ثابت ہے. میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ حدیث غدیر کی اہمیت کو کم کیا جائے بلکہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم گفتگو کے دوران فرد مقابل کے طرز تفکر کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کریں اور ہمارا ہدف بھی یہی ہے کہ ہم وہابی کو اس کی فکری مشکلات سے نجات دلائیں، لہٰذا چونکہحدیث ثقلین سے پہلے حدیث غدیر کا سمجھنا ایک وہابی کے لئے مشکل ہے، لہٰذا ہم حدیث غدیر کودوسرے مرحلہ میں بیان کریں۔
ہم نے مقدمۂ کتاب میں بھی عرض کیا ،کہ وہابیوں سے گفتگو کے دوران آیۂ تطہیر اور آیۂ مباہلہ کو آیۂ ولایت پر مقدم کرنا ضروری ہے، کیونکہ وہ آیۂ ولایت اور صحابہ میں تلازم و ارتباط کے قائل ہیں اور جب تک صحابہ کا مسئلہ حل نہ ہو حدیث غدیر کے سمجھنے سے عاجز ہیں، . لیکن اگر حدیث غدیر سے پہلے آیۂ تطہیر اور حدیث ثقلین کو
......... ............ ................. ...........
(١) البتہ یہ قول کہ دور حاضر میں حدیث غدیر کے متعلق گفتگو کا کوئی ثمرہ نہیں، پوری طرح سے یہ نظریہ مردود ہے جس کی طرف اہل سنت اور متأثر شیعہ نے اشارہ کیا ہے او رہم نے کتا ب ''بازخوانی اندیشہ تقریب'' میں اس کا جواب دیا ہے. ( اسکندری، مترجم فارسی)
بیان کیا جائے، تو وہابی فکر، حدیث غدیر، آیۂ ولایت اور صحابہ کے بارے میں غور و خوض کے لئے آمادہ ہوسکتی ہے۔
صحابہ کے لئے اہل سنت اور غالیوں کا رویہ افراط و تفریط کا شکار ہیں، ایسا نہیں کہ تمام صحابہ عادل ہوں اور یہ بھی نہیں کہ کوئی بھی ان میں سے عادل نہ ہو، بلکہ صرف شیعہ ہی صحابہ کے متعلق معتدل نظریہ رکھتے ہیں۔
تیسری خصوصیت
غیبت امام زمانہ ـ پر ایمان رکھنا شیعوں کی ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جوانھیں دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے، انقطاع وحی اورنبوت کے اختتام کے بعد یہ وہی صاحب غیبت ہیں کہ جن کے توسط زمین و آسمان میں رابطہ قائم ہے۔
ہماری تلاش و کوشش ہے کہ اس حیات بخش عقیدہ کو ایک نئی شکل میں وہابیوں کے لئے پیش کریں تاکہ وہ اس کے عناوین واصطلاحات کو رد نہ کریں . غیبت امام ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کے بارے میں رسول اکرم ۖ نے غیبت سے ٢٥٠ سال پہلے خبر دی او راسی وقت بے شمار مسلمان اس خبر پر ایمان لائے اور غیبت کے متعلق بے شمار احادیث جمع ہوئیں. یہاں تک کہ ان میں سے بعض احادیث کو بطور خاص جمع کیا گیا اس طرح ٢٥٠ سال بعد پیغمبرۖ کی پیشین گوئی محقق ہوئی اور لوگوں نے اس حقیقت کو نزدیک سے لمس کیا۔
ہم نے کتاب ''رحلتی من الوہابیہ'' کی آخری فصل میں ان احادیث کو بیا ن کیا ہے. جیسا کہ قارئین محترم جانتے ہیں غیبت امام کے مباحث اصل امامت کے ثبوت پر موقوف ہیں، کیونکہ امامت اصل ہے اور غیبت فرع اور غیبت کا مرحلہ حدیث ثقلین کے بعد ہے، کیونکہ حدیث ثقلین امامت سے مربوط ہے اور جب یہ دو مسائل حل ہو جائیں تو پھر غیبت کو پیش کیا جاسکتا ہے۔
بہرحال اس منطقی ترتیب کا لحاظ ضروری ہے تاکہ وہابی مطالب کو بہتر سمجھ سکیں. ہم نے گذشتہ صفحات میں اشارہ کیا ،کہ یہ کتا ب ، ہماری مفصل کتاب (رحلتی من الوہابیہ الی الاثنی عشریہ) کے لئے مقدمہ ہے. لہٰذا اس کتا ب کے تین مرحلوں میں ہم نے اصل او رکلیدی مباحث کو ذکر کیا ہے جن پر تفصیلی تحقیق کتا ب ''رحلتی من الوہابیہ الی الاثنی عشریہ'' میں ذکر ہے تاکہ مذکورہ کتاب کے تمام مطالب واضح ہو جائیں۔
|