تیسرا مرحلہ
مذہب امامیہ کی بنیادی شناخت
اس مرحلہ میں جن مسائل کا تجزیہ ہوگا ان کا مقام منطقی لحاظ سے دوسرے مرحلہ سے مربوط مسائل کی شناخت کے بعد ہے اگر الوہیت، نبوت، شریعت، اور شیعہ اہداف اوران کی اصطلاحات صحیح طور پر بیان ہو جائیں تو پھر نہ ہی امامیہ اور غلو کے منشا میں خلط واقع ہوگا اور نہ ہی شیعہ اور غالی منابع یکسان قرار دیئے جائیں گے اس مرحلہ میں تین چیزوں (شیعی منابع، شیعی تشخص، شیعیت کے وجود میںآنے کے اسباب) پر بحث و تحقیق ہوگی اور گرچہ امامت اور غیبت امام کے مباحث دوسرے مرحلہ سے مربوط ہیں لیکن ضرورت کی بنا پر ہم انھیں اسی مرحلہ میں پیش کرتے ہیں۔
١۔ امامیہ مذہب کے منابع
وہابی معتقد ہیں کہ شیعہ اعتقادات کی بنیاد مجوسی ، یہودی اور مسیحی افکار پر استوار ہیں، لیکن اگر وہ گذشتہ مراحل پر غور کرتے تو ان کے لئے واضح ہو جاتا ،کہ تمام شیعہ مبانی قرآن اور صحیح سنت سے ماخوذ ہیں اوریہی منابع اس مذہب کی بنیاد ہے۔
یہ تو وہابیوں کی عادت ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کے مفاہیم اور عقائد پر پوری طرح تحلیل کئے بغیر اس مذہب کے بارے میں غلط قضاوت کر بیٹھتے ہیں.اگر وہ شیعہ علمی وعملی آراء کو سمجھتے، اوران کے لئے واضح ہو جاتا، کہ یہ آراء قرآن و سنت میں منحصر ہیں، تووہ شیعہ کو مجوسی نہ کہتے، کیونکہ وہابی، شیعہ اور غالی کوایک ہی تصور کرتے ہیں، لہٰذا ان کے منابع کو بھی ایک ہی خیال کرتے ہیں اور جس طرح غالیوں کے انحراف کی اساس ،مجوسی، یہودی اور مسیحی افکار ہیں، شیعہ عقائد کو بھی انھیں پر حمل کرتے ہیں جب کہ ان دونوں کے درمیان کوسوں فاصلہ پایا جاتا ہے ۔
٢۔ مذہب تشیع میں امامت کی حقیقت
امامت کے متعلق (قرآن و حدیث سے) محکم دلائل پر توجہ دینے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ امامت خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک ایسی خاص نعمت ہے، جسے اپنے آخری پیغمبرۖ کے ذریعہ پہچنوایا.امامت شیعوں کا خود ساختہ مفہوم یا خاندان پیغمبرۖ پر ظلم کا نتیجہ نہیں، بلکہ أئمہ (ع) کی امامت کے بارے میں صدر اسلام ہی سے صحیح نصوص موجود ہیں اوراس امر کی ابتدا چوتھی صدی یا اس کے بعد نہیں ہوئی ہے۔
شیعہ اور سنی متفق ہیں کہ پیغمبر اسلامۖ نے بارہ افراد کو اپنا وصی اور خلیفہ قرار دیا اوراس سلسلہ میں احادیث کو بخاری، مسلم او ردوسرے محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے. یہ تمام راوی چوتھی صدی سے پہلے تھے اور اس سے پہلے کہ بارہ امام آئیں یہ احادیث مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی تھیں اور انھیں احادیث کی بنا پر لوگ أئمہ (ع) کی امامت کی طرف مائل ہوئے، لہٰذا ظالم بادشاہوں نے پوری کوشش کی، کہ ان احادیث کو چھپا ئیں یاان میں تحریف و تاویل کریں، کیونکہ انھیں یقین تھا کہ ان احادیث کے ذریعہ ان کی سلطنت منہدم ہو جائے گی۔
ہم نے اپنی آئندہ کتاب ''رحلتی من الوہابیہ الی الاثنا عشریہ'' میںامامت کے لئے محکم دلائل پیش کئے ہیں،لیکن وہابی ان نصوص کو غالیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، جب کہ وہ بھول رہے ہیں، کہ امامت کے متعلق نصوص، سنی معتبرکتابوں میں بھی پائے جاتے ہیںاور یہ نصوص شیعوںکی گڑھی ہوئی نہیںہیں۔
وہابی ان احادیث (کہ جسے تمام مسلمان، اختلاف کے باوجود قبول کرتے ہیں) پر دقیق تحقیق کرنے سے عاجز ہیں اور انھوں نے امامیہ کتب میں مذکور محکم دلائل کی طرف رجوع نہیں کیا، لہٰذا دوبارہ جہل و نادانی کے ساتھ کہتے ہیں کہ امامت غالی اور مجوسیوں کی جعل کردہ چیز ہے۔
ہماری نظر میں شیعیت کی بلند پروازیں اور اس کی ترقی میں اہم کردار ''حدیث ثقلین'' اور ''حدیث بارہ امام'' کا ۔ یہ دو حدیثیں اس مذہب کے لئے دو پروں کی حیثیت رکھتی ہیں جو اسے بلند پروازی کی صلاحیت عطاکرتے ہیں۔ جب تک وہابی ان دو حدیثوں کودرک نہ کرلیں. مذہب امامیہ کے دوسرے حقائق کا ادارک ان کے لئے ممکن نہیں۔
معروف وہابی مصنف ڈاکٹر محمد علی بار اپنی کتاب ''الامام علی الرضا و رسالتہ الطیبة'' میں حدیث ثقلین کے متعلق لکھتے ہیں:
مسلم نے اپنی کتاب میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ نے میدان خم میں، جو مکہ و مدینہ کے راستہ میں ہے، خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:
اے لوگو! میںایک بشر ہوں اور جلد ہی خدا کی طرف سے ملک الموت آئے گا اور میں اس خدا کے حکم پر لبیک کہوں گا، لہٰذا تم لوگوں کے نزدیک دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جن میں سے ایک قرآن ہے کہ جو سرتا پا نور اور ہدایت ہے، پس اس سے منسلک رہو اور پھر آپ نے لوگوں کو قرآن سے منسلک رہنے کی رغبت دلائی، اور فرمایا: دوسرے میرے اہلبیت ہیں. خدا را! ان کا خیال رکھنا، او راس جملہ کی آپ نے تین مرتبہ تکرار کی۔
یہ حدیث سنن ترمذی میں زید بن ارقم سے منقول ہے کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا:
میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جار ہا ہوں اگر ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک، دوسرے سے بہتر ہے. کتاب خدا جو آسمان سے کھینچی ہوئی رسی ہے اور میری عترت جو میرے اہل بیت ٪ ہیں. یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے، سوچو! میرے بعد ان کے ساتھ تمہارا رویہ کیا ہوگا... تعجب تو اس بات پر ہے کہ اس حدیث کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا اور حاکم نیشاپوری کے مستدرک او راحمد کے اپنی مسند میں اس روایت کو مورد قبول قرار دینے کے باوجود بے شمار معاصر علماء اس روایت سے بے خبر ہیں یا اپنے علم کا اظہار نہیںکرتے او رروایت کو کتاب اللہ و سنتی پیش کرتے ہیں. جب کہ یہ نقل (جو کہ موطأ مالک میں ہے) ضعیف اور منقطع السند ہے. اگر اس نقل کو پیش کرنا چاہیں تو حد اقل ہر دو روایتوں کوایک جگہ نقل کریں نہ یہ کہ ایک حدیث کو بیان کیا جائے اور دوسرے کو مخفی. انھوں نے اپنے اس عمل کے ذریعہ علم کو چھپایاہے او رعلم چھپانے والا خدا او ررسول کے غضب میں مبتلا ہوگا۔
علامہ محمد ناصر البانی ''سلسلة الاحادیث الصحیحة'' میں لکھتے ہیں:
حدیث عترت یعنی ''یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ماان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ و عترتی اہل بیتی''ایک صحیح السند حدیث ہے کہ جسے مسلم نے اپنی صحیح١ ، طحاوی نے مشکل الآثار ٢، احمد ٣، و ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ٤، طبرانی٥، نے یزید بن حیان تمیمی کے توسط سے بیان کیا ہے او ردوبارہ احمد٦، طبرانی٧، طحاوی نے علی بن ربیعہ سے نقل کیا، کہ جب میں نے زید بن ارقم کو دیکھا
......... ............ ................. ...........
(١) ج ٧ ، ١٢٣۔ ١٢٢ .
(٢) ج ٤، ص ٣٦٨.
(٣) ج٤، ص ٣٦٧۔ ٣٦٦ .
(٤) ص ١٥٥١ ۔ ١٥٥٠.
(٥) ص ٢٦.٥ .
(٦) ج ٤، ص ٣٧١ .
(٧) ص ٥٠٤٠ .
تو سوال کیا کہ کیا آپ نے رسول اکرمۖ کے اس قول کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ''انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی؟...'' زید نے مثبت جواب دیا۔
یہ روایت صحیح السند ہے کہ جسے دوسرے طرق سے بھی نقل کیا گیا ہے جن میں سے بعض طرق کو طبرانی١ اور بعض کو حاکم٢ نے ذکر کیا ہے اور طبرانی و ذہبی نے ان میں سے بعض طرق کو صحیح قرار دیا ہے، اور طبرانی سے دوسری حدیث بھی نقل ہوئی ہے جسے حدیث عطیہ عوفی کہا جاتا ہے اور وہ ابوسعید خدری سے منقول ہے:
''انی اوشک ان ادعی فاجیب. و انی ترکت فیکم ماان أخذتم لن تضلوا بعدی الثقلین احدہما اکبر من الآخر کتاب اللہ حبل محدود من السماء الی الارض و عترتی اہل بیتی الا انہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض ''
اس حدیث کو احمد٣، ابن ابی عاصم٤، طبرانی٥، ا ور دیلمی٦، نے بھی نقل کیا ہے۔
دوسرے شواہد کو دار قطنی٧، حاکم٨، او رخطیب نے کتاب فقیہ٩، میں نقل کیاہے جن میں سے بعض کوذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔
......... ............ ................. ...........
(١) ص ٤٩٦٩، ٤٩٧١، ٤٩٨٠، ٤٩٨٢ ، ٤٠٥٠ .
(٢)ج ٣، ص ١٠٩، یا ١٤٨ و ٥٣٣ .
(٣) ج٣، ص ١٤، و ١٧، و ٢٦ و ٥٩ . (٤) ص ١٥٥٣ و ١٥٥٥
(٥) ص ٢٦٧٩۔ ٢٦٧٨ . (٦) ج ١٢ ص ٤٥ .
(٧) ص ٥٢٩. (٨) ج ١، ص ٩٣ . (٩) ٥٦ ١ .
البانی مزید لکھتے ہیں: جب میں نے قطر کا سفر کیا تو وہاں چند ڈاکٹروں سے میری ملاقات ہوئی ان میں سے ایک نے حدیث ثقلین کی تضعیف میں کتابچہ پیش کیا، جب میں نے اس کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ علم حدیث میں نو وارد ہیں، لہٰذا اس تحقیق میں جن دو نکات ضعف کی طرف میں نے اشارہ کیا وہ یہ ہیں:
١۔ انھوں نے اس حدیث کے منابع کی تلاش میں صرف بعض معمولی کتابوں کی طرف رجوع کیا تھا اوراس امر میں کوتاہی کی اور بے شمار طرق اور صحیح اسناد اور (قرائن و شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے) فراموش کیا۔
٢۔ محدثین کے کلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور اس حدیثی قاعدہ (ان الحدیث الضعیف یتقوی بکثرة الطرق)١ پر توجہ نہ کی جب کہ خود حدیث کے لئے بے شمار صحیح سندیں موجود ہیں. اس سے پہلے بھی مجھے اطلاع ملی کہ کویت میں کسی ڈاکٹر نے حدیث ثقلین کی تضعیف میں رسالہ لکھا ہے اور جب کویت سے ایک نامہ موصول ہوا جس میں مجھ پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ میںنے کیوں کر حدیث ثقلین کو جو کہ ضعیف السندہے اپنی کتاب صحیح الجامع الصغیر میں ذکر کیا ہے۔٢ اور اس حدیث کی تضعیف میں اس شخص نے اسی ڈاکٹر کے رسالہ سے استناد کیا اوراسی رسالہ کی وجہ سے میری باتیں ان کے لئے تعجب آور تھیں۔
......... ............ ................. ...........
(١) حدیث اگر ضعیف ہو تو کثرت طرق اسے ضعف سے خارج کرتے ہیں.
(٢) شمارۂ ٢٤٥٣۔ ٢٤٥٤۔ ٢٧٤٥و ٧٧٥٤ .
میں نے ان سے کہا: وہ خود اس مسئلہ پر تحقیق کریں تاکہ ڈاکٹر کی خطا ظاہر ہوسکے اور خود نامہ نگار کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے دیگر لوگوںہی کی طرح دوسروں کے نوشتوں پر تکیہ کرتے ہوئے ایک پختہ عالم اور نووارد شخص کے درمیان فرق کو مدنظر نہیں رکھا. بہرحال خدا رحم کرے۔١
البانی کے پورے کلام کو میںنے ذکر کیا تاکہ وہابی (کہ جو ہمیشہ حدیث ثقلین کی تضعیف میں ڈاکٹر علی احمد سالوس کی کتاب چھاپ کر اسے منتشر کرتے ہیں) جان لیں کہ اس شخص کوعلم حدیث و رجال سے کوئی اطلاع نہیں. اور البانی کے اس کلام کا مقصد ڈاکٹر سالوس کی رد ہے۔
مذہب تشیع کا تشخص
جب تک کہ کسی مذہب کے فکری مضامین کا دقیق تجریہ نہ کیا جائے ا س وقت تک اس مذہب کی فکری ہویت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا. لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہابیوں نے غلط راستہ کا انتخاب کیا اور تشیع کے افکار کی تحلیل کئے بغیر انھیں مجوسی قرار دینے لگے،کیونکہ منطقی لحاظ سے تشیع کے تشخص پر تحقیق کی منزل اس مذہب کے حقائق کو جان لینے کے بعد قرار پاتی ہے. لہٰذا اس بحث کوہم نے اس مقام پر ذکر کیا ہے تعجب ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تشیع کا فکری تشخص اسلامی و عربی ہے، لیکن
......... ............ ................. ...........
(١) یہاں البانی کا کلام ختم ہوا .
ان کا نژادی تشخص پوری طرح سے فارسی ہے. اور ہم محکم دلائل کے ذریعہ آئندہ مباحث میں ثابت کریں گے، کہ صدر اسلام میں تمام شیعہ عرب اور اکثر ایرانی، اہلسنت تھے یہی وجہ ہے کہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں ان کی مدح سرائی کی کہ وہ اہل سنت کے پیرو ہیں. لیکن بعد میں ایرانیوں نے کچھ دلائل کی بنا پر تسنن کو ترک کر کے شیعیت اختیار کرلی۔
جب ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک الوہیت و نبوت کی حقیقت قرآن و سنت سے ماخوذ اور ان کے فقہی احکام سوفیصد قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہیں تو قرآن و مذہب امامیہ کے اہداف میں کوئی فرق نہیں، او ریہ بھی جان چکے کہ ان کے علمی منابع قرآن و سنت ہیں اور جس امامت کو قرآن نے مطرح کیا ہے وہ اہل تشیع کی پیش کردہ امامت ہے تو اب حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی فکر اور شیعی فکر میں جدائی ناممکن ہے۔
اگر ہم گذشتہ تمام مراحل کو ترتیب کے ساتھ طے کریں تو مذکورہ نتیجہ تک پہنچنا آسان ہوگا لیکن اگر ان مراحل کو طے کئے بغیر شیعیت سے آگاہ ہونا چاہیں تو ممکن ہے کہ تشیع اور غلو میں خلط کا شکار ہو جائیں۔
|