غلو اور غالیوں کے متعلق مذہب امامیہ کا نظریہ
دیگر مذاہب کی بہ نسبت غلو او رغالیوں کے مقابل امامیہ کا سخت موقف ان کا ایک خاص امتیاز ہے اس مسئلہ میں مذاہب اسلامی میں سے کسی مذہب نے بھی امامیہ کی طرح سختی سے مخالفت نہیں کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امامیہ فکر کی بنیادوں (کہ جو قرآن و سنت صحیحہ سے ماخوذ ہیں) اور غالی تصورات میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ غلو کی طرف کسی قسم کا رجحان نہیں رکھتے، بلکہ اس کوشش میںہیں کہ ان انحرافات کی اصلاح کی جائے اور جواس مشکل میں گرفتار ہیں انھیں نجات دی جائے۔
غالیوں کے لئے شیعہ موقف روز روشن کی طرح واضح ہے لہٰذا اس سے زیادہ توضیح دینا مناسب نہیں. میںنے کئی غالیوں سے گفتگو کی اور بحمد اللہ مذہب امامیہ کی برکت سے انھوں نے کفر آمیز عقائد کو چھوڑ کر حقیقی اسلام کو اپنا لیا. لیکن وہابی مذہب امامیہ کے نظریات اوراس کے بنیادی تفکرات سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے تشیع اور غلو کو ایک قرار دیتے ہیں . لہٰذا ان کی اصلاح کرنا اور ان کے لئے غلو کے مقابل شیعہ موقف کو (شیعہ منابع کے ذریعہ) واضح کرنا ضروری ہے۔
ان کا یہ جاننا ضروری ہے کہ امامیہ اور غالیوں میں فاصلہ ایک بدیہی اور واضح بات ہے البتہ اگر کوئی شبہ باقی رہ جائے تو اسے توضیح کے ذریعہ رفع کیاجاسکتا ہے، کیونکہ شیعہ ہر قدم قرآن اور سنت صحیحہ کے ساتھ ہیں. اب تک ہم نے اپنی مفصل بحث میں پانچ مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔
١۔ غالی تصورات کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات ۔
٢۔ غالی تشریعات کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات ۔
٣۔ غالی رؤساء کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات۔
٤۔ غالیوں کی روایات کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات ۔
٥۔ غالی کتب کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات۔
مسلمانوں کو غالیوں کے غلط افکار سے نجات دلانے میں مذہب تشیع نے کافی کوششیں کیں. غالیوں کے مقابل اس مذہب نے جس روش کو انتخاب کیا اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس روش نے سب سے پہلے اس کے انحرافی افکار کے دائرہ کو تنگ کرکے اس کا سد باب کردیا۔
الوہیت انسان، ایک ایسا اعتقادی مسئلہ تھا، کہ جس کا شیعوںنے ڈٹ کر مقابلہ کیا، یہ باطل خیال، الوہیت و عبودیت میں تفریق نہ کرنے سے وجود میں آیا. معصومین ٪ نے سینکڑوں روایتوں میں انسان کے مقام و منزلت کو بیان کیا ہے اور پوری طرح گوشزد فرمایا کہ انسان چاہے جتنا کمال کی بلندیوں تک پہونچ جائے، پھر بھی محال ہے کہ عبودیت سے نکل کر خدا بن جائے۔
أئمہ معصومین ٪ کے یہ اقوال قرآن و صحیح السند احادیث بنوی سے ماخوذ ہیں. گویا یہ اقوال قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان اقوال میں قرآنی رنگ پایا جاتا ہے۔
ان تمام اقوال میں ماسوی اللہ کو عبد و مخلوق قرار دیا گیا ہے اورالوہیت کوذات باری تعالیٰ میں منحصر، چونکہ غالیوں نے اپنی تبلیغات کوالوہیت انسان یا أئمہ میں متمرکز کیا ہے، لہذ ا أئمہ (ع) نے بھی اپنی تعلیمات کو خدا کی بندگی اور عبودیت میں متمرکز کیا او رغالیوں کی اس بنیاد (الوہیت انسان) کو نابود کرنے کے لئے خدا کے مقابل عبودیت و بندگی ،خضوع و خشوع پر بے حد تاکید کی، تاکہ یہ باطل خیال پوری طرح نیست و نابود ہو جائے۔
غالیوں کی گمراہ فکر کو قلع قمع کرنے میں یہ روایات کافی موثر ثابت ہوئیں اور اس میں کوئی شک نہیں، کہ ان روایات کو جمع، حفظ او رنشر کرنے میں شیعہ راویوں نے بے حد زحمتوں کا سامنا کیا اورانھیں روایتوں کی بنا پر شیعہ فقہاء نے غالی فرقوں کی تکفیر کی اوران کے مقابل سخت رد عمل اختیار کی، لیکن وہابی چونکہ شیعہ اور غالی کوایک ہی تصور کرتے ہیں، لہٰذا انھوں نے ان تمام روایات کو شیعیت کی مذمت پر حمل کیا اور جیسا کہ پہلے ہم عرض کرچکے ہیں، کہ یہ غلو کے مفہوم میں وسعت دیکر شیعہ اور عالی میں خلط کا نتیجہ ہے . اب ہم قارئین کے لئے چند روایات کو پیش کرتے ہیں۔
١۔ امام جعفر صادق ـ اپنے اجداد کے ذریعہ رسول اکرم ۖ سے نقل فرماتے ہیں کہ: '' رسول اکرمۖ نے فرمایا: مجھے میرے مقام سے اونچا نہ بناؤ، کیونکہ خدا نے مجھے پیغمبری سے پہلے اپنا بندہ قرار دیا ہے'' لہٰذا جب رسول خدا ۖ ،جو انسانیت کے بلند و بالا مقام پر فائز ہیں خود کو عبد خطاب کریں، تو پھرحتماً أئمہ (ع) بھی انھیں کی سیرت پر عمل کریں گے۔
٢۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں:
''ہمارے متعلق غلو سے پرہیز کرو اور ہمیں خدا کے تربیت یافتہ بندے جانو''. أئمہ (ع) کی عبودیت مکتب تشیع کا ایک اہم تعلیمی رکن ہے جب میں أئمہ (ع) کی روایات اور علمائے شیعہ کے اقوال میں مقایسہ کرتا ہوں تو ان میں پوری طرح مطابقت نظر آتی ہے۔
أئمہ (ع) کی عبودیت اس مذہب کی اصلی او ربنیادی حقیقت ہے کہ جواس مذہب او راس مذہب کی پیروی کرنے والوں سے جڑی ہوئی ہے. لہٰذا غلو کے لئے کوئی مجال نہیں کہ وہ اس مذہب میں خود نمائی کرے۔
تمام شیعہ امام رضا ـ کے اس قول پر کاملاً ایمان رکھتے ہیں:
جو بھی امیر المومنین کو عبودیت کی منزل سے اونچا کرتے ہوئے انھیں الہٰ قرار دے، تو اس کا شمار مغضوبین اور گمراہوں میں ہوگا ... آیا علی بن ابی طالب نے دوسروں کی طرح طعام اور پانی نوش نہیں فرمایا: آیا آپ نے شادی نہیں کی؟ آیا ان صفات کا حامل خدا ہوسکتا ہے؟ اگر ممکن ہو تو پھر ہم میں سے ہر ایک فرد خدا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شیعہ کتب میں اس طرح کی بے شمار روایات پائی جاتی ہیں اور شیعہ علماء نے بھی أئمہ کی روش کو اپنایا، جو بھی شیعہ معاشرہ میں رفت و آمد رکھتا ہواسے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے . یہ صرف نظریات نہیں، جو شیعہ کتب میں درج ہوں، بلکہ شیعی سماج اور ان کے گوشت پوست و خون میں یہ تعلیمات پائی جاتی ہیں او ریہ تعلیمات ان کی حیات سے جدا نہیں، بلکہ ان کے لئے مایۂ فخر و مباہات ہیں۔
یہاں تک ہم نے مذہب امامیہ او رغلو میںفرق کو بیان کرنے میں وہابیوں کے لئے شیعیت کی ایک مختصر سی تصویر پیش کی ہے اوراب ہم مذہب امامیہ کی تحلیلی شناخت کو پیش کرتے ہیں۔
|